مقالات قرآنی

متقین کی خصوصیات اور اوصاف

الکوثر فی تفسیر القران سے اقتباس
الٓـمّٓ ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۙوَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ ٭ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنََ (بقرہ:1-5)
الف لام میم۔ یہ کتاب، جس میں کوئی شبہ نہیں، ہدایت ہے تقویٰ والوں کے لیے۔ یہ کتاب، جس میں کوئی شبہ نہیں، ہدایت ہے تقویٰ والوں کے لیے۔ اور جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا نیز جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا ہے، ان پر ایمان اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ اور جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا نیز جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا ہے، ان پر ایمان اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔
تشریح کلمات
ذٰلِکَ:اشارئہ بعید کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ خواہ وہ چیز بلحاظ مکان بعید ہو یا بلحاظ مرتبہ و مقام بلند و بالا ہو۔
الْكِتٰبُ:(ک ت ب) سے قِتَال کے وزن پر مصدر ہے اور اسم مفعول کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی کتاب سے مکتوب مراد ہے۔ نیز یہ مادہ جمع کے معنی میں بھی ہے۔ چنانچہ ایسے اوراق کا مجموعہ کتاب کہلاتا ہے، جن پر کچھ لکھا ہوا ہو۔
کبھی یہ دستور اور حکم کے معنی میں استعمال ہوتا ہے:
وَ کَتَبۡنَا عَلَیۡہِمۡ فِیۡہَاۤ اَنَّ النَّفۡسَ بِالنَّفۡسِ ۔ {۵ مائدہ :۴۵}
اور ہم نے توریت میں ان پر (یہ قانون ) لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان ہے۔
چنانچہ قرآن، صحیفوں اور نوشتہ جات کا مجموعہ ہونے کے اعتبار سے بھی اور دستور و احکام کے اعتبار سے بھی کتاب ہے۔
فرض اور واجب قرار دینے کے لیے بھی کتب استعمال ہوتا ہے:
کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ۔۔۔ { ۶ انعام: ۵۴}
تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے۔
کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ ۔۔۔۔ {۲ بقرہ : ۱۸۳}
تم پر روزے کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔
رَیۡبَ:(ر ی ب) شبہ ، بدگمانی اور عدم اعتماد۔ یہ لفظ شک کا مترادف نہیں ہے ، جیساکہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔
ہُدًی:(ھ د ی) ہدایت یعنی مہر و محبت کے ساتھ رہنمائی کرنا۔ اسی لیے بلامعاوضہ دی جانے والی چیزہدیہ کہلاتی ہے۔
متقین:(و ق ی) صاحبان تقویٰ، متقی کی جمع ہے۔ تقویٰ، وقایۃ سے ماخوذہے، جس کا لفظی معنی ہے، ہر اس چیز سے نفس کو بچانا جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ انسان خود کوخطرات سے اس وقت بچاتا ہے جب اسے ان سے خوف لاحق ہوتا ہے۔ اسی لیے تقویٰ کا معنی ڈر اور خوف بھی بیان کیا جاتاہے۔ کیونکہ تقویٰ کا سبب خوف ہوتا ہے اور مسبب کا نام لے کر سبب کو مراد لینا عام طور پر رائج ہے۔ یعنی تقویٰ سے خوف مراد لیا جاتاہے۔ جیسے اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ ۔۔۔ {۳ آل عمران : ۱۰۲} اللہ کا خوف کرو جیسا کہ اس کا خوف کرنے کا حق ہے۔
تفسیرآیات
ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ: یہ قرآن صاحبان تقویٰ کے لیے ہدایت ہے۔ اَلتَّقْوٰی جَعْلُ النَّفْسِ فِیْ وَقَایَۃِ مِمَّا یُخَافُ۔ { مفردات راغب اصفہانی ۔ مادہ وقی} یعنی تقویٰ اپنے آپ کو خطرات سے بچانے کا نام ہے۔ جو شخص بیمار ی کے ممکنہ خطرات سے محفوظ رہنا چاہے، وہی دوا اور علاج سے بہرہ مند ہو سکتا ہے۔ چنانچہ متقی وہی ہو گا جو ہلاکت ابدی سے بچنے کی کوشش کرے۔ ایسا شخص ہی قرآن سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرسکتا ہے۔ کیونکہ رہنمائی صرف اسے فائدہ دے سکتی ہے، جو عازم راہ ہو۔ جو شخص کہیں جانا ہی نہیں چاہتا، اسے رہنمائی کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ لہٰذا عازم راہ کو متقی کہتے ہیں۔ یعنی راہ نجات کا راہرو اور اسی قسم کے افراد قرآن سے ہدایت حاصل کر سکتے ہیں۔
قرآن مجید نے متقین کی پانچ صفات بیان کی ہیں جو بعد کی آیات میں مذکو ر ہیں۔
اہم نکات
۱۔ اشارہ بعید ذٰلِکَ سے ظا ہر ہوتا ہے کہ قرآن اس بلند مقام پر ہے جہاں شبہے کی رسا ئی ممکن نہیں۔
۲۔ قرآنی ہدایت اہل تقویٰ اور سالکان راہ نجات کے پاک دلوں میں ہی اتر سکتی ہے۔ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۔
۳۔ ہادی کے لیے ضروری ہے کہ اس کا دامن ہر قسم کی آلائشوں سے پاک ہو۔
۴۔ تقویٰ جتنا زیادہ ہو گا اسی قدر بہتر ہدایت حا صل ہو سکے گی۔
تحقیق مزید
بحار الانوار ۲: ۱۶۔۱۷:۲۱۸۔ ۸۸:۹۔ کمال الدین ۲:۶۴۰۔ معانی الاخبار ص ۲۲ مناقب شہر آشوب ۶ : ۱۳۷
الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ.
جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں نیز جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
تشریح کلمات
یُقِیۡمُوۡنَ:(ق و م ) اقامۃ سے ہے۔ یہ لفظ کسی ذمہ داری کی ادائیگی اور اس پر کاربند رہنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ ۔۔۔۔ {۵ مائدہ : ۸۔ ’’ اللہ کے لیے بھرپور قیام کرنے والے بن جاؤ۔ ‘‘}
الصَّلٰوۃَ:( ص ل و )اکثر ماہرین لغت کے نزدیک صلوٰۃ کا لغوی معنی ’’دعا ‘‘ ہے اور شرعی اصطلاح میں صلوٰۃ رکوع و سجود پر مشتمل عبادت یعنی ’’ نماز ‘‘ سے عبارت ہے۔ یہ امر تحقیق طلب ہے کہ لفظ صلوٰۃ عربی ہے یا عبرانی۔ میرے نزدیک یہ عبرانی لفظ ہے اور قدیم بابلی عہد میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے رکوع و سجود پر مشتمل عبادت کے لیے استعمال کیا۔ چنانچہ عبرانی میں عبادت گاہ کو صلوتا کہا جاتا ہے اور یہودی بھی اپنی عبادت گاہ کوصلوتا کہتے ہیں۔ بعض محققین کے نزدیک بعید نہیں کہ انگریزی کا لفظ salute اسی سے ماخوذ ہو۔ قرآن میں ارشاد ہوا:
وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لَّہُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذۡکَرُ فِیۡہَا اسۡمُ اللّٰہِ کَثِیۡرًا {۲۲ حج :۴۰}
اوراگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے روکے نہ رکھتا تو راہبوں کی کوٹھڑیوں اور گرجوں اور عبادت گاہوں اور مساجد کو جن میں کثرت سے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے منہدم کر دیا جاتا۔
بعد میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذریعے یہ لفظ عربی میں داخل ہوا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام جو عبادت بجا لاتے تھے، وہ رکوع و سجود پر مشتمل تھی:
وَ عَہِدۡنَاۤ اِلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ اَنۡ طَہِّرَا بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَ الۡعٰکِفِیۡنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ ۔ {۲ بقرہ: ۱۲۵۔}
اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل پریہ ذمے داری عائد کی کہ تم دونوں میرے گھر کو طواف، اعتکاف اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔
سابقہ بیان سے یہ بات واضح ہو گئی کہ لفظ صلوٰۃ اصل میں حضرت اسماعیل (ع) کی رکوع و سجود والی عبادت کا نام تھا، جوبعد میں دعا کے معنی میں استعمال ہونے لگا، لیکن اسلام نے اسے دوبارہ رکوع و سجود والی عبادت ابراہیمی کے لیے مخصوص کر دیا۔
الرزق:(ر ز ق) رزق عطائے جاری کو کہتے ہیں: الرِزْقُ یُقَالُ لِلْعَطَائِ الْجَارِیْ {مفردات راغب اصفہانی}
ینفقون🙁 ن ف ق ) انفاق، نفق سے ہے، جس کے معنی دونوں طرف سے کھلی سرنگ یا گلی ہے۔
مال ہاتھ میں آکر خرچ ہو جا ئے تویہ انفاق کہلاتا ہے۔ شرعی اصطلاح میں دو رخی اختیار کرنے کو نفاق کہا جاتا ہے۔کیونکہ منافق دین میں ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل جاتا ہے یا جس طرح سرنگ کے دو دہانے ہوتے ہیں، اسی طرح منافق کے بھی دو چہرے ہوتے ہیں۔
تفسیر آیات
الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ: ایمان ’’ امن ‘‘ (سلامتی)سے ماخوذ ہے۔ کیونکہ ایمان باللہ ابدی ہلاکت سے سلامتی اور بچاؤ کا موجب ہے یا ایمان باللہ سے قلب و ضمیر کو امن و سکون ملتا ہے۔ پھر چونکہ ایمان کے بھی درجات ہیں، یعنی قلب کا ایمان (تصدیق)، زبان کا ایمان (اقرار) اور اعضائے بدن کا ایمان (عمل)، لہٰذا کامل ایمان وہ ہو گا جو ان سب کامجموعہ ہو۔ چنانچہ امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
الْایمَانُ ھَوَ الْاِقرٰارُ بِالْلِسَانِ وَ عَقْدٌ فِی الْقَلْبِ وَ عَمَلٌ بِالْاَرکَانِ۔ } اصول الکافی ۲ : ۲۷}
ایمان زبان سے اقرار، دل سے تصدیق اور اعضاء و جوارح سے عمل کرنے سے عبارت ہے۔
غیب مشہود و محسوس کی ضد ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ، وحی، فرشتوں اور دینی عقائد و اصول وغیرہ کا تعلق ماورائے محسوسات سے ہے۔ ان پرایمان لانا اور انہیں تسلیم کرنا ہی ’’ ایمان بالغیب ‘‘ ہے۔
الحادی نظریات رکھنے والوں کے نزدیک صرف ان امور پر ایمان لانا درست ہے جو محسوس، مادی اور قابل تجربہ ہوں۔ ماورائے محسوسات چونکہ تجربے کے دائرے سے باہر ہیں اس لیے ان پرا یمان لانا درست نہیں، حالانکہ :
اولاً: ان کا یہ استدلال خود غیر حسی اور غیر تجرباتی ہے اگر غیر محسوس امور کی کوئی حقیقت نہیں تو خود یہ دلیل بھی فاسد ہے۔
ثانیاً: غیر محسوس اور غیر تجرباتی اصو لوں کو تسلیم نہ کیا جائے تو بہت سے حقائق سربستہ رہیں گے کیونکہ حس و تجربہ ہر جگہ کلی طور پر دلیل نہیں بن سکتے، بلکہ صرف ان محدود امور کے لیے دلیل بن سکتے ہیں جن پر تجربہ ہوا ہو۔
ثالثاً: اگر معلول سے علت اور آثار سے مؤثرکا وجود ثابت نہیں ہوتا تو کوئی شے ثابت نہ ہو سکے گی۔ کیونکہ آثار مشہود ہوتے ہیں اور مؤثر غیبت میں۔ عمارت مشہود ہوتی ہے، مگر معمار غائب۔ نقوش قدم مشاہدے میں آتے ہیں، جب کہ راہرو نظروں سے اوجھل بھی ہو جاتے ہیں۔
رابعاً: اگر صرف حس و تجربہ ہی دلیل وجود ہے تو ملحدین کو ماورائے حس پر نفیاً و اثباتاً کو ئی نظریہ قائم ہی نہیں کرنا چاہیے۔ چونکہ اگر صرف تجربہ دلیل ہو تو غیر تجربی بات نہ تو ماورائے حس کے اثبات کے لیے دلیل ہے اور نہ نفی کے لیے، لہٰذا وہ ماورائے حس کی نفی نہیں کر سکتے۔ حالانکہ یہ لوگ ماورائے حس کی نفی کرتے ہیں۔ اس طرح یہ لا شعوری طور پر ماورائے حس میں قدم رکھتے ہیں (اگرچہ اس کی نفی کے لیے ہی سہی) اور حس و تجربے کی حدود سے نکل جاتے ہیں اور یہ ان کی طرف سے ماورائے حس کا عملی اعتراف ہے۔ مختصر یہ کہ مادہ پرست کا مضطرب اور غیر مطمئن ذہن ماورائے حس کو سمجھنے سے قاصر ہے، کیونکہ پرسکون جھیل ہی ابر و کوہ کے صحیح خد و خال کو منعکس کرتی ہے، جب کہ ایک مضطرب و متلاطم جھیل اپنے اردگرد کے دلکش مناظر کی عکاسی کرنے سے عاجز ہوتی ہے۔
ایمان باللہ کے فطری ہونے پر انشاء اللہ آئندہ صفحات میں ہم تفصیلی بحث کریں گے۔
وَيُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ: نماز دین کا ستون اور معراج مومن ہے جو لا تترک بحال کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑی جا سکتی۔
فَاِنْ قُبِلَتْ قُبِلَ مَا سِوَیٰھٰا وَ اِنْ رُدَّتْ رُدّٰ مَا سِوَیٰھَا ۔ {فلاح السائل ص ۱۲۷}
اگرنماز قبول ہوئی تو دیگر عبادات بھی قبول اوراگر یہ رد ہو گئی تو دیگر عبادات بھی مسترد ہوجائیں گی۔
یہاں قرآن مجید نے لفظ اقامہ استعمال کیا ہے۔ یعنی مؤمنین و متقین نماز ’’ قائم ‘‘ کرتے ہیں۔ یہ نہیں فرمایا :نماز ’’ادا ‘‘ کرتے ہیں۔
لفظ اقامہ اجتماعی ذمہ داریوں کے لیے استعمال ہوا ہے:
اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ ۔۔۔ {۴۲ شوریٰ: ۱۳}
اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔
وَ اَقِیۡمُوا الۡوَزۡنَ بِالۡقِسۡطِ وَ لَا تُخۡسِرُوا الۡمِیۡزَانَ ۔ {۵۵ رحمن: ۹}
اور انصاف کے ساتھ وزن کو درست رکھو اور تول میں کمی نہ کرو۔
لہٰذا اقامۃ الصلوٰۃ انفرادی سے زیادہ اجتماعی فریضہ ہے اور مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ایک نمازی معاشرہ قائم کریں، جو فحشاء اور منکر سے پاک ہو۔ چنانچہ ایک اور آیت میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ حکومت اسلا می کے قیام کا ایک اہم مقصد اقامۂ صلوٰۃ ہے:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ۔۔۔۔ {۲۲ حج : ۴۱}
یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے۔۔۔۔
ظاہر ہے کہ انفرادی نماز کا قیام اقتدار کے بغیر بھی ہو سکتا ہے نیز مذکورہ آیت باجماعت نماز پڑھنے کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔
وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ: مومن، عابد اور متقی انسان اجتماعی زندگی اوراقتصادی جدوجہدسے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ دشمنان اسلام کے نظریات کے برعکس، مذہب افیون نہیں بلکہ مذہبی انسان معاشرے کا فعال رکن ہوتا ہے۔
انفاق و فیاضی ایک کائناتی نظام ہے۔ سورج اپنی شعاعوں سے، ہوا اپنی لطافت سے اور پانی اپنی تازگی سے جو فیاضی کرتا ہے، اسی سے کائنات میں زندگی اور شادابی کا دور دورہ ہے۔ متقی میں اس فیاضی کی موجودگی ضروری ہے تاکہ معاشرہ اس کے مادی رزق کی طرح معنوی رزق سے بھی فیضیاب ہوتا رہے۔ چنانچہ علم، ایک معنوی رزق ہے، لہٰذا اس کی زکوٰۃ تعلیم و تدریس ہے۔ اس آیت کے ذیل میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
مِمَّا عَلَّمْنَاھُمْ یَبُثُّوْنَ ۔ {بحار الانوار ۲ : ۱۶}
ہم نے انہیں جو تعلیم دی ہے، وہ اس کی اشاعت کرتے ہیں۔
اہم نکات
۱۔ اہل تقویٰ محسوس پرست نہیں ہوتے: يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ ۔
۲۔ غیب پر ایمان نمازاور انفاق پر عمل کے ساتھ مربوط ہے ۔
۳۔ نماز اور انفا ق ایمان کا لا زمہ ہیں۔
۴۔ اہل تقویٰ انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایک نما زی معا شرے کے قیا م کی کوشش کر تے ہیں۔
۵۔ انفا ق ایک کا ئناتی عمل ہے، جس سے ایک مو من انسان لا تعلق نہیں رہ سکتا۔
۶۔ تما م عبا دا ت کا اصل محور نما ز ہے۔
۷۔ ایمان کے اجزائے تر کیبی میں سے ایک، عمل ہے۔
تحقیق مزید: (الوسائل ۲۱ : ۵۲۷۔ مستدرک الوسائل ۳ : ۸۴)
وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ﴿۴﴾
اور جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا نیز جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا ہے، ان پر ایمان اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔
تشریح کلمات
اُنْزِلَ🙁 ن ز ل ) نزول یعنی بلند جگہ سے نیچے اترنا۔ خواہ یہ بلندی محسوسات میں سے ہو جیسے :
وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً طَہُوْرً ۔۔۔ {۲۵ فرقان : ۴۸}
اور ہم نے آسمان سے پاک کرنے والا پانی برسایا ہے۔
یا معنوی بلندی ہو، جیسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے ہر حکم کو ’’نازل شدہ حکم‘‘ کہا جاتا ہے:
وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ ۔ {۵۷ حدید : ۲۵}
اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے۔
اکثر اوقات نزول سے عطاو عنایت مراد لی جاتی ہے خواہ یہ عنایت براہ راست ہو جیسے نزول قرآن یا بذریعہ اسباب جیسے:
قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ ۔ {۷ اعراف: ۲۶}
ہم نے تمہارے لیے لباس نازل کیا جو تمہارے شرم کے مقامات کو چھپائے۔۔۔۔
یعنی تمہیں عقل و حواس عطا کیے، جن کے ذریعے تم سترپوشی کا سامان مہیا کرتے ہو۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی ہر وحی ، قرآن نہیں ہوتی۔کچھ ایسے احکام بھی نازل ہوئے ہیں،جو قرآن کاحصہ نہیں ہیں،جنہیں سنت کہا جاتا ہے۔ تفسیر قرآن کے ضمن میں آئمہ اہل بیت علیہم السلام سے مروی بعض روایات میں ھَکَذا أُنْزِلَتْ کے ا لفا ظ ملتے ہیں جن سے یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ أُنْزِلَت سے مراد نزول قرآن ہے، جو درست نہیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ اس طرح نازل ہوئی ہے، مگر قرآن کا حصہ نہیں ہے، تاکہ تحریف قرآن کا شائبہ نہ رہے۔
آخرۃ:( ا خ ر ) آخر اول کی ضد ہے۔ الدار الآخرۃ سے نشأۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے اور کبھی الدار حذف کر کے صرف الآخرۃ استعمال ہوتا ہے جیسے: وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ ۔
تفسیر آیات
وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ: صاحبان تقویٰ کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ رسول (ص) کے لائے ہوئے ہر حکم اور ہر پیغام پر ایمان رکھتے ہیں۔ ایسا نہیں کرتے کہ اپنے مطلب کی باتوں پر تو ایمان لے آئیں، مگراپنے مفادات سے متصادم باتوں کو درخور اعتنا ہی نہ سمجھیں۔ ایسے کردار کے حامل افراد کے بارے میں ارشا د خدا وندی ہے:
اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ۔۔۔ {بقرہ ۲: ۸۵}
کیا تم کتاب کے کچھ حصے پر ایمان لاتے ہو اور کچھ حصے سے کفر اختیار کرتے ہو؟
وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ: یقین ایمان کے بعد آتا ہے۔ یعنی ایمان کی پختگی کانام یقین ہے۔ یقین کا اعلیٰ ترین مرتبہ و مقام عصمت ہے۔ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے روایت ہے:
لَوْ کُشِفَ الْغَطَائُ مَا ازْدَدْتُ یَقِیْنًا ۔ {شرح نہج البلاغۃ ابن ابی الحدید ج ۷ باب ۱۱۳ ص ۲۵۳۔}
اگر پردہ ہٹا بھی دیا جائے تو میرے یقین میں اضافہ نہ ہو گا۔
آخرت پر یقین سے انسان میں بقاء کا تصور قائم ہوتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
اِنّمٰا خُلِقْتُمْ لِلْبَقَائِ لَا لِلْفَنَاء ۔ {غرر الحکم و دررالکلم ص ۱۳۳}
تم بقا کے لیے پیدا کیے گئے ہو ، فنا کے لیے نہیں۔
تصور بقا سے ہی زندگی بامقصد اور بامعنی بنتی ہے۔ تصور معاد کے بغیر انسان ایک بے مقصد وجود اور لایعنی و فالتو چیز قرار پاتا ہے جس کا انجام بلاوجہ دکھ درد سہتے ہوئے نیست و نابود ہونا ہے۔ وہ طبیعت کے ہاتھوں ایک کھلونا ہے، جب کہ اسے طبیعت سے بہلنے کے لیے نہیں، بلکہ ایک عظیم مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اس مقصد اور مقام تک رسائی، تصور معاد کے بغیر ناممکن ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر قرآنی تعلیمات کا ایک تہائی حصہ اخروی زندگی سے متعلق ہے۔
تصور معاد سے انسان ایک بامقصدوجود بن جاتا ہے،جو اپنے ہر عمل کا ذمے دار اور حیات ابدی کا مالک قرار پاتا ہے۔ تصور آخرت کے بعدو ہ تقویٰ کی اعلیٰ ترین منازل پر فائز ہو کر کمال حاصل کرتا ہے۔ اس کی دنیاوی زندگی کو قیمت ووقعت مل جاتی ہے۔ اس زندگی میں اس کا ایک مختصر سا عمل اس کی اخروی زندگی کو آباد و شاد کر دیتا ہے۔
بر گردد آنکہ باہوس کشور آمدہ
یزدان ذوالجلال بخلوت سرائے قدس
کاین عرصہ نیست درخور فرھمائے ما
آراستہ است بزم ضیافت برای ما
اہم نکات
۱۔ تمام ادیان سماوی باہم مربوط ہیں، لہٰذا ایمان سب پر ہونا چاہیے۔
۲۔ آخرت پر یقین سے انسان میں بقا و دوام کا تصور قائم ہوجاتا ہے ۔
۳۔ حیا ت ابد ی کا تصور انسان کو ذمہ دار اور اس کی زندگی کو بامقصد بناتا ہے۔
اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ ٭ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴿۵﴾
۵۔یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر (قائم) ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں۔
تشریح کلمات
الْمُفْلِحُوْنَ🙁 ف ل ح ) فلاح پانے والے۔ فلاح یعنی پھاڑنا۔ کسان زمین کو پھاڑتا ہے، اس لیے اسے فلّاح کہتے ہیں۔ کامیابی و کامرانی کو شاید اس لیے فلاح کہتے ہیں کہ مشکلات کو چیر پھاڑ کر (انہیں دور کر کے) ہی مقاصد میں کامیابی حاصل کی جاتی ہے۔ حی علی الفلاح کا مطلب یہ ہے کہ اس کامیابی کی طرف آؤ جو نماز کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔
تفسیر آیات
مذکورہ صفات کے حامل مؤمنین ہی متقی کہلانے کے حقدار ہیں اور وہی اپنے رب کی طرف سے حاصل شدہ ہدایت پر قائم رہ کر فلاح و کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔
گزشتہ آیات میں مجموعی طور پر پانچ صفات ذکر کی گئی ہیں:
۱۔ ایمان بالغیب کے ذریعے اس کائنات کے سرچشمۂ طاقت سے متصل ہونا ۔
۲۔ اقامہ نماز کے ذریعے اس طاقت سے اجتماعی روابط کا قیام ۔
۳۔ انفاق کے ذریعے کائنات کی موجودات سے مربوط و منظم ہونا۔ یعنی جہاں دوسری چیزوں سے فیض حاصل کیا جاتاہے، وہاں دوسروں کو فیضیاب کرنا۔
۴۔ وَمَآ اُنْزِلَ پر ایمان کے ذریعے اس ارتباط وتنظیم کی خاطر خالق کے دیے ہوئے دستور اور قانون پرعمل کرنا۔
۵۔ آخرت پر یقین کے ذریعے اس زندگی کو بامقصد بنانا اور پوری کائنات کے وجود کو اہمیت دیتے ہوئے یہاں رونما ہونے والے ہر واقعے کی تفسیر و توضیح کا صحیح تصورقائم کرنا ۔
اہم نکات
۱۔ اہل تقویٰ ہی ہدایت پر ہیں۔
۲۔ ایمان بالغیب رکھنے، نمازقائم کرنے، انفاق کرنے اور وحی و قیامت پر ایمان رکھنے والے ہی فلاح پانے والے ہیں۔
تحقیق مزید: شواہد التنزیل ۱ : ۵۷۰
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ217 تا 226)
اَلصّٰبِرِیۡنَ وَ الصّٰدِقِیۡنَ وَ الۡقٰنِتِیۡنَ وَ الۡمُنۡفِقِیۡنَ وَ الۡمُسۡتَغۡفِرِیۡنَ بِالۡاَسۡحَارِ﴿آل عمران: ۱۷﴾
یہ لوگ صبر کرنے والے، راست باز، مشغول عبادت رہنے والے، خرچ کرنے والے اور سحر (کے اوقات) میں طلب مغفرت کرنے والے ہیں۔
تفسیر آیات
یہاں اہل تقویٰ کے چھ خصائل بیان کیے گئے ہیں:
۱۔ ان سے ایمان کی علامت، جو طلب مغفرت ہے، ظاہر ہوتی ہے۔ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا۔۔۔۔
۲۔ صبر: یعنی اطاعت پر صبر، ترک گناہ پر صبر اور مصیبت پر صبر۔
۳۔ سچائی: زبان کی سچائی کے علاوہ ظاہر کا باطن کے مطابق ہونا۔
۴۔ قنوت: یعنی عبادت میں مصروف رہنا۔
۵۔ انفاق: یعنی فیاضی اور راہ خدا میں خرچ کرنا۔
۶۔ وقت سحر (یعنی رات کے آخری حصے میں) طلب مغفرت کرنا۔ یہ نماز تہجد کی طرف اشارہ ہے۔ نماز وتر کے قنوت میں استغفار کیا جاتا ہے۔
احادیث
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
مَنْ قَالَ فِی وَتْرِہِ اِذَا اَوْتَرَ اَسْتَغْفِرُ اللہَ وَ اَتُوبُ اِلَیْہِ سَبْعِینَ مَرَّۃً وَ ھُوَ قائم فَوَاظَبَ عَلَی ذَلِکَ حَتَّی تَمْضِیَ سَنَۃٌ کَتَبہُ اللہُ عِنْدَہُ مِنَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ وَ وَجَبَتْ لَہُ الْمَغْفِرَۃُ مِنَ اللہِ عَزَّ وَ جَلّ ۔ (ثواب الاعمال ص ۱۷۱۔ المیزان ۳ : ۱۱۹)
جو شخص نماز وتر میں ستر مرتبہ استغفر اللہ و اتوب الیہ حالت قیام میں پڑھے اور ایک سال تک اس پرچعمل کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کا شمار سحر کے وقت طلب مغفرت کرنے والوں میں فرمائے گا اور اس کے لیے مغفرت واجب ہو جائے گی۔
اہم نکات
۱۔ ایمان باللہ باعث مغفرت ہے۔
۲۔ متقی کی سب سے پہلی نشانی صبر و استقامت ہے۔ اَلصّٰبِرِیۡنَ ۔۔۔۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 32)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًا وَّ یُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ﴿الانفال:۲۹﴾
اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمہیں (حق و باطل میں) تمیز کرنے کی طاقت عطا کرے گا اور تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
تفسیر آیات
تقویٰ کی تین اہم خصوصیات ہیں : پہلی خصوصیت، حق و باطل میں تمیز: حق و باطل کی تمیز کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کے وجود میں ایک کسوٹی رکھی ہے جسے ضمیر اور وجدان کہتے ہیں لیکن اکثر اوقات خواہشات نفسانی اس کسوٹی پر اپنا کثیف پردہ ڈال دیتی ہیں جس کی وجہ سے حق اور باطل، کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنے کی یہ قوت ماند پڑ جاتی ہے۔ اب دلیل و منطق اس پر اثر نہیں کرتی۔ اس کو حق، باطل اور باطل، حق دکھائی دیتا ہے۔ دعوت حق پر لبیک کہنے کی بجائے اس کا مقابلہ کیا جاتا ہے مگر اہل تقویٰ کا ضمیر شفاف، وجدان صاف ہوتا ہے۔ اس کا زندہ احساس، بیدار عقل، اس کی بصیرت اوراس کا صاف و شفاف ضمیر ہر موڑ، ہر مشکل، ہر اختلاف اور ہر تفرقہ کی صورت میں انہیں بتا دیتا ہے کہ کون سا راستہ باطل کی طرف جاتا ہے اور کون سا راستہ حق کی طرف۔ کس قدم میں اللہ کی رضایت ہے اور کس میں اس کی رضایت نہیں ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے:
اتَّقُوا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہُ یَنْظُرُ بِنُورِ اللّٰہِ ۔ (اصول الکافی ۱: ۲۱۸ باب ان المتوسمین ذکرھم ۔۔۔۔)
مؤمن کی فراست سے ڈرو، کیونکہ وہ نور خدا کے ذریعے دیکھتا ہے۔
اس کی آنکھوں کے سامنے پردہ نہیں ہوتا۔ وہ راہ گم نہیں کرتا۔
مولانا روم کہتے ہیں :
چونکہ تقویٰ بست دو دست ہوا
حق کشاید ہر دو دست عقل را
تقویٰ نے خواہشات کے دونوں ہاتھ باندھ دیے تو اللہ تعالیٰ نے عقل کے دونوں ہاتھ کھول دیے۔
۱۔ وَّ یُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ: تقویٰ کی دوسری خصوصیت گناہوں کو مٹا دینا ہے۔ گناہ کو مٹانے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ گناہ کے محرک کو مٹا دیتا ہے۔ جس کے پاس تقویٰ جیسا شعور موجود ہو۔ اس پر گناہ کی رغبت غالب نہیں آتی اور دوسری یہ کہ اللہ گناہ کے اثرات کو مٹا دیتا ہے۔ یعنی تقویٰ والے سے اگر کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو چونکہ اس کا ضمیر زندہ ہے فوراً اس گناہ کی تلافی کرتا ہے۔
۲۔ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ: تیسری خصوصیت یہ ہے کہ تقویٰ والے سے اگر کوئی گناہ سرزد ہو جاتا ہے تو اللہ خود معاف فرماتا ہے۔ چونکہ باتقویٰ انسان صرف چھوٹے گناہوں کا ارتکاب کرے گا جن کے بارے میں اللہ کا وعدہ ہے کہ معاف کر دیا جائے گا۔
۳۔ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ: تقوی والے ہی اللہ کے عظیم فضل کے لیے اہل بن سکتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
فَاِنَّ تَقْوَی اللہِ مِفْتَاحُ سِدَادٍ وَ ذَخِیرَۃُ مَعَادٍ وِ عِتْقٌ مِنْ کُلِّ مَلَکَۃٍ وَ نَجَاۃٌ مِنْ کُلِّ ھَلَکَۃٍ بِھَا یَنْجَحُ الطَّالِبُ وَ یَنْجُوالْھَارِبُ وَ تُنَالُ الرَّغَائِبُ ۔ (نہج البلاغۃ خطبہ ۲۳۰)
بے شک تقوائے الٰہی ہدایت کی کلید اور آخرت کا ذخیرہ ہے۔ (خواہشوں کی) ہر غلامی سے آزادی اور ہر تباہی سے رہائی کا باعث ہے۔ اس کے ذریعہ طلبگار منزل مقصود تک پہنچتا اور (سختیوں سے) بھاگنے والا نجات پاتا ہے اور مطلوبہ چیزوں تک پہنچ جاتا ہے۔
اہم نکات
۱۔ بندے کو تقویٰ کے ذریعے اپنے اندر اہلیت پیدا کرنا ہو گی تاکہ وہ فرقان (حق و باطل میں تمیز کی کسوٹی) اور فضل عظیم کا سزاوار بن جائے: اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ ۔۔۔۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 3 صفحہ 379)

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button