امام محمد باقر علیہ السلام علماء اور دانشوروں کی نگاہ میں
ابن حجر
امام محمد باقر علیہ السلام نہ صرف اہل تشیّع کی نظر میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں بلکہ اہل سنت کے نزدیک بھی بے مثل اور منفرد شخصیت کے مالک ہیں۔
ذیل میں بعض نمونے پیش کئے جاتے ہیں:
ابن حجر الہیتمی رقم طراز ہیں:
عبادت، علم اور زہد و پارسائی میں اپنے والد ماجد امام زین العابدین (علیہ السلام) کے وارث ابو جعفر محمد الباقر (علیہ السلام) ٹھہرے؛ آپ کو اس نام سے موسوم کیا گیا کہ یہ [لفظ] زمین کے شق و شگافتہ کرنے اور اس کے خفیہ خزینوں کو حاصل کرنے کے معنی میں آیا ہے؛ تو اسی طرح امام نے معارف و علوم کے خفیہ مخازن اور احکام کی حقیقتوں، لطافتوں اور ظرافتوں کو اس طرح سے آشکار کر دیا کہ وہ بے بصیرت اور بدسیرت لوگوں کے سوا کسی پر پوشید نہیں رہی ہیں، اور اسی بنا پر کہا گیا کہ آپ "باقر العلوم” (علوم کو شگافتہ کرنے والے) اور اپنی دانش کا پرچم لہرانے اور اٹھانے والے ہیں؛ اور آپ کا قلب روشن ہے، آپ کا علم و عمل کثیر ہے، آپ کا نفس (جان) پاکیزہ ہے اور آپ کا برتاؤ اور اخلاق پسندیدہ ہے،اور آپ کی عمر اللہ کی بندگی میں گذری ہے، عارفین کے مراتب و مدارج میں آپ کو ایسا رسوخ و عبور حاصل ہے، کہ بیان کرنے والوں کی زبان اسے بیان کرنے سے قاصر ہیں؛ سیر و سلوک اور معرفت میں آپ سے کثیر اقوال منقول ہیں، جنہیں بیان کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔
آپ کی عظمت و شرف [جاننے] کے لئے یہی کافی ہے کہ علی بن المدینی نے نے جابر بن عبداللہ الانصاری سے نقل کیا ہے، جنہوں نے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے عرض کیا، جس وقت کہ آپ کم عمر تھے، کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) آپ پر سلام کہہ رہے ہیں؛ پوچھا گیا کہ وہ کیسے؟ تو جابر نے کہا: میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے حضور بیٹھا تھا کہ امام حسین (علیہ السلام) آپ کی آغوش میں بیٹھے تھے اور ان سے پیار کر رہے تھے؛ تو فرمایا: اے جابر! اس [حسین (علیہ السلام)] کو خدائے متعال ایک بیٹا عطا فرمائے گا جس کا نام علی [زین العابدین] ہوگا، جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک منادی ندا دے گا، "کہ عبادت گزاروں کا سردار اٹھے، تو ان کا بیٹا اٹھے گا؛ اور اس [سیدالعابدین (علیہ السلام)] کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوگا جس کا نام محمد ہوگا، تو اگر تم نے [اے جابر!] اسے دیکھا تو اس کو میرا سلام دینا۔
امام محمد باقر (علیہ السلام) پچاسی سال کی عمر میں سنہ 117ھ کو وفات پاگئے، جبکہ اپنے والد کی طرح مسموم کئے جا چکے تھے؛ آپ ماں باپ دونوں کی طرف سے علوی ہیں۔ آپ کو عباس بن عبدالمطلب اور حسن بن علی (علیہما السلام) کے روضے میں سپرد خاک کیا گیا۔ آپ نے اپنے بعد چھ اولادیں چھوڑیں جن میں سب سے زیادہ افضل و کامل جعفر الصادق (علیہ السلام) تھے۔”
(ابن حجر الہیتمی المکی، الصواعق المحرقہ، (مطبوعہ مصر 1429ھ) ص548-549)
عبداللہ بن عطاء
امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہما السلام) کے صحابی اور مشہور محدث عبداللہ بن عطاء بن ابی ریاح کوفی جو عہد باقری کی نمایاں علمی شخصیت سمجھے جاتے تھے، نے کہا ہے: "مَا رَأَيْتُ اَلْعُلَمَاءَ عِنْدَ أَحَدٍ أَصْغَرَ عِلْماً مِنْهُمْ عِنْدَ أَبِي جَعْفَرٍ؛ میں نے کہیں بھی علماء کو اس قدر "چھوٹا” نہیں پایا جتنا کہ میں نے انہیں ابو جعفر [امام باقر(علیہ السلام)] کی بارگاہ میں علمی لحاظ سے "چھوٹا” پایا”۔
(سبط ابن الجوزی، تذکرۃ الخواص، ص337)
(شیخ المفید، الإرشاد، ج2، ص160)
( کشف الغمہ، ج2، ص329)
(علامہ محمد باقرمجلسی، بحار الانوار، ج46، ص286، ح2)
شمس الدین الذہبی
شمس الدین الذہبی کے بارے میں رقم طراز ہے:
"وَكَانَ أَحَدَ مَنْ جَمَعَ بَيْنَ العِلْمِ وَالعَمَلِ، وَالسُّؤْدُدِ وَالشَّرَفِ، وَالثِّقَةِ وَالرَّزَانَةِ، وَكَانَ أَهْلاً لِلْخِلاَفَةِ”
ابو جعفر محمد الباقر (علیہ السلام) ان شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے علم و عمل، سیادت و عُلُوِّ مقام اور شرف، وثاقت اور قدر و عزت کو اپنی ذات بابرکات میں جمع کر رکھا تھا، اور [مسلمانوں کی] خلافت کی اہلیت رکھتے تھے۔”
( الذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج4، ص402)
ادارہ : عالمی اہل بیت(علیہم السلام) اسمبلی،ابنا
ترجمہ و تصحیح: فرحت حسین مہدوی