مقالات قرآنی

معاشرتی آداب قرآن کی نگاہ میں

الکوثر فی تفسیر القران سے اقتباس
بے بنیاد خبروں کی تحقیق کا حکم۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِیۡبُوۡا قَوۡمًۢا بِجَہَالَۃٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِیۡنَ﴿الحجرات:۶﴾
اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تم تحقیق کر لیا کرو، کہیں نادانی میں تم کسی قوم کو نقصان پہنچا دو پھر تمہیں اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔
تفسیر آیات
۱۔ اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ: فاسق، فسق سے ہے جو چوہے کے اپنے بل سے نکلنے اور پھل کے اپنے چھلکے سے نکلنے کو کہتے ہیں اور مسلمان جو شرعی حدود سے نکلتا ہے اسے فاسق کہتے ہیں۔
شان نزول کے بارے میں اکثر مفسرین مورخین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ واقعہ یہ ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ولید بن عقبہ کو قبیلہ بنی مصطلق سے زکوۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ یہ ان کے نزدیک پہنچ کر خوف کے مارے واپس آ گیا (کیونکہ زمان جاہلیت میں ولید اور بنی مصطلق کے درمیان دشمنی تھی۔) ولید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا: وہ زکوٰۃ دینے سے انکار کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رنجیدہ ہوئے اور ان کے ساتھ جنگ کرنے کا ارادہ کر لیا اور بنی مصطلق سے فرمایا:
لتنتھن او لا بعثن الیکم رجلا کنفسی یقاتل مقاتلتکم و یسبی ذراریکم۔ ثم ضرب یدہ علی کتف علی رضی اللہ عنہ۔ (الکشاف ذیل آیہ)
تم باز آجاؤ ورنہ میں ایسے فرد کو تمہاری طرف روانہ کروں گا جو میرے نفس کی طرح ہے جو تمہارے لڑنے والوں سے لڑے گا اور تمہارے بچوں کو قیدی بنائے گا۔ یہ کہہ کر حضرت علی علیہ السلام کے کاندھوں پر ہاتھ رکھا۔
اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی اور حکم دیا کہ فاسق کی خبر کا اعتبار نہ کرو۔ حقیقت حال کی چھان بین کرو۔
ولید بن عقبہ حضرت عثمان کا مادری بھائی ہے۔ اس نے فتح مکہ کے بعد ایمان کا اظہار کیا۔ سعد بن ابی وقاص کے بعداسے عثمان نے کوفے کا گورنر بنایا۔ اس دوران اس نے ایک دفعہ صبح کی نماز نشے کی حالت میں چار رکعت پڑھا دی اور لوگوں سے کہا: مزید اضافہ کروں؟ اور محراب میں شراب کی قے کی۔ لوگوں نے اسے کنکریاں مار کرمسجدسے بھگا دیا۔ شراب نوشی ثابت ہونے پر اس پر حد جاری کر دی گئی۔ ( الکامل سن ۳۰ ہجری کے حالات و دیگر کتب تاریخ و سیرت)
ولید کو قرآن مجید میں دو جگہ فاسق کہا گیا ہے: ایک اس آیت میں اور دوسری جگہ سورہ سجدہ آیت ۱۸ میں:
اَفَمَنۡ کَانَ مُؤۡمِنًا کَمَنۡ کَانَ فَاسِقًا ؕؔ لَا یَسۡتَوٗنَ
بھلا جو مومن ہو وہ فاسق کی طرح ہو سکتا ہے؟ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔
واحدی، ابن اسحاق، ابن جریر، ابن عدی، ابن مردویہ، خطیب، ابن عساکر، عطاء بن یسار، ابن ابی حاتم، سدی اور عبد بن ابی لیلی وغیرہ نے متعدد طرق سے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ولید نے علی بن ابی طالب (علیہ السلام) سے کہا:
میں آپ سے بہتر نیزہ زن، بولنے میں زباں دراز اور لشکر میں زیادہ نمایاں ہوں۔
علی علیہ السلام نے فرمایا:
اسکت فانما انت فاسق۔
خاموش ہوجا، تو تو بس فاسق ہے۔
اس پر یہ آیت نازل ہوئی: اَفَمَنۡ کَانَ مُؤۡمِنًا کَمَنۡ کَانَ فَاسِقًا ؕؔ لَا یَسۡتَوٗنَ۔ ( الدر المنثور ۵: ۱۷۷)
اس واقعہ نے عصر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شہرت حاصل کی۔ چنانچہ حسان بن ثابت نے اس موقع پر شعر بھی کہا ہے:
انزل اللہ والکتاب عزیز
فی علی و فی الولید قرآنا
فتبوأ الولید من ذاک فسقاً
وعلی مبوأ ایمانا
لیس من کان مؤمنا عرف اللہ
کمن کان فاسقا خواناً
سوف یجزی الولید خزیا و ناراً
و علی لا شک یجزی جنانا (بحار ۳۸: ۲۳۵)
ابن عبد البر نے الاستیعاب میں کہا ہے:
میرے علم کے مطابق اہل علم میں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ آیہ اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ۔۔۔۔ ولید بن عقبۃ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
اگرچہ صاحب التحریر و التنویر کو اس حقیقت پر روشنی کی کمی لاحق ہوئی اور ولید کی صف میں بیٹھ گئے۔ اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا: وکان ذا خلق و مروء ۃ۔ ( التحریر و التنویر ۲۶: ۱۹۲) اور وہ اخلاق اور مروت کا حامل تھا۔
روح المعانی میں اس آیت کے ذیل لکھا ہے:
اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے بعض غیر عادل بھی ہیں چونکہ سبب نزول میں ولید بن عقبہ یقینا داخل ہے اور بالاتفاق صحابی بھی ہے۔ لہٰذا اس آیت سے وہ قول رد ہو جاتا ہے جو کہتے ہیں: تمام اصحاب عادل ہیں۔ کسی روایت اور شہادت میں ان کی عدالت ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس مسئلے میں یہ ایک قول ہے۔ علمائے سلف و خلف میں سے اکثر نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔
دوسرا قول یہ ہے: اصحاب، غیر اصحاب کی طرح ہیں۔ لہٰذا روایت اور شہادت میں اصحاب کی عدالت ثابت کرنا ضروری ہے مگر وہ حضرات جن کی عدالت یقینی ہے۔ جیسے شیخین۔
تیسرا قول یہ ہے: قتل عثمان رضی اللہ عنہ تک سب عادل ہیں۔ قتل عثمان کے بارے میں اصحاب کی عدالت کے بارے میں تحقیق ہونی چاہیے چونکہ قتل عثمان کے بعد فتنہ واقع ہو گیا اور کچھ اصحاب نے اس فتنے سے پرہیز کیا ہے۔
چوتھا قول یہ ہے: تمام اصحاب عادل ہیں سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے علی کرم اللّٰہ وجہ سے جنگ کی ہے۔ چونکہ امام حق سے خروج اختیار کرنے والے فاسق ہو جاتے ہیں۔ معتزلہ نے یہ قول اختیار کیا ہے۔۔۔۔ ا نتہی
ہم نے اس سورہ مبارکہ کی آیت ایک کے ذیل میں لکھا ہے کہ حکم شرعی کو ثابت کرنے کے لیے یقینی دلیل ہونی چاہیے یا ایسی دلیل ہونی چاہیے جس کے دلیل ہونے کا یقین ہو۔ خبر فاسق، کسی خبر کی دلیل نہیں بن سکتی۔
اصول فقہ میں ایک بحث ہے کہ صفت کا مفہوم نہیں ہوتا۔ یعنی اگر کسی حکم کو صفت کے ساتھ بیان کیا جائے تو اس صفت کے نہ ہونے سے حکم کے نہ ہونے کا انکشاف نہیں ہوتا۔ مثلاً کہا جائے: عالم گھر میں آ جائے تو کھانا کھلاؤ، اس کا مفہوم نہیں بنتا۔ کیا غیر عالم گھر میں آ جائے تو کھانا کھلانا لازم نہیں ہے؟ بلکہ اس جملے سے عالم کو کھانا کھلانے کا حکم ثابت ہوتا ہے۔ غیر عالم کا حکم اس جملے میں نہیں ہے۔ نہ کھلانے کا حکم ہے، نہ ہی نہ کھلانے کا حکم ہے۔ دوسری دلیل سے اس کا حکم تلاش کرنا ہو گا۔
اہم نکات
۱۔ فاسق، خواہ صحابی کیوں نہ ہو، معاشرے میں کسی امر کی ذمہ داری کا اہل نہیں ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ 324)
صلح کا حکم
وَ اِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا ۚ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰىہُمَا عَلَی الۡاُخۡرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیۡ تَبۡغِیۡ حَتّٰی تَفِیۡٓءَ اِلٰۤی اَمۡرِ اللّٰہِ ۚ فَاِنۡ فَآءَتۡ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا بِالۡعَدۡلِ وَ اَقۡسِطُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ﴿الحجرات:۹﴾
اور اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو، پھر اگر ان دونوں میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے، پھر اگر وہ لوٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو، یقینا اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
تفسیر آیات
۱۔ وَ اِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ: اگر دو گروہوں میں تصادم ہوجائے اور تصادم کے وقت دونوں گروہ مومن ہوں۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا لڑائی شروع ہونے کے بعد دونوں مومن رہ گئے ہوں۔ ہو سکتا ہے دونوں مومن نہ رہیں یا ایک مومن نہ رہے۔
۲۔ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا: خطاب ان لوگوں سے ہے جو اس لڑائی میں فریق نہیں ہیں۔ ان پر فرض ہے وہ اس لڑائی میں تماشا بین نہ بنیں بلکہ لڑائی بن بند کرا کر آپس میں مصالحت کی کوشش کریں اور وجہ نزاع معلوم کر کے، فریقین کا موقف سمجھ کر مصالحت کی کوشش کریں۔ اس صورت میں ان کی ذمہ داری مصالحت ہے۔ ان دونوں متصادم فریقوں کی کمک کرنا یا ایک کا ساتھ دینا نہیں ہے۔
۳۔ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰىہُمَا عَلَی الۡاُخۡرٰی: اگر ان دونوں میں سے ایک گروہ مصالحت کے لیے آمادہ نہ ہو اور مصالحت کی کوششیں ناکام ہو جائیں تو ان دونوں میں باغی گروہ کی تشخیص دینا بھی ایک فریضہ ہے۔ باغی کی تشخیص کے بعد اس کے خلاف لڑنا بھی فرض ہے چونکہ یہ باغی مفسد ہے اور جو فریق حق پر ہے اس کا ساتھ دیں۔
باغی کے خلاف لڑنے کا چونکہ اللہ نے حکم دیا ہے لہٰذا اس کے خلاف لڑنا جہاد فی سبیل اللہ ہے بلکہ اس جہاد کو بعض فقہاء نے جہاد سے بھی افضل قرار دیا ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
۔۔۔ وَ الْقِتَالُ قِتَالَانِ قِتَالُ الفِئَۃِ الْکَافِرَۃِ حَتَّی یُسْلِمُوا وَ قِتَالُ الْفِئَۃِ الْبَاغِیَۃِ حَتَّی یَفِیؤا۔ (الوسائل۱۵: ۲۸)
قتال کی دو قسمیں ہیں: کافر گروہ کے خلاف قتال اسلام قبول کرنے تک۔ باغی گروہ کے خلاف قتال بغاوت چھوڑنے تک۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے جب آپ کے پاس علی علیہ السلام سے لڑنے والوں کا ذکر ہوا:
اِنَّہُمْ اَعْظَمُ جُرْماً مِمَّنْ حَارَبَ رَسُولَ اللہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قِیلَ لَہُ وَ کَیْفَ ذَلِکَ یَا ابْنَ رَسُولِ اللّٰہِ قَالَ: لِاَنَّ اُولَئِکَ کَانُوا جَاھِلِیَّۃً وَ ھَوُلاَئِ قَرَئُ وا الْقُرْآنَ وَ عَرَفُوا فَضْلَ اَھْلِ الْفَضْلِ فَاَتَوْا مَا اَتَوْا بَعْدَ الْبَصِیرَۃَ۔ (مستدرک الوسائل ۱۱: ۶۶)
یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لڑنے والوں سے زیادہ مجرم ہیں عرض ہوا فرزند رسولؐ یہ کیسے؟ فرمایا: کیونکہ وہ لوگ جاہلیت میں تھے مگر ان لوگوں نے قرآن پڑھا ہے۔ اہل فضل کے فضل کو پہچانا اس کے بعد جو کچھ کیا وہ بصیرت کے باوجود کیا۔
جنگ صفین میں باغیوں کے خلاف جنگ میں حضرت عمار یاسر بھی شریک تھے جن کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی:
ویح عمار تقتلہ الفئۃ الباغیۃ۔ ( صحیح مسلم ج ۴ ص ۲۳۶ باب ۱۸ باب لا تقوم الساعۃ حتی یمر الرجل۔ صحیح بخاری باب ۶۳ باب التعاون فی بناء المسجد )
ہائے عمار! جسے باغی گروہ قتل کرے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث بھی مشہور ہے فرمایا:
قاتل عمار و سالبہ فی النار۔ ( المستدرک علی الصحیحین ۳: ۴۳۷ ذکر مناقب عمار بن یاسر ح ۵۶۶۱۔)
عمار کا قاتل اور اسے لوٹنے والا آتش میں ہیں۔
لیکن نص صریح رسولؐ کے مقابلے میں یہ رائے قائم کرنا سنت رسولؐ کے خلاف کس قدر جسارت ہے جو کہتے ہیں: عمار کے قاتل ابوالعادیۃ سے اجتہادی غلطی ہو گئی جس کا اسے ایک ثواب ملے گا۔ گویا ان کے ہاں ثواب سے مراد آتش ہے یا آتش سے مراد ثواب ہے۔ کَبُرَتۡ کَلِمَۃً تَخۡرُجُ مِنۡ اَفۡوَاہِہِمۡ۔
واضح رہے قاتل عمار، ابو العادیۃ بدری ہے، بیعت رضوان میں شامل تھا اور حدیث قاتل عمار و سالبہ فی النار کے صحیح السند ہونے کے بارے میں ملاحظہ ہو البانی کی کتاب سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ۵: ۱۸، طبع ریاض۔
۴۔ فَآءَتۡ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا: اگر یہ دونوں گروہ قتال اور بغاوت سے باز آجائیں تو ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ صلح کرا دو۔ جس نے زیادتی کی ہے اسے سزا دو، تاوان، دیت وغیر کی شکل میں۔
۵۔ وَ اَقۡسِطُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ: قسط و عدل ایسی چیز ہے جس پر تمام احکام شریعت قائم و استوار ہیں۔ جہاں جس حکم سے عدل و انصاف نہیں ملتا وہ حکم سرے سے اٹھ جاتا ہے اور عدل کو مقدم کیا جاتا ہے۔ ملکیت کا حق اسلام نے دیا ہے اگر اس ملکیت سے کسی اور کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوتی ہے۔ آپ اپنی زمین پر درخت لگا سکتے ہیں۔ اگر یہ درخت کسی کے لیے باعث ضرر ہے تو آپ اس درخت کے مالک نہیں رہ سکتے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ 328)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنۡہُنَّ ۚ وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ ۚ وَ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ﴿ الحجرات :۱۱﴾
اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے، ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ ہی عورتیں عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے پر عیب نہ لگایا کرو اور ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد نہ کیا کرو، ایمان لانے کے بعد برا نام لینا نامناسب ہے اور جو لوگ باز نہیں آتے پس وہی لوگ ظالم ہیں۔
تشریح کلمات
تَلۡمِزُوۡۤا:( ل م ز ) لمز کے معنی کسی کی غیبت اور عیب چینی کرنے کے ہیں۔
تَنَابَزُوۡا:( ن ب ز ) نبز کے معنی کسی کو برے نام سے پکارنے کے ہیں۔
تفسیر آیات
۱۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ: مومنین کے درمیان ایمان کا ایک مضبوط رشتہ قائم ہونے کے بیان کے بعد ایک دوسرے کے حقوق و آداب کا بیان ہے۔ قرآن ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی بات کر رہا ہے جس میں ہر قوم، نسل اور فرد کو احترام حاصل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو تخلیق اور تقنین دونوں میں عزت و تکریم سے نوازا ہے۔ تخلیق میں اسے اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ (۹۵ تین: ۴) اور وَّ صَوَّرَکُمۡ فَاَحۡسَنَ صُوَرَکُمۡ (۴۰ غافر: ۶۴) کی بہترین شکل و صورت میں بنایا۔ تقنین میں احترام آدمیت اور ہتک عزت کے بارے میں اسلامی تعلیمات میں ایک مفصل اور جامع قانون بنایا، جس کے تحت ہر وہ عمل اور بات جس سے کسی مسلمان کا وقار مجروح ہوتا ہو حرام اور جرم قرار پایا۔
اس سلسلے میں کتاب و سنت میں مذکور قوانین سے ایک جامع ’’قانون ہتک عزت‘‘ مرتب ہوتا ہے جو مغربی ’’قانون ہتک عزت‘‘ سے بہت مختلف ہے۔ اسلامی ’’قانون ہتک عزت‘‘ میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ جس بات سے مومن کا وقار مجروح کیا وہ بات واقعیت پر مبنی تھی یا نہیں۔ اگر واقعیت پر مبنی ہے پھر بھی ہتک عزت ہے جسے غیبت کہتے ہیں۔ اگر واقعیت پر مبنی نہیں ہے یہ بھی ہتک عزت ہے جسے بہتان کہتے ہیں۔
لہٰذا ایک دوسرے کی عیب جوئی، دل آزاری، بدگمانی اور الزام تراشی سے ایک تو انسان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے جو عند اللہ جرم ہے۔ ثانیاً اس سے دلوں میں کدورتیں اور کینے وجود میں آتے ہیں جن سے فتنے رونما ہوتے ہیں اور جرم سے کئی اور جرائم جنم لیتے ہیں اور معاشرہ آلودہ ہو جاتا ہے۔
کسی کا مذاق اڑانا نہایت غیر مہذب، غیر اخلاقی کام ہے۔ مذاق اڑانے والا انسانی قدروں کا مالک نہیں ہے۔ وہ تکبر اور خود بینی کا شکار ہے۔ اسی بنا پر وہ دوسرے کی تحقیر و تذلیل کرتا ہے۔ اس میں وہ لذت محسوس کرتا ہے۔
۲۔ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ: ممکن ہے کہ اس مذاق اڑانے والے سے وہ لوگ بہتر ہوں جن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ یعنی الٰہی قدریں اس مذاق اڑانے والے کی قدروں سے مختلف ہو سکتی ہے۔ مذاق اڑانے والے اپنے آپ کو بہتر سمجھتے ہوں اور اللہ کے نزدیک وہ بہتر ہوں جن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔
۳۔ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ: نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں۔ ہو سکتا ہے واقع میں کمتر انسان بہتر انسان کا مذاق اڑا رہاہو جو خود مذاق اڑانے والے کی اپنی توہین ہے۔
۴۔ وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ: عیب گوئی اور عیب جوئی ایک ایسی بد خو صفت ہے جو اعلیٰ نفسیات کے مالک انسان سے صادر نہیں ہوتی۔ اعلیٰ قدروں کا مالک انسان اپنے میں موجود خامیوں کو دور کرنے کے درپے ہوتا ہے۔ پست صفت انسان دوسروں میں موجود خامیوں کا کھوج لگانے میں مصروف ہوتا ہے۔
اَنۡفُسَکُمۡ: اول تو یہ خود اپنا عیب فاش کر رہا ہے لہٰذا فی الواقع یہ خود اپنی عیب گوئی کر رہا ہے۔ ثانیاً کہ جس انسان کا عیب یہ شخص فاش کر رہا ہے وہ انسان خود اس کے اپنے نفس کے برابر ہے۔ اس پر اپنے نفس کے برابر حقوق ہیں۔ جیسے وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ (۴ نساء: ۲۹) فرمایا اپنے آپ کو قتل نہ کریں کہ دوسروں کا قتل کرنا اپنا قتل قرار دیا ہے۔
۵۔ وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ: برے القاب کے ساتھ لوگوں کو یاد نہ کیا کرو۔ بُرا لقب یہ ہے کہ وہ نام جو اس کا نہیں ہے اور ناپسند بھی ہے جیسے اے فاسق، اے اندھے لنگڑا وغیرہ جو کسی ایسے عیب کو ظاہرکرتا ہو جو خود اس میں ہے یا اس کے خاندان میں ہے یا اس کے علاقے میں ہے یا کسی ایسے لقب سے یاد کیا جائے جس میں اس کی تذلیل ہو۔ جیسے: اے بے وقوف۔
یہ سب احترام آدمیت اور انسانی وقار کے منافی ہے جو عند اللہ بڑا جرم ہے۔
۶۔ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ: ایمان لانے کے بعد برے نام سے یاد کرنا بہت برا قدم ہے۔ یعنی ایمان کے دائرے میں آنے کے بعد ایک تو مومن کا خود اپنا مقام بلند ہو جاتا ہے۔ ثانیا برادر مومن کی عزت وقار سے مربوط حقوق دیگر مومنین کے ذمے عائد ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایمان کے بعد سابقہ مذہب کے نام سے پکارنا بھی مومن کی تذلیل ہے۔ جیسے اے یہودی کی اولاد کہنا وغیرہ۔
روایت ہے کہ حضرت عائشہ نے حضرت صفیہ بنت حی بن اخطب سے کہا تھا: اے دو یہودیوں کی یہودی بیٹی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ( مجمع البیان ذیل آیت)
۸۔ وَ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ: اگر اس صفت بد کو ترک نہ کریں اور اسے جاری رکھیں تو ان لوگوں نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا اور ظلم بہ نفس کے مرتکب ہو گئے۔
اہم نکات
۱۔ محترم انسان احترام آدمیت کا خیال رکھتا ہے۔
۲۔ دوسروں کی عیب جوئی کرنے والا خود اپنا عیب ظاہر کرتا ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ 332)
بدگمانی، تجسس اور غیبت سے بچنے کا حکم
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ﴿ الحجرات :۱۲﴾
اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بعض گمان یقینا گناہ ہیں اور تجسس بھی نہ کیا کرو اور تم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم نفرت کرتے ہو اور اللہ سے ڈرو، اللہ یقینا بڑا توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔
تفسیر آیات
۱۔ اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ: سند اور دلیل کے بغیر کسی قسم کا موقف اختیار کرنا درست نہیں ہے۔ ظن و گمان کسی بھی موقف کی سند اور دلیل نہیں ہیں البتہ کسی ظن کو شریعت نے بطور دلیل تسلیم کیا ہے اس پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ جیسے دو عادل گواہ کی گواہی، ایک عادل کی روایت، فقیہ جامع الشرائط کا فتویٰ وغیرہ۔
رہے وہ ظن و گمان جو لوگوں کے کردار اور ان کے نجی معاملات سے مربوط ہیں تو ایسے ظن و گمان بعض اوقات حقیقت تک رسائی کا ذریعہ نہیں بنتے۔ لہٰذا ظن و گمان پر عمل کرنے سے اجتناب کرنے کا حکم ہے۔ کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ اس لیے فرمایا ہو گا کہ لوگوں کے درمیان بدگمانیاں زیادہ ہوا کرتی ہیں۔
مومن کے دوسرے کے بارے میں ظن و گمان کے دو اہم مواقع ہیں:
i۔ سوء ظن اور ii۔ حسن ظن ۔ ان دونوں میں سوء ظن یعنی بدگمانی سے اجتناب کرنے کا حکم ہے جب کہ حسن ظن کو اپنانے کا حکم ہے۔
سوء ظن: اپنے برادر مومن کے بارے میں بدگمانی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اسلام کی انسان ساز تعلیمات نے سختی سے بدگمانی سے منع فرمایا ہے۔ حدیث نبوی ہے:
اِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فِاِنَّہُ اَکْذَبُ الْحَدِیث۔ ( مستدرک الوسائل ۹: ۱۴۷)
تم ظن سے بچا کرو کیونکہ یہ سب سے زیادہ جھوٹی بات کرنے والا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
مُجَالَسَۃُ الْاَشْرَارِ تُورِثُ سُوئَ الظَّنِّ بِالْاَخْیَارِ۔۔۔۔ ( مستدرک الوسائل ۔ ۸:۳۲۸)
برے لوگوں کی ہمنشینی اچھے لوگوں سے بدگمانی کا سبب بنتی ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
اِذَا اتَّہَمَ الْمُؤْمِنُ اَخَاہُ انْمَاثَ الْاِیمَانُ مِنْ قَلْبِہِ کَمَا یَنْمَاثُ الْمِلْحُ فِی الْمَائِ۔ (الکافی۔ ۲: ۳۶۲)
جب مومن اپنے برادر مومن پر بدگمانی کر کے تہمت لگاتا ہے تو ایمان اس کے دل میں اس طرح پگھل جاتا ہے جس طرح نمک پانی میں پگلھلتا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
ضَعْ اَمْرَ اَخِیکَ عَلَی اَحْسَنَۃِ حَتَّی یَاتِیَکَ مَا یَغْلِبُکَ مَنْہُ وَ لَا تُظُنَّنَّ بِکَلِمَۃٍ خَرَجَتْ مِنْ اَخِیکَ سُوء اً وَ اَنْتَ تَجِدُ لَھَا فِی الْخَیْرِ مَحْمِلًا۔ (الکافی۔ ۲؍۳۱۲)
اپنے بھائی کے معاملے کو بہتر صورت پر حمل کرو اس بہتری کے خلاف دلیل آنے تک۔ اپنے بھائی کے منہ سے نکلے ہوئے جملے کے بارے میں اس وقت تک بدگمانی نہ کرو جب تک اس کے لیے بہتر صورت پر محمول کرنا ممکن ہو۔
اپنے برادر مومن کے بارے میں ہمیشہ حسن ظن رکھنا اسلامی تعلیمات میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ دوسروں کے بارے میں حسن ظن رکھنا اپنے باطن کی پاکیزگی کی علامت ہے۔ حسن ظن، اچھی سوچ اور اچھی خصلت کا مالک ہونے کی علامت ہے۔ حدیث نبوی ہے:
اَحْسِنُوا ظُنُونَکُمْ بِاِخْوَانِکُمْ تَغْتَنِمُوا بِھَا صَفَائَ الْقَلْبِ وَ نَمَائَ الطَّبْعِ۔۔۔۔ ( مستدرک الوسائل ۹: ۱۴۵)
اپنے بھائیوں کے بارے میں حسن ظن رکھو تو دلوں کی صفائی اور طبیعت میں نمو آ جاتی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
حُسْنُ الظَّنِّ مِنْ اَفْضَلِ السَّجَایَا وَ اَجْزَلِ العَطَایَا۔۔۔۔ ( مستدرک الوسائل ۱۱: ۲۵۲)
حسن ظن افضل ترین خصلت ہے اور وافر ترین عنایت ہے۔
۲۔ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ: بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ یعنی بدگمانی پر اثرات مترتب کرنا اور اس بدگمانی کی بنیاد پر کسی مومن پر الزام عائد کرنا گناہ ہے۔ مثلاً ایک شخص آپ کے جانی دشمن کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کر رہا ہے۔ اس پر یہ گمان کرنا گناہ ہے کہ وہ آپ کے خلاف باتیں سن رہا ہے۔
۳۔ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا: اور دوسروں کے راز جاننے کی کوشش نہ کرو۔ دوسروں کے عیوب جاننے اور ان کے نجی معاملات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی شرعاً ممانعت ہے۔ انسان کے نجی معاملات پر جب پردہ پڑا ہوا ہے، اس پردے کو چاک کرنے کی کوشش جرم ہے کیونکہ اس تجسس سے لوگوں کا راز فاش اور وقار مجروح ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود ستار العیوب ہے۔ اپنے بندوں کو بھی یہ حکم دیتا ہے کہ لوگوں کی پردہ پوشی کرو، راز فاش نہ کرو اور لوگوں کی نجی زندگی میں مداخلت نہ کرو۔
البتہ اگر کوئی راز کسی شخص یا ایک خاندان کے نجی معاملے سے مخصوص نہ ہو بلکہ اس کا تعلق پورے معاشرے یا اسلامی ریاست کے لیے خطرے سے مربوط ہو تو اس صورت میں دشمنوں کے عزائم کا تجسس لازمی ہے۔
لوگوں کے نجی راز ٹٹولنے کے ناجائز اور حرام ہونے پر اس آیت کے ساتھ احادیث بھی کثرت سے موجود ہیں۔ حدیث نبوی ہے:
مَنِ اطَّلَعَ فِی بَیْتِ جَارِہِ فَنَظَرَ اِلَی عَوْرَۃِ رَجُلٍ اَوْ شَعْرِ امْرَأَۃِ اَوْ شَیْئٍ مِنْ جَسَدِھَا کَانَ حَقِیقاً عَلَی اللہِ اَنْ یُدْخِلَہُ النَّارَ مَعَ الْمُنَافِقِینَ الَّذِینَ کَانُوا یَبْحَثُونَ عَوْرَاتِ الْمُسْلِمِینَ فِی الدُّنْیَا۔۔۔۔ ( مستدرک الوسائل ۱۴: ۲۱۸)
کوئی اگر اپنے ہمسایہ کے گھر جھانکتا ہے اور کسی مرد کے راز یا عورت کے بالوں یا اس کے جسم کے کسی حصے پر نظر پڑتی ہے تو اللہ اسے جہنم میں داخل کر سکتا ہے ان منافقوں کے ساتھ جو دنیا میں مسلمانوں کے راز ٹٹولتے تھے۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
من تتبع عورات الناس کشف اللہ عورتہ۔ ( غرر الحکم حکمت:۹۶۵۷)
جو شخص لوگوں کے راز ٹٹولتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا راز فاش کرے گا۔
۴۔ وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا: تم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ حدیث نبوی میں غیبت کی یہ تعریف آئی ہے:
ھل تدرون ما الغیبۃ فقالوا اللہ و رسولہ اعلم۔ قال ذکرک اخاک بما یکرہ۔ (بحار ۷۲: ۲۲۲)
کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا: غیبت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کا ایسی باتوں کے ساتھ ذکر کرے جو اسے ناگوار گزریں۔
یعنی غیبت یہ ہے کہ انسان کسی دوسرے مومن بھائی کے کسی ایسے راز کو فاش کرے یا عیب کا ذکر کرے جس کا ذکر کرنا اسے پسند نہیں ہے۔
غیبت سے انسان کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ ہر شخص کی زندگی میں ناہمواریاں پیش آتی ہیں۔ ان ناہمواریوںمیں لغزشیں سرزد ہوتی ہیں جن سے دوسرے لوگ واقف نہیں ہوتے صرف اپنا مہربان رب واقف ہے۔ رب کی مہربانی ہے کہ وہ خود ستار العیوب ہے، اپنے بندوں سے بھی فرمایا ہے کہ وہ بھی دوسروں کے عیوب فاش نہ کریں۔
مروی ہے کہ حضرت ابوذرؓ نے پوچھا: یا رسول اللہؐ! غیبت کیا ہے؟ فرمایا:
ذکرک اخاک بما یکرہہ۔ قلت یا رسول اللہ فان کان فیہ ذاک الذی یذکر بہ۔ قال اعلم اذا ذکرتہ بما ھو فیہ فقد اغتبتہ، و اذا ذکرتہ بما لیس فیہ فقد بھتہ۔۔۔۔ ( الامالی للطوسی ص ۵۳۷)
غیبت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کا ایسی بات کے ساتھ ذکر کرے جو اس کو ناگوار گزرے۔ عرض کیا: اگر وہ بات اس میں موجود ہو تو بھی؟ فرمایا اگر وہ بات موجود ہو تو یہ غیبت ہے اگر وہ بات اس میں موجود نہیں ہے تو یہ بہتان ہے۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ جو عیب و نقص انسان میں موجود ہے اس کا ذکر کرنا غیبت ہے۔ اگر وہ نقص یا گناہ جو اس سے سرزد ہوا ہے وہ دوسروں کو معلوم نہیں ہے آپ نے بیان کیا ہے تو آپ نے اس کا راز فاش کیاے جس سے اس کا وقار مجروح ہوا۔ اگر وہ نقص ایسا ہے جو راز نہیں ہے جیسے لنگڑا، اندھا، بہرا ہے تو ان عیوب کا ذکر اس مومن کی توہین اور تذلیل ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہ حدیث روایت ہے:
لِلّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ فِی بِلَادِہِ خَمْسُ حُرِمٍ حُرْمَۃُ رَسُولِ اللہِؐ وَ حُرْمَۃُ آلِ رَسُولِ اللہِؐ وَ حُرْمَۃُ کِتَابِ اللہِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ حُرْمَۃُ کَعْبَۃِ اللہِ وَ حُرْمَۃُ الْمُؤْمِنِ۔ (الکافی ۸: ۱۰۷)
اللہ کے لیے زمین میں پانچ حرمتیں ہیں: رسول اللہؐ کی حرمت، آل رسول کی حرمت، کتاب اللہ کی حرمت، کعبہ کی حرمت اور مومن کی حرمت۔
حدیث نبوی ہے:
الْمُؤْمِنُ حَرَامٌ کُلُّہُ عِرْضُہُ وَ مَالُہُ وَ دَمُہُ۔ ( مستدرک الوسائل ۹: ۱۳۶)
فرمایا: مومن کو پوری حرمت حاصل ہے اس کے آبرو، مال اور خون سب کو حرمت حاصل ہے۔
۵۔ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا: غیبت اس حد تک گناہ کبیرہ اور اہانت مومن ہے جس طرح اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا۔ اس میں دو باتیں مشترک ہیں:
مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا اس فوت شدہ شخص کی انتہائی اہانت ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ مردہ اپنا دفاع اور صفائی پیش نہیں کر سکتا ہے۔ اسی طرح وہ غائب شخص جس کی غیبت ہو رہی ہے وہ بھی اپنی صفائی پیش نہیں کر سکتا۔
۶۔ فَکَرِہۡتُمُوۡہُ: مردے کا گوشت کھانے سے تو تم نفرت کرتے ہو چونکہ یہ بات تمہارے محسوسات میں ہے لیکن انسانی قدروں کو تم محسوس نہیں کرتے اور قدروں کی پامالی سے نفرت نہیں کرتے۔
درج ذیل مقامات پر غیبت حرام نہیں ہے:
i۔ ایک شخص علی الاعلان فسق و فجور کرتا ہے۔ لہٰذا جو شخص خود سے فاش ہے اس کی حرمت نہیں ہوتی۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
اِذَا جَاھَرَ الْفَاسِقُ بِفِسْقِہِ فَلَا حُرْمَۃَ لَہُ وَ لَا غِیْبَۃَ۔ ( وسائل الشیعۃ ۱۲: ۲۸۹)
جب فاسق اپنے فسق کا کھلے بندوں ارتکاب کرے تو نہ تو اس کی حرمت ہے، نہ اس کی غیبت کرنا حرام ہے۔
ii۔ ظالم: مظلوم کے لیے جائز ہے کہ اپنی مظلومیت کو بیان کرتے ہوئے ظالم کی برائی کرے۔
لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الۡجَہۡرَ بِالسُّوۡٓءِ مِنَ الۡقَوۡلِ اِلَّا مَنۡ ظُلِمَ۔۔۔۔۔۔ (۴ نساء: ۱۴۸)
اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی (کسی کی) برملا برائی کرے، مگر یہ کہ مظلوم واقع ہوا ہو۔
iii۔ مشورہ: مثلاً اگر کوئی رشتہ دینے یا لینے یا کسی اور معاملے میں آپ سے مشورہ طلب کرے تو اس صورت میں ان عیوب و نقائص کا ذکر جائز ہے تاکہ وہ دھوکے میں نہ پڑے۔
حدیث میں ہے:المستشار مُوتَمَنٌ۔۔۔۔ ( وسائل الشیعۃ ۱۲: ۴۳)
جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امین ہے۔
iv۔ گواہی میں جرح کا حق ہے کہ گواہ کے عادل نہ ہونے پر عدالت کے منافی امور کا ذکر جائز ہے تاکہ حقوق ضائع نہ ہو جائیں۔
v۔ راوی پر جرح کرتے ہوئے اس کے ثقہ نہ ہونے پر دلیل دینے کے لیے ثقہ ہونے کے منافی امور کا ذکر جائز ہے تاکہ احکام و حدود معطل نہ ہوں۔
غیبت گناہ کبیرہ: حضرت ابوذرؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
یَا اَبَا ذَرٍّ اَیَّاکَ وَ الْغِیبَۃَ فِاِنَّ الْغِیْبَۃَ اَشَدُّ مِنَ الزِّنَا۔ قُلْتُ: وَ لِمَ ذَاکَ یَا رَسُولَ اللہِ؟ قَالَ: لِاَنَّ الرَّجُلَ یَزْنِی فَیَتُوبُ اِلَی اللہِ فَیَتُوبُ اللہُ عَلَیْہِ وَ الْغِیبَۃُ لَا تُغْفَرُ حَتّٰی یَغْفِرَھَا صَاحِبُھَا۔۔۔۔ ( الوسائل الشیعۃ۱۲: ۲۸۰)
اے ابوذر! غیبت سے بچو چونکہ غیبت زنا سے بدتر ہے۔ میں نے عرض کیا: وہ کیسے یا رسول اللہ؟ فرمایا: آدمی زنا کرتا ہے پھر توبہ کرتا ہے۔ اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے اور غیبت کی بخشش نہیں ہے جب تک وہ شخص معاف نہ کرے جس کی غیبت ہوئی ہے۔
اہم نکات
۱۔ مومن کی عزت و آبرو کو وہی تحفظ حاصل ہے جو کعبۃ اللہ کو ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ )335

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button