احادیث امام علی رضا علیہ السلامحدیثسلائیڈر

اخلاقیات کے بارے میں امام علی رضا علیہ السلام کی احادیث

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ وَ الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ جَمِيعاً عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ علیہ السلام قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ‏ الْإِيمَانُ فَوْقَ الْإِسْلَامِ بِدَرَجَةٍ وَ التَّقْوَى فَوْقَ الْإِيمَانِ بِدَرَجَةٍ وَ الْيَقِينُ فَوْقَ التَّقْوَى بِدَرَجَةٍ وَ مَا قُسِمَ فِي النَّاسِ شَيْ‏ءٌ أَقَلُّ مِنَ الْيَقِينِ
وشاء سے مروی ہے کہ امام رضاؑ نے فرمایا:
ایمان ،اسلام پر ایک درجہ فوقیت رکھتا ہے اورایک درجہ تقویٰ، ایمان سے بلند ہے اور یقین تقویٰ سے ایک درجہ بلند ہے اور لوگوں میں کوئی شیء یقین سے کم تقسیم نہیں ہوئی۔
(الکافی،کتاب الایمان و الکفر، باب فضلیت ایمان، حدیث02)
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنِ الرِّضَاعلیہ السلام قَالَ: الْإِيمَانُ فَوْقَ الْإِسْلَامِ بِدَرَجَةٍ وَ التَّقْوَى فَوْقَ الْإِيمَانِ بِدَرَجَةٍ وَ الْيَقِينُ فَوْقَ التَّقْوَى بِدَرَجَةٍ وَ لَمْ يُقْسَمْ بَيْنَ الْعِبَادِ شَيْ‏ءٌ أَقَلُّ مِنَ الْيَقِينِ
محمد بن ابی نصر بزنطی سے مروی ہے کہ امام رضاؑنے فرمایا:
ایمان ،اسلام پر ایک درجہ فوقیت رکھتا ہے اورایک درجہ تقویٰ، ایمان سے بلند ہے اور یقین تقویٰ سے ایک درجہ بلند ہے اور لوگوں میں کوئی شے یقین سے کم تقسیم نہیں ہوئی۔
(الکافی،کتاب الایمان و الکفر، باب فضلیت ایمان، حدیث06)
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ الرِّضَا عَنِ الْإِيمَانِ وَ الْإِسْلَامِ فَقَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ  إِنَّمَا هُوَ الْإِسْلَامُ وَ الْإِيمَانُ فَوْقَهُ بِدَرَجَةٍ وَ التَّقْوَى فَوْقَ الْإِيمَانِ بِدَرَجَةٍ وَ الْيَقِينُ فَوْقَ التَّقْوَى بِدَرَجَةٍ وَ لَمْ يُقْسَمْ بَيْنَ النَّاسِ شَيْ‏ءٌ أَقَلُّ مِنَ الْيَقِينِ قَالَ قُلْتُ فَأَيُّ شَيْ‏ءٍ الْيَقِينُ قَالَ التَّوَكُّلُ عَلَى اللّٰهِ وَ التَّسْلِيمُ لِلّٰهِ وَ الرِّضَا بِقَضَاءِ اللّٰهِ وَ التَّفْوِيضُ إِلَى اللّٰهِ قُلْتُ فَمَا تَفْسِيرُ ذَلِكَ قَالَ هَكَذَا قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ 
یونس سے مروی ہے کہ میں نے امام رضاؑ سے ایمان و اسلام کے متعلق پوچھا گیا تو آپ فرمایا کہ امام محمد باقرؑ نے فرمایا کہ دین کانام اسلام ہے ایمان اس میں ایک درجہ بلند ہے اور تقویٰ ایمان سے ایک درجہ زیادہ ہے اور یقین تقویٰ سے ایک درجہ زیادہ ہے اور یقین سے کم کوئی چیز لوگوں میں تقسیم نہیں ہوئی۔
میں نے عرض کی، یقین کی تعریف کیا ہے فرمایا خدا پر توکل کرنا اس کے احکام کو قبول کرنا اور حکم خدا پر راضی ہونا اور اپنے معاملات کو خدا کے سپرد کردینا۔ میں نے کہا اس کی تفسیر بیان فرمائیے۔ فرمایا امام محمد باقرؑ  نے اتنا ہی بیان فرمایا ہے۔
(الکافی،کتاب الایمان و الکفر، باب فضلیت ایمان، حدیث05)
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُعَمَّرِ بْنِ خَلَّادٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَنِ الرِّضَا  يَقُولُ‏ لَيْسَ الْعِبَادَةُ كَثْرَةَ الصَّلَاةِ وَ الصَّوْمِ إِنَّمَا الْعِبَادَةُ التَّفَكُّرُ فِي أَمْرِ اللّٰهِ عَزَّ وَ جَلَّ
معمر بن خلاد سے روایت ہے کہ امام رضاؑ نے فرمایا:
کثرت صوم اور صلاۃ کا نام عبادت نہیں بلکہ اصل عبادت امر الٰہی میں تفکر کرنا ہے۔
(الکافی،کتاب الایمان و الکفر، باب التفکر، حدیث04)
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَمَّنْ ذَكَرَهُ قَالَ: قِيلَ لِلرِّضَا  إِنَّكَ تَتَكَلَّمُ بِهَذَا الْكَلَامِ‏ وَ السَّيْفُ يَقْطُرُ دَماً فَقَالَ إِنَّ لِلّٰهِ وَادِياً مِنْ ذَهَبٍ حَمَاهُ بِأَضْعَفِ خَلْقِهِ النَّمْلِ فَلَوْ رَامَهُ الْبَخَاتِيُّ لَمْ تَصِلْ إِلَيْهِ‏
روایت میں ہے کہ امام علی رضاؑ سے کسی نے کہا،آپ دعویٰ امامت کرتے ہیں در آنحالیکہ ہاروں کی تلوار سے خون ٹپک رہا ہے فرمایا خدانے ایک وادی سونے کی بنائی ہے جس کی حفاظت کا کام اس نے اپنی کمزور مخلوق چیونٹی کے سپرد کردیا ہے اگر شتران دو کوہاں وہاں جانا چاہیں تو نہیں جا سکتے۔
(الکافی،کتاب الایمان و الکفر، باب فضلیت یقین، حدیث11)
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَنِ الرِّضَا  يَقُولُ‏ كَانَ فِي الْكَنْزِ الَّذِي قَالَ اللّٰهُ عَزَّ وَ جَلَّ- وَ كانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُما كَانَ فِيهِ‏ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ* عَجِبْتُ لِمَنْ أَيْقَنَ بِالْمَوْتِ كَيْفَ يَفْرَحُ وَ عَجِبْتُ لِمَنْ أَيْقَنَ بِالْقَدَرِ كَيْفَ يَحْزَنُ وَ عَجِبْتُ لِمَنْ رَأَى الدُّنْيَا وَ تَقَلُّبَهَا بِأَهْلِهَا كَيْفَ يَرْكَنُ إِلَيْهَا وَ يَنْبَغِي لِمَنْ عَقَلَ عَنِ اللّٰهِ أَنْ لَا يَتَّهِمَ اللّٰهَ فِي قَضَائِهِ وَ لَا يَسْتَبْطِئَهُ فِي رِزْقِهِ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ أُرِيدُ أَنْ أَكْتُبَهُ قَالَ فَضَرَبَ وَ اللّٰهِ يَدَهُ إِلَى الدَّوَاةِ لِيَضَعَهَا بَيْنَ يَدَيَّ فَتَنَاوَلْتُ يَدَهُ فَقَبَّلْتُهَا وَ أَخَذْتُ الدَّوَاةَ فَكَتَبْتُهُ
علی ابن اسباط سے مروی ہے کہ میں نے امام رضاؑ سے سنا کہ قرآن میں جس خزانہ کا ذکر ہے۔ اس دیوار کےنیچے ان دو یتیموں کا خزانہ تھا۔ اس میں یہ تھا بسم اللہ الرحمن الرحیم، تعجب ہے مجھے اس پر جو موت کا یقین رکھتے ہوئے بھی خوش ہوتا ہے اور تعجب ہے اس شخص پر جو تقدیر کا یقین رکھتے ہوئے بھی رنجیدہ ہے اور تعجب ہے اس شخص پر جس نے دنیا کو اور اس کے باشندوں کے ادلتے بدلتے حالات کو دیکھا اور پھر اس پر بھروسہ بھی کیا اور سزاوار ہے اس کے لئے جسے اللہ نے عقل دی ہے کہ خدا کو تہمت نہ لگائے۔ قضا و قدر میں اور نہ اس کو اپنے رزق کا حل جانے۔ راوی کہتا ہے میں نے کہا میں آپ پر فدا ہوں اس کو لکھنا چاہتا ہوں جنت نے اپنے ہاتھ سے دوات اٹھاکر میرے سامنے رکھی۔ میں نے حضرت کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور دوات لے کر لکھنا شروع کردیا۔
(الکافی،کتاب الایمان و الکفر، باب فضلیت یقین)
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ بَزِيعٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا  قَالَ: أَحْسِنِ الظَّنَّ بِاللّٰهِ فَإِنَّ اللّٰهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقُولُ أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيَ الْمُؤْمِنِ بِي إِنْ خَيْراً فَخَيْراً وَ إِنْ شَرّاً فَشَرّاً
محمد بن اسماعیل بزیع سے روایت ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا:
اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھو خدا حدیث میں فرماتا ہے۔ میں بندۂ مومن کے نزدیک ہوں اگر وہ میرے متعلق اچھا گمان رکھتا ہے تو اس کے لئے بہتری ہے اور اگر برا گمان رکھتا ہے تو برائی ہے۔
(الکافی،کتاب الایمان و الکفر، باب حسن ظن،حدیث 03)
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ قَالَ قَالَ أَبُو الْحَسَنِ الرِّضَا مِنْ عَلَامَاتِ الْفِقْهِ الْحِلْمُ وَ الْعِلْمُ وَ الصَّمْتُ إِنَّ الصَّمْتَ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الْحِكْمَةِ إِنَّ الصَّمْتَ يَكْسِبُ الْمَحَبَّةَ إِنَّهُ دَلِيلٌ عَلَى كُلِّ خَيْرٍ
محمد بن ابی نصر بزنطی سے روایت ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا:
سمجھ بوجھ(عاقل) کی علامات حلم،علم اور خاموشی ہیں،حکمت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ خاموشی کا ہے، خاموشی محبت کو حاصل کرتی ہے اور ہر اچھائی کی دلیل ہے۔
(الکافی، بَابُ الصَّمْتِ وَ حِفْظِ اللِّسَانِ‏)
عَنْهُ عَنْ عِدَّةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ‏ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْجَهْمِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا  قَالَ قَالَ: التَّوَاضُعُ أَنْ تُعْطِيَ النَّاسَ مَا تُحِبُّ أَنْ تُعْطَاهُ. وَ فِي حَدِيثٍ آخَرَ قَالَ قُلْتُ مَا حَدُّ التَّوَاضُعِ الَّذِي إِذَا فَعَلَهُ الْعَبْدُ كَانَ مُتَوَاضِعاً فَقَالَ التَّوَاضُعُ دَرَجَاتٌ مِنْهَا أَنْ يَعْرِفَ الْمَرْءُ قَدْرَ نَفْسِهِ فَيُنْزِلَهَا مَنْزِلَتَهَا بِقَلْبٍ سَلِيمٍ لَا يُحِبُّ أَنْ يَأْتِيَ إِلَى أَحَدٍ إِلَّا مِثْلَ مَا يُؤْتَى إِلَيْهِ إِنْ رَأَى سَيِّئَةً دَرَأَهَا بِالْحَسَنَةِ كَاظِمُ الْغَيْظِ عَافٍ عَنِ النَّاسِ‏ وَ اللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ‏
حسن بن جہم سے مروی ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا:
تواضع یہ ہے کہ تم لوگوں کو وہ عطا کرو جسے تم چاہتے ہو کہ کوئی تم کو عطا کرے ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ
راوی کہتا ہے میں نے پوچھا حد تواضع کیا ہے؟ جس کے کرنے پر بندہ عرف عام میں متواضع سمجھا جائے۔ فرمایا تواضع کے درجات ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کی قدر جان کر سچے دل سے خود کو اس مذلت سے پست تر دکھائے اور یہ بات پسند کرے کہ دوسروں کو وہی ملے جس کو وہ اپنے لئے چاہتا ہے اور اگر کسی سے برائی دیکھے تو اس کا بدلہ نیکی سے دے۔ غصہ کا پینے والا قصور کا معاف کرنے والا ہے اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
(الکافی، بَابُ الصَّمْتِ وَ حِفْظِ اللِّسَانِ)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button