حیات امام ثامن علی ابن موسیٰ الرضاؑ کے چند پہلو (دوسرا پہلو)

شہر طوس کا سفر
حضرت امام رضا علیہ السلام کی نیشاپور میں تشریف آوری:
رجب 200 ہجری میں حضرت مدینہ منورہ سے مرو خراسان کی جانب روانہ ہوئے، اہل و عیال سب کو مدینہ منورہ ہی میں چھوڑا اس وقت امام محمد تقی علیہ السلام کی عمر پانچ برس کی تھی، آپ مدینہ ہی میں رہے، مدینہ سے روانگی کے وقت کوفہ اور قم کی سیدھی راہ چھوڑ کر بصرہ اور اہواز کا غیر متعارف راستہ اس خطرہ کے پیش نظر اختیار کیا گیا کہ کہیں عقیدت مندان امام مزاحمت نہ کریں، غرضیکہ قطع مراحل اور طے منازل کرتے ہوئے یہ لوگ نیشاپور کے نزدیک جا پہنچے۔مورخین لکھتے ہیں کہ جب آپ کی مقدس سواری نیشاپور کے قریب پہنچی تو جملہ علماء و فضلاء شہر نے بیرون شہر حاضر ہو کر آپ کی رسم استقبال ادا کی، داخل شہر ہوئے تو تمام خورد و بزرگ شوق زیارت میں امنڈ پڑے، مرکب عالی جب مربعہ شہر (چوک) میں پہنچا تو خلاق سے زمین پر تل رکھنے کی جگہ نہ تھی، اس وقت حضرت امام رضا قاطر نامی خچر پر سوار تھے، خچر پر عماری تھی اور اس پر دونوں طرف پردہ پڑے ہوئے تھے اس وقت امام المحدثین حافظ ابو زرعہ رازی اور محمد ابن اسلم طوسی آگے آگے اور ان کے پیچھے اہل علم و حدیث کی ایک عظیم جماعت حاضر خدمت ہوئی اور ان کلمات سے امام علیہ السلام کو مخاطب کیا:اے جمیع سادات کے سردار، اے تمام مومنوں کے امام اور اے مرکز پاکیزگی، آپ کو رسول اکرم کا واسطہ، آپ اپنے اجداد کے صدقہ میں اپنے دیدار کا موقع دیجئے اور کوئی حدیث اپنے جد نامدار کی بیان فرمائیے، یہ کہہ کر محمد ابن رافع، احمد ابن حارث، یحیی ابن یحیی اور اسحاق ابن راہویہ نے آپ کی سواری کی لگام تھام لی۔
ان کی استدعا سن کر آپ نے سواری روک دئیے جانے کے لیے اشارہ فرمایا، اور اشارہ کیا کہ حجاب اٹھا دئیے جائیں فورا تعمیل کی گئی۔ حاضرین نے جونہی وہ نورانی چہرہ اپنے پیارے رسول کے جگر گوشہ کا دیکھا، سینوں میں دل بیتاب ہو گئے دو زلفین نور انور پر مانند گیسوئے مشک بوئے جناب رسول خدا چھوتی ہوئی تھیں، کسی کو یارائے ضبط باقی نہ رہا، وہ سب کے سب بے اختیار ڈھاریں مار کر رونے لگے، بہت سے لوگوں نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے، کچھ زمین پر گر کر لوٹنے لگے، بعض سواری کے گرد و پیش گھومنے اور چکر لگانے لگے اور مرکب اقدس کی زین و لجام چومنے لگے اور عماری کا بوسہ دینے لگے آخر مرکب عالی کے قدم چومنے کے اشتیاق میں درانہ بڑھے چلے آتے تھے، غرضکہ عجیب طرح کا ولولہ تھا کہ جمال باکمال کو دیکھنے سے کسی کو سیری نہیں ہوئی تھی، ٹکٹکی لگائے رخ انور کی طرف نگراں تھے، یہاں تک کہ دوپہر ہو گئی اور ان کے موجودہ اشتیاق و تمنا کی پرجوشیوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اس وقت علماء و فضلاء کی جماعت نے بآواز بلند پکار کر کہا کہ مسلمانو ذرا خاموش ہو جاؤ، اور فرزند رسول کے لیے آزار نہ بنو، ان کی استدعا پر قدرے شور و غل تھما تو امام علیہ السلام نے فرمایا:
حدثنی ابی موسی الکاظم عن ابیہ جعفر الصادق عن ابیہ محمد الباقر عن ابیہ زین العابدین عن ابیہ الحسین الشہید بکربل اعن ابیہ علی المرتضی قال حدثنی حبیبی وقرة عینی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم قال حدثنی جبرئیل علیہ السلام قال حدثنی رب العزت سبحانہ وتعالی قال لا الہ الا اللّٰہ حصنی فمن قالھا دخل حصنی ومن دخل حصنی امن من عذابی
میرے پدر بزرگوار حضرت امام موسی کاظم نے مجھ سے بیان فرمایا اور ان سے امام جعفر صادق علیہ السلام نے اور ان سے امام محمد باقر نے اور ان سے امام زین العابدین نے اور ان سے امام حسین نے اور ان سے حضرت علی مرتضی نے اور ان سے حضرت رسول کریم جناب محمد مصطفی ﷺ نے اور ان سے جناب جبرائیل امین نے اور ان سے خداوند نے ارشاد فرمایا کہ لا الہ الا اللہ، میرا قلعہ ہے جو اسے زبان پر جاری کرے گا میرے قلعہ میں داخل ہو جائے گا اور جو میرے قلعہ میں داخل ہو گا، میرے عذاب سے محفوظ ہو جائے گا۔
(مسند امام رضا علیہ السلام ص 7)
یہ کہہ کر آپ نے پردہ کھینچوا دیا، اور چند قدم بڑھنے کے بعد فرمایا:
بشرطھا و شروطھا و انا من شروطھا
کہ لا الہ الا اللہ کہنے والا نجات ضرور پائے گا لیکن اس کے کہنے اور نجات پانے میں چند شرطیں ہیں کہ جن میں سے ایک شرط میں بھی ہوں یعنی اگر آل محمد کی محبت دل میں نہ ہو گی تو لا الہ الا اللہ کہنا کافی نہ ہو گا۔علماء نے تاریخ نیشاپور کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس حدیث کے لکھنے میں متعدد راویوں کے علاوہ 24 ہزار قلمدان استعمال کیے گئے۔اس حدیث کو بیس ہزار سے زیادہ افراد نے نقل کیا، اس حدیث کو حدیث ذہبی کا نام دیا گیا چونکہ اس حدیث کو سنہری روشنائی (یعنی سونے کا پانی )سے لکھا گیا،سند کے لحاظ سے یہ حدیث دیگر تمام احادیث میں سے زیادہ صاحب عظمت ہے ۔
(اخبار الدول، ص 115)
احمد ابن حنبل کا کہنا ہے کہ یہ حدیث جن اسناد اور اسماء کے ذریعہ سے بیان فرمائی گئی ہے، اگر ان اسماء کو پڑھ کر مجنون پر دم کیا جائے تو: لافاق من جنونہ ضرور اس کا جنون جاتا رہے گا اور وہ اچھا ہو جائے گا۔
حدیث سلسلۃ الذہب:
اللَٰه جَلَّ جَلَالُهُ یقُولُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَٰهُ حِصْنِی فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِی أَمِنَ مِنْ عَذَابِی قَالَ فَلَمَّا مَرَّتِ الرَّاحِلَةُ نَادَانَا بِشُرُوطِهَا وَ أَنَا مِنْ شُرُوطِهَا
خداوند نے فرمایا: کلمہ "لَا إِلَہ إِلَّا اللَٰہ” میرا مضبوط قلعہ ہے، پس جو بھی میرے اس قلعہ میں داخل ہو گا وہ میرے عذاب سے محفوظ رہے گا، جب سواری چلنے لگی تو امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: البتہ اس کی کچھ شرائط ہیں اور میں ان شرائط میں سے ایک میں ہوں۔
(کتاب التوحید، ص 49، الارشاد، ص 455، معانی الاخبار، ص 371)
نیشاپور میں امام علیہ السلام کا محدثین کی محفل میں اس حدیث کا بیان مدینے سے خراسان تک کے سفر کا اہم ترین اور مستند ترین واقعہ شمار کیا جاتا ہے۔
(تحلیلی از زندگانی امام رضا علیہ السلام، ص 133)
علامہ شبلنجی نور الابصارمیں بحوالہ ابو القاسم تضیری لکھتے ہیں کہ: ساسانہ کے رہنے والے بعض رؤسا نے جب اس حدیث کی سلسلہ اسناد کو سنا تو اسے سونے کے پانی سے لکھوا کر اپنے پاس رکھ لیا اور مرتے وقت وصیت کی کہ اسے میرے کفن میں رکھ دیا جائے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا مرنے کے بعد اس نے خواب میں بتایا کہ خداوند نے مجھے ان ناموں ( اسمائے گرامی آئمہ اطہار) کی برکت سے بخش دیا ہے اور میں بہت آرام کی جگہ میں ہوں۔
شہر طوس میں امام رضا علیہ السلام کی تشریف آوری:
جب اس سفر میں چلتے چلتے شہر طوس پہنچے تو وہاں دیکھا کہ ایک پہاڑ سے لوگ پتھر تراش کر ہانڈی وغیرہ بناتے ہیں، آپ اس سے ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے اور آپ نے اس کے نرم ہونے کی دعا کی وہاں کے باشندوں کا کہنا ہے کہ اس پہاڑ کا پتھر بالکل نرم ہو گیا اور بڑی آسانی سے برتن بننے لگے۔
امام رضا علیہ السلام کا دار الخلافہ مرو میں نزول:
امام رضا علیہ السلام طے مراحل اور قطع منازل کرنے کے بعد جب مرو پہنچے جسے سکندر ذوالقرنین نے بروایت معجم البلدان آباد کیا تھا اور جو اس وقت دار السلنطت تھا تو مامون نے چند روز ضیافت تکریم کے مراسم ادا کرنے کے بعد قبول خلافت کا سوال پیش کیا۔ حضرت نے اس سے اسی طرح انکار کیا کہ جس طرح امیر المومنین علی علیہ السلام چوتھے خلیفہ کے موقع پر خلافت پیش کیے جانے کے وقت انکار فرما رہے تھے۔ مامون کو خلافت سے دستبردار ہونا، در حقیقت منظور نہ تھا، ورنہ وہ امام کو اسی خلافت کے قبول کرنے پر مجبورکرتا۔چنانچہ جب حضرت نے خلافت کے قبول کرنے سے انکار فرمایا تو اس نے ولیعہدی کا سوال پیش کیا، حضرت اس کے بھی انجام سے ناواقف نہ تھے نیز بخوشی جابر حکومت کی طرف سے کوئی منصب قبول کرنا آپ کے خاندانی اصول کے خلاف تھا، حضرت نے اس سے بھی انکار فرمایا مگر اس پر مامون کا اصرار جبر کی حد تک پہنچ گیا اور اس نے صاف کہہ دیا کہ
لا بد من قبولک
اگر آپ اس کو منظور نہیں کر سکتے تو اس وقت آپ کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔جان کا خطرہ قبول کیا جا سکتا ہے، جب مذہبی مفاد کا قیام جان دینے پر موقوف ہو، ورنہ حفاظت جان شریعت اسلام کا بنیادی حکم ہے، امام نے فرمایا یہ ہے تو میں مجبورا قبول کرتا ہوں مگر کاروبار سلطنت میں بالکل دخل نہ دوں گا، ہاں اگر کسی بات میں مجھ سے مشورہ لیا جائے تو نیک مشورہ ضرور دوں گا۔تواریخ میں ہے کہ مامون نے حضرت امام رضا علیہ السلام سے کہا کہ شرطیں قبول کر لیں اس کے بعد آپ نے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیا اور بارگاہ اہدیت میں عرض کی:پروردگارا تو جانتا ہے کہ اس امر کو میں نے مجبوری و ناچاری اور خوف قتل کی وجہ سے قبول کیا ہے۔ خداوندا تو میرے اس فعل پر مجھ سے اسی طرح مواخذہ نہ کرنا کہ جس طرح جناب یوسف اور جناب دانیال سے باز پرس نہیں فرمائی۔ اس کے بعد کہا میرے پالنے والے تیرے عہد کے سوا کوئی عہد نہیں اور تیری عطا کی ہوئی حیثیت کے سوا کوئی عزت نہیں، خدایا تو مجھے اپنے دین پر قائم رہنے ک توفیق عنایت فرما۔خواجہ محمد پارسا کا کہنا ہے کہ ولیعہدی کے وقت آپ رو رہے تھے۔ملا حسین لکھتے ہیں کہ مامون کی طرف سے اصرار اور حضرت کی طرف سے انکار کا سلسلہ دو ماہ تک جاری رہا، اس کے بعد ولی عہدی قبول کی گئی۔