محافلمناقب امام حسن عسکری عمناقب و فضائل

جشن ولادت امام حسن عسکری علیہ السلام کے موقع پر آیت اللہ شھید مرتضیٰ مطہری ؒ کا فکر انگیز خطاب

آج کی رات امام عسکری علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی رات ہے، عید کی رات ہے اور ہمارے گیارہویں امام حسن عسکری علیہ السلام کے دنیا میں تشریف لانے کی رات ہے چناچہ اسی مناسبت سے ہم حضرت امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی خدمت اقدس میں ھدیہ تبرک پیش کرتے ہیں۔ میں اس نشست میں امام عسکری علیہ السلام کے بارے میں کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ آپؑ کا دور انتہائی پریشانیوں اور مشکلات کا دور ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام کی ولادت کا زمانہ جوں جوں نزدیک ہوتا جارہا تھا سلاطین جور کی طرف آئمہ پر سختیاں بڑھتی جا رہی تھیں۔ امام حسن عسکری علیہ السلام سامرا میں سکونت پذیر تھے۔ اسی وقت مرکز خلافت بھی یہی شہر تھا۔ معتصم کے زمانہ حکومت میں مرکز خلافت بغداد سے سامرا منتقل ہو گیا۔ کچھ مدت یہی مرکز رہا۔ اس کے بعد دو بارہ بغداد بنا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ معتصم کے فوجی ،لوگوں پر بے تحاشہ ظلم کرتے، بے گناہوں کو بلا وجہ سے ستاتے پریشان کرتے تھے۔ لوگوں نے مظالم سے تنگ آکر شکایت کی۔ شروع شروع میں معتصم نے پروانہ کی لیکن، پھر عوام نے اس مرکز کی منتقلی پر رضا مند کر لیا۔ اس کی ایک اور وجہ بھی تھی کہ فوج اور مردوں میں فاصلہ رہے۔ اس لیے مرکز سامرا آگیا۔ امام حسن عسکری علیہ السلام اور امام ھادی علیہ السلام کو مجبوراً سامرا آنا پڑا۔ آپ "العسکر یا العسکری محلہ” میں رہائش پذیر ہوئے۔ ہوسکتا ہے کہ وہاں فوج رھتی ہو اور آپ کو نظر بند کیا گیا ہو۔ امام حسن عسکری علیہ السلام جب شہید ہوئے تو آپ کا سن مبارک ۲۸ سال تھا۔
آپ کے والد گرامی کی عمر مبارک شھادت کے وقت ۴۲ برس تھی۔امام حسن عسکری علیہ السلام کا دور امامت چھ سال ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آپ ان چھ سالوں کے دوران یا تو قید میں رہے اگر کچھ دنوں کیلئے آزادی ملی تو پھر بھی آپ کو پابندیوں میں رکھا گیا۔ لوگوں کا آپ کو ملنا جلنا اور آپ سے ملاقات کرنا بھی ممنوع تھا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ آپ کی زندگی قیدیوں سے بھی زیادہ پریشان کن تھی۔ کبھی کبھی امام حسن عسکری علیہ السلام کو دربار مین بلوا کر پریشان کیا جاتا تھا۔ عجیب و غریب صورت حال گھٹن ہی گھٹن، کوئی بھی نہیں ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کی دلجوئی کرے۔ ان کر بناک لمحوں میں امام علیہ السلام نے کس طرح وقت پاس کیا ہوگا؟ یہ تو امام ہی جانتے ہیں۔
یوں تو ہمارے تمام آئمہ طاہر ین علیھم السلام تمام لوگوں سے ممتاز تھے، لیکن ہر امام تمام خوبیوں کی موجودگی میں ایک الگ خوبی بھی رکھتا تھا۔ جیسا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کا رعب و جلال اور شان و شوکت اتنی زیادہ تھی دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ جاتے تھے۔ آپ سکون و وقار کے ساتھ قدم رکھتے، انتھائی شائستگی وشفتگی کے ساتھ بات کرتے۔ متانت کے ساتھ تبسم فرماتے تھے۔ جب آپ گفتگو کرتے تو علم وعرفان کی بارش برس پڑتی تھی۔ آپ کا دشمن کے سامنے آیا موم ہوگیا۔ اس وقت کا جابر سے جابر شخص بھی آپ کی طرف آنکھ کر کے دیکھنے اور بات کرنے کی جرات نہ کرسکتا تھا۔
اس سلسلے مین جناب محدث قمی نے اپنی کتاب "الانوار البھیہ” میں ایک واقعہ نقل کیا ہے یا اس کو روایت کیا ہے۔ احمد بن عبداللہ حافان یہ وزیر المعتمد علی اللہ کا بیٹا تھا۔ انھوں نے اپنے آباؤ اجداد سے واقعہ نقل کیا ہے بہت ہی عجیب و غریب واقعہ ہے۔
امام حسن عسکری علیہ السلام قید با مشقت کی سزا بھگت رہے تھا۔ اس وقت کے حکمرانوں اور لوگوں میں یہ بات عام تھی کہ اسی امام کی صلب میں بارہویں لعل ولایت نے ظہور فرمانا ہے۔ جیسا سلوک فرعون نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا تھا اس سے بدتر اس عظیم الشان امام کے ساتھ روا رکھا گیا۔ فرعون کو نجومیوں نے بتایا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا وہی بچہ تمہارے اقتدار کے زوال کا باعث بنے گا۔ فرعون کے فوجی لڑکوں کو مارتے گئے اور بچیوں کو رہنے دیا۔ بار آور خواتین پر جاسوس عورتیں مقرر کی گئیں۔ یھی صورت حال امام حسن عسکری علیہ السلام کے دور امامت میں پیدا ہو گئی۔ جناب مولوی نے کیا خوب شعر کھا ہے ۔
حملہ بردی سوی دربندان غیب
تا ببندی راہ بر مردان غیب
یہ بھی کتنا بے وقوف تھا کہ اگر جاسوس کی خبر صحیح بھی ہو کیا وہ حکم الھی کو روک سکتا ہے؟ جب امام حسن عسکری علیہ السلام شھید ہوئے تو چند جاسوس عورتوں کو آپ کے گھر تفتیش کے لیے بھیجا گیا۔ ان کو بتانے والوں نے بتایا دیا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کا "محمد”نام سے بیٹا پیدا ہوچکا ہے۔ لیکن اللہ تعالی کے حکم و مھربانی سے ابھی تک یہ راز انتھائی پوشیدہ ہے یہاں تک کہ ولادت کے وقت کسی کو بھی خبر نہ تھی۔ امام مھدی علیہ السلام چھ سال کے تھا کہ والد گرامی کا سایہ اٹھ گیا۔ چند خاص مومنوں کے علاوہ اس معصوم شھزادے کے بارے میں کسی کو خبر نہ تھی ۔
کبھی کبھار حکومت کی جاسوس عورتیں امام علیہ السلام کے گھر میں جاتیں کہ شاید ان کو امام مھدی (عج) نظر آجائیں اور ان کو اسی وقت قتل کر دیا جائے لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ اللہ تعالی کی تقدیر کا مقابلہ تو نہیں کیا جاسکتا۔ اور نہ ہی کوئی مقابلہ کرنے کی جسارت کرسکتا ہے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کی شھادت کے دن پولیس نے امام علیہ السلام کے گھر کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ کثیر تعداد میں جاسوس عورتیں خانہ امام میں داخل ہو گئیں شاید اسی گھر میں کوئی بار آور خاتون ہو؟ تلاشی لینے کے بعد عورتوں کو ایک کنیز نظر آئی ان کو اس پر شک گزار اس کو گرفتار کر کے زندان میں ڈالا گیا۔ ایک سال تک وہ بیچاری زندان کی سلاخوں کے پیچھے بند رہی لیکن جب سال گزر گیا تو ان کو پتہ چلا کہ یہ خاتون بے قصور ہے۔ بالآخر اس عورت کو رہا کر دیا گیا ۔
امام حسن علیہ السلام کی والدہ ماجدہ کا نام نامی”حدیث” تھا ان کو جدہ بھی کھا جاتا ہے۔ چونکہ یہ بی بی سرکار امام زمانہ علیہ السلام کی جدہ ہیں اس لیے ان کو جدہ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ تاریخ میں کچھ ایسی خواتین بھی ہیں کہ جن کو "جدہ” کھا جاتا ہے۔ اصفھان میں دو دینی مدارس "جدہ”کے نام سے رکھے گئے ہیں۔ یہ بی بی جدہ کے نام سے شہرت رکھتی تھیں۔ یہ معظّمہ بہت ہی عظمت و رفعت، رتبہ و منزلت کی مالکہ تھیں۔ جناب محدث قمی رضوان اللہ علیہ نے اپنی کتاب الانوار البھیہ میں لکھا ہے ۔
یہ بی بی امام حسن عسکری علیہ السلام کی شھادت کے بعد مرکزی شخصیت کے طور پر زندگی گزار رہی تھیں۔ شیعہ خواتین آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر اپنے اپنے مسائل حل کراتی تھیں۔ چونکہ امام حسن عسکری علیہ السلام ۲۸ برس کی عمر میں شہید ہوئے تھے، اس لحاظ سے اس بی بی کی عمر ۶۵ برس کے لگ بھگ لگتی ہے ۔
بھت ہی جلیل القدر خاتون تھیں۔ آپ خواتین کے ذریعہ تمام مومنین، مومنات کے علمی و روحانی مسائل حل کرتی تھیں۔ ایک شخص بیان کرتا ہے کہ میں امام جوادعليه‌السلام کی صاجزادی جناب حلیمہ خاتون کے در اقدس پر گیا۔ یہ بی بی امام حسن عسکری علیہ السلام کی پھوپھی تھیں دروازہ پر کھڑے ہو کر میں نے مسئلہ امام کی بابت آپ سے سوال کیا، تو بی بی نے فرمایا گیارہویں امام حسن عسکری علیہ السلام ہیں۔ اور بارہویں امام ۔۔۔۔تھوڑی خاموش ہوگئیں پھر فرمایا ان کا فرزند اجمند۔ ۔ ۔۔ ۔ جو کہ اب لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے وہ آخری امام ہے۔ میں نے عرض کیا بی بی اگر ہم اپنے امام وقت سے ملاقات نہ کر سکیں تو شرعی مسائل کے بارے میں کس سے سوال کریں؟ آپ نے فرمایا جدہ کی طرف رجوع کریں۔ میں نے کھا کہ آقا اس دنیا سے چلے گئے ہیں اور ایک خاتون کے بارے میں وصیت کر گئے ہیں۔ فرمایا امام حسن عسکری علیہ السلام نے وھی کام کیا ہے جو حضرت امام حسین علیہ السلام نے کیا تھا۔ حقیقت میں امام عالی مقام کے وصی امام سجاد علیہ السلام تھے لیکن امام زین العابدین علیہ السلام کی بیماری کی باعث آپ نے اکثر وصیتیں اپنی بھن جناب زینب سلام اللہ علیھا سے کی ہیں، یھی کام امام حسن عسکری علیہ السلام کو کرنا پڑا، کیونکہ آپ کے نائب تو امام مھدی علیہ السلام ہیں لیکن وہ پردہ غیبت میں ہیں اس لیے دینی و شرعی مسائل کی بابت جدہ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا ۔
(اقتباس از ـ”سیرت آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم”:۔ مصنف :شہید مرتضیٰ مطہری ؒ)
مترجم: عابد عسکری ناشر: ادارہ منھاج الصالحین لاہور

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button