محافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

اسمائے فاطمہ سلام اللہ علیھا کے اسرار و اثرات

اسلامی مصادر میں کثرت کے ساتھ ایسی احادیث موجود ہیں جن میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اسمائے گرامی کا تذکرہ ہے ۔ان احادیث میں شہزادی کے جن اسماء کا ذکر ہے۔ان اسماء میں اسباب و مناسبات ہیں ، جن کی بنا پر خاتون جنت کے مسمّٰی کے ساتھ انھیں مربوط کیا گیا ہے ۔آپؑ کے یہ تمام اسماء بغیر کسی مناسبت اور برنامہ کے تجویز نہیں کیے گئے تھے، بلکہ یہ معنویت اور حقیقت سے بھرپور اسماء اس پاکزہ مسمیّٰ کے لیے اس لیے تجویز ہوئے تھے کہ اس مسمیّٰ اور ان کے درمیان مناسبت اور ہم آہنگی تھی ۔ان اسماء میں سے ہر اسم اپنے اس مسمیّٰ پر ہر پہلو سے صادق آتا ہے ۔
درج ذیل احادیث ہماری اس بحث کی تائید کے لیے کافی ہیں ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:.
لَفَاطِمَةُ تَسعَةُ اَسماء عِندَ اللهِ عَزَّوَجَلَّ فَاطِمَةُ وَالصِّدِّيقَةُ وَالمُبَارَكَةُ وَالطَّاهِرَةُ وَالزَّكِيَّةُ وَالرَّاضِيَةُ وَالمَرضِيَّةُ وَالمُحَدِّثَةُ وَالزَّهْرَاء۔۔۔
”بارگاہ خداوندی میں خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نو نام ہیں:فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ،طاھرہ، زکیہ، راضیہ، مرضیہ، محدثہ، اور زہراء“
اب ہم ان اسماء میں سے ہر اسم کی مختصرشرح کرتے ہیں۔
اسمائے مبارکہ کے راز:
شہزادی کونین سلام اللہ علیہا ایک ہمہ پہلو شخصیت تھیں ۔وہ مختلف ملکوتی صفات سے متصف تھیں۔ انہی صفات کی مناسبت سے آپؑ کو یہ اسماء عطا ہوئے۔ اس مورد میں کثرت کے ساتھ احادیث موجود ہیں۔
فاطمہ (س)
الفطم سے مشتق ہے جس کا معنی قطع کرنا ہے۔ جیسا کہ کلامِ عرب میں جملہ موجود ہے: فُطِمَتِ الامُّ طِفلَھَا” ماں نے بچے کا دودھ چھڑا دیا“ وَ فُطِمَت الحبلُ ”رسی توڑ ڈالی گئی“۔.
علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بہت سے مقامات پر اسم فاعل اسم مفعول کے معنٰی میں آتا ہے جیسے کاتم مَکتُوم ( پوشیدہ بات )مکان عامریعنی ”معمور“(آباد جگہ)۔ اللہ تعالی کا قول ہے: فِی عِیشَۃِ رَاضِیۃَرَاضِیَۃَ اسم فاعل مرضیَّہ اسم مفعول کا معنی دیتا ہے۔
اب ان احادیث کا مطالعہ فرمائیں جو اسم فاطمہ کی تشریح کرتی ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے کہ جبرائیل امین علیہ السلام ان کے پاس آئی اور یہ پیغام دیا:لِاَنَّھَا فَطَمَت شِیعَتُھَا مِن َالنَّارِ” آپؐ کی اس عظیم بیٹی کانام زمین پر فاطمہ ؑ اس لئے رکھا گیا کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے پیروکاروں کو جہنم سے نجات دلانے والی ہیں“ (بحارالانوار۔ ج 43، ص18)حضرت امام رضا علیہ الصلاۃ والسلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہراؑ سے فرمایا:یَا فَاطِمَۃُ اَتَدرِینَ لِمَ سُمِّیَت فَاطِمَۃُ؟” اے میری شہزادی فاطمؑہ ! کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپؑ کا نام فاطمہؑ کیوں رکھا گیا ہے ؟حضرت علی علیہ الصلاۃ والسلام آپ وہاں تشریف فرما تھے، اُنھوں نے عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائیں کہ فاطمؑہ کا نام فاطمہؑ کیوں رکھا گیا ہے؟
رسول اللہ ؐ نے فرمایا: لِاَنَّھَا فَطَمَت شِیعَتُھَا مِن َالنَّارِ ”اس لئے اس کا نام فاطمہ سلام اللہ علیہا ہے کیونکہ آپؑ اور آپ ؑکے پیروکار ان جہنم کی آگ سے محفوظ و مامون رہیں“(بحار الانورج 43،ص4) ایک اور حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لِاَنَّ اللہَ فَطَمَھَا وَ ذُرِّیَتَھَا مِنَ النَّارِ ،مَن لَقَی اللہَ مِنھُم بِالتَّوحِیدِ وَ الاِیمَانِ لِمَا جِئتَ بِہِ” ان کا نام اس لیے فاطمہؑ رکھا گیا ہے کیونکہ خداوند تعالی نے انھیں اور اُن کی اولاد کو، جس نے اللہ سے اس حالت میں ملاقات کی کہ وہ اس کی وحدانیت پر اور جو کچھ میں نے پیش کیا ہے اس پر ایمان رکھتے ہوں گے ،جہنم سے محفوظ کر دے گا“۔۔۔۔ ( بحار الانوار جلد 63 )
قندوزی حنفی نے ابوہریرہ سے اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سنا کہ آپ نے فرمایا :اِنَّمَا سُمِّیَت اِبنَتِی فَاطِمَۃَ لِاَنَّ اللہَ فَطَمَھَا وَ ذُرِّیَتَھَا وَ مُحِبِّھَا مِنَ النَّارِ”میں نے اپنی شہزادی کا نام فاطمہ سلام اللہ علیہا اس لیے رکھا کہ اللہ تعالی نے اسے اور اس کی اولاد اور اس کے محبوں کو جہنم کی آگ سے محفوظ کر دیا ہے۔( تاریخ بغداد جلد 13 صفحہ 321 ذخائرالعقبیٰ ص 26 ، کنزالعمال جلد 13 صفحہ 94، فیض تقدیر جلد 1 صفحہ 6)
پانچویں امام محمد باقر علیہ السلام کا فرمان ہے قیامت کے دن خاتون جنت و جہنم کے دروازے کے قریب تشریف لائیں گی اور بارگاہ ربوبیت میں عرض کریں گیا۔اِلہِی وَ سَیِّدِی سَمَّیتَنِی فَاطِمَۃُ وَ فَطَمَۃُ بِی مَن تَوَلَّانِ وَتَوَلَّا ذُرِّیَّتَنِی مِنَ النَّارِ وَ وَعَدَکَالحَقُّ وَ اَنتَ لَا تُخلِفُ المِیعَادِ، اے میرے معبود برحق اےمیرے سید و سالار تو نے میرا نام فاطمہ رکھا ہے اور تو نے اپنے محبت خاص سے مجھے اور مجھ سے اور میری اولاد سے محبت کرنے والوں کو جہنم کی آگ سے امان دی ہے ۔ اے میرے اللہ تیرا وعدہ حق ہے اور تو اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا ۔اسی وقت خداوند تعالیٰ کی طرف سے جواب آئے گا اے فاطمہ سلام اللہ علیہا۔ تم نے سچ کہا ہے میں نے تیرا یہ نام اس لئے رکھا کہ میں نے تجھے اور تیرے پیروکاروں اور تیری اولاد کے پیروکاروں کو جہنم کی آگ سے محفوظ و مامون کر دیا ہے میرا وعدہ سچا ہے اور میں وعدہ خلافی نہیں کرتا( بحارالانوار جلد 43،صفحہ 15)
گناہوں اور ناپسندیدہ امور سے امان:
راوی کہتا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا :تجھے معلوم ہے کہ اس میں فاطمؑہ کی تفسیر کیا ہے؟ میں نے عرض کیا :اے میرے سردار ارشاد فرمائیے آپ نے فرمایا: اسم فاطمہ کا معنی ہے کہ جس سے ہر ناپسندیدہ امر سے محفوظ کر دیا گیا ہو۔ پھر آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا اگر امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نہ ہوتے تو روئے زمین پر بنو آدم میں سے قیامت تک ان کا کوئی کفو نہ ہوتا ( الانوار جلد 43صفحہ 16 )
علمائے اہل سنت کے بہت سے علماء نے اس حدیث کو بیان کیا ہے ۔ان میں سے ابن شیرویہ دیلمی نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:لَو لَم یَخلُقِ اللہُ عَلِّی لَمَا کَانَ لَفَاطِمَۃُ کُفوُا“ اگر اللہ تعالی امام علی علیہ السلام کو خلق نہ کرتا تو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکے لئے کفو نہ ہوتا اسی مطلب کو خورزمی نے مقتل الحسین علیہ السلام میں ،محدث ترمذی نے مناقب میں ،مناوی نے کنزوالحقائق میں ،قندوزی نے ینابیع المودۃ میں حضرت اُمّ سلمہ سے روایت کی ہے اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس سے سنا۔ .
فوائد معرفت:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے حضرت فاطمہ زہرا کا نام فاطمہ اس لئے رکھا گیا کہ اللہ کی مخلوق ان کی معرفت کے حصول کے بعد جہنم سے نجات پائے گی۔
امتیازات:
لِاَنَّ اللہَ فَطَمَھَا بِالعِلمِ:
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ جس وقت خاتون جنت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا پیدا ہوئیں تو اللہ تعالی نے ایک فرشتے کی طرح طرف وحی فرمائی کہ اسم فاطمہ ؑ کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری کرے۔ یہی وجہ تھی کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دختر کا اسم فاطمہ سلام اللہ علیہا رکھا۔پھر اللہ تعالی ٰنے خاتون جنت کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا :میں نے تجھے علم و دانش سے نوازا ہے اور تجھے دوسروں سے جدا کیا ہے اور سبھی لوگوں پر برتری عطا کی ہے اور میں نے تجھے طیب وطاہر بنایا ہے ۔پھر امام علیہ السلام نے فرمایا :اللہ کی قسم! اللہ تعالی نے انہیں علم و دانش کی بدولت دوسروں پر نشان امتیازی عطا کی ہے اور عالم زر سے ہی انہیں طاہر طیب بنایا۔.
اسمِ فاطمہ کی بلندیاں:
خاندان نے وحی کو اس نام سے بے پناہ محبت تھی وہ اس نام کا احترام کرتے تھے جس خاتون کا بھی یہ نام ہوتا اُس کا بھی احترام کرتے ۔
(الف)حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی سے پوچھا: اگر اللہ آپ کو دختر عطا کرے تو اس کا کیا نام رکھے گا؟ ُاس نے عرض کیا میں اس کا نام فاطمہ رکھوں گا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا تو فاطمہ رکھے گا؟خدا فاطمہ سلام اللہ علیہا پر درود بھیجے ۔اگر تو اس کا نام فاطمہ ؑ رکھے تو پھر خیال رکھنا اسے طمانچہ نہ مارنا اور اسے گالیاں مت دینا ،بلکہ اس کا احترام کرنا۔
(ب) سکونی سے روایت ہے کہ میں حیرانی و پریشانی کی صورت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوا انھوں نے فرمایا: اے سکونی! خیر ہے کیوں پریشان ہے ؟سکونی کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا: میرے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے :آپ نے فرمایا تو نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا میں نے اس کا نام فاطمہ رکھا ہے ۔آپ نے فرمایا :آہ، آہ، آہ،ا گر تو نے اس کا نام فاطمہ رکھا ہے تو اس سے کبھی گالی نہ دینا ،اس پر لعنت نہ کرنا اور اس سے مت مارنا۔
(ج) حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کا فرمان ہے : لَا یَد خُلُ الغَفَر بَیتَا فِیہِ اِسمُ مُحَمَّدُٗ وَفَاطِمَۃُ ٗ مِنَ النِّسَاءِ(سفینۃ البحار)
”اس گھر میں فقر داخل نہیں ہوتا کہ جس گھر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور فاطمہ سلام نام کے افرادہوں“
صدّیقہ:
اس عظمتوں کے پیکر خاتون کا اسم” صدیقہ“ بھی ہے صدیقہ اسے کہا جاتا ہے جو مجسم صداقت ہو۔ اس کلمہ کے صاد کے نیچے کسرہ ہے اور اس کا حرف ”دال “مشدد ہےمبالغہ کا صیغہ ہے جس کا معنی ہےصداقت کی کثرت۔۔۔ صدیق میں معنی کی کثرت صدوق سے زیادہ پائی جاتی ہے ۔
٭ایک اور قول ہے کہ صدیق کا معنی ہے جس میں سچائی کثرت کے ساتھ ہو۔٭ایک اور قول کے مطابق اس کا معنیٰ ہے جو کبھی جھوٹ نہ بولے۔٭بعض نے کہا ہے :اس کا مفہوم اس فرد پر صادق آتا ہے جس میں صداقت کمال کی حد تک ہو ۔اس کی گفتار کی تصدیق اس کے رفتارسے ہو، اور سراپائے نیکی ہو۔
٭صدیق کا معنی یہ بھی ہے کہ صدیق وہ ہوتا ہے جس کی عادت و فطرت میں میں بچ رچ گیا ہو۔ اس سے جھوٹ کا تصور تک بھی نہ کیا جائے ۔
٭کسی نے کہا صدیق وہ ہوتا ہے جس کا قول عقیدہ صداقت پر مبنی ہو اور وہ عمل کے ساتھ اپنی اس صداقت کو ثابت کر دکھائے ۔”تاج العروس “صدیق کی تشریح موجود ہے۔
٭ ایک اورقول کے مطابق صدیق اُسے کہا جاتا ہے جو حق و عدالت کو پسند کرے اور پھر اپنی گفتار اور عمل سے اس کی گواہی دے۔
٭ ایک اور قول ہے صدیق کا مصداق وہ فرد ہے جس کے راستی اور راست گوئی سیرت اور عادت بن جائے ۔٭۔بعض علماء نے لکھا ہے کہ صدیق اُسے کہا جاتا ہے جو کچھ اللہ نے فرمایا ہے اسے قبول کرے اور اسے جو کچھ اس کے انبیاء کی طرف سے ملا ہے اس پر ایمان لائے ۔ اس کے دل میں کوئی شک باقی نہ رہے ۔اس قول کی تائید اللہ تعالی کے اس فرمان سے ہوتی ہے :وَالَّذِینَ اٰمَنُوا بِاللہِ وَ رَسُولِہِ اُولَـئِکَ ھُمُ الصِّدِّیقُونَ”
” جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے ہیں وہی صدیق ہیں“۔
قرآن مجید اور صدیقین کا مقام:
مندرجہ بالا تمام تعارف صدیق کے معنی پر مشتمل ہے علاوہ ازیں کثرت کے ساتھ آیات اور روایات موجود ہے ان سے یہ حاصل ہوتا ہے کہ صدیقین کا مرتبہ انبیاء اور شہداء کے مراتب کی مانند ہے یہ لوگ خصوصی منزلت اور عظمت کے مالک ہیں نمونے کے چند آیات حاضر ہے۔
وَمن يُّطِعِ اللهَ وَالرَّسُولَ فَاُولٰۤـئِكَ مَعَ الَّذِينَ اَنعَمَ اللهُ عَلَيهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصَّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصّٰالِحِينَ وَحَسُنَ اُولٰۤئِكَ رَفِيقَا(سورہ نساء:آیت ۶۹)
”اور جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے وہ انبیاء، صدیقین، گواہوں اور صالحین کے ساتھ ہوگا، جن پر اللہ نے انعام کیا ہے اور یہ لوگ کیا ہی اچھے رفیق ہیں“۔ وَاذكُر فِي الكِتَابِ اِبرَاهِيمَ كَانَ الصِدِّيقَا نَبِيَّا اور اس کتاب میں ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کیجئے یقینا وہ بڑے سچے نبی تھے وَاذكُر فِي الكِتَابِ اِدرِيسَ اِنَّهٗ كَانِ صِدِّيقَا نَّبِيَّا” اور اس کتاب میں ادریس علیہ السلام کا ذکر کیجئے یقینا بڑے سچے نبی علیہ السلام تھے “مَا المَسِيحُ ابنُ مَريَمَ اِلَّا رَسُولُٗ قَد خَلَت مِن قَبلِهِ الرُّسُلُ وَاُمُّهُ صِدِّيقَۃُ ٗ (سورہ مائدہ آیت :۷۵)مسیح بن مریم علیہ السلام تو صرف اللہ کے رسولؐ ہیں۔ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں اور ان کی والدہ صدیقہ خاتون تھیں“۔ بعض مفسرین نے وَاُمُّہُ صِدِّیقَۃٌ کی تفسیر میں کہا ہے کہ انہیں صدیقہ اس لئے کہا گیا کیونکہ انہوں نے اپنے پروردگار کی آیات کی اور اپنے بیٹے کے مقام کی تصدیق کی تھی۔ جن امور کی انہیں خبر دی گئی تھی ۔ان امور کی بھی انہوں نے تصدیق کی تھی ۔ خداوند تعالیٰ نے ایک دوسرے آیت اس حقیقت کی نشاندہی فرمائی (سورہ تحریم: آیت 12 )”اس نے اپنے پروردگار کے کلمات کی تصدیق فرمائی “۔
المبارکہ:
تاج العروس میں برکت کی تشریح کچھ اس طرح کی گئی ہے: ہمیشہ نشونما پاتے رہنا ،سعادتوں کا ڈھیر،بڑھنا اور کم نہ ہونا ،راغب نے مفردات میں مبارک کا معنی لکھا ہے :خیرو رحمت اس جگہ سے اس صورت میں جوش میں آئے اور جاری ہو کہنہ اسے شمار کیا جا سکے اور نہ اس سے محدود کیا جا سکے۔ جس چیز میں اس حساب سے فراوانی و افزائش اور زیادتی پائی جائے اسے” مبارک “کہا جاتا ہے ہے اس میں برکات ہی برکات ہوتی ہیں۔
سیدہ الہی کائنات کا ابلتا ہوا سرچشمہ ہے:
خالق جہاں نے سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے عظیم القدر وجود کو مختلف اقسام کی خیر و برکات کا مرکز بنا رکھا ہے ۔اللہ نے اپنے مرسل اعظم کی نسل کو ان ہی سے جاری فرمایا اور اس کے نسل میں خیر ہی خیر کردی۔ ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ وقت ِشہادت جب اس بانوئے فرزانہ کا جسم بستر پر تھا ۔اس قوت صرف آپ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام اور دو بیٹیاں موجود تھیں۔ ایک بیٹی جناب زینب سلام اللہ علیہا علیہ اور دوسری جناب ام کلثوم سلام اللہ علیہا تھیں۔ ایک زمانہ آیا کہ مصائب و آلام نے اس کے گھر کا رخ کیا ۔عاشورہ کے دن کربلا کے میدان میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے بیٹے امام حسین علیہ الصلاۃ والسلام اپنے تمام بیٹوں کے ساتھ (سوائے امام زین العابدین علیہ السلام کے) شہید کر دیئے گئے۔ اس طرح آپ سلام اللہ علیہا کے فرزند امام حسن علیہ السلام کی اولاد میں سے سات فرزندوں نے شہادت پائی ۔آپ کی بیٹی حضرت زینب ؑ کے دو فرزند تھے ،وہ دونوں بھی کربلا میں شہید کردئے گئے۔آپ سلام اللہ علیہا کی دوسری بیٹی ام کلثوم ؑکی کوئی اولاد نہ تھی ۔عاشورا کے بعد اس خاندان پر مختلف ادوار میں مصائب کے طوفانوں نے رخ کیا۔ اس خاندان نے مسلسل قربانیاں دیں۔ اس خاندان کا خون پانی کی طرح بہایا گیا واقعہ حرہ سے جناب زید بن علی بن حسین کی دردناک شہادت تک ۔پھر وہاں سے واقعہ فختک چلے آئیے ۔یہ تمام اَدوار آل فاطمہ ؑ کی خونریزیوں سے بھرے ہوئے ہیں ۔اُموی عہد میں علویوں پر جو مظالم ڈھائے گئے جس کی مثالیں نہیں ملتی،زمین کی وُسعتیں ان پر تنگ کر دی گئی تھیں۔امویوں کے بعد عباسی آئے۔انھوں نے مظالم میں امویوں کو اپنے پیچھے چھوڑ دیا۔ انھوں نے آلِ محمد علیہ السلام کی نسل کشی کی کوشش کی ۔عباسی دور کی دوصدیاں آل محمد علیہ السلام پر بہت بھاری گزریں ۔ظلم و بربریت اور سفاکیت کی کون سی داستان ہے جو اس دور میں رقم نہ کی گئی ہو؟ ان کی جنایت و ہولناکی کی آخری داستان فرزند رسول اللہ الصلاۃ والسلام حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت ہے۔ آپ گیارہویں امام ہیں ۔آپ کو سامرہ میں زہر سے شہید کر دیا گیا۔ عباسیوں کے بعد ایک بدترین سفاک و ظالم وسیاہ کار اٹھا، جس کا نام صلاح الدین ایوبی ہے۔ وہ آل رسولؑ پر مظالم ڈھانے میں عباسیوں سے پیچھے نہ تھا اس نے مغرب غربی میں فوج کے ایسے دستےبنائے تھے، جنھوں نے آل ِفاطمہؑ پر وہ مظالم ڈھائے جنھیں سن کر اجسام لرز جاتے ہیں۔ ان حوادث ومظالم و خونریزی کے باوجود اللہ نے سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی نسل میں وہ برکت رکھی کہ اس کی نسل روز بروز بڑھتی رہی ہے کیونکہ وہ خیر کا سرچشمہ ہے جو ہر وقت جوش میں ہیں اور جاری و ساری ہے۔
کوثر مفسرین کی نگاہ میں:
مفسرین نے اس آیت مبارکہ اِنَّا اَعطَینٰکَ الکَوثَرکی مختلف صورتوں میں تفسیر کی ہے۔ اگرچہ مشہور قول یہ ہے کہ قیامت کے دن ایک حوض ہے، جس کا نام کوثر ہے، یا جنت میں ایک مشہور نہر ہے جس کا نام پر ہے۔ لیکن کوثر فعاعل کے وزن پر ہے۔” ایسی چیز جو کثرت کے ساتھ ہو، ایسی خیر جو نہ ختم ہونے والی ہو“۔ علامہ سیوطی نے دُرمنشور میں کوثر کی تفسیر میں لکھا ہے: بخاری ،ابن جریر اور حاکم نے ابو البشر سے اور اس نے سعید بن جبیر سےاوراس نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا، اس نے کہا: کوثر کا معنی خیر کثیر ہے، جو خداوندِ متعال نے اپنے نبؐی کو عطا فرمائی۔ابوالبشرسے روایت ہے کہ میں نےسعد بن جبیر سے کہا : کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جنت میں ایک نہر ہے جس کا نام کوثر ہے۔ اس کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟سعد بن جبیر نے کہا : جی ہاں!جنت میں ایک نہر ہے جس میں خیر کثیر ہے وہ رسول اللہ ؐ کو عطا کی گئی ہے۔ بہر حال اس آیت کا مناسب ترین معنیٰ یہ ہے کہ کوثر کا مفہوم وہی ہے جسے فخر الدین الرازی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ کو ثر سےمراد صدیقہ طاہرہ حضرت جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں۔
علامہ طبرسی نے تفسیر مجمع البیان میں سورہ کوثر کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ایک قول ہے:” کوثر سے مراد خیر کثیر ہے“۔ ایک اور قول ہے:” نسل اور اولاد کا کثرت کے ساتھ ہونا “یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد جوحضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ذریعے پھیلی ہے وہ شمار سے باہر ہے اور قیامت تک باقی رہے گی اور پھیلتی پھولتی رہے گی ۔فخرالدین رازی نے اس سورہ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ تیسرا قول یہ ہے: کوثر سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد ہے۔
مفسرین نے کہا ہے کہ یہ سورۃ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت نازل ہوئی تھی جب مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو طعنہ دیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا نہیں ہے ۔اس طرح آپ کی اولاد نہیں ہے۔ خداوندی تعالی نے ان کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ سورہ نازل فرمائی کہ آپ کو اس قدر اولاد عطا کر دی گئی ہے کہ ہمیشہ باقی رہے گی۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس دن سے لے کر آج تک اہل بیت علیہ السلام کے کتنے لوگ مارے گئے ؟باوجود اس کے کہ ان کے وجود سے دنیا بھری پڑی ہے ۔ادھر امویوں کی طرف نگاہ دوڑائیے کہ تم کو کوئی اموی نظر آتا ہے یا ان کے کسی فرد کا نام شخصیت کے عنوان سے باقی ہو،لیکن ادھر آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نگاہ کیجئے، ان میں کس قدر علمائے کبار گذرے ہیں جن کے نام قیامت تک باقی ہیں جیسےحضرت امام محمد باقر علیہ السلام امام جعفر صادق علیہ السّلام امام موسٰی کاظم علیہ السلام اور حضرت امام رضا علیہ الصلاۃ والسلام کونفس زکیہ اور ان کی مثال؟
اس سورہ کی مناسب تفسیریہ ہے جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بیٹا فوت ہوا تو اس وقت مشرکین آپ کی شان اقدس میں گستاخی کرتے ہوئے کہا :محمؐد ابتر ہیں، جب یہ اس دنیا سے رحلت کریں گے تو ان کا ذکر مٹ جائے گا۔ اللہ تعالی نے آپ ؐسے فرمایا: اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا فوت ہوا ہے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فاطمؑہ عطا کر دی ہے ۔اگر چہ یہ ایک ہے، بظاہر کم ہے لیکن عنقریب اللہ اس واحدکو کثیر میں بدل دے گا۔ اس کلام کی صداقت تمہارے سامنے ہے۔ آج ہر طرف نگاہ دوڑائیے ۔تمہیں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی اولاد نظرآئے گی، جو فاطمہ زہرا ؑکی اولاد ہے۔ حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد ہے ۔عراق میں اس وقت دس لاکھ سادات موجود ہے ۔ایران میں تیس لاکھ کے قریب ہیں۔مصر میں پچاس لاکھ ،مراکش میں پچاس لاکھ ،تیونس اور اندلس میں ایک کثیر تعداد سادات کی آباد ہے ۔اس طرح اردن ،سوڈان ،خلیج فارس کے ممالک اور دنیا میں لاکھوں کی تعداد میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس طرح ہندوستان ،پاکستان ،افغانستان ،انڈونیشیا اور ان کے اردگرد کے علاقوں میں بھی اولاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کثرت سے موجود ہے ۔اسلامی ممالک کا کوئی شہر ایسا نہیں ہے جس میں اولاد رسول موجود نہ ہو۔ان لوگوں میں بادشاہ ،امرا ء،روساءبھی گزرے ہیں، ان میں علماء ، مؤلفین ،مصنفین ،مبارز شخصیات اور نوابع کی کبھی کمی نہیں رہی ہے۔
کہا گیا ہے کہ انہیں سادات میں سے بعض لوگ اس انتساب کو اپنے لیے سرمایہ افتخار جانتے ہیں۔ بعض سادات اس شرف و عزت کی طرف متوجہ ہی نہیں ہیں۔ بعض سادات اپنے اَسلاف کے نقش قدم اپنا نااپنے لئے سعادت جانتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو اہل بیت علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتب کے دشمن ہیں۔
الطاہرہ:
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دختر ارجمند کے اسماء میں سے ایک اسم طاہرہ ہے ۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :اِنَّمَا سُمِّیتَ فَاطِمَه بنتِ مُحَمَّد: اَلطَّاهِرَه ،لِطَهَارَ تِهَا مِن كُلِّ رَفَثِ،وَمَا رَاَتَ قَطُّ یَومَا حُمرَۃَ وَلَاَنَفَاسَا۔
”حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ کا نام طاہرہ ہ اس لئے ہے کہ آپ ؑہر پلیدی اور زنانہ عوارض و عادات سے پاک تھیں۔“ اس بحث کو ثابت کرنے کے لئے سب سے احسن آیت تطہیر ہے ،جو اسی موضوع پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالی کا قول ہے:
اِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذهِبَ عَنكُمُ الرِّجسَ اَهلَ البَيتِ وَيُطَهِّرَكُم تَطهِيرَا۫
”اللہ کا ارادہ بس یہی ہے کہ ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت علیہ الصلاۃ وسلام آپ ؑسے دور رکھے جیسے پاکیزہ رہنے کا حق ہے“۔(سورہ احزاب : آیت 33)
یہ آیت کریمہ جو معنویت اور دلائل سے بھر پور ہے کہ قرآن مجید کی وہ آیات ہےجو اس مضمون پر مشتمل ہیں، کا مقدمہ ہے اور یہ آیت خصوصی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ سرچشمہ عظمت خاندان اہلبیت ؑامور عظیمہ پر مشتمل ہے۔ اس آیت کریمہ پر بہت سے صاحبان دانشور بینش نے بحثیں کی ہیں۔ اس آیت کی تفسیر میں بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ یہ بے جا نہ ہوگا کہ اگر ہم کہیں کہ آیت تطہیر افکار کی جولان گاہ ہے اور مختلف افکار کا معرکہ ہے بالخصوص کلمہ اہلبیت علیہ الصلاۃ والسلام کہان کا ہدف رہا ہے ۔اس عنوان کے قلمرو اور اس کے حدود کیا ہیں اور کہاں تک ہیں؟ ابحاث اور افکار کا ایک ایسا سلسلہ ہے جو ختم ہونے والا نہیں ہے ۔یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ آیت تطہیر صدیقہ طاہرہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو شامل کی ہے۔ اس پر تمام شیعہ سنی مفسرین اور محدثین کا اجماع ہے۔ سوائے چند ایک کے باقی تمام روایت سے یہ ثابت ہے کہ آپ ؑکے تاجدار حضرت امام علی علیہ الصلاۃ والسلام اور آپ ؑکے دونوں فرزندوں کو شامل ہے۔
اسمِ طاہرہ کی خصوصیات:
اللہ تعالی نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو نسوانی ماہانہ عادت سے پاک رکھا ہے ۔اس طرح آپ ؑناپسند یدہ اُمور اور ناپاکی سے محفوظ ہیں۔ ہر اس برائی سے جس کا نفس سے تقاضا کرتا ہے۔شیطان کی خناسیت و شیطنت سے آپ کو مامون کردیا جس کی وجہ سے انسان عذابِ الہی کا مستحق ہوتاہے اور انسانی فطرت اور اس کےوجدان کے مابین ناہمواری پیدا ہوجاتی ہے جس سے انسانی پامردیاور حریت مسخ ہو کر رہ جاتی ہے۔ اللہ نے آپ سلام اللہ علیہا کو ان رزائل سے محفوظ فرما دیا۔
ابن عربی نے اپنی کتاب ”الفتوحات المکیہ“ باب 29میں ” رجس “ کی تشریح کی ہے ۔اس نے لکھا ہے کہ اس آیت میں کلمہ رجس سے مراد ہر وہ امر ہے جو انسان کی بد نامی کا باعث ہو ۔عصمت کا مفہوم بھی یہی ہے کیونکہ شیعیانِ حیدر کرار کا عقیدہ ہے کہ تمام انبیاء ائمہ اور حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا سب معصوم ہیں۔ عصمت عظیم الشان درجہ و مرتبہ ہے اللہ نے اپنے خواص کو یہ مقام عطا فرمایا ہے۔
الزکیہ
قرآن کریم میں مختلف مقامات پر بہت سے کلمات موجود ہیں جو کلمئہ تزکیہ سے مشتق ہیں جن کا معنی و مفہوم پاکی و پاکیزگی طراوت وتازگی اور رشد و نموہے۔نمونہ کے لیے چند آیات درج ذیل ہیں :
قَد اَفلَحَ مَن زَكّٰهَا (سوره شمس:آیت۹)
”جس نے اپنے نفس کو پاک و پاکیزہ رکھا تو وہ فلاح پاگیا“۔
اَقَتَلتَ نَفسَا زَكِيَّۃَ بِغَيرِ نَفسِ (سوره الکہف:آیت ۷۴)
”کیا آپ نے ایک بے گناہ کو بغیر قصاص کے مار ڈالا“۔
لِاَهَبَ لَكِ غُلٰامَا زَكِيَّا (سوره مریم:آیت 1۹ )
”اس لئے تاکہ آپ کو پاکیزہ فرزند عطا کروں“۔
ذٰلِكُم اَزكٰى لَكُم وَاَطهَرُ (سورہ بقرہ : آیت 232 )
”یہ آپ کے لئے پُر برکت و پاکیزہ تر ہے“۔
پہلی آیت کا معنی ہے کہ جو شخص اپنے نفس کو نفس کی شرارتوں سے زبان کے گناہوں سے شیطانی وسوسوں سے ،حسد،بخل، حبِ دنیا، غرور و تکبر اور خودپسندی جیسی بیماریوں سے پاک و پاکیزہ بناتا ہے تو ایسا انسان کامیابی سے ہمکنار ہو جاتا ہے ۔یہی تطہیر کا معنٰی ہے کہ ان برائیوں اور ناپسندیدہ امور سے دوری اختیار کرنا اور اعمال صالح کو بجا لانا ،یہی صفات بخل و کبر کی ضدیں ہیں۔
دوسری آیت میں تزکیہ کا معنیٰ ہے کیا تو نے ایک بے گناہ کو بغیر قصاص کے قتل کر ڈالا ہے ،حالانکہ اُس سے کوئی گناہ نہیں ہوا یا کوئی ایسا عمل نہیں ہوا جو موجب قتل ہو۔ تیسری آیت کا معنی ہے: ہم آپ کو ایسا فرزند عطا کرنے والا ہیں جو گناہوں کی آلودگیوں سے پاک و پاکیزہ ہے اور اعمالِ خیر میں کامل و اکمل ہے ۔جب اس بحث میں ایک مقدس نام ”فاطمہ زکیہ“ آتا ہے تو یہ اس حقیقت کی علامت ہے کہ اس کا گر ااں مایہ بوستان وجود تمام ادوار میں تمام معنوی و روحانی و اخلاقی صفات سے آراستہ و پیراستہ ہے اور وہ ان امور جو انسانیت کی ضد ہے اس سے پاک و پاکیزہ ہے ۔آیت تطہیر میں ان امور کو احسن انداز میں ثابت کیا گیا ہے وہ سیدہ زکیہ ہیں یعنی طاہرہ ہیں اور مطہرہ ہیں۔ وہ ہر رجس سے پاک و محفوظ ہیں۔
الرضیہ:
آفریدگار ہستی پر ایمان کا عظیم ترین درجہ یہ ہے کہ ایک بندہ اس کی حکیمانہ تدبیر و تقدیر پر راضی و خوشنود ہو ۔اس ذلت نے اپنے بندے کے لئے جو کچھ مقدر کیا ہے وہ اس پر راضی ہو۔ ان تمام بزرگواریوں کی علامات حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی تاریخ ساز زندگی میں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔یہ وہ ہستی تھیں کہ آپ سلام اللہ علیہا نے زندگی کے تمام نشیب و فراز جن کی بنیاد اللہ تعالی کے حکیمانہ تقدیر تھی،انہیں خوشی خوشی قبول کیا تھا۔ اےقاری عزیز !یہ کتاب جو آپ کے ہاتھ میں ہے آغاز سے لے کر انجام تک جانگداز مصائب و آلام سے بھرپور ہے ۔ یہ مصائب آپ سلام اللہ علیہا کے ولادت سے لے کر آپ سلام اللہ علیہا کی شہادت تک آپ ؑپر بادل کی طرح برستے رہے۔ اللہ تعالی نے آپ سلام اللہ علیہا کی قسمت میں خوف و حرمان، فقرواحز ان ہموم و غموم اور شدائد و آلام میں سے جو کچھ لکھ دیا تھا آپ سلام اللہ علیہا ان پر راضی تھیں اور آپ اس آیت کی مصداق ٹھہریں:
يَا اَيَّتُهَا النَّفسُ المُطمَئِنَّۃُ اِرجِعِی اِلٰى رَبِّكَ رَاضِيَۃَ مَّرضِيَّۃَ فَادخُلِی فِي عِبَادِی وَادخُلِی جَنَّتِی(سورہ فجر: آیت 27-۔۔۔30)
اے نفس مطمئنہ ! اپنے رب کی طرف پلٹا آ، اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہو پھر میرے بندوں میں شامل ہو جا اور میرے جنت میں داخل ہو جا “۔
وہ اللہ کی نعمات وجزاؤں پر راضی تھیں۔ اللہ تعالی نے ان کے مقدر میں جو کچھ لکھ دیا تھا آپ ؑاس پر راضی تھیں۔ آپ ؑ نے اپنے دنیاوی لمحات حیات کے ہر لمحہ میں اس کی رضائی تلاش کیں ۔اللہ تعالی بھی ان پر راضی و خوشنود ہو گیا۔
المرضیہ:
بند گانِ شائستہ وآرستہ کے درجات بارگاہ خداوندی میں بلند و بالا ہوتے ہیں ۔انہیں اللہ کی بارگاہ میں عزت و منزلت حاصل ہوتی ہے۔ ایسے لوگ بہت کم ہیں کہ اللہ ان پر راضی ہو اور وہ اللہ کی بارگاہ میں اپنی عدالت و پائیداری کی بنا پر پسندیدہ ہو ں۔ان تمام کامیاب کامران بندہ گان میں سے خاتون جنت حضرت سیّدہ فاطمہ زہراؑ نے سب سے زیادہ عظمت و رفعت کی بلندیاں حاصل کی آپ کو ہی اس کی بارگاہ سے حسن رضا کا گراں قدر حصہ ملا ۔وہ اپنی طاعت و بندگی اپنے زہد و انفاق اور صبر و استقامت کے لحاظ سے اللہ کے نزدیک مرضیہ تھیں ۔
حافظ عسقلانی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث نقل کی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ جناب جبرئیل علیہ السلام بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں آئے اور عرض کیا ۔
یَا مُحَمَّد! اِنَّ رَبَّكَ يُحِبُّ فَاطِمَۃَ فَاسجُد، فَسَجدُتُ…” اے محمد! تیرا پروردگار تیری بیٹی فاطمہ سے محبت رکھتا ہے آپ ؐاس کے شکریہ میں نے سجدہ کریں“۔.(لسان المیزان، جلد 3 ،صفحہ 275)
اس طرح ذہبی نے بھی حدیث نقل کی ہے کہ جناب سیدہ کی ولادت کے وقت جناب جبرئیل امین رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہا: اللہ تعالی آپ کو اور آپ کی نوزائیدہ دختر پر سلام بھیجتا ہے۔( میزان الاعتدال ذہبی، جلد 2 ،صفحہ26)
المحدّثہ
سب چیزوں سے قبل ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ملائکہ پیغمبرانِ گرامی کے علاوہ کسی اور سے گفتگو کرتے ہیں ؟کیا پیغمبران گرامی کے علاوہ دوسرے لوگ بھی فرشتوں کو دیکھ سکتے ہیں؟
کیا پیغمبروں کے علاوہ باقی انسانی مخلوق فرشتوں کی آواز بن سکتی ہیں؟
آئیے ان سوالات کے جوابات قرآن مجید سے حاصل کرتے ہیں؟
اللہ تعالی کا فرمان ہے”:وَاِذ قَالَتِ المَلائِكَۃُ يَامَريَمُ اِنَّ اللهَ اصطَفٰكِ وَطَهَّرَكِ وَاصطَفٰك عَلٰى نِسَاۤءِ العَالَمِينَ٘یٰمَریَمُ اقنُتِی لِرَبِّکِ وَ اسجُدِی وَالرکَعِی مَعَ الرَّاکِعِینَ٘
”فرشتوں نے کہا :اے مریمؑ !اللہ تعالی ٰنے آپ کو برگزیدہ اور پاکیزہ بنایا ہے اور تمام عالمین کی عورتوں پر تجھے برتری دی ہے ۔اے مریمؑ !اپنے پروردگار کےفرمان کی اطاعت کے لئے اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو جاؤ اور نماز پڑھنے والوں کے ساتھ نماز پڑھو“۔(سورۃ آل عمران :آیت42)
وَ امۡرَاَتُہٗ قَآئِمَۃٌ فَضَحِکَتۡ فَبَشَّرۡنٰہَا بِاِسۡحٰقَ ۙ وَ مِنۡ وَّرَآءِ اِسۡحٰقَ یَعۡقُوۡبَ٘
اور ابراہیم کی زوجہ کھڑی تھیں پس وہ ہنس پڑیں تو ہم نے انہیں اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی بشارت دی۔ ‎
قَالَتۡ یٰوَیۡلَتٰۤیءَ اَلِدُ وَ اَنَا عَجُوۡزٌ وَّ ہٰذَا بَعۡلِیۡ شَیۡخًا ؕ اِنَّ ہٰذَا لَشَیۡءٌ عَجِیۡبٌ﴿۷۲﴾
۷۲۔ وہ بولی: ہائے میری شامت! کیا میرے ہاں بچہ ہو گا جبکہ میں بڑھیا ہوں اور یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہیں؟ یقینا یہ تو بڑی عجیب بات ہے ‎
قَالُوۡۤا اَتَعۡجَبِیۡنَ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰہِ رَحۡمَتُ اللّٰہِ وَ بَرَکٰتُہٗ عَلَیۡکُمۡ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ ؕ اِنَّہٗ حَمِیۡدٌ مَّجِیۡدٌ﴿۷۳﴾
۷۳۔ انہوں نے کہا:کیا تم اللہ کے فیصلے پر تعجب کرتی ہو؟ تم اہل بیت پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہیں، یقینا اللہ قابل ستائش، بڑی شان والا ہے۔(سورۃ ہود :آیت71 تا 73)
یہ آیا ت بتاتی ہیں کہ ملائکہ جنابِ ابراہیم ؑ کے گھر تشریف لائے اور انھوں نے انھیں بیٹے کی ولادت کی یہ آیات بشارت دی ۔حضرت سارہ ؑ نے ان ملائکہ کو مہمان سمجھا تھا۔آپؑ نے ان کے لئے غذا بنائی اور ان سے گفتگو کی۔فرشتوں نے پھر ان سے گفتگو کی۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوۡسٰۤی اَنۡ اَرۡضِعِیۡہِ ۚ فَاِذَا خِفۡتِ عَلَیۡہِ فَاَلۡقِیۡہِ فِی الۡیَمِّ (سورہ قصص ۷)” ہم نے مادر موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ انہیں دودھ پلائیں اور جب ان کے بارے میں خوف محسوس کریں تو انہیں دریا میں ڈال دیں۔ بعض مفسرین نے اَوحینا کا معنیٰ الَھمنا کیا ہے،یعنی ہم نے یہ بات اُن کے دل میں ڈال دی ۔لیکن بعض مفسرین نے کہا ہے کہ انھیں اس بشارت کی آواز دی تھی کہ وہ اس طرح کریں۔
علامہ مناوی نے شرح الجامع الصغیر ،ج۶ص2۶۰ میں محدث قُرطبی سے حدیث نقل کی ہے ۔اس نے کہا : محدثون میں دال مفتوح ہے اور اسم ِ ،مفعول ہے ۔ اس کی واحد محدث ہے،یعنی جسے الہام ہوتا ہو۔الہام کی تعریف یہ ہے کہ انسان اپنی فکر کے ساتھ راہِ صواب کو اختیار کرے ۔ایسے خاصان خدا کے قلوب میں اللہ کی طرف سے الہام یا مکاشفہ کی صورت میں کوئی بات آئے جو صحیح ودرست ہو۔یعنی اسے عالمِ ملکوت سے الہام ہوتا ہو یا اس کے نبی نہ ہونے کی صورت میں ملائکہ گفتگو کرتے ہوں ۔یہ عزت و کرامت ہے جو اللہ اپنے صالح بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے ۔اولیائے اللہ کے منازل میں یہ عظیم منزلت ہے۔
خاتون جنت کی منزلت
آپ کے حضور عرض ہے کہ ان خدمات کے بیان کے بعد خاتون جنت کے مقام و منزلت کے فضا سے ہر قسم کے شکوک و شبہات کے سیاہ بادل چھٹ گئے ہوں گے اور یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ خاتون جنت محدثہ تھیں ،کیونکہ پیغمبر کائناتؑ کی شہز ادی کا مقامِ ارجمند جناب مریم ؑ مادر عیسیٰ ؑ یا جناب ِسارہ مادر موسیٰؑ سے کم تھا۔ یہ تمام خواتین ایمان نبیہ نہیں تھیں اور نہ شہزادی جنت ِ نبیہ تھیں۔
علامہ محدث کبیر شیخ صدوق رحمۃ اللہ نے جناب زید بن علی سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
اِنَّمَا سُمِّيَت فَاطِمَۃُ مُحَدِّثـَـۃَ لِاَنَّ المَلَائِكَۃَ كَانَت تَهبِطُوا مِنَ السَّمَاءِ فَتَنَا دِمِیھَا كَمَا تُنَادِي مَریَمَ…
” حضرت فاطمہ زہراؑ کو محدثہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ آسمان سے ملائکہ ان پر نازل ہوتے اور ان سے اس طرح گفتگو کرتے تھے جس طرح حضرت مریمؑ سے فرشتے گفتگو کرتے تھے اور انہیں ندا دیتے تھے اور باتیں کرتے تھے۔ وہ حضرت فاطمہ زہرا کو ندا دیتے تھے:
يَا فَاطِمَۃُ! اِنَّ اللهَ اصطَفٰكَ وَطَهَّرَكِ وَاصطَفٰكِ عَلٰى نِسَاۤءِ العَالَمِينَ۔
” اے فاطمہؑ! اللہ نے تمہیں برگزیدہ بنایا اور پاک و پاکیزہ بنایا ہے اور آپ ؑکو تمام عالمین پر برتری عطا کی ہے“۔ (علل الشرائع ص 182،باب 146،ح1)
البتول
آفریدگار ہستی سے اپنی مخلوق میں سے جمادات و نباتات اور حیوانات و انسان کو خلق فرمایا ۔پھر ان سب کے لیے قوانین وسنن وضع فرمائے ۔پھر اپنی تمام مخلوق کو ان قوانین کا تابع بنا یا۔
آگ :کی فطرت میں جلانا رکھا ہے ۔وہ اپنی شرائط پر مذاکرات کے ساتھ ہر چیز کو جلا دیتی ہے ۔اللہ تعالی نے اسے بنایا ہی جلانے کے لئے ہے۔
نباتات:اللہ تعالٰی نے نباتات کا اپنا اپنا مسکن بنایا ہے اور ان میں سے ہر ایک کیلئے جگہ کا بھی تعین فرمایا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے عوامل تشکیل دیے ہیں ۔وہ نمو پاتے ہیں مرتے ہیں اور جب بڑے ہو جاتے ہیں تو پھر ثمر آور ہوتے ہیں۔ آپ ایک بیج کے دانے میں غور و خوض کریں جب اسے زمین میں کاشت کیا جاتا ہے اور اس کی پیدائش اور نشوونما میں قدرت کے مقررہ شرح عوامل مدد کرتے ہیں تو وہ زمین سے اگتا ہے اور اس کے نمو کا بھی ایک خاص زمانہ ہوتا ہے۔ یہ ہے نباتات میں اللہ تعالی کی کاریگری جس کی بنا پر وہ زندگی پاتے ہیں ۔
حیوانات :حیوانات اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے بھی خاص قوانین تشکیل دیے ہیں کوئی نہیں قوانین کے تحت پیدا ہوتے ہیں پھر بڑھتے ہیں اور مقرر شدہ اور اختیار کرتے ہیں اللہ تعالی نے انسان کی جبلت میں جو خصوصیات رکھی ہیں ان کے تحت وہ فرمانبرداری اور اطاعت کرتے ہیں۔
اسی طرح انسان ہیں وہ بھی خداوند تعالی کی سنت سے بالاتر نہیں ہے ۔وہ بھی جہان آفرینش و جسمانی اور روحانی فطرت کے قوانین کے آگے سرنگوں ہیں، لیکن اللہ تعالی نے اپنی حکمت بالغہ کے تحت اپنے اولیاءؤں کو قوانین اور ان پر برتری عطا کی ہے۔ جب وہ چاہتا ہے تو انہیں قوانین طبعی کو ان کے تابع بنا دیتا ہے۔
آپ آگ میں غور و فکر کرے اس کا کام جلاہے۔جو چیز اس کی گرفت میں آجائے اسے انا فانا جلا کر رکھ دیتی ہے۔ جب اللہ تعالی کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں (جس کا خلاصہ جلانا ہے) ڈالا گیا تو اللہ تعالی نے ان پر اسے بَردَا وَ سَلامَا بنا دیا۔ آگ کی فطرت پر ولایت غالب آگئی۔ جس نے اس کی حرارت کو برودت و سلامتی میں بدل دیا۔ یا جب ہم حضرت یونس علیہ السلام کی جب مافوق الفطرت اور عجیب و غریب داستان پڑھتے ہیں کہ جب مچھلی انہیں بیابان میں اگل ڈالا اور وہ بیمار و لاغر تھے تو فورا اللہ تعالی کے حکم سے کدّو کی بیل پیدا ہوئی اور اس نے انہیں اپنے پتوں سے ڈھانپ لیا حالانکہ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ پہلے کدو کا بیج زمین میں ڈالا جاتا ہے پھر وہ زمین سے نکلتا ہے اس کے پھلنے پھولنے میں ایک وقت لگتا ہے تب جاکر اس کے پتے کسی انسان کو ڈھانپ سکتے ہیں یا کسی اور چیز کو ڈھانپ سکتے ہیں۔ اللہ تعالی نے کدو کی بیل کی فطرت کو اپنے نبی حضرت یونس علیہ السلام کے سامنے جھکا دیا تھا ۔
مقام و منزلت خاتون جنت
خالق جہان ہستی سے نے ارادہ فرمایا کہ حضرت فاطمہ زہراؑان عوارض اور مشکلات جسمانی وروحانی سے دوچار نہ ہوں، اس لئے اللہ تعالی نے انہیں انوار سے پاک وپاکیزہ بنایا۔ چند روایاتِ صحیحہ پیش کر رہے ہیں ان کا مطالعہ کیجئے۔ قندوزی نے روایات ہےکہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اِنَّمَا سُمِّيَت فَاطِمَۃ ُ ٗبَتُولَا لَاَنَّهَا تَبتَطلَت مِنَ الحَيضِ وَالنِّفَاسِ
”فاطمؑہ کو بتول اس لیے کہا گیا ہے کہ اللہ نے انہیں عورتوں کی ماہانہ عادت اور نفاس سے پاک رکھا ہے “۔(ینابع المودۃ،ص 260 )
امر تسری نے ارجح المطالب میں 241 میں روایت کی ہے کہ رسول اللہ ؐ سے پوچھا گیا کہ ” بتول“کی خصوصیات کیا ہیں ؟ہم نے آپ سے سنا ہے کہ آپ ؑ مریم ؑ اور فاطمہؑ بتول ؑ فرماتے ہیں۔یہ سن کر آپ ؐ نے فرمایا : بتول اسے کہا جاتا ہے جو قطعاً سرخی نہ دیکھے ، یعنی جو حیض سے پاک ہو،کیونکہ انبیاء ؑ کی بیٹیوں میں ماہانہ عادت ناپسند یدہ امر ہے۔
محمد صالح کشفی حنفی نے المناقب ،صفحہ 119 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ ؑنے فرمایا:
سُمِّيَت فَاطِمَۃُ بَتُولًا لِاَنَّهَا تَبتَلَت وَتَقَطَّعَت عَمَّا ھُوَامُعتَاذاً العَورَاتِ فِي كُلِّ شَهرِ
”فاطمہؑ“ کو بتول اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ عورتوں کی عادت سے جو وہ ہر ماہ دیکھتی ہے ان سے پاک ہیں“۔
حافظ ابوبکر شافعی نے تاریخ بغداد جلد 13 ،صفحہ 331 جناب ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا۔
اِبنَتِي حَورَاء آدَمِيَّۃٌ لَم تَحُض وَلَمْ تَطْمِثْ…. اَلٰى اۤخِر
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :میری بیٹی فاطمؑہ انسانی شکل میں حُو ریہ“ ہے۔ انہوں نے ہرگز خون نہیں دیکھا “(یہی روایت محدث نسائی نے بھی بیان کی ہے)۔
ابن عساکر تاریخ کبیر جلد 1 ،ص 391 نےانس بن مالک سےاور اس نے ام سلمہ سے سنا:اس نے فرمایا: حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ نے نہ خون حیض دیکھا اور نفاس “۔
حافظ سیوطی نے خصائص فاطمہ سلام اللہ علیہا میں لکھا ہیں۔ا۔نَّھا کَنَتْ لَا تَحِیْض” وہ ماہانہ نسوانی ماہانہ عادات سے پاک تھیں“
رافعی نے کتاب ” التدوین “حضرت ام سلمہ سے روایت کی ہے:
مَارَاَتْ فَاطِمَۃُ سَلَامُ اللهِ عَلَیْھَا فِي النِّفَاسِھَا دَمًا وَلَا حَيْضاً
”حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے اپنی زندگی میں ماہانہ خون دیکھا اور نہ نفاس
خداوند تعالیٰ نے انہیں دونوں خونوں سے پاک و پاکیزہ بنایا تھا ۔
طبری نے ذخائرالعقبیٰ میں حضرت اسماء بنت عمیس سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا: جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ان کے بیٹے حسن علیہ السلام پیدا ہوئے تو میں نے ان سے نہ کوئی خون دیکھا اور نہ دوسرے عوارض جو عموما وقت ولادت عورتوں کو لازم ہوتے ہیں “۔صفوری نے نزہۃ المجالس، صفحہ 227 اس روایت کو نقل کیا ہے۔
العذرا
سیدہؑ کے ملکوتی آسماءمیں ایک اسم ”عذرا“ہے آپ ؑ کو اس نام سے اس لیے پکارا جاتا تھا کہ آپ ؑہمیشہ سے دو شیزادہ اور باکرہ تھیں۔ آپ ؑاپنی زندگی کے آخری لمحات تک دو شیزہ اور باکر ہ ہی رہیں ۔ہم نےآپ نے گزشتہ روایات میں بیان کیا ہے کہ خاتون جنت کی آفرینش اور آپ کا نقطہ آپؑ بہشتی غذا اور آسمانی ارغمان کا جوہرتھا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں بارہا فرمایا:” فاطمہ انسانی شکل میں حُورہے“۔
ان روایات سے واضح ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان مبارک حقیقت و واقعات پر مبنی ہے۔ اس بیان میں ذرہ برابر تجاوز مبالغہ نہیں ہے۔
ان روایات کے علاوہ جب قرآن مجید میں غور و فکر کریں تو معلوم ہوتا ہے کیا فاطمہ سیّدہ ؑجنت کے جن حُوروں کی سید ہو سالار ہیں اللہ نے ان کی یوں تعریف و توصیف کی ہے ۔ اِنَّا اَنْشَانَاهُنَّ اِنْشَاءَ فَجَعَلْنٰهُنَّ اَبْكَارًا( سورہ واقعہ :آیت 35-36)
”ہم نے ان( حوروں) کو ایک انداز تخلیق سے پیدا کیا۔ پھر ہم نےا نہیں باکرہ بنایا“۔ قرآن مجید کے ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ہمیشہ خوش رہیں گی۔ جب حوران ِجنت ہمیشہ خوش رہیں گی تو ان کی سید و سالار کی دوشیزگی اور باکرہ ہونے میں کسی شک و شبہے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔
تفسیر مجمع البیان میں ان آیات کی تفسیر میں علامہ مفسرنے لکھا ہے: جب حوران جنت کے شوہر ان سے مقاربت کریں گے تو وہ انہیں باکرہ پائیں گے۔
جب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ ایک مرد جب اپنی حورسے مقاربت کر لے گاتو مقاربت کے بعد وہ کیسے باکرہ رہے گی؟
امام معصوم علیہ السلام نے فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حوُر کی تخلیق ایسے پاک و پاکیزہ لطیف ماد ےسے کی ہے جس میں کبھی نقص و عیب پیدا نہیں ہوگا۔ اس کا جسم کسی آفت سے آمیختہ نہیں ہوگا۔ وہ کبھی حیض سے دوچار نہیں ہوگی۔ اس کا رحم ہمیشہ چسپاں ہی رہے گا۔
یہی وجہ ہے کہ سیدہ نساء العالمین کی تخلیق بہشتی میوہ جات اور آسمانی ارغمان سے ہوئی ہے اور وہ انسانی شکل میں حورہیں ۔ ان کے خواص و اعادات بہشتی حور کے معنی ہیں، اس لیے وہ عورتوں کی ماہانہ عادت سے پاک ہے ۔ انھی وجوہات کی بنا پر آپؑ کے اسماء میں سے ایک اسم عذرا ہے۔
زہراء
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہراؑ کے نور انور کے بارے میں فرمایا: کہ آفریدگارہستی نے حضرت فاطمہ زہراؑ کے نور کو مشعل کی طرح تخلیق کیا اور اسے اپنے عرش کے ساتھ معلق کر دیا۔ پس ان کے اسی نور سے ساتوں آسمان اور ساتوں زمین منور ہوئے ۔اسی وجہ سے آپؑ کا اسم گرامی فاطمہ زہرا رکھا گیا۔( بحار الانوار جلد: 43صفحہ 17)
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وَاَمَّا اِبنَتِي فَاطِمَۃ فَاِنَّهَا سَيِّدَۃُ نِسَاء العَالَمِينَ مِنَ الاَوَّلِينَ وَالاٰخِرِيْنَ وَهِيَ بَضْعَۃُ مَنِّي وَهِيَ نُوْرُ عَيْنِيْ وَ هِيَ ثَمَرَۃُ فُؤادِي وَهِيَ رُوْحِيْ وَهِيَ الحَورَاءِ الْاِنْسِيَّتَہ مَنْ قَامَتْ فِي مِحْرَابِهَا بَيْنَ يَدَيَّ رَبِّهَا زَهَرَ نُوْرُهَا لَمَلَائِكَۃِ السَّمَاءِ
”میری دختر حضرت فاطمہؑ عالمین کے اول اور آخر تمام خواتین کی سیدہ وسالا ر ہیں۔ وہ میرے بدن کا حصہ ہیں۔ میری آنکھوں کا نور ہیں۔ میرے دل کا میوہ ہیں اور میرےر وح ہیں، جو دونوں پسلیوں کے درمیان میں ہے۔ وہ انسان کی شکل میں حُو ر ہیں۔ جس وقت وہ بارگاہ خداوندی میں اس کی بندگی و عبادت کے لیے کھڑے ہوتی ہیں تو اس وقت اس کا نور ملائکہ آسمانی کے لئے اس طرح جگمگاتا ہے جس طرح سے ستاروں کانوراہل زمین کو دکھائی دیتا ہے“۔(امالی شیخ صدوق /بحارالانوار ،جلد 43 )
ان دونوں احادیث کی روشنی میں ہم نے یہ معلوم کیا کہ حضرت فاطمہؑ کو زہرا کا لقب کیوں دیا گیا؟ اس مضمون کی ایک اور حدیث بھی ہے ۔اس کے چہرے سے نور پھوٹتا تھا، یعنی ایسا چہرہ جو ضوفشاں ہو۔ علاوہ ازیں حضرت فاطمہ زہراؑ کے اور آسماءبھی ہیں۔ آپ کا ہر اسم آپ ؑکی فضیلت اور آپ کے امتیازات کا ایک جامع بیان ہے ۔ان میں سے کچھ آسماءیہ ہیں: البتول ، عذراء، الحیانیہ حانیہ”حنو“سے ہے۔ حانیہ اسے کہا جاتا ہے جو اپنی اولاد کو ٹوٹ کر چاہے اور ان پر بہت زیادہ مہربان اور شفیق ہو۔
آپ کی کنیتوں میں سے ایک اہم کنیت ام ابیہا ہے اور یہ کنیت تمام کنیتوں سے افضل ترین کنیت ہے۔
کتاب ” فاطمہؑ طلوع سے غروب تک” سے اقتباس/ عربی کتاب ( فاطمۃ من المھد الی اللھد، آیت اللہ کاظم قزوینی ؒ)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button