نظریہ عناصر اربعہ پر تنقید جعفریہ

امام محمد باقرؑ کے درس میں ارسطو کی فزکس پڑھائی جاتی تھی اور کسی پر یہ بات پوشیدہ نہیں کہ ارسطو کی فزکس چند علوم پر مشتمل تھی آج کوئی بھی حیوانات، نباتات اور جیالوجی کو فزکس کا حصہ شمار نہیں کرتا کیونکہ ان میں ہر ایک علم جداگانہ ہے لیکن ارسطو کی فزکس میں ان علوم پر بحث کی گئی ہے اسی طرح جس طرح میکینکس بھی ارسطو کی فزکس میں داخل ہے اگر ہم فزکس کو علم الاشیاء سمجھیں تو ارسطو کو یہ حق دیا جانا چاہیے کہ اوپر کی بحث اپنی فزکس میں لائے کیونکہ یہ ساری بحث علم الاشیاء میں شامل ہے۔ اس بات کا قوی احتمال ہے کہ ارسطو کی فزکس بھی اسی راستے سے امام محمد باقرؑ کے حلقہ درس تک پہنچی جس راستے سے جغرافیہ اور ہندسہ کے علوم ان کے درس میں شامل ہوئے یعنی مصری قبطیوں کے ذریعے امام محمد باقرؑ کے حلقہ درس میں شامل ہوئے۔
فرید وجدی دائرۃ المعارف جیسی مشہور عربی کتاب کا حامل لکھتا ہے کہ علم طب اسکندریہ کے مکتب کے ذریعے امام جعفر صادقؑ تک پہنچا اور یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ جس وقت امام جعفر صادقؑ علم کے حصول میں مشغول تھے اسکندریہ کا علمی مدرسہ موجود نہیں تھا کہ علم طب آپؑ تک وہاں سے پہنچتا۔
اسکندریہ کا علمی مکتب اس کتاب خانے سے مربوط تھا جو عربوں کے مصر پر قبضے کے بعد تباہ ہو گیا تھا شاید وہ لوگ جنہوں نے اسکندریہ کے کتاب خانے کی کتابوں سے اپنے لئے نسخے تیار کئے ہوئے تھے ان کے پاس اس کتاب خانے کی کتابوں کے نسخے باقی تھے لیکن اسکندریہ کا علمی مکتب کتابخانے کے خاتمے کے ساتھ ہی ختم ہو گیا لیکن وہ لوگ جنہوں نے اسکندریہ کے علمی مکتب میں پرورش پائی تھی انہوں نے اس مکتب کے نظریات کو خصوصاً اس تھیوری کو جسے جدید افلاطونوں کا فلسفہ کہا جاتا ہے اسے اپنے شاگردوں یا مریدوں کو سکھایا اور ان کے بعد نسل در نسل ہم تک پہنچی۔
اس بات کا امکان ہے کہ وہ کتاب یا کتابیں جن کی نقول کتابخانہ (اسکندریہ کی کتابوں ) سے تیار کی گئی تھیں مصر سے امام جعفر صادقؑ تک پہنچیں۔
شاید فرید وجدی کی اسکندریہ کے مکتب سے مراد وہ مرکزی کتابخانہ اسکندریہ نہ ہو بلکہ اس کے کہنے کا مطلب یہ ہو کہ وہ کتاب یا کتابیں جو اسکندریہ کے مکتب کی یاد گار شمار کی جاتی تھیں امام جعفر صادقؑ تک پہنچیں۔ المختصر امام جعفر صادقؑ اپنے والد گرامی کے حلقہ درس میں فزکس سے واقف ہوئے۔
اور جس طرح علم جغرافیہ میں سورج کے زمین کے گرد چکر لگانے پر تنقید کی اسی طرح ارسطو کی فزکس کے کچھ حصوں پر بھی تنقید کی جبکہ اس وقت آپؑ کی عمر بارہ سال بھی نہیں تھی، ایک دن جب وہ والد گرامی کے درس میں ارسطو کی فزکس پڑھنے کے دوران فزکس کے اس حصے تک پہنچے کہ دنیا چار عناصر پر مشتمل ہے یعنی خاک ، پانی ، ہوا اور آگ۔ امام جعفر صادق نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ارسطو جیسے انسان نے اس پر غور کیوں نہیں کیا کہ خاک ایک عنصر نہیں ہے بلکہ اس خاک میں متعدد عناصر پائے جاتے ہیں اور زمین میں پائی جانے والی ہر دھات ایک علیحدہ عنصر شمار ہوتی ہے۔
ارسطو کے زمانے سے امام جعفر صادقؑ کے زمانے تک تقریباً ہزار سال کی مدت گزری ہو گی اور اس طویل مدت میں جیسا کہ ارسطو نے کہا تھا چار عناصر علم الاشیاء شمار ہوتے تھے اور کوئی ایسا شخص نہیں تھا جس کا یہ عقیدہ نہ ہو اور کسی کو فکر نہیں ہوئی کہ اس کی مخالفت کرے۔ ہزار سال کے بعد ایک ایسا شخص پیدا ہو اجو ابھی بارہ سال کا نہیں ہوا تھا کہ اس نے کہا یہ خاک ایک عنصر نہیں ہے بلکہ کئی عناصر کا مجموعہ ہے۔
امام جعفر صادقؑ نے یورپ کے اٹھارویں صدی عیسوی کے علماء سے ہزار سال پہلے ہی یہ کہہ دیا تھا کہ ہوا ایک عنصر نہیں ہے بلکہ چند عناصر کا مجموعہ ہے یاد رہے کہ اٹھارویں صدی عیسوی کے سائنسدانوں نے ہوا کے اجزاء کو دریافت کرنے کے بعد علیحدہ علیحدہ کیا۔
اگر کافی غور و خوض کے بعد سائنسدان اس بات کو قبول کر لیتے ہیں کہ خاک ایک عنصر نہیں ہے بلکہ چند عناصر کا مجموعہ ہے پھر بھی ہوا کے ایک عنصر ہونے پر کسی کو اعتراض نہ ہو تا۔ ارسطو کے بعد قابل ترین فزکس دان بھی نہیں جانتے تھے کہ ہوا ایک عنصر نہیں ہے حتی کہ اٹھارویں صدی عیسوی میں جو علمی لحاظ سے تابناک صدیوں میں سے ایک صدی شمار ہوتی ہے لا دوازیہ کے فرانسیسی سائنس دانوں تک چند علماء ہوا کو ایک بڑا عنصر سمجھتے تھے اور انہوں نے یہ فکر نہیں کی کہ ہوا چند عناصر کا مرکب ہے اور جب بعد میں لا دوازیہ نے آکسیجن کو ہوا میں شامل دوسری گیسوں سے علیحدہ کیا اور بتایا کہ آکسیجن سانس لینے اور جلانے میں کتنی موثر ہے؟
اس بات کو اکثر علما نے قبول کیا کہ ہوا غیر مرکب یا عنصر نہیں ہے بلکہ چند گیسوں پر مشتمل ہے اور ۱۷۹۲ ء عیسوی میں لادوازیہ کا سر سا طور گیوٹین کے سرکےہمراہ تن سے جدا کر دیا گیا اور یہ بابائے جدید کیمیا اگر زندہ رہتا تو شاید مزید دریافتیں کرتا لیکن افسوس اسے دوسرے جہاں بھیج دیا گیا۔
امام جعفر صادقؑ نے ایک ہزار ایک سو سال پہلے یہ جان لیا تھا کہ ہوا ایک عنصر نہیں اور تمام گیسیں جو ہوا میں بہت کم مقدار میں پائی جاتی ہیں میں سانس لینے میں مفید ہیں، مثال کے طور پر اوزون گیس کو لے لیں جس کی کیمیائی خصوصیات آکسیجن کی مانند ہیں اور اس کا ہر مالیکیول آکسیجن کے تین ایٹموں سے مل کر بنا ہے بظاہر وہ عمل تنفس میں اتنی اہم نہیں لیکن جب آکسیجن خون سے ملتی ہے تو اسے اس دوران واپس باہر نہیں نکلنے دیتی یہی وجہ ہے کہ امام جعفر صادقؑ کا نظریہ کہ "ہو ا کے تمام اجزاء عمل تنفس کیلئے ضروری ہیں ” انیسویں صدی کے وسط سے لے کر آج تک تائید کیا گیا ہے۔
ہوا میں موجود گیسوں کے خواص میں سے یہ بھی ہے کہ وہ آکسیجن کو تہہ میں نہیں بیٹھنے دیتیں اگر اس طرح ہوتا تو آکسیجن سطح زمین سے ایک بلندی کی حد تک چھائی رہتی۔
اور دوسری گیسیں جو ہوا میں پائی جاتی ہیں آکسیجن سے اوپر ہوتیں جسکے نتیجے میں تمام جانوروں کا نظام تنفس جل جاتا اور جانداروں کی نسل نابود ہو جاتی دوسرا یہ کہ پودے پیدا نہ ہوتے کیونکہ ا گرچہ پودے کے زندہ رہنے کیلئے دوسرے جانداروں کی مانند آکسیجن ضروری ہوتی ہے لیکن اسے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور اگر آکسیجن کچھ بلندی تک زمین کو ڈھک لیتی تو کاربن کی سطح زمین تک رسائی نہ ہو سکتی جس کی وجہ سے حیوانی اور جماداتی زندگی باقی ہے۔
امام جعفر صادقؑ وہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے عناصر اربعہ کے عقیدے کو جو ایک ہزار سال کی مدت تک نا قابل متزلزل سمجھا جاتا تھا قابل اصلاح قرار دیا وہ بھی اس وقت جب وہ نوجوان تھے لیکن ہوا کے بارے میں نظریئے کو وہ اس وقت زبان پر لائے جب انہوں نے درس پڑھانا شروع کر دیا تھا۔
آج ہمیں یہ عام سا موضوع لگتا ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ ہماری آج کی دنیا میں ایک سو دو عناصر دریافت ہو چکے ہیں لیکن ساتویں صدی عیسوی اور پہلی صدی ہجری میں یہ ایک بڑا انقلابی نظریہ تھا اور اس زمانے میں انسانی عقل قبول نہیں کر سکتی تھی کہ ہوا ایک وسیع عنصر نہیں ہے اور ہم ایک بار پھر اور اس زمانے میں انسانی عقل قبول نہیں کر سکتی تھی کہ ہوا ایک وسیع عنصر نہیں ہے اور ہم ایک بار پھر کہتے کہ اس زمانے میں اور اس کے بعد آنے والے زمانوں میں اٹھارھویں صدی عیسوی تک اس علمی انقلابی عقیدے اور ان دوسری باتوں کو جو امام جعفر صادقؑ نے فرمائی تھیں۔ عقیدہ یہ ہے کہ امام جعفر صادقؑ نے یہ اور دوسرے علمی حقائق، علم لدنی یعنی علم امامت کے ذریعے استنباط کر لئے تھے۔ مورخ کہتا ہے اگر یہ استنباط اور دوسرے علمی استنباط امام جعفر صادقؑ کے علم امامت کی وجہ سے تھے تو وہ مادے کے توانائی میں تبدیل ہونے کے قانون کو جسے آئن سٹائن نے اس صدی میں دریافت کیا اسے بھی بیان فرماتے کیونکہ ان کے پاس علم امامت ہے وہ ہر چیز کو جانتے ہیں اور کوئی بھی علمی قانون ان سے پوشیدہ نہیں اور چونکہ علمی قوانین کا ایک حصہ اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں صدی میں دریافت ہوا امام جعفر صادقؑ نے ان کے متعلق کچھ نہیں کہا۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے علم بشر کے ذریعے یہ معلوم کیا کہ خاک و ہوا کوئی وسیع و عریض عنصر ہے۔
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا ہوا میں چند اجزاء ہوتے ہیں۔سانس لینے کیلئے جن کی موجودگی اشد ضروری ہے جب لادوازیہ نے آکسیجن کو ہوا کی دوسری گیسوں سے جدا کیا اور بتایا کہ جو چیز جانداروں کے زندہ رہنے کیلئے ضروری ہے وہ آکسیجن ہے سائنس دانوں نے ہوا کی دوسری گیسوں کو زندگی کیلئے بے فائدہ جانا اور یہ نظریہ امام صادقؑ کے خلاف ہے جنہوں نے فرمایا ہوا کے تمام اجزاء سانس لینے کیلئے ضروری ہیں۔
لیکن انیسویں صدی کے نصف میں سائنسدانوں نے سانس لینے کے لحاظ سے آکسیجن کے بارے میں اپنے نظریئے کی تصحیح کی۔
کیونکہ یہ تسلیم کر لیا گیا کہ اگرچہ آکسیجن جانداروں کی زندگی کیلئے لازمی ہے اور ہوا کی دوسری تمام گیسوں کے درمیان تنہا گیس ہے جو خون کو بدن میں صاف کرتی ہے لیکن جاندار خالص آکسیجن میں زیادہ عرصہ کیلئے سانس نہیں لے سکتے کیونکہ ان کے نظام تنفس کے خلیات کی آکسیڈیشن شروع ہو جاتی ہے یعنی وہ آکسیجن کے ساتھ مل کر مرکب بنا دیتے ہیں اور سادہ لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ نظام تنفس کے خللیات جلتے ہیں۔
آکسیجن خود نہیں جلتی بلکہ جلنے میں مدد دیتی ہے اور ایسے جسم کے ساتھ جو جلنے کے قابل ہوتا ہے جب عمل کرتی ہے تو وہ جسم جلنے لگتا ہے اور جب کبھی انسان یا جانوروں کے پھیپھڑوں کے خلیات ایک مدت تک خالص آکسیجن میں سانس لیتے ہیں۔
چونکہ گیسوں کا ان کے ساتھ ری ایکشن ہوتا ہے اس لئے پھیپھڑوں کے خلیات جلنے لگتے ہیں اور کوئی انسان یا جانور جس کے پھیپھڑے جل جائیں تو وہ مر جاتا ہے اس لئے چاہیے کہ آکسیجن کے ہمراہ دوسری گیسیں بھی انسان یا جانوروں کے پھیپھڑوں میں داخل ہوں تاکہ جانداروں کے پھیپھڑے خالص آکسیجن میں سانس لینے کی وجہ سے نہ جلیں۔ جب علماء نے آکسیجن کے متعلق سانس لینے کے لحاظ سے اپنے نظریہ کی تصحیح کی تو پتہ چلا کہ امام جعفر صادقؑ کا نظریہ صحیح ہے۔ لیکن مشرقی ممالک میں حتی کہ پیغمبر اسلام کے(ص) شہر مدینہ میں بھی اس طرح کے علمی نظریات کو زبان پر لایا جا سکتا تھا کیونکہ وہاں اس پر کوئی کفر کا فتویٰ نہ لگاتا تھا۔
جب ہم کیمیاء کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ لکھا ہوا پاتے ہیں کہ ایک انگریز جوزف پر یسٹلے نے جو ۱۷۳۳ء میں پیدا ہوا اور ۱۸۰۴ء میں فوت ہوا آکسیجن گیس دریافت کی لیکن وہ اس کی خصوصیات کو نہ پہچان سکا اور جس نے اس گیس کے خوص کو پہچانا وہ لوازیہ تھا۔ علم کیمیاء کی تاریخ میں اس طرح بتایا گیا ہے کہ آکسیجن کا نام بھی پریسٹلی نے رکھا تھا جبکہ آکسیجن کا مفہوم پریسٹلی سے پہلے موجود تھا۔ آکسیجن یونانی کلمہ ہے جو دو اجزاء سے مل کر بنایا گیا ہے دوسرے جزو کے معنی پیدوار کرنے والے اور پہلے جزو کے معنی ترشی کے ہیں اس لئے آکسیجن کو ترشی پیدا کرنے والی گیس کہتے ہیں۔ آکسیجن کا نام شاید انگریز پریسٹلی نے رکھا ہو گا (کیونکہ ہمیں یقین نہیں ہے کہ واقعاً اس نے یہ نام رکھا ہے) لیکن ” ترشی پیدا کرنے والا ” مفہوم پہلے سے موجود ہے۔ ہمیں پریسٹلے کی خدمات سے سر موانحراف نہیں ہے اور ہماری اس سے مراد یہ نہیں کہ پریسٹلے کو حقیر بنا کر پیش کریں اور اس پادری کو جس نے مذہبی لباس کو اتار کر لیبارٹری میں کام کیا اور آکسیجن کو دریافت کیا اس کے باوجود کہ وہ ایک قابل ترین انسان تھا اس نے کبھی اپنی دریافت پر فخر نہیں کیا۔
اگر وہ سیاست میں حصہ نہ لیتا تو وہ آکسیجن کے بارے میں اپنی تحقیق کو جاری رکھ سکتا تھا پھر اسے سمجھ آتی کہ اس نے کتنی بڑی دریافت کی ہے لیکن سیاست نے اسے لیبارٹری سے دور کر دیا اور وہ انگلستان میں فرانسیسی انقلابیوں کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوا اور لوگ اس سے اس قدر نفرت کرنے لگے کہ اس کا اپنے ملک میں جینا دوبھر ہو گیا مجبوراً اس نے امریکہ ہجرت کیا اور وہاں قیام کے دوران آکسیجن کے علاوہ کسی دوسرے موضوع پر چند کتابیں لکھیں۔
روایت ہے کہ ایک دن امام محمد باقرؑ امام جعفر صادقؑ کے والد گرامی نے اپنے درس میں کہا پانی جو آگ کو بجھا دیتا ہے علم کے ذریعے اس سے آگ بھی جلائی جا سکتی ہے اگرچہ اس بات سے کوئی شاعرانہ تعبیر نہیں لی گئی مگر یہ بات اس وقت بے معنی نظر آئی تھی اور ایک عرصے تک جن لوگوں نے بھی یہ روایت سنی انہوں نے سمجھا کہ امام محمد باقرؑ کوئی شاعرانہ تعبیر زبان پر لائے ہیں لیکن اٹھارویں صدی کے بعد یہ ثابت ہو گیا کہ علم کی مدد سے پانی سے بھی آگ جلائی جا سکتی ہے۔
ہمیں معلوم ہے کہ امام محمد باقرؑ نے فرمایا علم کی مدد سے پانی سے آگ جلائی جا سکتی ہے لیکن انہوں نے ہائیڈروجن کو دریافت نہیں کیا تھا اور ہمارے پاس اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ان کے بیٹے امام جعفر صادقؑ نے ہائیڈروجن کو خالصتا دریافت کیا اسی طرح جس طرح ہمارے پاس کوئی دستاویزی ثبوت نہیں جس کی بنا پر ہم کہہ سکیں کہ امام جعفر صادقؑ ے آکسیجن کو دریافت کیا۔