قرآنیاتمقالات قرآنی

انس با قرآن

بعض لوگوں کا قرآن سے بہرہ مند ہونا عبارات وظواہر تک ہے بعض کے لئے وہی ظواہر اشارہ ہیں معنیٰ خاص کی طرف۔ اولیاء الہی قرآنی آیتوں سے لطائف تک پہنچتے ہیں اور انبیاء آیات الہی کے بطون اور اپنے اپنے مراتب کے پیش نظرحقائق کے اس اعلی مراتب پر پہنچ جاتے ہیں جہاں دوسرے پہنچنے سے عاجز ہیں۔
البتہ اس نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے کہ شیعہ ائمہ علیہم السلام بھی حقیقت قرآن سے آگاہ ہیں اور عوام جس چیز کو سمجھنے سے عاجز ہے اس کا علم رکھتےہیں۔ یہاں بطون قرآن سے مربوط چندروایت کی طرف اشارہ کریں گے۔ (1)چونکہ قرآن کے لئے بطن کا ثابت کرنا در واقع تاکید ہے اس بات پرکہ اولاً قرآن کے سلسلے میں سب کی سمجھ ایک جیسی نہیں ہے، ثانیاً ظاہر و باطن ایک امر نسبی ہے ممکن ہے کوئی چیز کسی شخص کے لئے باطن آیت ہو لیکن دوسرے کے لئے وہ ظاہر ہو یااس کے برعکس اور یہ ایک مہم بحث ہے۔( 2)
بطون قرآن سے متعلق دو سوال مطرح ہیں ایک یہ کہ آیا قرآن بطن رکھتا ہے؟ دوسرے یہ کہ ان بطون کی تعداد کتنی ہے؟
پہلے سوال کے جواب میں کہناچاہیے: قرآن ظاہر کے علاوہ باطن بھی رکھتا ہے اور روایات اس بات کو ثابت کرتی ہیں .امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: “ان للقرآن ظھراًو بطناً”( 3) یہ روایت “اصول کافی” کے علاوہ “من لایحضرہ الفقیہ”، “محاسن برقی” اور “تفسیر عیاشی” میں مختلف سند کے ذریعہ نقل کی گئی ہے۔
دوسری حدیث میں جابر نقل کرتے ہیں کہ میں نے امام باقر علیہ السلام سے ایک آیت کی تفسیر پوچھی تو آپؑ نے جواب دیا، دوبارہ دریافت کیا تو آپؑ نے دوسرا جواب فرمایا دونوں جوابوں کے اختلاف کے بارے میں عرض کیا تو فرمایا: “یا جابر! ان للقرآن بطناً وللبطن ظھراً”( 4) کتاب محاسن میں اس روایت کو دوسری طرح پیش کیا گیا ہے اور “للبطن ظھراً” کی جگہ “للبطن بطناً” آیا ہے لیکن یہ اختلاف ہمارے مدعیٰ (بطن قرآن)کے اثبات میں مانع نہیں ہے۔
اب رہا دوسرا سوال کہ قرآن کے کتنے بطن ہیں؟ مشہور ہے کہ قرآن کے لئے ست بطن ذکر کئے گئے ہیں لیکن نہ تو عدد، سات اور نہ ہی ستر معتبر روایت رکھتے ہیں اور اگر یہ عدد درست بھی ہوں تبر بھی صرف کثرت کو ثابت کرتے ہیں، چونکہ عرف میں مخصوصاً اس زمانہ کی لغت میں ان اعداد کو اسی مقصود کے لئے استفادہ کیا جاتا تھا۔
اس تمہید کے بعد روایات میں موجود دو مطلب کی تحقیق کریں گے۔
1۔ قرآن کے ساتھ انس کی تعریف
2۔ قرآن سے انس کے متعلق روایت کے رتبہ کو پہچاننا اس طرح کہ ہر کوئی اپنے ظرف کی وسعت کے مطابق اس منبع فیض الہی سے بہرہ مند ہوسکتا ہے۔
1) قرآن سے انسیت
“انس” لغت میں وحشت کے مقابل میں استعمال ہوتا ہے۔( 5) اور انسان کا کسی چیز سے مانوس ہونے کا یہ معنی ہے کہ اسے اس چیز سے کوئی خوف و اضطراب نہیں ہے اور اس کے ساتھ اسے سکون حاصل ہوتا ہے۔ کمال طلب انسان فقط مادی امور پر اکتفا نہیں کرتا عالی اہداف کی طرف قدم بڑھاتا ہے لہذااپنی وحشت اور تنہائی کو معنوی امور کے حصار میں زائل کردیتا ہے۔ روایات میں علم سے انسیت، قرآن اور ذکر خدا کی معرفت کی تاکید کی گئی ہے۔
امام علیؑ فرماتے ہیں: “جو کوئی قرآن سے مانوس ہوگا وہ دوستوں کی جدائی سے وحشت زدہ نہیں ہوگا”۔ ( 6) اسی طرح سے آپ ان افراد کے جواب میں جو وقت سفر آپؑ سے نصیحت کی درخواست کی تھی فرماتے ہیں: “اگر کسی مونس کی تلاش میں ہو تو قرآن تمہارے لئے کافی ہے۔” 7 آپؑ اپنی مناجات میں خدا سے اس طرح فرماتے ہیں: اللّٰھم انّك آنَسُ الآنِسین لاولیائِك۔۔۔ ان اَوحَشَتھم الغُربۃ آنَسَھم ذِكرُك”۔( 8)
پروردگارا! تو اپنے دوستوں کے لئے مانوس ترین مونس ہے اور اگر غربت انہیں وحشت زدہ کرتی ہے تو تیری یاد کنج تنہائی میں ان کی مونس ہے۔
امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں: ” اگر روئے زمیں پر کوئی زندہ نہ رہے اور میں تنہارہ رہ جاؤں جب تک قرآن میرے ساتھ ہے مجہے وحشت نہیں ہوگی” (9)
کلام ائمہ میں اس طرح کی تعبیرات فراوان پائی جاتی ہے اور معمولاً! مہم موضوعات کی تاکیدات کے لئے اس طرح کے کلام ارشاد ہوتاہے خصوصاً قرآن کے سلسلے میں جو کہ: “تبیاناً لكل شیٔ” (10) ہے راہ ہدایت میں انسان جس چیزکا محتاج ہے اسے قرآن میں پاسکتاہے۔ یہاں تک انسان آیات الہی کو ترنم کے ساتھ غورسے سنے اور لذت معنوی کاقصد نہ رکھتا ہو تب بھی اس کے ایمان میں اضافہ ہوگا اور سکون محسوس کرے گا “انّما المومنون اذاذكر اللّٰہ وجلت قلوبھم واذاتُلیت علیھم آیاتہ زادتھم ایماناً ”( 11) وہ افراد جوقرآنی محافل میں جاتے ہیں اور جو کچھ حد تک معانی قرآن سے بھی آشنا ہیں آیات رحمت سنکر وجد میں آجاتےہیں اور آیات عزاب سنکر کانپ اٹھتے ہیں اور محزون ہوجاتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ انکا ایمان اور محکم ہوگیا ہے کیونکہ قرآن جہاں لذت معنوی کو فراہم کرسکتا ہے وہیں کتاب عمل بھی ہے امام صادقؑ فرماتے ہیں: “کسی مونس کی تلاش میں تھا تا کہ اس کی پناہ میں آرام و سکون کا احساس کروں اسے قرآن کی تلاوت میں پایا۔” (12)
2) قرآن سے انسیت کے مراتب
قرآن کے علم کے مراتب اور اس کے بطون مندرجہ ذیل ہیں:
الف) گھروں میں قرآن رکھنا
ب) قرآنی آیتوں کی طرف دیکھنا
ج) آیات قرآنی کو غور سے سننا
د) تلاوت قرآن
ھ) قرآن میں غور و فکر کرنا
و) قرآن پر عمل کرنا (13)
مذکورہ بالا مرحلوں کے سلسلوں میں بہت سی احادیث پائی جاتی ہیں کہ ان میں سے ہر مرحلہ کے لئے چند روایت کو بطور نمونہ پیش کیا جائے گا اور کوشش ہوگی کہ روایت کے انتخاب میں معتبر سند کاخاص خیال رکھا جائے البتہ ہر مرحلہ میں اتنی روایتیں پائی جاتی ہیں کہ ان کا معصوم سے صادر ہونے کا احتمال تقویت پاتاہے۔ (14)
الف) قرآن گھروں میں رکھنا
پرانے زمانے سے کسی مخصوص چیز کو متبرک جاننا اور اسے گھروں میں رکھنا ہمارے معاشرہ میں مرسوم ہے۔ قرآن کو گھروں میں رکھنے کی جو سفارش ہماری روایتوں میں ملتی ہے شاید اس کی ایک علت یہ ہوکہ کسی خرافاتی چیز کو متبرک جاننے کے بجائے لوگ کلام الہی سے متبرک ہوں اس لئے امام صادقؑ فرماتے ہیں:
انہ لیعجبنی ان یكون فی البیت مصحف یطرد اللّٰہ عزوجل بہ الشیاطین”۔ 15 مجھے تعجب ہوتاہے کہ گھر میں قرآن ہو اور اس کے ذریعے خداوند شیاطین کو دور کرتاہے۔
قرآن سے انسیت کا سب سے نچلا درجہ جیساکہ بیان کیا جا چکا یہ ہے کہ اس کو گھروں میں رکھا جائے تا کہ اگر کوئی اپنے آپ کو کسی بھی طرح سے قرآن سے مرتبط نہیں رکھ سکتاہے توحداقل اسے گھر میں رکھے۔حتی اگر یہ معنی بھی امام کے ملحوظ نظرنہ ہو تو تب بھی قرآن کا گھروں میں رکھنا انسان کی مصلحت کے تحت ہے جیسا کہ روایت میں اشارہ ہواہے۔
بعض روایتیں ایسی بھی پائی جاتی ہیں جواس روایت سے تعارض رکھتی ہیں جس میں قرآن کو دیکھے بغیریا اس کی تلاوت کئے بغیر گھروں میں رکھنے سے مذمت کی گئی ہے۔ لیکن جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہی اس تعارض کا حل لوگوں کے مراتب مختلف ہونے کی وجہ سے ہے۔ مشخص ہے اگر کوئی شخص قرآن کو دیکھنے یا اس کی تلاوت کی قدرت نہیں رکھتا تو حداقل جو کام وہ کرسکتاہے وہ یہ ہے کہ اس کو گھر میں رکھے اور اس طرح کے نمونہ معاشرہ میں پائے جاتے ہیں عین نماز کی طرح کہ اگر کوئی پڑھنے سے عاجز ہے تو کم سے کم اشارہ کے ذریعہ بجالائے۔
ب) قرآن کی طرف دیکھنا
قرآن کی طرف دیکھنے کے سلسلہ میں بعض ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں جو اسے ایک طرح کی عبادت شمار کرتی ہیں۔ حضرت ابوذر(رح) رسول خداؐ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: “قرآن مجید کی طرف دیکھنا عبادت ہے” (16)
پیغمبر اکرم(ص) سے منقول دوسری روایتوں میں ملتا ہے “اعطوا اعینكم حظھا من العبادة قالوا: و ماحظھا من العبادة؟ قال: النظر فی المصحف و التفكر فیہ و الاعتبار عند عجائبہ” (17)
تمہاری آنکھیں عبادت میں کچھ حصہ رکھتی ہیں اسے ادا کرو سوال کیا گیا: عبادت میں ان کا حصہ کیا ہے؟ فرمایا: قرآن کی طرف دیکھنا اس مین تدبر کرنا اور اس کے عجائب سے عبرت حاصل کرنا۔ البتہ دوسری روایت میں قرآن میں غور و خوض پر بھی دلالت کرتی ہے جو مراحل بالاتر میں سے ہے لیکن روایت ابوذر(رح) کے پیش نظر اگر کوئی صرف قرآن کی طرف دیکھے بھی تو ایک طرح کی عبادت ہے اور دوسری روایت پہلی روایت کے اطلاق کو مقید نہیں کر رہی ہے، چونکہ خارجی موجود ہے۔جب قرآن کو گھر میں رکھنے کی سفارش کی گئی ہے تو لامحالہ اسکی آیات کی طرف دیکھنا بھی اہمیت فراواں رکھتا ہے۔
ج) قرآن کو غور سے سننا
قرائت قرآن سے پہلے اس كو غورسے سننے كا مرتبہ ہے۔اگر كوئی كسی بھی وجہ سے قرآن نہیں پڑھ سكتا ہے تو اسے چاہئیے كہ اسے غور سے سنے۔
پیغمبراكرم(ص) غور سے سننے اور قرائت جی اس رتبہ جو ایج روایت میں اس طرح بیان جرتے ہیں: “من استمع الی آیۃ من كتاب اللہ تعالی كتب لہ حسنۃ مضاعفۃ و من تلاھا كانت لہ نوراً یوم القیامۃ” (18) جو ،وئی ،تاب خدا ،ی ای، آیت کو غور سے سنے خداوند اس کے لئے کئی گنا نیکیاں اس کے نامۂ اعمال میں لکھ دیتا ہے اور جو اس کی تلاوت کرے تو اس کے لئے قیامت کے دن ایک نور ہوگا۔
کلینی “اصول کافی” میں امام سجاد اور امام صادقؑ سے نقل کرتے ہیں: “من استمع حرفا من كتاب اللہ عزوجل من غیر قرائۃ كتب اللہ لہ حسنۃ و محا عنہ سیئۃ و رفع لہ درجۃ” (19)
اگر کوئی کتاب خدا کے فقط ایک حرف کو فقط سنے اور اس کی تلاوت نہ کرے توخداوند اس کے لئے ایک نیکی لکھتا ہے، اس کے ایک گناہ کو مٹا دیتاہے اور اس کا ایک درجہ بڑھاتاہے۔ اس روایت کا مضمون ایسا نہیں ہے جس کو قبول کرنادشوار ہو۔ بعض روایتوں میں چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے ثواب وافر کاوعدہ کیا گیاہے۔
قرآن کریم کو غور سے سننے کے سلسلہ میں جو روایت بیان کی گئی ہے اسے کسی بھی طرح کی توجیہ کی ضرورت نہیں ہے اگرچہ امام (ع) مقام تاکید سے دور نہیں ہیں قرآن کے ایک حرف کی تلاوت کے بدلے ثواب لکھا جانا اور گناہ کا مٹنا طبیعی و عادی ہے۔ (20)
د) قرآن کی تلاوت
قرآن مجید میں آیا ہے کہ جو کوئی کتاب خدا کی تلاوت کرے شامل اجر و فضل خداوند ہوگا۔
ان الذین یتلون كتاب اللّٰہ و اقاموا الصلٰوة و انفقوا مما رزقناھم سرّ اً و علانیۃ یرجون تجارة لن تبور لیوفّیھم اجورھم و یزیدھم من فضلہ انّہ غفور شكور” (21)اس آیت کے علاوہ بھی دوسری آیات جوقرآن اور اس کے فوائد کو بیان کرتی ہیں قرآن کریم میں موجود ہے۔
گھر میں قرآن رکھنے، اور اس کی طرف دیکھنے اور اس کو غور سے سننے کے بعد تلاوت قرآن کا مرتبہ آتاہے۔ جو افراد قرآن کی تلاوت کرسکتے ہیں انہیں چاہیے کہ گھر میں اسے خاک پڑتا نہ چھوڑیں۔ اس سے پہلے بھی ایک فوائد میں بیان کیا گیا ہے کہ گھر میں قرآن کی وجہ سے شیاطین دور ہوتے ہیں اور گھروں کی تاریکی دور ہوتی ہے۔ مندرجہ ذیل روایت میں اشارہ ہوا ہے کہ گھر میں قرآن کی تلاوت کی جائے تو گھر نورانی ہوگا، نیکی بکثرت ہوگی اور اہل خانہ کے لئے گشائش حاصل ہوگی اور جس طرح سے ستارے زمین کو روشن کرتے ہیں جس گھر میں قرآن پڑھاجائے اہل آسمان کے لئے نورانی جلوہ گر ہوگا۔ اگر چہ مسجدوں اور دوسری جگہ پربھی قرآن کی تلاوت کی جاسکتی ہے لیکن کیوں نہ گھر کو اس رحمت الہی کامرکز قراردیں۔ پیغمبراسلامﷺ فرماتے ہیں: “انّ البیت اذا كثرفیہ تلاوة القرآن كثر خیرہ والتّسع اھلہ واضاء لاھل السماء كما تضیء نجوم السماء لأھل الدنیا” (22) دوسری روایت میں امام صادق(ع) فرماتے ہیں: “القران عھد اللّٰہ الی خلقہ ینبغی للمرء المسلم ان ینظر فی عھدہ وان یقرأ منہ فی كل یوم خمسین آیۃ” (23)
قرآن خالق و مخلوق کے درمیان ایک عہد و پیمان ہے اور سزاوار ہے ایک مسلمان کے لئے کہ ہر روز اس عہد وپیمان پر نظر کرے اور (کم سے کم) اس کی پچاس آیت تلاوت کرے۔
ھ) قرآن میں غور و فکر
قرآن سے ارتباط کا ایک عالی ترین مرحلہ آیات الہی میں غور و فکر کرنا ہے۔ “افلا یتدبرون فی القرآن و لو كان من عند غیراللّٰہ لوجدوا فیہ اختلافاً كثیراً”(24) قرآن مین تدبر کے ذریعہ اس نتیجہ تک پھنچا جا سکتا ہے کہ انسان اور کائنات میں موجود تمام چیزوں کے لئے قاعدہ کلی “بے ثباتی و دگرگونی” ہے، قول میں بھی اور فعل میں بھی، لیکن قرآن اس طرح نہیں ہے علامہ طباطبائی کے بقول: ” قرآن وہ کتاب ہے جس میں تمام انفرادی و معاشرتی قوانین پائے جاتے ہیں، مبدا و معاد سے مربوط مسائل، قصہ، عبرتیں و نصیحتیں وغیرہ جو تدریجاً نازل ہوئی ہیں اور گذرزمان کے ساتھ جس میں کسی بھی طرح کی تغییر وتبدیلی نہیں پائی جائے گی” 25
قرآن میں غور و فکر، علمی فوائد کے علاوہ شخصی ثمرہ رکھتا ہے مذکورہ بالا آیت کے تحت آیات قرآن میں غور وفکر کے ذریعہ پتہ چلتاہے كہ اس کی آیتیں کسی بھی طرح کا آپس میں اختلاف نہیں رکھتی ہیں۔لہذا آیتیں ایک دوسرے کی مفسر واقع ہوسکتی ہیں اور یہ بہت مہم فائدہ تھا کہ علامہ طباطبائی اسی کے سایہ تلے قرآن سے قرآن کی تفسیر تک پہنچے۔ آپ اس آیت کے ذیل میں، قرآن کے ذریعہ قرآن کی تفسیر کا نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ “صاحب مجمع البیان” بھی آیٔہ “افلا یتدبرون القران۔۔۔” كے ذریعہ اس نتیجہ تک پہنچے ہیں۔ (26)
دوسرا مہم فائدہ یہ ہے کہ چونکہ احکام قرآنی میں تغییر وتبدیلی نہیں ہوگی لہذا یہ شریعت بھی قیامت تک مستمر رہے گی۔ (27)
انفرادی لحاظ سے بھی انسان آیات قرآن میں غور و فکر اور مبدأ ومعاد کو اپنے ذہن مین مجسم کرکے داستان خلقت انسان کو یاد کرسکتا ہے اور آئندہ کو پیش نظررکھ سکتاہے۔ کچھ ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں جس میں آیات رحمت کی تلاوت پرمسروراور آیات غضب کی تلاوت پر محزون ہونے کی سفارش کی گئی ہے۔غزالی کتاب “کیمیائی سعادت” میں حضرت ابوذر(رح) سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبراسلامؐ رات کے ایک تہائی حصہ میں اس آیت کی تکرار فرماتے تھے: “ان تعذبھم فانھم عبادك وان تغفر لھم فانك انت العزیز الحكیم” (28)
امام علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ” قرآن کو جلدی جلدی نہ پڑھو اور اس فکر میں نہ رہو کہ سورہ کو جلد ختم کرلو، اپنے دلوں میں خشوع پیداکرو” 29 آپ دوسرے بیان میں فرماتے ہیں: قرآن سیکھو کیونکہ وہ بہترین کلام ہے اور اس میں غور و فکر کرو چونکہ وہ بہار ہے۔ (30) حضرت کے اس کلام کا اہم نکتہ یہ ہے کہ سیکھنے کے مرحلے میں فرمایاہے “بہترین کلام” لیکن غور و فکر کے مرحلے میں اسے “بہار” سے تشبیہ کرتے ہیں؛ ایسی بہار جو کہ زندگی اور اگنے کی فصل ہے۔
و) قرآن پرعمل اور اس سے متمسک ہونا
پیغمبر اکرمؐ اور ائمہؑ سے قرآن پر عمل کے سلسلہ میں مختلف تعبیرات پائی جاتی ہیں”اتباع” “تمسّک” اور “حق تلاوت” (31) جیسی تعبیر بھی قرآن پرعمل کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں۔ ان میں سے بعض روایات کی طرف اشارہ کریں گے۔ (32)
پیغمبراسلامؐ فرماتے ہیں: “اعملوا بالقرآن احلوا حلالہ وحرموا حرامہ ولاتكفروا بشی منہ” (33) قرآن (اس کےدستورات) پر عمل کرو اس کے حلال کو حلال جانو اور اس کے حرام سے پرہیز کرو اور اس کی کسی بھی چیز کا انکار نہ کرو۔
دوسری روایت میں امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: “یا حملۃ القران! اعملوا فان العالم من عمل بما علم و وافق عملہ علمہ و سیكون اقوام یحملون العلم لایجاوز تراقیھم، یخالف سریرتھم علانیۃ” (34) اے وہ لوگ جو قرآن کاعلم رکھتے ہیں! اس پر عمل کرو، چونکہ عالم وہ ہے جو اپنی معلومات پر عمل کرے اور اس کاعمل اس کے علم کے مطابق ہو۔ بہت جلد ایسے لوگ آئیں گے جن کا علم حلقوم سے نیچے نہیں اترے گا اور ان کا باطن ان کی ظاہری رفتار سے مخالف ہوگا۔
جب تک پیغمبر اسلامؐامت کے درمیان تھے لوگ مکلّف تھے کہ آنحضرتؐ جس چیز کاامر کریں اس پرعمل کریں اور جس چیز سے منع کریں اس سے دوری اختیار کریں، چونکہ آپ احکام الہی کو بیان فرماتے تھے اور آپ کا کلام، کلام وحی تھا اور اپنے بعد امت کو بھی قرآن وعترت کی طرف رجوع کرنے کاحکم دیا (35) اس کی بھی علت یہ تھی کہ چونکہ عترت قرآن کے علاوہ کچھ اور نہیں بیان کرتے تھے وہ بھی کلام خداکی تفسیر وتبیین فرماتے تھے۔
امام علی علیہ السلام بہت خوبصورت تعبیر کے ذریعہ فرماتے ہیں: “قرآن کو چاہیے کہ اندرکے لباس کی طرح ہمیشہ انسان کے ساتھ رہے “البتہ اس خصوصیت کے افراد کم نظر آتے ہیں: “طوبی للزاھدین فی الدنیا الراغبین فی الآخرة، اولئك قوم اتخذوا القرآن شعاراً ” (36)

———————————————–

حوالہ جات

1. ان للقرآن ظاھراً وباطناً۔(الكافی، ج4، ص549، من لایحضرہ الفقیہ، ج2، ص486)
2. المیزان، محمد حسین الطباطبائی(رح)، ج3، ص72۔
3. الكافی، ج4، ص549 و ج1، ص374، من لایحضرہ الفقیہ، ج2، ص486 (ح3036)، المحاسن، ج1 ص421(ح964)، تفسیر العیاشی، ج2، ص16، (ح36)
4. تفسیرالعیاشی، ج1، ص12(ح8)، المحاسن، ج2، ص7و300۔
5. معجم مقاییس اللغۃ، ابن فارس، ج1، ص145، تاج العروس، جلال الدین السیوطی، ج8 ص188۔
6 غرر الحكم ودرر الكلم، عبدالواحد الامدی، ح8790۔
7. جامع الاخبار، محمد بن محمد الشعیری، ص511(ح1431)۔
8. نہج البلاغہ، خطبہ227۔
9. تفسیر العیاشی، ج1، ص123(ح23)
10. سورہ نحل، آیہ 89۔
11. سورہ انفال، آیہ 2۔
12. مستدرك الوسائل، مرزا حسین النوری، ج12، ص174۔
13. الامالی، الطوسی، ص450(ح1016)؛ بحارالانوار، ج38، ص196۔
14 كنز العمال، علی المتقی الھندی، ح5662۔
15. مسنداحمدبن حنبل، ج2، ح8502۔
16. الكافی، ج2، ص612؛ كنزالعمال، ج1ص535(ح2396)۔
17سورہ فاطر، آیہ29۔30
18. الكافی، ج2، ص610
19. گزشتہ ایڈریس، اس كے رجوع ھومن لایحضرہ الفقیہ، ج2، ص628(ح3215)۔
20. سورہ نساء آیہ2
21. المیزان، ج5، ص20۔
22. رك گزشتہ ایڈریس ج18، ص241۔
23. نقل از: اسرارقرآن، حسین خدیوجم، ص26۔
24. الكافی، ج2، ص614۔
25. نہج البلاغہ، خطبہ110۔
26. تحف العقول، ص50۔
27. المستدرك علی الصحیحین، الحاكم النیشابوری، ج1، ص757(ح2087)؛ السنن الكبریٰ، احمد بن حسین البیہقی، ج10، ص15(ح19706)۔
28. كنزالعمال، ج9، ص294۔
29. صحیح مسلم، ج4، ص1874(ح2408)۔
30. نہج البلاغہ، حكمت104؛ امالی المفید، ج1، ص133۔
31. سورہ بقرہ، آیہ121۔
32. المیزان، ج1، ص266۔
33. گزشتہ ایڈریس(بحوالہ: ارشاد القلوب دیلمی)۔
34. نوادر الاصول، الترمذی، ج2، ص338؛ كنزالعمال، ح2911۔
35. ثواب الاعمال، ص332؛ بحارالانوار، ج76، ص36(ح30)۔
36. الكافی، ج8، ص52؛ صحیح البخاری، ج6، (ح5836، 6640)؛ مسنداحمد بن حنبل، ج7،
ص251 (ح20115)؛ صحیح مسلم، ج4، ص1874(ح2408)؛ سنن الترمذی، ج5، ص663
(ح3788)؛ سنن الدارمی، ج2، ص889(ح3198)۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button