سیرتسیرت امام مھدیؑ

امام مہدیؑ اور غلبہ اسلام

ابتدائے زمانہ سے خدائے قادر کی یہ سنت رہی ہے کہ جب زمانہ ظَہَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ کا کامل نمونہ بن جاتا ہے اور تابع شریعت اور غیر تابع شریعت دونوں قسم کے لوگ قسم قسم کی گمراہیوں اور ضلالتوں میں ڈوب جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے ایک وجود کو دنیا میں بھیجتا ہے جو دنیا میں آکر ان کی اصلاح کرتا ہے اور ان کو اس ذلت سے نکال کر پھر سے انسان بنا دیتا ہے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ اور انبیاء کے مخالفین کا طریقہ رہا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے ظہور سے لےکر جو بھی وجود اصلاح خلق کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور کیا جاتا ہے اس کی مخالفت اور اس پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں اور اس کو قبول نہ کرنے کے مختلف بہانے ڈھونڈنے کی ناکام سعی کی جاتی ہے۔آخری زمانہ میں جہاں دنیا میں ظاہر ہونےوالے مختلف فتنوں کی خبر دی گئی ہے وہیں اس خدا نے اپنے بندوں کی روحانی صحت کی خاطر اور ان کے ان فتنوں سے نجات کی خاطر ایک منجی اور نجات دہندہ کی بشارت بھی سنائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے اور خود بھی اپنے کلام پاک میں یہ نوید دی ہے تا کہ نیک فطرت لوگوں کےدل ان سے آرام پائیں اور ان کو یہ تسلی ہو کہ اس پرفتن دور میں بھی خدا تعالیٰ نے اپنے دین کی سربلندی کے لیے ایک اپنا نمائندہ مقرر فرمایا ہے جو اس کے بندوں کو اس پر آشوب دور سے باحفاظت نکالے گا۔ آنے والے وجود کے نام کاصریحاً قرآن میں ذکر نہیں ہوا ہے اور نام پر عدم تصریح مصلحتوں پر استوار ہے،تاہم جان لینا چاہیے کہ نام ذکر کرنا شخصیات کے تعارف کا ذریعہ نہیں ہے۔ صفات و خصوصیات سے بھی تعارف کرایا جاسکتا ہے چنانچہ حضرت امام مہدیؑ و مسیح موعود علیہ السلام کو صفات و خصوصیات کے ذریعے متعارف کرایا گیا ہے۔خداوند تعالیٰ متعال ارشاد فرماتا ہے : وَلَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ(سورہ انبیاء آیت ۱۰۶)اور ہم نے ذکر (تورات) کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ اس زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔
حافظ سلیمان بن ابراہیم قندوزی حنفی امام باقرؑ اور امام صادقؑ سے نقل کرتے ہیں کہ ’’اس آیت میں خدا کے صالح بندوں سے مراد مہدیؑ اور ان کے اصحاب ہیں۔ (ینابیع المودہ جلد ۳صفحہ۲۴۳عقد الدرر مقدس شافعی، باب ۷، صفحہ ۲۱۷)
اسی طرح قرآن کریم میں دیگر مقامات پر بھی اللہ تعالیٰ نے اس آنےوالے وجود کا اس کی صفات بیان کر کے ذکر فرمایا ہے۔
قرآن کریم میں امام مہدیؑ ومسیح موعود علیہ السلام کے متعلق غلبہ اسلام کی پیشگوئی اور اس سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا استدلال موجود ہے، اس آیت،ھُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَدِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ وَلَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ۔(سورۃ التوبہ آیت ۳۳)کی تفسیر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’یہ آیات قرآنی الہامی پیرایہ میں اس عاجز کے حق میں ہیں اور رسول سے مراد مامور اور فرستادہ ہے جو دین اسلام کی تائید کے لئے ظاہر ہوا۔ اس پیشگوئی کا ماحصل یہ ہے کہ خدا نے جو اس مامور شخص کو مبعوث فرمایا ہے یہ اس لئے فرمایا کہ تاکہ اس کے ہاتھ سے دین اسلام کو تمام دینوں پر غلبہ بخشے اور ابتدا میں ضروری ہے کہ اس مامور اور اس کی جماعت پر ظلم ہو لیکن آخر میں فتح ہوگی اور یہ دین اس مامور کے ذریعہ سے تمام ادیان پر غالب آجائے گا۔ اور دوسری تمام ملتیں بینہ کے ساتھ ہلاک ہوجائیں گی۔ دیکھو یہ کس قدر عظیم الشان پیشن گوئی ہے اور یہ وہی پیشگوئی ہے جو ابتدا سے اکثر علماء کہتے آئے ہیں کہ مسیح موعودؑ کے حق میں ہے اور اس کے وقت میں پوری ہوگی ۔‘‘(سراج منیر، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ۴۳،۴۲)
نیز ایک اور مقام پر آپؑ نے فرمایا:’’خدا وہ قادر ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ سب دینوں پر حجت کی رو سے اس کو غالب کرے(یہ وہ پیشگوئی ہے جو پہلے سے قرآن شریف میں انہی دنوں کے لئے لکھی گئی ہے)۔‘‘(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد۳صفحہ۱۹۳)

دیگر علمائے کرام اہل سنت و اہل تشیع کی آیت مذکورہ کی تفسیر:
اسی آیت کی تشریح میں مفسرین کی اکثریت خواہ وہ اہل سنت مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں یا اہل تشیع مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہو اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت آنے والے مہدیؑ کے متعلق نازل ہوئی ہے اور انہوں نے مختلف ناموں سے اس کا ذکر فرمایا ہے کسی نے مسیح، کسی نے مہدیؑ ، کسی نے امامؑ یا قائمؑ آل محمد کے نام سے ذکر فرمایا ہے۔
(۱)تفسیر ابن جریر میں لکھا ہے : ھَذَا عِنْدَ خُرَوْجِ الْمَہْدِی کہ اس آیت میں مذکور غلبہ اسلام مہدیؑ کے زمانہ میں ہوگا۔
(۲)تفسیر جامع البیان جلد ۲۹ میں لکھا ہے : وَ ذَالِکَ عِنْدَ نُزول عِیْسَی بْنَ مَرْیَمَ کہ یہ غلبہ عیسیٰ بن مریم کے نزول پر ہوگا۔
(۳)اہل تشیع کی معروف کتاب بحار الانوار جلد۱۳ صفحہ۱۳ پر لکھا ہے: نُزِلَتْ فِی الْقَائِمِ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ کہ یہ آیت القائمؑ ( یعنی آل محمد میں قائم ہونے والے مہدیؑ )کے متعلق نازل ہوئی ہے۔
(۴)ایک اور معتبر شیعہ کتاب غایۃ المقصود جلد ۲ صفحہ۱۲۳ میں ہے۔ مراد از رسول درین جا امام مهدی موعود است۔ کہ اس آیت میں رسول سے مراد امام مہدیؑ موعود ہیں۔
آخری زمانہ میں اسلام کے غلبہ سے کیا مراد ہے؟
(۱) بحارالانوار جلد ۱۳ صفحہ ۱۷ میں ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ یقیم الناس علی ملتی و شریعتی و یدعوھم الی کتاب اللّٰہ عز وجل من اطاعہ اطاعنی و من عصاہ عصانی۔ یعنی امام مہدیؑ لوگوں کو میری ملت اور شریعت پر قائم کرے گا اور انہیں کتاب اللہ کی طرف دعوت دے گاجو اس کی اطاعت کرے گاتو گویا اس نے میری اطاعت کی اور جو اس کی نافرمانی کرے گا تو گویا اس نے میری نافرمانی کی۔
(۲) ایک اور روایت حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی کتاب ناسخ التواریخ کی جلد ۱ صفحہ ۱۸۶ میں کچھ اس طرح ہے کہ عن ابی سعید الخدری قال؛قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم منا المھدی فاما القائم فیاتیہ الخلافۃ ولم یھرق فیھا محجمۃ من دم۔
مہدیؑ ہم میں سے ہوگا یعنی ہمارا پیرو ہوگا لیکن اس القائمؑ کو خلافت اس طرح ملے گی کہ اس کے حصول میں اسے ذرہ بھر بھی خون نہیں بہانا پڑے گا۔ ان تمام روایات و ارشادات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام مہدیؑ کے قتال کرنے سے جنگ کرنا مراد نہیں ہے بلکہ دلائل و براہین کی رو سے فتح کرنا مراد ہے۔
(۳) حضرت امام صادق علیہ السلام سے ایک روایت تفسیر نمونہ جلد۲ صفحہ ۱۹۸ میں ھُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَدِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ وَلَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ کی تفسیر میں اس طرح مروی ہے:
حضرت امام صادقؑ سے مروی ہے کہ ’’ خدا کی قسم ! اس آیت کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی ہے اور صرف اس زمانہ میں پوری ہوگی کہ جب قائمؑ (مہدی) خروج کرےگا اور جب وہ خروج کرے گا تو ایسے لوگ جو خدا کے منکر ہوں گے وہ دنیا میں باقی نہیں رہیں گے‘‘
(۴)حضرت امام باقر علیہ السلام سے تفسیر نمونہ جلد ۲صفحہ ۱۹۸ میں اس طرح مروی ہے:
حضرت امام باقرؑ سے بھی مروی ہے کہ’’اس آیت کا ایک حصہ اس مہدی کے ظہور کے وقت سے متعلق ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل سے ہوگا اور ( جب وہ ظاہر ہوگا تو) اس وقت دنیا میں صرف وہی لوگ باقی رہیں گے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقانیت کا اقرار کریں گے‘‘۔
ان روایات سے صاف ظاہر ہوتا ہے مہدیؑ کا غلبہ روحانی طور پر ہوگا اور وہ بغیر قتل و غارت کے دلائل و براہین کی رو سے اسلام کو دیگر مذاہب پر غالب کرےگا اور اس کی اطاعت کرنا گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرنا ہوگا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی گئی تعلیمات کے مطابق ہی لوگوں کو تعلیم دے گا اور کوئی علیحدہ وجود نہ ہوگا۔
اور ان تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی آنکھوں کےساتھ پورا ہوتے ہوئے دیکھنے کی توفیق دی ہے جس پر ہم اس کا جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہے۔ہمیں ہر آن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ ہمیں بیعت کے حقیقی معنوں کی رو سے احمدی بننے کی توفیق عطا کرے۔ آمین
https://www.alfazl.com/2023/07/06/73982/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button