سلائیڈرمحافلمناقب امام مھدی عجمناقب و فضائل

امام زمانہؑ کے وجود پر عقلی اور منقولہ دلائل

رسول خدؐاکی فریقین سے مروی اس روایت کے مطابق کہ جو شخص اس دنیا میں اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر مر جائے اس کی موت جاہلیت کی موت ہے، اگر چہ امام زمانہؑ کی تفصیلی معرفت تو میسر نہیں ہے لیکن اجمالی معرفت کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے۔ہر زمانے میں امامِ معصومؑ کی ضرورت، عقلی ونقلی دلائل کے ذریعہ بحثِ امامت میں ثابت ہے۔
عقلی دلائل کا اجمالی طور پر خلاصہ یہ ہے کہ نبوت ورسالت کا دروازہ پیغمبر خاتمؐ کے بعدہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو چکا ہے۔ لیکن قرآن کو سمجھنے کے لئے ایک معلم ومربی کی ضرورت ہے۔ وہ قرآن، جس کے قوانین مدنی البطع انسان کے حقوق کے ضامن تو ہیں لیکن ایک مفسراور ان قوانین کو عملی جامہ پہنانے والے کے محتاج ہیں۔بعثت کی غرض اس وقت تک متحقق نہیں ہو سکتی جب تک کہ تمام علوم قرآنی کا معلم موجود نہ ہو۔ایسے بلند مرتبہ اخلاقی فضائل سے آراستہ ہو کہ جو (انما بعثت لاٴتمم مکارم الاٴخلاق)[1] کے مقصد کو پورا کرے۔ نیز ہر خطا و خواہشات نفسانی سے پاک ومنزہ ہو جس کے سائے میں انسان اس علمی و عملی کما ل تک پہنچے جو خدا وند تعالیٰ کی غرض ہے۔مختصر یہ کہ قرآن ایسی کتاب ہے جو تمام انسانوں کو فکری، اخلاقی اور عملی ظلمات سے نکال کر عالم نور کی جانب ہدایت کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے۔ کِتَابٌ اَٴنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّوْرِ (2) اس غرض کا حصول فقط ایسے انسان کے ذریعے ممکن ہے جو خود ظلمات سے دور ہو اور اس کے افکار، اخلاق و اعمال سراپا نور ہوں اور اسی کو امام معصوم کہتے ہیں۔اور اگر ایسا انسان موجود نہ ہوتو تعلیم کتاب وحکمت اور امت کے درمیان عدل کا قیام کیسے میسر ہو سکتا ہے؟ اور خود یہی قرآن جو اختلافات کو ختم کرنے کے لئے نازل ہوا ہے، خطاکار افکار اور ہویٰ و ہوس کے اسیر نفوس کی وجہ سے، اختلافات کا وسیلہ وآلہ بن کر رہ جائے گا۔آیا وہ خداجو خلقتِ انسان میں احسن تقویم کو مدنظر رکھتے ہوئے انسان کی ظاہری خوبصورتی کے لئے بہنوں تک کا خیال رکھ سکتا ہے، کیا ممکن ہے کہ مذکورہ ہدف ومقصد کے لئے کتاب تو بھیج دے لیکن بعثت انبیاء اور کتب نازل کرنے کی اصلی غرض، جو سیرت انسان کو احسن تقویم تک پہچانا ہے، باطل کر دے ؟!اب تک کی گفتگو سے رسولؐ خدا کے اس کلام کا نکتہ واضح وروشن ہو جاتا ہے کہ جسے اہل سنت کی کتابوں نے نقل کیا ہے (من مات بغیر إمام مات میتة جاہلیة)[3]اور کلام معصومین علیہم السلام کا نکتہ بھی کہ جسے متعدد مضامین کے ساتھ شیعی کتب میں نقل کیا گیا ہے۔مثال کے طور پر حضرت امام علی بن موسی الرضاؑنے شرائع دین سے متعلق، مامون کو جو خط لکھا اس کا مضمون یہ ہے (وإن الارض لا تخلو من حجة اللّٰہ تعالی علی خلقہ فی کل عصر واٴوان و إنہم العروة الوثقیٰ)یہاں تک کہ آپؑ نے فرمایا (ومن مات ولم یعرفہم مات میتة جاہلیة)[4]۔اب جب کہ اکمالِ دین واتمام نعمتِ ہدایت میں ایسی شخصیت کے وجود کی تاثیر واضح ہو چکی، اگر اس کی عدم موجودگی سے خدا اپنے دین کو ناقص رکھے تو اس عمل کی وجہ یا تویہ ہو گی کہ ایسی شخصیت کا وجود ناممکن ہے یا خدا اس پر قادر نہیں اور یا پھر خدا حکیم نہیں ہے اور ان تینوں کے واضح بطلان سے امام کے وجود کی ضرورت ثابت ہے۔

بارہویں امامؑ کے متعلق شیعوں کا اعتقاد اور آپؑ کا ظہور معصومین علیہم السلام سے روایت شدہ متواتر نصوص سے ثابت ہے، جواثباتِ امامت کے طریقوں میں سے ایک ہے۔قرآن مجید میں ایسی آیات موجود ہیں، جنہیں شیعہ وسنی کتب میں امام مھدیؑ کی حکومت کے ظہور سے تفسیر کیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض کو ہم یہاں ذکر کرتے ہیں :۱۔ھُوَالَّذِی اَرْسَلَ رَسُوْلَہ بِالْھُدیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہرہ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہ وَلَوکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ(5)ابو عبد اللہ گنجی کتاب "البیان فی اخبار صاحب الزمان” میں کہتے ہیں کہ :”اور بالتحقیق، مھدیؑ کی بقا کا تذکرہ قرآن وسنت میں ہوا ہے۔ قرآن میں یوں کہ سعید بن جبیر قرآن میں خداوند متعال کے اس فرمان :لِیُظْہرہ عَلیَ الدِّیْنِ کُلِّہ وَلَو کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ کی تفسیر میں کہتے ہیں: (ھو المھدی من عترة فاطمہ علیھا السلام)۔ [6]۲۔اَلَّذِیْنَ یُوٴمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلاَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنْفِقُوْنَ (7)فخر رازی کہتے ہیں:”بعض شیعوں کے عقیدے کے مطابق غیب سے مراد مھدی منتظرؑ ہے، کہ جس کا وعدہ خدا نے قرآن اور حدیث میں کیا ہے۔ قرآن میں یہ کہہ کر وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُم وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہم فِی اْلاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہم اورحدیث میں قول پیغمبر اکرمؐ کے اس قول کے مطابق (لو لم یبق من الدنیا إلا یوم واحد لطول اللّٰہ ذلک الیوم حتی یخرج رجل من اٴھل بیتی یواطی اسمہ اسمی وکنیتہ کنیتی، یملاٴ الاٴرض عدلا وقسطا کما ملئت جورا وظلما)۔ [8]فخر رازی نے ، حضرت مھدی موعودؑکے بارے میں قرآن وحدیث پیغمبر خداؐ کی دلالت کو تسلیم کرنے اور آپؑ کی غیب میں شمولیت کے اعتراف کے بعد، یہ سمجھا ہے کہ شیعہ، غیب کو فقط حضرت مھدیؑ سے اختصاص دینے کے قائل ہیں، جب کہ فخر رازی اس بات سے غافل ہے کہ شیعہ امام مھدیؑ کو مصادیقِ غیب میں سے ایک مصداق مانتے ہیں۔۳۔وَإِنَّہ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلاَ تَمْتَرُنَّ بِھَا وَاتَّبِعُوْنِ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ (9)ابن حجر کے بقول :”مقاتل بن سلیمان اور اس کے پیروکار مفسر ین کہتے ہیں کہ یہ آیت مھدیؑ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ [10]۴۔وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہم فِی اْلاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہم وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہم دِیْنَہم الَّذِی ارْتَضیٰ لَہم وَلَیُبَدِّلَنَّہم مِّنْ بَعْدِ خَوْفِہم اَٴمْناً یَّعْبُدُوْنَنِی لَایُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئاً وَّمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاٴُوْلٰئِکَ ہم الْفَاسِقُوْنَ (11) اس آیت کو امام مھدیؑ او رآپؑ کی حکومت سے تفسیر کیا گیا ہے۔[12]۵۔اِنْ نَّشَاٴ نُنَزِّلْ عَلَیْہم مِنَ السَّمَاءِ آیَةً فَظَلَّتْ اَٴعْنٰاقُہم لَھَا خَاضِعِیْنَ(31)اس آیت میں لفظِ(آیة) کی تفسیر، حضرت مھدیؑ کے ظہور کے وقت دی جانے والی ندا کو بتلایا گیا ہے، جسے تمام اہل زمین سنیں گے اور وہ ند ایہ ہوگی (اٴلا إن حجة اللّٰہ قد ظہر عند بیت اللّٰہ فاتبعوہ فإن الحق معہ وفیہ)[14]۶۔وَنُرِیْدُ اَٴنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی اْلاَرْضِ وَنَجْعَلَہم اَئِمَّةً وَّ نَجْعَلَہم الْوَارِثِیْنَ (15)امیر المومنینؑ فرماتے ہیں :” یہ دنیا منہ زوری دکھانے کے بعد پہر ہماری طرف جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی اپنے بچے کی طرف جھکتی ہے۔اس کے بعد مذکورہ آیت کی تلاوت فرمائی۔[16]۷۔وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ اَٴنَّ اْلاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ (17)اس آیت کو امام مھدیؑ اور آپؑ کے اصحاب کے بارے میں تفسیر کیاگیا ہے۔
روائی نقطہ نگاہ سے:سنی اور شیعہ روایات میں آپؑ کو خلیفۃ اللّٰہ کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے (یخرج المھدی وعلی راٴسہ غمامة فیھا مناد ینادی: ھذا المھدی خلیفة اللّٰہ فاتبعوہ)[18] اللہ جیسے مقدس اسم کی طرف اضافے کا تقاضا یہ ہے کہ آپؑ کا وجود تمام اسماء حسنی کی آیت ہے۔اور روایات اہل سنت میں بخاری ومسلم کی شرائط کے مطابق ایک صحیح روایت کا کچھ مربوط حصہ، جسے حاکم نیشاپوری نے مستدرک اور ذھبی نے تلخیص میں نقل کیا ہے، یہ ہے(لا یستوحشون إلی اٴحد ولا یفرحون باٴحد یدخل فیہم علی عدة اٴصحاب بدر لم یسبقہم الاٴولون ولا یدرکہم الآخرون وعلی عدة اٴصحاب طالوت الذین جاوزوا معہ النہر)[19] ۔رسول اکرمؐ اور حضرت مھدیؑ میں خاتمیت کی مشترکہ خصوصیت اس بات کی متقاضی ہے کہ جس طرح نبوت آپؐ پر ختم ہو ئی اسی طرح امامت حضرت مھدیؑ پر ختم ہوگی۔ نیز کار دین کا آغاز آنحضرتؐ کے دست مبارک سے ہوا اور اختتام حضرت مھدیؑ کے ہاتھوں ہوگا۔اسی نکتے کی جانب شیعہ اور سنی روایات میں اشارہ کیا گیا ہے کہ آنحضورؐنے فرمایا:( المھدی منا یختم الدین بنا کما فتح بنا) [20]آپؑ میں خاتم کی جسمانی، روحانی اور اسمی تمام خصوصیات جلوہ گر ہیں۔
امام زمانہ علیہ السلام کے کچھ معجزات شیخ الطائفہ اپنی کتاب “الغیبة” میں لکھتے ہیں:”غیبت کے زمانے میں آپؑ کی امامت کو ثابت کرنے والے معجزات قابل شمارش نہیں”[21]۔ اگر شیخ طوسی کے زمانے تک، جنہوں نے ۴۶۰ہجری میں وفات پائی ہے، معجزات کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل تھا تو موجودہ زمانے تک معجزات میں کتنا اضافہ ہو چکاہو گا؟!لیکن اس مقالے میں اپنے زمانے میں واقع ہونے والے ایک واقعہ، جنہیں دوسرے ثقہ بھائیوں کے ایک گروہ نے بھی نقل کیا ہے، ذکر کرتے ہیں: حلہ میں فرات او ردجلہ کے درمیان آبادی میں اسماعیل بن حسن نامی شخص رہتا تھا، اس کی بائیں ران پر انسان کی مٹھی کے برابر پھوڑا نکل آیا۔ حلّہ اور بغداد کے اطباء اسے دیکھنے کے بعد لا علاج قرار دے چکے تھے۔ لہٰذاوہ سامرہ آگیا اور دو ائمہ حضرت امام ھادی اور امام حسن عسکری علیہما السلام کی زیارت کرنے کے بعد اس نے سرداب میں جاکر خدا کی بارگاہ میں دعا و گر یہ وزاری کی اور امام زمانہؑ کی خدمت میں استغاثہ کیا، اس کے بعد دجلہ کی طرف جاکر غسل کیا اور اپنا لباس پھنا۔ معاًاس نے دیکھا کہ چار گھوڑےسوار شہر کے دروازے سے باہر آئے۔ ان میں سے ایک بوڑھا تھا جس کے ہاتھ میں نیزہ تھا، ایک جوان رنگین قبا پہنے ہوئے تھا، وہ بوڑھا راستے کی دائیں جانب اور دوسرے دو جوان راستے کی بائیں جانب اور وہ جوان جس نے رنگین قبا پہن رکھی تھی ان کے درمیان راستے پر تھا۔رنگین قبا والے نے پوچھا :”تم کل اپنے گھر روانہ ہو جاؤ گے ؟”میں نے کہا:”ہاں۔” اس نے کہا:”نزدیک آؤ ذرا دیکھوں تو تمہیں کیا تکلیف ہے؟”اسماعیل آگے بڑھا، اس جوان نے اس پھوڑے کو ہاتھ سے دبایا اور دوبارہ زین پر سوار ہوگیا۔ بوڑھے نے کہا:”اے اسماعیل ! تم فلاح پا گئے، یہ امامؑ تھے۔”وہ روانہ ہوئے تو اسماعیل بھی ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگا، امامؑ نے فرمایا:”پلٹ جاؤ۔”اسماعیل نے کہا:” آپؑ سے ہر گز جدا نہیں ہوں گا۔” امامؑ نے فرمایا:”تمہارے پلٹ جانے میں مصلحت ہے۔” اسماعیل نے دوبارہ کہا:”آپؑ سے ہر گز جدا نہیں ہوسکتا۔” بوڑھے نے کہا:”اسماعیل !تمہیں شرم نہیں آتی، دو مرتبہ امامؑ نے فرمایا، پلٹ جاؤ او رتم مخالفت کرتے ہو؟”اسماعیل وہیں رک گیا، امام چند قدم آگے جانے کے بعد اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: “جب بغداد پہنچو گے، ابو جعفر یعنی خلیفہ مستنصر باللہ، تمہیں طلب کرے گا۔ جب اس کے پا س جاؤ اور تمہیں کوئی چیز دے، اس سے نہ لینا اور ہمارے فرزند رضا سے کہنا علی بن عوض کو خط لکھیں، میں اس تک پیغام پہنچا دوں گا کہ جو تم چاہو گے تمہیں عطا کر ے گا۔”اس کے بعد اصحاب کے ساتھ روانہ ہو گئے اور نظروں سے اوجھل ہونے تک اسماعیل انہیں دیکھتا رہا۔ غم وحزن اور افسوس کے ساتھ کچھ دیر زمین پر بیٹھ کر ان سے جدائی پر روتا رہا۔ا س کے بعد سامرہ آیا تو لوگ اس کے ارد گرد جمع ہوکر پوچھنے لگے کہ تمہارے چہرے کا رنگ متغیر کیوں ہے؟ اس نے کہا: کیا تم لوگوں نے شہر سے خارج ہونے والے سواروں کو پہچانا کہ وہ کون تھے؟ انہوں نے جواب دیا: وہ باشرافت افراد ہیں، جو بھیڑوں کے مالک ہیں۔ اسماعیل نے کہا: وہ امامؑ اور آپؑ کے اصحاب تھے اور امامؑ نے میری بیماری پر دستِ شفا پھیردیا ہے۔جب لوگوں نے دیکھا کہ زخم کی جگہ کوئی نشان تک باقی نہیں رہا، اس کے لباس کو بطور تبرک پھاڑ ڈالا۔ یہ خبر خلیفہ تک پہنچی، خلیفہ نے تحقیق کے لئے ایک شخص کو بھیجا۔اسماعیل نے رات سرداب میں گزاری اور صبح کی نماز کے بعد لوگوں کے ہمراہ سامراء سے باہر آیا، لوگوں سے خدا حافظی کے بعد وہ چل دیا، جب قنطرہ عتیقہ پہنچا تو اس نے دیکھا کہ لوگوں کا ہجوم جمع ہے اور ہر آنے والے سے اس کا نام ونسب پوچھ رہے ہیں۔نشانیوں کی وجہ سے اسے پہچاننے کے بعد لوگ بعنوان تبرک اس کا لباس پھاڑ کر لے گئے۔تحقیق پر مامور شخص نے خلیفہ کو تمام واقعہ لکھا۔ اس خبر کی تصدیق کے لئے وزیر نے اسماعیل کے رضی الدین نامی ایک دوست کو طلب کیا۔ جب دوست نے اسماعیل کے پاس پہنچ کر دیکھا کہ اس کی ران پر پھوڑے کا اثر تک باقی نہیں ہے، وہ بے ہوش ہوگیا اور ہوش میں آنے کے بعد اسماعیل کو وزیر کے پاس لے گیا، وزیر نے اس کے معالج اطباء کو بلوایا اور جب انہوں نے بھی معائنہ کیا او رپھوڑے کا اثر تک نہ پایا تو کہنے لگے :”یہ حضرت مسیح کا کام ہے”، وزیر نے کہا : “ہم جانتے ہیں کہ کس کا کام ہے۔”وزیر اسے خلیفہ کے پاس لے گیا، خلیفہ نے اس سے حقیقت حال کے متعلق پوچھا، جب واقعہ بیان کیا تو اسے ہزار دینار دئیے، اسماعیل نے کہا: میں ان سے ایک ذرے کو لینے کی جراٴت نہیں کرسکتا۔ خلیفہ نے پوچھا: کس کا ڈر ہے ؟ اس نے کہا: “اس کا جس نے مجھے شفا دی ہے، اس نے مجھ سے کہا ہے کہ ابو جعفر سے کچھ نہ لینا۔” یہ سن کر خلیفہ رونے لگا۔علی بن عیسیٰ کہتے ہیں: میں یہ واقعہ کچھ لوگوں کے لئے نقل کر رہا تھا، اسماعیل کا فرزند شمس الدین بھی اس محفل میں موجود تھا جسے میں نہیں پہچانتا تھا، اس نے کہا: “میں اس کا بیٹا ہوں۔” میں نے اس سے پوچھا :” کیا تم نے اپنے والد کی ران دیکھی تھی جب اس پر پھوڑا تھا؟” اس نے کہا:”میں اس وقت چھوٹا تھا لیکن اس واقعے کو اپنے والدین، رشتہ داروں او رہمسایوں سے سنا ہے اور جب میں نے اپنے والد کی ران کو دیکھا تو زخم کی جگہ بال بھی آچکے تھے۔”اور علی بن عیسیٰ کہتے ہیں :”اسماعیل کے بیٹے نے بتایا کہ صحت یابی کے بعد میرے والد چالیس مرتبہ سامراء گئے کہ شاید دوبارہ ان کی زیارت کر سکیں۔

حوالہ جات
1)۔ بحار الانوار ج۱۶ ص۲۱۰
2)۔ سورہٴ ابراھیم، آیت۱۔
3) ۔مسند الشامیین، ج۲، ص۴۳۷، المعجم الکبیر، ج۱۹، ص ۳۸۸۔مسند احمد بن حنبل، ج۴، ص۹۶
4) ۔عیون اخبار الرضاعلیہ السلام،ج۲، ص۱۲۲۔
5) سورہٴ توبہ، آیت۳۳۔
6)۔ البیان فی اخبار صاحب الزمان عجل اللہ فرجہ الشریف،ص۵۲۸(کتاب کفایة الطالب میں)
7) ۔سورہٴ بقرہ، آیت۳۔
8)۔ تفسیر کبیر، فخر رازی،ج۲، ص۲۸
9) ۔سورہٴ زخرف، آیت۶۱
10)۔ صواعق محرقہ، ص۱۶۲
11)۔ سورہٴ نور، آیت ۵۵
12)۔ تفسیر کبیر،، فخر رازی، ج۲، ص۲۸۔غیبة نعمانی، شیخ طوسی ، ص۱۷۷؛ تفسیر القمی، ج۱، ص ۱۴، اور دیگر منابع
13) سورہٴ شعراء، آیت۴۔
14) ۔ینابیع المودة، ج۳، ص ۲۹۷۔
15)۔ سورہٴ قصص، آیت۵۔
16)۔ نھج البلاغہ،شمارہ۲۰۹،از حکمت امیر المومنین علیہ السلام۔
17) ۔سورہٴ انبیاء، آیت۱۰۵
18)۔ بحار الانوار، ج۵۱، ص۸۱۔
19) ۔مستدرک صحیحین ، ج۴، ص۵۵۴
20) ۔صواعق محرقہ، ص۱۶۳۔
21)۔ الغیبة شیخ طوسی، ص۲۸۱۔
https://shiastudies.com/ur/1567

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button