محافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے نام اور القابات

 مختار حسین توسلی
شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا ءسلام اللہ علیہا کے مختلف نام اور القابات ہیں، یہ نام اور القابات بلند پایہ معانی و مطالب پر مشتمل ہیں، جو آپ کی عظمت و بزرگی اور فضیلت و برتری کی طرف اشارہ کرتے ہیں، یوں تو آپ کے بہت سارے اسما و القابات ہیں لیکن ذیل میں ان میں سے چند ایک کی مختصر وضاحت و توضیح پیش کی جائے گی۔
فاطمہ (س) کا معنی :
جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کا پہلا اور مشہور نام فاطمہ ہے، لفظ فاطمہ فَطَمَ کے مادے سے مشق ہے جس کے معنی فاصلہ ڈالنے، روک دینے اور منقطع کر دینے کے ہیں، چنانچہ وہ بچہ جس کا دودھ چھڑا لیا گیا ہو اسے عربی میں فَطَمَ الرَضِيع يَعنِي قَطَعَه أو فَصَلَه عَنِ الرِضَاعَةِ کہتے ہیں، یعنی اب اسے دودھ پینے سے روک دیا گیا ہے۔
اسی طرح اگر کسی شخص کی بری عادت چھڑا لی گئی ہو تو فَطَمَ فُلاَنَا عَن عَادَتِه أي قَطَعَه عَنها کہتے ہیں، یعنی اس شخص کو بری عادت سے روک دیا گیا ہے یا دور کر دیا گیا ہے۔
معصومین علیہم السلام نے لفظ فاطمہ کے مختلف معانی بیان کیے ہیں تاکہ جناب سیدہ کی عظمت ذیادہ سے ذیادہ نمایاں ہو۔
چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کا نام فاطمہ رکھنے کی علت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: " إنّما سُمّيَت اِبنَتِي فَاطِمَة لِأَنَّ اللهَ عزَّ وجَلَّ فَطَمَهَا وَ فَطَمَ مَن أحَبَّها مِنَ النّارِ. "
"میری بیٹی کا نام فاطمہ اس لیے رکھا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اُسے اور اُس سے محبت کرنے والوں کو آتش دوزخ سے دور کر دیا ہے ۔
(الکلینی : الکافی ج : 1 ، ص: 464 ، بحرانی: العوالم العلوم ج : 6 ، ص: 30 )
امام جعفر صادق علیہ السلام اس حوالے سے فرماتے ہیں: ” وإنَّمَا سُمِّيَت فَاطِمَة لَأَنَّ الخَلقَ فَطَمُوا عَن مَعرِفَتِهَا۔
یعنی ” جناب سیدہ سلام اللہ کے لیے فاطمہ کا نام اس لیے منتخب کیا گیا ہے کیونکہ لوگوں (یعنی دشمنوں) کو ان کے مقام و منزلت کے حقیقی ادراک اور معرفت سے دور کر دیا ہے۔”
(بحار الانوار ج: 43 ، ص : 13)
زہرا ءکا مطلب :
جناب خاتون جنت سلام اللہ علیہا کے اسماء میں سے دوسرا مشہور اسم "زہرا” ہے، جس کے معنی سفیدی، حُسن، روشنی وغیرہ کے ہیں، اللہ تعالی نے آپ کی جبین مبارک میں گیارہ اماموں کا نور رکھا تھا، جسے جناب رسالت مآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بار بار چوما کرتے تھے، اور آپ کو زہرا کے نام سے پکارا کرتے تھے۔
عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ قُلْتُ لَهُ لِمَ سُمِّيَتْ فَاطِمَةُ الزَّهْرَاءُ زَهْرَاءَ، فَقَالَ: لِأَنَّ اللہَ عَزَّ وَ جَلَّ خَلَقَهَا مِنْ نُورِ عَظَمَتِهِ فَلَمَّا أَشْرَقَتْ أَضَاءَتِ السَّمَاوَاتُ وَ الْأَرْضُ بِنُورِهَا وَ غَشِيَتْ أَبْصَارُ الْمَلَائِكَةِ وَ خَرَّتِ الْمَلَائِكَةُ لِلَّهِ سَاجِدِينَ وَ قَالُوا إِلَهَنَا وَ سَيِّدَنَا مَا لِهَذَا النُّورِ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِمْ هَذَا نُورٌ مِنْ نُورِي أَسْكَنْتُهُ فِي سَمَائِي خَلَقْتُهُ مِنْ عَظَمَتِي أُخْرِجُهُ مِنْ صُلْبِ نَبِيٍّ مِنْ أَنْبِيَائِي أُفَضِّلُهُ عَلَى جَمِيعِ الْأَنْبِيَاءِ وَ أُخْرِجُ مِنْ ذَلِكَ النُّورِ أَئِمَّةً يَقُومُونَ بِأَمْرِي يَهْدُونَ إِلَى حَقِّي وَ أَجْعَلُهُمْ خُلَفَائِي فِي أَرْضِي بَعْدَ انْقِضَاءِ وَحْيِي۔”
جناب جابر سے مروی ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا: حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو زہرا کیوں کہا جاتا ہے؟ امام عالی مقام نے فرمایا: اللہ تعالی نے جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کو اپنی عظمت کے نور سے خلق کیا ہے، جب یہ نور چمکا تو اس کی روشنی سے زمین و آسمان منور ہو گئے، ملائکہ کی آنکھیں چندھیا گئیں اور وہ خدا کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو گئے، ملائکہ نے کہا اے ہمارے معبود اور آقا ! یہ نور کیسا ہے؟ پس اللہ نے ان پر وحی نازل کی اور فرمایا: یہ میرے نور سے ہے جسے میں نے آسمانوں میں ٹھہرایا ہوا تھا، اسے میں نے اپنی عظمت سے خلق کیا ہے، اس نور کو میں اپنے انبیاء میں سے اُس نبی کے صلپ سے دنیا میں ظاہر کروں گا جسے میں تمام انبیاء (و مرسلین علیہم السلام) سے افضل قرار دوں گا اور اس نور سے ایسے اماموں کو دنیا میں بھیجوں گا جو میرے امر کو قائم کریں گے، لوگوں کو میرے حق کی طرف دعوت دیں گے، اور وحی کے منقطع ہونے کے بعد میں انہیں زمین میں اپنا خلیفہ قرار دوں گا۔
اس روایت میں شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی عالم ملکوت یعنی عالم ملائکہ، ارواح اور نفوس قدسیہ میں خلقت کو بیان کیا گیا ہے اس کے بعد والی روایت میں آپ کی عالم ناسوت یعنی اس کائنات ِ ہست و بود جس میں ہم رہ رہے ہیں میں خلقت کا تذکرہ کیا گیا ہے، ملاحظہ ہو۔
نیز مروی ہے، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زَكَرِيَّا الْجَوْهَرِيُّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَارَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ (ع) عَنْ فَاطِمَةَ لِمَ سُمِّيَتِ الزَّهْرَاءَ فَقَالَ : لِأَنَّهَا كَانَتْ إِذَا قَامَتْ فِي مِحْرَابِهَا زَهَرَ نُورُهَا لِأَهْلِ السَّمَاءِ كَمَا تَزْهَرُ نُورُ الْكَوَاكِبِ لِأَهْلِ الْأَرْضِ۔
محمد بن زکریا جوہری جعفر بن محمد بن عمارہ سے انہوں نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو زہرا کیوں کہتے ہیں، امام نے جواب میں فرمایا: جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کو زہرا اس لیے کہا جاتا ہے کہ جب آپ محراب عبادت میں کھڑی ہو جایا کرتی تھیں تو آپ کا نور اہل آسمان کو روشنی بخشتا تھا، جیسے ستارے اہل زمین کو روشنی بخشتے ہیں۔
(صدوق، علل الشرائع، مولف: ابی جعفر محمد بن علی ابن الحسین بن موسی بن بابویہ قمی معروف بہ شیخ صدوق علیہ الرحمہ، تحقیق و تقدیم :سیدمحمد صادق بحر العلوم قدس سرہ، ج 1 ص 179 تا 181، ناشر: مکتبہ حیدریہ نجف اشرف عراق، تاریخ: 1385ھ _ 1966م)
بتول کا معنی:
جناب سیدہ سلام اللہ کے القابات اور ناموں میں سے تیسرا مشہور نام ” بتول” ہے، بتول یعنی عذرا جس کے معنی باکرہ کے ہیں، بتول لفظ بَتَلَ سے ماخوذ ہے، جو قَطَعَ اور فَصَلَ کے معنی میں ہے، جب ایک چیز کو دوسری چیز سے جدا اور الگ کر دیا ہو تو” بَتَلَ الشَّي عَن الشّي، یعنی قَطَعَ أو فَصَلَهُ عَن غَيرِهِ” استعمال کرتے ہیں، گویا کہ وہ چیز دیگر چیزوں سے منفرد اور جدا ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو بتول اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ کو اللہ تعالی نے تمام نسوانی نجاستوں جیسے حیض، نفاس اور استحاضہ سے پاک و منزہ کرکے پیدا کیا ہے، ملحوظ رہے کہ جناب مریم سلام اللہ علیہا کو بھی بتول کہا جاتا ہے کیونکہ آپ کے ہاں باکرہ ہونے کی حالت میں حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت ہوئی، مگر جناب سیدہ بتول عذرا اور فخر مریم ہیں،
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :” الْبَتُولُ الَّتِي لَمْ تَرَ حُمْرَةً قَطُّ أَيْ لَمْ تَحِضْ، یعنی بتول وہ ہے جسے خونِ حیض نہ آئے.( حوالہ سابق )
فاطمہ (س)، ام ابیہا :
حضرت فاطمہ زہرا ک(س) ے القابات میں سے ایک مشہور لقب ” ام ابیہا ” ہے جو آپ کو پیغمبر گرامی قدر صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عطا فرمایا، اس کا لفظی معنی یہ ہے کہ فاطمہ اپنے باپ کی ماں ہیں، یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ میرے نزدیک فاطمہ اسی طرح محترم ہیں جس طرح کوئی ماں اپنی اولاد کے لئے محترم ہوا کرتی ہے۔
گویا آپ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی عظمت کو دنیا والوں پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کوئی معمولی مقام و مرتبے کی حامل خاتون نہیں ہیں بلکہ ایسی باعظمت خاتون ہیں کہ جن کو خاتم الانبیاء جیسی شخصیت نے ام ابیہا کے لقب سے نوازا ہے، یہ ایسی فضیلت ہیں جو اولین و آخرین میں جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے علاوہ کسی اور خاتون کو نصیب نہیں ہوئی یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علاوہ کسی اور باپ نے اپنی بیٹی کے بارے میں ایسے جذبات کا اظہار نہیں کیا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو أم أبیھا کا لقب دینے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ عربی میں ” لفظ ام ” مبداء اور اصل کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی ایسی اصل کہ جس کی طرف باقی تمام چیزوں کی بازگشت ہو، یعنی جن ہستیوں اور جن شخصیات نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد اسلام کو بچایا اور اس کی تعلیمات کو پورے عالم میں پھیلایا ہے ان کی بنیاد اور اصل جناب سیدہ سلام اللہ علیہا ہیں باین معنی جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے وجود کی برکت سے شجریہ امامت نے رشد پایا ہے جس نے دین خدا کو ختم ہونے اور نبی خدا کو مقطوع النسل اور ابتریت کے طعنے سے بچایا ہے۔
عراق کے مشہور و معروف خطیب ِ منبر حسینی شیخ احمد وائلی رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایک خطاب میں بیان کرتے ہیں کہ مکہ مکرمہ کو أم القریٰ یا أم المُدُن (یعنی تمام شہروں کی اصل) کہا جاتا ہے، اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں ایک یہ کہ پرانے زمانے میں مکہ تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا قرب و جوار کے لوگ تجارت کی غرض سے یہاں آیا کرتے تھے۔
دوسرے یہ کہ مکہ سے اسلام کا آغاز ہوا اور اسلام کی تعلیمات یہیں سے پوری دنیا میں پھیل گئیں چنانچہ مکہ مکرمہ باقی شہروں کے لیے اصل اور بنیاد قرار پایا۔
سورہ فاتحہ کو ام الکتاب یا ام القرآن کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں جو شرف ہے وہ پورے قرآن مجید پر محیط ہے۔
لہذا خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو ام ابیہا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ام عترت ہیں، وہ عترت جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کی ذمہ داریوں کو تا قیام قیامت اٹھانے والی ہے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button