سلائیڈرمحافلمناقب امام مھدی عجمناقب و فضائل

انتظارِ امام مہدیؑ اور تشیّع کا سفرِ علم

ضرورت غیبت:
11ھ میں آنحضرتؐ نے کہا کہ میں جا رہا ہوں اور قران و اہلبیتؑ کو چھوڑے جا رہا ہوں۔ میرے بعد میرے بارہ جانشین ہو نگے اور قریش سے ہونگے، آنحضرت کی وفات کے بعد ان 12 میں سے 11 جانشینوں کے ساتھ ملوکیت نے جو سلوک کیا تاریخ اس کی گواہ ہے، اگر موقع ملتا تو 12 ویں کو بھی قتل کر دیتے یا کسی طر ح منظر سے ہٹا دیتے۔ لیکن قدرت نے یہ کائنات ایک خاص مقصد کے لئے خلق کی تھی۔ قدرت زمین پر اپنا نائب بھیجنا چاہتی تھی۔ فرشتوں نے انسان کے فسادی ہونے کی بات کی۔ قدرت نے یہ کہہ کر خاموش کر دیا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ قدر ت کی تخلیق کردہ کائنات کا اختتام معبود کے منصوبہ کے مطابق ہوگا۔ اس وجہ سے ہزاروں اور لاکھوں شہداء کی قربانیوں سے قدرت کا یہ منصوبہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ آنحضرتؐ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے لیکن شریعت کو قیامت تک باقی رہنا ہے تو پھر شریعت کے محافظ کی بھی ضرورت ہے۔ اپنے اس آخری راہنما کی حفاظت کے لئے قدرت نے ”غبیت ہادی” کی حکمت عملی اختیار کی۔ یہ کوئی نئی بات نہیں قرآن میں انبیاء کی غیبت کے مثالیں موجود ہیں۔ شیخ صدوقؒ نے ”کمال الدین و تمام النعمۃ ”میں غیبت انبیاء کے حوالے سے خضرؑ، الیاسؑ، ادریسؑ، موسیٰؑ، نوحؑ، صالحؑ، شعیبؑ، عیسیٰؑ اور یونسؑ کا ذکر کیا ہے۔عبداﷲ ابن فضل ہاشمی نے امام صادقؑ سے روایت کی ہے کہ امام مہدیؑ کی غیبت میں اﷲ کی وہی حکمت ہے جو باقی انبیاء کی غیبت میں تھی۔ ان انبیاء کی غیبت کی حکمت ان کے ظہور کے بعد منکشف ہوئی ( صفدر حسین نجفی)۔
اسباب غیبت حضرت حجت کے ضمن میں ڈاکٹر شاہد چودھری نے اس مفروضہ سے اتفاق کیا ہے کہ ”مختلف عوامل کی روشنی میں غیبت امامؑ ایک الہیٰ منصوبہ سے تعبیر ہے جس میں ظہور امام مہدیؑ اس منصوبہ کاآخری حصہ ہے ، غیبت پر مبنی اس منصوبہ کا حوالہ قرآن میں کئی جگہ اور احادیث میں تو اتر سے آیا ہے۔ ان حوالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ ایک وقت مقررہ پراس زمین پر عدل و انصاف کی حکمرانی کے سامان پیدا کریگا۔ ظلم و جور کے تیزی سے امنڈ تے ہوئے سیلاب اس کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ جلد غیبت کا راز کھلے گا۔ ( ڈاکٹر شاہدچودھری)
اسباب غیبت میں من جملہ ایک سبب ہماری بد اعمالیاں اور دین سے دوری کا ماحول بھی ہے زمانہ غیبت کو غنیمت سمجھتے ہوئے اور معصومینؑ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنے آپ کو امام زمانہؑ کے لشکر میں شامل ہونے کی تمنا کا اہل ثابت کریں۔
غیبت اور قرآن:
قرآن کی ابتداء ہی عقیدہ غیبت پر ایمان سے ہے۔ سورہ بقرہ کی ابتدائی آیت میں” یومنون بالغیب”کی تفسیر میں مولانا ظفر حسن نے لفظ غیب سے مراد ” امام غائب،ولی عصر، مہدیؑ آخر الزماں پر ایمان لانا ضروری سمجھا ہے اور انکار کرنے والا متقیوں سے خارج ہو جائیگا۔اس کے علاوہ وہ تمام آیات جن میں انتظار کی ہدایت ہے امام مہدیؑ سے متعلق بیان کی گئی ہیں بموجب نصوص معصومینؑ، خادمی شیرازی نے اپنی کتاب ”غیبت امام عصر یا پنھانی خورشید عدالت ” میں تفاسیر نور الثقلین، نمونہ، البرہان، تبیان، اور صافی میں سورہ ہائے یونس، حجر، اعراف، آلِ عمران، مومنون، بقرہ اور سورہ نور کی آیات کے حوالہ سے یہ ذکر کیا ہے کہ صبرو انتظار نیکوں کی خصلت ہے،اور امام مہدیؑ کی غبیت پر اعتقاد ایمان بالغیب کی تعریف میں آتا ہے۔
امام مہدیؑ اور معصومینؑ:
خادمی شیرازی کی جس کتاب کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے اس میں چہاردہ معصومین کی روایات کا حوالہ بھی دیا ہے جو غیبت امام مہدیؑ پردلیل ہیں۔ ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
آنحضرتؐ: مہدیؑ امت کے درمیان قیام کریگا، اگر دنیا کی عمر ایک روز بھی باقی رہ جائے تو خدا وند تعالیٰ اس
روز کو اتنا طول دیگا کہ میری اہلبیتؑ سے ایک مرد قیام کریگا، زمین کو جو اس وقت ظلم و جور سے بھری ہوگی
عدل وانصاف سے بھر دیگا۔
امیر المومنینؑ: حجت خدا دین خدا کی طرف دعوت دیگا۔
جناب فاطمہؑ: ایک لوح پر 12اوصیا کے نام ہیں آخر میں قائمؑ ہے۔
امام حسنؑ: میرے بھائی حسینؑ کی نسل سے ایک فرزند طویل عمر غیبت کے بعد ظاہر ہوگا لیکن بظاہر عمرمیں ٤٠
سال سے کمتر نظر آئیگا۔
امام حسینؑ: ہمارے خاندان رسالت میں 12ویں مہدیؑ ہیں جس میں سب سے پہلے امیر المومنینؑ اور آخری میرا
فرزند امام قائمؑ بحق ہے۔ اس کے زیر سایہ دین مقدس اسلام تمام ادیان پر غالب آجائیگا، ان کی غیبت بہت
طویل ہوگی۔
امام سجادؑ: روز قیامت تک امامت اولاد حسینؑ میں واقع ہوگی۔ ہمارے قائم کی دو غیبت ہوں گی ایک مختصر
اور دوسری طویل۔
امام باقرؑ :، یوسف پیغمبرؐ اور قائمؑ میں مشابہت دوامور میں ہے: حیرت اور غیبت
امام صادقؑ: زمین کبھی بھی حجت خد اسے خالی نہیں رہ سکتی، قائمؑ ہمارے فرزندوں میں سے ہوگا۔
امام موسیؑ بن جعفرؑ: قائمؑ زمین کو دشمنان خدا کے وجود سے پاک کردیگا۔ جبکہ وہ ظلم و جور سے بھر جائیگی، وہ
میری پانچویں پشت ہوگی۔
10۔ امام رضاؑ: ہمارے قائمؑ کے قیام کے وقت خون بہانے اور زمین پر محنت کا وقت ہوگا۔ ان کا لباس سادہ اور
غذا روکھی سوکھی ہوگی۔شیخ صدوق نے بھی مہدیؑ کے حوالے سے ائمہ کی روایات نقل کی ہیں۔
11۔ امام محمد تقیؑ: قائمؑ زمین کو کافروں اور منکروں سے پاک کردیگا اور عدل و انصاف سے بھر دیگا، اس کےاصحاب کی تعداد اہل بدر یعنی 313 کے برابر ہوگی۔
12۔ اما م علی النقیؑ: میرے بعد حسن عسکریؑ امام ہے اور ان کے بعد ان کا فرزند جس کی امامت لوگوں کےلئے عجیب ہوگی کیونکہ وہ نظروں سے غائب رہے گا اور وقت مقررہ پر ظاہر ہو کر زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیگا۔
13۔ امام حسن عسکریؑ: آدم کی خلقت سے قیامت تک اﷲ زمین کو اپنی حجت سے خالی نہیں چھوڑیگا، انہی کے
ذریعہ اﷲ کے فیوض بندوں تک پہنچتے ہیں۔
14۔ آخر میں خود امام عصر کی زبانی روایت ہے کہ : ” میں آخری وصی رسول خداؐ ہوں اور خدا وند تبارک و تعالیٰ
میرے وسیلہ سے میرے خاندان اور میرے شیعوں کی بلاؤں کو دفع فرماتا ہے۔
(ہاشم بحرانی، مدینۃ المعاجز)
انتظار مہدیؑ:
دنیا کے تمام آفاقی مذاہب میں ایک عظیم مصلح کا انتظار شامل ہے ہر قوم اس کو ایک مخصوص نام سے یاد کرتی ہے۔
زرتشتیوں کی مشہور کتاب” زند” میں یزداں اور اَہر من کے کردار ہیں جس میں یزداں نیکی کا نمائندہ ہے۔
برہمنوں اور ہندؤں کی کتاب” وشنویگ” میں ایک بادشاہ کا ذکر ہے جو آخر زمانہ میں پیشوائے خلائق ہوگا، مزید کہا گیا ہے کہ دنیا کا دور آخر زمانہ میں ایک عادل بادشاہ کے زیر اہتمام قائم ہو جائیگا۔
عہد قدیم توریت (Old testament ) میں مزا میر داؤد نامی کتاب میں مرقوم ہے کہ خداوند عالم کے معتبر لوگ زمین کے وارث ہونگے۔
جدید انجیل ( لوقا (New Testament) ) میں درج ہے کہ تم ایسے لوگوں کی طرح رہو جو اپنے آقا کا انتظار کر رہے ہوں ( ناصر مکارم شیرازی )
حسن قائمیاں، کتاب علائم الظہور میں رقم طراز ہے کہ ہر دور میں اور ہر زمانے میں خدا پرستوں کے دلوں میں ایک عالمگیر اور عظیم مصلح کی تمنا رہی ہے۔قرآن مجید کے سورہ انبیاء (105) کی آیت ” ولقد کتبنا فی الزبورِ من بعد الذکر ان الارض یرتھا عبادی الصالحون”کی روسے اس زمین کے وارث ہمارے صالح بندے ہونگے۔
ان صورتوں کی روشنی میں امام مہدیؑ فقط اسلامی عقیدہ کی تجسیم(Embodimeint) پر نہیں بلکہ اس آرزو کا نشان بھی ہیں جو تمام انسانیت دینی عقائد کے اختلاف کے باوجود اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہے۔ یہ عقیدہ محض ایک تسکین نہیں بلکہ نیکی اور قوت کا منبع یا سر چشمہ ہے کیونکہ مہدیؑ کے ظھور پر ظلم اور جور کا خاتمہ یقین ہے۔ مہدیؑ کا تصور آفاقی ہے اور اسلام سے قدیم تر ہے لیکن اسلام نے اور بالخصوص عالم تشیع نے مہدیؑ کے جو خدوخال متعین کئے ہیں وہ واضح تر ہیں۔ شیعہ عقیدہ کے لحاظ سے مہدیؑ پہلے ہی سے جسمانی طور پر زندہ ہیں اور یہی مرکزی خیال غیبت صغریٰ اور غیبت کبریٰ کی بنیاد ہے۔ وہ محض ایک اجنبی نجات دہندہ نہیں ہیں اور نہ ایک تخیلی ہستی ہے بلکہ ایک معین فرد ہے جو ہمارے درمیان ایک حقیقی انسان کی مانند رہ رہے ہیں اور ہماری امیدوں مایوسیوں اور خوشیوں اور غموں میں شریک ہوتے ہیں۔ دنیا کے مظالم کو دیکھتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح خود بھی ان سے متاثر ہوتے ہیں اور اس معینہ وقت کے انتظار میں ہیں جب ان کو ظاہر ہو نے کا حکم دیاجائیگا۔( باقر الصدر انتظار امام)
انتظار مہدیؑ کے ضمن میں علامہ ذیشان حیدر جوادی، نقوش عصمت میں لکھتے ہیں کہ امامؑ کی ایک واضح صفت یہ ہے کہ تمام صاحبان ایمان کو مسلسل آپؑ کا انتظار ہے اور اسے افضل اعمال قرار دیا گیا ہے۔ انتظار بے عملی اور کاہلی نہیں۔ انتظار میں کئی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ انتظار اعتبار کی دلیل ہے اور انتظار ایک بہتر مستقبل کی عکاسی کرتا ہے۔ انتظار علم و دانش سے محبت، نیکیوں اور عدل سے لگاؤ اور خوبصورتی سے عشق، انسان کا فطری عمل ہے ایک عالمی مصلح کے ظہور کا انتظار اس جذبہ کی معراج ہے۔
تشیع کا علمی ارتقاء:
غیبت کبریٰ اس کائنات کا اختتامی مرحلہ نہیں بلکہ زمانہؑ کے ایک طویل تسلسل سے تعبیر ہے جس کے دوران نظام کائنات اپنے تکمیلی سفر پر رواں دواں ہے اس کی منزل سے خدا ہی واقف ہے یا وہ جنہیں خدا نے اس کا علم دیا ہے۔ اس سارے عمل میں انسان کی مادی اور روحانی تکمیل کے لئے نازل کی ہوئی شریعت بھی اپنے تکمیلی دور سے گزر رہی ہے۔ اس طرح تشیع بھی اپنے ارتقائی منازل طے کر رہا ہے۔ اس مختصر مقالہ میں ہم گزشتہ 14 سوسال سے زائد عرصہ میں تشیع کے ارتقا اور آئندہ کے امکانات کا مختصر جائزہ پیش کریں گے۔
عسکرئین کے موضوع پر اپنے ایک تقریری سلسلہ (1970ع) میں علامہ ترابی اعلی اﷲ مقامہ نے تدوین شریعت سے ابتدا کی اور اس عمل کو چار ادوار میں تقسیم کیا:  تنزیل، تدوین ، اجتہاد اور اجرا۔
1۔ دور تنزیل : زمانہ پیغمبؐر ۔ ١١ھ تک ( قران اور حدیث کا نزول)
2۔ دور تدوین : زمانہ ائمہ اطہارؑ 260ھ اور غیبت صغریٰ 329ھ تک
3۔ دور اجتہاد : غیبت کبریٰ تا انقلاب مہدیؑ ،نص معلوم کی مسلسل تلاش
4۔ دور اجراء: امام کے اقتدار کا دور قبل محشر ،حکم امام کو تسلیم کرنے والا دور ۔
متذکرہ بالا ادوار تشیع کے علم و دانش کے ارتقاء کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔
دورتنزیل:
یہ تاریخی مسلمات میں سے ہے کہ امیر المومنینؑ علی ابن ابی طالب نہ صرف پہلے مفسر قران ہیں بلکہ اولین جامع اور مرتب احادیث بھی ہیں۔ امام حسنؑ آپ کے شریک کار تھے۔ اس طرح ”خلاصہ صحیفہ علوی” کی تدوین ہوئی جو پیغمبرؐ نے لکھوائی۔ یہ ائمہ کے پاس موجود تھی اور اب امامؑ  عصر کے پاس محفوظ ہے۔ وفات پیغمبرؐ کے بعد 11ھ میں تنزیل کا دور ختم ہو گیا اور حالات کو دیکھتے ہوئے علیؑ خانہ نشین ہو گئے اور آخر تک جمع و تفسیر قرآن میں مصروف رہے۔ دور علوی کی ایک اہم تالیف ”کتاب سلیم بن قیس” ہے ( 90ھ )۔ جس میں اصول، رجال اور علم روایت ہے اس کو ”ابجد الشیعہ” بھی کہتے ہیں۔
دورتدوین:
تدوینی دور میں ہمارے ائمہؑ نامساعد حالات کے باوجود علم و دانش کے مشن کو آگے بڑھاتے رہے۔
1۔ امیر المومنینؑ پہلے مفکر اسلام ہیں جنہوں نے خدا وند عالم کی توحید اور اس کے صفات پرمنطقی بحث کی
ہے۔ مالک اشتر کے نام ان کا خط اچھی حکومت کے اصول سکھاتا ہے۔
2۔ امام سجادؑکا رسالہ حقوق، عالمی حقوق انسانی کا دیباچہ ہیں۔
3۔ امام صادق کے نظریات پر یوروپین دانشوروں کی تحقیق تشیع کے علم و دانش کی آفاقیت پر سند ہیں، جابر
بن حیان، کیمیا، حیاتیات اور نباتات کے ماہر کے طور پر مانے جاتے ہیں۔
مغرب کے علمی سفر کا آغاز 16ویں صدی میں ہوا جبکہ امام صادقؑ کے علمی فیوض 8 ویں صدی میں عام ہوچکے۔
4۔ امام رضاؑ کا زمانہ علمی غزوات سے تعبیر ہے جن میں مسلمانوں کے ساتھ مسیحی،یہودی، ہندو، پارسی بہ یک
وقت جمع ہوتے اور حصہ لیتے تھے۔ علم طب میں امامؑ کے فرمودات پر جدید نظریات قائم ہوئے۔
5۔ امام حسن عسکریؑ کا عالی قدر علمی فیض قر آن کی تفسیر ہے۔
تدوین فقہ کے حوالہ سے ائمہ صادقینؑ کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ اس دور کا عظیم کارنامہ اصول کا جمع کرنا ہے۔ اصل کی تعریف حدیث کی وہ کتاب ہے جسے مولف نے خود معصوم سے سن کر جمع کیا ہو یا اس شخص سے سنکر قلمبند کیا ہو جس نے خود معصوم سے سنا تھا۔ علماء نے بڑی چھان بین کے بعد 4000 کتابوں سے حدیث کی 400 کتابیں منتخب کی ان کو اصول اربعہ میاۃ ( یعنی 400 اصول) کہتے ہیں اس طرح یہ 400 کتابیں شیعیت کے سرمایہ علمی کی بنیاد ہیں جو قرآن کے بعد اجتہاد ، تقلید اور مرجعیت کے ارتقا میں اساسی رہنما ثابت ہوئیں اور بعد میں آنے والے محدثین نے انہی کتابوں کے ذریعہ احادیث کے ضخیم مجموعہ تیار کئے اس طرح ہماری کتب اربعہ یعنی کافی، استبصار، من لا یحضر الفقیہ اور تہذیب الاحکام جیسی تالیفات کی بنیادیں استوار کی گئیں۔329ھ میں محمد ابن یعقوب کلینی کی وفات پر تدوین کا دور ختم ہوتا ہے۔
اس تدوینی دور میں ائمہ کی موجودگی میں بے شمار صحابہ کرام اور شاگردوں کو اپنی علمی صلاحیت دکھانے کا موقع ملا۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں: میثم تمار، اصبغ ابن نباتہ، ابو حمزہ ثمالی، مالک بن انس، آبان ابن تغلب، زرارۃ ابن اعین، ذکر یا بن آدم، جابر ابن حیان، ہشام ابن الحکم، حسن بن محبوب، حسن بن سعید، ابو سہل، فضل بن شاذان اور احمد بن محمد بزنطینی وغیرہ۔
دور مجامیع:
اس دور ( تدوینی) سے ملحق دورمجامیع ہے جس میں فقہ سے متعلق ہماری کتب اربعہ کی تالیف ہوئی جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
ابو جعفر محمد بن یعقوب کلینی : ( 329ھ ۔350ھ) اہم کتاب اصول کافی، علم حدیث کی یہ کتاب کئی کتابوں کا نچوڑ ہے۔ 20 برس کی محنت کے بعد تیار ہوئی، اس میں 16199 احادیث ہیں۔
شیخ ابو جعفر محمد بن بابویہ قمی یعنی شیخ صدوق (305ھ۔ 381ھ ) من لا یحضر الفقیہ ۔ 9044 احادیثِ  پیغمبؐر کو حروف تہجی کی ترتیب کے ساتھ مرتب کیا۔ شیخ صدوق ہمارے مشاہیر حدیث و شیوخ اکابرین میں روشن سورج کی طرح میں۔امالی صدوق اور 614 کتابوں کے مصنف۔(من لا یحضر الفقیہ کی کتاب توحید 1307ھ میں مطبع جعفری لکھنو نے 4 جلدوں میں شایع کیا ہے)۔
ابوعبداﷲ محمد بن نعمان بغدادی، شیخ مفید (336 ھ۔ 413ھ) حدیث و فقہ میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ تصانیف 300 سے زیادہ ہیں۔( شیخ مفید، سید رضی اور سید مرتضیٰ کے استاد)۔
شیخ الطائفہ ابو جعفر محمد بن حسن طوسی ( 385ھ۔ 460ھ) مصنف تہذیب الاحکام اور استبصار (5511)، فقہ مین ”النہایہ ” اور” مبسوط” کتاب کے مصنف ہیں۔تفسیر میں” تبیان” اور رجال میں” فہرست” آپ کے شاہکار ہیں۔ استبصار میں متضاد حدیثوں پربحث کی گئی ہے۔
اتنا عظیم سرمایہ جو ہمارے پاس ہے اس میں ایک بھی روایت ایسی نہیں جو غیر معصوم سے چلی ہو۔ معصوم نے کبھی غیر معصوم سے روایت نہیں کی اور نہ ہی ہمارے فقہا نے قیاس پر عمل کیا اتنے نصوص کی موجودگی میں قیاس رائے یا استحسان کا جواز ہی نہیں رہتا۔
دور اجتہاد:
نیابت خاص کا سلسلہ جو غیبت صغریٰ میں کارفرما تھا 329ھ میں غیبت کبریٰ واقع ہونے پر نیابت عام میں تبدیل ہو گیا۔ اجتہاد، تقلید اور مراجع پر بحث اس مقالہ کا بنیادی مقصد نہیں ہے لیکن تشیع کے علم و دانش کی راہ میں اجتہاد، ایک نمایاں سنگ میل ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اجتہاد کی اصطلاح عموماً استدلال اور استنباط کی کوششوں کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے جس میں مسلمہ قوانین / قواعد کے ذریعہ احکام کی روح تک پہنچتے ہیں یا مرضی معصومؑ تلاش کرتے ہیں۔ جو لوگ اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتے ان پر فرض ہے کہ در پیش مسائل سے متعلق دینی احکام کو ان لوگوں سے معلوم کریں جو اس کی صلاحیت رکھتے ہیں اس عمل کا نام تقلید ہے۔ یہ سارا نظام اجتہاد و تقلید مجتہد کے ذریعہ عمل پیرا ہے جو مراجع یا اجتہاد کے مراکز ہیں۔ غیبت صغریٰ کے دوران نوابین کو فتویٰ کی ترغیب یا اختیار دیا جانا اس اصول کے جواز کی دلیل ہے۔ قرانی آیات جن میں جاہل کو عالم کی اتباع کی ہدایت ہے تقلید کے اصول کی تائید کرتی ہے۔ مجامع حدیث میں اس ضمن میں 100 سے زائد احادیث ہیں (ابن حسن نجفی ”تقلید اوراجتہاد” اور” تقلید پر اعتراضات کا تجزیہ” جمیع دانشمندان)۔
آخر میں مراجع سے متعلق امام حسن عسکریؑ کا ارشاد ہے” جو فقیہ خود کو سنبھالے ہوئے ہوں اپنے دین کی رکھوالی کرتے ہوں۔ خواہشات نفسانی کا ساتھ نہ دیتے ہوں اور خدا وند عالم کے فرمان بردار ہوں تو عوام کو چاہئے کہ ان کی تقلید کریں۔ (وسائل الشیعہ)
مراجع تقلید و اجتہاد:
تشیع کے علم و دانش کے کارواں کے رہنماؤں میں قدآور شخصیتیں نظر آتی ہیں جن کا تعلق علوم قرانی، حدیث، سیرت، رجال، فقہ، تفسیر تاریخ، علم کلام، صرف و نحو، فلکیات اور جدید علوم سے ہے۔ علامہ ابن حسن نجفی نے ”تقلید و اجتہاد” میں 340ھ سے 1415ھ کے عرصہ پر محیط 146 مجتہدین کی فہرست دی ہے۔ سید آل محمد مہر جائسی نے ”گوہر یگانہ” میں نواب اربعہ سے لیکر 1300ھ تک 25 منتخب علماء وفقہا کی فہرست دی ہے اس میں بر صغیر ہندکے علماء بھی شامل ہیں۔ استاد شہید مرتضیٰ مطہری نے رسالہ توحید میں( علم فقہ مترجم ابو جواد) 36 اہم فقہاء ومحدثین کا تذکرہ کیا ہے۔ متذکرہ بالا ما خذوں سے 28 علماء کی فہرست ترتیب دی گئی ہے جو بطور ضمیمہ شامل ہے۔
متذکرہ فہرست سے عیاں ہوتا ہے کہ ہمارے حوزہ ہائے علمیہ دنیوی علائق، و انقلابات کے باوجود بلا وقفہ اپناکام کرتے رہے اور علم و دانش کی امانت کو گزشتہ 14 سو سال میں نسلاً بعد نسلاٍمنتقل کر رہے ہیں یہ وصل قول اور تسلسل فکر کا سرمایہ ہے جو ہر راہ سے معصوم تک پہنچتا ہے اور یہی تشیع کا امتیاز ہے۔ تشیع کے علمی سفر پر نظر ڈالیں تو کئی قد آور شخصیتیں نظر آتی ہیں جنہوں نے اس کاروانِ علم کی قیادت کی ہے۔ دور اجتہاد جاری ہے اور ظہور امام تک رہیگا۔
حوزہ ھاعلمیہ:
ان ارشادات کی روشنی میں حوزھا علمیہ قائم ہوئے جو تشیع کے علم و دانش کے مرکز کے طور پر علوم محمد و آل محمد کی ترویج و اشاعت کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں اور گذشتہ 11 سو سال سے تسلسل کے ساتھ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں ماسوا بعض عارضی بندشوں کے استادشا گرد کا رابطہ منقطع نہیں ہوا۔ ابتدائی دنوں میں بغداد شیعہ فقہ کا مرکز تھا بعد شیخ طوسی کے ہاتھوں نجف مرکز قرار پایا۔ کچھ عرصہ بعد جبل عامل (لبنان) مرکز بنا۔ پھر عراق میں حلہ اور پھر شام میں حلب فقہا کے مرکز بنے۔ صفویوں کے زمانہ میں فقہ کی مرکزیت اصفہان کو ملی اور اس زمانہ میں مقدس اردبیلی اور دوسرے بزرگوں کے ذریعہ نجف کے حوزہ علمیہ نے نئی زندگی پائی جو آج تک باقی ہے۔ ایرانی شہروں میں قم ابتدائی صدیوں میں ہی مرکز فقہ بن گیا تھا۔ 1340ھ میں شیخ عبدالکریم یزدی نے اس میں نئی روح پھونکی اور آج قم دنیائے تشیع میں تحقیق کا انتہائی فعال مرکز ہے۔
حاصل کلام:
انسانوں کی رہنمائی کے لئے ایک حجت خدا کا وجود ضروی ہے جو اس نظام کائنات کو قدرت کی مرضی کے مطابق تکمیل کے مراحل تک پہنچائیگا۔ ابتدائی دور میں نواب اربعہ کے ذریعہ حجت خدا تک رسائی ممکن تھی۔ غیبت کبریٰ کے زمانہ میں نیابت عامہ کا سلسلہ بذریعہ مجتہدین، علماء اور مراجع علمی قائم ہوا جو اب تک جاری ہے وجود مہدیؑ اور فلسفہ غیبت کے نظریات نہ صرف قرآن اور حدیث کے معیار پر بلکہ عقلی اور سائنسی طرز فکر سے بھی ہم آہنگ ہیں۔
انتظار امام کے طویل عرصہ میں تشیع کا کارواں علم و دانش فعال عنصر کے طور پر ایک قابل فخر ماضی کا حامل ہے اور ہم ایک قیمتی سرمایہ علمی پر اعتماد کرتے ہیں۔ مستقبل کے تقاضوں میں سائنس اور ٹکنالوجی پر دسترس حاصل کرنا اور کردار کی بلندی اہم لازمات ہیں۔ دنیاۓ ظلم و جور کے خاتمہ اور عدل و انصاف کی بالادستی قائم کرنے میں امام مہدیؑ کے مقصد سے وفاداری اور اس کے حصول کے لئے آمادگی ضروری ہے۔
https://erfan.ir/urdu/32406.html

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button