محافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی حیات طیبہ کا اجمالی تعارف

کتاب”تاریخ الاسلام جلد:04“ سے اقتباس
مؤلف: مرکز تحقیقات اسلامی مترجم: معارف اسلام پبلشرز
ولادت
۲۰ جمادی الثانی بروز جمعہ، بعثت پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پانچویں سال خانہ وحی میں رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دختر گرامی حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) نے ولادت پائی۔آپ کی والدہ ماجدہ جناب خدیجہؑ بنت خویلد تھیں۔
جناب خدیجہؑ قریش کے ایک شریف و نجیب خاندان میں پیدا اور زیور تربیت سے آراستہ ہوئیں۔ان کے خاندان کے تمام افراد حلیم و اندیشمند اور خانہ کعبہ کے محافظ تھے۔ جب یمن کے بادشاہ” تبّع“نے حجراسود کو مسجد الحرام سے نکال کر یمن لے جانے کا ارادہ کیا توجناب خدیجہ کے والد خویلد دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے آپ کی جنگ اور فداکاریوں کے نتیجہ میں “ تبّع” اپنے ارادہ کوعملی جامہ نہ پہنا سکا۔
جناب خدیجہ کے چچا ” ورقہ“ بھی مکہ کے ایک دانش مند اور علم دوست شخص تھے۔ تاریخ کے مطابق جناب خدیجہ پر انکا بڑا اثر تھا۔
والد کے ساتھ
حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا)کی ولادت سے پیغمبرؐوخدیجہ کا گھر اور بھی زیادہ مہر ومحبت کا مرکز بن گیا جس زمانہ میں پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکرم مکہ میں بڑے رنج و الم میں مبتلا تھے ، اس زمانہ میں پیغمبرِاکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ؐ کی بیٹی ،نسیم آرام بخش کی طرح ماں باپ کی تھکان کو صبح و شام اپنی محبت سے دور کرتی تھیں۔ اور رسولؐ اکرم کی پر مشقت زندگی کے رنج و غم کے دنوں میں تسکین بخش تھیں۔ حضرت فاطمہ زہرا ؑ کا بچپن، صدر اسلام کے بحرانی اوربہت ہی خطرناک حالات میں گذرا جبکہ رسولؐ خدا سخت مشکلات اور خطرناک حوادث سے دورچار تھے۔ آپؐ تن تنہا کفر و بت پرستی سے مقابلہ کرنا چاہتے تھے۔ چند سال تک آپ پوشیدہ طور پر تبلیغ کرتے رہے جب خدا کے حکم سے آپؐ نے کھلم کھلا دعوت اسلام کا آغاز کیا تودشمنوں کی اذیت اورایذا رسانی نے بھی شدت اختیار کرلی۔
جب کفار نے یہ دیکھا کہ اذیت و آزار سے اسلام کی بڑھتی ہوئی ترقی کو نہیں روکا جاسکتا توانہوں نے ایک رائے ہوکر پیغمبرِاکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کو قتل کرڈالنے کا منصوبہ بنایا۔
رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی جان کے تحفظ کے لئے جناب ابوطالبؑ نے بنی ہاشم کے ایک گروہ کے ساتھ ”شعب ابی طالب“ نامی درّہ میں آنحضرتؐ کو منتقل کردیا۔ مسلمانوں نے تین سال تک اس تپتے ہوئے درّہ میں نہایت تنگی ، تکلیف اوربھوک کے عالم میں زندگی گذاری اور اسی مختصر غذا پر گذارہ کرتے رہے جو پوشیدہ طور پروہاں بھیجی جاتی تھی۔
حضرت فاطمہ زہراء ؑ تقریباً دوسال تک کفار قریش کے اقتصادی بائیکاٹ میں اپنے پدر عالیقدر کے ساتھ رہیں اور تین سال تک ماں باپ اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ بھوک اور سخت ترین حالات سے گذریں۔
۱۰ بعثت میں ” شعب“ سے نجات کے تھوڑے دنوں بعد آپ اس ماں کی شفقتوں سے محروم ہوگئیں جنہیں دس سال کی مجاہدت کے رنج و غم خصوصاً اقتصادی نا کہ بندی کی دشواریوں نے رنجور کردیا تھا۔
ماں کا اٹھ جانا ہر چند کہ جناب فاطمہ زہراءؑ کے لئے رنج آور اور مصیبت کا باعث تھا اور آپ کی حساس روح کو اس مصیبت نے افسردہ کردیا تھا لیکن اس کے بعد آپ کو پیغمبرِاکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے دامن تربیت میں رہنے کازیادہ موقع ملا۔
۱۰ بعثت میں جناب ابوطالب اورجناب خدیجہ کی وفات نے روح پیغمبرؐ پر ایسا اثر کیا کہ آپؐ نے اس سال کا نام ”عام الحزن“( غم واندوہ کا سال) رکھا۔ پیغمبرؐ کے ان دونوں بڑے حامیوں کے اٹھ جانے سے دشمن کی اذیت اور آزار رسانی میں شدت پیدا ہوگئی ، کبھی لوگ پتھر مارتے کبھی آپؐ کے روئے مبارک پر مٹی ڈال دیتے ، کبھی ناسزا کلمات کہتے اکثر اوقات آپ نہایت خستگی کے عالم میں گھر کے اندر داخل ہوتے۔
لیکن یہ فاطمہؑ تھیں جو اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے آپؐ کے سر اور چہرہ اقدس سے گرد جھاڑتیں، نہایت ہی پیار و محبت سے پیش آتیں اور پیغمبرِاکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ؐ کے لئے آرام اور حوصلہ کا باعث بنتیں ، جناب فاطمہؑ لوگوں کے غصہ اور بے مہری کی جگہ اپنے باپ سے مہر و محبت سے اس طرح پیش آتی تھیں کہ آپؐ کے والدگرامی نے آپ کو ” أُم أَبیہا“ کا لقب دیا۔
ہجرت کے کچھ دنوں بعد آٹھ سال کی عمر میں حضرت علیؑ کے ساتھ مکہ سے مدینہ تشریف لائیں وہاں بھی باپ کے ساتھ رہیں۔ پیغمبرِاکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ؐ کی زندگی کے مشکلات میں حضرت فاطمہؑ برابر شریک رہیں ، جنگ احد میں جنگ کے خاتمہ کے بعد جناب فاطمہؑ مدینہ سے پیغمبرؐ کے خیمہ گاہ کی طرف دوڑتی ہوئی پہنچیں اور باپ کے خون آلود چہرہ کو دھویا اور آنحضرتؐ کے زخموں کا مداوا کرنے لگیں۔
جناب فاطمہؑ، اسلام اور قرآن کے ساتھ ساتھ پروان چڑھیں۔ آپ نے وحی ونبوت کی فضا میں پرورش پائی۔آپ کی زندگی پیغمبرؐ کی زندگی سے جدا نہیں ہوئی یہاں تک کہ شادی کے بعد بچوں کے ساتھ بھی آپ کا گھر پیغمبرؐ کے گھر سے متصل تھا اور پیغمبرؐ خدا کی ہر جگہ سے زیادہ فاطمہؑ کے گھررفت و آمد تھی۔ ہر صبح مسجد جانے سے پہلے آپؐ فاطمہؑ کے دیدار کوتشریف لے جاتے تھے۔
پیغمبرؐ کے خدمتگار ”ثومان“ بیان کرتے ہیں کہ جب رسولؐ اکرم سفر پر جانا چاہتے تو آپؐ سب سے آخر میں فاطمہؐ سے وداع ہوتے تھے اور جب سفر سے واپس آتے تھے تو سب سےپہلے فاطمہؑ کے پاس جاتے تھے۔
آخر کار پیغمبرِاکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے آخری لمحات میں بھی فاطمہؑ ان کی بالین پر موجود گریہ فرمارہی تھیں، پیغمبرؐ ان کو یہ کہہ کردلا سہ دے رہے تھے کہ وہ ہر ایک سے پہلے اپنے باپ سے ملاقات کریں گی۔
حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی شادی
۳ھ میں پیغمبر اکرمؐ نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام)علیؑ سے فاطمہؑ کی شادی کردی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ خوشگوار رشتہ انہیں کے لائق تھا۔ اس لئے کہ معصومینؑ کی تصریح کے مطابق حضرت علیؑ کے علاوہ کوئی بھی فاطمہؑ کا کفو اور ہمسر نہیں ہوسکتاتھا۔
اس شادی کی خصوصیتوں میں سے یہ بات بھی ہے جو ان دونوں بزرگ ہستیوں کی بلند منزلت کا ثبوت ہے کہ پیغمبرِاکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ؐ نے قریش کے صاحب نام افراد، بڑی شخصیتوں اور ثروت مندوں کی خواستگاری کوقبول نہیں کیا آپؐ فرماتے تھے کہ فاطمہؑ کی شادی کا مسئلہ حکم خدا سے متعلق ہے۔
رسولؐ خدا نے فاطمہ زہراءؑ کو علیؑکے لئے روکے رکھا تھا اورآپؑ خدا کی طرف سے مامور تھے کہ نور کونور سے ملا دیں۔
اسی وجہ سے جب حضرت علیؑ نے رشتہ مانگا توپیغمبرِاکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ؑ نے قبول فرمایا اور کہا: ” تمہارے آنے سے پہلے فرشتہ الہی نے مجھے حکم خد اپہنچایا ہے کہ فاطمہؑ کی شادی علیؑ سے کردو۔“
رسول اکرمؐ نے جناب فاطمہؑ کی رضایت لینے کے بعدحضرت علیؑ سے پوچھا کہ شادی کرنے کے لئے تمہارے پاس کیا ہے ؟ آپؑ نے عرض کیا :” ایک ذرّہ ، ایک شمشیر اور پانی لانے کے لئے ایک شتر کے علاوہ میرے پاس اور کچھ نہیں ہے۔ ” علیؑ نے پیغمبرؐ کے حکم کے مطابق ذرہ بیچ دی اور اس کی قیمت سے ، جو تقریباً پانچ سودرہم تھی، جہیز کا معمولی سامان خریدا گیا ، ضیافت بھی ہوئی اور مسلمانوں کوکھانا بھی کھلایا گیا۔ مسرت و شادمانی اور دعائے پیغمبرؐ کے ساتھ فاطمہؑ کے گھر لے جایا گیا۔
فاطمہ سلام اللہ علیہا علی علیہ السلام کے گھر میں
حضرت فاطمہ زہراءؑ باپ کے گھر سے شوہر کے گھر اور مرکز نبوّت سے مرکز ولایت میں منتقل ہوگئیں۔ اور اس نئے مرکز میں فاطمہ کے کاندھوں پر فرائض کا گراں بار آگیا۔
آپ چاہتی تھیں کہ اس مرکز میں ایسی زندگی گذاریں کہ جو ایک مسلمان عورت کے لئے مکمل نمونہ بن جائے تا کہ آئندہ زمانہ میں ساری دنیا کی عورتیں آپ (س) کے وجود اور آپؑ کی روش میں حقیقت ونورانیت اسلام دیکھ لیں۔
گھر کے محاذ میں جناب فاطمہؑ کے کردار کے تمام پہلوؤں کو پیش کرنے کے لئے ایک مفصل کتاب کی ضرورت ہے لیکن اختصار کے پیش نظر یہاں چند چیزوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
الف۔گھر کا انتظام
حضرت فاطمہ زہراءؑ اگر چہ بڑے باپ اور عظیم پیغمبرؐ کی نور چشم تھیں اورکائنات میں ان سے بڑی شریف زادی کا وجود نہیں تھا لیکن ان باتوں کے باوجود آپ گھر میں کام کرتی تھیں اور گھر کے دشوار کاموں سے بھی انکار نہیں کرتی تھیں۔
گھر کے اندر آپ اتنی زحمت اٹھاتی تھیں کہ علیؑ بھی ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے اور ان کی تعریف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس سلسلہ میں حضرت علی (س) نے اپنے ایک صحابی سےفرمایا:کہ تم چاہتے ہو کہ میں اپنی اور فاطمہؑ کی حالت تم کو بتاؤں ؟
آپؑ گھر کے لئے اتنا پانی بھر کر لاتی تھیں کہ آپ کے جسم پر مشک کا نشان پڑجاتا تھا اور اسی قدر چکیاں چلاتی تھیں کہ ہاتھ میں چھالے پڑجاتے تھے گھر کو صاف ستھرا رکھنے ، روٹی اور کھانا پکانے میں اتنی زحمت برداشت کرتی تھیں کہ آپ کا لباس گرد آلود ہوجاتا تھا۔
جناب سیدہؑ نے گھر کو ، حضرت علیؑ اور اپنے بچوں کے لئے مرکز آسائشے بنادیاتھا اس حد تک کہ جب حضرت علیؑ پر رنج و غم ، دشواریوں اور بے سروسامانیوں کا حملہ ہوتا تھا تو آپؑ گھر آجاتے اور تھوڑی دیر تک جناب فاطمہؑسے گفتگو کرتے تو آپؑ کے دل کو اطمینان محسوس ہونے لگتا۔
امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ علیؑ گھر کی ضرورت کے لئے لکڑی اور پانی مہیا کرتے گھر میں جھاڑو دیتے اور فاطمہؑ چکی پیستیں اور آٹاگوندھ کر روٹی پکاتی تھیں۔

ب۔ شوہر کی خدمت
جناب فاطمہؑ وہ بی بی ہیں جنہوں نے غریب لیکن انتہائی با فضیلت انسان کے ساتھ عقد فرمایا۔ انہوں نے ابتدا ہی سے اسلام اور اپنے شوہر کے حساس حالات کو محسوس کرلیا تھا ۔ وہ جانتی تھیں کہ اگر علیؑ کی تلوار نہ ہوتی تو اسلام کو اتنی پیش قدمی حاصل نہ ہوتی او ریہ بھی جانتی تھیں کہ اسلام کا بہادر سپہ سالار اس صورت میں میدان جنگ میں کامیاب ہوسکتا ہے جب گھر کے داخلی حالات کے اعتبار سے اس کی فکر آزاد اور وہ بیوی کی مہر و محبت اور تشویق سے مالامال ہو۔ جب علیؑ میدان جنگ سے تھک کر واپس آتے تھے تو ان کو مکمل طور پر بیوی کی مہربانیاں اور محبتیں ملتی تھیں۔ حضرت فاطمہؑ انکے جسم کے زخموں کی مرحم پٹی کرتیں ، اور ان کے خون آلود لباس کو دھوتی تھیں۔ چنانچہ جب حضرت علیؑ جنگ احد سے واپس لوٹے تو انہوں نے اپنی تلوار فاطمہؑ کودی اور فرمایا اس کا خون دھوڈالو۔
آپ زندگی کی مشقتوں میں حضرت علیؑ کی ہم فکر اور ان کی شانہ بشانہ تھیں۔ آپ ان کےکاموں میں ان کی مدد کرتیں ، ان کی تعریف اور تشویق فرماتیں ، ان کی فداکاری اور شجاعت کی ستائش کرتیں اور ان کی کوششوں اور زحمتوں کے سلسلہ میں بڑی فرض شناس تھیں۔ پوری زندگی میں کوئی موقعہ بھی ایسا نہیں آیاکہ جس میں آپ نے اپنے شوہر سے دل توڑنے والی کوئی بات کہی ہو یا ان کے دل کورنج پہنچایا ہو۔ بلکہ ہمیشہ آپ اپنی بے لاگ محبت و عنایت سے ان کی دکھی روح اور تھکے ماندہ جسم کو تسکین دیتی رہی ہیں۔ حضرت علیؑ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں :
”جب میں گھر آتا تھا اورمیری نظر فاطمہ زہرا پر پڑتی تو میرا تمام غم و غصہ ختم ہوجاتا تھا“
جب آنحضرتؐ نے علیؑ سے سوال کیا تھا کہ آپ نے”فاطمہؑ کو کیسا پایا؟“ تو آپؑ نے جواب میں فرمایا تھا کہ ”فاطمہ اطاعت خداوند عالم میں میری بہترین مددگار ہیں۔“
ج۔ تربیت اولاد
جناب فاطمہؑ کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ،بچوں کی پرورش اور ان کی تربیت تھی۔ آپ کو خداوند عالم نے پانچ اولادیں عطا کی تھیں ، حسنؑ ، حسینؑ ، زینبؑ ، ام کلثومؑ اور محسنؑ۔ پانچویں فرزند جن کا نام محسنؑ تھا، وہ سقط ہوگئے تھے۔ آپ کے تمام بچے پاکباز ، با اخلاص اورخدا کے مطیع تھے۔ جناب فاطمہؑ نے ایسی اولاد کی پرورش کی کہ جو سب کے سب اسلام کے محافظ اور دین کی اعلی اقدار کے نگہبان تھے۔ کہ جنھوں نے اس راستہ میں اپنی جان دینے کی حد تک مقاومت کا مظاہرہ کیا۔ ایک نے صلح کے ذریعہ اور دوسرے نے اپنے خونین انقلاب سے نہال اسلام کی آبیاری کی اور دین اسلام کو بچالیا۔

ان کی بیٹیوں نے بھی خاص کر واقعہ کربلا میں اپنے بھائیوں کی آواز اور امام حسینؑ کے پیغام کو کوفہ ، شام اور تمام راستوں میں دوسروں تک پہنچایا۔
جناب فاطمہ کی معنوی شخصیت
تمام عورتوں کی سردار، حضرت فاطمہ کی معنوی شخصیت ہمارے ادراک اور ہماری توصیف سے بالاتر ہیں۔ یہ عظیم خاتون کہ جو معصومین ؑکے زمرہ میں آتی ہیں ان کی اور ان کے خاندان کی محبت و ولایت دینی فریضہ ہے۔ اور ان کاغصہ اور ناراضگی خدا کا غضب اور اسکی ناراضگی شمار ہوتی ہےان کی معنوی شخصیت کے گوشے ہم خاکیوں کی گفتار و تحریر میں کیونکر جلوہ گر ہوسکتے ہیں ؟
اس بناء پر ، فاطمہؑ کی شخصیت کومعصوم رہبروں کی زبان سے پہچاننا چاہئے۔ اور اب ہم آپ کی خدمت میں جناب فاطمہ کے بارے میں ائمہ معصومینؑ کے چند ارشادات پیش کرتے ہیں :
1۔ پیغمبرِاکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: جبرئیل نازل ہوئے اورانہوں نے بشارت دی کہ” حسن ؑ و حسین ؑ جوانان جن کے سردار ہیں اور فاطمہ ؑ جنت کے عورتوں کی سردار ہیں۔“ (امالی مفید ص 3)
2۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: دنیا کی سب سے برتر چار عورتیں ہیں: مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلد ، فاطمہ دختر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آسیہ دختر مزاحم (فرعون کی بیوی) ۔ (مناقب ابن شہر آشوب جلد3 ص 32)
3۔ آپ ؐنے یہ بھی فرمایا: ” خدا ، فاطمہ کی ناراضگی سے ناراض اور ان کی خوشی سے خوشنود ہوتا ہے” ۔ (کشف الغمہ جلد 1 ص 467)
4 ۔امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا:” اگر خدا ،امیرالمؤمنینؑ کوخلق نہ کرتا تو روئے زمین پر آپؑ کا کوئی کفو نہ ہوتا۔“(بحار جلد 43/19)
5 ۔امام جعفر صادق ؑسے سوال ہوا کہ : ” حضرت فاطمہ کا نام” زہرا“ یعنی درخشنده کیوں ہے؟ تو آپ ؑنے فرمایا کہ جب آپ محراب میں عبادت کے لئے کھڑی ہوتی تھیں تو آپ ؑکا نور اہل آسمان کو اسی طرح چمکتا ہوا دکھائی دیتا تھا کہ جس طرح ستاروں کا نور ،زمین والوں کے لئے جگمگاتا ہے۔“ ( علل اشرائع مطبوعہ مکتبہ الداوری قم ص 18)
حضرت فاطمہ زہراءؑ سے پیغمبر اکرمؐ کی مہر و محبت:
جناب فاطمہ ؑ کے ساتھ پیغمبر اعظم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی مہر و محبت اتنی شدید تھی کہ اس کوپیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی زندگی کی تعجب خیز باتوں میں سمجھنا چاہئے۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام امور میں معیار حق اور میزان عدل و اعتدال تھے ان کی تمام حدیثیں اور ان کے تمام اعمال یہاں تک کہ تقریر پیغمبرؐ ( یعنی: ہر وه کام کہ جس کو دیکھ کر آپؐ اپنی خاموشی سے اس کی تصدیق کردیتے) بھی شریعت کا حصہ اور حجت ہے ، اور ضروری ہے کہ یہ چیزیں، ساری امت کے اعمال کا قیامت تک نمونہ قرار پائیں۔ اس نکتہ پر توجہ کر لینے کے بعد ،جناب فاطمہ زھرا ؑ کی معنوی منزلت اورکردارکی بلندی کو زیاده بہتر طریقہ سے سمجھا جاسکتا ہے ۔ اہلسنت منابع کی روشنی میں پیغمبرِاکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں اور بھی بیٹیاں تھیں ۔اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اپنے خاندان حتی غیروں کے ساتھ بھی بڑی مہربانی اور نیکی سے پیش آتے تھے لیکن فاطمہ زھرا ؑ سے آپؐکو خصوصی محبت تھی اور فرصت کے مختلف لمحات میں اس محبت کا صریحاً اعلان اور اس کی تاکید فرماتے تھے ۔ یہ اس بات کی سند ہے کہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) اور آنحضرتؐ کے گھرانے کی سرنوشت ،اسلام کے ساتھ ساتھ ہے اور پیغمبرؐ اور حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا تعلق صرف ایک باپ اوربیٹی کا ہی نہیں ہے ۔ بلکہ پوری کائنات کے لئے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی عملی تبلیغ کا شبعہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی عملی سیرت سے ہی مکمل ہوتا ہے۔ اس مقام پر پیغمبرؐ کی حضرت فاطمہ ؑسے مہر و محبت کے چند نمونوں کا ذکر کردینا مناسب ہے ۔ یہ نمونے ان نمونوں کے علاوہ ہوں گے کہ جو پہلے بیان ہوچکے ہیں۔
1۔امام محمد باقر (علیہ السلام) اور امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ؛ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ سونے سے پہلے فاطمہ (سلام اللہ علیہا)کے چہرے کا بوسہ لیتے ، اپنے چہره کو آپ کے سینہ پر رکھتے اور فاطمہ(سلام اللہ علیہا)کیلئے دعا فرماتے۔
2۔پیغمبرِاکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر فرمایا: ” جو انھیں پہچانتا ہے وه تو پہچانتا ہے اور جو نہیں پہچانتا (وه پہچان لے کہ) یہ فاطمہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی ہیں ، یہ میرے جسم کا ٹکر ااور میرا قلب و روح ہیں۔ جو ان کو ستائے گا وه مجھے ستائے گا اور جو مجھے ستائے گا وه خدا کو اذیت دے گا ۔”
3 ۔امام جعفر صادق ؑفرماتے ہیں : "رسول خدا،(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)فاطمہ کو بوسہ دیتے تھے ، جناب عائشہ نے اعتراض کیا ،تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے جواب دیا ، میں جب معراج پر گیا اور جنت میں پہنچا تو میں نے طوبی کے پھل کھائے اور اس سے نطفہ پیدا ہوا ۔ اور جب میں زمین پر پلٹ کر آیا اور خدیجہ ؑ سے ہمبستر ہوا تو فاطمہ کا حمل قرار پایا۔ اس لئے جب میں فاطمہ کو بوسہ لیتا ہوں تو مجھے ان سے شجره طوبی کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔“
ایمان و عبادت فاطمہ(سلام اللہ علیہا):
پیغمبرِاکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کے ایمان کے بارے میں فرمایا کہ : ” ان کے دل کی گہرائی اور روح میں ایمان اس طرح نفوذ کئے ہوئے ہے کہ عبادت خدا کیلئے وه اپنے آپ کو تمام چیزوں سے جدا کر لیتی ہیں ۔ امام حسن مجتبی ؑفرماتے ہیں کہ میں نے اپنی والده ماجده، حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کو دیکھا کہ شب جمعہ محراب میں سپیده سحری تک عبادت’ رکوع و سجود میں مشغول رہتی تھیں۔ میں نے سنا کہ آپ صاحب ایمان مردوں اور عورتوں کے لئے تودعا کرتی تھیں۔ مگر اپنے لئے کوئی دعا نہ مانگتی تھیں۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ جس طرح آپ دوسروں کے لئے دعا کرتی ہیں ویسے ہی اپنے لئے دعا کیوں نہیں فرماتیں؟ فرمانے لگیں میرے لال، پہلے ہمسایہ پھر اپنا گھر ۔حسن بصری کہا کرتے تھے کہ امت اسلامی میں فاطمہ ؑ سے زیاده عبادت کرنیوالی ،کوئی اور پیدا نہیں ہوا ۔وه عبادت حق تعالی میں اس قدر کھڑی رہتی تھیں کہ ان کے پائے مبارک ورم کر جاتے تھے ۔
فاطمہ زہراءؑ باپ کے بعد
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وفات کے وقت ان کا سراقدس حضرت علیؑ کی گود میں تھا اور حضرت فاطمہ ؑ اور حسن و حسین آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے چہره اقدس کو دیکھ دیکھ کر رو رہے تھے، آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی آنکھیں بند اور زبان حق خاموش ہوچکی تھی اور روح عالم ملکوت کو پرواز کر چکی تھی، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی رحلت کے سبب، حضرت فاطمہ زہراء ؑ پر سارے جہاں کا غم و اندوه ٹوٹ پڑا، فاطمہؑ جنہوں نے اپنی عمر کو مصیبت و آلام میں گذارا تھا اور تنہا انکی دلی مسرت باپ کا وجود تھا اس تلخ حادثہ کے پیش آنے کے بعد آپکی سب امیدیں اور آرزوئیں تمام ہوگئیں۔ ”سقیفہ بنی ساعده” میں مسلمانوں کے ایگ گروه کے اجتماع کی خبر ابھی رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جسم اقدس زمین پرہی تھا کہ حضرت ابوبکر کی خالفت و جانشینی کی تعیین کیلئے لوگوں کے اجتماع سے فاطمہؑ کے ذہن کو جھٹکا لگا، اس غم و غصہ کی کیفیت میں تھکے ہوئے اعصاب کو چوٹ پہنچی۔ فاطمہ زھرا ؑ کہ جنہوں نے توحید و خداپرستی، مظلوم کے دفاع اور ظلم و ستم سے مقابلہ کرنے کے لئے تمام سختیوں، دشواریوں ، بھوک اور وطن سے دور ہوجانے کی مصیبت کو برداشت کیا تھا وه اس انحرافی روش کو برداشت نہ کرسکیں۔
حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کے مبارزات و مجاہدات:
فاطمہؑ اور علیؑ جب پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے کفن و دفن سے فارغ ہوئے اور مسئلہ خلافت کے سلسلہ میں انجام شده عمل سے دوچار ہوئے تو آپ لوگوں نے مدبرانہ اور زبردست مبارزه کا اراده کیا تاکہ اسلام کو ختم ہونے اور مٹ جانے کے خطره سے بچالیا جائے۔ ان کے مبارزات کے چند مراحل ،ملاحظہ ہوں۔
پہلا مرحلہ : حضرت علی (سلام اللہ علیہا) نے یہ اراده کیا کہ خلیفہ وقت کی بیعت نہیں کریں گے اور اس طرح آپؑ نے سقیفہ کی انتخابی حکومت کی روش سے اپنی مخالفت کا اظہار کیا۔ جناب فاطمہ زہراء(سلام اللہ علیہا) نے بھی اس نظریہ کی تائید فرمائی اور اس بات کا مصمم اراده کر لیا کہ شوہر پر آنے والے ہر ممکنہ خطره اور حادثہ کا واقعی دفاع کریں گی۔ انہوں نے اپنی اس روش کے ذریعہ ثابت کردیا کہ تمام جنگیں تیر و تلوار سے ہی نہیں ہوتیں، سب سے پہلے اسلام کا اظہار کرنے والے شخص کے خاندان کے افراد اور قریبی افراد کی بے اعتنائی اور حکومت وقت کی تائید نہ کرنا اس کے غیر قانونی ہونے کی سب سے بڑی اور بہترین دلیل ہے۔ جناب فاطمہ جانتی تھیں کہ علیؑ کے حق کے دفاع میں اس طرح کی جنگ کا نتیجہ رنج اور تکلیف ہے۔ لیکن انہوں نے تمام دکھوں اور تکلیفوں کو خنده پیشانی سے قبول کیا اور اس مبارزہ کو آخری مرحلہ تک پہنچایا۔
دوسرا مرحلہ : فاطمہ و علی علیہما السلام،جناب امام حسن ؑ و حسین ؑ کی انگلی پکڑے ہوئے مدینہ کے بزرگوں اور نمایاں افراد کے پاس جاتے اور ان کو اپنی مدد کی دعوت دیتے اور انہیں پیغمبرِاکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصیتوں اور ارشادات کو یاد دالتے تھے۔ جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہافرماتی تھیں ”اے لوگو کیا میرے باپ نے علیؑ کو خلافت کے لئے معین نہیں فرمایا تھا؟ کیا تم ان کی قربانیوں کوبھول گئے؟ … کیا میرے باپ نے یہ نہیں فرمایا تھاکہ ، میں تمہارے درمیان سے جارہا ہوں مگر دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم ان سے تمسک کرو گے تو ہرگز گمراه نہ ہوگے ایک کتاب خدا ،اور دوسرے میرے اہل بیت ؑ ہیں، اے لوگو کیا یہ مناسب ہے کہ تم ہم کو تنہا چھوڑ دو اور ہماری مدد سے ہاتھ اٹھالو؟
تیسرا مرحلہ: زمام حکومت سنبھالنے کے بعد حضرت ابوبکر نے جناب فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) سے ”فدک ”لینے کا اراده کیا اور حکم دیا کہ فدک میں کام کرنے والوں کو نکال باہر کیا جائے اور ان کی بجائے دوسرے کارکنوں کو وہاں مقرر کر دیا ۔ فدک کو قبضہ میں کرنے کے وجوہات میں سے ایک وجہ یہ تھی کہ وه لوگ اس بات کو بخوبی جانتے تھے کہ حضرت علیؑ کے ذاتی فضائل و کمالات ،ان کاعلمی مقام اور ان کی فداکاریاں قابل انکار نہیں ہیں، اوران کے بارے میں پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وصیتیں بھی لوگوں کے درمیان مشہور ہیں اگر ان کی اقتصادی حالت بھی اچھی ہوگئی اور ان کے پاس پیسے آگئے تو ممکن ہے کہ ایک گروه ان کے ساتھ ہوجائے اور پھر خلافت کے لئے خطره پیدا ہوجائے۔ جب جناب فاطمہؑ ، حضرت ابوبکر کے اس اقدام سے مطلع ہوئیں تو انہوں نے سوچا کہ اگر اپنے حق کا دفاع نہ کیا تو لوگ یہ سمجھ بیٹھیں گے کہ حق سے چشم پوشی اور ظلم کے بوجھ کے نیچے دب جانا ایک پسندیده کام ہے۔ یا یہ تصور کریں گے کہ حق دوسرے فریق کے ساتھ ہے۔ جیسا کہ اس وقت ان تمام مبارزوں کے باوجود حضرت ابوبکر کے پیروکار، ابوبکر کی اس روش کو حق بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان سب باتوں کے پیش نظر ،جناب فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) نے ممکنہ حد تک اپنے حق کے دفاع کا اراده کیا۔ البتہ جس بی بیؑ کا باپ تازه ہی دنیا سے رخصت ہوا ہو اورجس کا بچہ تازه ہی سقط ہوا ہو نیز جس نے اور بہت سے مصائب برداشت کئے ہوں اس کے لئے یہ سب کام سہل اور آسان نہیں تھے، ان حادثات میں سے ایک حادثہ ہی ایک عورت کو ہمیشہ کیلئے ستمگروں سے مرعوب کرنے کے لئے کافی تھا۔ لیکن فاطمہ ؑ ، کہ جنھیں فداکاری اور شجاعت کی خو ،ماں اور باپ سے وراثت میں ملی تھیں ۔ اور جنھوں نے فداکار افراد کے درمیان زندگی گذاری تھی، انھیں یہ چھوٹی چھوٹی دھمکیاں خو فزده نہیں کر سکتی تھیں۔ اس مرحلہ میں جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہاکے مبارزات کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے۔
1 ۔بحث و استدلال: جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) نے حضرت ابوبکر سے گفتگو کے دوران قرآنی آیات کی شہادت وگواہیاں پیش کرکے برہان و استدلال سے ثابت کیا کہ فدک ان کی ملکیت ہے اورخلفاء کا یہ اقدام غیر قانونی ہے۔
2 ۔مسجد نبوی میں تقریر: جناب فاطمہ سلام اللہ علیہانے دالائی اور براہین کے ذریعہ حکام کی مذمت اور اپنی حقانیت ثابت کرنے کے بعد یہ اراده کیا کہ مسجد میں جائیں اور لوگوں کے سامنے حقائق کو بیان کریں۔ جناب سیده سلام اللہ علیہانے مسجد میں مہاجرین و انصار کے کثیر مجمع کے درمیان ایک مفصل خطبہ دیا آپ ؑ نے لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دی۔ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اور ان کی رسالت کی تعریف کی فلسفہ احکام کے بارے میں گفتگو فرمائی، ولایت اور رہبر و قائد کی عظمت کی تشریح فرمائی اور دوسرے بہت سے اہم مسائل پر روشنی ڈالنے کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوئیں کہ جو کہنے کی باتیں تھیں میں نے وه کہدیں۔ آخر میں فرمایا: ” اے لوگو جو کہنا چاہئے تھا وه میں کہہ چکی، باوجود اس کے کہ مجھے معلوم ہے کہ تم میری مدد نہیں کروگے، تمہارے بنائے ہوئے نقشے مجھ سے پوشیده نہیں ہیں لیکن میں کیا کروں یہ ایک درد دل تھا جس کو میں نے شدت غم کی بنا پر بیان کردیا تا کہ تمہارے اوپر حجت تمام ہوجائے۔
3۔ ترک کلام: جناب فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا)نے مبارزه کو جاری رکھنے کے لئے ترک کلام کو منتخب فرمایا اور حضرت ابوبکر سے کھلے عام کہدیا کہ اگر فدک کو واپس نہ کروگے تو میں جب تک زنده رہوں گی تم سے کلام نہیں کرونگی ، جہاں بھی ابوبکر سے سامنا ہوتا اپنا رخ ان کی طرف سے پھیر لیتیں اور ان سے بات نہ کر تیں ۔
اس بی بیؑ نے جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے قول کے مطابق رضائے خدا کے بغیر کبھی غضبناک نہیں ہوتی تھیں، اپنی اس روش کے ذریعہ امت کے جذبات و احساسات کی موج کو اس وقت کی حکومتی مشینری کے خلاف ابھارا۔
4 ۔رات میں تدفین: نہ صرف یہ کہ شہزادی نے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک مبارزه کو جاری رکھا بلکہ آپ نے اسے قیامت کی سرحدوں سے ملا دیا۔ اپنے شوہر حضرت علیؑ کو وصیت کرتے ہوئے کہا کہ ” اے علیؑ مجھ کو رات میں غسل دینا، رات میں کفن پہنانا اور پوشیده طور پر سپرد خاک کردینا، میں اس بات سے راضی نہیں ہوں کہ جن لوگوں نے مجھ پر ستم کیا ہے وه میرے جنازه کی تشیع میں شریک ہوں۔حضرت علیؑ نے بھی شہزادی کی وصیت کے مطابق ان کو راتوں رات دفن کردیا اور ان کی قبر کو زمین کے برابر کردیا اور چالیس نئی قبروں کے نشان بنادیئےکہیں ان کی قبر پہچان نہ لی جائے ۔
شہادت :
پیغمبرِاکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت کا رنج اور خلافت امیرالمؤمنین (علیہ السلام)غصب کرنے والوں کی روش نے بھی جناب فاطمہ ؑ کے وجود اور ان کے جسم و جان کو سخت تکلیف پہنچائی ، آپ ؑ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے بعد، مسلسل گریہ کناں اور غمزده رہتیں ۔کبھی با پ کی قبر کی زیارت کو تشریف لے جاتیں اور کبھی شہداء کے مزار پر جاکر گریہ فرماتیں ۔ نیز گھر میں گریہ و عزاداری میں مصروف رہتی تھیں۔ آخر کار ، شہزادی دو عالم جاکر کی طاقت کو کم کردینے والے غم اور دیگر پہنچنے والے صدموں نے آپ کو مضمحل اور صاحب فراش بنادیا ۔ بالآخر انہیں صدمات کے نتیجے میں آپ 13 جمادی الاولیٰ یا 3 جمادی الثانیہ 11 ھ ق یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی رحلت کے 75 یا 95 دن بعد، دنیا سے رخصت ہوگئیں اورآپ نے اپنی شہادت سے اپنے پیروکاروں کے دلوں کو ہمیشہ کیلئے غم والم میں مبتلا کردیا۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button