عزم امام حسین علیہ السلام مدینہ سے کربلا تک

نصف رجب سنہ 60ھ کو معاویہ کی موت کے بعد، یزید کو چند افراد کی بیعت کے سوا کوئی دوسری فکر لاحق نہیں تھی۔ چنانچہ اس نے والیِ مدینہ کو ایک خط لکھا، اور حکم دیا کہ "امام حسینؑ، ابن عمر اور ابن زبیر سے زبردستی بیعت لو، جو نہ مانے اس کا سر قلم کرو”۔ یزید نے دوسرے خط میں ولید کو حکم دیا کہ "خط وصول کرتے ہی ۔۔۔ حسین بن علیؑ کا سر بھی، خط کے جواب کے ساتھ روانہ کرو”۔ چنانچہ ولید نے مروان سے مشورہ کیا؛ اور مروان کی تجویز پر انہیں دارالامارہ بلوایا۔ بہرحال منصوبہ قتل امام حسینؑ پہلے سے طے پا چکا تھا۔
امام حسین علیہ السلام نے معاویہ کی موت کے بعد یزید کی بیعت کو جائز نہیں سمجھااور آخر کار عاشورا سنہ 61 ہجری کو کربلا کے میدان میں دو لشکروں کے مابین ہونے والی جنگ میں آپؑ اور آپؑ کے قلیل ساتھی جن کی تعداد، 72 تھی – جام شہادت نوش کرگئے اور اہل بیت اور اصحاب میں سے آپؑ کے پسماندگان کو یزیدی لشکر نے اسیر کرکے کوفہ و شام بھجوایا۔
یزید کی بیعت سے انکار اور اس کے نتائج
نصف رجب سنہ 60ھ کو معاویہ کی موت کے بعد، لوگوں نے یزید کے ساتھ بیعت کی(1)۔ یزید کے بر سر اقتدار آنے کے بعد اسے اس کی بیعت کے لئے معاویہ کی دعوت مسترد کرنے والے چند افراد کی بیعت کے سوا کوئی دوسری فکر لاحق نہ تھی(2)۔ چنانچہ اس نے اس وقت کے والیِ مدینہ ولید بن عتبہ بن ابی سفیان کو ایک خط لکھا، معاویہ کی موت کی خبر دی اور ساتھ ہی ایک چھوٹا اور مختصر خط بھی بھجوایا جس میں اس نے ولید کو ہدایت کی تھی کہ "امام حسین (علیہ السلام)، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر سے زبردستی بیعت لو اور جو نہ مانے اس کا سر قلم کرو”(3)۔ ان مکتوبات کے پہنچتے ہی ایک اور مکتوب بھی یزید کی طرف سے موصول ہؤا جس میں اس نے والی مدینہ کو حکم دیا تھا کہ "خط وصول کرتے ہی میرے حامیوں اور مخالفین کے نام میرے لئے بھجوا دو اور امام حسین (علیہ السلام) کا سر بھی، خط کے جواب کے ساتھ میرے لئے روانہ کرو”(4)۔ چنانچہ ولید نے مروان بن حکم سے مشورہ کیا(5)؛ اور مروان بن حکم کی تجویز پر انہیں دارالامارہ بلوایا۔(6)
ولید نے عبداللہ بن عمرو بن عثمان بن عفان کو امام حسین (علیہ السلام)، عبداللہ بن زبیر، عبداللہ بن عمر اور عبدالرحمن بن ابی بکر کے پاس روانہ کیا کہ انہیں حاکمِ مدینہ کے پاس بلا دے(7)،تاہم امام حسین (علیہ السلام) اپنے 30 ساتھیوں کے ہمراہ دارالامارہ پہنچے(8)۔ ولید نے معاویہ کی موت کی خبر سنائی اور پھر یزید کا خط پڑھ کر سنایا جس میں اس نے حکم دیا تھا کہ "حسین (علیہ السلام)، سے میرے لئے بیعت لو”(9)۔ چنانچہ ولید نے امام حسین (علیہ السلام) سے کہا کہ بیعت کریں! لیکن امام حسین (علیہ السلام)، نے مہلت مانگی اور ولید نے بھی مہلت دے دی(10)۔ امام حسین (علیہ السلام) نے ولید سے فرمایا: "کیا تمہیں یہی پسند ہے کہ میں در پردہ، بیعت کروں؟ میرے خیال میں تمہارا مقصد بھی یہ ہے کہ میری بیعت عوام کی آنکھوں کے سامنے ہو”۔ ولید نے کہا: ہاں! میرا مقصد یہی ہے(11)۔ امام حسین (علیہ السلام)، نے فرمایا: "پس، کل تک مجھے فرصت دو تا کہ میں اپنی رائے کا اعلان کروں۔ (12)
حاکم مدینہ نے دوسرے روز شام کے وقت اپنے گماشتوں کو امام حسین (علیہ السلام) کے ہاں بھجوایا تاکہ آپ سے جواب وصول کرے(13)۔لیکن امام حسین (علیہ السلام) اس رات کے لئے بھی مہلت مانگی اور ولید نے پھر بھی آپ کو مہلت دی، شہر مدینہ مزید پرامن نہیں رہ سکا تھا(14)، چنانچہ امام حسین (علیہ السلام) نے مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا (15)۔ امام حسین (علیہ السلام) اسی رات [یعنی شب یک شنبہ [اتوار] کی رات مدینہ ترک کرکے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ (16)
مدینہ سے ہجرت مکہ کی طرف عزیمت
واضح رہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) مشرکین قریش کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے مکہ سے مدینہ ہجرت کرگئے تھے اور آج فرزند رسول (علیہ السلام) کو ان ہی وجوہات اور ان ہی مشرکین کی اولاد کی سازشوں کی بنا پر مدینہ چھوڑ کر مکہ ہجرت کرنا پڑ رہی تھی، جس کے بعد آپ کو عراق کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ اور پیغمبر کو مکہ سے ہجرت پر مجبور کرنے والوں کے بیٹے یزید پلید نے امام حسین (علیہ السلام) کو قتل کرکے کہا: کاش میرے بدر میں مارے گئے آباء و اجداد آج زندہ ہوتے اور میرے اس کارنامے کو دیکھ کر کہتے تیرے ہاتھ شل نہ ہوں، یعنی مدینہ سے مکہ اور عراق کی طرف امام حسین (علیہ السلام) کی ہجرت اسلام کے دعویداروں کی سازشوں کا نتیجہ تھی۔ یہاں اس ہجرت کے مختلف مراحل اختصاراً بیان کئے جارہے ہیں:
ترک وطن
امام حسین (علیہ السلام) نے مدینہ سے نکلنے کا ارادہ کیا، رات کے وقت اپنی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت رسول (سلام اللہ علیہا) اور بھائی امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) کی قبور پر حاضری دی، نماز بجا لائی اور وداع کیا اور صبح کے وقت گھر لوٹ آئے(17)۔ بعض تاریخی ذرائع نے بیان کیا ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) دو شب مسلسل اپنے جد امجد حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی قبر کے پاس رہے۔ (18)
وصیت، بھائی محمد بن حنفیہ کے نام
محمد بن حنفیہ کو معلوم ہؤا کہ بھائی حسین (علیہ السلام) عنقریب سفر پر جارہے ہیں تو انہوں نے آ کر وداع کیا۔ امام حسین (علیہ السلام) نے اپنی وصیت ان کے نام پر لکھی جس کا مضمون کچھ یوں تھا:
"إِنّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاِْصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ وَأَسيرَ بِسيرَةِجَدّى وَأَبى عَلِىِّ بْنِ أَبيطالِب؛ میں اپنا وطن کسی شر و فساد پھیلانے اور ظلم و ستم کرنے کی خاطر نہیں چھوڑ رہا ہوں بلکہ مدینہ سے میری روانگی کا مقصد یہ ہے کہ اپنے نانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی امت کی اصلاح کروں؛ اور امر بالمعروف کروں اور نہیں عن المنکر کروں (نیکی کا حکم دوں اور برائیوں سے روکوں) اور اپنے نانا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور بابا علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کی سیرت پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہوں”۔ (19)
مکہ کی طرف روانگی
امام حسین (علیہ السلام) 28 رجب المرجب کو رات کے وقت اور بروایتے تین شعبان المعظم سنہ 60ھ کو (21) اپنے خاندان اور اصحاب کے 82 افراد کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے(20)۔ اس سفر میں محمد بن حنفیہ کے سوا امام حسین (علیہ السلام) کے اکثر اعزّاء و اقارب منجملہ آپ کے بیٹے، بیٹیاں، بھائی، اور بھتیجے ـ آپ کے ساتھ تھے(22)۔ بنو ہاشم کے علاوہ، آپؑ کے 20 صحابی بھی آپ کے ساتھ روانہ ہوگئے تھے۔ (23)
امام حسین علیہ السلام اپنے قافلے کے ساتھ مدینہ سے نکل گئے اور اپنے بعض قریبی اقرباء کی مخالفت کے باوجود مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ (24)
مکہ کے راستے میں آپ اور افراد قافلہ نے عبداللہ بن مطیع، سے ملاقات کی(25)۔ امام حسین (علیہ السلام) پانچ روز بعد 3 شعبان سنہ 60 ہجری کو مکہ میں داخل ہوئے اور اہلیان مکہ اور حُجاجِ بیت اللہ الحرام نے آپ کا شاندار استقبال کیا۔ (26)
مدینہ سے مکہ کی طرف سفر کا راستہ
15 رجب سنہ 60 ہجری معاویہ کا انتقال بسوئے یوم الحساب؛ 28 رجب سنہ 60 ہجری امام کی مدینہ سے روانگی براستۂ ملل، ذوالحلیفہ، السیالہ، عرق الظبیہ، الروحاء، الإثابہ، العرج، لحى جمل، السقیاء، الأبواء، الہرشا کی گھاٹی، الرابغ، الجحفہ، قدید، خلیص، عسفان، مر الظہران، الثنیتین، مكۃ المكرمہ، یہی وہ راستہ ہے جو امام حسین علیہ السلام نے پانچ دن میں طے کیا۔
امام حسین علیہ السلام مکہ میں
قافلہ حسینی مدینہ سے عزیمت کے پانچ دن بعد تین شعبان سنہ 60ھ کو مکہ پہنچا(27)۔ مکہ کے باشندے اور بیت اللہ الحرام کے زائرین آپ کی آمد کی خبر سن کر بہت خوش ہوئے۔ شب و روز آپ کی رہائشگاہ میں لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا اور یہ بات عبداللہ بن زبیر پر بہت گراں گذرتی تھی؛ کیونکہ اس کو امید تھی کہ مکی عوام اس کے ہاتھ پر بیعت کریں گے اور جانتا تھا کہ جب تک امام حسین علیہ السلام مکہ میں ہونگے لوگ اس کے ساتھ ببیعت نہیں کریں گے کیونکہ امام حسین (علیہ السلام) کی منزلت مکی عوام کے نزدیک عبداللہ بن زبیر کی منزلت سے بہت بلند تھی۔(28)
کوفیوں کے خطوط اور امام حسین علیہ السلام کو قیام کی دعوت
ابھی امام حسین علیہ السلام کی مکہ میں آمد کے چند ہی روز گذرے تھے کہ شیعیان عراق مرگِ معاویہ کی خبر ملی اور یزید کی بیعت سے امام حسین علیہ السلام اور ابن زبیر کے انکار سے بھی آگاہ ہوئے؛ چنانچہ وہ سلیمان بن صُرَد خزاعی کے گھر میں جمع ہوئے اور امام حسین علیہ السلام کے لئے خط لکھ کر آپ کو کوفہ آنے کی دعوت دی۔ (29)
انھوں نے خط عبداللہ بن سَبعِ ہَمْدانی اور عبداللہ بن وال ہاتھوں مکہ روانہ کیا(30)۔ ان دو افراد نے کوفیوں کا خط 10 رمضان المبارک کو مکہ میں امام حسین علیہ السلام تک پہنچا دیا (31)۔ پہلے خط کے دو روز بعد انھوں نے قيس بن مُسہِر الصیداوی، عبدالرحمن بن عبداللہ بن کدِنِ اَرحَبی اور عُمارَۃ بن عُبَید سَلولی کو 150 خطوط دے کر مکہ روانہ کیا۔ ہر خط پر ایک سے چار افراد تک کے دستخط تھے (32)۔ یہ سارے خطوط امام حسین علیہ السلام کو کوفہ آنے کی دعوت پر مشتمل تھے۔ ان خطوط کے دو روز بعد کوفیوں نے مزید خطوط دو قاصدوں ہانی بن ہانی السبیعی اور سعید بن عبداللہ حنفی کے ہاتھوں امام حسین علیہ السلام کے کے لئے روانہ کئے اور آپ سے کوفہ آنے کی درخواست کی۔ (33)
دلچسپ یہ کہ اموی حکومت کے حامیوں کے سرکردہ افراد شَبَث بن رِبعى، حَجّار بن اَبجَر، يزيد بن حارث بن يزيد بن رُوَيم، عَزْرَة بن قيس، عمرو بن حَجّاج زُبَيدى اور محمّد بن عُمَير تميمى، نے بھی امام کو خط لکھا (34) اور آپؑ سے کوفہ آنے کی درخواست کی(35)۔ لیکن اس کے باوجود امام حسین علیہ السلام اتنے سارے خطوط کا جواب دینے میں صبر و تامل سے کامل لے رہے تھے حتی کہ ایک دن کوفیوں کی طرف سے 600 خطوط امام حسین علیہ السلام کو خطوط موصول ہوئے (36) اور اس کے بعد بھی متعدد خطوط یکے بعد از دیگر موصول ہوتے رہے (37)۔ تب جاکر امام حسین علیہ السلام نے ایک خط لکھ کر ہانی بن ہانی السبیعی اور سعید بن عبداللہ حنفی کو دیا(38)۔ اس خط میں آپؑ نے لکھا: ۔۔۔ میں نے اپنے بھائی، ابن عم، معتمد اور اہل خاندان کو تمہاری طرف بھیجا اور ان سے کہا کہ تمہارے احوال، تمہارے امور اور تمہاری رائے کے بارے میں مجھے لکھ دیں؛ اگر وہ لکھیں کہ جماعت اور عقلمندوں کی رائے وہی ہے جو یہ قاصد مجھے بتا چکے ہیں تو میں بہت جلد تمہاری طرف آتا ہوں(39)۔ چنانچہ آپ نے کوفہ کا سفر مسلم بن عقیل کی طرف سے اہل کوفہ کے دعؤوں اور وعدوں کی تائید سے مشروط کیا۔
کوفہ کے لئے اامام حسین علیہ السلام کے سفیر
امام حسین علیہ السلام نے کوفیوں کے نام ایک خط دیکر اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو عراق روانہ کیا؛ تا کہ وہاں کے حالات کا جائزہ لیں اور آپ کو حالات کی خبر دیں(40)۔ مسلم (علیہ السلام) 15 رمضان المبارک کو خفیہ طور پر مکہ سے نکلے اور 5 شوال المکرم کو کوفہ پہنچ کر مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کے گھر میں مقیم ہوئے(41)۔ اس وقت اموی حکومت کا گورنر اور امیر کوفہ نعمان بن بشیر انصاری تھا(42)۔ شیعیان کوفہ مسلم (علیہ السلام) کی آمد سے مطلع ہونے کے بعد ان کے پاس حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی(43)۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ 18000 افراد نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔(44)
عبداللہ بن مسلم، اس کے بعد عُمارۃ بن عُقبہ اور اس کے بعد عمر بن سعد نے یزید کو خط لکھ کر کوفہ کے حاکم کو معاملات و انتظامات حکومت کے حوالے سے کمزور قرار دیا اور اس سے درخواست کی کہ کوفہ کے لئے کوئی فوری اور مؤثر اقدام کرے(45)۔ یزید نے اپنے مشیر سرجون نصرانی سے مشورہ کیا اور اس کے مشورے پر کوفہ اور بصرہ کی حکومت عبید اللہ بن زیاد کے سپرد کردی(46)۔ عبید اللہ بن زیاد بھیس بدل کر کوفہ میں داخل ہؤا اور دارالعمارہ پہنچ کر اپنا تعارف کرایا۔ (47)
ابن زیاد نے مسجد کوفہ میں لوگوں سے خطاب کیا، انہیں اپنی مخالفت سے خوفزدہ کیا، قبائل کے سربراہوں کے ساتھ بہت سختی سے پیش آیا اور اپنے مخالفین کو شدید دھمکیاں دیں(48)۔ مسلم بن عقیل، ابن زیاد کی آمد اور اس کے خطاب سے باخبر ہوئے، اور قبائل کے سربراہوں کے ساتھ اس کے سخت رویئے سے آگاہ ہوئے تو مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کے گھر سے نکل کوفہ کے ایک زعیم ہانی بن عروہ مرادی کے گھر میں پناہ لی(49)۔ انھوں نے اپنا خط عابس بن ابی شَبیبِ شاکری، کو دے کر امام حسین (علیہ السلام) کو بھجوایا، (50) جس میں انھوں نے لکھا تھا: "18000 افراد نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے، میرا خط وصول کرکے آنے میں عجلت کریں”۔ (51) ابن زیاد نے کسی حد تک کوفہ پر مسلط ہونے کے بعد، مسلم (علیہ السلام) کا خفیہ ٹھکانہ معلوم کرنے کے لئے اپنے غلام معقل کو مسلم (علیہ السلام) کے حامیوں کے درمیان بھیج دیا۔ (52) ابن زیاد نے مسلم (علیہ السلام) کا ٹھکانہ معلوم کرنے کے بعد ہانی بن عروہ کو دھوکے سے دارالامارہ لے گیا اور انہیں قید کرلیا۔ (53)
ہانی بن عروہ کی گرفتاری کے بعد مسلم (علیہ السلام) نے اپنے انصار کو "یا منصورُ أَمِت” ("یا منصورُ أَمِت” یعنی اے نصرت پانے والے مار دو۔ یہ نعرہ مسلم بن عقیل کے انصار و اعوان نے کوفہ میں اپنایا تھا۔ (54)۔ یہ پہلی مرتبہ غزوہ بدر میں مسلمانوں نے لگایا تھا اور اس کے ذریعے مسلم مجاہدین ایک دوسرے کو اندھیرے میں بھی پہچان لیتے تھے۔ (55)۔ مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کے ساتھیو ں نے بھی اپنی تحریک کے آغاز پر "یا منصورُ اَمِت؛ کا نعرہ لگایا۔ (56) کے شعار کے ساتھ قیام کی دعوت دی (57) اور چار ہزار افراد لے کر دارالامارہ کو گھیر لیا۔ (58) ابن زیاد نے كثير بن شهاب بن حُصَين الحارثى، محمّد بن اشعث، قَعقاع بن شَور ذُهْلى، شَبَث بن رِبعى تميمى، حَجّار بن اَبجَر عِجلى اور شمر بن ذی الجوشن العامرى (59) جیسے سربراہان قبائل سے کہا کہ اپنے قبائل کے افراد کو مسلم (علیہ السلام) سے دور کریں اور اس راہ میں اس (ابن زیاد) کی طرف سے مال و منال کے وعدوں سے دریغ نہ کریں اور انہیں لشکر شام سے خوفزدہ کریں جو عنقریب کوفہ کی طرف آرہا ہے۔ (60) کوفی عمائدین کی تقاریر کے بعد مسلم (علیہ السلام) کے ساتھی منتشر ہونا شروع ہوئے۔ (61) حتی کہ جب رات ہوئی تو مسلم (علیہ السلام) کے ساتھ تیس افراد کے سوا کوئی نہ تھا۔ (62) مسلم بن عقیل نے مسجد کوفہ میں نماز پڑھائی اور نماز مغرب و نعشاء کے بعد مسجد سے نکلے تو باقیماندہ افراد نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور یوں سفیر امام حسین (علیہ السلام) تنہا رہ گئے۔ (63)
مسلم (علیہ السلام) جو تنہا رہ گئے تھے، ایسے حال میں کہ گلیوں کوچوں میں حیران و پریشان تھے، نے "طوعہ” نامی خاتون کے گھر میں پناہ لی۔ (64) ابن زیاد قیام مسلم کے خاتمے کے بعد مسجد گیا اور نماز اور خطاب کے بعد مسلم (علیہ السلام) کی گرفتاری کے لئے گھر گھر تلاشی کا حکم جاری کیا۔ (65) طوعہ کا بیٹا مسلم (علیہ السلام) کے ٹھکانے سے آگاہ ہوچکا تھا چنانچہ اس نے حکومت کے کارگزاروں کو اس کی اطلاع دی۔ (66) عبید اللہ نے محمد بن اشعث کو ستر آدمیوں کے ہمراہ طوعہ کے گھر کی طرف روانہ کیا۔ (67) جب مسلم (علیہ السلام) کو معلوم ہؤا کہ گھر کو گھیرے میں لیا گیا ہے تو تلوار لے کر باہر آئے اور ان کے ساتھ جنگ میں مصروف ہوئے۔ (68) حتی کہ شدید زخمی ہوکر اسیر ہوگئے۔ (69) گرفتاری کے بعد انھوں نے محمّد بن اشعث اور عمر بن سعد سے کہا کہ قاصد بھیج امام حسین (علیہ السلام) کو کوفہ کے حالات سے آگاہ کریں۔ (70) کوفہ میں چونسٹھ روز قیام کے بعد جام شہادت نوش کرگئے۔ (71)
محمد بن اشعث اور عمر بن سعد کا قاصد منزل زبالہ میں امام حسین (علیہ السلام) کے قافلے سے جا ملا اور آپ کو مسلم (علیہ السلام) کا پیغام پہنچایا کہ "اہل کوفہ بیعت کے بعد منتشر ہوگئے”۔ (72) مسلم (علیہ السلام) اور ہانی بن عروہ کی شہادت سے امام حسین (علیہ السلام) کو شدید صدمہ ہؤا۔ (73)
مکہ سے کوفہ روانگی
امام حسین علیہ السلام کی کوفہ عزیمت
امام حسین (علیہ السلام) کی عزیمتِ کی خبر کوفہ مکی عوام میں پھیل گئی اور ان میں سے بہت سوں کو تشویش لاحق ہوئی۔ عبداللہ بن عباس اور محمد بن حنفیہ آپ کے پاس پہنچے اور آپ کو کوفہ کے سفر سے باز رکھنے کی کوشش کی۔
امام حسین (علیہ السلام) اور آپ کے اصحاب نے طوافِ خانۂ خدا اور صفا و مروہ کی سعی کے بعد روانگی کے لئے تیار ہوئے۔ (74) آخر کار مکہ میں 4 مہینے اور پانچ روز قیام کے بعد سہ شنبہ (منگل) آٹھ ذوالحجہ روز ترویہ (75) اور ایک قول کے مطابق اہل بیت اور کوفی بزرگوں کے 60 افراد کے ساتھ، مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔ (76)
امام حسین علیہ السلام کو روکنے میں عمرو بن سعید کی ناکامی
مکہ سے امام حسین (علیہ السلام) اور اصحاب کی کوفہ عزیمت کے بعد پاسبانوں کے سربراہ یحییٰ بن سعید اور مکہ کے حاکم عمرو بن سعید بن العاص نے اپنے اعوان و انصار کے ساتھ مل کر امام حسین علیہ السلام کا راستہ روکنے کی کوشش کی مگر امام حسین (علیہ السلام) نے توجہ دیئے بغیر اپنا سفر جاری رکھا۔ (77)
امام حسین علیہ السلام کربلا میں
بیشتر تاریخی منابع نے اپنی روایات میں پنج شنبہ (جمعرات) دو محرم الحرام سنہ 61 ہجری کو امام حسین علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام |آپ کے اصحاب کے کربلا میں اترنے کی تاریخ قرار دیا ہے۔ (109) تاہم دینوری نے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی آمد کی تاریخ چہار شنبہ (بدھ) یکم محرم الحرام، قرار دی ہے۔ (110) اور اس قول کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
جب حر نے امام حسین علیہ السلام سے کہا: "یہیں اتریں کیونکہ فرات قریب ہے”۔
امام حسین علیہ السلامنے فرمایا: "اس جگہ کا نام کیا ہے؟”۔
سب نے کہا: کربلا۔
فرمایا: یہاں کرْب (رنج) اور بَلا کا مقام ہے۔ امام علی علیہ السلام|میرے والد جنگ صفین|صفین کی طرف عزیمت کرتے ہوئے یہیں اترے اور میں آپ کے ساتھ تھا۔ رک گئے اور اس کا نام پوچھا۔ تو لوگوں نے اس کا نام بتا دیا اور امام علی علیہ السلام|آپ نے فرمایا: "یہاں، یہاں ان کی سواریاں اترنے کا مقام ہے، اور یہاں ان کا خون بہنے کا مقام ہے”، لوگوں نے حقیقت حال کے بارے میں پوچھا تو امام علی علیہ السلام|آپ نے فرمایا: "خاندان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمد(ص) کا ایک قافلہ یہاں اترے گا”۔ (111)
امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا: یہ ہماری سواریاں اور ساز و سامان اتارنے کی جگہ ہے اور [یہاں] ہمارا خون بہنے کا مقام ہے۔ (112) اور اس کے بعد حکم دیا کہ سازوسامان وہیں اتار دیا جائے اور ایسا ہی کیا گیا اور وہ پنج شنبہ (جمعرات) دو محرم الحرام|محرم کا دن تھا۔ (113) و اور ایک روایت کے مطابق یہ چہارشنبہ (بدھ) یکم محرم الحرام|محرم سنہ 61 کا دن تھا۔ (114)
منقول ہے کہ کربلا میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد، امام حسین علیہ السلام نے اپنے فرزندوں، بھائیوں اور اہل خاندان کو اکٹھا کیا اور ان سب پر ایک نگاہ ڈالی اور روئے؛ اور فرمایا:
اللهم انا عترة نبيك محمد، وقد اخرجنا وطردنا، وازعجنا عن حرم جدنا، وتعدت بنو امية علينا، اللهم فخذ لنا بحقنا، وانصرنا على القوم الظالمين؛خداوندا! ہم تیرے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|نبی(ص) کی عترت اور خاندان ہیں جنہیں اپنے [شہر و دیار سے] نکال باہر کیا گیا ہے اور حیران و پریشان اپنے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|نانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص) کے حرم سے نکالا گیا ہے؛ اور [بار خدایا!] بنو امیہ نے ہمارے خلاف جارحیت کی؛ خداوندا! پس ان سے ہمارا حق لے لے اور ظالموں کے خلاف ہماری نصرت فرما”۔
اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا:
"إن الناس عبيد الدنيا، والدين لعق (115) على السنتهم، يحوطونه ما درت معايشهم، فإذا محصوا بالبلاء قل الديانون؛
ترجمہ: لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف ان کی زبانوں کا چٹخارہ ہے اس وقت تک دین کی حمایت و پشت پناہی کرتے ہیں جب تک کہ وہ ان کی زندگی فلاح و رفاہ کا باعث ہو اور جب بھی بلاء اور آزمائش کی گھڑی ہو تو دیندار بہت قلیل ہیں۔ (116)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ ابن سعد؛ الطبقات الکبریٰ، خامسہ1، ص442؛ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص155؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص32۔
2۔ ابن سعد (محمد بن سعد بن منیع بغدادی)، الطبقات الکبریٰ، خامسہ1، ص442؛ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص155؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص32۔
3۔ محمد بن جریرالطبری، تاریخ الطبری (تاریخ الأمم و الملوک)، ج5، ص338۔
4۔ ابومخنف، مقتل الحسین(ع)،ص3؛ تاریخ الطبری، ج3، ص338؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص9-10؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج1، ص180؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج4، ص14۔
5۔ شیخ صدوق، الامالی، ص152؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، ص18؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص185۔
6۔ ابومخنف، مقتل الحسین(ع)، صص3-4؛ ابو حنیفہ الدینوری، الامامۃ والسیاسۃ، ص227؛ الطبری، تاریخ، صص338-339 اور دیکھئے: ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص10؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص181؛ ابن اثیر، الکامل، ص14۔
*۔ تاریخ الطبری، ج5، صص338-339؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص10؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص181؛ ابن اثیر، الکامل، ص14۔
7۔ الدینوری، الامامۃ والسیاسۃ، ص227؛ تاریخ الطبری، ج3، ص339؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص11؛ ابن اثیر، الکامل، ص14۔
8۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص18؛ سید بن طاوس، اللہوف، تہران، جہان، 1348ش، ص17۔
9۔ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص183؛ الدینوری، الامامۃ والسیاسۃ، ص227؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص183؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص88۔
10۔ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص33۔
11۔ الدینوری، الامامۃ والسیاسۃ، ص228؛ شیخ مفید، الارشاد، ص32؛ عبدالرحمن بن علی ابن الجوزی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، ج5، ص323۔
12۔ ابومخنف، مقتل الحسین(ع)، ص5؛ شیخ مفید، الارشاد، ص33؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص19۔
13۔ شیخ مفید، الارشاد، ص34۔
14۔ تاریخ الطبری، ج3، ص341؛ شیخ مفید، الارشاد، ص34۔
15۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص19؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص187۔
16۔ احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص160۔
17۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص19- 20؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص187۔
18۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص18-19۔
19۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص21و الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، صص188-189۔
20۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص160؛ تاریخ الطبری، ج3، ص341؛ شیخ مفید، الارشاد، ص34۔
21۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص21-22؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص189۔
*۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص69۔
22۔ ابوحنیفہ احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص228؛ تاریخ الطبری، ج3، ص341؛ ابن اثیر، الکامل، ص16۔
23۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص228؛ شیخ صدوق، الامالی، صص152-153۔
*۔ شیخ صدوق، الامالی، ص152۔
24۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص22؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص189۔
25۔ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص160؛ تاریخ الطبری، ج3، ص381؛ شیخ مفید، الارشاد، ص35۔
26۔ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص156؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص23؛ شیخ مفید، الارشاد، ص36۔
27۔ احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص160؛ تاریخ الطبری، ج5، ص381؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص35۔
28۔ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص156؛ شیخ مفید، الارشاد، ص36؛ ابن اثیر، الکامل، ص20؛ الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)،ج1، ص190۔
29۔ البلاذری، انساب الاشراف، صص157-158؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص27-28؛ شیخ مفید، الارشاد، صص36-37؛ ابن اثیر، الکامل، ص30۔
30۔ البلاذری، انساب الاشراف، صص157-158؛ تاریخ الطبری، ج3، ص352؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص28؛ شیخ مفید، الارشاد، ص38؛ ابن اثیر، الکامل، ص20۔
31۔ ابوحنیفہ احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص229؛ البلاذری، انساب الاشراف، ص158؛ ابوالفداءاسماعیل بن عمر ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج8، ص151۔
32۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص158؛ تاریخ الطبری، ج3، ص352؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص29؛ شیخ مفید، الارشاد، ص38۔
33۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص158؛ تاریخ الطبری، ج3، ص353؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص29؛ شیخ مفید، الارشاد، ص38۔
34۔ تاریخ الطبری، ج3، ص353؛ شیخ مفید، الارشاد، ص38۔
35۔ البلاذری، انساب الاشراف، صص158-159؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص37-38۔ شیخ مفید کا کہنا ہے کہ یہ افراد منافق تھے جنہوں نے خطوط کی لہر کھڑی کردی تھی۔ رجوع کریں: شیخ مفید، الارشاد، مؤسسة ال البيت (ع) لتحقيق التراث دار المفيد، ج2، ص38۔
36۔ سید بن طاوس؛ اللہوف، ص24۔
37۔ سید بن طاوس؛ اللہوف، ص24۔
38۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص37؛ تاریخ الطبری، ج3، ص353؛ احمد بن ابی یعقوب الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج2، ص241؛ شیخ مفید، الارشاد، ص38۔
39۔ تاریخ الطبری، ص353؛ ابن اثیر، الکامل، ص21۔
40۔ محمد بن جریر تاریخ الطبری، ج5، ص353؛ ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، ج4، ص21۔
41۔ ابوحنیفہ احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص230؛ تاریخ الطبری، ج3، ص347؛ الفتوح، ص39و ابن اثیر، الکامل، ص21۔
42۔ علی بن الحسین المسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، ج3، ص54۔
43۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص231؛ احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص77؛ تاریخ الطبری، ج5، ص355۔
44۔ ابن سعد، الطبقات، خامسہ1، ص459؛ تاریخ الطبری، ج5، ص375؛ الدینوری، الاخبار الطوال، ص243؛ ابن اثیر، الکامل، ج4، ص33۔
45۔ تاریخ الطبری، ج3، ص356؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص35-36؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص198۔
46۔ تاریخ الطبری، ج3، ص348؛ ابوعلی مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص41؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابیطالب، ج4، ص91؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ص152؛ البلاذری، انساب الاشراف، ج5، ص379۔
47۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص232؛ تاریخ الطبری، ج3، ص348؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص41؛ عبدالرحمن بن علی ابن الجوزی، المنتظم، ج5، ص325۔
48۔ الدینوری، الاخبار الطوال، صص232-233؛ تاریخ الطبری، ج3، ص360؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص42۔
49۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص233؛ تاریخ الطبری، ج3، ص348؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص40۔
*۔ عابس شہدائے کربلا میں شامل ہیں۔
50۔ تاریخ الطبری، ج3، ص375۔
51۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص243؛ تاریخ الطبری، ج3، ص375؛ ابن اثیر، الکامل، ج4، ص33۔
52۔ الدینوری، الاخبار الطوال، صص235-237؛ تاریخ الطبری، ج3، ص362؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص41۔
53۔ تاریخ الطبری، ج3، صص348-349؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص44؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، صص45-46؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، صص203-204۔
54۔ رجوع کریں سید عبدالرزاق المقرم الموسوی، مقتل الحسين(ع)، ص427۔
55۔ رجوع کریں: المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص58، كامل ابن اثير، ج2، ص540، مع الحسين فى نہضتہ، اسد حيدر، ص108۔ محدث نوری، مستدرك الوسائل، ج2، ص265؛ الکلینی، فروع كافى، ج5، ص47۔ ابن ہشام حیاة محمد(ص) فارسی ترجمہ، رسولى، سید ہاشم، ج2، ص95، انتشارات کتابچى، تہران، چاپ پنجم، 1375 ہجری شمسی۔
56۔ رجوع کریں: تاریخ طبرى، ج6، ص20؛ ابن اثیر، الکامل، ج4، ص218)۔ زید بن علی بن الحسین علیہ السلام نے بھی بنو امیہ کے خلاف قیام کیا تو ان کے لشکر کا شعار بھی یہی تھا۔
57۔ شیخ مفید، الارشاد، ص52؛ المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص58؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، صص48-49؛ ابن اثیر، الکامل، ص30۔
58۔ شیخ مفید، الارشاد، ص52؛ المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص58؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، صص48-49؛ ابن اثیر، الکامل، ص30۔
59۔ شمر بن ذی الجوشن الضبابی، رجوع کریں: ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبيين، دار الكتاب للطباعة والنشر قم – ايران منشورات المكتبة الحيدرية ومطبعتہا في النجف ت (368) 1385ھ – 1965 م، ص76۔
60۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص239؛ تاریخ الطبری، ج3، ص350؛ ابن اثیر، الکامل، ص31؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، صص206-207۔
61۔ تاریخ الطبری، ج3، ص350؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص49؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص207۔
62۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص239؛ شیخ مفید، الارشاد، ص54۔
63۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص239؛ تاریخ الطبری، ج3، ص350؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص49۔
64۔ تاریخ الطبری، ج3، ص350؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص62؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص50۔
65۔ تاریخ الطبری، ج3، صص372-373؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، صص51-52؛ ابن اثیر، الکامل، ص32۔
66۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص240؛ تاریخ الطبری ج3، ص350؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص63؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص208؛ المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص58؛ ابن اثیر، الکامل، صص 33-34۔
67۔ تاریخ الطبری، ج3، ص373؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص52؛ ابن اثیر، الکامل، ص32۔
68۔ المسعودی، مروج الذہب، ماخذ، ص58؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص209؛ ابن اثیر، الکامل، صص33-34۔
69۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص54-55؛ ابن عبدربہ، العقد الفرید، ج5، ص127۔
70۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص247۔) بالآخر مسلم (علیہ السلام) چہار شنبہ 9 ذو الحجۃ الحرام (یوم عرفہ) (تاریخ الطبری، ج3، ص381؛ المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص60؛ ابوالفداء اسماعیل بن عمر ابن کثیر، البدایہ؛ النہایہ، ج8، ص158۔) سنہ 60 ہجری (تاریخ الطبری، ج3، ص381؛ المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص60؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ص158۔
71۔ المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص54۔
72۔ الدینوری، الاخبار الطوال، صص247-248۔
73۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص247 – 248۔
74۔ تاریخ الطبری، ج3، ص385؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص69۔
75۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص160؛ تاریخ الطبری، ج3، ص381؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص81۔) 82 افراد کے ہمراہ (الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص69؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص220؛ علی بن عیسی إربلی، کشف الغمہ، ج2، ص43۔
76۔ ابن سعد، الطبقات، تحقیق محمد بن صامل السلمی، خامسہ1، ص451۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص69۔
77۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص244؛ البلاذری، انساب الاشراف، ص164؛ تاریخ الطبری، ج3، ص385۔
109۔ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، ص83؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص84؛ تاریخ الطبری، ج5، ص409؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص68؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج4، ص52؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج4، ص96۔
110۔ الدینوری،الاخبار الطوال، ص53۔
111۔ عبد الرزاق الموسوی المقرم، مقتل الحسین(ع)، ص192۔
112۔ سید بن طاوس، الملہوف علی قتلی الطفوف، ص68؛ إربلی، کشف الغمہ، ج2، ص47؛ ابن شہر آشوب، المناقب، ج4، ص97۔
113۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص83؛ ابن اثیر، الکامل، ص52؛ فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ص181؛ شیخ مفید، الارشاد، ص84؛ تاریخ الطبری، ج3، ص409؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص68؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص96۔
114۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص53۔
115- لعق علی السنتہم سے مراد یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ لوگ دین کو ایسی چیز سمجھتے ہیں جس کا مزہ چاٹ اور چکھ کر معلوم کیا جاتا ہے؛ اور جب تک اس کا مزہ محسوس کرتے ہیں اس کو پاس رکھتے ہیں لیکن جب آزمائش کی گھڑی آن پہنچتی ہے؛ دینداروں کی تعداد گھٹ جاتی ہے[www۔ghorany۔com/karbala1۔htm|وبسایت ختم قرآن کریم]۔
116۔ بحار الانوار ج44 ح383 ج75 ص116، بحوالہ تحف العقول۔ الموسوی المقرم، مقتل الحسین(ع)، ص193۔
https://ur.shafaqna.com/UR/355877