سیرتسیرت امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ

خلافتِ امیرالمومنینؑ سے انحراف کے علل و اسباب

مقالہ نگار: بشیر جعفری

چکیدہ
خلافت یعنی پیغمبر اکرم ﷺ کی جانشینی ہے۔ شیعوں کے ہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خلفاء آپ ﷺ کے اہل بیت میں سے بارہ معصوم امام علیہ السلام ہیں اور پیغمبر اکرمؐ اور ان میں فرق صرف اتنا ہے کہ ان پر وحی نازل نہیں ہوتی ہے۔ آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد امام علی علیہ السلام اور امام حسن مجتبی علیہ السلام کے دو مختصر دور ِحکومت کے علاوہ خلافت عملی طور پر غیرمعصومین کے ہاتھ رہی ہے اور تقریباً تیرہ صدیوں تک مختلف خاندان اور اشخاص نے پورے جہان اسلام میں خود کو پیغمبر اکرم ؐکا خلیفہ بنا کر پیش کیا ہے۔خلافت ایک دینی اور سیاسی اصطلاح ہے جس کا معنی سیاست، حکومت اور دینی امور میں پیغمبر اکرم ﷺ کی جانشینی کے ہیں۔خلافتِ امام علی (علیہ السلام) سے انحراف کی وجوہات مختلف تھیں، جن میں سماجی، سیاسی،ذاتی دشمنی، شدت عدل، ریاست طلبی، عیش پرستی اور فرقہ واریت شامل ہیں۔ یہ اختلافات مسلمانوں کی تاریخ میں اہم حادثات میں سے ایک حصہ ہیں۔

مقدمہ
پاک ومنزہ ہے وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں ہماری جان ہےاور وہ پوری کائنات کابھی مالک ہے۔ درود وسلام ہو محمد وآل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جس کو اللہ نے اپنے بندوں میں سے خاص بندوں میں سے چنا۔ وہ اللہ جس نے انسان کو اس کائنات میں اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا اور احسن التقویم قرار پایا۔ یہ وہی انسان ہے جسکی خلقت پر خود اللہ نے فخر کیا۔ چنانچہ قرآن مجید سورہ مومنون میں ارشاد رب العزت ہے۔ فتبارک اللہ احسن الخالقین۔ (سورہ مومنون، ۹۰)۔
پس بابرکت ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین خالق ہے۔یہ جملہ خدا نے اس وقت فرمایا جب انسان کی خلقت کے تمام مراحل گزرکر ایک باشعور انسان کی شکل میں تیار ہوا تو خدا نے فخریہ انداز میں فریایا:وہ اللہ جو بہترین خلق کرنے والا ہے۔
اس خالق کائنات کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہے وہ ذات جو دونوں جہانوں کے مالک ہیں۔ بندہ حقیرکویہ سعادت نصیب ہوئی کہ خلافت امیر المومنین علیہ السلام پر کچھ کلماتِ لکھ سکوں۔ اللہ تعالیٰ نے کل کائنات کو رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ السلام کو اس دنیا میں لانے کی خاطر وجود میں لائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے دین اسلام کو حقیقی معنوں میں لوگوں تک پہنچایا۔ آپ نے اپنے آخری ایام میں اپنے بھائی، آپ کے جانشین، آپ کے وصی امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کو اپنے بعد خلیفہ بلا فصل بنایا لیکن کچھ منافقین کی وجہ سے آپ علیہ السلام کو یہ منصب ملنے سے رکاوٹ بنی اور جب یہ رکاوٹیں دور ہوگئی تو یہی لوگ مولا علی علیہ السلام کی خلافت سے منحرف ہو گئے۔
خلافت کالغوی معنی
نیابت، جانشینی، قائم مقام، خلفیہ کا منصب،اللہ تعالیٰ کی نیابت،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی نیابت ہے۔
خلافت عربی لفظ ہے جسکا معنی جانشین بنانا، اور خلیفہ کا لفظ (جس کی جمع خلفاء اور خلائف ہے) جانشین، وکیل اور قائم‌مقام کے معنی میں ہے۔لفظ خلیفہ، خلفاءو خلائف قرآن میں بھی اسی لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے(لغت اردو app)۔
اصطلاحی تعریف
خلافت ایک دینی اور سیاسی اصطلاح ہے جس کا معنی سیاست، حکومت اور دینی امور میں پیغمبر اکرم ﷺ کی جانشینی ہیں۔
شیعہ تعلیمات میں خلافت سے مراد تمام دنیوی اور اخروی امور میں پیغمبر اکرم ﷺ کی جانشینی ہے۔ شیعوں کے ہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خلفاء آپ ﷺ کے اہل بیت میں سے بارہ معصوم امام علیہ السلام ہیں اور پیغمبر اکرم ؐ اور ان میں فرق صرف اتنا ہے کہ ان پر وحی نازل نہیں ہوتی ہے۔ آنحضرت کی رحلت کے بعد (امام علی علیہ السلام اور امام حسن مجتبی علیہ السلام کے دو مختصر دور حکومت کے علاوہ خلافت عملی طور پر غیر معصومین کے ہاتھ رہی ہے اور تقریباً تیرہ صدیوں تک مختلف خاندان اور اشخاص نے پورے جہان اسلام میں خود کو پیغمبر اکرم ؐکا خلیفہ بنا کر پیش کیا ہے لیکن تاریخ اسلام میں خلافت‌ اس حکومتی ‎ڈھانچے کا نام ہے جس نے پیغمبرﷺ کی رحلت کے بعد اسلامی معاشرے کی باگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں لے لی اور اس منصب کے حامل اشخاص، یعنی خلفاء خود کو صرف حکومتی امور میں پیغمبر اکرم کا جانشین قرار دیتے تھے۔(ابن منظور،لسان العرب، «خَلَفَ» کے ذیل میں زبیدی، ج 23، ص 263- 265)
خلافتِ امام علی (علیہ السلام) سے انحراف کی وجوہات مختلف تھیں، جن میں سماجی، سیاسی،ذاتی دشمنی، شدت عدل، ریاست طلبی، عیش پرستی اور فرقہ واریت شامل ہیں۔ یہ اختلافات مسلمانوں کی تاریخ میں اہم حادثات میں سے ہیں۔
امیر المومنینؑ اور خلافت
وفاتِ پیغمبر ﷺ حضرت علی ؑ کیلئے مصائب کا پہاڑ تھا۔ یہ حضرت علی ؑکا ایمان اور آپؑ کا صبر ہی تھا کہ آپؑ نے اتنے بڑے صدمے کو برداشت کیا۔ اور اگر آپؑ کے پاس صبر کی دولت نہ ہوتی تو آپؑ دنیا میں زندہ ہی نہیں رہتے۔ اسی صدمے کی وجہ سے آپؑ کی ریش مبارک جلدسفید ہوگئی تھی۔
رسول خدا ؐ ابھی دفن بھی نہیں ہوئے تھے کہ لوگ سقیفہ میں جمع ہوئے جہاں سعد بن عبادہ نے اپنے آپ کو خلافت رسول کیلئے پیش کیا۔ موصوف قبیلہ خزرج کے سردار تھے اور اور ان کے مقابلے میں اسید بن حصین یابشیر بن سعدہ نے بھی اپنے آپ کو خلافت کیلئے پیش کیا۔ یہ قبیلہ اوس کے سردار تھے۔ دونوں میں قدیم الایام سے مخاصمت چلی آرہی تھی۔ حضرت ابوبکر عمر اور ابو عبیدہ بن جراح بھی اس احتجاج میں پہنچ گئے۔ وہاں ابوبکر نے تقریر کی اور لوگوں سے کہا کہ خلافت قریش کا حق ہے لہٰذا تم لوگ عمر یا ابوبکر یا ابو عبیدہ میں سے کسی ایک کی بیعت کرلو۔
عمر نے کہا آپ کی موجودگی میں ہمیں یہ منصب زیب نہیں دیتا۔ آپ غار رفیق ہیں۔ اس کے بعد مہاجرین وانصار میں سخت تلخ کلامی ہوئی اور گالم گلوچ اور دمکیوں تک جاپہنچا۔
قبیلہ اوس کے سردار نے دیکھا کہ اگر خلافت سعد کو مل جائے تو یہ ان کی شکست متصور ہوگی اسی لئے اس موقع کو غنیمت جانا اور ابوبکر کی بیعت کرلی اور عمر اور ابوعبیدہ کی ہمنوائی اختیار کرلی۔
جب قبیلہ اوس نے دیکھا کہ ان کا سردار مہاجرین کی تائید کرچکا ہے تو انھوں نے بھی قبیلہ خزرج کی مخالفت میں مہاجرین کا ساتھ دیا اور ابوبکر کی بیعت کیلئے ٹوٹ پڑے۔ اور سعد بن عبادہ پامال ہوتے ہوئے بچے۔ انھوں نے چیخ کر کہا۔ تم مجھے ہوتے ہوئے مارڈالاہے۔
عمر نے کہا سعد کو قتل کردو خدا اسے قتل کرے۔ اس طرح سے خلافت کا فیصلہ ہوا اور ابوبکر خلیفہ نامزد ہوئے اور رسول اکرمؐ نے خلافت کے متعلق جتنی بھی جدوجہد کی تھی اس تمام تر جدوجہد کو سقیفہ کی آندھی لے اڑی۔
رحلت ِرسول کےبعد بہت سے المناک حوادث پیش آئے۔ہم یہاں ان کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتے اور کسی کادل دکھانا پسند نہیں کرتے۔ ان حوادث سےکتب حدیث وتاریخ بھری پڑی ہیں اور مسلمانوں کی اکثریت کو ان کا علم ہے۔ان ایام میں حضرت علیؑ کے موقف کو ہم اختصار سے بیان کرنا چاہتے ہیں۔ جب لوگوں کی اکثریت حضرت ابوبکر کی بیعت کرچکی تو اہل اقتدار علی علیہ السلام کے دروازے پر جمع ہوئے تاکہ انھیں گھر سے نکال کر ان سے بیعت لی جائے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام علیہا نے لوگوں کو اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔
پھر لوگ ہجوم کر کے حملہ آور ہوئے اور حضرت علی علیہ السلام سے ہتھیار چھین کر انھیں مسجدمیں لےگئے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا چلاتی ہوئی پیچھےدوڑیں اور آپ یہ فرمارہی تھیں۔ لوگو میرے ابن عم کو چھوڑد،و میرے شوہر کو چھوڑدو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں بال کھول کر اپنے والد کی قمیص سرپر رکھ کر تمہیں بددعا دوں گی۔ آپؑ مسجد کے دروازے پر پہنچیں۔ آپ نےوہاں دردناک منظر دیکھا جسے ہم بیان نہیں کر سکتے البتہ آپ اپنے شوہر کو چھڑانے اور بیعت سے بچانے میں کامیاب ہوئی تھی اور وہاں سے اپنے شوہر کو چھڑا کر گھر میں لے آئیں۔
حضرت علی علیہ السلام کی نظر میں دنیا تاریک ہوچکی تھی اور اپنی فراحی کے باوجود زمین آپؑ پر تنگ ہوچکی تھی کیونکہ رسول خدا کی وفات نے آپ سے ہر قسم کی خوشی چھین لی تھی۔ ابھی رحلت رسول ؐ کا غم بدستور قائم تھا کہ آپؑ کو دوسرا بڑا صدمہ اٹھانا پڑا۔ آپ کے گھر میں غموں نے ڈیرے ڈال دیے اور آپ کاگھر عملی طور پر عزاخانہ میں تبدیل ہوگیا تھا۔ (امام علیؑ من المھدی الی اللحد کا اردو ترجمہ ص ۳۶۰) 
خلافت امیر المومنین سے منحرف ہونے کے علل واسباب
حضرت علی علیہ السلام کا سیاسی دور
اہلبیت علیہم السلام نے اسلام کی شناخت اور اس کی بقاء اور حفاظت کے سلسلے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور اسی سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کو اسلام کی عزت و عظمت کی طرف دعوت دی اور انہیں اتحاد کا درس دیا،ان کے درمیان اخوت اور برادری کا سلسلہ قائم کیا۔ ان لوگوں کو الفت ومحبت کا راستہ بتایا اور انہیں بغض وحسد سے دور رہنے کی ہدایت کی۔
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا گزشتہ خلفاء کے ساتھ رویہّ فراموش نہیں کرنا چاہیے جبکہ انہوں نے حضرت کے ساتھ زیادتی کی۔ آپ کے حق کو غصب کیا۔ انہوں نے آپ کی منصوص خلافت کو چھپایا اور انھوں نے حسد کی وجہ سے اس نص کو ظاہر نہ ہونے دیا۔
لیکن جب خلافت آپ تک پہنچی تو اس وقت جتنے صحابی بچ گئے تھے انھوں نے مشہور و معروف رحبہ والے دن غدیر کی نص پر گواہی دی۔ آپ نے جو کچھ مسلمانوں اور اسلام پر گزشتہ خلافتوں کے دوران ہوا، مصلحت کی وجہ سے اس کی طرف اشارہ تک نہیں کیا اور اس عہد کے متعلق اس طرح فرمایا:
فخشیت اِن لم اٴنصراِلاسلام واٴھلہ اٴن اٴریٰ فیہ ثلماً اٴوھدمًا۔
مجھے ڈر ہے کہ اگر اسلام اورمسلمانوں کی مدد نہ کی گئی تو میں دیکھ رہاہوں کہ اسلام کو تھوڑا تھوڑا کرکے کاٹ دیا جائے گا یا اسلام کی عمارت کو آہستہ آہستہ گرا دی جائے گی۔(عقائد امامیہ شیخ محمد رضا مظفر، ص 114.115)
ان تمام حالات میں حضرت علی علیہ السلام نے جو مثال پیش کی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی جبکہ ان لوگوں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھائی اور چچا زاد کے ساتھ جو سلوک کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ آپؑ نے ذاتی اورشخصی مفاد سے بلندہوکر اسلامی مصالح کے تحت اہل اسلام کی خدمت کی اور اس وجہ سے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جو خلفاء کی بادشاہت کی شان وشوکت پر اثر انداز ہو یا ان کی سلطنت کے ضعف کا سبب بنے یا ان کی ہیبت کے کم ہونے کا سبب ہو۔
آپ اپنے دل پر پتھر رکھ کر گھر میں خاموشی سے بیٹھ گئے۔ لوگ آپ کے پاس حاضر ہوتے اور آپ کو ہر چیز کا عارف جانتے، حضرت عمر ابن خطاب کئی مرتبہ یہ کہنے پر مجبور ہوگیا:
لاکنتُ لمعضلة لیس لھا اٴبوالحسن۔
میرے لئے کوئی ایسی مشکل نہیں جس کو حل کرنے کے لئے ابوالحسن موجود نہ ہوں۔
اسی طرح خلیفہ ثانی نے متعدد بار کھا:
لولا علی لھلَکَ عُمر۔
اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔ (عقائد امامیہ، ص116)
ابو سفیان کی منافقت
جب سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت ابوبکر کی بیعت کی جارہی تھی۔ اس وقت ابوسفیان صنحر بن حرب کہتا ہے۔ ”میں نے وہاں ایسا غبار دیکھا جو خون بہانے کے بغیر نہیں چھٹ سکتا تھا “اس نے مدینہ کی تنگ گلیوں میں چکر لگاتے ہوئے در جہ ذیل چند اشعار کہے:
بنی ہاشم لا تُطمعو االناس فیکم
ولا سیما تیم ابن مرہ او عدی
فما الاٴمر اِلاّفیکم واِلیکم
ولیس لھا اِلا اَبوحسن علی
اے بنی ہاشم ! لوگ تم میں رغبت نہیں رکھتے اور خصوصا ً تیم بن مرہ اور عدی قبیلہ میں بھی وہ رغبت نہیں رکھتے جبکہ امر خلافت کے فقط آپ ہی سزا وار ہیں اور یہ آپ کو ہی ملنا چاہیے اور ابولحسن علی علیہ السلامکے علاوہ کوئی اس کا حق دار نہیں ہے۔
پھر حضرت علی علیہ السلام کی بارگاہ میں عرض کیا:
ابسط یدک اٴُبایعک فواللہ لئن شئت لاٴملاٴنّھا علیہ خیلاً ورجلاً فابیٰ اٴمیرالموٴمنین۔
آپ اپنے ہاتھ پھیلایئے تا کہ میں آپ کی بیعت کروں خدا کی قسم اگر آپ چاہیں تو میں گھوڑوں اور انسانوں سے میدان (جنگ) بھر دوں۔ لیکن حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ ( امام شرف الدین موسوی، الفصول المھمہ ص 55/ 56)
شیخ مفیداپنی کتاب الارشاد میں (اس واقعہ کے ذیل میں) بیان کرتے ہیں:
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے ابو سفیان سے کہا:
تم یہاں سے چلے جاوٴخدا کی قسم جو تیری خواہش ہے میں اس طرح کبھی بھی نہ کروں گا کیونکہ تم تو ہمیشہ سے اسلام اور اہل اسلام کو دھوکا دیتے رہے ہو۔(الارشاد،شیخ مفید، ج1 ص190)
فضل بن عباس کا انداز
جب سقیفہ میں حضرت ابوبکر کی بیعت ہونے لگی تو انصار حضرت ابوبکر کو چھوڑ کر ایک طرف ہوگئے۔ قریش غضبناک ہوئے اور انھوں نے ابوبکر کی خلافت کو بچانے کے لئے خطبے دینے شروع کیے۔ عمر ابن عاص کو قوم قریش نے کہاکہ اٹھو اور خطبہ دو وہ کھڑا ہوا اور اس نے انصار کے بارے میں گفتگو شروع کردی۔
اس وقت فضل بن عباس کھڑے ہوئے اور انھوں نے عمر وبن عاص کو جواب دینا شروع کر دیا پھر وہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئے اور حضرت علی علیہ السلام کو اس کے متعلق بتایا اور کچھ اشعار پڑھے۔ حضرت علی علیہ السلام غصے کی حالت میں مسجد کی طرف روانہ ہوئے اوروہاں پہنچ کر انھوں نے انصار کو نصیحت کی اور عمر بن عاص کی گفتگو کا جواب دیا۔
جب انصار کو اس بات کا پتہ چل گیا تو وہ کہنے لگے کہ حضرت علی علیہ السلام کی گفتگو سے بہترہمارے پاس کوئی بات نہیں ہے (یعنی ہمارے ما فی الضمیر کو انھوں نے ہم سے بہتر انداز میں بیان کیا ہے) پھر یہ لوگ حضرت حسان بن ثابت کی خدمت میں پہنچے اور کہنے لگے کہ آپ فضل کو جواب دیں توحسان بن ثابت نے کہا: اس نے جو کچھ پیش کیا ہے وہ بکواس ہے۔ لہٰذا تم فقط حضرت علی علیہ السلام کو اپناؤ، اور یہ اشعار کہے:
جزاک اللہ خیراً والجزاءُ بکفّہ۔
اٴبا حسن عنا ومن کُاٴ بی حسن۔
سبقت قریشاً بالذی اٴنتَ اٴھلُہ۔
فصدرک مشروح و قلُبک مُمتحن۔
تمنت رجال من قریش اٴعزةً۔
مکانک ھیھات الُھزال من السَمَنِ۔
اللہ کی جزا پوری پوری اور مکمل جزا ہے اوروہ یہ ہے کہ ابولحسن ہم سے ہیں اور تم بتاؤ کوئی ابولحسن جیسا ہو سکتا ہے۔ آپ اس خاندان سے ہیں جس کو قریش پر برتری نصیب ہوئی۔ آپ کا سینہ کشادہ ہے اورآپ کا دل ہر چیز کو جانچ لیتا ہے۔ قریشی اسی کی تمنا کرتے رہے ہیں کہ ہمیں بھی آپ جیسی عزت نصیب ہو۔اور پھر فرمایا:
حفظت رسول اللّٰہ فےنا وعھدہِ
اِلیکَ و مَن اٴولیٰ بہ منک مَن ومِن
الستَ اٴخاہُ فی الاخا ووصیہِ۔
واٴعلم فھرٍ بالکتابِ وبالسننِ۔
رسول خدا نے آپ کو برگزیدہ اور عہد کا پورا کرنے والا پایا اور فرمایا کہ تیرے اور میرے علاوہ کون بہترہے؟ اور میرا وصی کون ہو سکتا ہے؟ کیا تم ہی اخوت والے دن میرے بھائی نہیں تھے؟(بےشک)تم ہی کتاب و سنت کو زیادہ جاننے والے ہو۔(تاریخ یعقوبی، ج2، ص128)
خلفاء کو نصیحتیں
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے سے پہلے خلفاء کو جو نصیحتیں کی تھی، تاریخ نے انہیں اپنے دامن میں محفوظ رکھا ہے اور آپ کے ٹھوس اور پرخلوص مشوروں کوتاریخ نے بیان کیا ہے۔ ہم ان میں سے چند نصیحتوں کوسپرد قرطاس کرتے ہیں۔
حضرت ابوبکر
جب حضرت ابوبکر نے رومیوں کے ساتھ جنگ کرنے کا ارادہ کرلیا تو اصحاب رسول سے مشورہ کیا۔ بعض نے جنگ کرنے کا اور بعض نے جنگ نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ آخر میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی خدمت میں مشورہ کے لئے حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا:
جنگ کے لئے نکلو،اگر تم نے میرے مشورے کے مطابق عمل کیا تو کامیابی تمہارے قدم چومے گی۔ حضرت ابوبکر نے کہا:آپ نے بہت اچھی بشارت دی ہے اور خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور حکم دیا کہ روم کی طرف نکلنے کے لئے تیار ہوجاؤ۔(تاریخ یعقوبی، ج۲، ص132۔133)
حضرت عمر
حضرت عمر ابن خطاب کے عہد خلافت کے بارے میں کسی ایک مؤرخ نے بھی یہ بیان نہیں کیا کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اس کی خلافت کے مقابل آئے ہوں بلکہ آپ نے بھی دوسرے لوگوں کی طرح خاموشی اختیار کرلی اورآپ نہ تو جانے والوں کا اور نہ آنے والوں کا ذکر کرتے بلکہ اچھائیوں کا تذکر ے کرتےرہتے۔آپ اپنی نیک اور مبارک زبان سے ہمیشہ اچھی گفتگو کرتے رہتے اور انہیں مسلسل نصیحتیں کرتے رہتے تھے۔
اسلام کی مشکل کشائی اور مصلحت کے لئے آپ نے اپنے اوپر پڑنے والے تمام مشکلات کو برداشت کرلیا اور حاکم اور حکومت کو اسی زاویے (مصلحت اسلام)سے ہی دیکھا کرتے یہاں تک کہ اسلام بڑی سرعت کے ساتھ سرزمین حجاز سے نکل کربہت دور پہنچ گیا لیکن فاتح حکام کے پاؤں غفلت کی بناء پر لڑکھڑا گئے جس سے خلافت کمزور پڑنے لگی۔حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے کئی مرتبہ یہ ارشادفرمایا:
واللہ لاسالِمَنَّ ما سلمت امورالمسلمین ولم یکن بھا جورٌاِلاعلیَّ خاصة۔
خدا کی قسم میں مسلمانوں کے امور کے سلسلے میں ہمیشہ ان کے ساتھ ہم آہنگ رہاجبکہ فقط میرے لئے ہی ظلم و جورروا رکھا گیا۔(سیرت آئمہ اثنی عشر، ج۱، ص33۔334)
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنی عمومی زندگی کو وسعت دے رکھی تھی۔ آپؑ نے لوگوں کے حقوق بہترین انداز میں ادا کئے۔آپ نے لوگوں کو تعلیم دینے، فقہ سمجھانے اور ان کے درمیان قضاوت کرنے کا سلسلہ حضرت ابوبکر کے دور حکومت میں بھی وسیع پیمانے پر جاری رکھا۔
تاریخ گواہ ہے کہ حضرت عمر ابن خطاب بھی آپ کے فیصلوں کا احترام کرتے تھے اور آپ کے ہی مشوروں کو اہمیت دیتے اور تسلیم کرتے تھے یہاں تک کہ شریعت اسلامی کے علاوہ عمومی مسائل میں بھی آپ ہی کی رائے قابل توجہ ہوا کرتی تھی اور حضرت عمر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں:
لا اٴبقانی اللّٰہ لمعضلةٍ لیس لھا اٴبواٴلحسن۔
اللہ تعالیٰ مجھے کسی ایسی مشکل میں زندہ نہ رکھے جس کو حل کرنے کے لئے ابولحسن علیہ السلام نہ ہوں۔
پہلا امر یہ تھا کہ حضرت کی سیاست خالص اسلامی سیاست تھی اور آپ کسی صورت میں اخلاقی و اسلامی قدروں کو حکومت و اقتدار پر قربان کرنے کیلئے تیار نہیں تھے چہ جائیکہ حیلہ گری و دنیا سازی سے کام لے کر اقتدار کے استحکام کی فکر کرتے یا دورخی سیاست اور چکنی چپڑی باتوں سے اپنا مقصد نکالتے۔ اگر حضرت بھی وہی طریقہ کار اختیار کرتے جو آپ کے مخالفین نے دیانت کے تقاضوں سے منہ موڑ کر اختیار کیا تھا تو جہاں آپ کو بظاہر نا کامی سے دوچار ہونا پڑا وہاں آپ کا میابی و کامرانی سے ہمکنار ہوتے مگر اس صورت میں حضرت کی حکومت ملوکیت قرار پاتی۔ اس خلافت کا عملی نمود نہ ہوتی جس میں نہ مکر و فریب کی گنجائش ہے اور نہ عوام فریبی کا دخل ہے۔ ظاہر ہے کہ جہاں ایک طرف اخلاقی آئین اور دینی ضوابط کی پابندیاں راستہ روکے کھڑی ہوں اور دوسری طرف ہر قسم کے مکرو فریب اور الزام تراشی میں باک محسوس نہ کیا جاتا ہو وہاں چیخ چیخ کر گلہ پھاڑ پھاڑکر فتنہ وشر کو ہوا دی جاسکتی ہے۔ چنانچہ مخالفین یہ سمجھتے ہوئے کہ حضرت اپنے مسلمہ اصولوں میں لچک پیدا نہ ہونے دیں گے۔آپ کے خلاف ہرطرح کے سیاسی حربوں سے کام لیا اور آپ کی صاف دلی سے پورا فائدہ اٹھایا۔
احمد حسن الزيات نے تحریر کیا ہے: لا يعرف الهوادة في الدين ولا المرونة في الدنيا وكانت هذه الخلال الكريمة من انصار معادية الداهية في الخلاف عليه۔ (ادب العربي، ص 174) 

حضرت امام علی علیہ السلام دینی معاملات میں لچک اور دنیوی امور میں زمانہ سازی سے آشنائی نہیں تھے۔ آپ کے یہی بلند عادات واطوار وہ تھے جن سے معاویہ ایسے چالاک نے فضا کو آپ کے خلاف کرنے میں مدد لی۔
دوسرا سبب یہ تھا کہ حضرت خواص کی دلجوئی کے لئے عوام کے مفاد کو نظر انداز کرنا گوارا نہیں کرتے تھے بلکہ ہمیشہ ان کے مفاد کو خواص وسربرآوردہ افراد کے مفادات پر ترجیح دیتے تھے اور اپنے عمال کوبھی یہی ہدایت فرماتے تھے۔ چنانچہ مالک اشتر کو تحریر فرمایا تمہیں سب طریقوں سے زیادہ وہ طریقہ پسند ہونا چاہیے جو حق کے اعتبارسے بہترین انصاف کے لحاظ سے سب کو شامل اور رعایا کے زیادہ سے زیادہ افراد کی مرضی کے مطابق ہو کیونکہ عوام کی ناراضگی خواص کی رضامندی کو بے اثر بنا دیتی ہے اور خواص کی ناراضگی عوام کی رضا مندی کے ہوتے ہوئے نظر انداز کی جاسکتی ہے۔ یہ طرز عمل جاه طلب و اقتدار پسند طبیعتوں پر شاق گزرا اور انہوں نے اپنا تفوق و امتیاز برقرار رکھنا چاہا اور جب انہیں معاشرے میں اپنا مقام حاصل ہوتا نظرنہ آیا تو نظم و نسق کو درہم برہم کرنے کے درپے ہو گئے اور عوام کو اپنے انقلاب آفرین نعروں سے متاثر کر کے ہنگامہ وشورش پر اتر آئے تا کہ ان کی بالادستی اور امتیازی حیثیت برقرار رہے۔
تیسرا سبب یہ تھا کہ حضرت مساویانہ تقسیم کے اصول پر کار بند تھے اور اعلیٰ وادنیٰ اور عرب و عجم کی تفریق کے قائل نہیں تھے۔ اس سے اگر چہ عوام اور موالی و اعجام کا طبقہ خوش ہو گیا مگر امتیاز پسند لوگوں کے دلوں میں گرہ پڑ گیا۔ وہ جس طرز عمل کے خوگر ہو چکے تھے اس کے خلاف کسی روش کو پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ چنانچہ وہ اس پر سیخ پا ہوئے اورپرزور احتجاج کیا اور جب ان کی آواز موثر ثابت نہ ہوئی تو شام کا رخ کرلیا جہاں حضرت علی علیہ السلام کے خلاف سازشیں ہوئی تھی۔
چوتھا سبب یہ تھا کہ وہ امور جو خلاف شرع ہوتے ہوئے شرعی صورت اختیار کر چکے تھے اور دین کاجزء سمجھے جارہے تھے۔ حضرت اپنی منصبی ذمہ داری کی بناء پر انہیں شرعی جواز دینے کیلئے تیار نہیں تھے اور عوام کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جو چیزیں اُن کے ذہنوں میں اتر جاتی ہیں ان سے دستبردار ہونا گوارا نہیں کرتے اور نہ اس کے خلاف کوئی آواز سننا چاہتے ہیں۔چنانچہ ایک مرتبہ حضرت منبر سے کچھ کہہ دیا تو عبیدۃ السلمانی نے کھڑے ہو کر کہا: رايك مع الجماعة احب الينا من رايك وحدك، آپ ایک اکیلے کی رائے سے ہمیں آپ کی وہ رائے زیادہ پسند ہے جو جماعت کی رائے کے موافق ہو (شرح ابن ابی الحدید، ج ۲- ۱)۔ اس اختلاف رائے نے بھی انتشار کے اسباب فراہم کئے اور لوگ ایسی بات کو جو انکے طرز عمل کے خلاف ہوتی لے اڑتے اور لوگوں میں بدظنی پیدا کر کے فتنہ و شر پھیلاتے۔
پانچواں سبب یہ تھاکہ حضرت نے برسراقتدار آتے ہی ان تمام عمال و حکام کی برطرفی کا اعلان کر دیا جو سابقہ حکومتوں کی طرف سے متعین تھے۔ اس کا رد عمل یہ ہوا کہ ان عمال نے ان لوگوں سے جو عہدوں کےامیدوار تھے اور کامیاب نہ ہو سکے تھے گٹھ جوڑ کر کے قصاص ِخون ِعثمان کی تحریک چلائی اور حضرت کے خلاف محاذ جنگ قائم کرکے ملکی نظم ونسق کو تباہ کرنے میں بھر پور حصہ لیا۔ ان تمام محرکات فتنہ وانتشار کے باوجود حضرتؑ نے جس حد تک ملکی حالات کو بگڑنے سے بچایا وہ صرف آپ کی سیاسی بصیرت، معاملہ فہمی اور حسن تدبیر کا نتیجہ تھا ورنہ شورش پسندوں نے تفرقہ و انتشار پھیلانے اور ملکی نظم کو درہم برہم کرنے میں کون سی کسر اٹھا رکھی تھی۔ ( سیرت امیر المومنین حصہ اول، علامہ مفتی جعفر حسین قبلہ، ص ۵۰۰) 
بیت المقدس کی فتح اور آپ کا مشورہ
حضرت علی علیہ السلام کے مشوروں میں سے ایک مشورہ یہ تھا کہ جب خلیفہ ثانی نے بیت المقدس کے فتحِ مسئلہ میں لوگوں سے مشورہ مانگا جبکہ ابوعبیدہ نے خط کے ذریعےاس کی توجہ اس طرف مبذول کی تھی۔ لہٰذا حضرت عثمان بن عفان نے اس سلسلے میں یہ مشورہ دیا کہ ہمیں انکی طرف نہیں نکلنا چاہیےکیونکہ ہم انھیں حقیر جانتے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس سلسلے میں یہ مشورہ دیا کہ ہمیں ان کی طرف جانا چا ہیے کیونکہ اگر وہ مسلمانوں کا محاصرہ کر لے تو یہ ہر مسلمان کی ذلت اور رسوائی کا سبب بن جائے گا۔ چنانچہ جب خلیفہ وہاں سے اٹھا تو اس نے وہی کیا جو حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا تھا اور جو کچھ حضرت عثمان نے کہاتھا اس نے نہیں مانااور ایک بڑے لشکر کے ساتھ ان لوگوں پر حملہ کر دیا، اس طرح انھوں نے بیت المقدس کو فتح کر لیا اس دوران حضرت علی علیہ السلام مدینہ کے امور کی نگرانی کرتے رہے۔ ( البدایہ والنھایہ، ابن کثیر، ج7، ص53)
واقعہ نہاوند میں جب باب سند، خراسان اور حلوان کے ایک لاکھ پچاس ہزار گھوڑے پر سوار مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے جمع ہوگئے توجب خلیفہ ثانی کویہ معلوم ہوا تو اس نے لوگوں کو مشورہ کے لئے جمع کیا لیکن خود اس نے ان کی طرف جانے کا ارادہ کر لیا، طلحہ بن عبد اللہ نے بھی یہی نظریہ دیا اور کہاکہ ہمارا کام تو آپ کی اطاعت اور پیروی کرنا ہے جو آپ کی مرضی ہے وہی رائے میری بھی ہے۔حضرت عثمان اس سلسلے میں یو ں ہمکلام ہوئے، میرا خیال یہ کہ آپ اہل شام کو خط میں لکھیں کہ وہ شام سے نکلیں اور اہل یمن یمن سے چلیں اور تم کوفہ اور اور بصرہ والوں کو لیکر نکلو تا کہ تمام مسلمان تمام مشرکین کے سامنے صف آرا ہوجائیں۔
چنا نچہ حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
اگر تمام شامی شام سے نکل پڑے تو روم والے ان کے بچوں پر حملہ کر یں گے۔ اسی طرح اگر تمام یمن سے نکل پڑے تو حبشہ والے ان کی اولادپر حملہ کر دیں گے اور اگر تم یہاں سے نکل پڑے تو گرد ونواح کے تمام عرب تم پر ٹوٹ پڑیں گے۔ لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ تم بصرہ والوں کوخط لکھو، کہ وہ تین گروہوں میں تقسیم ہوجائیں۔ ایک گروہ مستورات اور بچوں کے پاس رہے اور دوسرا گروہ اہل عہد کے ساتھ اور تیسرا گروہ اپنے کوفی بھائیوں کی مدد کے لئے نکلے اور وہاں پہلے جائے کیونکہ عجمی کل تمھیں دیکھیں گے تو وہ لوگ کہیں گے کہ یہی عربوں کا امیر المومنین اور ان کی اصل ہے لہٰذا تیرے خلاف ان کے دل زیادہ سخت ہوجائیں گے۔ حضرت عمر نے کہایہی وہ رائے ہے جسے میں پسند کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس کے مطابق عمل کروں۔(ابن اثیر، تاریخ کامل، ج ۲،ص182/180۱)
دور عثمان
خلیفہ سوم کے زمانے میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے بہت ساری زحمتیں اٹھائی ہیں۔ جب شوریٰ قائم ہوئی تو حضرت نے فرمایا:
واللّٰہ لاسالِمَنَّ ما سلمت امورالمسلمین ولم یکن بھا جورٌاِلا علیَّ خاصة۔
خدا کی قسم میں مسلمانوں کے امور کے سلسلے میں ہمیشہ ان کے ساتھ ہم آہنگ رہاجبکہ فقط میرے لئے ہی ظلم و جور رکھا گیا۔
ان تمام مشکلات کے باوجود حضرت علی علیہ السلام خلیفہ ثالث کے ساتھ ہمیشہ اخلاص کے ساتھ پیش آتے تھے۔ اسی طرح وہ مشکلات جو انھیں اپنی ظاہری خلافت کے دوران پیش آئے تو ان کے متعلق آپعلیہ السلام نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم میں عثمان کو دشمنوں سے دور کرتا ہوں لیکن مجھے خوف تھا کہ اس کے باوجود گنہگار میں ہی ٹھہرایا جاؤں گا۔ (سیرت آئمہ اثنی عشر، ج 1، ص386)
ریاست طلبی
اس میں سر فہرست طلحہ و زبیر تھا۔ مولا ؑنے خلافت کا منصب جیسے ہی اٹھایا تو ان دونوں کو معزول کردیا تھا اس لئے یہ لوگ مولا علی علیہ السلام سے دشمنی کرنے لگے۔
ابن قتیبہ اپنی کتاب امامت وسیاست میں کہتے ہیں کہ جب عثمان کے خلاف بغاوت بڑھتی چلی گئی تو حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کسی وادی میں چلے گئے اور وہاں مقیم ہوگئے۔حضرت علی علیہ السلام کے چلے جانے کے بعد عثمان کے خلاف بغاوت مزید بڑھ گئی جبکہ طلحہ اور زبیرکو یہ امید تھی کہ وہ لوگوں کے دلوں کو عثمان کی طرف مائل کر لیں گے اور بغاوت پر غلبہ حاصل کر لیں گے۔انہوں حضرت علی علیہ السلام کی عدم موجودگی کو غنیمت سمجھا لیکن جب بغاوت حد سے بڑھ گئی تو عثمان نے حضرت علی علیہ السلا م کو اس طرح خط لکھا:
معاملہ میرے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور میرے خلاف ایک طوفان ا مڈ آیا ہے، لوگ میری توہین کر رہے ہیں اور وہ میرا خون بہانے اور میرے قتل کے درپے ہیں اور میں اس مصیبت کو اپنے سر سے دور نہیں کر سکتا، اور پھریہ شعر کہا:
فان کنت ماکولافکن خیر اکل ولا فارکنی ولما افرق
اگر آپ پر بھروسہ کیا جائے تو آپ بہترین بھروسہ والے ہیں میری مدد کو آئے مجھ سے اتنا دور کیوں ہیں۔(امامت و سیاست، ج1، ص37)
خلیفہ ثالث کے حق میں حضرت علی علیہ السلام کا رویہ
جب حضرت علی علیہ السلام خیبر سے واپس لوٹ رہے تھے تو آپ نے دیکھا کہ لوگ طلحہ کے پاس جمع ہیں۔ ان میں اس کا کافی اثر ورسوخ تھا جب حضرت علی (علیہ السلام)وہاں تشریف لائے تو ان کے پاس حضرت عثمان بھی آگیا تو اس نے کہا:
اما بعد! مجھ پر اسلام کا حق ہے۔ بھائیوں اور رشتہ داروں کا حق ہے۔ اگر ان حقوق کا پاس ولحاظ نہ ہوتا تو ہم جاہلیت کی طرف لوٹ جاتے اور بنی عبد مناف کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے بنی تمیم بھائیوں کے ساتھ لڑیں۔ (یہ اطلاع طلحہ نے انہیں دی تھی)۔
اس وقت حضرت علیؑ نے اس سے کہا: تیری یہ خبر درست نہیں ہے پھر حضرت علی علیہ السلاممسجد کی طرف روانہ ہوئے، وہاں انھوں نے اسامہ کو دیکھا جو لوگوں سے دور ایک طرف بیٹھا تھا۔ اس کو اپنے ہمراہ لیااور طلحہ کے گھر آئے، حضرت نے کہا: اے طلحہ !وہ معاملہ کیا ہے جو واقع ہوا ہے۔ اس نے کہااے ابوالحسن! یہ حزام طبین کے بعد کا واقعہ ہے، حضرت علی علیہ السلام وہاں سے بیت المال کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر فرمایا:اس کا دروازہ کھولو لیکن چابیاں نہ ملیں تو انھوں نے اس کا دروازہ توڑدیا اور لوگوں میں مال تقسیم کر دیا۔ لوگ طلحہ کے پاس سے اٹھ کر چلے گئے یہاں تک کہ طلحہ اکیلا رہ گیا۔ یہ خبر سن کر عثمان بہت خوش ہوئے۔ اس کے بعد طلحہ عثمان کے پاس آیا اور اس نے کہا: اے امیرالمومنین !میں نے ایک کام کا ارادہ کیا ہے لیکن اس کے اور میرے درمیان اللہ حائل ہے۔ عثمان نے کہاخدا کی قسم تم توبہ کرکے نہیں آئے بلکہ مغلوب ہو کر آئے ہو، اے طلحہ اللہ تیرا محاسبہ کرنے کے لئے کافی ہے۔(ابن اثیر، الکامل فی التاریخ،ج 2، ص286)
جب حضرت عثمان کا محاصرہ کیا گیا اور اس پر پانی بند کر دیا گیا اس وقت حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے طلحہ سے کہا: میں ان کے پاس پانی و غذا لے کر جانا چاہتا ہوں، حضرت نے اس پر شدید غصہ کیا یہاں تک کہ حضرت عثمان کے پاس پانی وغذالے گئے۔(الکامل فی التاریخ، ابن اثیر، ج2، ص286)
حضرت کا خلیفہ ثالث کے ساتھ ایک عمدہ رویہّ یہ تھا کہ آپ نے اپنے بچوں حسن (علیہ السلام)اورحسین(علیہ السلام)کو حضرت عثمان کے دفاع کے لئے بھیجا۔ اور وہ اس کے دروازے پر کھڑے ہو گئے اور اس کے دشمنوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہوئی کہ اس کو اذیت دیں۔ یہ اصحاب سیرت اور تاریخ میں مشہور و معروف واقعہ ہے۔
وہ لوگ عثمان کی ان باتوں سے ناراض تھے کہ اس نے مروان بن حکم اور بنی امیہ کو لوگوں کی گردنوں پر مسلط کر دیا ہے اور مختلف شہروں میں حکومتی عہدے اپنے قریبی رشتہ داروں کو دے دئیے۔ چنانچہ اکثر لوگوں نے اس کے قتل پر خوشی کا اظہار کیا اگرچہ اس سلسلہ میں ان کے نظریات اور خواہشات جدا جدا تھے۔ لیکن جہاں تک حضرت علی علیہ السلام کا تعلق ہے تو انھوں نے اس پیچیدہ معاملے کو سنبھالنے کی ہر ممکن کوشش کی اور یہ ان کے لئے امتحان کا وقت تھا لیکن معاملات بہت بگڑ چکے تھے۔
شدت عدل وشہادت امام علی علیہ السلام
امیر المومنین علی علیہ السلام کئی مرتبہ خلیفہ کے پاس تشریف لائے اور انھیں نصیحتیں کیں کہ وہ اعتدال پر رہیں اور حکمت سے کام لیں۔ خلیفہ کو نصیحت کی کہ عدل سے کام لیں اور مظلوموں کے ساتھ انصاف کریں تاکہ امت کی اصلاح ہو سکے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں اور ان کے امور کو غیروں کے حوالے نہ کیا جائے، حکومتی اداروں میں دین کو پائیدار بنایا جائے اور شرعی حدود کے مطابق عمل کو جاری رکھا جائے اور غریبوں وفقیروں پر خصوصی توجہ دی جائے۔
لیکن حضرت علی (علیہ السلام)خلیفہ کے رویے کو بدلنے پر قادر نھیں تھے لہٰذا اس وجہ سے آپ اپنے گھر میں خاموشی سے بیٹھ گئے اور اپنا دروازہ بند کر لیا اور ظالم و مظلوم کے درمیان قضاء کے فیصلے کا انتظار کرنے لگے۔
کلمات قصار میں آپ کا یہ رویہّ پوری کتاب لکھنے کی نسبت زیادہ واضح نظر آتا ہے۔ حضرت نے فرمایاکہ میں نے اس بات کو جامع شکل میں بیان کیا ہے کہ بے شک تم متاثر ہوئے لیکن یہ تاثر مفید نہیں رہا، تم روئے اور گڑگڑائے لیکن کوئی فائدہ نھیں ہوا البتہ متاثر اور گڑگڑانے والے کے بارے میں خدا بہتر جانتا ہے۔ ( سیرت آئمہ اثناعشر، ج1، ص 289)
امام علی علیہ السلام کی دشمن سازی
ہم اپنی گفتگو کو حضرت علی علیہ السلام کے چار سال اور چند ماہ پر محیط دور خلافت تک محدود رکھیں گے۔ حضرت علی ع ہمیشہ سے دو قوتوں کی حامل شخصیت تھے۔ اُن میں جاذبہ بھی موجود تھا اور دافعہ بھی پایا جاتا تھا۔ خاص طور پر اسلام کے ابتدائی دور ہی سے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک گروہ اکثر علی ع کے گرد نظر آتا ہے جبکہ ایک گروہ کو دیکھتے ہیں جس کے تعلقات علی ؑکے ساتھ خوشگوار نہیں ہوتے اور بسا اوقات آپ کواس گروہ کی طرف سے تکلیف کا سامناکرتے ہیں۔ لیکن حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے زمانے اور ان کی وفات کے بعد کے ادوار میں یعنی آپ کے تاریخی ظہور کا دور آپ کے جاذبے اور واقعے کے زیادہ تر مظاہروں کا دور ہے۔ خلافت سے پہلے معاشرے سے اُن کا رابطہ جتنا کم تھا اُسی نسبت سے اُن کا جاذ بہ اور دافعہ بھی کمترظاہر ہوا تھا۔
ہرایسا انسان جو مسلک کا پابند ہو، کسی مقصد کی سمت گامزن ہو ، مجاہد ہو اور بالخصوص ایسا انقلابی ہو جو اپنے مقدس مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوشاں ہواور خدا کے اس قول کا مصداق ہو وہ امام علیہ السلام کی شخصیت تھی: يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ وَ لَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لائِم ؛وہ اللہ کی راہ میں کوشش کرتے ہیں اور ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں کرتے۔ ( جاذبہ و دافعہ علیؑ،شہید مرتضیٰ مطہری ؒ، ص ۹۴)
قاسطین اور مارقین
حضرت علی علیہ السلام نے اپنی خلافت کے دوران تین گروہوں کو رد کیا اور اُن کے خلاف جنگ کی۔ اصحاب جمل، جنہیں آپ نے ناکثین کا نام دیا اصحاب صفین، جنہیں ” قاسطین“ کہا اور اصحاب نہروان یعنی خوارج جنہیں خود آپ "مارقین”کہا کرتے تھے۔ فَلَمَّا نَهَضْتُ بِالْأَمْرِ نَكَتَت طَائِفَةٌ وَمَرَقَتْ أُخْرَى وَقَسَطَ آخَرُونَ۔پس جب میں نے خلافت کی بنا پر قیام کیا، تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی ایک گردہ دین سے نکل گیا، اور ایک گروہ نے ابتدا ہی سے سرکشی اور بغاوت اختیار کی۔ ( نہج البلاغہ، خطبہ ٣،حدیث: ۵۸۲۵۵ /الثاقب في المناقب ، جلد۱ ، صفحہ۱۰۵ ) 
وَ مِنْهَا: مَا أَخْبَرَ بِهِ أَمِيرَ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ: أَنَّهُ سَيُقَاتِلُ اَلنَّاكِثِينَ وَ اَلْقَاسِطِينَ وَ اَلْمَارِقِينَ۔
حضرت علی علیہ السلام سے پہلے خود نبی اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کو یہ نام دیے تھے اور آپ سے فرمایاتھا: سَيُقَاتِلُ اَلنَّاكِثِينَ وَ اَلْقَاسِطِينَ وَ اَلْمَارِقِينَ۔
میرے بعد تم ناکثین قاسطین اور مارقین کے ساتھ جنگ کرو گے۔
وضاحت
ناکثین، طبیعت کے اعتبار سے دولت پرست لالچی اور طبقاتی امتیاز کے حامی تھے۔ عدل و مساوات کے حوالے سے حضرت علی ؑنے جو باتیں کی ہیں، اُن میں زیادہ تر یہی گروہ آپ کا مخالف ہے۔
لیکن قاسطین، طبیعتا فریبی اور منافق تھے۔ وہ زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لینے اور حضرت علی کی حکومت اور اقتدار کے خاتمے کے لیے کوشاں تھے۔ بعض لوگوں نے تجویز پیش کی کہ آپ ان سے مصالحت کر لیں اور کسی حد تک ان کے مطالبات پورے کر دیں۔ لیکن آپ نے قبول نہیں کیا کیونکہ آپ اس طرح کی باتوں کو نہیں مانتے تھے۔ آپ نے ظلم و ستم سے مقابلے کے لیے اقتدار قبول کیا تھا اسکی تائید کے لیے نہیں کیا تھا۔ دوسری جانب معاویہ اور اُن کا دھڑا حضرت علیؑ  کی حکومت کا سرے سے مخالف تھا۔ وہ خود خلافت اسلامیہ کی مسند پر بیٹھنے کے خواہشمند تھے۔ در حقیقت اُن کےساتھ حضرت علیؑ کی جنگ نفاق اور دوزخی کے خلاف جنگ تھی۔
تیسرا گروہ جو مارقین کا ہے اُن کی طبیعت میں ناروا تعصب خشک تقدس اور خطرناک جہالت رچی بسی تھی۔ حضرت علی علیہ السلام میں ان تمام گروہوں کے حوالے سے ایک طاقتور دافعہ اور غیرمصالحانہ کیفیت پائی جاتی تھی۔
خوارج کی پیدائش
خوارج، یعنی باغی۔ یہ لفظ خروج سے نکلا ہے جس کے معنی سرکشی اور بغاوت کے ہیں۔ اس گروہ کا آغاز تحکیم کے واقعے سے ہوا۔
جنگ صفین کے آخری روز جبکہ جنگ حضرت علی علیہ السلام کی فتح کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچ رہی تھی معاویہ نے عمرو بن عاص کے مشورے سے ایک ماہرانہ چال چلائی۔ جب معاویہ کو اپنی تمام کوششیں اور محنتیں اکارت جاتی دکھائی دیں اور انہیں اپنی شکست محض ایک قدم کے فاصلے پر کھڑی نظر آنے لگی تو انہوں نے سوچا کہ فریب دہی کے علاوہ نجات کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ لہٰذا انہوں نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ وہ نیزوں پر قرآن بلند کر دے اور کہے کہ لوگو! ہم اہل قبلہ اورقرآن کو ماننے والے ہیں آؤ اس (قرآن) کو اپنے درمیان حکم (ثالث) قرار دیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی جو ان کی اختراع ہو بلکہ اس سے پہلے اس بات کو حضرت علیؑ سے کہہ چکے تھے جسے معاویہ نے تسلیم نہیں کیا تھا اور اب بھی وہ اسے نہیں مانتے تھے بلکہ یہ یقینی شکست سے چھٹکارا پانے کے لیے اُن کا ایک بہانہ تھا۔ حضرت علی علیہ السلام نے پکار کر کہا: ان پر حملے جاری رکھو یہ لوگ قرآن کے صفحات اور کاغذ کو بہانہ بنا کر قرآن کے لفظ اور کتابت کی پناہ میں اپنا بچاؤ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بعد میں اپنی قرآن مخالف روش کو جاری رکھیں گے۔ قرآن کا کاغذ اور اسکی جلد اگر حقیقت قرآن کے مقابلے پر آجائے تو اپنی قدر و قیمت کھو بیٹھتی ہے۔ قرآن کی حقیقت اور اس کا واقعی جلوہ میں ہوں۔ ان لوگوں نے قرآن کی حقیقت اور معنی کو نابود کرنے کے لیےاسکے کاغذ اور اسکی کتابت کا سہارا لیا ہے۔جاہل اور پست مقدس مآب لوگوں کا ایک گروہ جو خاصی بڑی تعداد میں وہاں موجود تھا۔
خوارج کے اصول عقائد
خوارج کی فکر کی بنیاد چند چیزوں پر تھی:
1۔ علیؑ، عثمان، معاویہ اصحاب جمل اور اصحاب حاکمیت (جو حکمیت پر راضی ہوئے) سب کے سب کافر ہیں سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے حاکمیت کا مشورہ دیامگر بعد میں تو بہ کر لی۔
2۔ ایسے تمام لوگ جو حضرت علیؑ، حضرت عثمان اور مذکورہ بالا دوسرے لوگوں کے کفر کے قائل نہ ہوں وہ سب بھی کافر ہیں۔
3۔ ایمان محض دل سے عقیدہ رکھنے کا نام نہیں بلکہ واجبات پر عمل اور منکرات کو ترک کرنا بھی ایمان میں شامل ہے۔ ایمان اعتقاد اور عمل کا مجموعہ ہے۔
4۔ ظالم پیشوا اور حکمران کے خلاف بغاوت بغیر کسی شرط کے واجب ہے۔ وہ کہتے تھے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے کسی چیز کی شرط نہیں اورحکم الہٰی کو ہر جگہ بغیر کسی استثنا ءکے انجام دیا جانا چاہیے۔ یہ لوگ انہی عقائد کے ساتھ جیا کرتے تھے اور اپنے سوا روئے زمین پر زندگی بسر کرنے والے تمام لوگوں کو کافر واجب القتل اور ہمیشہ کے لے جنم میں رہنے والا سمجھتے تھے۔ ( ضحی الاسلام، جلد 3، ص 330، نقل از کتاب "الفرق بين الفرق)
خلافت کے بارے میں خوارج کا عقیدہ
خوارج کی واحد فکر جو عصر حاضر کے جدیدیت پسندوں کے یہاں اچھی نظر سے دیکھی جاتی ہے وہ خلافت کے بارے میں اُن کا نظریہ ہے۔ اس بارے میں اُن کا نظریہ جمہوریت کی طرف پلٹتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خلافت آزادانہ انتخاب کے ذریعے قائم ہونی چاہیے اور اسکے لیے موزوں ترین شخص وہ ہے جو ایمان اور تقوی ٰکا حامل ہو خواہ اُس کا تعلق قریش سے ہو یا غیر قریش سے ممتاز اور مشہور قبیلے سے ہو یا گمنام اور پسماندہ قبیلے سے عرب ہو یا غیر عرب۔ انتخاب کے بعد اگر خلیفہ اسلامی معاشرے کے مفاد کے خلاف گامزن ہو تو وہ خلافت سے معزول کر دیا جائے گا اور اگر وہ انکار کرے تو اُسکے خلاف جنگ کی جانی چائیے یہاں تک کہ وہ ہماری بیعت کی جائے۔ ( ضحی الاسلام، ج 3،ص 332)
خلافت کے بارے میں اُن کا نظریہ شیعوں کے نظریے کے برخلاف ہے جو کہتے ہیں کہ خلافت ایک امر الہٰی ہے اور خلیفہ کا تعین صرف اور صرف خدا کی طرف سے ہونا چاہیے اور اسی طرح ان کا نظریہ اہلسنت کے بھی بر خلاف ہے جو کہتے ہیں کہ خلافت کے حقدار صرف قریش ہیں اور جو اس سلسلے میں " إِنَّمَا الْآئِمَةُ مِنْ قُرَیشِ“ کے جملے کو سند قرار دیتے ہیں۔
بظاہر خلافت کے بارے میں ان کا یہ نظر یہ ایسی چیز نہیں ہے جس کے وہ ابتداہی سے قائل رہے ہوں بلکہ جیسا کہ ان کا مشہور نعرہ” الحكم الاللّٰہ ” عکاسی کرتا ہے اور نہج البلاغہ سے بھی پتا چلتا ہے کہ وہ ابتدا میں اس بات کے قائل تھے کہ افراد اور معاشرے کو کسی امام یا حکومت کی ضرورت نہیں ہے اور لوگوں کو خود کتاب خداپر عمل کرنا چاہیے لیکن بعد میں انہوں نے اس عقیدے کو ترک کر دیا اور خود عبداللہ بن وھب راسبی کی بیعت کر لی۔ ( کامل ابن اثیر، ج 3،ص 336)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button