مقالات قرآنیمناقب امیر المومنین عمناقب و فضائل

منکر ولایت علی علیہ السلام زیر عتاب الہی ( غدیر کا ایک واقعہ)

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

سَاَلَ سَآئِلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ ۙ لِّلۡکٰفِرِیۡنَ لَیۡسَ لَہٗ دَافِعٌ ۙ مِّنَ اللّٰہِ ذِی الۡمَعَارِجِ ؕ ( معارج 1-3)

ایک سوال کرنے والے نے عذاب کا سوال کیا جو واقع ہونے ہی والا ہے کفار کے لیے اسے کوئی ٹالنے والا نہیں ہے، عروج کے مالک اللہ کی طرف سے ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ سَاَلَ سَآئِلٌۢ: اس عذاب کا مطالبہ کرنے والا کون تھا۔ ایک روایت کے مطابق یہ مطالبہ کرنے والا نضر بن حارث تھا۔ دوسری روایت کے مطابق یہ مطالبہ کرنے والا حارث نعمان الفہری ہے۔

شیعہ سنی مصادر میں آیا ہے:

جب حارث بن نعمان کو علم ہوا کہ غدیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کے بارے میں فرمایا ہے: من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ تو حارث رسول اللہؐ کی خدمت میں آیا اور اپنی سواری کو الابطح جگہ پر بٹھایا اور کہا: یا محمد! آپ نے کہا ہم یہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں، ہم نے گواہی دی، یہ کہ دن میں پانچ مرتبہ نماز پڑھیں، ہم نے پڑھی، اپنے اموال میں سے زکوۃ نکالیں، ہم نے قبول کیا، ہر سال رمضان میں روزہ رکھیں، ہم نے مان لیا اور حج کریں، ہم نے قبول کیا۔ پھر بھی آپ ان سب پر راضی نہ ہوئے اور اپنے چچا کے بیٹے کو ہم پر فضلیت دی ہے۔ کیا یہ آپ کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

واللہ الذی لا الٰہ الا ھو ما ھو الا من اللہ۔

قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یہ بات اللہ ہی کی طرف سے ہے۔

یہ سن کر حارث یہ کہتے ہوئے پلٹا: اے اللہ! اگر جو کچھ محمد کہتا ہے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر گرا اور دردناک عذاب نازل کر دے۔ پھر قسم بخدا! وہ اپنی اونٹنی تک پہنچنے نہ پایا تھا کہ اس کے سر پر اللہ نے ایک پتھر گرایا جو اس کے دماغ پر لگا اور نیچے سے نکل گیا اور وہ مر گیا۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔

روایت کے یہ الفاظ الجامع لاحکام القرآن قرطبی کے ہیں جن کا ذکر اس آیت کے ذیل میں ہے۔

یہ روایت اہل سنت کے اہم مصادر میں متعدد اصحاب سے منقول ہے۔ تفصیل کے لیے الغدیر جلد اول صفحہ ۲۳۹۔ ۲۶۶ اور شواہد التنزیل ذیل آیت رجوع فرمائیں۔ الغدیر میں اس روایت پر وارد کیے جانے والے اعتراضات کے مفصل جوابات دیے گئے ہیں ان کا خلاصہ ہم یہاں ذکر کرتے ہیں۔

پہلا اعتراض: غدیر کا واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حجۃ الوداع سے واپسی کے موقع پر پیش آیا ہے جب کہ اس روایت میں آیا ہے: حارث الابطح جگہ پر آیا اور الابطح مکہ میں ہے۔

جواب: اول تو یہ ہے کہ سیرت حلبی وغیرہ کی روایات کے مطابق یہ مطالبہ کرنے والا مسجد میں آیا تھا۔ ثانیاً الابطح کامطلب ہے کنگرے والا نالہ۔لہٰذا ہر ایسی جگہ کو الابطح یا البطحاء کہتے ہیں۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ۱: ۳۸۲ میں آیا ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک دن ذُی الحلیفہ شب گزاری کے لیے تشریف لائے تو ان سے کہا گیا: انک ببطحاء مبارکۃ۔

صحیح بخاری جلد ۱ صفحہ ۱۸۱ میں آیا ہے:

عن عبد اللہ بن عمر ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اناخ بالبطحاء بذی الحلیفۃ فصلی بھا۔

عبد اللّٰہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ذوا الحلیفہ کے بطحا پر نزول فرمایا اور یہاں نماز پڑھی۔

اور الا متاع مقریزی میں ہے:

ان النبی اذا رجع من مکۃ دخل المدینۃ من معرس الابطح۔

جب آپ مکہ سے واپس ہوئے تو الابطح نامی جگہ سے مدینہ میں داخل ہوئے۔

دوسرا اعتراض: سورہ معارج مکہ میں واقعہ غدیر سے دس سال پہلے نازل ہوا ہے اور یہ سورہ بالاتفاق مکی ہے۔

جواب: مجموعاً یہ سورہ مکی ہونے پر اتفاق ہے، نہ کہ تمام آیات مکی ہونے پر اتفاق ہے۔ قرآن مجید میں ایسے بہت زیادہ نظائر موجود ہیں کہ سورہ مکی ہے لیکن چند آیات مدنی ہیں۔ چنانچہ سورہ عنکبوت مکی ہے، سوائے ابتدا کی دس آیت کے۔ سورہ کہف مکی ہے، سوائے ابتدائی سات آیات کے۔ دیگر سترہ عدد سورہ ہائے قرآن مکی ہیں جن میں چند آیات مدنی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ قرآن کی دیگر متعدد آیات کی طرح یہ آیت دو بار نازل ہوئی ہو۔ دیگر غیر اہم اعتراضات اور ان کے جوابات الغدیر میں ملاحظہ فرمائیں۔

۲۔ لِّلۡکٰفِرِیۡنَ لَیۡسَ لَہٗ دَافِعٌ: جس عذاب کا مطالبہ کیا گیا ہے وہ ہر صورت میں کافروں پر واقع ہونے والا ہے۔ جب وہ عذاب واقع ہو گا تو کوئی اسے ٹالنے کی طاقت نہیں رکھتا۔

۳۔ مِّنَ اللّٰہِ ذِی الۡمَعَارِجِ: معارج، معرج کی جمع ہے ۔زینے کو کہتے ہیں۔ جس کے ذریعے بلندی کی طرف چڑھا جاتا ہے۔ اللہ کو عروج کا مالک کس لیے کہا ہے ؟ وہ اگلی آیت میں بیان فرمایا ہے۔

وہ آسمان سے زمین تک امور کی تدبیر کرتا ہے پھر یہ امر ایک ایسے دن میں اللہ کی بارگاہ میں اوپر کی طرف جاتا ہے جس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہے:

اَلَا فَحَاسِبُوا اَْنفُسَکُمْ قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوا فَاِنَّ اَمْکِنَۃََ الْقِیَامَۃِ خَمْسُونَ مَوْقِفاً کُلُّ مَوْقِفٍ مُقَامُ اَلْفِ سَنَۃٍ ثُمَّ تَلَا ھَذِہِ الْایَۃَ۔۔۔۔ (مستدرک الوسائل ۱۲: ۱۵۵)

آگاہ رہو! تمہارا محاسہ ہونے سے پہلے تم خود اپنا محاسبہ کرو۔ قیامت کے دن پچاس مراحل ہوں گے۔ ہر مرحلہ ہزار سال کے برابر ہو گا۔ پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی۔

دوسری روایت میں ہے:

ان فیہ خمسین موطنا کل موطن الف سنۃ ما قدر علی المؤمنین الا کما بین الظھر و العصر۔ ( زبدۃ التفاسیر ۷: ۱۷۹)

قیامت کے دن پچاس مراحل ہوں گے ہر مرحلہ ایک ہزار سال کا ہو گا۔ مگر مؤمنین کے لیے تو ظہر اور عصر کے برابر وقت لگے گا۔

ابو سعید خدری راوی ہے کہ کسی نے کہا: یا رسول اللہ! قیامت کا دن کتنا طویل ہے۔ آپؐ نے فرمایا:

والذی نفس محمد بیدہ انہ یخف علی المومن حتی یکون اخف علیہ من صلوۃ مکتوبۃ یصلیھا فی الدنیا۔ ( زبدۃ التفاسیر ذیل آیہ)

قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے وہ دن مومن کے لیے اتنا ہلکا رہے گا جس طرح دنیا میں ایک واجب نماز ادا کرنا۔

۵۔ اِلَیۡہِ: اللہ کی طرف۔ اللہ کسی سمت میں نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے اس مقام کی طرف جس کا تعین اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:

اِنِّیۡ ذَاہِبٌ اِلٰی رَبِّیۡ۔۔۔۔ (۳۷ صافات: ۹۹)

میں اپنے رب کی طرف جا رہا ہوں۔

یعنی اس مقام کی طرف جس کا اللہ تعالیٰ نے تعین فرمایا ہے۔

۶۔ فِیۡ یَوۡمٍ: ایک ایسے دن میں۔ یہ دن بظاہر قیامت کا دن ہے۔ عالم آخرت کا زمان و مکان دنیا کے زمان و مکان سے مختلف ہو گا۔ چنانچہ غیر مومن کے لیے قیامت کا حساب، زمان و مدت اور شدت و کیفیت، ہر اعتبار سے سخت ہو گا۔

الکوثر فی تفسیر القران جلد 9 صفحہ 301

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button