سیرتسیرت جناب رسول خداؐ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب اور سنتیں

ادب و سنت

رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب و سنن کو پیش کرنے سے قبل مناسب ہے کہ ادب اور سنت کی حقیقت کے بارے میں گفتگو ہو جائے۔
ادب: علمائے علم لغت نے لفظ ادب کے چند معانی بیان کئے ہیں ، اٹھنے بیٹھنے میں تہذیب اور حسن اخلاق کی رعایت اور پسندیدہ خصال کا اجتماع ادب ہے۔
(لغت نامہ دہخدا مادہ ادب)
مندرجہ بالا معنی کے پیش نظر در حقیقت ادب ایسا بہترین طریقہ ہے جسے کوئی شخص اپنے معمول کے مطابق اعمال کی انجام دہی میں اس طرح اختیار کرے کہ عقل مندوں کی نظر میں داد و تحسین کا مستحق قرار پائے ، یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ "ادب وہ ظرافت عمل اور خوبصورت چال چلن ہے جسکا سرچشمہ لطافت روح اور پاکیزگی طینت ہے "مندرجہ ذیل دو نکتوں پر غور کرنے سے اسلامی ثقافت میں ادب کا مفہوم بہت واضح ہو جاتا ہے _
پہلا نکتہ
عمل اسوقت ظریف اور بہترین قرار پاتا ہے جب شریعت سے اس کی اجازت ہو اور حرمت کے عنوان سے اس سے منع نہ کیا گیا ہو_لہذا ظلم ، جھوٹ، خیانت ، بر ے اور ناپسندیدہ کام کیلئے لفظ ادب کا استعمال نہیں ہو سکتا دوسری بات یہ ہے کہ عمل اختیاری ہو یعنی اس کو کئی صورتوں میں اپنے اختیار سے انجام دینا ممکن ہو پھر انسان اسے اسی طرح انجام دے کہ مصداق ادب بن جائے ۔
(المیزان جلد ۲ ص ۱۰۵)
دوسرا نکتہ
حسن کے اس معنی میں کہ عمل زندگی کی آبرو کے مطابق ہو، کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن اس معنی کے اپنے حقائق سے مطابقت میں بڑے معاشروں مثلاً مختلف اقوام ، ملل ، ادیان اور مذاہب کی نظر میں اسی طرح چھوٹے معاشروں جیسے خاندانوں کی نظر میں بہت ہی مختلف ہے _چونکہ نیک کام کو اچھے کام سے جدا کرنے کے سلسلہ میں لوگوں میں مختلف نظریات ہیں مثلاً بہت سی چیزیں جو ایک قوم کے درمیان آداب میں سے شمار کی جاتی ہیں ، جبکہ دوسری اقوام کے نزدیک ان کو ادب نہیں کہا جاتا اور بہت سے کام ایسے ہیں جو ایک قوم کی نظر میں پسندیدہ ہیں لیکن دوسری قوموں کی نظر میں برے ہیں۔(المیزان جلد ۲ ص ۱۰۵)
اس دوسرے نکتہ کو نگاہ میں رکھنے کی بعد آداب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قدر و قیمت اس وجہ سے ہے کہ آپ کی تربیت خدا نے کی ہے اور خدا ہی نے آپ کو ادب کی دولت سے نوازا ہے نیز آپ کے آداب ، زندگی کے حقیقی مقاصد سے ہم آہنگ ہیں اور حسن کے واقعی اور حقیقی مصداق ہیں _
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"ان الله عزوجل ادب نبیه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی محبته فقال : انک لعلی خلق عظیم”
خدا نے اپنی محبت و عنایت سے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت کی ہے اس کے بعد فرمایا ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلق عظیم پر فائز ہیں۔(اصول کافی جلد ۲ ص ۲ ترجمہ سید جواد مصطفوی)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جو آداب بطور یادگار موجود ہیں ان کی رعایت کرنا در حقیقت خدا کے بتائے ہوئے راستے "صراط مستقیم "کو طے کرنا اور کائنات کی سنت جاریہ اور قوانین سے ہم آہنگی ہے ۔
ادب اور اخلاق میں فرق
باوجودیکہ بادی النظر میں دونوں لفظوں کے معنی میں فرق نظر نہیں آتا ہے لیکن تحقیق کے اعتبار سے ادب اور اخلاق کے معنی میں فرق ہے ۔
علامہ طباطبائی ان دونوں لفظوں کے فرق کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ہر معاشرہ کے آداب و رسوم اس معاشرہ کے افکار اور اخلاقی خصوصیات کے آئینہ دار ہوتے ہیں اس لئے کہ معاشرتی آداب کا سرچشمہ مقاصد ہیں اور مقاصد اجتماعی، فطری اور تاریخی عوامل سے وجود میں آتے ہیں ممکن ہے بعض لوگ یہ خیال کریں کہ آداب و اخلاق ایک ہی چیز کے دو نام ہیں لیکن ایسا نہیں ہے اسلئے کہ روح کے راسخ ملکہ کا نام اخلاق ہے در حقیقت روح کے اوصاف کا نام اخلاق ہے لیکن ادب وہ بہترین اور حسین صورتیں ہیں کہ جس سے انسان کے انجام پانے والے اعمال متصف ہوتے ہیں۔
)المیزان جلد ۱۲ ص ۱۰۶)
ادب اور اخلاق کے درمیان اس فرق پر غور کرنے کے بعد کہا جاسکتاہے کہ خلق میں اچھی اور بری صفت ہوتی ہے لیکن ادب میں فعل و عمل کی خوبی کی علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اخلاق اچھا یا برا ہوسکتاہے لیکن ادب اچھا یا برا نہیں ہوسکتا_
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کی خصوصیت
روزمرہ کی زندگی کے اعمال میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن آداب سے کام لیا ہے ان سے آپ نے اعمال کو خوبصورت و لطیف اور خوشنما بنا دیا اور ان کو اخلاقی قدر و قیمت بخش دی _
آپ کی سیرت کا یہ حسن و زیبائی آپ کی روح لطیف ، قلب ناز ک ا۵ور طبع ظریف کی دین تھی جن کو بیان کرنے سے ذوق سلیم اورحسن پرست روح کو نشاط حاصل ہوتی ہے اور اس بیان کو سن کر طبع عالی کو مزید بلندی ملتی ہے _ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے مجموعہ میں مندرجہ ذیل اوصاف نمایاں طور پر نظر آتے ہیں _
الف: حسن و زیبائی ب: نرمی و لطافت ج: وقار و متانت
ان آداب اور پسندیدہ اوصاف کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جاہل عرب کی بدخوئی ، سخت کلامی و بدزبانی اور سنگدلی کو نرمی ، حسن اور عطوفت و مہربانی میں بدل دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے دل میں برادری کا بیچ بویا اور امت مسلمہ کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتحاد کی داغ بیل ڈالی_
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب
اپنے مدمقابل کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو سلوک تھا اس کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب تین حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں _
۱_ خداوند عالم کے روبرو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب
۲_ لوگوں کے ساتھ معاشرت کے آداب
۳ _ انفرادی اور ذاتی آداب
انہیں سے ہر ایک کی مختلف قسمیں ہیں جن کو آئندہ بیان کیا جائے گا _
خدا کے حضور میں بارگاہ خداوندی میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعائیں بڑے ہی مخصوص آداب کے ساتھ ہوتی تھیں یہ دعائیں خدا سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمیق ربط کا پتہ دیتی ہیں _
وقت نماز
نماز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کا نور تھی ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کو بہت عزیز رکھتے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر نماز کو وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کرتے تھے ، بہت زیادہ نمازیں پڑھتے اور نماز کے وقت اپنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکمل طور پر خدا کے سامنے محسوس کرتے تھے _
نماز کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہتمام کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک زوجہ کا بیان ہے کہ "رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سے باتیں کرتے اور ہم ان سے محو گفتگو ہوتے ، لیکن جب نماز کا وقت آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایسی حالت ہو جاتی تھی گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہم کو پہچان رہے ہیں اور نہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچان رہے ہیں۔(سنن النبی ص ۲۵۱)
منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پورے اشتیاق کے ساتھ نماز کے وقت کا انتظار کرتے اور اسی کی طرف متوجہ رہتے تھے اور جیسے ہی نماز کا وقت آ جاتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مؤذن سے فرماتے۔
"اے بلال مجھے اذان نماز کے ذریعہ شاد کر دو” (سنن النبی ص ۲۶۸)
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے
"نماز مغرب کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بھی کام کو نماز پر مقدم نہیں کرتے تھے اور اول وقت ، نماز مغرب ادا کرتے تھے۔
منقول ہے کہ "رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز واجب سے دو گنا زیادہ مستحب نمازیں پڑھا کرتے تھے اور واجب روزے سے دوگنے مستحب روزے رکھتے تھے۔(سنن النبی ص ۲۳۴)
روحانی عروج میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسا حضور قلب حاصل تھا کہ جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا، منقول ہے کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کیلئے کھڑے ہوتے تھے تو خوف خدا سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ متغیر ہو جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑی دردناک آواز سنی جاتی تھی۔(سنن النبی ص۲۵۱)
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی کپڑا ہے جو زمین پر پڑا ہوا ہے۔
) سنن النبی ص ۲۶۸)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز شب کی تصویر کشی کرتے ہوئے فرمایا ہے :
"رات کو جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سونا چاہتے تھے تو ، ایک برتن میں اپنے سرہانے پانی رکھ دیتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسواک بھی بستر کے نیچے رکھ کر سوتے تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنا سوتے تھے جتنا خدا چاہتا تھا، جب بیدار ہوتے تو بیٹھ جاتے اور آسمان کی طرف نظر کر کے سورہ آل عمران کی آیات( ان فی خلق السموات والارض الخ ) پڑھتے اس کے بعد مسواک کرتے ، وضو فرماتے اور مقام نماز پر پہونچ کر نماز شب میں سے چار رکعت نماز ادا کرتے ، ہر رکعت میں قر أ ت کے بقدر ، رکوع اور رکوع کے بقدر ، سجدہ فرماتے تھے اس قدر رکوع طولانی کرتے کہ کہا جاتا کہ کب رکوع کو تمام کریں گے اور سجدہ میں جائیں گے اسی طرح انکا سجدہ اتنا طویل ہوتا کہ کہا جاتا کب سر اٹھائیں گے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر بستر پر تشریف لے جاتے اور اتنا ہی سوتے تھے جتنا خدا چاہتا تھا_اس کے بعد پھر بیدار ہوتے اور بیٹھ جاتے ، نگاہیں اسمان کی طرف اٹھا کر انہیں آیتوں کی تلاوت فرماتے پھر مسواک کرتے ، وضو فرماتے ، مسجد میں تشریف لے جاتے اور نماز شب میں سے پھر چار رکعت نماز پڑھتے یہ نماز بھی اسی انداز سے ادا ہوتی جس انداز سے اس سے پہلے چار رکعت ادا ہوئی تھی ، پھر تھوڑی دیر سونے کے بعد بیدار ہوتے اور آسمان کی طرف نگاہ کر کے انہیں آیتوں کی تلاوت فرماتے ، مسواک اور وضو سے فارغ ہو کر تین رکعت نماز شفع و وتر اور دو رکعت نماز نافلہ صبح پڑھتے پھر نماز صبح ادا کرنے کیلئے مسجد میں تشریف لے جاتے”۔(سنن النبی ص ۲۴۱)
آنحضرت نے ابوذر سے ایک گفتگو کے ذیل میں نماز کی اس کوشش اور ادائیگی کے فلسفہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:”اے ابوذر میری آنکھوں کا نور خدا نے نماز میں رکھا ہے اوراس نے جس طرح کھانے کو بھوکے کیلئے اور پانی کو پیاسے کیلئے محبوب قرار دیا ہے اسی طرح نماز کو میرے لئے محبوب قرار دیا ہے ، بھوکا کھانا کھانے کے بعد سیر اور پیاساپانی پینے کے بعد سیراب ہو جاتا ہے لیکن میں نماز پڑھنے سے سیراب نہیں ہوتا”۔ (سنن النبی ص ۲۶۹)
دعا کے وقت تسبیح و تقدیس
آپ کے شب و روز کا زیادہ تر حصہ دعا و مناجات میں گذر جاتا تھا آپ سے بہت ساری دعائیں نقل ہوئی ہیں آپ کی دعائیں خداوند عالم کی تسبیح و تقدیس سے مزین ہیں ، آپ نے توحید کا سبق، معارف الہی کی گہرائی، خود شناسی اور خودسازی کے تعمیری اور تخلیقی علوم ان دعاؤں میں بیان فرما دیئے ہیں ان دعاؤں میں سے ایک دعا وہ بھی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کھانا لایا جاتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھا کرتے تھے :
"سبحانک اللهم ما احسن ما تبتلینا سبحانک اللهم ما اکثر ما تعطینا سبحانک اللهم ما اکثر ما تعافینا اللهم اوسع علینا و علی فقراء المومنین”
) اعیان الشیعہ ج۱ ص۳۰۶)
خدایا تو منزہ ہے تو کتنی اچھی طرح ہم کو آزماتا ہے ، خدایا تو پاکیزہ ہے تو ہم پر کتنی زیادہ بخشش کرتا ہے ، خدا یا تو پاکیزہ ہے تو ہم سے کس قدر درگذر کرتا ہے ، پالنے والے ہم کو اور حاجتمند مؤمنین کو فراخی عطا فرما_
بارگاہ الہی میں تضرع اور نیاز مندی کا اظہار
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کی عظمت و جلالت سے واقف تھے لہذا جب تک دعا کرتے رہتے تھے اسوقت تک اپنے اوپر تضرع اور نیاز مندی کی حالت طاری رکھتے تھے ، سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کے آداب کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :
"کان رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یرفع یدیه اذ ابتهل و دعا کما یستطعم المسکین”
)سنن النبی ص ۳۱۵)
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارگاہ خدا میں تضرع اور دعا کے وقت اپنے ہاتھوں کو اس طرح بلند کرتے تھے جیسے کوئی نادار کھانا مانگ رہا ہو_
لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمایاں خصوصیتوں میں سے ایک خصوصیت لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت ہے ، آپ تربیت الہی سے مالامال تھے اس بنا پر معاشرت ، نشست و برخاست میں لوگوں کے ساتھ ایسے ادب سے پیش آتے تھے کہ سخت مخالف کو بھی شرمندہ کر دیتے تھے اور نصیحت حاصل کرنے والے مؤمنین کی فضیلت میں اضافہ ہو جاتا تھا_
آپ کی معاشرت کے آداب، اخلاق کی کتابوں میں تفصیلی طور پر مرقوم ہیں _ہم اس مختصر وقت میں چند آداب کو بیان کر رہے ہیں امید ہے کہ ہمارے لئے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ا دب سے آراستہ ہونے کا باعث ہو:
گفتگو
بات کرتے وقت کشادہ روئی اور مہربانی کو ظاہر کرنے والا تبسم آپ کے کلام کو شیریں اور دل نشیں بنا دیتا تھا روایت میں ہے کہ :
"کان رسول الله اذا حدث بحدیث تبسم فی حدیثه”
) سنن النبی ص۴۸ بحار ج۶ ص ۲۹۸)
بات کرتے وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تبسم فرماتے تھے _
ظاہر ہے کہ کشادہ روئی سے باتیں کرنے سے ہر ایک کو اس بات کا موقع ملتا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و منزلت سے مرعوب ہوئے بغیر نہایت اطمینان کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کرے ، اپنے ضمیر کی آواز کو کھل کر بیان کرے اور اپنی حاجت و دل کی بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کرے _
سامنے والے کی بات کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی منقطع نہیں کرتے تھے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کا آغاز کرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے ہی اسکو خاموش کر دیں۔(مکارم الاخلاق ص ۲۳)
مزاح
مؤمنین کا دل خوش کرنے کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی مزاح بھی فرمایا کرتے تھے ، لیکن تحقیر و تمسخر آمیز، ناحق اور ناپسندیدہ بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کلام میں نظر نہیں آتی تھی_
"عن الصادق قال ما من مؤمن الا وفیه دعابة و کان رسول الله یدعب و لا یقول الاحقا”
(سنن النبی ص ۴۹)
امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ : کوئی مؤمن ایسا نہیں ہے جس میں حس مزاح نہ ہو، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزاح فرماتے تھے اور حق کے علاوہ کچھ نہیں کہتے تھے _
آپ کے مزاح کے کچھ نمونے یہاں نقل کئے جاتے ہیں :
"قال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لاحد لا تنس یا ذالاذنین”
(بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۴)
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: اے دو کان والے فراموش نہ کر_
انصار کی ایک بوڑھی عورت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ میرے لئے دعا فرمادیں کہ میں بھی جتنی ہو جاؤں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "بوڑھی عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی”وہ عورت رونے لگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرائے اور فرمایا کیا تم نے خدا کا یہ قول نہیں سنا:
” انا انشأناهن انشاءً فجعلنا هن ابکاراً "
(سورہ واقعہ آیت ۳۵ و ۳۶)
ہم نے بہشتی عورتوں کو پیدا کیا اور ان کو باکرہ قرار دیا _
کلام کی تکرار
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو کی خصوصیت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بات کو اچھی طرح سمجھا دیتے تھے_
ابن عباس سے منقول ہے : جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی بات کہتے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی سوال ہوتا تھا تو تین مرتبہ تکرار فرماتے یہاں تک کہ سوال کرنے والا بخوبی سمجھ جائے اور دوسرے افراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول کی طرف متوجہ ہو جائیں _
انس و محبت
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے اصحاب و انصار سے بہت انس و محبت تھی ان کی نشستوں میں شرکت کرتے اور ان سے گفتگو فرماتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان نشستوں میں مخصوص ادب کی رعایت فرماتے تھے _ حضرت امیر المؤمنین آپ کی شیرین بزم کو یاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں ": ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا کہ پیغمبر خد ا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کے سامنے اپنا پاؤں پھیلاتے ہوں”۔
(مکارم الاخلاق ص ۲۲)
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بزم کے بارے میں آپ کے ایک صحابی بیان فرماتے ہیں "جب ہم لوگ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتے تھے تو دائرہ کی صورت میں بیٹھتے تھے”۔
(سنن النبی ص ۷۰)
جلیل القدر صحابی جناب ابوذر بیان کرتے ہیں "رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنے اصحاب کے درمیان بیٹھتے تھے تو کسی انجانے آدمی کو یہ نہیں معلوم ہوسکتا تھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کون ہیں آخرکار اسے پوچھنا پڑتا تھا ہم لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ درخواست کی کہ آپ ایسی جگہ بیٹھیں کہ اگر کوئی اجنبی آدمی آ جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچان لے ، اسکے بعد ہم لوگوں نے مٹی کا ایک چبوترہ بنایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس چبوترہ پر تشریف فرما ہوتے تھے اور ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھتے تھے ۔(سنن النبی ص۶۳)
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی کے ساتھ بیٹھتے تو جب تک وہ موجود رہتا تھا حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے لباس اور زینت والی چیزوں کو جسم سے جدا نہیں کرتے تھے۔
(سنن النبی ص۴۸)
مجموعہ ورام میں روایت کی گئی ہے ۔
"پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ جب لوگوں کے مجمع میں بات کرو تو ان میں سے ایک ہی فرد کو متوجہ نہ کرو بلکہ سارے افراد پر نظر رکھو”۔(سنن النبی ص۴۷)
(اقتباس از: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button