مقالات قرآنی

انفاق فی سبیل اللہ کی کیفیت

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس
انفاق کے بغیر نیکی نہیں ملتی
’لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ‘‘ (آل عمران:92)
’’جب تک تم اپنی پسند کی چیزوں میں سے خرچ نہ کرو تب تک کبھی نیکی کو نہیں پہنچ سکتے اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو یقینا اللہ اس سے خوب باخبر ہے‘‘۔
تشریح کلمات
الۡبِرَّ:( ب ر ر ) البِرْ کے معنی مطلق نیکی کے ہیں۔ تاہم الْبِرَّ ، نیکیاں انجام دینے میں ایک معتدبہ منزل پر فائز ہونے کی صورت کو کہتے ہیں۔ چنانچہ الْبِرَّ کی تعریف سورہ بقرہ کی آیت ۱۷۷ میں بیان ہو چکی ہے۔
تفسیر آیات
ربط کلام:
سابقہ آیات میں کہاگیا تھا کہ کافر روئے زمین بھر سونا فدیہ کر دے تو بھی قبول نہ ہو گا۔ یہاں مومن کے ذہن میں یہ خیال آ سکتا ہے کہ مال خرچ کرنے کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس توہم کو دور کرنے کے لیے فرمایا: مومن کے لیے مال ایک بہترین وسیلہ ہے، جس کے ذریعے وہ نیکی کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو سکتا ہے نیز سلسلۂ حکم اہل کتاب کے بارے میں بھی اس طرح مربوط ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کی برگزیدہ قوم، اللہ کے فرزند اور اولیاء اللہ خیال کرتے ہیں، جب کہ وہ حرص، بخل اور دولت کے نشے میں اللہ کے احکام کو پامال کرتے ہیں۔ اس آیت نے بتایا کہ اگر اللہ سے محبت ہو تو دنیا کی کوئی چیز اس کے مقابلےمیں عزیز نہ ہو گی۔ اگر کسی کے دل میں دنیا کی کوئی چیز حب خدا پر غالب آ جائے تو وہ سمجھ لے کہ نیکی کے مقام پر فائز نہیں ہے۔
تمام نیکیوں میں انفاق مال کو ایک اہم خصوصیت حاصل ہے، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انفاق مال کو بہت پسند فرماتا ہے۔ حتیٰ کہ ائمہ علیہم السلام کی عظیم نیکیوں میں خصوصی طور پر ان کے انفاق کو پسند فرمایا۔ چنانچہ خود رکوع سے زیادہ رکوع میں دی جانے والی زکوٰۃ کو درجہ دیا گیا۔
چنانچہ قرآن میں اولیاء کی یہ خصوصیت بتائی گئی:
’’وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا اِنَّمَا نُطۡعِمُکُمۡ لِوَجۡہِ اللّٰہِ لَا نُرِیۡدُ مِنۡکُمۡ جَزَآءً وَّ لَا شُکُوۡرًا‘‘(دہر: ۸،۹)
’’اور اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں، (وہ ان سے کہتے ہیں) ہم تمہیں صرف اللہ (کی رضا) کے لیے کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ تو کوئی معاوضہ چاہتے ہیں اورنہ ہی شکرگزاری‘‘۔
مِمَّا تُحِبُّوۡنَ:
جو چیز خود تمہاری اپنی پسند کی ہو اسے راہ خدا میں خرچ کرے تو مقام بِرْ پر فائز ہو گا۔ یعنی یہ مقام اس کو ملے گا جو اپنی پسند پر اللہ کی پسند کو ترجیح دیتا ہے۔ اگر ناکارہ اور ردی چیز دے دی جائے تو اس میں کوئی ایثار کارفرما نہ ہو گا۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا:
’’وَ لَا تَیَمَّمُوا الۡخَبِیۡثَ مِنۡہُ تُنۡفِقُوۡنَ وَ لَسۡتُمۡ بِاٰخِذِیۡہِ اِلَّاۤ اَنۡ تُغۡمِضُوۡا فِیۡہِ ‘‘(بقرہ: ۲۶۷)
’’اس میں سے ردی چیز دینے کا قصد ہی نہ کرو اور (اگر کوئی وہی چیز تمہیں دے دے تو) تم خود اسے لینا گوارا نہ کرو گے مگر یہ کہ چشم پوشی کرو‘‘۔
یہ ہے بِرّ یعنی نیکی کا مقام اور اولیاء اللہ کاجذبہ ایثار۔
امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
’’اَلْبِرُّ وَ حُسْنُ الْخُلْقِ یَعْمُرَانِ الدِّیَارَ وَ یَزِیْدَانِ فِی الْاَعْمَارِ ‘‘
(اصول الکافی ۲: ۱۰۰۔ باب حسن الخلق)
’’نیکی اور حسن خلق مملکت کی ترقی اور عمروں میں اضافے کا سبب بنتے ہیں‘‘۔
اہم نکات
۱۔ اللہ کی محبت کو ہر چیز کی محبت پر برتری حاصل ہو تو یہی مقام بِر ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 119)
انفاق شدہ مال کی مثال
’’مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ‘‘ ( بقرہ:261)
’’جو لوگ اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں ان(کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس کی سات بالیاں اگ آئیں جن میں سے ہر بالی کے اندر سو دانے ہوں اور اللہ جس (کے عمل) کو چاہتا ہے دگنا کر دیتا ہے، اللہ بڑا کشائش والا، دانا ہے‘‘۔
تفسیر آیات
انفاق اور فیاضی ایک کائناتی اصول ہے، جس پر نظام کائنات استوار ہے۔ سورج اپنے حیات بخش نور کا فیض پہنچاتا ہے۔ پانی اپنی طراوت سے نوازتا ہے۔ ہوا اپنی تازگی سے فرحت بخشتی ہے اور زمین بھی جب اپنی آغوش میں مہر و محبت سے لبریز ماحول فراہم کرتی ہے تو دانہ بھی فیاضانہ جذبے کے تحت اپنا سینہ چاک کر دیتا ہے۔
اس مقام پر مسلسل اور متعدد آیات کے ذریعے امت قرآن کو انفاق فی سبیل اللّٰہ کی ہدایات دی جا رہی ہیں تاکہ ایک ایسی امت تشکیل دی جا ئے جو خدا کی پسندیدہ انسانی و اخلاقی اقدار کے ساتھ ساتھ اقتصادی و باہمی تعاون کی اقدار پر بھی قائم ہو۔ اسلام سے پہلے غریب طبقہ سود اور استحصالی نظام میں پس رہا تھا۔ اسلام نے اس طبقے کو اقتصادی غلامی سے نجات دلا کر اس کے انسانی احترام کو بحال کر نے کے لیے انفاق پر زور دیا۔ ایسا انفاق جو محبت و اخوت کی فضا میں ہو نیز جو انفاق کرنے والے کے لیے تہذیب نفس اور لینے والے کے لیے باوقار ذریعہ زندگی ہو۔ ان آیات میں انفاق کی افادیت، آداب اور اس کے نفسیاتی پہلوؤں پر مشتمل ایک دائمی دستور موجود ہے، جس پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں امت مسلمہ ایک ہی خاندان کی مانند ہو جاتی ہے ، جس کے تمام افراد ہر اعتبار سے ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہوتے ہیں۔
چنانچہ اسی ذہنیت کی تخلیق اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے اسلام نے ربا اور سود کا دروازہ بند کر کے انفاق کا دروازہ کھولا اور انفاق کے بہت سے شعبے قائم کیے۔ مثلاً زکوٰۃ، خمس، مالی کفارے، مستحب صدقات و خیرات وقف، ہبہ، قرض حسنہ اور فدیہ وغیرہ۔
ذاتی ضروریات، اہل و عیال کی جائز ضروریات، حاجتمندوں کی امداد، رفاہ عامہ کے امور اور دین کی اشاعت پرخرچ کرنا وغیرہ، انفاق فی سبیل اللہ کے زمرے میں شامل ہیں۔
اس آیت میں حاکمانہ انداز میں نہیں، بلکہ تشویق و ترغیب کی صورت میں انفاق کا درس دیا جا رہا ہے۔ قرآن ایک نہایت ہی منافع بخش مادی و محسوس مثال پیش فرماتا ہے کہ دانے کا زمین میں ڈالنا اس دانے کا اتلاف نہیں، بلکہ ایک منافع بخش عمل ہے۔ جس طرح مادی دنیا میں بیج کا ایک دانہ سات سو دانے دے سکتا ہے، بالکل اسی طرح راہ خدا میں خرچ کرنے سے بھی مال ضائع نہیں ہوتا، بلکہ خرچ کرنے والا سات سو گنا ثواب کی شکل میں اسے دوبارہ وصول کرتا ہے۔ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ کے تحت ایک ہزار چار سو گنا ہو سکتا ہے۔ مال کے انفاق کا یہ خاصہ ہے کہ ایک ہزار چار سو گنا ثواب مل سکتا ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ، جتنا خدا چاہے۔
اہم نکات
۱۔ کائنات کے وجود میں آنے کا سبب اللہ تعا لیٰ کی فیاضی ہے۔ پس بقائے کائنات بھی فیاضی پر موقوف ہے۔
۲۔ الٰہی اقدار کے مطابق انفاق سات سو (۷۰۰) گنا سے زیادہ پیداواری صلاحیت رکھتا ہے:
’’سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ‘‘
۳۔ انفاق معاشرے کو اقتصادی بدحالی اور غلامی سے نجات دلاتا ہے۔
تحقیق مزید:(بحار الانوار ۹۳ : ۱۴۱ باب ۱۵ اداب الصدقۃ ۔ سعد السعود ۱۹۵)
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ 615)
اعلانیہ و پوشیدہ انفاق
’اِنۡ تُبۡدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ہِیَ ۚ وَ اِنۡ تُخۡفُوۡہَا وَ تُؤۡتُوۡہَا الۡفُقَرَآءَ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ؕ وَ یُکَفِّرُ عَنۡکُمۡ مِّنۡ سَیِّاٰتِکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ‘‘ (بقرہ:271)
’’اگر تم علانیہ خیرات دو تو وہ بھی خوب ہے اور اگر پوشیدہ طور پر اہل حاجت کو دو تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے اور یہ تمہارے کچھ گناہوں کا کفارہ ہو گا اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے‘‘۔
تفسیر آیات
صدقات و خیرات علانیہ طور پر دینے کے درج ذیل فوائد ہیں:
الف:اس میں عملی دعوت اور دوسروں کے لیے تشویق ہے۔
ب: غریبوں کو یہ جان کر اطمینان ہوتا ہے کہ معاشرے میں محتاجوں کا درد رکھنے والے اہل دل بستے ہیں۔
ج: خیرات دینے والے بھی لوگوں کی تہمت اور بدگمانی سے بچ جاتے ہیں کہ یہ لوگ انفاق نہیں کرتے۔
خیرات پوشیدہ طور پر دینے کے درج ذیل فوائد ہیں۔
الف۔ اس صور ت میں ریاکاری کا شائبہ نہیں رہتا اور خیرات خالصتاً فی سبیل اللہ ہو جاتی ہے۔
ب۔ جب پوشیدہ طور پر خیرات دی جائے تو بعد میں احسان جتانے اور ایذا پہنچانے کی نوبت نہیں آتی۔ اس طرح یہ عمل خیر، حبط اور برباد ہونے سے محفوظ رہتا ہے۔
ج۔ پوشیدہ خیرات دینے سے غریبوں اور محتاجوں کی عزت نفس محفوظ رہتی ہے اور احترام آدمیت کو بھی کوئی گزند نہیں پہنچتا۔
علامہ طباطبائی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’فَصَدَقَۃُ الْعَلَنِ اَکْثَرُ نَتَّاجاً وَ صَدَقَۃُ السِّرِّ اَخْلَصُ طَھَارَۃً ‘‘
{المیزان ذیل آیت ۲ : ۴۲۰}
’’علانیہ خیرات کے اثرات زیادہ ہیں، جب کہ پوشیدہ خیرات میں خلوص اور پاکیزگی زیادہ ہے ‘‘۔
آیت کے آخر میں فرمایا کہ انفاق گناہوں کے لیے کفارہ اور گناہوں کی بخشش کا سبب ہوتاہے۔ اگرچہ یہ حکم عام ہے:
’’اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ ‘‘ ( ہود : ۱۱۴)
’’نیکیاں بے شک برائیوں کو دور کر دیتی ہیں‘‘۔
لیکن انفاق سے گناہوں کے دھلنے کا خصوصی طور پر ذکر ہوا ہے، جس سے معلوم ہوتاہے کہ انفاق گناہوں کے کفارے کا ایک اہم سبب ہے۔
اہم نکات
۱۔ وہ صدقہ زیادہ اجر و ثواب رکھتاہے جس میں احترام آدمیت کو ملحوظ رکھا جائے:
’’ وَ اِنۡ تُخۡفُوۡہَا وَ تُؤۡتُوۡہَا الۡفُقَرَآءَ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ‘‘
تحقیق مزید:
(الکافی ۳ : ۴۹۹ باب فرض الزکاۃ ۔ الفقیہ ۲ : ۴۸ باب الحق المعلوم ۔ التہذیب ۴ : ۱۰۴ باب من الزیارات )
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ 627)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button