اصحاب رسولؓسلائیڈرشخصیات

عظمت جناب ابو طالب علیہ السلام اور ان کے ایمان کامل پر مدلل دلائل

تمام علمائے شیعہ اور اھل سنت کے بعض بزرگ علماء مثلاً ”ابن ابی الحدید“شارح نہج البلاغہ نے اور”قسطلانی“ نے ارشاد الساری میں اور” زینی دحلان“ نے سیرۃحلبی کے حاشیہ میں حضرت ابوطالب کو مومنین اہل اسلام میں سے بیان کیا ہے۔اسلام کی بنیادی کتابوں کے منابع میں بھی ہمیں اس موضوع کے بہت سے شواہد ملتے ہیں کہ جن کے مطالعہ کے بعد ہم گھرے تعجب اور حیرت میں پڑجاتے ہیں کہ حضرت ابوطالب پرایک گروہ کی طرف سے اس قسم کی بے جا تہمیں کیوں لگائی گئیں ؟جو شخص اپنے تمام وجود کے ساتھ پیغمبر اسلام کا دفاع کیا کرتا تھا اور بار ھا خوداپنے فرزند کو پیغمبراسلام کے وجود مقدس کو بچانے کے لئے خطرات کے مواقع پر ڈھال بنادیا کرتا تھا!!یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس پر ایسی تہمت لگائی جائے۔
‌یہی سبب ہے کہ دقت نظر کے ساتھ تحقیق کرنے والوں نے یہ سمجھا ہے کہ حضرت ابوطالب کے خلاف، مخالفت کی لہر ایک سیاسی ضرورت کی وجہ سے ہے جو ” شجرہ خبیثہ بنی امیّہ“ کی حضرت علی علیہ السلام کے مقام ومرتبہ کی مخالفت سے پیداہوئی ہے۔ کیونکہ یہ صرف حضرت ابوطالب کی ذات ہی نہیں تھی کہ جو حضرت علی علیہ السلام کے قرب کی وجہ سے ایسے حملے کی زد میں آئی ہو ،بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر وہ شخص جو تاریخ اسلام میں کسی طرح سے بھی امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے قربت رکھتا ہے ایسے ناجو انمردانہ حملوں سے نہیں بچ سکا، حقیقت میں حضرت ابوطالب کا کوئی گناہ نہیں تھا سوائے اس کے وہ حضرت علی علیہ السلام جیسے عظیم پیشوائے اسلام کے باپ تھے۔
‌ہم یہاں پر ان بہت سے دلائل میں سے جو واضح طور پر ایمان ابوطالب کی گواہی دیتے ہیں کچھ دلائل مختصر طور پر فھرست وار بیان کرتے ہیں .
۱۔ حضرت ابوطالب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے پھلے خوب اچھی طرح سے جانتے تھے کہ ان کا بھتیجا مقام نبوت تک پہنچے گا کیونکہ مورخین نے لکھا ہے کہ جس سفر میں حضرت ابوطالب قریش کے قافلے کے ساتھ شام گئے تھے تو اپنے بارہ سالہ بھتجے محمدؐ کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے ۔ اس سفر میں انهوں نے آپ سے بہت سی کرامات مشاہدہ کیں۔
‌ان میں ایک واقعہ یہ ہے کہ جو نہیں قافلہ ”بحیرا“نامی راہب کے قریب سے گزرا جو قدیم عرصے سے ایک گرجے میں مشغول عبادت تھا اور کتب عہدین کا عالم تھا ،تجارتی قافلے اپنے سفر کے دوران اس کی زیارت کے لئے جاتے تھے، توراھب کی نظریں قافلہ والوں میں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جم کررہ گئیں، جن کی عمراس وقت بارہ سال سے زیادہ نہ تھی ۔بحیرانے تھوڑی دیر کے لئے حیران وششدر رہنے اور گھری اور پُرمعنی نظروں سے دیکھنے کے بعد کہا:یہ بچہ تم میں سے کس سے تعلق رکھتا ہے؟لوگوں نے ابوطالب کی طرف اشارہ کیا، انهوں نے بتایا کہ یہ میرا بھتیجا ہے۔
” بحیرا“نے کہا: اس بچہ کا مستقبل بہت درخشاں ہے، یہ وہی پیغمبر ہے کہ جس کی نبوت ورسالت کی آسمانی کتابوں نے خبردی ہے اور میں نے اسکی تمام خصوصیات کتابوں میں پڑھی ہیں۔ ابوطالب اس واقعہ اور اس جیسے دوسرے واقعات سے پھلے دوسرے قرائن سے بھی پیغمبر اکرم کی نبوت اور معنویت کو سمجھ چکے تھے۔
‌اہل سنت کے عالم شھرستانی (صاحب ملل ونحل) اور دوسرے علماء کی نقل کے مطابق: ”ایک سال آسمان مکہ نے اپنی برکت اھل مکہ سے روک لی اور سخت قسم کی قحط سالی نے لوگوں کوگھیر لیاتو ابوطالب نے حکم دیا کہ ان کے بھتیجے محمدؐ کو جو ابھی شیر خوارہی تھے لایاجائے، جب بچے کو اس حال میں کہ وہ ابھی کپڑے میں لپیٹا ہوا تھا انہیں دیا گیا تو وہ اسے لینے کے بعد خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہوگئے اور تضرع وزاری کے ساتھ اس طفل شیر خوار کو تین مرتبہ اوپر کی طرف بلند کیا اور ہر مرتبہ کہتے تھے، پروردگارا! اس بچہ کے حق کا واسطہ ہم پر برکت والی بارش نازل فرما۔
‌کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ افق کے کنارے سے بادل کا ایک ٹکڑا نمودار ہوا اور مکہ کے آسمان پر چھا گیا اور بارش سے ایسا سیلاب آیا کہ یہ خوف پیدا ہونے لگا کہ کہیں مسجد الحرام ہی ویران نہ ہوجائے “۔اس کے بعد شھرستانی لکھتا ہے کہ یھی واقعہ جوابوطالب کی اپنے بھتیجے کے بچپن سے اس کی نبوت ورسالت سے آگاہ ہونے پر دلالت کرتا ہے ان کے پیغمبر پر ایمان رکھنے کا ثبوت بھی ہے اور ابوطالب نے بعد میں اشعار ذیل اسی واقعہ کی مناسبت سے کہے تھے: و ابیض یستسقی الغمام بوجہہ ثمال الیتامی عصمة الارامل ” وہ ایسا روشن چھرے والا ہے کہ بادل اس کی خاطر سے بارش برساتے ہیں وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیواؤں کے محافظ ہیں “
‌یلوذ بہ الھلاک من آل ھاشم
فہم عندہ فی نعمة و فواضل
” بنی ہاشم میں سے جوچل بسے ہیں وہ اسی سے پناہ لیتے ہیں اور اسی کے صدقے میں نعمتوں اور احسانات سے بھرہ مند ہوتے ہیں ،،
‌ومیزان عدلہ یخیس شعیرة
‌ووزان صدق وزنہ غیر ھائل
” وہ ایک ایسی میزان عدالت ہے کہ جو ایک جَوبرابر بھی ادھرادھر نہیں کرتا اور درست کاموں کا ایسا وزن کرنے والا ہے کہ جس کے وزن کرنے میں کسی شک وشبہ کا خوف نہیں ہے قحط سالی کے وقت قریش کا ابوطالب کی طرف متوجہ ہونا اور ابوطالب کا خدا کو آنحضرت کے حق کا واسطہ دینا شھرستانی کے علاوہ اور دوسرے بہت سے عظیم مورخین نے بھی نقل کیا ہے۔
‌۲۔اس کے علاوہ مشہور اسلامی کتابوں میں ابوطالب کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جو ہماری دسترس میں ہیں ان میں سے کچھ اشعار ہم ذیل میں پیش کررہے ہیں:
‌واللّٰه ان یصلوالیک بجمعہم
‌حتی اوسدفی التراب دفینا
”اے میرے بھتیجے خدا کی قسم جب تک ابوطالب مٹی میں نہ سوجائے اور لحد کو اپنا بستر نہ بنالے دشمن ہرگز ہرگز تجھ تک نہیں پہنچ سکیں گے“
‌فاصدع بامرک ماعلیک غضاضتہ
‌وابشربذاک وقرمنک عیونا
”لہٰذا کسی چیز سے نہ ڈراور اپنی ذمہ داری اور ماموریت کا ابلاع کر، بشارت دے اور آنکھوں کو ٹھنڈا کر“۔ ودعوتنی وعلمت انک ناصحی ولقد دعوت وکنت ثم امینا ”تونے مجھے اپنے مکتب کی دعوت دی اور مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تیرا ہدف ومقصد صرف پندو نصیحت کرنا اور بیدار کرنا ہے، تو اپنی دعوت میں امین اور صحیح ہے“
‌ولقد علمت ان دین محمد
‌من خیر ادیان البریة دیناً

میں یہ بھی جانتا ہوں کہ محمد کا دین ومکتب تمام دینوں اور مکتبوں میں سب سے بہتردین ہے“۔ اور یہ اشعار بھی انہوں نے ہی ارشاد فرمائے ہیں :

الم تعلمواانا وجدنا محمد اً
‌رسولا کموسیٰ خط فی اول الکتب

اے قریش ! کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) موسیٰ (علیہ السلام) کی مثل ہیں اور موسیٰ علیہ السلام کے مانند خدا کے پیغمبر اور رسول ہیں جن کے آنے کی پیشین گوئی پھلی آسمانی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے اور ہم نے اسے پالیاہے۔
‌وان علیہ فی العباد محبة
‌ولاحیف فی من خصہ اللہ فی الحب
” خدا کے بندے اس سے خاص لگاؤ رکھتے ہیں اور جسے خدا وندمتعال نے اپنی محبت کے لئے مخصوص کرلیا هو اس شخص سے یہ لگاؤبے موقع نہیں ہے۔
‌ابن ابی الحدید نے جناب ابوطالب کے کافی اشعار نقل کرنے کے بعد (کہ جن کے مجموعہ کو ابن شھر آشوب نے ” متشابہات القرآن“ میں تین ہزار اشعار کہا ہے) کہتا ہے: ”ان تمام اشعار کے مطالعہ سے ہمارے لئے کسی قسم کے شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ ابوطالب اپنے بھتیجے کے دین پر ایمان رکھتے تھے“۔
۳۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بہت سی ایسی احادیث بھی نقل ہوئی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ان کے فدا کار چچا ابوطالب کے ایمان پر گواہی دیتی ہیں منجملہ ان کے کتاب ” ابوطالب مومن قریش“ کے مولف کی نقل کے مطابق ایک یہ ہے کہ جب ابوطالب کی وفات ہوگئی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی تشیع جنازہ کے بعد اس سوگواری کے ضمن میں جو اپنے چچا کی وفات کی مصیبت میں آپ کررہے تھے آپ یہ بھی کہتے تھے:ھائے میرے بابا! ھائے ابوطالب ! میں آپ کی وفات سے کس قدر غمگین ہوں کس طرح آپ کی مصیبت کو میں بھول جاؤں، اے وہ شخص جس نے بچپن میں میری پرورش اور تربیت کی اور بڑے ہونے پر میری دعوت پر لبیک کہی ، میں آپ کے نزدیک اس طرح تھا جیسے آنکھ خانہ چشم میں اور روح بدن میں“۔نیز آپ ہمیشہ یہ کیا کرتے تھے :” مانالت منی قریش شیئًااکرھہ حتی مات ابوطالب
”اہل قریش اس وقت تک کبھی میرے خلاف ناپسندیدہ اقدام نہ کرسکے جب تک ابوطالب کی وفات نہ ہوگئی“۔
‌۴۔ ایک طرف سے یہ بات مسلم ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ابوطالب کی وفات سے کئی سال پہلے یہ حکم مل چکا تھا کہ وہ مشرکین کے ساتھ کسی قسم کا دوستانہ رابطہ نہ رکھیں ،اس کے باوجود ابوطالب کے ساتھ اس قسم کے تعلق اور مہرو محبت کا اظہار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انہیں مکتب توحید کا معتقد جانتے تھے، ورنہ یہ بات کس طرح ممکن ہوسکتی تھی کہ دوسروں کو تو مشرکین کی دوستی سے منع کریں اور خود ابوطالب سے عشق کی حدتک مہرومحبت رکھیں۔
‌۵۔ان احادیث میں بھی کہ جو اہل بیت پیغمبر کے ذریعہ سے ہم تک پہنچی ہیں حضرت ابوطالب کے ایمان واخلاص کے بڑی کثرت سے مدارک نظر آتے ہیں، جن کا یہاں نقل کرنا طول کا باعث ہوگا، یہ احادیث منطقی استدلالات کی حامل ہیں ان میں سے ایک حدیث چوتھے امام علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے اس میں امام علیہ السلام نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا ابوطالب مومن تھے؟ جواب دینے کے بعد ارشاد فرمایا:ان ھنا قوماً یزعمون انہ کافر ، اس کے بعد فرمایاکہ: ” تعجب کی بات ہے کہ بعض لوگ یہ کیوں خیال کرتے ہیں کہ ابوطالب کا فرتھے۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ وہ اس عقیدہ کے ساتھ پیغمبر اور ابوطالب پر طعن کرتے ہیں کیا ایسا نہیں ہے کہ قرآن کی کئی آیات میں اس بات سے منع کیا گیا ہے (اور یہ حکم دیا گیا ہے کہ ) مومن عورت ایمان لانے کے بعد کافر کے ساتھ نہیں رہ سکتی اور یہ بات مسلم ہے کہ فاطمہ بنت اسدرضی اللہ عنھا سابق ایمان لانے والوں میں سے ہیں اور وہ ابو طالب کی زوجیت میں ابو طالب کی وفات تک رہیں۔

https://erfan.ir/urdu/48036.html

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button