قرآنیاتمقالات قرآنی

سورہ محمد ص آئینہ محمد و آل محمد ص

مقدمہ
مختلف منابع میں سورہ محمد کے بارے میں اہل بیت ع سے مروی روایات کی روشنی میں،
حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے روایت ہے:
سورۃ محمد ایۃ فینا وایۃ فی بنی امیۃ۔ ( شواھد النتزیل ۲: ۲۴۰۔ روح المعانی ۱۳: ۱۹۳۔ الدر المنثور ۶:۱۱۶)
سورہ محمد میں ایک آیت ہمارے بارے میں ہے اور ایک آیت بنی امیہ کے بارے میں ہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام سے بھی روایت ہے کہ اس سورہ کی پہلی آیت تلاوت فرما کر فرمایا:
نزلت فینا و فی بنی امیۃ۔ ( شواھد النتزیل ۲: ۲۴۱)
یہ سورۃ ہمارے اور بنی امیہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے آپ نے فرمایا:
من اراد ان یعرف حالنا وحال اعدئنا فلیقراً سورۃ محمد فانہ یراھا فینا و آیۃ فی اعدئنا۔ (مجمع البیان )
جو ہمارا اور ہمارے دشمنوں کا حال معلوم کرنا چاہتا ہے تو اسے سورہ محمد کی تلاوت کرنی چاہیے۔ وہ اس کی ایک آیت ہماری شان میں اور ایک آیت ہمارے دشمنوں کے بارے میں پائے گا۔
ان روایات کی رو سے ہمیں آل محمد ع کا آل امیہ سے واضح فرق محسوس ہوتا ہے اور آیات قرآنی کی روشنی سے ان ناصبیوں کے چہروں سے نقاب اترتی ہوئی نظر آتی ہے جو آل محمد ص کی قربانیوں کو فراموش کرکے انہیں اسلام کو انتہائی حد تک نقصان پہنچانے والے آل امیہ کے جیسا ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ان دو میں وہی فرق ہے کہ بقول قرآن ۔۔۔
قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ۔ (سورة الزمر آیت نمبر9)
ترجمہ : آپ فرما دیجیئے کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟
اور دوسری جگہ ارشاد ہے
قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الۡاَعۡمٰی وَ الۡبَصِیۡرُ ۬ۙ اَمۡ ہَلۡ تَسۡتَوِی الظُّلُمٰتُ وَ النُّوۡرُ ۬ۚ
(سورة الرعد آیت نمبر16 )
ترجمہ :کہدیجئے: کیا بینا اور نابینا برابر ہو سکتے ہیں؟ کیا تاریکی اور روشنی برابر ہو سکتی ہیں؟
سورۃ محمد
آیت 1
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَضَلَّ اَعۡمَالَہُمۡ﴿۱﴾
۱۔ جنہوں نے کفر اختیار کیا اور راہ خدا میں رکاوٹ ڈالی اللہ نے ان کے اعمال حبط کر دیے۔
تفسیر آیات
۱۔ اَلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا: جب لوگوں نے توحید، رسالت اور معاد کا انکار کیا۔
۲۔ وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ: صرف انکار پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایمان لانے والوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں۔
واضح رہے کہ اسلام کا موقف یہ ہے کہ اسلام پیش کیا جائے۔ اگر کوئی قبول نہیں کرتا ہے تو اس پر ایمان لانے کے لیے کسی قسم کا جبر نہیں ہو گا، نہ اس کے خلاف کوئی طاقت استعمال کی جائے گی لیکن جب کفار ایمان نہ لانے پر اکتفا نہ کریں اور وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ایمان لانے والوں کے خلاف طاقت استعمال کریں تو اس صورت میں اسلام اس طاقت کے مقابلے میں طاقت استعمال کرتا ہے۔ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام جنگیں اسی قسم کی تھیں۔
۳۔ اَضَلَّ اَعۡمَالَہُمۡ: اللہ نے ان کی یہ ساری کوششیں ناکارہ بنا دیں۔ اسلام کے خلاف کافروں نے جو بھی قدم اٹھایا وہ سب بے نتیجہ رہے۔ ان کی تمام سازشیں ناکام رہ گئیں اور ان لوگوں نے اسلام کے سامنے رکاوٹ ڈالنے کے لیے جو اموال خرچ کیے، جو قربانیاں دیں سب کی سب بے نتیجہ رہ گئیں۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ 241)
ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوۡلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ اَنَّ الۡکٰفِرِیۡنَ لَا مَوۡلٰی لَہُمۡ﴿٪۱۱﴾
"یہ اس لیے ہے کہ مومنین کا کارساز اللہ ہے اور کفار کا کوئی کارساز نہیں ہے۔”
تفسیر آیات
۱۔ ذٰلِکَ: ان کی ہلاکت کی وجہ یہ ہے کہ یہ کافر اللہ تعالیٰ کی ولایت سے خارج ہو کر بے حس بتوں کی ولایت میں چلے گئے ہیں۔ ان بے حس بتوں سے ان کافروں کو تحفظ ملنا نہیں ہے۔ کون ہے جو انہیں انجام بد سے تحفظ دے۔
۲۔ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوۡلَی: اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا مولا اور مالک ہے۔
اللہ تعالیٰ تدبیر امور حیات کے اعتبار سے تمام انسانوں کا مالک و مدبر اور مولا ہے لیکن امور خیر و سعادت کی رہنمائی اور حق کی ہدایت و توفیق دینے کے اعتبار سے صرف مومنین کا مولا، مالک و مدبر ہے۔ چونکہ مومنین ہی اللہ کی اس ولایت میں داخل ہیں لہٰذا اللہ مومنین کی نصرت فرمائے گا اور کافروں کو اپنے حال پر چھوڑ دے گا۔
فضائل: ابن عباس راوی ہیں:
بِاَنَّ اللّٰہَ مَوۡلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یعنی ولی علی و حمزۃ و جعفر و الحسن و الحسین و ولی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ینصرھم بالغلبۃ علی عدوھم۔ ( شواہد التنزیل ذیل آیت)
بِاَنَّ اللّٰہَ مَوۡلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا سے مراد لیا ہے کہ اللہ علی، حمزہ، جعفر، حسن اور حسین کا ولی ہے اور اللہ ولی ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو ان کے دشمن کے خلاف ان کی مدد کرے گا۔
جنگ احد میں ابوسفیان کا نعرہ تھا: نحن لنا العزی ولا عزی لکم ہمارے لیے عزی (ایک بت کا نام) ہے تمہارے لیے کوئی عزی نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کے جواب میں کہو: اللہ مولانا ولا مولی لکم: اللہ ہمارا مولا ہے تمہارا کوئی مولا نہیں۔ ( بحار الانوار ۳۰: ۲۳۔ صحیح بخاری غزوہ احد )
اس سورہ مبارکہ کی ہر آیت کی تلاوت کے موقع پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول فرمان یاد رکھنا چاہیے کہ سورہ محمد کی ایک آیت ہمارے بارے میں ہے اور ایک آیت ہمارے دشمنوں کے بارے میں ہے۔
الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ 252
اَفَمَنۡ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ کَمَنۡ زُیِّنَ لَہٗ سُوۡٓءُ عَمَلِہٖ وَ اتَّبَعُوۡۤا اَہۡوَآءَہُمۡ﴿۱۴﴾
” کیا جو شخص اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر ہو اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس کے لیے اس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہو اور جنہوں نے اپنی خواہشات کی پیروی کی ہو؟”
تفسیر آیات
۱۔ اَفَمَنۡ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ: اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل رکھنے والی ذات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے چونکہ قرآن نے ہمیشہ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ انبیاء علیہم السلام کے لیے فرمایا ہے اور آسمانی کتاب کو قرآن بَیِّنَۃٍ کہتا ہے۔
اَمۡ اٰتَیۡنٰہُمۡ کِتٰبًا فَہُمۡ عَلٰی بَیِّنَتٍ مِّنۡہُ۔۔۔۔ (۳۵ فاطر: ۴۰)
یا ہم نے انہیں کوئی کتاب دی ہے جس کی بنا پر یہ کوئی دلیل رکھتے ہوں؟
بیان یہ کرنا مقصود ہے: کیا وہ ہستی جسے اللہ نے اپنی رسالت کی حقانیت پر واضح دلیل و برہان عنایت کیا ہے ان مشرکین کی طرح ہو سکتی ہے جو اپنے اعمال کی برائیوں تک سے واقف نہیں ہیں، انہیں اپنے برے اعمال خوشنما لگتے ہیں اور عقل و خرد کی جگہ خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ دونوں ایک جیسے نہیں ہیں بلکہ جس کے پاس بَیِّنَۃٍ ہے وہ کامیاب ہو گا اور مشرکین تباہ ہو جائیں گے۔
فضائل: عبد اللہ بن عباس روایت کرتے ہیں:
اَفَمَنۡ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ علی دین من ربہ نزلت فی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم و علی کانا علی شھادۃ ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ۔ ( شواہد التنزیل ذیل آیت)
اَفَمَنۡ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ سے مراد علی دین من ربہ ہے۔ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے چونکہ دونوں ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ کی گواہی قائم ہیں۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ 254 )
وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّسۡتَمِعُ اِلَیۡکَ ۚ حَتّٰۤی اِذَا خَرَجُوۡا مِنۡ عِنۡدِکَ قَالُوۡا لِلَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ مَاذَا قَالَ اٰنِفًا ۟ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ اتَّبَعُوۡۤا اَہۡوَآءَہُمۡ﴿۱۶﴾
ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو آپ کو سنتے ہیں لیکن جب آپ کے پاس سے نکل جاتے ہیں تو جنہیں علم دیا گیا ہے ان سے پوچھتے ہیں: اس نے ابھی کیا کہا؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور وہ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔
تفسیر آیات
۱۔ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّسۡتَمِعُ اِلَیۡکَ: ما انزل اللہ کو ناپسند کرنے والے لوگوں میں سے کچھ منافقین ایسے بھی ہیں جو آپ کی مجلس یا جمعہ کی نماز میں آپ کا خطبہ سن رہے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ مشرکین مکہ کی طرح نہیں ہیں جو اپنا کفر ظاہر کرتے تھے اور آپ کو سنتے ہی نہیں تھے۔
۲۔ حَتّٰۤی اِذَا خَرَجُوۡا مِنۡ عِنۡدِکَ: جب آپ کے محضر سے نکلتے اور آزاد فضا میں آتے ہیں۔ مجلس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو ان کے لیے بار گراں تھی نکل آتے ہیں،
۳۔ قَالُوۡا لِلَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ مَاذَا قَالَ اٰنِفًا: تو اہل علم سے پوچھتے ہیں: ابھی کیا کہ رہے تھے؟ یعنی یہ منافقین جب مجلس رسولؐ سے باہر آتے تو اہل علم سے پوچھتے تھے: ابھی ابھی رسول کیا کہہ رہے تھے؟ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ غیر مبہم، واضح لفظوں میں مطالب بیان کرتے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان مشہور ہے:
انا افصح العرب و العجم۔ (عوالی اللآلی ۴: ۱۲۰)
میں عرب اور عجم میں سب سے زیادہ فصیح ہوں۔
نیز ارشاد فرمایا: وَ اُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ۔۔۔۔ ( من لا یحضرہ الفقیہ ۱: ۲۴۰) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قلیل الفاظ میں کثیر مطالب بیان فرماتے تھے۔ اس کے باوجود وہ کلام رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں سمجھ رہے تھے۔ چونکہ وہ کلام رسولؐ سے استفادہ کے لیے نہیں آتے تھے اس لیے مجلس رسولؐ میں بیٹھ کر اپنی دنیا میں گم رہتے تھے۔ جب اثنائے کلام میں منافقین کا ذکر آتا تو گھبرا کر اہل علم سے پوچھتے تھے۔ اہل علم کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ سمجھنا چاہتے تھے منافقین کے بارے میں کیا کہا؟ ایسا نہیں ہے کہ وہ از راہ تمسخر کہہ رہے ہوں جیسا کہ اکثر مفسرین نے لکھا ہے۔ چونکہ تمسخر کے لیے اہل علم کی طرف رجوع نہ کرتے تھے بلکہ آپس میں تمسخر کرتے تھے۔ چنانچہ سورہ توبۃ آیت ۱۲۴ میں ان منافقوں کا یہ قول مذکور ہے۔
وَ اِذَا مَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَۃٌ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ اَیُّکُمۡ زَادَتۡہُ ہٰذِہٖۤ اِیۡمَانًا۔۔۔
اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے کچھ لوگ (از راہ تمسخر) کہتے ہیں: اس سورہ نے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ کیا ہے؟
غیر شیعہ مصادر میں آیا ہے کہ ابن عباس نے کہا ہے کہ سوال مجھ سے ہوتا تھا۔ اس صورت میں حضرت ابن عباس کو ان لوگوں کا علم ہوا ہو گا جن کے خلاف یہ آیت نازل ہوئی ہے۔
شیعہ مصادر میں آیا ہے: اصبغ بن نباتۃ راوی ہیں حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
فانا کنا عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فیخبرنا بالوحی فاعیہ ویفوتہم فاذا خرجنا قالوا: مَاذَا قَالَ اٰنِفًا۔ ( بحار الانوار ۴۰: ۱۳۷)
ہم رسول اللہؐ کی خدمت میں ہوتے تھے اور آپ ہمیں وحی کی باتیں سناتے تھے جنہیں میں سمجھ لیتا تھا دوسرے رہ جاتے۔ جب ہم باہر نکلتے تو پوچھتے تھے ابھی رسولؐ کیا کہہ رہے تھے۔
اور یہ بات شیعہ سنی مصادر میں متعدد طرق سے وارد ہے کہ آیت وَّ تَعِیَہَاۤ اُذُنٌ وَّاعِیَۃٌ۔۔۔۔ (۶۹ حاقۃ: ۱۲) اور سمجھدار کان ہی اسے محفوظ کر لیتا ہے، حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ ملاحظہ ہو الکوثر فی تفسیر القرآن سورۃ الجاثیہ ۔
۴۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ: یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اپنی گمراہی پر ڈٹ جانے اور ہدایت قبول نہ کرنے کی وجہ سے اللہ نے اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ ایسا ہونے سے ان کے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے اور اللہ ابتداء ً ایسا نہیں کرتا بلکہ وَ اتَّبَعُوۡۤا اَہۡوَآءَہُمۡ خواہشات کی پیروی کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے۔
اہم نکات
۱۔ منافق کا ذہن کلام حق سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
۲۔ منافقین اپنی مشکلات کے لیے اہل علم کی طرف رجوع کرتے تھے، ہدایت کے لیے نہیں۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ 257)
(فَہَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ اَنۡ تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ تُقَطِّعُوۡۤا اَرۡحَامَکُمۡ)﴿۲۲﴾
پھر اگر تم حکمران بن جاؤ تو تم سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم زمین میں فساد برپا کرو گے اور اپنے رشتوں کو توڑ ڈالو گے۔
تفسیر آیات
۱۔ فَہَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ: جب تمہارے ایمان کا یہ حال اور حکم عدولی کا یہ عالم ہے تو سے فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ اور قطع رحمی کے سوا کیاتوقع کی جا سکتی ہے۔ دوسری تفسیر یہ کی جاتی ہے کہ تم کبھی برسر اقتدار آئے تو تم سے فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ اور قطع رحمی کے علاوہ کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ بعض نے تَوَلَّیۡتُمۡ کے معنی منہ پھیرنے اور بعض نے برسراقتدار آنے کے کیے ہیں۔
تَوَلَّیۡتُمۡ: التولی ولایت و حکومت کے معنوں میں زیادہ قرین سیاق ہے چونکہ حکمرانوں سے فساد فی الارض کا ارتکاب ہوا کرتا ہے اور اپنی کرسی و اقتدار کے لیے قریبی ترین رشتہ داروں کا بھی خون کرتے ہیں۔
چنانچہ چشم جہاں نے دیکھ لیا جب حکومت بنی امیہ کے ہاتھ آئی تو انہوں نے نہ کسی چھوٹے پر رحم کیا، نہ بڑے پر، نہ صلہ رحمی کا خیال رکھا۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نشاندہی فرمائی کہ فساد پھیلانے اور قطع رحمی کرنے والے کون ہیں:
ھم ھذا الحی من قریش اخذ اللہ علیہم ان ولوا الناس ان لا یفسدوا فی الارض ولا یقطعوا ارحامہم۔ ( تفسیر قرطبی وغیرہ)
یہ مفسدین قریش کا ایک قبیلہ ہے۔ ان سے اللہ نے عہد لیا ہے کہ اگر وہ لوگوں کے حاکم بن جائیں تو زمین پر فساد نہ پھیلائیں اور قطع رحمی نہ کریں۔
دیگر متعدد روایات میں اس قبیلے کی نشاندہی کی گئی ہے۔
رأی رسول اللہ بنی امیۃ ینزون علی منبرہ نزو القردۃ فساء ہ فما استجمع ضاحکاً حتی مات۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب میں دیکھا کہ آپ کے منبر پر بنی امیہ اس طرح چھل کود کر رہے تھے جس طرح بندر اچھل کود کرتے ہیں۔ آپ پر یہ بات اتنی دشوار گزری کہ اس کے بعد تاحیات آپ نے تبسم نہیں فرمایا۔
اس مضمون کی روایات کے راوی ہیں: سھل بن سعد، سعید بن المسیب، یعلی بن مرۃ، ابن عمر ۔
حضرت عائشہ نے مروان بن حکم سے فرمایا:
سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول لابیک وجدک انکم الشجرۃ الملعونۃ فی القرآن۔ ( روح المعانی، الدرالمنثور ذیل آیت ۶۰، سورہ بنی اسرائیل )
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تیرے باپ اور تیرے دادا کے بارے میں یہ کہتے سنا ہے تم وہ شجرہ ملعونہ ہو جو قرآن میں مذکور ہے۔
واضح رہے کہ مروان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ سے شہر بدر کیا تھا۔ زمانے کی ستم ظریفی دیکھے یہی مروان بعد میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی جاگیر فدک کا مالک بن جاتا ہے۔ بعد میں تو یہی لوگ منبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مالک بن گئے۔
رأیت الدھر یرفع کل وغد و یخفض کل ذی شیم شریفہ ( ابن الرومری۔ شرح نہج البلاغۃ ۳: ۳۴۷)
میں نے دیکھا ہے کہ زمانہ ہر نالائق کو بلند کرتا اور ہر شریف صفت کو گراتا ہے۔
اہم نکات
۱۔ سچ فرمایا صادق آل محمد علیہ السلام نے کہ سورہ محمد کی ایک آیت ہماری شان میں اور ایک آیت ہمارے دشمنوں کے بارے میں ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ 263)
اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمۡ وَ اَعۡمٰۤی اَبۡصَارَہُمۡ﴿۲۳﴾
یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے لہٰذا انہیں بہرا کر دیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے۔
تفسیر آیات
۱۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ: یہ فساد فی الارض اور قطع رحمی کرنے والے ہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے اپنی رحمت سے دور کیا ہے۔ رحمت خدا کے حصول کے ذرائع ان پر مسدود کر دیے۔ حق کی آواز سن سکتے ہیں نہ صراط مستقیم دیکھ سکتے ہیں۔ اگر کسی کے پاس قوت سماعت نہیں ہے تو منزل تک پہنچنے کے لیے قوت بصارت سے مدد لی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اگر قوت بصارت نہیں ہے تو قوت سماعت سے مدد لی جا سکتی ہے۔ اگر کسی کے پاس دونوں چیزیں نہ ہوں تو اس کا منزل تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔
آلوسی نے تفسیر روح المعانی میں اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے:
واستدل بھا علی جواز لعن یزید علیہ من اللہ ما یستحق۔
اس آیت سے یزید پر لعنت کے جواز پر استدلال کیا گیا ہے۔
پھر لکھتے ہیں:
برزنجی نے الاشاعۃ میں اور ہیثمی نے الصواعق میں لکھا ہے کہ امام احمد سے ان کے بیٹے عبد اللہ نے لعن یزید کے بارے میں پوچھا تو امام احمد نے کہا: اس شخص پر لعنت کیسے نہ کی جائے جس پر اللہ نے اپنی کتاب میں لعنت کی ہے۔ عبد اللہ نے کہا: میں نے قرآن پڑھا ہے مگر اس میں یزید پر لعنت میں نے نہیں دیکھی۔ امام احمد نے کہا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَہَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ اَنۡ تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ تُقَطِّعُوۡۤا اَرۡحَامَکُمۡ۔ یزید نے جو کچھ کیا ہے اس سے بڑھ کر فساد اور قطع رحمی کیا ہو سکتی ہے؟
پھر لکھتے ہیں:
علماء کی ایک جماعت نے یزید پر کفر اور اس پر لعنت کی صراحت کی ہے۔ ان میں الحافظ ناصر السنۃ ابن الجوزی قابل ذکر ہیں۔ ان سے پہلے قاضی ابو یعلی نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔ علامہ تفتازانی نے کہا ہے: ہم اس کے بارے میں، اس کے ایمان کے بارے میں کوئی تردد نہیں کرتے ہیں۔ اللہ کی لعنت ہو اس پر، اس کے انصار و اعوان پر۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے بھی اس پر لعنت کی تصریح کی ہے۔
آگے لکھتے ہیں:
تاریخ ابن الوردی اور کتاب الوافی بالوفیات میں آیا ہے کہ جب اسیران کربلا عراق سے یزید کے پاس شام پہنچ گئے تو یزید باہر نکل آیا تو جیرون کی پہاڑی پر حضرت علی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے بچوں اور خواتین کو اور شہداء کے سروں کو نیزوں پر اُٹھائے ہوئے دیکھا تو اس وقت کوے کے بولنے کی آواز آئی تو یزید نے کہا:
نعب الغراب فقلت قل او لا تقل
فقد اقتضیت من الرسول دیونی
کوا بولا۔ میں نے کہا تم بولو یا نہ بولو
میں نے رسول سے اپنا قرض چکا لیا ہے
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے دن اس کی جد عتبہ، اس کے ماموں عتبہ کے بیٹے وغیرہ کو قتل کیا تو اس قتل کا بدلہ میں نے لے لیا ہے۔ یہ صریح کفر ہے۔ اگر یہ روایت صحیح ہے تو وہ کافر ہے۔ اسی طرح عبد اللّٰہ الزبعری کے زمان جاہلیت کے اشعار کو شاہد مثال بنانے سے بھی اس کا کفر ثابت ہوتا ہے۔ لیت اشیاخی۔۔۔۔ ( روح المعانی ۳: ۲۲۸)
واضح رہے عبد اللّٰہ الزبعری کے اشعار میں یہ شعر ہے:
لعبت ہاشم بالملک فلا
خبر جاء ولا وحی نزل
بنی ہاشم نے حکومت کرنے کے لیے ایک کھیل کھیلا ہے
نہ کوئی خبر آئی نہ ہی کوئی وحی نازل ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ یزید بن معاویہ نے مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تاراج کر کے ہزاروں افراد کو شہید کیا جن میں سات سو مہاجر و انصار کے قاریان قرآن شامل تھے۔ ( الصواعق المحرقۃ : ۲۲۲)
ابن تیمیہ کے شاگرد رشید ابن کثیر البدایۃ و النھایۃ ۸: ۲۲۱ میں لکھتے ہیں:
ولدت الف امرأۃ من اھل المدینۃ بعد وقعۃ الحرۃ من غیر زوج۔
واقعۂ حرہ کے بعد اہل مدینہ کی ایک ہزار عورتوں نے ناجائز بچے جنے بغیر شوہر کے۔
چونکہ یزید کے حکم سے شامی لشکر کے لیے مدینہ تین دن تک حلال قرار دیا گیا تھا۔
یہ واقعہ حرہ کے نام سے مشہور ہے لیکن با این ہمہ بہت سے لوگ اپنی جماعت سے وابستہ لوگوں کے اس سیاہ ترین کارنامے کو ذکر کرنے سے احتراز کرتے ہیں۔ اس کی جگہ وہ یزید کی حمایت کرنے میں خفت محسوس نہیں کرتے بلکہ پوری جسارت کے ساتھ یہ کہتے ہیں: قتل الحسین بسیف جدہ ۔حسین اپنے نانا کی تلوار سے مارا گیا۔
یزید نانا کی تلوار کا وارث بن گیا۔ نانا کے دین کو سید شباب اہل الجنۃ سے خطرہ لاحق ہوا۔ حسین منی و انا من حسین کی جگہ یزید حامی دین مصطفی بن گیا اور حسین باغی!!! فیا للّٰہ ما احدث الدھر۔ انہی لوگوں پر یہ آیت صادق آتی ہے:
اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمۡ وَ اَعۡمٰۤی اَبۡصَارَہُمۡ
یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے لہٰذا انہیں بہرا کر دیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا۔
اگر ان میں حق کی آواز سننے اور مشاہدۂ حق کی تھوڑی سی بھی صلاحیت ہوتی تو حسین علیہ السلام جیسی روشنی اور یزید (لع) جیسی تاریکی میں امتیاز کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آتی اور حدیث حسین منی و انا من حسین کے مقابلے میں لعن اللہ الراکب و القائد و السائق ( شرح نہج البلاغۃ ابن ابی الحدید ۱۵:۱۷۵) کا سمجھنا دشوار نہ تھا۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ 265)
وَ لَوۡ نَشَآءُ لَاَرَیۡنٰکَہُمۡ فَلَعَرَفۡتَہُمۡ بِسِیۡمٰہُمۡ ؕ وَ لَتَعۡرِفَنَّہُمۡ فِیۡ لَحۡنِ الۡقَوۡلِ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ اَعۡمَالَکُمۡ ﴿۳۰﴾
اور اگر ہم چاہتے تو ہم آپ کو ان کی نشاندہی کر دیتے پھر آپ انہیں ان کی شکلوں سے پہچان لیتے اور آپ انداز کلام سے ہی انہیں ضرور پہچان لیں گے اور اللہ تمہارے اعمال سے واقف ہے۔
تفسیر آیات
۱۔ وَ لَوۡ نَشَآءُ لَاَرَیۡنٰکَہُمۡ: اگر ہم چاہتے تو ہم ان منافقین کی نشاندہی آپ کو کر دیتے۔ اس ترکیب کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ایسا نہیں چاہا۔ جیسے فرمایا: وَ لَوۡ شَآءَ لَہَدٰىکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ۔۔۔۔ ( ۱۶ نحل: ۹) اگر اللہ چاہتا تو تم سب کی ہدایت کر دیتا مگر اللہ نے ایسا نہیں چاہا کہ سب کی بالجبر ہدایت ہو جائے۔
۲۔ فَلَعَرَفۡتَہُمۡ بِسِیۡمٰہُمۡ: اگر ہم اس طرح نشاندہی کرتے تو آپ ان منافقین کو ان کی شکلوں سے پہچان لیتے لیکن ہم نے اس طرح واضح نشاندہی بھی نہیں کی اور اس معاملے کو آپ کے لیے مبہم بھی نہیں رکھا۔ ان کی پہچان اللہ کی طرف سے آنے کی جگہ خود ان منافقوں کی طرف سے آنا زیادہ مناسب ہے۔
۳۔ وَ لَتَعۡرِفَنَّہُمۡ فِیۡ لَحۡنِ الۡقَوۡلِ: آپ ان منافقوں کے انداز کلام سے ضرور پہچان لیں گے۔ اب یہ منافقین اپنے عمل اور کلام کے لب و لہجے سے اپنے آپ کو فاش کریں گے۔
لَحۡنِ الۡقَوۡلِ: ان کا انداز کلام اس طرح ہو گا کہ جب حق و باطل کا معرکہ آئے گا تو کھل کر حق کا ساتھ نہیں دیں گے اور اس میں لیت و لعل سے کام لیں گے۔ جس مشن سے وابستگی کا اظہار کیا ہے اس سے مخلص نہیں ہوں گے۔ اس مشن میں فانی شخصیات سے عداوت کریں گے۔
چنانچہ جو ہستی ایمان و نفاق کی کسوٹی قرار پائے، اس سے محبت ایمان اور اس سے عداوت نفاق کی علامت بن جائے تو اس سے معلوم ہوتا ہے اس ہستی کا وجود ایمان و اسلام سے عبارت ہے۔ اس کے وجود میں ایمان و اسلام سے ہٹ کر اپنا ذاتی شائبہ نہیں ہے کہ کہا جا سکے اس سے عداوت کا تعلق اس کے ذاتی ایسے عمل سے ہے جو اسلام سے متعلق نہیں ہے۔
یہ ہستی مولائے متقیان امیرا لمؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں جن کی عداوت نفاق کی علامت قرار پائی ہے۔ اس سے معلوم ہوا علی علیہ السلام کی ذات یا ان کے کسی کردار میں کوئی ایسا گوشہ نہیں ہے جو اسلام و ایمان سے ہٹ کر ہو۔ ذیل میں ہم ان روایات کا ذکر کرتے ہیں جو اس موضوع سے متعلق ہیں۔
۱۔ مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام خود اس حدیث کے راوی ہیں فرمایا:
والذی فلق الحبۃ وبرأ النسمۃ انہ لعھد النبی صلی اللہ علیہ وسلم الی ان لا یحبنی الا مؤمن ولا یبغضنی الا منافق۔ ( صحیح مسلم ۱: ۶۰۔ سنن ترمذی ۲: ۲۱۵۔ سنن نسائی ۲: ۲۷۰۔ سنن ابن ماجہ ص۱۲)
قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو شگافتہ کیا انسان کو پیدا کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے بارے میں عہد لیا ہے کہ صرف مومن مجھ سے محبت کرے گا اور صرف منافق مجھ سے بغض رکھے گا۔
۲۔ حضرت ام سلمہؓ راوی ہیں:
سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول لعلی: لا یبغضک مؤمن ولا یحبک منافق۔ ( سنن ترمذی ۲: ۲۱۴۔ مسند احمد ۲: ۲۹۲)
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ علی سے فرما رہے تھے: مومن تجھ سے بغض نہیں رکھے گا اور منافق تجھ سے محبت نہیں کرے گا۔
دوسری روایت میں ام سلمہؓ فرماتی ہیں:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و (الہ) و سلم لا یحب علیا منافق و لا یبغض علیا مؤمن۔ ( المحاسن و المساوی بیہقی صفحہ ۴۱،۔ فتح الباری ۷: ۵۷)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی سے کوئی منافق محبت نہیں کرے گا اور کوئی مومن علی سے بغض نہیں رکھے گا۔
۳۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام جابر بن عبد اللّٰہؓ سے روایت فرماتے ہیں انہوں نے کہا:
و اللہ ما کنا لنعرف منافقاً علی عھد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الا ببغضہم علیا۔ ( المعجم الاوسط للطبرانی ۵: ۸۹)
قسم بخدا! ہم عہد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں منافقین کو بغض علی سے پہچانتے تھے۔
۴۔ حضرت ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں:
کنا لا نعرف المنافقین الا بتکذیبہم اللہ و رسولہ و التخلف عن الصلوات و البغض لعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ۔ ( المستدرک للحاکم ۳: ۱۲۹۔ تلخیص المستدرک للذھبی ۳: ۱۲۹)
ہم منافقین کو صرف اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب، ترک نماز اور علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض سے پہچانتے تھے۔
۵۔ حضرت ابو سعید الخدریؓ کہتے ہیں:
انا کنا لنعرف المنافقین ببغضہم علی بن ابی طالب۔ ( سنن ترمذی ۲: ۲۱۶۔ تاریخ بغداد ۱۳: ۱۵۳۔ حلیۃ الاولیاء ۶: ۲۹۴)
ہم علی کے ساتھ بغض سے منافقین کو پہنچانا کرتے تھے۔
حضرت ابو سعید خدری کی روایت اس آیت وَ لَتَعۡرِفَنَّہُمۡ فِیۡ لَحۡنِ الۡقَوۡلِ کے ذیل میں ہے کہ لَحۡنِ الۡقَوۡلِ سے مراد بغض علی ہے۔
۶۔ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاریؓ کہتے ہیں:
ما کنا نعرف المنافقین الا ببغضہم علیا رضی اللہ عنہ۔ ( المعجم الاوسط طبرانی ۳: ۷۶۔ الاستیعاب ۲: ۴۶۴)
ہم منافقین کو صرف بغض علیؓ سے پہچانتے تھے۔
۷۔ ابو الدرداء ۔ ترمذی کہتے ہیں:
کان ابو الدرداء یقول: ما کنا نعرف المنافقین معشر الانصار الا ببغضہم علی بن ابی طالب۔ ( تذکرۃ خواص الامۃ ص۳۱ طبع بیروت)
ابو الدرداء کہتے ہیں: علی بن ابی طالب کے ساتھ بغض سے ہی ہم انصار کے لوگ منافقین کو پہچان لیتے تھے
۸۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں:
ما کنا نعرف المنافقین علی عہد رسولؐ الا یبغضھم علی ابن ابی طالب۔ ( روح المعانی ۲: ۱۷ طبع مصر)
ہم عہد رسولؐ میں منافقین کو صرف علی کے ساتھ بغض سے پہچان لیتے تھے۔
۹۔ حضرت عمران بن الحصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یبغضہ الا منافق۔ ( مشکل الآثار طحاوی ۱: ۴۸ طبع حیدر آباد دکن)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان (علی علیہ السلام) سے صرف منافق ہی بغض رکھتا ہے۔
عمران کی دوسری روایت میں آیا ہے:
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قال لعلی: لا یحبک الا مؤمن ولا یبغضک الامنافق۔ ( المعجمہ الاوسط طبرانی ۳: ۸۹)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی ؑسے فرمایا: مومن ہی تجھ سے محبت کرے گا اور منافق ہی تجھ سے بغض رکھے گا۔
۱۰۔ حضرت عبد اللّٰہ بن حنطب کہتے ہیں:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا ایہا الناس اوصیکم بحب اخی وابن عمی علی بن ابی طالب فانہ لا یحبہ الا مؤمن ولا یبغضہ الا منافق۔ (تاریخ دمشق ۴۲: ۲۷۹)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگو! میں تمہیں اپنے بھائی اورچچا کے بیٹے بیٹا علی بن ابی طالب کے ساتھ محبت کرنے کی نصیحت کرتا ہوں چونکہ علی سے صرف مؤمن محبت کرتا اور منافق ہی علی سے بغض رکھتا ہے۔
۱۱۔ حضرت یعلی بن مرّہ ثقفی کہتے ہیں:
سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وٓلہ وسلم یقول: لا یحبک الا مؤمن ولا یبغضک الا منافق۔ (تاریخ دمشق ۴۲: ۲۷۰)
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے: (اے علی!) تجھ سے صرف مؤمن محبت کرے گا اور صرف منافق تجھ سے بغض رکھے گا۔
ابن ابی الحدید اپنے استاد ابو القاسم بلخی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں:
قد اتفقت الاخبار الصحیحہ التی لاریب عند المحدثین فیھا ان النبی قال لعلی لا یحبک الا مؤمن ولا یبغضک الا منافق۔ ( شرح نہج البلاغۃ ۴: ۸۳)
ایسی صحیح روایات کا، جن میں محدثین کو کسی قسم کا شک نہیں ہے، اس بات میں اتفاق ہے کہ رسول اللہؐ نے علی ؑسے فرمایا ہے: تجھ سے مؤمن ہی محبت کرے گا اور تجھ سے صرف منافق بغض رکھے گا۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ 270)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button