سلائیڈرمقالات قرآنی

شرک، نا قابل معافی گناہ

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس
1۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدِ افۡتَرٰۤی اِثۡمًا عَظِیۡمًا﴿النساء:48 ﴾
اللہ اس بات کو یقینا معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ (کسی کو) شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے علاوہ دیگر گناہوں کو جس کے بارے میں وہ چاہے گا معاف کر دے گا اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا اس نے تو عظیم گناہ کا بہتان باندھا۔
تفسیر آیت:
۱۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ: اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ شرک کے علاوہ باقی گناہوں کے ارتکاب میں کوئی حرج نہیں، بلکہ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ شرک اتنا بڑا گناہ ہے کہ اللہ کی رحمت و مغفرت ہر گناہ سے زیادہ وسیع ہونے کے باوجود شرک اس کے دائرہ رحمت و مغفرت میں نہیں آتا۔
دوسرا شرک ناقابل معافی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان جب شرک اور کفر کی حالت میں ہوتا ہے اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک گرداننے سے باز نہیں آتا تو یہ قابل درگزر نہیں ہے، کیونکہ شرک کی حالت میں انسان اللہ کی بندگی میں داخل ہو ہی نہیں سکتا، بلکہ یہ اللہ کی شان میں گستاخی ہے اور بند گی کے منافی ہے۔ لہٰذا جو شرک کے جرم میں ارتکاب کی حالت میں ہو گا، اللہ اسے معاف نہیں کرے گا۔ ہاں اگر شرک کو چھوڑ کر توحید کی طرف آ جائے تو معاف ہو گا۔
۲۔ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ: یہ آیت ان آیات میں سے ہے جن سے مومن اطمینان حاصل کرتا ہے کہ اللہ شرک کے علاوہ باقی گناہوں کو معاف کر دے گا۔
صاحب مجمع البیان فرماتے ہیں:
اللہ نے موحد مؤمنوں کو بیم و امید اور عدل خدا و فضل خدا کے درمیان کھڑا کیا ہے اور یہی مؤمن کی صفت ہے۔
یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ ، شرک کے علاوہ گناہوں کو معاف کر دے گا، مگر ہر ایک کو نہیں، لِمَنۡ یَّشَآءُ جس کو وہ چاہے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص حالت شرک میں مر جائے اس کے لیے معانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن اگر موحد گناہ گار مر جائے تو اس کے لیے معافی کی گنجائش ہے۔ اس کی شفاعت ہو سکتی ہے۔ خود اللہ معاف کر سکتا ہے۔
احادیث
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
لو وزن رجاء المؤمن و خوفہ لاعتدلا ۔ (جامع الاخبار صفحہ ۹۷)
اگر مؤمن کی امید اور خوف کا وزن کیا جائے تو برابر ہو جائے۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے :
ما فی القران آیۃ ارجی عندی من ھذہ الاٰیۃ ۔ (مجمع البیان ذیل آیہ)
میرے نزدیک اس آیت سے زیادہ امید افزا آیت قرآن میں نہیں ہے۔
دوسری جگہ آپؑ سے مروی ہے۔
2۔ مَا فِیْ الُقْرآنِ اَیَۃٌ اَحَبَّ اِلیَّ مِنْ قَولِہِ عَزَّ وَ جَلّ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ (التوحید صفحہ ۴۰۹ باب الامر و النھی)
قرآن میں کوئی آیت ایسی نہیں جو اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ سے زیادہ مجھے پسند ہو۔
اہم نکات
۱۔ شرک کے علاوہ گناہوں کو اللہ معاف فرمائے گا، مگر اس کے لیے بندے کو لِمَنۡ یَّشَآءُ شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 325)
2۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا﴿النساء: ۱۱۶﴾
ترجمہ: اللہ صرف شرک سے درگزر نہیں کرتا اس کے علاوہ جس کو چاہے معاف کر دیتا ہے اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا وہ گمراہی میں دور تک چلا گیا۔
تفسیر آیات
اس مضمون کی آیت ۴۸ اسی سورہ میں پہلے بھی ذکر ہوئی ہے، لیکن دو باتوں کی وجہ سے اسی مطلب کو یہاں دوبارہ ذکر فرمایا ہے: ایک تو یہ بتانے کے لیے کہ رسول (ص) کی مخالفت اور اطاعت رسول (ص) میں مومنین کی روش کے خلاف چلنا شرک اور ناقابل معافی ہے۔ دوسری یہ کہ کسی اہم مطلب کو ذہنوں میں راسخ کرنے کا واحد ذریعہ تکرار ہے۔ جیساکہ تجارتی اشتہارات میں تکرار اسی وجہ سے عمل میںآتا ہے۔
آیت ۴۸ میں بتایا گیاہے کہ مشرک اللہ کی بندگی کے دائرے سے خارج ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ جو مانگتا ہے، غیر اللہ سے مانگتا ہے۔ مشرک اللہ کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتا، تاکہ اللہ اسے معاف کر دے۔ وہ تو بتوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ وہ اپنا رخ بتوں کی طرف کرے اور اللہ اسے معاف کر دے۔
اہم نکات
۱۔ شرک اللہ کی بندگی سے خروج کا نام ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 401)
حُنَفَآءَ لِلّٰہِ غَیۡرَ مُشۡرِکِیۡنَ بِہٖ ؕ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخۡطَفُہُ الطَّیۡرُ اَوۡ تَہۡوِیۡ بِہِ الرِّیۡحُ فِیۡ مَکَانٍ سَحِیۡقٍ﴿الحج:۳۱﴾

ترجمہ: صرف (ایک) اللہ کی طرف یکسو ہو کر، کسی کو اس کا شریک بنائے بغیر اور جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے تو وہ ایسا ہے گویا آسمان سے گر گیا پھر یا تو اسے پرندے اچک لیں یا اسے ہوا اڑا کر کسی دور جگہ پھینک دے۔
تشریح کلمات
حُنَفَآءَ:( ح ن ف ) حنیف کی جمع۔ یکسوئی کے معنوںمیں ہے۔
فَتَخۡطَفُہُ:( خ ط ف ) الخطف کسی چیز کو سرعت سے اچک لینا۔
سَحِیۡقٍ:(س ح ق ) السحق ریزہ ریزہ کرنے کے معنوں میں ہے اور دور کر دینے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
تفسیر آیات
۱۔ حُنَفَآءَ لِلّٰہِ غَیۡرَ مُشۡرِکِیۡنَ: بت پرستی اور باطل گفتار سے اجتناب کرو۔ صرف اللہ کی طرف یکسوئی اختیار کرو۔ ایک ہی معبود، ایک ہی رب اختیار کرو۔ اس میں خود انسان کی اپنی قدر و منزلت کا تحفظ ہے۔ اس ذات کی بارگاہ کی طرف یکسوئی اختیار کرنا جو کمال مطلق کی مالک ہے، انسان کے لیے بھی ایک قسم کا کمال ہے۔
۲۔ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ: جب کہ شرک اختیار کرنا خود انسانی مقام و منزلت کی اہانت ہے۔ جس انسان کو اللہ تعالیٰ نے احسن تقویم میں بنایا وہ ایک جامد پتھر کے سامنے جھک جائے۔ جو انسان اس کائنات میں اللہ کا عظیم معجزہ ہے وہ ایک بے شعور چیز کی بندگی کرے۔ یہ ایسا تنزل اور انحطاط ہے جیسے کوئی آسمان سے گر کر زمین بوس ہو جاتا ہے اور اس کا جسم پاش پاش ہو جاتا ہے۔ انسانی شکل و صورت تک برقرار نہیں رہتی اور درندوں کا لقمہ بن جاتا ہے۔
۳۔ اَوۡ تَہۡوِیۡ بِہِ الرِّیۡحُ: یاخس و خاشاک کی طرح بے حیثیت ہو جاتا ہے اور ہوا اسے اڑا کر دور جگہ، کسی کھائی میں پھینک دیتی ہے۔
اہم نکات
۱۔ اللہ تعالیٰ کی طرف یکسوئی سے حدود اللہ کا احترام ہو سکتا ہے۔
۲۔ شرک باللہ خود انسان کی اپنی قدروں کے منافی ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 5 صفحہ 318)
شرک ظلم عظیم
وَ اِذۡ قَالَ لُقۡمٰنُ لِابۡنِہٖ وَ ہُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشۡرِکۡ بِاللّٰہِ ؕؔ اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ﴿لقمان:۱۳﴾
ترجمہ: اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: اے بیٹا! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
تفسیر آیات
۱۔ وَ اِذۡ قَالَ لُقۡمٰنُ لِابۡنِہٖ: واقع بین حکیم لقمان اپنی حکمت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی حکمت کا آغاز اپنے فرزند کی تربیت و تعلیم سے کرتے ہیں۔ اس سے ہم بجا طور پر یہ سمجھ سکتے ہیں کہ والدین پرسب سے پہلی ذمے داری اولاد کی تربیت ہے۔
۲۔ لَا تُشۡرِکۡ بِاللّٰہِ: اس تربیت میں سب سے پہلی بات توحید ہے۔ چنانچہ حکمت کا تقاضا بھی توحید اور نفی شرک ہے۔
۳۔ اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ: شرک کا مرتکب اپنے آپ کو اللہ کی بندگی کے دائرے سے خارج کرتا اور ایک ناچیز کو رب العالمین کے مقابلے لاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا زیادتی ہو سکتی ہے۔
اہم نکات
۱۔ شرک باللہ عظیم ظلم ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 6 صفحہ 388)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button