Uncategorizedسیرتسیرت جناب رسول خداؐ

سیرت نبویؐ کے تناظر میں جاہل معاشرے کا اسلامی معاشرے کی جانب ارتقاء

محمد حسنین امام جامعۃ الکوثر
خلاصہ:
بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اہم ترین ہدف ایک گمراہ اور بے دین معاشرے کو دین مبین اسلام کے سانچے میں ڈھالنا تھا۔ ایک ایسا سماج جو غیر متمدن اور فرہنگی اصولوں کے گمراہ کن نتائج سے کوسوں دور تھا، جس میں سماجی اقدار اور اخلاقی اصول و ضوابط نہ ہونے کے برابر تھے۔برائیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو نیکیوں اور اچھائیوں کی تمیز کرنے والے روشن اصولوں کی طرف راہنمائی کرنے میں آپ کی عملی سیرت کا موثر کردار نظر آتا ہے جس کی تربیت آپ نے بارگاہ ایزدی سے حاصل کی تھی۔ صحرائے عرب کے ریگستانوں میں زندگی بسر کرنے والے غیر مہذب اور جاہل لوگوں کے مابین آپ کے وجود کی برکات سے ایک بہترین تہذیب اور اسلامی ثقافت پروان چڑھی۔تئیس سال کے کم عرصے میں اس عظیم فکری انقلاب نے لوگوں کے رہن سہن اور طرز زندگی کو اس قدر تبدیل کر دیا کہ گزشتگان وآئندگان کے لیے یہ معاشرہ ایک مثالی نمونہ کی صورت پیش کرنے لگا۔
کلیدی الفاظ :
سیرت نبوی، جاہلیت، اسلام، معاشرہ، ارتقاء، مثالی نمونہ
معاشرہ
انسان فطری طور پر اکیلا زندگی بسر نہیں کر سکتا بلکہ وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے لوگوں کے ساتھ میل جول اور مختلف گروہوں کے ساتھ روابط پیدا کرتا ہے۔ ان گروہوں کے آپس میں گٹھ جوڑ سے ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے ماہرین عمرانیات اس کے لیے مجتمع ، اجتماع، جامعہ یا سماج کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں۔
عمرانیات A.I.O.U, II، ص11
معاشرہ، عشر سے ماخوذ ہے یعنی کسی کے ارد گر در رہنے والے رشتے دار و اقرباء وغیرہ جن میں رہ رہا ہوتا ہے معاشرہ کہلاتا ہے۔
ابن منظور،جمال الدین،لسان العرب،دار صادر، طبع سابع، بیروت،ج9،ص220
معاشرہ باب مفاعلہ کے وزن پر ہے اس باب کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ دو افراد کے ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ کرنے کو بیان کرتا ہے جیسے قبض سے تقابض ہے تجارت میں یہ لفظ عموم استعمال ہوتا ہے یعنی بیچنے والے اور خریدار کا ایک دوسرے کو چیز قبضے میں دینا۔ لوگ نظام حیات بہتر گزارنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور اور ایک دوسرے کی ضروریات کا سامان مہیا کرتے ہیں اس مناسبت سے اسے معاشرہ کہا جاتا ہے قرآن مجید میں بھی یہ لفظ اپنے مشتقات کے ساتھ استعمال ہوا ہے جن کی کچھ مثالیں درج ذیل ہیں۔
أَزوَاجُكُم وَ عَشِيرَتُكُم
التوبہ:24
"تمہاری بیویاں اور تمہاری برادری”۔ اس آیہ مجیدہ کے ذیل میں علامہ راغب اصفہانی را قمطراز ہیں۔
فصار العشيرة اسما لكل جماعة من اقارب الرجل الذين يتكثر بهم و عاشرته
راغب اصفہانی، حسین بن مفضل، مفردات القرآن،دار القلم،طبع اولیٰ ،بیروت،ص567
کوئی شخص جن لوگوں کے ساتھ زندگی گزار رہا ہوتا ہے ان افراد کی وہ قلیل جماعت اس کا معاشرہ کہلاتی ہے۔
و عَاشِرُوهُنَّ بِالمَعرُوفِ
النساء:19
اور ان کے ساتھ اچھے انداز میں زندگی بسر کرو؟
اس ضمن میں بھی علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں العشیر یعنی معاشرہ ۔
راغب اصفہانی، حسین بن مفضل، مفردات القرآن،دار القلم،طبع اولیٰ ،بیروت،ص567
آیہ مجیدہ میں عورتوں کے ساتھ اچھے طریقے سے رہنے کا حکم دیا گیا ہے کہ انہیں بھی اس معاشرے کا ایک فرد تصور کریں اور ان کی آسائش و ضروریات کا خیال رکھیں کہیں غصے یا نادانی اور تعصب میں ان کے حقوق کی پامالی نہ ہو جس سے معاشرتی طور پر بگاڑ  پیدا ہو جائے۔
پس معاشرے کی تمام تر تعریفات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان جس جگہ یا جس ماحول میں زندگی گزار رہا ہو تا ہے وہاں کے ارد گرد کے لوگوں کی ثقافت ، طرز حیات، فرہنگ طور طریقے وغیرہ یہ سب معاشرے میں اہم کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں ان ہی عوامل کی وجہ سے معاشرہ اپنے ارتقاء کی منازل طے کرتا ہے یا پھر تنزلی کا شکار ہو جاتا ہے۔
جاہل معاشرے کا قرآنی تصور اور اس کی خصوصیات:
اسلام سے پہلے کے زمانے کو دور جاہلیت کہا گیا ہے یعنی جو معاشرہ جاہل تھا۔ قرآن مجید میں اس کے حالات مختلف مقامات پر ذکر ہوئے ہیں جن میں سے چار مقام درج ذیل ہیں۔
أَفَحُكمَ الجَاهِلِيَّةِ يَبغُونَ وَمَن أَحسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكمًا لِّقَومٍ يُوقِنُونَ
کیا یہ لوگ جاہلیت کے دستور کے خواہاں ہیں ؟ اہل یقین کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے؟
المائدہ:50
یہودیوں کے قبائل آپس میں عجیب امتیازات رکھتے تھے مثلا بنو قریظہ کا کوئی فرد بنو نضیر کے بندے کو قتل کر تا تو اس سے قصاص لیا جاتا مگر بنو نضیر کا کوئی شخص بنو قریظہ کا بندہ مار دیتا تو وہ قصاص کی بجائے دو گنا خون بہا ادا کرتے۔ اس طرح کے دیگر معاملات میں الجھےہوئے یہودی علماء نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں گذارش کی کہ آپ ہمارے حق میں ایک فیصلہ دے دیں یعنی ہمارے حق میں قصاص ساقط کر کے خون بہا ادا کرنے کا فیصلہ سنا دیں تو ہم اپنے قبیلے سمیت اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے نہ فقط یہودیوں کی اس بات کو ناپسند کیا بلکہ آیہ مجیدہ میں اس نا انصافی اور جبر و ستم کو ، دستور ، اسلام کے مقابل میں جاہلیت کا منشور قرار دیا۔
شیرازی،ناصر مکارم،تفسیر نمونہ،مترجم صفدر حسین نجفی،مصباح القرآن ٹرسٹ، لاہور،ج4،ص306
يَظُنُّونَ بِاللَّهِ غَيرَ الحَقِّ ظَنَّ الجَاهِلِيَّةِ
وہ ناحق اللہ پر زمانہ جاہلیت والی بد گمانیاں کر رہے تھے؟
آل عمران:154
جنگ احد کے بعد کمزور ایمان والے لوگوں نے آپس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا، کہیں پیغمبر اسلام  وعدے میں غلط تو نہیں تھے۔
شیرازی،ناصر مکارم،تفسیر نمونہ،مترجم صفدر حسین نجفی،مصباح القرآن ٹرسٹ، لاہور،ج4، ص278
ان کی مذمت میں یہ آیت نازل ہوئی کہ کیا یہ لوگ خدا کے بارے میں زمانہ جاہلیت والا غلط گمان کر رہے ہیں؟ پس اس آیہ شریفہ میں غلط اور ظنی اعتقاد کو بھی جاہلیت کے کاموں سے تعبیر کیا گیا ہے اور اسے جاہل سماج کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ قرار دیا ہے کہ اس معاشرے میں فقط انسان تو کیا اللہ تعالیٰ کے بارے میں بھی طرح طرح کی بد گمانیاں پیدا کرتے تھے۔ جن کی وجہ سے انسانوں میں بد گمانی اور سوء تقسیم جیسی برائیاں جنم لیتی تھیں۔
إِذ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الجَاهِلِيَّةِ
جب کفار نے اپنے دل میں تعصب رکھا اور تعصب بھی جاہلیت کا تھا۔
الفتح:26
چھ ہجری میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب حج و عمرہ کی بجا آوری کے لیے رخت سفر باندھا تو آپ ابھی مکہ نہ پہنچے تھے کہ مشرکین نے حدیبیہ کے مقام پر راستہ روک لیا اور اپنے آبا ء واجداد کے ساتھ جنگ کرنے والوں اور انہیں قتل کرنے والوں کو خانہ خدا میں داخل ہونے سے روک دیا در حالانکہ خانہ کعبہ میں عبادات کی بجا آوری کے لیے کسی کے لیے کوئی روک ٹوک نہ تھی اس آیت کا بغور مطالعہ اور مشاہدہ کیا جائے تو یہاں دو قسم کی تہذ یہیں سامنے آتی ہیں ایک جاہلیت کی تہذیب جس کی بنیاد ضد و ہٹ دھرمی اور شدید تعصب پر ہے جبکہ دوسری طرف سے اسلامی تمدن کا پتہ چلتا ہے جو وقار، سکون اور اطمئنان پر مشتمل ہے ۔
وَقَرنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجنَ تَبَرُجَ الجَاهِلِيَّةِ الأَولَى
اور اپنے گھروں میں جم کر بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کی طرح اپنے آپ کو نمایاں کرتی نہ پھرو۔
الاحزاب:33
اس آیہ مجیدہ میں قدیم جاہلیت سے کیا مراد ہے ؟ اس کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف رائے موجود ہے مگر مشہور و معروف قول یہی ہے کہ اسلام سے پہلے والے زمانے کو ہی قدیم جاہلیت کہا جاتا ہے۔
شیرازی،ناصر مکارم،تفسیر نمونہ،مترجم صفدر حسین نجفی،مصباح القرآن ٹرسٹ، لاہور ،ج9،ص635
قابل غور نکتہ یہ ہے کہ قرآن نے عورت کی حیثیت کو کس لطیف پیرائے میں بیان کیا ہے کہ خود کو قبل از اسلام کی طرح نمایاں نہ کریں بلکہ خود کو لوگوں کی نگاہوں سے چھپا کر رکھیں۔ یعنی اس جاہل معاشرے میں عورتوں میں عام رواج تھا کہ وہ پردہ نہیں کر تیں تھیں بلکہ کھلے عام بازاروں اور دوسری جگہوں پر مردوں کے ساتھ مل کر کام کرتی تھیں جبکہ اسلام نے عورت کو عزت دی اور اس کی حد تک عزت کو حرام قرار دیا۔
اسلامی معاشرہ اور اس کی خصوصیات:
بعثت کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس معاشرے کا سنگ بنیاد توحید پر رکھا اور تئیس سال کے قلیل عرصے میں اس کو اوج کمال تک لے گئے وہ اسلامی معاشرہ کہلاتا ہے۔ اسلام سے پہلے معاشرے کی حالت انتہائی دگرگوں تھی اور لوگوں میں جہاں چند ایک خوبیاں پائی جاتی تھیں وہاں برائیوں کا پھیلاؤ عام تھا۔ لوگ لوٹ مار ، بے رحمی ، ناحق مال کھانے، بد امنی ، خوف اور اس طرح کے کئی ایک سماجی مسائل سے دوچار تھے مگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی بنیاد امن و آشتی ، بھائی چارگی اور پیار ومحبت پر رکھی۔ اسلامی معاشرے کی خصوصیات آیہ مجیدہ میں کچھ یوں بیان ہوئی ہیں۔
وَ المُؤمِنُونَ وَالمُؤمِنتُ بَعضُهُم أَولِيَاءُ بَعضٍ يَأمُرُونَ بِالمَعرُوفِ وَيَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصلوة و يُؤتُونَ الزَّکٰوةَ وَيُطِيعُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور مومن مرد اور مومنہ عور تیں ایک دوسرے کے بہی خواہ ہیں، وہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا، بےشک اللہ بڑا غالب آنے والا ، حکمت والا ہے۔
التوبہ:71
اس آیہ مجیدہ میں امت کااساسی نظریہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک امت اسلامی کی تمام اکائیاں ایک دوسرے کی خیر خواہ ہوتی ہیں وہ ہمیشہ دوسروں کا بھلا سوچتے ہیں اور وہ اچھی باتوں کی نصیحت ترک نہیں کرتے اور نماز کو قائم کرتے ہیں قابل غور بات یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے اقامہ نماز کا ذکر کیا گیا ہے نماز پڑھنے یا ادا کرنے کا ذکر نہیں ہے کیونکہ نماز ادا کرنا انسان کی انفرادی ذمہ داری ہے جبکہ اقامہ نماز انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی اور معاشرتی ذمہ داری ہے کیونکہ قرآن میں مختلف جگہوں پرجہاں لفظ اقامہ اپنے مشتقات اقیموا يا يقيموا وغیرہ کے ساتھ ذکر ہوا ہے وہاں معاشرتی ذمہ داریاں مراد ہیں جیسےاقيموا الوزن يا اقيموا الدین  ہے۔
ناپ تول پورا کرنا اور انصاف کے ساتھ تولنا یا دین کو قائم کرنا یعنی دینی احکام کو معاشرے میں لاگو کر نا خواہ وہ سیاسی ہوں یا عبادتی و اخلاقی ہوں اسی طرح عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس کا تعلق معاشرے اور اجتماع سے ہے تاکہ لوگوں کے درمیان طبقاتی فرق پیدا نہ ہو اور تمام لوگ ایک دوسرے کو عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھیں نیز خداوند عالم کے دیے ہوئے دستور کے مطابق زندگی بسر کریں۔
پس خداوند عالم نے جو دستور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرمایا اسے معاشرے میں عملی طور پر نافذ کرنے اور ان اصولوں پر سماج کو استوار کرنے کے نتیجے میں جو معاشر  تشکیل پاتا ہے وہ اسلامی معاشرہ کہلاتا ہے جس میں بھائی چارے کا درس ، مزاج میں عاجزی و انکساری ، مرد و  زن کے حقوق ، اخلاقی اقدار کا پاس، عدل و انصاف کا قیام لوگوں کے امن و امان کا مسئلہ ، افراد کی تعلیم وتربیت، ان کے اقتصادی مشکلات کا حل، اور جاہل رسومات کا خاتمہ شامل ہوتا ہے یہ اسلامی معاشرہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں کامل شرائط اور خصوصیات کے ساتھ اپنے اوج کمال تک پہنچا۔ اور آپ نے کسی طرح لوگوں میں اسلامی تعلیمات کا نفاذ کیا ان تمام وجوہات اور شرائط و خصوصیات کو اس مختصر مقالے میں بیان نہیں کیا جا سکتا لہذا ان میں سے چند ایک ایسے امتیازات کو سپرد قلم کریں گے جن سے جاہلیت میں ڈوبے سماج نے روشن فکر کی طرف سفر کیا۔
اخلاقی اقدار واصول:
اخلاق حسنہ کی اہمیت کا اندازہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان مبارک سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔
انما بُعِثتُ لِاُتَمِّمَ مَكارِمَ الاَخلاقِ
میں اخلاق حمیدہ کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔
محدث نوری،میرزا حسین،مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث،طبع ثالث ، بیروت ،ج11 ، ص 187
انسان چونکہ مدنی الطبع ہے لہذا وہ اپنے نظام حیات کو دوسروں کے تعاون سے سلجھاتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے لوگوں کے ساتھ میل جول اور گفتگو کا محتاج ہوتا ہے۔ پس یہ مراسم اور طرز گفتار ہی معاشرتی اصولوں کو جنم دیتی ہیں اگر انسان تعلقات کو بہتر طریقے سے نبھائے اور گفتگو میں شائستگی کا انداز اپنا لے تو اس کے نتیجے میں اخلاق کی اعلیٰ اقدار معاشرے میں عام ہوں گی لیکن اس کے برعکس اگر کردار و گفتار میں دوسروں کی عزت و ناموس، فائدہ اور دنقصان وغیرہ کا لحاظ نہ رکھا جائے تو معاشرہ آہستہ آہستہ ان برائیوں کی دلدل میں پھنس جاتا ہے جس کی وجہ سے تمام تر قباحتیں سماج میں سرایت کر جاتی ہیں۔ اور بالآخر معاشرہ انہی برے اصولوں پر استوار ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ اسلام سے قبل اگر چہ لوگوں میں بعض اچھی صفات بھی موجود تھیں مگر زیادہ تر افراد کو حلال و حرام ، اچھے برے، نیک و بد کا کوئی شعور نہیں تھا بلکہ وہ برائیوں پر سختی سے کاربند تھے جیسے قرآن مجید میں بھی ارشاد ہوا ہے:
اَلاَعرَابُ اَشَدُّ کُفرًا وَّ نِفَاقًا
یہ بادیہ نشین بد و کفر و نفاق میں انتہائی سخت ہیں ۔
التوبہ:97
اگر چہ آیہ مجیدہ غزوہ تبوک کے موقع پر نازل ہوئی ہے کہ یہ بادیہ نشین اپنے کفر و نفاق کی باتوں میں سخت ہیں لیکن یہاں اعراب سے مراد یہ نہیں ہے کہ آپ شہروں اور آبادیوں کے مقابل میں دیہات میں رہنا ہی ناپسندیدہ قرار دیا ہو اہے ایسا نہیں ہے بلکہ اعراب سےمراد وہ تربیت ہے جو اسلام کے مقابل میں ہو ۔
شیرازی، ناصر مکارم،الامثل فی تفسیر کتاب اللہ المنزل،موسسہ الاعلمی للمطبوعات،ج10،ص296
جیسا کہ امام علی علیہ السلام کے اصحاب نے جب اسلام کے اصولوں اور اقدار کو ترک کیا اور اسلامی تعلیمات کے خلاف عمل بجالا نا شروع کیا تو آپ نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے خطبہ قاصعہ میں ارشاد فرمایا:
واعلموا انكم صرتم بعد الهجرة اعرابا
یہ جانے رہو کہ تم ( جہالت و نادانی) کو خیر آباد کہہ دینے کے بعد پھر صحرائی بد و بن گئے ہو۔
رضی، سید محمد،نہج البلاغہ،مترجم مفتی جعفر حسین،مرکز افکار اسلامی، خطبہ:190
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں میں شعور اور تربیت کی اہمیت کو اجاگر کیا آپ نے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اعلی تعلیمات کو معاشرے میں کردار کے ذریعے رائج فرمایا حتی کہ وہ جاہل لوگ جو کسی کے مال کا لحاظ نہ کرتے ہمیشہ امانت میں خیانت کرتے اکثر عہد و پیمان کی پاسداری سے پھر جاتے اس معاشرے میں آپ کو صادق اور امین کے لقب سے یاد  کیا جانے لگا یہ آپ کی عملی سیرت کا اثر ہی تھا کہ لوگوں میں عہد کا پاس، امانتداری کا رواج عام ہونے لگا اور ان کی مخالفت کرنے والوں کی سرزنش کی جاتی یہ وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار اور اصول تھے جن کی فصلوں کی آپ نے کردار کے ذریعے معاشرے میں آبیاری کی یہی وہ اخلاق ہی تھے جن کی تعلیم آپ نے بارگاہ خداوندی سے حاصل کی تھی۔ جیسا کہ امام علی علیہ السلام اس حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرماتے ہیں:
و لقد قرن الله به مِن لَّدُن أن كَانَ فَطِيمًا أَعظَمَ مَلَكٍ مِن مُلئِكَتِهِ يَسلُكَ بِهِ طَرِيقَ المَكَارِمِ، وَ مَحَاسِنَ أَخلَاقِ العَالَمِ، لَيلَهُ وَ نَهَارَهُ
اللہ نے آپ کی دودھ بڑھائی کے وقت ہی سے فرشتوں میں سے ایک عظیم المرتبت ملک (روح القدس) کو آپ کے ساتھ لگا دیا تھا جو انہیں شب و روز بزرگ خصلتوں اور پاکیزہ سیرتوں کی راہ پر لے چلتا تھا۔
رضی، سید محمد،نہج البلاغہ،مترجم مفتی جعفر حسین،مرکز افکار اسلامی، خطبہ:190
عدل و انصاف کا قیام:
محمد بن مسلم نے امام محمد باقر علیہ السلام سے حضرت قائم کے بارے میں استفسار کیا۔
امام نے فرمایا: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے مطابق چلیں گے یہاں تک کہ شرق و غرب میں اسلام چھاجائے۔ راوی عرض کرتا ہے کہ مولا!  پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی روش اور سیرت کیا تھی ؟
امام نے فرمایا:
ابطل ما كان في الجاهلية واستقبل الناس بالعدل
آپ نے جاہلیت کے رسوم ورواج کو ملیا میٹ کر دیا اور لوگوں میں نظام عدل کا اجراء کیا۔
مجلسی،محمد باقر،بحار الانوار ،دار احیاء التراث العربی،طبع ثالث، بیروت،،ج52،ص381،حدیث192
اسلامی احکام سے قطع نظر بعض چیزوں کی ضرورت واہمیت کی طرف عقل انسانی اور ایک متمدن سماج راہنمائی کرتا ہے، ان میں سے ایک عدل و انصاف ہے۔ عدل و انصاف کے متعلق اگر شریعت کوئی حکم بیان نہ بھی کرے تب بھی معاشرے میں توازن بر قرار رکھنے کے لیے یہ ناگزیر ہے انسان کسی بھی محلے یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو اس کی اہمیت کا انکار نہیں کر سکتا مگر مختلف معاشروں میں اگر کہیں ظلم و ستم اور نا انصافی نظر بھی آئے تو اس کے پس منظر میں شخصی مفادات اور قومی و ملی تعصبات کار فرما ہوتے ہیں۔ ایک ایسا سماج جو جاہلیت میں سر تا پا ڈوبا ہوا تھا اس میں عدل و انصاف کا کہیں نام و نشان نہیں تھا جس میں کمز ور قبیلوں سے تو قصاص لیا جاتا جبکہ بڑے اور طاقتور افراد قصاص کی بجائے دیت ادا کرتے تھے۔ معاشرے میں طبقاتی نظام رائج تھا مستضعفین و اشرافیہ کے درمیان واضح تفاوت دیکھنے کو ملتا بڑے قبائل کی عورتوں کو حقوق اور مراعات حاصل تھے ، وہ پردہ کر سکتی تھیں اور دیگر کاموں میں مردوں کے ساتھ شریک کار نظر  آتیں تھیں۔ لیکن چھوٹے قبیلے کی عورتوں کو اس قسم کے کوئی حقوق حاصل نہ تھے وہ ہمیشہ مردوں کے حکم کی امیر رہتیں اور ظلم و ستم سہتی رہتیں لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نظام کو یکسر بدل دیا آپ نے جہالت کے اس دور میں عدل و انصاف سے فیصلے صادر فرمائے۔
ابن ابی الدنیا بیان کرتا ہے کہ ہم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے جبکہ آپ اپنے صحابہ سے کو گفتگو فرما رہے تھے اسی اثناء میں ایک صحابی کا فرزند آیا اور وہ صحابہ کی جماعت کو چیرتا ہوا اپنے باپ کے پاس پہنچ گیا باپ نے اس کے سر کو چوما اور اپنی دائیں ران پر بٹھا دیا۔ راوی کہتا ہے کہ ابھی کچھ دیر نہ گزری تھی کہ اس صحابی کا ایک اور بیٹا آیا اور وہ بھی پہلے کی طرح صحابہ کی جماعت سے ہوتا ہوا اپنے باپ کے پاس پہنچ گیا تو اس نے دوسرے بیٹا کا سر چوما اور زمین پر بٹھا دیا جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ منظر دیکھا تو فرمایا:
فهلا على فخذك الأخرى؟ فحملها على فخذك الأخرى
تمہاری دوسری ران کہاں گئی ہے؟ تو اس نے اپنے بیٹے کو اٹھا کر اپنی دوسری ران پر بٹھا لیا۔
فقال صلى الله علیه وآله وسلم الآن عدلت
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو نے اب عدل کیا ہے۔
ری شہری، محمد محمدی،سیرۃ خاتم النبیینؐ،دار الحدیث لطباعۃ والنشر،طبع اولیٰ ،بیروت،ج1،ص393
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عدل کی اسی روش کی وجہ سے فقط مسلم نہیں بلکہ غیر مسلم افراد بھی اپنے فیصلوں میں آپ کو حکم اور قاضی تسلیم کرتے تھے۔ پس اس طرح آپ نے معاشرے میں ایک عدالتی نظام کو بخوبی پھیلایا جس کی مثالیں طول تاریخ میں سیرت نگاروں اور مورخین نے نقل کی ہیں۔ اصحاب بدر میں پرچم برداری کا معاملہ ہو، جنگی غنائم کی تقسیم ہو یا دوسرے معاشرتی فیصلے ہوں آپ نے ہمیشہ عدل و انصاف پر مبنی فیصلے کیے۔
امن و سلامتی:
دین مبین اسلام امن و آشتی اور  پیار و محبت کا درس دیتا ہے کسی بھی قوم و ملک کی فلاح و بہبود کے لیے امن عامہ کا قیام ناگزیر ہے۔ کوئی بھی سلطنت امن و امان کے بغیر ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتی کیونکہ جس معاشرے میں فتنہ و فساد ہو گا اور لوگ ہر وقت اپنی جان و مال کے معاملے میں بے چین و پریشان حال رہتے ہوں گے ان کا زیادہ تر وقت انہی مسائل کا راہ حل تلاش کرنے میں ضائع ہو تا رہے گا۔ کچھ نیا سو چنے اور اپنی تخلیقی و خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا موقع ہی فراہم نہیں ہو سکے گا اور فلاحی معاشرہ نہیں بن پائے گا یہی مسئلہ اسلام سےپہلےکے لوگوں کا تھا ان کی حالت انتہائی زار اور نادیدہ تھی معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے ہوتے نیام سے تلواریں باہر آجاتیں حتی کہ سالہا سال میدان حرب و ضرب گرم رہتا قتل و غارت گری عروج پر ہوتی اپنی جان کی حفاظت کسی مہم جوئی سے کم نہ تھی۔ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا نے اس جاہل معاشرے کی حالت کو خطبہ فدک میں ان الفاظ میں بیان فرمایا:
مذقة الشارب ونهزة الطامع وقبسة العجالن و موطئ القدام
تم  اپنے دشمنوں کے مقابلے میں پینے والے کے لیے گھونٹ بھر پانی، طمع ولالچ والے (استعمار گروں کے لیے) ایک تر نوالہ جلد بجھ جانے والی چنگاری اور قدموں کے نیچے پامال ہونے والی خس و خاشاک تھے ( یعنی اس سے زیادہ تمہاری کوئی حیثیت نہ تھی)۔
لجنۃ التالیف،اعلام الھدایہ،مرکز طاعۃ والنشر مجمع العالمی لاھل البیت، طبع ثانی ،قم،ج3،ص139-140
اسلام سے قبل دو طرح کے لوگوں نے وہاں کا امن و سکون تاراج کیا ہوا تھا ایک وہ لوگ جو دشمن اور متعصب تھے یعنی جن سے ہمیشہ خوف خطر رہتا کہ وہ کہیں بھی مل جائیں تو انہیں جانی و مالی نقصان پہنچائے بغیر نہیں رہیں گے لہذا ہر وقت چوکنا اور ہوشیار رہنا پڑتا تھا کبھی بنو خزاعہ و کنانہ بنو جرہم کو مکہ سے نکال رہے ہوتے تھے تو کبھی حرب فجار عروج پر ہوتی اس طرح کی دشمنیاں اور لڑائیاں مشہور تھیں۔
بلگرامی،سید اولاد حیدر،اسوۃ الرسولؐ،مصباح القرآن، ٹرسٹ ، طبع اول،لاہور،ج1،ص584
دوسرے وہ لوگ تھے جن کا تعلق بڑے قبائل سے تھا آج کی اصطلاح میں انہیں معاشرے کا بیورو کریٹ طبقہ تصورکیا جاتا تھا جو چھوٹے اور کمزور قبائل کو دبا کر رکھتے تھے۔
مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سب سے پہلے امن عامہ کے مسئلے کو حل کیا اور سالہا سال سے عرب قبائل کے مابین لڑی جانے والی جنگ کا خاتمہ فرمایا اور حلف الفضول نامی معاہدہ کیا۔ اس کے علاوہ بھی اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مغازی اور سیرت پر طائرانہ نگاہ کی جائے تو آپ کی سیرت میں میثاقات کی کوششیں اجاگر ہو جاتی ہیں۔ وہ چاہے صلح حدیبیہ ہو یا یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ معاہد و جات ہوں ان کے ذریعے آپ نے معاشرے کی قتل و غارت اور بے سکونی سے آلودہ فضا کو امن سے پر کر دیا اس پہ مستزاد فتح مکہ کی مثال ہے جب مکہ والے مکمل مایوس ہو چکے تھے اور اپنی موت کو قریب سے دیکھ رہے تھے مسلمان آپ کے حکم کے منتظر تھے کہ پھر خونریزی کا وہ بازار گرم کریں کہ جس کی نظیر تاریخ کے اوراق میں بطور عبرت رقم ہو جائے مگر اس موقع پر بھی ایک تین رکنی ایجنڈا پیش کر کے آپ نے عام معافی کا اعلان کیا۔ اور وہ عرب جن کی حالت بی بی فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا نے اس طرح بیان فرمائی:
تخافون ان يتخطفكم الناس من حولكم
تمہیں ہمیشہ یہ کھنکالگارہتا کہ کہیں آس پاس کے لوگ تمہیں اچک نہ لیں۔
طبری، ابی جعفر محمد بن جریر،دلائل الامامہ،موسسۃ الاعلمی للمطبوعات،طبع ثانی،بیروت،ص37
جو لوگ ایک دوسرے سے اتنے خوفزدہ تھے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اعلی تعلیمات ، تربیت اور سیرت کے ذریعے بھائی بھائی بنا دیا حتی کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے والے اور جان سے مارنے والے ایک دوسرے کو اپنی جائیدادیں وقف کرنے لگے وہ اپنی زمینوں میں رہنے اور مکانات بنانے کی اجازت دیتے ہوئے امانتوں کے تحفظ کے امین بن گئے۔
عورت کا مقام و مرتبہ:
اسلام سے قبل عرب قبائل میں ایک اہم مسئلہ عورت ذات کا تھا۔ اگر چہ بڑے قبائل کی عورتوں کو کچھ حقوق و فرائض دیے جاتے انہیں پر دہ کرنے کی اجازت ہوتی اور اپنے معاملات میں کسی حد تک آزادی تھی مگر عمومی طور پر معاشرے میں صورت بد حال تھی اس معاشرے کا سلوک فرعون کے برعکس تھا جو بنی اسرائیل کے بیٹوں کو ذبح کرتا اور بچیوں کو زندہ چھوڑ دیتا۔ جبکہ یہاں لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا، بھوک کے خوف سے انہیں قتل کرنا معمولی بات تھی۔ بیواؤں کو انتہائی خستہ حال زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا۔ نیا لباس پہننے کی اجازت نہ ہوتی وہ ساری زندگی بوسیدہ اور پھٹے پرانے ملبوسات میں دور کسی کونے میں گھٹ کر زندگی میں ہی دفن ہو جاتی تھیں۔ بعض بیواؤں کو شوہر کے ساتھ زندہ دفن کر دیا جاتا تھا، جبکہ ہندو مذہب میں تو "ستی "کی رسم مشہور تھی ۔
ازہری،پیر محمد کرم شاہ،ضیاء النبیؐ،ضیاء القرآن ٹرسٹ،لاہور،ج1،ص188
جس میں اس بیوہ کو قدر منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا جو خود کو شوہر کے غم میں زندہ جلا دیتی جبکہ اس کے بر خلاف زندہ رہنے والی عورت کو انسانی معیارات سے گرا ہوا اور معاشرے کی نااہل اور منحوس عورت تصور کیا جاتا اور اسے گوناگوں محرومیوں کا سامنا کرنا پڑتا، لونڈیاں بنانا، خرید و فروخت کرنا، غرض ہر طرح کے ظلم وجور کو عورت کے لیے روار کھا جاتا تھا۔ جیسے ارشاد باری تعالی ہے:
وَ إِذَا المَو عَدَةُ سُئِلَت بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَت
اور جب زندہ در گور لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ میں ماری گئی ۔
التکویر:8ـ9
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس معاشرے میں عورت کی عزت افزائی کی اور انہیں نہ فقط بیٹیوں کے مساوی درجہ دیا بلکہ بیٹی کو بہترین اولاد قرار دیا۔
قَالَ رَسُولُ الله صلى الله علیہ وآلہ وسلم نِعمَ الوَلَدُ البَنَاتُ
بہترین اولاد بیٹیاں ہیں۔
کلینی،محمد بن یعقوب،الکافی،دار الاضواء لطباعۃ والنشر،طبع اول،بیروت،ج6،ص5
اس سماج میں آپ نے عورت کو عزت و وقعت دی ان کے لیے باقاعدہ حقوق و فرائض کی عملی تعلیم دی حتی کہ جن لوگوں کو بیٹی کی پیدائش کا مژدہ سنایا جاتا تو ان کے چہرے غم و غصے سے سیاہ ہو جاتے تھے ان کے سامنے بیٹی کی تعظیم کی آپ اس کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جاتے ان کا بوسہ لیتے کھڑے ہو کر استقبال کرتے اور محفل میں اسے اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ خاتون کی زندگی کے چار اہم ادوار بیٹی، بہن، بیوی اور ماں ہیں۔ آپ نے ہر ایک دور میں اس کی عظمت اور اہمیت کو اجاگر کیا۔ بحیثت بیٹی اسے باعث رحمت و شرف، بطور بہن پیار و محبت اور غمگسار، بیوی ہونے کے ناطے بہترین ساتھی اور ہمنشین قرار دیا اس پر مستزاد یہ کہ بحیثیت ماں اسے عطوفت و رحمت ہونے کے ساتھ والدہ کی خدمت کرنے پر جنت کو واجب قرار دیا۔ آپ کی حیات طیبہ میں اس طرح کے نمونے بہت زیادہ ہیں جیسے آپ نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی وفات کے سال کو غم کا سال قرار دیا حضرت فاطمہ بنت اسد کو اپنی عبا کا کفن دیا اور عزت و تکریم سے ان کی تدفین کی۔
یوں اسلامی معاشرے کی شروعات ہوئیں اور عورت نے اپنا کھویا ہو اوقار پایا۔ اسے وراثت میں حصہ دار بنایا گیا عورتوں کو اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کا حق دیا۔ ان کے ساتھ عدل و انصاف کو یقینی بنایا گیا انہیں فکری آزادی دی گئی اور بری نگاہوں سے بچانے کے لیے پردے کا بندوبست کیا گیا یہ عزت و تکریم اسلامی معاشرے کی مرہون منت تھی۔ حتی کہ عورت اور مرد کے عمل کو برابر قرار دیا:
من عَمِلَ صَالِحًا مِن ذكر أو أنثى وهوَ مُؤمِنٌ فَلَنُحيِيَنَّهُ حَيُوةً طَيِّبَةٌ
جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشر طیکہ دو مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ  زند گی ضرور عطا کریں گے۔
النحل:97
اقتصادی توازن
سماج میں اقتصاد کی اہمیت ریڑھ کی ہڈی کی ہوتی ہے۔ کوئی بھی ملک و سلطنت معاشی حوالے سے جس قدر مضبوط ہو گی اس کے لوگ اتنے ہی خوشحال ہوں گے۔ مگر بد قسمتی سے دو طرح کے طبقات نے دور حاضر کی طرح اسلام سے قبل بھی معاشی نظام میں بگاڑ پیدا کیا ہوا تھا۔
پہلی قسم کا وہ گروہ تھا جو لوگوں کا قانونی طریقے سے معاشی استحصال کرتا غریب لوگوں کو بھاری اقساط پر سودی قرضے دیے جاتے پھر ان پر دو گنا سود وصول کیا جاتا اور یوں انہیں بدترین معاشی نظام کے دلدل میں پھنسایا جاتا جیسا کہ قرآن کریم میں بھی اس بارے میں ارشاد باری تعالی ہے:
اِنَّمَا البَیعُ مِثلُ الرِّبٰوا
تجارت بھی تو سود کی طرح ہے۔
البقرہ:275
آیہ مجیدہ میں کفار کے قول کی جو حکایت کی گئی ہے اس سے واضح اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سود کو کس قدر بہترین ذریعہ معاش تصور کرتےتھے کہ جب ان کو سود سے منع کیا گیا تو جواب میں کہا تجارت بھی تو سود کی طرح ہے اس طرح نہیں کہا گیا کہ سود، تجارت کی مانندہے جبکہ تجارت میں اصل مقصد نفع کا حصول ہے پس ہمیں وہ سود میں بھی حاصل ہو جاتا ہے بلکہ اس کے ہر عکس جواب دیا کہ تجارت بھی سود کی مانند ہے یعنی جیسے سود میں منفعت ہوتی ہے اس طرح تجارت میں منفعت ہوتی ہے پس اگر سود جائز نہ ہو تو تجارت کو بھی جائز نہیں ہو نا چا ہے۔
دو سرا گروہ وہ تھا جو لوگوں کو دھو کہ بازی دیتے اور ملاوٹ ، ناپ تول میں کمی کر کے لوگوں کے اموال میں کمی بیشی کرتے اور زمین میں فساد کا ارتکاب کرتے اس کے بارے میں بھی قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے:
و زنوا بِالقِسطَاسِ المُستَقِيمِ وَ لا تَبخَسُوا النَّاسَ أَشيَاءَهم وَ لا تَعثَوا فِي الأَرضِ مُفسِدِينَ
اور سیدھی ترازو سے تولا کرو۔ اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے نہ دیا کرو اور زمین میں فساد پھیلاتے مت پھر و۔
الشعراء:182-183
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سود اور دھوکے کے مقابلے میں انفاق ، صدقہ ، ایثار، تجارت، اور قرض حسنہ، سخاوت اور فیاضی کو فروغ دیا۔ آپ نے حضرت خدیجہ کا مال مضاربہ پہ لے کر تجارت کی اور حلال طریقے سے خوب نفع کمایا جس سے حضرت خدیجہ کا غلام جس کا نام میسر ہ تھا، متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور اس نے واپسی پہ اپنی مالکن کو آپ کے فیوض و برکات سے آگاہ کیا اسی طرح آپ مدینہ کے فقراء و مساکین کے لیے ایثار کرتے۔ اصحاب صفہ کی ضروریات زندگی کا بندوبست فرماتے، جنگی غنائم سے باقاعدہ بیواؤں اور یتیموں کو عنایت فرماتے۔ آپ مہاجرین کے مدینہ میں گھر تعمیر کرواتے، انہیں رہائش کے لیے مکانات ، کھانے کے لیے خوراک اور پینے کے لیے لباس مہیا کرتے۔اور  کھانے کے لیے زمینیں فراہم کی گئیں تاکہ ان میں کاشت کاری کر کے اپناخرچ اخراجات نکال سکیں حتی کہ معاشرے کی حالت اس قدر بہتر ہو گئی کہ اب نہ فقط قریش کی طرف سے معاشی پابندیوں کی صورت میں فرسودگی سے بچنے کے اسباب پیدا ہو گئے بلکہ لوگ سکون و اطمئنان سے اپنی ضروریات کو پورا کرتے حتی کہ آپ نے سود جیسی لعنت کا خاتمے کرتےہوئے فرمایا:
اَلَا كُلَّ رِبا مِن رِبا الجاهلية موضوع و اول ربا اضعه ربا العباس ابن عبد المطلب
آگاو رہو کہ زمانہ جاہلیت کے لوگوں کے تمام سودی مطالبات چھوڑ دیے جائیں اور سب سے پہلے میں عباس بن عبد المطلب کے سودی مطالبات ترک کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔
شیرازی،ناصر مکارم،تفسیر نمونہ،مترجم صفدر حسین نجفی،مصباح القرآن ٹرسٹ، لاہور،ج2،ص216
جاہل رسومات کا خاتمہ :
رسوم و رواج لوگوں کے رہن سہن، بود و باش اور طرز زندگی کا پتا دیتے ہیں انہی سے تہذیب و تمدن کا علم ہوتا ہے۔ معاشرے میں بہتری اور خرابی کا انحصار بھی انہیں پہ ہوتا ہے۔ دور جاہلیت میں جہاں عربوں میں اچھی رسمیں رائج تھیں جیسے مہمان نوازی، شجاعت د ولیری اور سخاوت و فیاضی، اس کے ساتھ ساتھ بری رسمیں اس قدر زیادہ تھیں کہ جنہوں نے معاشرے کی حالت دگرگوں کر دی تھی عوام کا جینا دو بھر کر دیا تھا ان رواجوں کی بنیادیں مختلف تعصبات پر مبنی اور غیر منطقی افکار پر استوار تھیں۔
جیسے عرب میں ایک حمس کی رسم مشہور تھی اس کے مطابق مکہ سے باہر کا رہائشی شخص جب مکہ میں خانہ خدا کا طواف وغیر ہ اور مراسم عبادت بجالانا چاہتا تو اس کے لیے لازم تھا کہ اپنا لایا ہو الباس اتار دے اور قریش سے لباس وغیرہ خریدے اور اس کے ساتھ اعمال و عبادات بجالائے اور اگر کوئی اپنے لباس میں یہ کام کرنا چاہتا تو اسے دوبارہ پہننے کی اجازت نہ ہوتی اسے "حمس” کہا جاتا تھا۔
ابن ہشام،ابو محمدعبد الملک،السیرۃ النبویۃ،دار احیاء التراث العربی، طبع ثانی، بیروت،ج1،ص234
ایسی جاہلیت بھری رسم قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے :
مَا جَعَلَ اللَّهُ مِن بَحِيرَةٍ وَ لَا سَائِبَةٍ وَ لَا وَصِيِّلَةٍ وَ لَا حَامِ
اللہ نے نہ کوئی بحیرہ بنایا ہے اور نہ مسائیہ اور نہ وصیلہ اور نہ حام۔
المائدہ:103
آیہ مجیدہ میں عرب جاہلیت کی بعض بدعات اور ان کے خود ساختہ احکام کی بات بھی بیان ہوئی ہے کہ وہ لوگ بعض جانوروں کو نشان لگا کر چھوڑتے تھے ، پھر ان سے خدمات لینا اور سوار ہونا وغیرہ حرام سمجھتے تھے اور ان جانوروں کے مختلف نام سائبہ ، بحیرہ وغیرہ رکھتے تھے۔ پھر ان کا گوشت ، دودھ ، سواری اور ان سے انتفاع حرام قرار دیتے تھے۔
مگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ تمام رسوم و رواج جن کی بنیاد سراسر جاہلیت پر استوار تھی ان کا قلع قمع کر دیا آپ نے احکام الٰہی کی تعلیم دی خدا کی حلال کردہ چیزوں کو حلال کیا اور خداوند عالم پر افتراء پردازی کی حوصلہ شکنی کی کبھی بتوں کے سامنے گردن نہیں جھکائی نہ رسم حمس و سائبہ کو باقی رکھا بلکہ جب اصلاحات کرنا شروع کیں تو کعبے کا عریاں حالت میں طواف کرنے سے منع فرمایا، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا اجراء کیا کفار و مشرکین اپنے مفاد کی خاطر حرمت والے مہینوں میں جنگ کرتے اور اس کو کوئی اور مہینہ فرض کرتے آپ نے حرمت والے مہینوں کے احترام اور ان میں جنگ بندی پر ہر صورت میں کار بند رہنے کا حکم دیا۔ غریبوں اور کمزور لوگوں کا استحصال کرنے سے روکا اور غلاموں اور کنیزوں کی خرید و فروخت کو بد ترین تجارت قرار دیا۔
نتیجہ:
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی ذات گرامی نے کہ جن کی تربیت کا اہتمام خود خداوند عالم نے کیا تھا، آپ تمام تر الٰہی اخلاق کے زیور سے آراستہ تھے۔ آپ اللہ تعالی کے ہاں جن اخلاقی اصولوں اور اقدار کی تربیت لے کر آئے تھے انہیں معاشرے میں لاگو کرنا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مکمل سماج کا ماحول بدل گیا یہاں تک کہ بدترین حالت میں ڈوبا تاریک معاشرہ روشن منزل کی جانب گامزن ہوا۔ اور جہالتوں کے دھندل  چھٹنے لگے اور علم و آگہی کا نور آیا۔ نتیجہ آپ کے دور حکومت میں ریاست مدینہ ایک ایسا نمونہ پیش کرنے لگی جو آج تک ایک مثالی اسلامی معاشرے کے طور پر متعارف اور معروف ہے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button