رمضان المبارکقرآنیاتمقالات قرآنیمقالہ جات و اقتباسات

روزہ، انسانی تکامل اور تربیت کا بہترین وسیلہ

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ” (بقرہ”183)

"اے ایمان والو! تم پر روزے کا حکم لکھ دیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر لکھ دیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو”

تشریح کلمات

الصِّیَامُ:( ص و م ) صوم کی جمع ہے ۔ یعنی کسی چیز سے رک جانا اور اسے ترک کر دینا۔

تفسیر آیت:

روزے کا حکم بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس بات کو بھی ذکر فرمایا کہ یہ صرف تم پر نہیں بلکہ گزشتہ امتوں پر بھی واجب کیا گیا تھا۔ اس میں دو نکتے پوشیدہ ہیں۔

۱۔ روزے کا وجوب انسانی فطرت کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا ہے۔ اگرچہ مختلف ادیان میں تقاضوں کے بدلنے سے شریعتیں بدلتی رہی ہیں، لیکن جو بات انسانی فطرت کے تقاضوں سے مربوط ہو وہ نہیں بدلتی۔ اسی وجہ سے روزہ تمام شریعتوں میں نافذ رہا۔

۲۔ مسلمانوں کی دل جوئی کے لیے کہ روزہ ان پر بار گراں نہ گزرے، کہا گیا کہ یہ صرف تم پرہی نہیں، بلکہ سابقہ امتوں پر بھی فرض کیا گیا تھا۔

تقویٰ اور روزہ: اس آیۂ شریفہ کا آخری جملہ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ بتاتا ہے کہ روزے کا ایک طبعی اور لازمی نتیجہ تقویٰ ہے۔ تقویٰ کا مطلب پہلے بیان ہو چکا ہے کہ ہر قسم کے خطرات سے بچنا اور انسان کو سب سے زیادہ خطرات اپنی ذاتی خواہشات کی طرف سے لاحق ہوتے ہیں۔

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ ۔۔۔ {۳ آل عمران : ۱۴}

لوگوں کے لیے خواہشات نفس کی رغبت زیب و زینت بنا دی گئی ہے۔۔۔۔

حدیث نبوی (ص) میں آیا ہے:

اَعْدَی عَدُوِّکَ نَفْسَکَ الَّتِیْ بَیْنَ جَنْبَیْکَ ۔ {بحار الانوار ۶۷ : ۶۴}

تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا وہ نفس ہے جو تیرے دونوں پہلوؤں کے درمیان ہے ۔

روزہ ان داخلی خطرات سے بچنے کا اہم ترین وسیلہ ہے۔ کیونکہ روزہ حلال اور مباح چیزوں سے اجتناب کی اہم تربیت ہے۔ انسان جب حلال اور مباح چیزوں سے اجتناب کرنے کا عادی بن جائے تو حرام چیزوں سے اجتناب کرنا اس کے لیے مزید آسان ہوجاتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ روزہ انسانی تکامل اور تربیت کاایک اہم رکن ہے جوتمام شریعتوں میں نافذ رہا ہے۔

تحقیق مزید: الکافی ۴ : ۶۳، الفقیہ ۲ : ۷۵، الکافی ۴ : ۹۰۔(الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ 491)

احکام روزہ:

اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ ؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ ؕ وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ” (بقرہ:184)

( یہ روزے) گنتی کے چند دن ہیں، پھر اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں مقدار پوری کر لے اور جو لوگ روزہ رکھنے میں مشقت محسوس کرتے ہیں وہ فدیہ دیں جو ایک مسکین کا کھانا ہے، پس جو اپنی خوشی سے نیکی کرے تو اس کے لیے بہتر ہے اور اگر تم سمجھو تو روزہ رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے۔

تشریح کلمات

یطیقون:اَلْاِطَاقَۃ پوری طاقت صرف کرنا

فِدۡیَۃٌ:وہ مال جو کسی مشقت کے بدلے ادا کیا جاتا ہے۔ مثلاً اسیری اور روزے کا عوض۔

تفسیر آیات

اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ گنتی کے چند دن، یعنی ماہ رمضان۔ کیونکہ بارہ مہینوں میں سے ایک ماہ گنتی کے چند دن ہی ہوتے ہیں۔ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سال میں چند دن یعنی ایک ماہ کے روزے رکھنا کوئی پرمشقت کام نہیں ہے۔

نسخ کے شوقین بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ سے مراد ہر ماہ کے تین ایام اور روز عاشور کا روزہ ہے جو بعد میں منسوخ ہو گیا۔ یہ قول ان روایات پر مبنی ہے جو بنی امیہ کے دور میں فضائل عاشور کے بارے میں گھڑی گئیں اور جن میں روز عاشور کو عید المسلمین قرار دیا گیا ہے۔

مسافر اور مریض کا روزہ: روزے کا حکم بیان فرمانے کے بعد مسافر اور مریض کے لیے فرمایا کہ اگروہ ان معدود ایام میں روزہ نہ رکھ سکیں تو اس مقدار کو دوسرے دنوں میں پورا کرسکتے ہیں کیونکہ مقررہ دنوں میں نہ سہی لیکن اصل روزہ تو ہر حال میں بجا لانا ہوگا۔

رخصت یا عزیمت؟: اکثر اہل سنت فقہا کے نزدیک مسافر اور مریض کو صرف اجازت ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں اوربعد میں قضا بجا لائیں۔ فقہ اہل بیت علیہم السلام کے مطابق مسافر اور مریض کا روزہ باطل ہے۔ انہیں بعد میں اپنے روزوں کو بجا لانا ہو گا۔ چنانچہ ظاہر آیت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے: فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ کہ قضا ضروری ہے اور اگرقضا ضروری ہے تو افطار بھی ضروری ہے: وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ ۔ جو روزہ رکھنے میں مشقت محسوس کرتے ہیں وہ فدیہ دیں، جو ایک مسکین کا کھانا ہے۔ یہ حکم معمر لوگوں اور دائمی مریضوں، بوڑھے، مریض، زیادہ پیاس والے، وہ ماں جو اپنے بچے کے لیے خائف ہو، کے لیے ہے کہ انہیں روزہ رکھنے میں معمول سے زیادہ مشقت اٹھانا پڑتی ہے۔ عطاء نے ابن عباس سے روایت کی ہے: یُطِیۡقُوۡنَہٗ یعنی یکلفونہ ۔ اس کا معنی مشقت ہے۔ یہاں نسخ کے شائقین کی دو تفسیریں ہیں: ایک یہ کہ یُطِیۡقُوۡنَہٗ کا مطلب یہ ہے کہ جو طاقت رکھنے کے باوجود روزہ نہیں رکھتے وہ فدیہ دیں۔ یعنی شروع میں لوگوں کو یہ اختیار حاصل تھا کہ روزہ رکھیں یا فدیہ دیں۔ بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا اور روزہ رکھنا ضروری قرار پایا۔

دوسری تفسیراس سے بھی بعید از قیاس ہے اور وہ یہ ہے کہ یُطِیۡقُوۡنَہٗ کی ضمیر روزے کی طرف نہیں طعام کی طرف جاتی ہے اور مطلب یہ نکلتا ہے کہ مسافر اور مریض دوسرے دنوں میں روزہ رکھیں اور اگر وہ طعام دینے کی طاقت رکھتے ہیں تو قضا کی جگہ فدیہ دے سکتے ہیں۔ بعد کی آیت سے یہ حکم بھی منسوخ ہو گیا۔ {تدبر قرآن ۱: ۴۴۸}

تعجب کا مقام ہے کہ انہوں نے طاقت کو استطاعت کے معنوں میں لیا ہے جو سراسر خلاف ظاہر ہے اور استعمالات عرب کے بھی خلاف ہے چونکہ طاقت بدنی قوت کو کہتے ہیں جیسے: قَالُوۡا لَا طَاقَۃَ لَنَا الۡیَوۡمَ بِجَالُوۡتَ وَ جُنُوۡدِہٖ ۔ { ۲ بقرہ : ۲۴۹۔ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکر کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے}۔ اور فدیہ دینا مالی استطاعت پر موقوف ہے۔ اس کے لیے لفظ طاقت استعمال ہو ہی نہیں سکتا۔بدنی قوت سے مربوط ہونے کی وجہ سے روزے میں لفظ طاقت کا استعمال درست ہے جب کہ مالی استطاعت کے معنوں میں یہ استعمال کسی طور بھی مناسب نہیں ہے ۔ حضرت ابن عباس کی روایت ہے: یُطِیۡقُوۡنَہٗ سے مراد سن رسیدہ مرد اور عورت ہیں۔ (تفسیر طبری در ذیل آیت)۔

روزے کے فوائد: روزے کے احکام بیان فرمانے کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ روزہ رکھنے میں خود تمہاری بہتری ہے اور اس بہتری کو انسان کی معلومات کے ساتھ مربوط فرمایا اور ارشاد ہوا: وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۔ ’’اگر تم علم رکھتے تو روزہ رکھنے میں خود تمہاری بہتری ہے۔‘‘ جوں جوں انسان کا اپنے اور کائنات کے بارے میں معلومات کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا، روزے کے فوائد ان پر زیادہ سے زیادہ عیاں ہوتے جائیں گے۔ جیسا کہ پہلے کی نسبت آج کا انسان روزے کے طبی، نفسیاتی اور دیگر فوائد کو بہتر سمجھ سکتا ہے کہ روزے میں قوت ارادی کی تربیت، صبر و تحمل کی مشق، ایثار و قربانی کا درس ہے اور روزہ خلوص و محبت کا نمونہ ہے۔

اہم نکات

۱۔ اسلامی احکام انسان کی مختلف جسمانی و نفسیاتی مصلحتوں سے ہم آہنگ ہیں۔

۲۔ جوں جوں علمی ترقی ہوگی، اسلام کی حقانیت اسی قدر زیادہ واضح ہوگی۔

تحقیق مزید:

الکافی ۴: ۸۶۔ برائے تحقیق آیہ وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ ملاحظہ فرمائیں تفسیر عیاشی ۱: ۷۸۔ ۸۹

(الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ 492)

ماہ رمضان المبارک کی اہمیت و فضیلت اور سفر میں روزے کا حکم:

"شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ ۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ؕ وَ مَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ وَ لَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ۫ وَ لِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمۡ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ” (بقرہ؛185)

"رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور ایسے دلائل پر مشتمل ہے جو ہدایت اور(حق و باطل میں)امتیاز کرنے والے ہیں، لہٰذا تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے وہ روزہ رکھے اور جو بیمار اور مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں مقدار پوری کرے، اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا اور وہ چاہتا ہے کہ تم مقدار پوری کرو اور اللہ نے تمہیں جس ہدایت سے نوازا ہے اس پر اللہ کی عظمت و کبریائی کا اظہار کرو شاید تم شکر گزار بن جاؤ”

تشریح کلمات

شَہۡرُ:( ش ھ ر ) ظاہر اور آشکار ہونا۔ گردش آفتاب کے بارہ حصوں میں سے ایک حصے کو شَہْر (ماہ) کہتے ہیں۔ یہ شہرت و ظہور کے معنوں سے لیا گیا ہے۔

رَمَضَانَ:رَمضَ سے مشتق ہے، جو سورج کی سخت تپش کے معنوں میں ہے ۔ اس سے روزوں کا مہینہ مقصود ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ رمضان کو اس لیے یہ نام دیا گیا ہے کہ یہ گناہوں کو جلا دیتا ہے۔ یعنی یہ ماہ گناہوں کے خلاف اتنی سخت تپش ہے، جس میں تمام گناہ جل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔

تفسیر آیات

رمضان وہ واحد مہینہ ہے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے ،کیونکہ یہ وہ مبارک ماہ ہے جس میں قرآن کا نزول ہوا۔ دوسری آیت میں نزول کا وقت بھی بتا دیا:

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ ۔۔۔۔ {۴۴ دخان : ۳}

ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں نازل کیا ہے۔

تیسری آیت میں اس رات کو بھی متعین فرمایا:

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ ۔ {۹۷ القدر : ۱}

ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ۔

نزول کے متعدد معانی مراد لیے جا سکتے ہیں۔

۱۔ علم خدا کا مرحلہ نفاذ میں داخل ہونا۔

۲۔ قلب رسول (ص) پر حکم خدا کاظاہر ہونا۔

۳۔ تدریجی طور پر حکم خدا کا بیان وغیرہ۔

اِنْزَال اور تَنْزِیْل میں یہ فرق بیان کیا جاتا ہے کہ اِنْزَال دفعۃً نازل کرنے اور تَنْزِیْل تدریجاً نازل کرنے کو کہتے ہیں۔

یہ آیت درج ذیل نکات پر مشتمل ہے۔

۱۔ قرآن کا نزول: اس آیت میں ارشاد ہوا کہ قرآن ماہ رمضان المبارک میں نازل کیا گیا ہے اور اس کے لیے لفظ اَنْزَل استعمال فرمایا جو دفعۃً نازل کرنے کے لیے بولاجاتا ہے۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ قرآن دفعۃً رمضان میں نازل ہوا۔

دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

وَ قُرۡاٰنًا فَرَقۡنٰہُ لِتَقۡرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکۡثٍ وَّ نَزَّلۡنٰہُ تَنۡزِیۡلًا ۔ {۱۷ اسراء : ۱۰۶}

اور قرآن کو ہم نے جدا جدا رکھا ہے تاکہ آپ اسے ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کو پڑھ کر سنائیں اور ہم نے اسے بتدریج نازل کیا ہے ۔

واقعاتی اور عملی طور پر یہ بات ثابت اور واضح ہے کہ قرآن ۲۳ سالوں میں تدریجاً نازل ہوا ہے۔ بنابریں ان دو باتوں ( اِنْزَال اور تَنْزِیْل ) میں بظاہر تضاد پایا جاتا ہے۔ علماء نے اس کے متعدد جواب دیے ہیں:

۱۔ ماہ رمضان المبارک میں قرآن کے نزول سے مراد یہ ہے کہ اس مہینے میں قرآن کا نزول شروع ہوا۔

۲۔ قرآن کا نزول آسمانی دنیا میں اسی ماہ میں ہوا۔ وہاں سے بتدریج قلب رسول(ص) پر نازل ہوتا رہا۔

۳۔ رمضان میں قرآن کے نزول سے مراد ایک ایسے سورے کا نزول ہے جو خلاصۂ قرآن ہے۔ مثلاً سورۂ حمد۔

۴۔ قرآن کی حقیقت قلب رسول (ص) پر شب قدر کو ایک ساتھ نازل ہوگئی تھی۔ بعد میں حالات اور واقعات کے مطابق دوبارہ رسول خدا (ص) پر نازل ہوتا رہا ۔علماء اس کی یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ رسول خدا (ص) کو یہ حکم ہوا کہ وحی مکمل ہونے سے قبل قرآن کی تلاوت نہ کریں۔ ارشاد ہوتا ہے:

وَ لَا تَعۡجَلۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یُّقۡضٰۤی اِلَیۡکَ وَحۡیُہٗ ۔۔۔ {۲۰ طہ : ۴ ۱۱}

اور آپ پر ہونے والی اس کی وحی کی تکمیل سے پہلے قرآن پڑھنے میں عجلت نہ کریں ۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور (ص) کو بیان احکا م کے لیے وحی کا انتظار فرمانے کا حکم دیا جا رہا ہے، ورنہ قرآن کا علم آپ (ص) کو پہلے سے حاصل تھا۔

یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ ’’اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا‘‘ سے معلوم ہوا کہ سفر اور مرض کی حالت میں مشقت اٹھا کر روزہ رکھنا ارادۂ الہی کے خلاف ہے، جیساکہ دوسری جگہ فرمایا: مَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیَجۡعَلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ حَرَجٍ ۔۔۔ {۵ مائدہ : ۶} یعنی اللہ تمہیں مشقت میں ڈالنے کا کا ارادہ نہیں رکھتا۔

اس ارادہ نہ رکھنے کا واضح فیصلہ اس آیت میں بیان فرمایا:

وَ مَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ {۲۲ حج : ۷۸}

اور دین کے معاملے میں تمہیں کسی مشکل سے دوچار نہیں کیا۔

اگر کوئی اللہ تعالیٰ کے ارادے کے خلاف ارتکاب کرتا ہے تو اس کا عمل باطل ہو گا۔ فقہ جعفری میں سفر اور مرض کی حالت میں روزہ صحیح نہیں ہے۔ اگر روزہ صحیح ہو جائے تو نفی حَرَج کی نفی ہو جاتی ہے۔ یعنی دین میں حَرَج کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے، جو صریح قرآن کے خلاف ہے۔

احادیث

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہے:اَلصَّوْمُ جُنَّۃٌ مِنْ النَّارِ ۔ {اصول الکافی ۲ : ۱۸}

روزہ آتش جہنم سے بچنے کی ڈھال ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

اِنَّ اللّٰہ تبارک و تعالی یَقُوْلُ اَلصَّوْمُ لِیْ وَ اَنَا اَجْزِیْ بِہٖ ۔ {اصول الکافی ۴ : ۶۳}

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزا دوں گا ۔

اس میں اس بات کا اظہار ہے کہ روزے کے ثواب کو کسی شمار میں نہیں لایا جا سکتا اور نہ کوئی اس کے ثواب کی عظمت سے آگاہ ہو سکتا ہے۔ صرف یہ فرما کر روزے کے اجر و ثواب کی عظمت کی طرف اشارہ فرمایا کہ میں بذات خود اس کا ثواب دوں گا۔ ثواب دینے والے کی عظمت سے ثواب کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے ۔

اہم نکات

۱۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور (ص) کو بیان احکام کے لیے وحی کا انتظار فرمانے کا حکم دیا جارہا ہے ورنہ قرآن کا علم آپ (ص) کو پہلے سے حاصل تھا۔

۲۔ قرآن پوری انسانیت کے لیے ایک ہدایت اور دستور حیات ہے: ہُدًی لِّلنَّاسِ ۔۔۔۔

۳۔ یہ قرآن رہنمائی کے ساتھ حق و باطل کی کسوٹی بھی پیش کرتا ہے تاکہ ان دونوں میں اشتباہ کی کوئی گنجائش نہ رہے اور حجت خدا پوری ہو جائے۔

۴۔ جو اس مہینے میں مریض یا مسافرنہ ہو اور روزہ رکھ سکتا ہو، وہ روزہ رکھے اور جو مریض اور مسافر ہے، وہ ان روزوں کو دوسرے دنوں میں پورا کرے۔

۵۔ اللہ بندوں کے لیے آسانی چاہتا ہے اور اسے یہ بات ہرگز پسند نہیں ہے کہ بندہ اپنے آپ کو ناقابل تحمل مشقت میں ڈالے۔ اسی کلی حکم کے تحت مرض اور سفر کی حالت میں روزہ رکھنا امامیہ فقہ کے مطابق درست نہیں ہے۔ اگر بیماری اور سفر میں روزے کو درست قرار دیا جائے تو عسر و حرج لازم آتا ہے، جس کی اللہ نے نفی فرمائی ہے: یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ ۔۔۔۔

۶۔ اللہ تعالی نے رمضان کے مبارک مہینے میں ہدایت کا سامان فراہم کرنے کے بعد روزے کا حکم دیا، کیونکہ تزکیے کے بغیر قرآنی معارف اور مقصد کا حصول ممکن نہیں ہے ۔

تحقیق مزید: الکافی ۲ : ۶۲۸، معنی الفرقان ، الکافی ۲ : ۶۳۰، تفسیر العیاشی ۱ : ۱۶۲۔

(الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ 494)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button