حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی مشترکہ زندگی کے کچھ اخلاقی نمونے
ہمیں حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی سیرت میں شوہر کی نسبت حد درجہ احترام،فداکاری، اور علیؑ کے ساتھ مشکلاتِ زندگی کو برداشت کرنا ، بھوک اور وسائل زندگی کی قلت جیسی چیزوں پر صبر و شکر کی اعلیٰ مثالیں نظر آتی ہیں۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی مشترکہ زندگی کے کچھ اخلاقی نمونے
قارئین کرام! جب ہم سیرت سیدہ کونین سلام اللہ علیہا کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں آپ کی شادی شدہ زندگی میں بہت سے اخلاق کے اعلیٰ نمونے نظر آتے ہیں چنانچہ ان میں سے ہم ذیل میں چند ایک کا ذکر کررہے ہیں:
۱۔شوہرکو تمام امور میں اپنی ذات پر ترجیح دینا
جس وقت عورت اور مرد عقد کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان دونوں کے دل میں ایک دوسرے کی محبت و الفت ڈال دیتا ہے گویا ایک روح دو جسموں میں گردش کرنے لگتی ہے اور اس کے بعد وہ اپنے گھر کو آباد کرنے اور اس میں خوش رہنے کے لئے ان دونوں کے اندر بہت سی تبدیلیاں رونماں ہوجاتی ہیں جیسا کہ ایثار یعنی قربانی کا جذبہ، اس کے معنیٰ یہ ہے کہ اپنے گھر اور خاندان کی سعادت میں صرف یہی نہیں کہ ایک کو دوسرے پر مقدم سمجھنا بلکہ یہ اسی وقت محقق ہوتا ہے کہ جب انسان اپنے مسلمہ حقوق کو بھی اس مقصد پر قربان کردینے کے لئے تیار ہوجائے۔
چنانچہ ایک دن صبح ہی صبح حضرت علی علیہ السلام نے شہزادی کونین سلام اللہ علیہا سے فرمایا: فاطمہؑ! کیا گھر میں کچھ کھانے کو رکھا ہے تاکہ میں کھا سکوں ؟ شہزادی نے جواب دیا نہیں! اس خدا کی قسم! جس نے میرے بابا کو نبوت اور آپ کو امامت کے لئے منتخب کیا۔ دو دن ہوگئے گھر میں کھانے پینے کا کچھ سامان نہیں ہے جو کچھ تھا میں نے آپ کو اور اپنے بچوں کو دے دیا اور اس میں سے میں نے خود کچھ بھی نہیں کھایا۔ امام علیہ السلام نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: فاطمہؑ !تم نے مجھے کیوں اطلاع نہیں دی تاکہ میں کوئی بندوبست کرتا۔حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے فرمایا:
یا ابا الحسن انی لاستحیی من الهی ان اکلف نفسک ما لا تقدر علیه
یا ابوالحسن! مجھے اپنے رب کے سامنے شرم آتی ہے کہ مبادا میں آپ کو کسی ایسی چیز کی تکلیف دوں جو آپ نہ کرپائیں۔
بحارالانوار، ج37، ص103. ج 93، ص147
۲۔ تمام امور کر مل جل کر انجام دینا
کسی بھی خاندان کی خوشحالی اور اس کے مثالی ہونے کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ گھر کے تمام افراد کی ذمہ داریاں معین ہوں البتہ یہ ذمہ داریاں ہر فرد کی اپنی ذاتی صلاحیت اور خدا کی عطا کردہ استعداد کی بنیاد پر ہونا چاہیئے لہذا گھر کے اندر ہر فرد کا اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا کسی بھی گھر کو سعادت مند بناتا ہے اور عورت کو ان امور میں دخالت کرنے سے روکتا ہے جو ان کے لئے مناسب نہیں ہیں۔چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے گھر کے کاموں کو علی علیہ السلام کے ساتھ اس طریقہ سے تقسیم کررکھا تھا کہ آٹا پیسنا اور روٹی بنانا اور گھر کی صاف صفائی کرنا آپ کے ذمہ تھا اور گھر سے باہر کے تمام کام جیسا کہ کھانے اور ایندھن وغیرہ کا انتظام حضرت علی علیہ السلام کے ذمہ تھا۔ اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: کہ علی و فاطمہ سلام اللہ علیہما کے درمیان گھر کے کاموں کی تقسیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے انجام پائی تھی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا: کہ گھر کے اندر کے کاموں کو فاطمہ سلام اللہ علیہا اور باہر کے کاموں کو علؑی علیہ السلام انجام دیں گے۔ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے خوش ہوکر فرمایا تھا:
فلا یعلم ما داخلنی من السرور الا الله باکفائی رسول الله تحمل رقاب الرجال
اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ میں اس تقسیم سے کتنی خوش ہوں چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ان کاموں سے رہائی عطا کردی جن کی مشقت کا بوجھ مرد ہی اٹھا سکتے ہیں۔
وسایل الشیعه، ج14، ص123
اور شاید شہزادی کی خوشی کی وجہ یہ تھی کہ گھر کے اندر کام کرنے کے سبب نامحرموں سے آپ کا سامنا نہیں ہوگا۔ چونکہ عورتوں کا ایسی جگہ کام کرنا جہاں نامحرم کام کرتے ہوں یہ روح تقویٰ کے منافی امر ہے۔
ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے آپ کے بابا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا تھا:کس وقت کوئی خاتون اللہ کے سب سے زیادہ نزدیک ہوتی ہے ؟تو فرمایا تھا:
ادنی ما تکون من ربها ان تلزم قعر بیتها
کسی بھی عورت کا اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ قربت کا وقت وہ ہے کہ جب وہ اپنے گھر میں رہے۔
بحار،ج43، ص92
البتہ یہ بات واضح ہے کہ ان احادیث سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ مطلق طور پر خواتین گھر سے باہر نہیں نکل سکتیں، بلکہ جب ضرورت کا تقاضہ ہو جیسا کہ خود بی بی دو عالم اپنے شوہر نامدار کے غصب شدہ حق کا مطالبہ کرنے نیز فدک کی صفائی پیش کرنے وغیرہ کے لئے مسجد یا دارالخلافہ تشریف لے گئیں تھیں۔ لہذا احادیث میں خواتین کا گھر سے نکلنے کے سلسلہ میں جو مذمت بیان ہوئی ہے وہ ان کا غیر ضروری امور کے لئے گھر سے باہر نکلنا ہے کہ حقیقت میں جن کے بہت ناگوار انجام ہوسکتے ہیں اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم آج بہت سے ایسی چیزوں کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے ہیں۔
۳۔ اپنے شوہر کا احترام و ادب کرنا
ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے کسی بھی انسان کی بلند اقبالی اور مہربانی کو اپنے شریک حیات نیز دیگر لوگوں کے ساتھ نرمی کے ساتھ پیش آنے میں قرار دیا ہے: تم میں سب سے بہترین و افضل وہ شخص ہے کہ جو لوگوں کے ساتھ نرمی و مہربانی سے پیش آئے اور سب سے باوقار آدمی وہ ہے کہ جو اپنے گھر کی عورتوں کی نسبت مہربانی اور سخاوت کا مظاہر کرے۔
نہج الحیاة، ص157
اور جب آپ نے اپنے مظلوم شوہر کی حمایت اور وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا:یا علی! میری جان آپ پر قربان! میری جان و روح آپ پر آنے والی بلاؤں کے مقابل ڈھال ہے۔ یا اباالحسن! میں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہوں گی اگر آپ خیریت و عافیت سے رہیں گے تب بھی آپ ہی کے ساتھ اور اگر سختیوں اور بلاؤں میں زندگی گذرے گی تب بھی آپ ہی کے ساتھ جیئوں گی۔
نهج الحیاة، ص147
آپ نے ملاحظہ کیا کہ بی بی اپنے شریک حیات سے کس طرح اپنی محبت کا اظہار کررہی ہیں ورنہ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بہت سی بیویاں اپنے شوہروں کے ساتھ ان کی خوشیوں کی تو ساتھی تو ہیں غموں اور مصیبتوں کی نہیں۔
۴۔ سختی اور مشکلات کو برداشت کرنا
الف: بھوک برداشت کرنا
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر میں وارد ہوئے اور فرمایا: میری بیٹی! تم کس حال میں ہو؟ جواب ملا: بابا درد اور بھوک نے مجھے بے جان کردیا ہے اور ہر لمحہ میری حالت بگڑتی جارہی ہے اور گھر میں کچھ کھانے کو نہیں ہے تاکہ اس سے نجات پاسکوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری بیٹی! کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم عورتوں کی سردار قرار پاؤ؟۔
بحار، ج43، ص37
ب: وسائل زندگی کی قلت
ایک دن حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اپنے والد ماجد کی خدمت میں زندگی کی مشکلات اور وسائل زندگی کی قلت کے بارے میں بتلا رہی تھیں: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرے اور علی کے پاس وسائل زندگی کی قلت ہے ہمارے پاس ایک بھیڑ کی کھال ہے کہ ہم رات کو اسی پر سوتے ہیں اور دن میں اونٹ اس پر گھاس کھاتا ہے۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری بیٹی! صبر کرو! چونکہ جناب موسیٰ بن عمران اپنی زوجہ کے ساتھ دس برس تک صرف ایک قطوانی عبا کو ہی بستر بناکر آرام کرتے تھے۔
همان، ص297
قارئین کرام! اس نکتہ کی جانب بھی توجہ رہے کہ وہ بیویاں جو اخراجات کا سنگین وزن مردوں کے اوپر لاد دیتی ہیں اور وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ انسان کی صلاحیتں اور وسائل کی فراہمی کی ایک حد معین ہے اور اگر اپنی بے جا توقعات کا بوجھ اس پر ڈالا گیا تو اگر وہ حلال و جائز طریقہ سے انہیں پورا کرنے پر قادر نہ ہوا تو وہ غیر جائز راستہ سے انہیں پورا کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور یہ کتنی بڑی مصیبت ہے کہ عورت اپنی بے جا توقعات کو پورا کروانے کے لئے مشتبہ و حرام مال کو اپنے گھر میں داخل ہونے کے مقدمات فراہم کرنے کا سبب بنتی ہے البتہ زندگی کی سادگی کا فلسفہ ذیل میں بیان ہونے والی داستان سے سمجھا جاسکتا ہے کہ سلمان فارسی کہتے ہیں: کہ میں نے ایک دن بی بی دو عالم سلام اللہ علیہا کو دیکھا کہ آپ کے سر پر پیوند لگی ہوئی ایک سادہ سی چادر تھی میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ، عجب بات ہے کہ روم و ایران کے بادشاہوں کی بیٹیاں سونے سے بنی کرسیوں پر بیٹھتی ہیں اور مخملی لباس پہنتی ہیں لیکن یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی ہے کہ جس کے پاس نہ قیمتی چادر ہے اور نہ خوبصورت لباس! حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے سلمان سے فرمایا: اے سلمان! اللہ تعالیٰ نے سونے سے بنی مسند اور قیمتی لباس ہمارے لئے جنت میں ذخیرہ کر رکھے ہیں۔
بح، ج43، ص3ار03
http://www.wilayat.com/