سلائیڈرسیرتسیرت امام محمد باقرؑ

امام محمد باقر علیہ السلام کا عہد

آیۃ اللہ خامنہ ایؒ
امام محمد باقر علیہ السلام کا دور آتا ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام میں بھی ہم اسی طریقہ کار کا مشاہدہ کرتے ہیں، جس پر امام سجاد علیہ السلام گامزن ہیں۔ اب حالات نسبتاً کچھ بہتر ہوچکے ہیں چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام بھی معارف اسلامی اور تعلیمات دینی پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ اب لوگ خاندان پیغمبر کی طرف سے پہلے جیسی بے اعتنائی و سرد مہری نہیں برتتے لہذا جب امام علیہ السلام مسجد میں داخل ہوتے ہیں تو کچھ لوگ ہمیشہ ان کے ارد گرد حلقہ کرکے بیٹھ جاتے ہیں اور آپؑ سے مستفید ہوتے ہیں۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام کو مسجد مدینہ میں اس عالم میں دیکھا کہ خراسان کے دور دراز علاقوں اور دوسرے مقامات سے تعلق رکھنے والے افراد آپؑ کے چاروں طرف جمع تھے۔ اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ تبلیغات کا اثر اب کسی موج کی مانند پوری اسلامی دنیا میں پھیل رہا تھا اور دور دور کے لوگ اہل بیت علیہم السلام سے نزدیک ہورہے تھے ۔ ایک دوسری روایت یوں ہے: اہل خراسان آپؑ کو اپنے گھیرے میں لئے بیٹھے تھے اور آپؑ ان لوگوں سے حلال و حرام سے متعلق گفتگو فرمارہے تھے۔
اس وقت کے بڑے بڑے علماء آپؑ سے درس لیتے اور مستفید ہوتے تھے۔ عکرمہ جیسی مشہور و معروف شخصیت جو ابن عباس کے شاگردوں میں سے تھے جس وقت امام کی خدمت میں پہنچتے ہیں تاکہ آپؑ سے حدیث سنیں تو ان کے ہاتھ پاو ں میں ایک تھر تھر سی پڑ جاتی ہے اور امام کی آغوش میں گرپڑتے ہیں۔ بعد میں اپنی اس حالت پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے عکرمہ کہتے ہیں: میں نے ابن عباس جیسے بزرگ کی خدمت میں حاضری دی ہے اور ان سے حدیث بھی سنی ہے، مگر اے فرزند رسول ! آپ کی خدمت میں پہنچ کر میری جو کیفیت ہوئی اس حالت سے میں کبھی بھی دوچار نہیں ہو اتھا۔ ملاحظہ فرمائیں جواب میں آپؑ کیسے دو ٹوک الفاظ میں فرماتے ہیں:
و يحک يا عبید اھل الشام ، انک بین يدی بیوت اذن اللّٰہ ان ترفع و يذکر فيھا اسمہ
اے اہل شام (حکومت )کے بندہ بے دام ! اس وقت تو ایک معنوی عظمت کے رو برو کھڑا ہے یہی وجہ ہے کہ تیرے ہاتھ پاو ں تیرے قابو میں نہیں ہیں۔
ابو حنیفہ جیسا شخص جن کا اپنے دور کے صاحب نظر فقہاء میں شمار ہوتا ہے، احکام دین اور معارف اسلامی کی تحصیل کے لئے امامؑ کی خدمت میں حاضری دیتی نظر آتی ہے۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے دوسرے بڑے بڑے علماء کے نام آپؑ کے شاگردوں کی طویل فہرست میں نظر آتے ہیں۔
آپؑ کا علمی شہرت اطراف و اکناف عالم تک پہنچ چکا تھا اسی وجہ سے آپؑ باقر العلوم کے نام سے مشہور ہوئے۔
پس آپ نے دیکھا کہ امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانہ میں معاشرے کی حالت کس قدر بدل گئی تھی اور ائمہ کے بارے میں لوگوں کے محبت و احترام کے جذبات میں کس قدر اضافہ ہوگیا تھا۔ اسی نسبت سے امام محمد باقر علیہ السلام کی سیاسی جدوجہد میں بھی تیزی نظر آتی ہے۔ یعنی عبدالملک بن مروان کے مقابلہ میں امام سجاد علیہ السلام کا کوئی سخت اور درشت کلام اور کوئی ایسا جملہ نہیں ملتا جسے آپؑ کی طرف سے اس کی مخالفت کی علامت کہا جاسکے۔ اگر عبدالملک سید سجاد علیہ السلام کو کسی موضوع پر خط لکھتا ہے اور آپؑ اس کا جواب دیتے ہیں تو اگرچہ فرزند نبی علیہ السلام کا جواب ہمیشہ ہر رخ سے محکم و متین اور دندان شکن ہوتا ہے پھر بھی اس خط میں اس کی کوئی صریح مخالفت اور اعتراض دکھا ئی نہیں دیتا ۔ لیکن امام محمد باقر علیہ السلام کا مسئلہ دوسرے ہی انداز کا ہے۔ آپؑ کا طرز عمل ایسا ہے کہ اس کے سامنے ہشام بن عبدالملک خوف و وحشت محسوس کرتا ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ امام علیہ السلام پر نظر رکھنا ضروری ہے۔  چنانچہ وہ آپؑ کو شام لے جانا چاہتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سید سجاد علیہ السلام کو بھی آپؑ کی امامت کے دوران (حادثہ کربلا اور اسیری اہل حرم کے بعد دوبارہ)قید کرکے پابہ زنجیر شام لے جایا گیا ہے لیکن وہ دوسری نوعیت تھی اور سید سجاد علیہ السلام ہمیشہ بڑا ہی محتاط طرز عمل اپناتے تھے جبکہ امام محمد باقر علیہ السلام علیہ السلام کی گفتگو کا لہجہ سخت تر نظر آتا ہے۔ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام کی اپنے اصحاب کے ساتھ گفتگو پر مشتمل چند روایتیں دیکھی ہیں جن میں امام علیہ السلام حکومت اور خلافت و امامت کے لئے انہیں آمادہ کرتے ہیں حتی ٰ انہیں مستقبل قریب کے لئے خوشخبری دیتے نظر آتے ہیں، ان میں سے ایک روایت بحارالانوار میں اس مضمون کے ساتھ نقل کی گئی ہے: حضرت ابی جعفر (امام محمد باقر علیہ السلام) کا در دولت لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔ ایک بوڑھا شخص عصا ٹیکتا ہوا آتا ہے اور سلام و اظہار محبت کے بعد حضرت کے نزدیک بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے :
خدا کی قسم میں آپ کو دوست رکھتا ہوں اوراس کو بھی دوست رکھتا ہوں جو آپ کو دوست رکھتا ہے ، اور خدا کی قسم یہ دوستی دنیاوی مفادات کی لالچ کی خاطر نہیں ہے۔ اور بے شک میں آپ کے دشمنوں سے بغض رکھتا ہوں اور ان سے برا ت چاہتا ہوں ، اور بے شک میں آپ کے دشمنوں ان سے ذاتی عداوت یا بدلہ کے باعث نہیں ہے۔ خدا کی قسم میں نے اس شئے کو حلال سمجھا ہے جس کو آپ نے حلال قرار دیا ہے اور اس کو حرام سمجھا ہے جس کو آپ نے حرام قرار دیا ہے، میں آپ کے امر کا منتظر ہوں۔ پس میں آپ پر فدا ہوجاو ں کیا میں اپنی آنکھوں سے آپ کی کامیابی کے دن دیکھ سکوں گا؟‘‘
اس روایت میں آخری جملہ غور طلب ہے، آنے والا امام سے سوال کرتا ہے: کیا آپؑ یہ سمجھتے ہیں کہ میں اپنی آنکھوں سے آپؑ کی کامیابی کے دن دیکھ سکوں گا ؟ کیونکہ میں آپؑ کے امر ، یعنی آپؑ کی حکومت دیکھنے کا منتظر ہوں۔ اس دور میں امر یا ھذا الامر ی امرکم کی تعبیریں حکومت کے معنی میں استعمال ہوتی تھیں۔ اس طرح کی تعبیر کی ائمہ علیہم السلام اور ان کے اصحاب اور ان کے مخالفین ہر ایک کے درمیان ان ہی معنوں میں مستعمل تھیں۔ مثلاً مامون رشید سے گفتگو کرتے ہوئے ہارون کہتا ہے: واللّٰہ لو تنازعت معي في ھذا الامر ۔ "بخدا اس امر (خلافت)کے سوا ان سے ہمارا کوئی تنازع نہیں ہے۔”
ظاہر ہے کہ یہاں ’’ ھذا الامر ‘‘ سے خلافت و امامت ہی مراد ہے۔ لہذا مذکورہ بالا روایت میں ’’ انتظر امرکم ‘‘ کا مطلب امام کی حکومت و خلافت کا انتظار ہے۔ بہرحال وہ شخص سوال کرتا ہے کہ مولا! کی آپؑ کو امید ہے کہ میں اس وقت تک زندہ رہوں گا اور آپؑ کی حکومت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں گا؟
امام علیہ السلام نے اس کو اپنے قریب بلایا اور اپنے پہلو میں جگہ عنایت فرمائی ، پھر فرمایا :
ايھا الشيخ ان علي بن الحسين اتاہ رجل فسالہ عن مثال الذي سئلتني عنہ
اے شیخ علی بن الحسین علیہ السلام کے پاس ایک شخص آیا تھا اوراس نے بھی ان سے یہی سوال کیا تھا جو تو نے مجھ سے کیا ہے ۔
البتہ مجھے سید سجاد علیہ السلام سے مروی روایتوں میں یہ سوال نہیں مل سکا۔ چنانچہ اگر سید سجاد علیہ السلام کے سامنے اس قسم کی گفتگو مجمع عام میں ہوئی ہوتی تو دوسرے بھی اس سے واقف ہوتے اور بات ہم تک بھی ضرور پہنچتی لہذا گمان غالب ہے کہ امام سجاد علیہ السلام نے جو بات رازدارانہ طور پر فرمائی ہے یہاں امام محمد باقر علیہ السلام نے وہی بات علی الاعلان ارشاد فرمائی ہے۔ امام فرماتے ہیں:
ان تمت ترد عليٰ رسول اللّٰہ و عليٰ علي والحسن والحسين وعليٰ علي بن الحسين و يثلج قلبک و يبرد فوادک و تقرعينک و تستقبل الروح والريحان مع الکرام الکاتبی ن وان تعيش تري ما يقر اللّٰہ بہ عينک و تکون معنا في السنام لاعليٰ
پس امام اس صحابی کو مایوس نہیں کرتے ، فرماتے ہیں :اگر موت آگئی تو پیغمبر اسلام اور اولیائے کرام کی ملاقات سے شرفیاب ہوگئے اور اگر زندہ رہے تو ہمارے ساتھ رہو گے۔
امام محمد باقر علیہ السلام کے کلام میں اس طرح کی تعبیریں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام اپنے شیعوں کو مستقبل کے بارے میں پر امید رکھنا چاہتے ہیں۔ کافی میں نقل ہونے والی ایک روایت میں قیام کے لئے وقت کا تعین بھی ہوا ہے اور بظاہر یہ چیز بڑی عجیب سی لگتی ہے:
عن ابی حمزہ الثمالي بسند عال، قال سمعت ابا جعفر علیہ السلام يقول:
يا ثابت ، ان اللّٰہ تبارک و تعاليٰ قد وقت ھذا الامر في السبعين فلما ان قتل الحسين علیہ السلام اشتد غضب اللّٰہ تعاليٰ عليٰ اھل الارض فاخرہ اليٰ اربعين و مائۃ و حد ثناکم و اذعتم الحدی ث فکشفتم قناع الستر ولم يجعل اللّٰہ لہ بعد ذلک و قتا عندنا و يمحو االلّٰہ و يثبت و عندہ ام الکتاب
خدا وند عالم نے 70 ھ کو حکومت علوی کی تشکیل کے لئے مقدر فرمایا تھا لیکن امام حسین علیہ السلام کے قتل نے خدا وند عالم کو لوگوں سے اتنا ناراض کردیا کہ اس نے اس وقت کو 140 ھ تک ملتوی کردیا اور پھر ہم نے تم کو اس وقت کی خبردی اور تم نے اس کو افشاءکردیا اور پردہ راز کو اس سے اٹھادیا لہذا اب پروردگار عالم نے ہم کو اس وقت کی کوئی خبر نہیں دی ہے اور خدا کسی بھی چیز کے بارے میں جیسا چاہتا ہے محو یا اثبات کردیتا ہے، دفتر تقدیر اسی کے پاس ہے ۔
ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں: فحدثت بذلک ابا عبدا للّٰہ علیہ السلام فقال : قد کان کذلک
میں نے امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں اس کا تذکرہ کیا ، آپؑ نے فرمایا : ہاں ایسا ہی تھا۔
اقتباس از :ہمارے ائمہ اور سیاسی جد و جہد

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button