سیرتسیرت امام علی رضاؑ

حیات امام ثامن علی ابن موسیٰ الرضاؑ کے چند پہلو (چھٹا پہلو)

فضائل و مناقب اور شہادت
امام رضا علیہ السلام کی زیارت کی فضیلت:
اہل سنت کی کتابوں میں قبر امام رضا علیہ السلام کی زيارت کی فضیلت میں بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں، جن میں سے بعض کو ہم یہاں پر نقل کرتے ہیں:
سید علی ابن شہاب الدین ہمدانی نے پیغمبر اکرم ﷺ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
ستدفن بضعة منّى بخراسان، ما زار مکروب الاّ نفّس اللّٰه کربته، و لا مذنب الاّ غفر اللّٰه له
بہت جلد میرے جسم کا ایک حصہ خراسان میں دفن ہو گا، جس کو بھی کوئی غم ہو گا اور وہ آپ کی زیارت کرے گا تو خداوند اس کے غم کو دور کر دے گا اور جو گنہگار بھی ان کی زیارت کرے گا تو خداوند اس کے گناہوں کو بخش دے گا۔
(مودة القربى، ص 140،ينابيع المودة، ص 265)
حموینی نے اپنی سند کے ساتھ رسول خدا ﷺ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
ستدفن بضعة منّى بخراسان، لا يزور ها مومن الاّ أوجب اللّٰه له الجنّة، و حرّم جسده على النار
بہت جلد میرے جسم کے ایک حصے کو خراسان میں دفن کیا جائے گا، جو مومن بھی ان کی زیارت کرے گا، اس پر خداوند بہشت کو واجب کر دے گا اور اس کے جسم پر جہنم کی آگ کو حرام کر دے گا۔
(فرائد السمطين، ج 2، ص 188)
ابو بکر محمد ابن مومل کہتے ہیں: میں نے اہل حدیث کے امام ابو بکر ابن خزیمہ، ابن علی ثقفی اور اساتیذ کی ایک جماعت کے ساتھ علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کی زیارت کے قصد سے طوس کی طرف روانہ ہوا۔ میں نے ابن خزیمہ کو دیکھا کہ وہ اس ضریح کی اس قدر تعظیم کر رہے تھے اور اس کے سامنے اس قدر تواضع اور تضرع و زاری کر رہے تھے کہ ہم حیران رہ گئے۔
(تهذيب التهذيب، ج 7، ص 339)
ابن حبان نے اپنی کتاب الثقات میں لکھا ہے کہ: علی ابن موسی الرضا کو طوس میں مامون نے ایک شربت دیا جس کو پیتے ہی آپ کی شہادت واقع ہو گئی … آپ کی قبر سناباد میں نوقان کے باہر مشہور ہے، لوگ ان کی زیارت کے لیے آتے ہیں، میں نے بہت زیادہ ان کی زیارت کی ہے ، جب تک میں طوس میں رہا مجھ پر کوئی بھی مصیبت پڑتی تھی تو میں علی ابن موسی الرضا (صلوات اللہ علی جدہ و علیہ) کی قبر کی زیارت کے لیے جاتا تھا اور خداوند سے دعا کرتا تھا کہ میری مصیبت کو دور کرے ، خداوند بھی میری دعا کو مستجاب کرتا تھا اور وہ مصیبت مجھ سے دور ہو جاتی تھی اور یہ بات ایسی ہے کہ جس کا میں نے بار ہا تجربہ کیا ہے اور ہر مرتبہ میری مصیبت دور ہوئی ہے۔ خداوند ہمیں مصطفی اور ان کے اہل بیت (صلی اللہ علیہ و علیہم اجمعین) کی محبت پر موت دے۔
(الثقات، ج 8، ص 456 و 457،اهل بيت از ديدگاه اهل سنت، ص 137)
امام رضا علیہ السلام کی صفات:
عالم آل محمد، القائم بامراللہ، الحجة، ناصرالدین اللہ، شاہد، داعیاالی سبیل اللہ، امام الہدی، العروة الوثقی، الامام الہادی، الولی، المرشد
(بحار الانوار، ج 49 ص 123)
القاب:
الرضا، الصابر، رضی، القبلة السابع، ہدانہ (وطن سے دور) قرة اعین المومنین، الصادق، الفاضل، الوصی
(الارشاد، شیخ مفید، ص 310)
دلائل امامت:
متعدد راویوں جیسے: داود ابن کثیر الرقی، محمد ابن اسحاق ابن عمار، علی ابن یقطین، نعیم قابوسی، حسین ابن مختار، زیاد ابن مروان، أبو لبید یا ابو ایوب مخزومی، داؤد ابن سلیمان، نصر ابن قابوس، داود ابن زربی، یزید ابن سلیط اور محمد ابن سنان وغیرہ نے امام موسی کاظم علیہ السلام سے امام رضا علیہ السلام کی امامت کے بارے میں احادیث نقل کیں ہیں۔
(مفید، الارشاد، ص 448)
اس سلسلے میں بطور مثال بعض احادیث کا تذکرہ یہاں پر کیا جا رہا ہے:داود رقی کہتے ہیں: میں نے امام موسی کاظم علیہ السلام سے پوچھا: … آپ کے بعد امام کون ہے ؟امام کاظم علیہ السلام نے اپنے فرزند علی ابن موسی علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: میرے بعد یہ تمہارے امام ہیں۔
(مفید، الارشاد ص 448)
اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ سے متعدد احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں 12 ائمہ معصومین علیہ السلام کے اسماء گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام سمیت تمام ائمہ علیہ السلام کی امامت و خلافت و ولایت کی تائید کرتی ہیں۔
(مفید، الاختصاص، ص 211، منتخب الاثر باب ہشتم ص97،اعلام الوری باعلام الہدی، ج2، ص182-181، اثبات الہداة بالنصوص و المعجزات، ج2، ص285)
جابر ابن عبد اللہ کہتے ہیں کہ سورہ نساء کی آیت اطیعوا اللّٰه واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے 12 آئمہ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعت اور اولو الامر ہیں۔
(بحار الأنوار ج 23 ص 290،اثبات الہداة ج 3‌ ص 123،مناقب ابن شہر آشوب، ج 1 ، ص 283)
امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ ام سلمہ کے گھر میں سورہ احزاب کی آیت انما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا نازل ہوئی تو پیغمبر نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے کہ وہ اس آیت کے مصداق ہیں۔
(بحار الأنوار ج 36 ص 337، كفاية الأثر في النص على الأئمة الإثنی عشر، ص157)
ابن عباس سے مروی ہے کہ نعثل نامی یہودی نے رسول اللہ ﷺ کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپ ﷺ نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔
(ینابیع المودة، ج2، ص387 ، 392، باب 76)
متعدد احادیث اور نصوص کے علاوہ امام رضا علیہ السلام اپنے زمانے میں شیعوں کے درمیان مقبولیت عام رکھتے تھے اور علم و اخلاق میں اپنے خاندان کے افراد اور تمام امت کے افراد پر فوقیت اور برتری رکھتے تھے۔یہ خصوصیات بھی آپ کی امامت پر دلیل بن سکتی ہیں۔ گو کہ امام موسی کاظم علیہ السلام کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں امامت کا مسئلہ کافی حد تک پیچیدہ ہو چکا تھا لیکن امام کاظم علیہ السلام کے اکثر اصحاب اور پیروکاروں نے امام رضا علیہ السلام کو امام کاظم علیہ السلام کا جانشین اور آپ کے بعد امام تسلیم کر لیا تھا۔
(حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ص 427)
امام رضا علیہ السلام شہادت کی پیشین گوئیاں اور زیارت کا ثواب:
رسول خدا ﷺ نے فرمایا: بہت جلد میرے وجود کا ایک ٹکڑا خراسان میں دفن ہو گا، جس نے اس کی زیارت کی خداوند متعال جنت کو اس پر واجب اور جہنم کی آگ اس کے جسم پر حرام کرے گا۔
(بحار الانوار، ج 49، ص 284، ح 3،عیون اخبار الرضا، ج 2، ص 255)
امام علی علیہ السلام نے فرمایا: بہت جلد میرا ایک فرزند خراسان میں مسموم کیا جائے گا، جس کا نام میرا نام ہے اور اس کے باپ کا نام موسی علیہ السلام کا نام ہے۔ جس نے غریب الوطنی میں اس کی زیارت کی خداوند اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دے گا، خواہ وہ ستاروں اور بارش کے قطروں اور درختوں کے پتوں جتنے ہی کیوں نہ ہوں۔
(بحار الانوار، ج 49، ص 284، ح 11،عیون اخبار الرضا، ج 2، ص 258- 259)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: خداوند میرے بیٹے موسی کو ایک فرزند عطا کرے گا جو طوس میں مسموم کر کے شہید کیا جائے گا اور غریب الوطنی میں دفن کیا جائے گا۔ جو اس کے حق کو پہچانے اور اس کی زیارت کرے، خداوند متعال اس کو ان لوگوں کا ثواب عطا کرے گا کہ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے انفاق کیا ہے اور خیرات دی ہے اور جہاد کیا ہے۔
(بحار الانوار، ج 49، ص 286، ح 10بحوالہ عیون اخبار الرضا، ج 2، ص 255)
امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے علل و اسباب:
مأمون ملعون نے کیوں امام کو قتل کروایا؟ اس حوالے سے مختلف علل و اسباب ذکر کیے گئے ہیں:مختلف ادیان و مذاہب کے دانشوروں کے ساتھ ہونے والے مناظروں میں امام علیہ السلام کی برتری اور فوقیت۔
(حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ص 443)
امام رضا علیہ السلام کی اقتداء میں نماز عید ادا کرنے کیلئے لوگوں کا جوق در جوق شرکت کرنا،اس واقعے سے مامون بہت خائف ہوا اور سجھ گیا تھا کہ امام رضا علیہ السلام کو ولیعہد بنانا اس کی حکومت کیلئے کس قدر خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے اس نے امام علیہ السلام کی نگرانی کرنا شروع کر دی تا کہ کہیں اس کے خلاف کوئی اقدام نہ کرے۔
(حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ص 444)
دوسری طرف سے امام علیہ السلام مامون سے کسی خوف و خطر کا احساس نہیں فرماتے تھے، اسی وجہ سے اکثر اوقات ایسے جوابات دے دیتے تھے کہ جو مامون کیلئے سخت ناگوار گزرتے تھے۔یہ چیز مامون کو امام کے خلاف مزید بھڑکانے اور امام کے ساتھ مامون کی دشمنی کا باعث بنتی تھی اگرچہ مامون اس کا برملا اظہار نہیں کرتا تھا۔
(حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ص 444)
چنانچہ منقول ہے کہ مأمون ایک عسکری فتح کے بعد خوشی کا اظہار کر رہا تھا کہ امام علیہ السلام نے فرمایا: اے امیر الممؤمنین! امت محمد اور اس چیز سے متعلق خدا سے ڈرو جسے خدا نے تیرے ذمے لگائی ہے، تم نے مسلمانوں کے امور کو ضائع کر دیا ہے۔
امام رضا علیہ السلام کے دور میں شیعوں کے اعتقادات:
امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد شیعوں کی اکثریت نے ساتویں امام کی وصیت اور دوسرے قرائن و شواہد کی بناء پر ان کے بیٹے علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کو آٹھویں امام کے طور پر قبول کر لیا تھا۔ آپ علیہ السلام کی امامت کو قبول کرنے والے شیعہ جن میں امام کاظم علیہ السلام کے بزرگ اصحاب شامل تھے، قطعیہ کے نام سے مشہور تھے۔
(فرق الشیعہ، ص 79)
لیکن امام کاظم علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک گروہ نے بعض دلائل کی بنیاد پر علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کی امامت کو قبول کرنے سے انکار کیا اور امام موسی کاظم علیہ السلام کی امامت پر توقف کیا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ موسی ابن جعفر علیہ السلام آخری امام ہیں کہ جنہوں نے کسی کو اپنے بعد امام متعین نہیں کیا ہے یا کم از کم ہمیں اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ یہ گروہ واقفیہ (یا واقفہ) کے نام سے جانا جاتا تھا۔
مدینہ میں امام رضا علیہ السلام کا مقام:
امام رضا علیہ السلام نے اپنی امامت کے تقریبا 17 سال مدینے میں گزاریں، جہاں پر آپ علیہ السلام لوگوں کے درمیان ایک ممتاز مقام کے حامل تھے۔ مأمون کے ساتھ اپنی ولایتعہدی کے بارے میں ہونے والی گفتگو میں امام علیہ السلام خود اس بارے میں فرماتے ہیں:
میرے نزدیک اس ولایت عہدی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جس وقت میں مدینے میں ہوتا تھا تو میرا حکم مشرق و مغرب میں نافذ تھا اور جب میں اپنی سواری پر مدینے کی گلی کوچوں سے گزرتا تھا تو لوگوں کے یہاں مجھ سے زیادہ محبوب شخصیت کوئی نہیں تھی۔
(كلينی، الكافى، ج 8، ص 151)
مدینے میں آپ علیہ السلام کی علمی مرجعیت کے بارے میں بھی خود امام علیہ السلام فرماتے ہیں:میں مسجد نبوی کے دروازے پر بیٹھتا تھا اور مدینے میں موجود صاحبان علم جب بھی کسی مسئلے میں پھنس جاتے تھے تو میری طرف رجوع کرتے تھے اور اپنے اپنے مسائل کو میری طرف ارجاع دیتے تھے اور میں ان کا جواب دیتا تھا۔
(اعلام الوری باعلام الہدی، ج 2، ص 64)
خراسان کا سفر:
روایت ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی مدینہ سے مرو کی طرف ہجرت سن 200 ہجری میں انجام پائی۔
(عیون اخبار الرضا، ج 2 ، ص 473، اثبات الوصيہ، ص 391)
رسول جعفریان لکھتے ہیں کہ: امام رضا علیہ السلام سن 201 ہجری کو مدینہ میں تھے اور اسی سال رمضان کے مہینے میں مرو پہنچ گئے۔
(حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ علیہ السلام، ص 426)
امام علیہ السلام کی مرو منتقلی کے لیے مامون نے ایک خاص راستہ منتخب کیا تھا تا کہ آپ کو شیعہ اکثریتی علاقوں سے گزرنے نہ دیا جائے، کیونکہ وہ ان علاقوں میں لوگوں کے اجتماعات سے خوفزدہ تھا، جو امام کے ان علاقوں میں پہنچنے پر متوقع تھا۔ اس نے حکم دیا تھا کہ امام علیہ السلام کو کوفہ کے راستے سے نہیں بلکہ بصرہ، خوزستان اور فارس کے راستے سے نیشاپور لایا جائے۔
(مجموعہ آثار، ج 18، ص 124)
کتاب "اطلسِ شیعہ” کے مطابق امام رضا علیہ السلام کو "مرو” لانے کے لیے مقررہ راستہ کچھ یوں تھا:مدینہ، نقرہ، ہوسجہ، نباج، حفر ابو موسی، بصرہ، اہواز، بہبہان، اصطخر، ابرقوہ، دہ شیر (فراشاہ)، یزد، خرانق، رباط پشت بام، نیشاپور، قدمگاہ، دہ سرخ، طوس، سرخس، مرو۔
(جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ علیہ السلام ص 95)
شیخ مفید کہتے ہیں: مامون نے خاندان ابو طالب علیہ السلام کے بعض افراد کو مدینہ سے بلوایا جن میں امام رضا علیہ السلام بھی شامل تھے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button