سیرتسیرت امام مھدیؑ

غیبت امام کا فلسفہ اور عوامل

علامہ محمد علی فاضل  ؒ

اس میں شک نہیں کہ الہی پیشواؤں کی قیادت وامامت کا اصل مقصد دنیا کی ہدایت اور انہیں منزل مقصود تک پہنچانا ہے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب دنیا والوں میں اس سے فائدہ اٹھانے کی آمادگی بھی ہو، ورنہ بقول شاعر مشرق

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

راہ دکھلائیں کسے رہرو منزل ہی نہیں

کے مصداق جب    بہرہ مندی  کرنے والا کوئی نہ ہو تو پھر الہی پیشواؤں کے لوگوں میں رہنے کا کوئی بھی ثمره حاصل نہیں کر سکے گا۔ اسی بناپر یہ بات بڑے افسوس سے کہنا  پڑتاہے کہ ان آسمانی پیشواؤں کو روز اول ہی سے دنیا والوں کے ہاتھوں مصائب و مشکلات ایذا رسانیوں اور شدائد کا سامنا کرناپڑا۔ اور جن لوگوں کو ان کی ذات سے فائدہ اٹھانا تھا وہی ان کی جان کے دشمن ہوگئے۔ بالخصوص نویں امام حضرت محمد تقی جواد علیہ السلام سے لے کر گیارہویں امام حسن عسکری علیہ السلام کی دینی سرگرمیوں اور خدمات کو محدودسے محدود تر کر دیا گیا ہے۔ اور پھر خصوصی طور پر یہ محدودیت دسویں اور گیارھویں امام علی نقی اور حسن عسکری علیہ السلام کے لیے اور بھی شدت اختیار کرگئی جس سے معلوم ہوگیا کہ اسلامی امہ میں ان الہی رہبروں سے بہرہ مندی کالازمی نصاب میں کس حد تک فقدان پایاجاتا ہے۔ اسی لیے خدائی حکمت اور الہی مشیت کا تقاضا یہ ہوا کہ اپنے بارھویں رہبر کو پردہ غیبت میں چھپادیا اور جب دیکھے گا کہ اسلامی امت میں آمادگی پیدا ہو گئی ہے تواسے ظہور کا حکم دے گا۔ البتہ غیبت کے تمام اسباب و عوامل ہمیں اچھی طرح معلوم نہیں ہیں لیکن جو ہم نے عرض کیا ہے شاید اس کا یہی اہم نکتہ ہو۔ اسلامی روایات جن عوامل اور اسباب کی نشاندہی کرتی ہیں ان کی تین قسمیں ہیں۔

: الف۔ اسلامی امہ کی آزمائش

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ خداوند  عالم کا ابتدا ہی سے یہ طریقہ کار چلا آرہا ہے کہ وہ اپنے بندوں کی آزمائش کرے اور اس آزمائش کے نتیجہ میں اپنے خالص، صالح اور پاکدل افراد کا انتخاب کرے تاکہ اس کے بندے ایمان، صبر اور تسلیم ورضا کے پر تو میں اور اوامر الہی کی پیروی کرتے ہوئے تربیت حاصل کریں اور کمال کی حد تک جا پہنچیں اس طرح سے ان کی پوشیده استعداد دنیا کے سامنے جلوہ گرہو۔ بعینہ حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ کی غیبت بھی لوگوں کی آزمائش کا ایک اہم ذریعہ  ہے لہذا جن لوگوں کا اس غیبت پر پختہ ایمان نہیں ہے ان کے باطن کی کیفیت ظاہر ہو جاتی ہے اور وہ شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں لیکن جن کا ایمان پختہ ہوتا ہے اور  ایمان دل و جان میں سما چکا ہوتا ہے ان کے آنجناب کے ظہور کے انتظار کی وجہ سے صبر و استقلال میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور ان کی پختگی اور شائستگی پروان چڑھتی رہتی ہے جس کے نتیجے میں خدائی خیر اور جزا کے بلند ترین درجات کو حاصل کر لیتے ہیں۔

شیخ طوسی اپنی کتاب "الغیبۃ” ص ۲۰۴ میں نعمانی اپنی کتاب الغیبت ص ۵۴ا میں مجلسی اپنی کتاب بحار الانوار جلد ۵۱ ص ۱۵۰

میں اور کلینی اپنی کتاب اصول کافی جلد اول ص ۳۳۷) میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا: جب میرا پانچواں فرزند (حضرت مهدی) غائب ہو گا تو تم اپنے دین کا خاص خیال رکھنا مبادا کوئی شخص تمہیں دین سے خارج کر دے اس کی غیبت ضرور ہوگی اور اس قدر طویل ہو گی کہ مومن لوگ بھی اپنے عقیدے سے پھر جائیں گے کیونکہ الله تعالی اس کی غیبت کے ذریعے اپنے بندوں کی آزمائش فرمائے گا۔

شیخ طوسی اپنی کتاب الغیبہ ص ۲۰۳ ص ۲۰۷ میں، آیت اللہ لطف الله صافی گلپایگانی اپنی کتاب منتخب الاثر ص۳۱۴ ص۳۱۵ تحریر فرماتے ہیں کہ پیغمبر خدا اور ائمه اطهار علیهم السلام کے فرامین مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کے ذریعہ آزمائش خداوند عالم کی سخت ترین آزمائشوں میں سے ایک ہے اور اس کی دو صورتیں ہیں:

ا۔ خود اصل غیبت ہے جو بہت طولانی ہوگی۔ جس کی وجہ سے بہت سے لوگ شکوک وشبہات کا شکار ہو جائیں گے کچھ تو آپ کی ولادت کے بارے میں اور کچھ لوگ آپ کی طولانی عمر کے بارے میں شک وشبہ کا اظہار کریں گے۔ اور آزمودہ مخلص اور عمیق معرفت رکھنے والوں کے سوا کوئی بھی آپ کی امامت کے عقیدے اور ایمان پر باقی نہیں رہے گا۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک مفصل حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں: مهدی اپنے شیعوں اور پیروکاروں کی نگاہوں سے غائب ہو جائیں گے۔ جن لوگوں کے دلوں کو خداوند عالم ایمان کیلئے شائستہ اور لائق قرار دے گا ان کے سوا کوئی شخص ان کی امامت پر ثابت قدم نہیں رہے گا۔

2۔ آپ کی غیبت کے زمانے میں مقتدر شخصیتوں اور ناگوار حالات کی وجہ سے لوگوں کو جو واقعات درپیش ہوں گے وہ انہیں ہلا کر رکھ دیں گے۔ وہ اس طرح کہ ایمان کی حفاظت اور دین میں استقامت بہت مشکل کام ہو جائے گا۔ اور لوگوں کے دین و ایمان کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ (نوید امن وامان آیت الله صافی گلپایگانی ص 177-178)

ب– امام کی جان کی حفاظت

خداوند عالم نے غیبت کے ذریعہ سے امام زمانہ کی جان کی حفاظت فرمائی ہوئی ہے کیونکہ اگر آپ اپنی زندگی کے آغاز ہی سے لوگوں کے در میان ظاہر ہوجاتے  تو انہیں شہید کر دیا جاتا جیسا کہ ہم اس پر تفصیل سے روشنی ڈال چکے ہیں اسی چیز کے پیش نظر اگر آپ اپنے وعدہ سے پہلے ظہور کرتے ہیں پھر بھی آپ کی جان کو خطرہ لاحق ہے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ خدائی احکام کی انجام دہی اور اصلاح امت کے بلند مقصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک صحابی زرارہ کہتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے فرمایا”امام منتظراپنے قیام سے پہلے ایک لمبے عرصے تک لوگوں کی نظروں سے غائب ہوں گے، میں نے عرض کیا کس وجہ سے فرمایا:اپنی جان کو خطرہ کے پیش نظر : (کافی کلینی، غیبت طوسی، کمال الدین شیخ صدوق، منتخب الاثر صافی گلپایگانی، غیبت نعمانی)

ج۔ طاغوتی طاقتوں کی حکمرانی سے آزادی

ہمارے بارھویں امام حضرت امام مہدی علیہ السلام نے آج تک نہ تو کسی  طاغوتی حکومت کو تسلیم کیا ہے نہ ہی کریں گے خواہ تقیہ کی صورت میں کیوں نہ ہو، کیونکہ آپ کو کسی حاکم یا سلطان سے تقیہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اب تک نہ تو کسی ظالم حاکم اور بادشاہ کی حکومت کو قبول کیا نہ اس کے احکام و قوانین کو تسلیم بلکہ وہ اپنے الہی احکام پر عمل کر رہے ہیں اور خدائی دین کی مکمل طور پر اور بغیر خوف و ڈر کے پابندی کررہے ہیں۔ اور جب ظہور فرمائیں گے احكام الہی کا اجرا فرمائیں گے کسی جابر حاکم یا ظالم بادشاہ کا کوئی خوف نہیں ہوگا( کمال الدين صدوق باب 44 ص280  بحار الانوار مجلسی   جلد 51 ص 152 منتخب الاثر صافی گلپایانی فصل ۲ باب ۵۸ص 268 میں ہے) حسن بن فضال کہتے ہیں  آٹھویں امام حضرت علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: گویا میں اپنے شیعوں کو اپنے تیسرے فرزند یعنی ام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادتکے بعد دیکھ رہاہوں کہ وہ اپنے امام وقت کی تلاش میں سر گرداں ہیں لیکن اس تک ان کی رسائی نہیں ہو پارہی ، فضال نے کہا: میں نے عرض: کیاکہ وہ غائب کیوں ہو جائیں گے ؟ فرمایا اس لیے کہ جب وہ تلوار لے کر قیام کریں گے کسی بھی شخص کی بیعت ان کی گردن پر نہیں ہوگی۔

غیبت صغری اور غیبت کبری

جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ بارھویں امام علیہ السلام کی غیبت کے دو دورانۓ ہیں ایک غیبت صغری کا  اور ایک غیبت کبریٰ کا، غیبت صغریٰ ٢٦٠ ہجری میں شروع ہوئی جس سال گیارہویں امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت ہوئی اور یہ سلسلہ ۳۲۹ ہجری تک جاری رہا یعنی جس سال آپ کے آخری نائب خاص کا انتقال ہوا اور یہ دورانیہ تقریبا انہتر (۲۹) برس پر محیط ہے۔

قارئین گرامی! یہاں پر ہم یہ بھی عرض کرنا ضروری خیال کرتے ہیں که مذکورہ عرصہ غیبت یعنی انہتر برس اس لئے بنتا ہے  کہ اس کا آغاز حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے سال (۲۶۰ ہجری) سے ہوتا ہے اور آخری نائب کی وفات کی وفات ٣٢٩ ہجری  میں ہوتی ہے تواس طرح انہتر سال ہوتے ہیں۔ لیکن مرحوم شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ اس غیبت کا آغاز  آپ کے سال ولادت کو قرار دیتے ہیں جو ٢٥٥ ہجری  ہے اور ٢٥٥ سے  ٣٢٩ ہجری تک کا عرصہ پچھتر سال بنتا ہے (ملاحظہ ہو ارشاد شیخ  مفید ص ٤٣٦) مرحوم شیخ مفید کا نظریہ اس لحاظ سے ہے کہ حضرت مهدی عجل اللهم فرجہ اپنے والد گرامی  کے زمانہ حیات میں بھی ایک طرح کی غیبت کی زندگی گزارتے  رہے کیونکہ ان کا عام طور پر  لوگوں کے ساتھ میل جول نہیں رہتا تھا سوال چند خاص خاص شیعوں  کو زیارت  کرانے کے اس لیے مجموعی طور پر  آپ کی زندگی عرصه غیبت میں شمار ہوتی ہے۔ شیخ مفید  علیہ الرحمہ کے اسی نظریہ کو طبرسی ، سید محسن امین اور آیت اله سید صدر الدین صدر جیسے محققین نے اپنی تحقیق کی بنیاد  قرار دیا ہے اور امام  کی غیبت  صغریٰ کا آغاز آپ کی ولادت کے سال ٢٥٥ کو قرار دیکر ٣٢٩ تک کو غیبت صغریٰ کے چوہتر سال قرار دیتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو  اعلام الوری طبرسی ص١٤٤٤ عیان الشیعہ سید محسن امین جلد ۲ ص ٤٦ اور کتاب المہدی سید صدر الدین صدر ص ١٨ ) عرض غیبت صغری کے دوران میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کا اپنے شیعوں کے ساتھ رابطہ مکمل طور منقطع نہیں ہوا تھا بلکہ کچھ احباب محدود طریقے پر  آپ سے ملاقات کیا کرتے تھے۔

اس کی تفصیل یوں بیان کی جاسکتی ہے کہ غیبت کے اس تمام عرصے میں کچھ معتبر اور باوثوق افراد آپ کے ساتھ نائب خاص کی حیثیت سے تعلق رکھتے تھے (جن کا ذکر  بعد میں کیا جائے گا) اور امام علیہ السلام کے شیعہ انہی کے ذریعہ آپ کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے اور اپنی مشکلات و مسائل کو امام کی بارگاہ تک پہنچاتے تھے اور انہی کے ذریعه امام علیہ السلام کا جواب ان کو ملتا تھا۔ حتی کہ بعض اوقات ان کو امام  والا مقام کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہو جایا کرتاتھا۔ تو  غیبت کے اس عرصے کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ امام علیہ السلام غائب تھے بھی اور نہیں بھی۔ غیبت کے اس دورانئے  کو غیبت کبری کے لیے شیعوں کو آمادہ کرنے کے عرصے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس دورانیہ میں بھی امام کے ساتھ شیعوں کارابطہ منقطع ہو گیا۔ اور انہیں ہدایات ملنے لگیں کہ اپنے معاملات میں حضرت کے عموی نائبین یعنی ان فقہاء کی طرف رجوع کریں جن میں خاص شرائط پائی جائیں۔ اور وہ اسلای احکام سے بھی اچھی طرح واقف ہوں۔ اگر غیبت کبری اچانک اور یکدم عمل میں آجاتی تو امکان تھا کہ اذہان وافکار کے لیے بہت بڑی گمراہی کا موجب بن جائے اور لوگوں کے ذہن اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوں لیکن حضرات ائمه اطهار علیهم السلام کی بارہویں امام علیہ السلام کی نیت کے بارے میں مدبرانہ حکمت عملی کے علاوہ خود غیبت صغریٰ کے دوران بھی بتدریج ذہنوں کو آمادہ کیا جاتا رہا پھر غیبت کاملہ کا دور شروع ہو گیا۔ اسی طرح غیبت صغری کے دوران خاص نائبین کے رابطے کے کا امکان اور خاص شیعوں کی زیارت کا امکان بھی ختم ہو گیا۔ البتہ اس دورانیے  میں حضرت کی ولادت اور حیات کا مسئلہ بڑی حد تک ثابت ہو چکا۔غیبت صغری  کے بعد ایک اور غیبت کا آغاز ہو گیا ہے جسے غیبت کبرٰی کہتے ہیں اسی طرح غیبت صغری کے زمانے میں امام علیہ السلام کے ساتھ نائبین خاص کا رابطہ اور مومنین کی امام کے حضور میں شرفيابی اور چہرے کی زیارت سے آپ کی ولادت باسعادت اور حیات مبارکہ کا مسئلہ بھی دنیا کے لیے زیادہ سے زیادہ یقینی ہو گیا۔ غیبت صغری کے بعد غیبت کبری کا دورانیہ شروع ہو گیا جو تاحال جاری ہے اور جب تک خدا چاہے گا امام پردہ غیبت میں رہیں گے اور جب اللہ تعالی آپ کو ظہور و قیام کا اذن دے گا تو ظہور فرمائیں گے۔ امام مہدی علیہ السلام کی دونوں غیبتوں کے بارے میں آپ کی ولادت باسعادت سے بھی بہت پہلے ائمه اطهار علیهم السلام اللّٰہ کی زبانی پیش گوئی کی جا چکی تھی، اور ایک زمانے سے راویان اور محدثین نے اسے حفظ بھی کر لیا تھا اور نقل بھی کرتے رہے جو کتب احادیث میں درج ہے اور ہم یہاں پر نمونہ کے طور پر چند ایک احادیث کو بیان کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:  حضرت امیر المومنین علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں ہمارے غائب (امام) کی دو غیبتیں ہوں گی جو ایک دوسری زیادہ لمبی ہو گی اور اس کی غیبت کے دوران صرف وہی لوگ اس کی امامت کے عقیدے پر کاربند رہیں گے جن کایقین پختہ اور معرفت مکمل ہو گی (ینابیع المودہ شیخ سلیمان قندوزی جلد ۳ ص ۸۲ باب ١٧)

۲۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں (امام) قائم کی دو غیبتیں ہوں گی اور ان دو میں سے ایک کے دوران لوگ کہیں گے کہ ان کا انتقال ہو چکا ہے۔ (غيبت نعمانی ص١٧٣)

٣۔ ابوبصیر کہتے ہیں میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا امام باقر علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ قائم آل محمد (ع) کی دو غیبتیں ہوں گی جن میں سے ایک دوسری سے بڑی ہو گی۔ تو یہ سن کر امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا بالکل اسی طرح ہے“(ایضا)

٤۔ کتاب غیبت نعمانی ص١٧٠   منتخب الاثر ص ٢٥١ تا ٢٥٣ فصل دوم باب ٢٦ میں ہے امام قائم علیہ السلام کی دو غیبتیں ہوں گی۔ ایک مختصر اور دوسری طولانی۔۔۔ مذکورہ تصریحات کی روشنی میں تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ پیش گوئیاں صحیح ثابت ہوئی ہیں اور ائمه اطهار علیهم السلام کے فرامین کے مطابق دونوں غیبتیں وقوع پذیر ہو چکی ہیں۔

غیبت کبری کادور

جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ حضرت امام عصر حجت بن الحسن علیہ السلام کے آخری نائب خاص کی وفات کے بعد غیبت کبری کے دور کاآغاز ہوگیا اور غیبت کبری کے اس دور میں ایسے علماء مام زمانہ کی نیابت کے اہل ہونگے جن میں وہ شرائط پائی جائیں گی جو امام علیہ السلام نے بیان فرمائی ہیں۔ ہم بتا چکے ہیں کہ نیابت خاصہ یہ ہے کہ حضرت امام علیہ السلام کسی خاص شخص کا اس کے نام اور نشانیوں کے ساتھ اپنے نائب ہونے کا تعارف کرائیں لیکن نیابت عامہ یہ ہے کہ امام علیه السلام کچھ شرائط اور خصوصیات کو بیان فرمائیں کہ جو بھی شخص ان پر پورا وہ امام کا عمومی نائب ہو گا اور دین و دنیا دونوں کے لحاظ سے امام علیہ السلام کی نیابت کا اہل ہو گا۔ اور اس میں کسی خاص زمانے کی شرط نہیں ہے غیبت صغری کے اختتام سے لیکر عصر ظهور تک اسکی شرائط اور خصوصیات کا حامل امام کا نائب اور شیعیان امام کا مرجع اور پیشوا ہو گا۔ حضرات ائمہ اطہار علیهم السلام بالخصوص حضرت حجت بن الحسن العسکری عجل الله فرجه الشریف نے بہت سی روایات میں ان شرائط کو بیان فرمایا ہے اور غیبت کبری کے دوران مسلمانوں پر یہ فرض فرمایا ہے کہ ہمارے جن علماء میں یہ شرائط پائی جائیں انہی کی طرف رجوع کریں اور ان کے احکام پر عمل کریں۔ ان روایات میں سے چند ایک کو ہم بھی یہاں پر بیان کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

عمر بن حنظلہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا:  "اگر دو شیعہ افراد کے درمیان قرض یا وراثت کے بارے میں اختلاف پیدا ہو جائے اور وہ حکومت وقت اور قاضیوں کی طرف رجوع کریں تو کیا یہ کام جائز ہے؟ یہ سن کر امام علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص حق یا باطل کے سلسلے میں ان کی طرف رجوع کرے گاتو در حقیقت وہ طاغوت کی طرف رجوع کرے گا اور جو کچھ ان کے فیصلوں کی وجہ سے اسے ملے گا وہ حرام ہو گا خواہ وہ اس کا حق ہی کیوں نہ ہو کیونکہ وہ اسے اس نے طاغوت کے حکم سے حاصل کیا ہوتا ہے کہ جس کے متعلق الله نے حکم دیا ہے کہ اس کا انکار کریں۔ اور وہ فرماتا ہے (يريدون أن يتحاکموا إلى الطاغوت وقد أمروا أن یکفروا بہ۔۔۔) (النساء٦٠)ترجمہ: وہ چاہتے ہیں کہ طاغوت کو اپنے فیصلے کے لیے حاکم بنائیں۔ حالانکہ انہیں حکم یہ دیا گیا ہے کہ طاغوت کا انکار کریں۔ راوی نے پوچھا کہ پھر کیا کریں؟ فرمایا: انہیں یہ دیکھنا چاہیے کہ تم میں سے کون شخص ہماری حدیث کو بیان کرتا ہے اور ہمارے حلال و حرام میں غور وفکر کرتا ہے اور صاحب نظر ہے اور ہمارے احکام و قوانین کو پہچانتا ہے تو تم ایسے ہی شخص کے پاس اپنے مقدمات کو فیصلوں کے لیے لے جایا کرو کیونکہ اسے میں نے تمہارے اوپر حاکم بنایا ہے اگر وہ ہمارے فیصلوں کے مطابق فیصلے کرے لیکن کوئی شخص اس کے فیصلوں کو مسترد کر دے تو وہ خدا کے حکم کو بے وقعت سمجھے گا اور ہمیں مسترد کرے گا "الراد علینا کا الراد علی الله وهو علی حد الشرک” اور ہمیں مسترد کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ کوئی خدا کو مسترد کردیتا ہے اور یہ بات خداکے ساتھ شرک کرنے کی حد تک ہے۔ کتاب کافی کلینی کی جلد اول ص ٦٧ کتاب فضل العلم۔ وسائل الشیعه حر عاملی جلد۱۸باب ١١ ص ۹۹) حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا یہ فرمان ایک کلی اور عمومی حیثیت کا حامل ہے جس کا اطلاق تمام ان افراد پر ہو سکتا ہے جن میں شرائط موجود ہوں اور امام جعفر صادق علیہ السلام صرف ایک جزئی اختلاف پر کہ ، طاغوتی حکومت کے کسی قاضی کے پاس مقدمہ لے جایا جائے۔ تو وہ اس بات پر ہر گز راضی نہیں ہوں گے کہ مسلمانوں کے تمام امور ظالم حکام کی زیر نگرانی چلائے جائیں بلکہ وہ ان امور کو چلانے کے لیے شیعہ عادل فقہاء کی زیر نگرانی چلانے کا حکم دے رہے ہیں۔

۲۔ اسحاق بن یعقوب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے دوسرے نائب عمر بن عثمان سے درخواست کی کہ میرا خط امام کی خدمت میں لے جائیں۔ اس خط میں میں نے کچھ مشکل سوالات پوچھے تھے جن کا امام علیہ السلام نے اپنے مبارک ہاتھوں سے جواب تحریر فرمایا جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ : عصر غیبت میں پیش آنے والے مسائل کے بارے میں ہم کس کی طرف رجوع کریں؟ آپ نے لکھا ” واما الحوادث الواقعۃ فارجعوا فیھا الی رواۃ حدیثنا فانھم حجتی علیکم وانا حجۃ اللہ علیھم” جو واقعات رونما ہوں تو تم ہماری حدیث کے راویوں کی طرف رجوع کر وہ میری طرف سے تم پر حجت ہیں اور میں خدا کی طرف سے ان پر حجت ہوں (اعلام الوری طبرسی ص ٤۵۲، غیبت شیخ طوسی ص ١١٧ ،وسائل الشیعہ حر عاملی جلد ۱۸ ص ١٠١ ، احتجاج طبرسی جلد ۲ ص ١٦٢)

علامہ محمد علی فاضل ؒ کی کتاب ” سیرت چہاردہ معصومین علیھم السلام ” سے اقتباس

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button