محافلمقالات قرآنیمناقب امیر المومنین عمناقب و فضائل

علی علیہ السلام ہادی امت اور علی علیہ السلام محبوب عالم

وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ اٰیَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُنۡذِرٌ وَّ لِکُلِّ قَوۡمٍ ہَادٍ ﴿الرعد:۷﴾
اور جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے وہ کہتے ہیں: اس شخص پر اپنے رب کی طرف سے کوئی نشانی نازل کیوں نہیں ہوتی؟ آپ تو محض تنبیہ کرنے والے ہیں اور ہر قوم کا ایک رہنما ہوا کرتا ہے۔
تفسیر آیت
نشانی سے ان کافروں کی مراد ایک ایسا معجزہ تھا جس سے ان کو یقین آجائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رسول برحق ہیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرآن جیسے علمی و فکری دستور حیات کے معجزے کو تسلیم کرنے کے لیے آمادہ نہ تھے۔ وہ ایسے معقول معجزوں کی جگہ محسوس معجزے مانگتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے جواب میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب کر کے فرمایا: آپؐ کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ ان کفار کو متنبہ اور برے انجام سے خبردار کریں۔ اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ آپؐ کی ذمہ داری نہیں ہے کہ ان کے ہر نامعقول مطالبے کا جواب دیں۔ یہ اللہ کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی ہدایت کا سامان فراہم اور حجت پوری کرے۔ اس کے بعد جس کا جی چاہے قبول کرے اور جس کا جی چاہے قبول نہ کرے۔
ابن عباس روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ اپنے سینے پر رکھ کر فرمایا:
انا المنذر و لکل قوم ھاد و او مأ بیدہ الی منکب علی ابن ابی طالب فقال انت الھادی یا علی بک یھتدی المھتدون بعدی ۔ (بحار الانوار ۵۳: ۳۹۹)
انذار کرنے والا میں ہوں اور ہر قوم کے لیے ایک ہادی ہوتا ہے۔ اپنا دست مبارک علی علیہ السلام کے دوش پر رکھ کر فرمایا: اے علیؑ! میرے بعد تیرے ذریعے ہدایت پانے والے ہدایت حاصل کریں گے۔
مندرجہ بالا و دیگر لفظوں میں اس حدیث کو ان اصحاب نے روایت کیا ہے: حضرات ابن عباس، ابوہریرہ، ابو برزہ اسلمی، جابر بن عبد اللّٰہ انصاری، ابو فروہ السلمی، یعلی بن مرۃ، عبداللّٰہ بن مسعود اور سعد بن معاذ ۔
ملاحظہ ہو الحاکم: المستدرک علی الصحیحین ۳: ۱۲۹ اور کہا: یہ حدیث صحیح السند ہے۔ الحسکانی: شواہد التنزل ۱: ۲۸۳، الرازی: التفسیر الکبیر ۱۹:۱۴، الطبری: التفسیر ۱۳: ۶۳، الوسی: روح المعانی ۱۳: ۱۰۸
سید ابن طاؤس علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب سعد السعود صفحہ ۹۹ میں لکھا ہے:
محمد بن العباس بن مروان نے اپنی کتاب میں اس حدیث کو پچاس طرق سے نقل کیا ہے۔
آلوسی اس حدیث اور اپنے علماء کی تاویل و توجیہ نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
بہتر یہ ہے کہ توجیہ و تاویل کی نوبت نہ آنے دی جائے اور اصل حدیث کا انکار کیا جائے۔۔۔۔ و لا نعبأ بما قیل و نکتفی بمنع صحۃ الخبر ۔
اقول: نعم الانکار للمنکر اسھل فی الدنیا واصعب فی الآخرۃ ۔
اہم نکات
زمین حجت خدا سے کبھی خالی نہیں ہو سکتی

وَّ لِکُلِّ قَوۡمٍ ہَادٍ ۔۔۔۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 4 صفحہ 271)
علی علیہ السلام محبوب عالم
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجۡعَلُ لَہُمُ الرَّحۡمٰنُ وُدًّا﴿مریم:۹۶﴾
جو لوگ ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں ان کے لیے رحمن عنقریب دلوں میں محبت پیدا کرے گا۔
تفسیر آیات
کائنات میں کوئی فرد اللہ کی بندگی سے بالاتر نہیں ہے۔ البتہ اس بندگی میں مراتب ضرور ہیں۔ جب بندہ ایمان و عمل صالح کے ایک خاص مقام پر فائز ہو جاتا ہے تو اللہ کے نزدیک قرب و منزلت کے علاوہ لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک مقام پیدا فرماتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لیے ان لفظوں میں دعا کی:
فَاجۡعَلۡ اَفۡئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہۡوِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ ۔ (۱۴ ابراہیم: ۳۷ )
(اے ہمارے پروردگار) لہٰذا تو کچھ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے۔
شیعہ سنی مصادر میں یہ روایت بکثرت موجود ہے کہ یہ آیت مولائے متقیان حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی۔ اس کے درج ذیل اصحاب راوی ہیں:
۱۔ عبد اللہ بن عباسؓ
۲۔ ابو سعید الخدریؓ
۳۔ جابر بن عبداللہؓ
۴۔ براء بن عازبؓ
۵۔ جد رافعؓ
۶۔ محمد بن الحنفیۃؓ
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: شواہد التنزیل ۱: ۵۶، ۴۷۴، ۴۶۴، ۴۶۸۔ خصائص الائمۃ صفحہ ۷۱ تاویل الآیات ۳۰۲۔ الدر المنثور ۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 5 صفحہ 147)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button