سلائیڈرمحافلمناقب امام علی رضا عمناقب و فضائل

حضرت امام رضاعلیہ السلام کی زندگی کے اہم واقعات

مؤلف: باقر شریف قرشی
امام علی رضا علیہ السلام کی ولی عہدی
عباسی دور میں سب سے اہم واقعہ یہ رونما ہوا کہ مامون نے امام رضاعلیہ السلام کو اپنا ولی عہد بنا دیا یعنی وہ عباسی خلافت جو علوی سادات سے دشمنی رکھتی تھی اس میں تبدیلی واقع ہو گئی اور اس بڑے واقعہ کا خاص وعام دونوں میں گفتگو و چرچا ہوا اور سب مبہوت ہو کر رہ گئے، وہ سیاسی روش جس میں عباسیوں نے علویوں کا بالکل خاتمہ کر دیا تھا ،اُن کے جوانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا ،اُن کے بچوں کو دجلہ میں غرق اور شیعوں کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر قتل کردیا تھا۔ عباسیوں سے علویوں کی دشمنی بہت آشکار تھی ،یہ دشمنی محبت و مودت میں کیسے بدل گئی ،عباسی اُن کے حق کے معترف ہو گئے اور عباسی حکومت کا اہم مرکز اُن (علویوں ) کو کیسے سونپ دیا، اسی طرح کی تمام باتیں لوگوں کی زبانوں پر تھیں ۔
یہ مطلب بھی بیان ہونا چاہئے کہ مامون نے یہ اقدام اس لئے نہیں کیا تھا کہ یہ علویوں کا حق ہے اور وہ خلافت کے زیادہ حقدار ہیں، بلکہ اُ س نے کچھ سیاسی اسباب کی بنا پر ولایت کا تاج امام رضا علیہ السلام کے سر پر رکھا ،جس کے کچھ اسباب مندرجہ ذیل تھے :
١۔ مامون کا عباسیوں کے نزدیک اہم مقام نہیں تھا،اور ایسا اس کی ماں مراجل کی وجہ سے تھا جو اس کے محل کے پڑوس اور اس کے نوکروں میں سے تھی، لہٰذا وہ لوگ مامون کے ساتھ عام معاملہ کرتے تھے ، وہ اس کے بھائی امین کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے ،کیونکہ اُ ن کی والدہ عباسی خاندان سے تعلق رکھتی تھی ، لہٰذا مامون نے امام رضا علیہ السلام کو اپنی ولی عہدی سونپ کر اپنے خاندان کو نیچا دکھانے کی کوشش کی تھی ۔
٢۔ مامون نے امامعلیہ السلام کی گردن میں ولی عہدی کا قلادہ ڈال کر یہ آشکار کرنا چاہا تھا کہ امام علیہ السلام دنیا کے زاہدوں میںسے نہیں ہیں، بلکہ وہ ملک و بادشاہت اور سلطنت کے خواستگار ہیں،اسی بنا پر انھوں نے ولیعہدی قبول کی ہے، امام علیہ السلام پر یہ سیاست مخفی نہیں تھی، لہٰذا آپ علیہ السلام نے مامون سے یہ شرط کی تھی کہ نہ تو میں کسی کو کوئی منصب دوں گا ،نہ ہی کسی کو اس کے منصب سے معزول کریں گے، وہ ہر طرح کے حکم سے کنارہ کش رہوں گا امام کی اِن شرطوں کی وجہ سے آپ علیہ السلام کا زاہد ہونا واضح گیا۔
٣۔ مامون کے لشکر کے بڑے بڑے سردار شیعہ تھے لہٰذا اس نے امام علیہ السلام کو اپنا ولی عہد بنا کر اُن سے اپنی محبت و مودت کا اظہار کیا ۔
٤۔ عباسی حکومت کے خلاف بڑی بڑی اسلامی حکومتوں میں انقلاب برپا ہو چکے تھے اور عنقریب اُس کا خاتمہ ہی ہونے والا تھا ،اور اُن کا نعرہ "الد عوة الی الرضا من آل محمد "تھا ،جب امام رضا علیہ السلام کی ولی عہدی کے لئے بیعت کی گئی تو انقلابیوں نے اس بیعت پر لبیک کہی اور مامون نے بھی اُن کی بیعت کی، لہٰذا اس طرح سے اُ س کی حکومت کو درپیش خطرہ ٹل گیا ،یہ ڈپلومیسی کا پہلا طریقہ تھا اور اسی طرح مامون اپنی حکومت کے ذریعہ اُن رونما ہونے والے واقعات پر غالب آ گیا ۔
اِن ہی بعض اغراض و مقاصد کی وجہ سے مامون نے امام رضا علیہ السلام کو اپنا ولی عہد بنایا تھا ۔
فضل کا امام رضا علیہ السلام کو خط لکھنا
مامون نے اپنے وزیر فضل بن سہل سے کہا کہ وہ امام علیہ السلام کو ایک خط تحریر کرے کہ میں نے آپ علیہ السلام کو اپنا ولی عہد مقرر کردیا ہے ۔ خط کا مضمون یہ تھا :
"علی بن مو سیٰ الرضا علیہما السلام کے نام جو فرزند رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کے مطابق ہدایت کرتے ہیں ،رسول کے فعل کی اقتدا کرتے ہیں ،دین الٰہی کے محافظ ہیں ،وحی خدا کے ذمہ دار ہیں ، اُ ن کے دوست فضل بن سہل کی جانب سے جس نے اُن کے حق کو دلانے میں اپنا خون پسینہ ایک کیا اور دن رات اس راہ میں کوشش کی ، اے ہدایت کرنے والے امام علیہ السلام آپ علیہ السلام پر صلوات و سلام اور رحمت الٰہی ہو ، میں آپ علیہ السلام کی خدمت میں اس خدا کی حمد بجا لاتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس سے دعا کرتا ہوں کہ اپنے بندے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے "۔
اما بعد :
"امیدوار ہوں کہ خدا نے آپعلیہ السلام کو آپعلیہ السلام کا حق پہنچا دیا اور اُس شخص سے اپنا حق لینے میں مدد کی جس نے آپعلیہ السلام کو حق سے محروم کر رکھا تھا، میں امیدوار ہوں کہ خدا آپ علیہ السلام پر مسلسل کرم فرمائی کرے ، آپعلیہ السلام کو امام اور وارث قرار دے ،آپ علیہ السلام کے دشمنوں اور آپ علیہ السلام سے روگردانی کرنے والوں کو سختیوں میں مبتلا کرے ،میرا یہ خط امیر المو منین بندئہ خدا مامون کے حکم کی بنا پر پیش خدمت ہے میں آپعلیہ السلام کو یہ خط لکھ رہا ہوں تاکہ آپ کا حق واپس کر سکوں ،آپ کے حقوق آپعلیہ السلام کی خدمت میں پیش کر سکوں ، میں چاہتا ہوں کہ اس طرح آپ علیہ السلام مجھ کو تمام عالمین میں سعا دتمندترین قرار دیں اور میں خدا کے نزدیک کامیاب ہو سکوں ،رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق کو ادا کر سکوں ،آپ علیہ السلام کا معاون قرار پائوں ،اور آپ کی حکومت میں ہر طرح کی نیکی سے مستفیض ہو سکوں ، میری جان آپ پر فدا ہو ، جب میرا خط آپ تک پہنچے اور آپ مکمل طور پر حکومت پر قابض ہو جائیں یہاں تک کہ امیرالمومنین مامون کی خدمت میں جا سکیں جو کہ آپعلیہ السلام کو اپنی خلافت میں شریک سمجھتا ہے ،اپنے نسب میں شفیع سمجھتا ہے اور اس کو اپنے ماتحت پر مکمل اختیار حاصل ہے تو آپ علیہ السلام ایسی روش اختیار کریں جس کی وجہ سے خیرالٰہی سب کے شامل حال ہو جائے اور ملائکہ ٔ الٰہی سب کی حفاظت کریں اور خدا اس بات کا ضامن ہے کہ آپ علیہ السلام کے ذریعہ امت کی اصلاح کرے اور خدا ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین ذمہ دارہے اور آپ علیہ السلام پر خدا کا سلام اور رحمت و برکتیں ہوں”۔
(حیاةالامام علی بن مو سیٰ الرضا علیہما السلام،ج ٢،ص ٢٨٤)
اس خط میں آپ علیہ السلام کے کریم و نجیب القاب اوربلند و بالا صفات تحریر کئے گئے ہیں جس طرح کہ امامعلیہ السلام کی جانب خلافت پلٹائے جانے کا ذکر کیا گیا ہے ۔
یہ سب مامون کی مہربانی ا ور اس کی مشقتوں سے بنے ،مامون یہ چاہتا تھا کہ امام علیہ السلام بہت جلد خراسان آ کر اپنی خلافت کی باگ ڈور سنبھال لیں ،امام علیہ السلام نے اس خط کا کیا جواب دیا ہمیں اس کی کوئی اطلاع نہیں ہے جو عباسی حکومت کے ایک بڑے عہدے دار کے نام لکھا گیا ہو اور اس سے بڑا گمان یہ کیا جا رہا ہے کہ امام علیہ السلام نے اپنے علم و دانش کی بنا پر اس لاف و گزاف (بے تکے ) ادّعا اور عدم واقعیت کا جواب تحریر ہی نہ فرمایا ہو ۔
مامون کے ایلچیوں کا امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچنا
مامون نے امام رضا علیہ السلام کو یثرب سے خراسان لانے کے لئے ایک وفد بھیجا اور وفد کے رئیس سے امام علیہ السلام کو بصرہ اور اہواز کے راستے یا پھر فارس کے راستہ سے لانے کا عہد لیا اور ان سے کہا کہ امام علیہ السلام کو کوفہ اور قم کے راستہ سے نہ لیکر آئیں جس طرح کہ امام کی جانب خلافت پلٹائے جانے کا بھی ذکر ہے ۔
(عیون اخبار الرضا ،ج ٢ص ١٤٩،حیاةالامام علی بن مو سیٰ الرضا علیہما السلام، ج٢ص ٢٨٥،اعیان الشیعہ ،جلد ٢صفحہ١٨)
مامون کے اتنے بڑے اہتمام سے یہ بات واضح و آشکار تھی کہ امام علیہ السلام کو بصرہ کے راستہ سے کیوں لایا جائے اور کوفہ و قم کے راستہ سے کیوں نہ لایا جائے ؟چونکہ کوفہ اور قم دونوں شہر تشیع کے مرکز تھے ،اور مامون کو یہ خوف تھا کہ شیعوں کی امام علیہ السلام کی زیادہ تعظیم اور تکریم سے اُس کا مرکز اور بنی عباس کمزور نہ ہو جائیں ۔
وفد بڑی جد وجہد کے ساتھ یثرب پہنچا اس کے بعد امام کی خدمت میں پہنچ کر آپ علیہ السلام کو مامون کا پیغام پہنچایا،امام نے جواب دینا صحیح نہیں سمجھا،آپ علیہ السلام کو مکمل یقین تھا کہ مامون نے آپعلیہ السلام کو خلافت اور ولی عہدی دینے کے لئے نہیں بُلایا ہے بلکہ یہ اُس کی سیاسی چال ہے اور اس کا مقصد آپ علیہ السلام کا خاتمہ کرنا تھا ۔
امام علیہ السلام زندگی سے مایوس ہو کر بڑے ہی حزن و الم کے عالم میں اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی طرف آخری وداع کے لئے پہنچے ، حالانکہ آپ علیہ السلام کے رُخِ انور پرگرم گرم آنسو بہہ رہے تھے ، مخول سجستانی امام علیہ السلام کی اپنے جد کی قبر سے آخری رخصت کے سلسلہ میں یوں رقمطراز ہیں:
"جب قاصد امام رضا علیہ السلام کو مدینہ سے خراسان لانے کے لئے پہنچا تو میں مدینہ میں تھا ،امام اپنے جد بزرگوار سے رخصت ہونے کیلئے مسجد رسول میں داخل ہوئے اور متعدد مرتبہ آپ کو وداع کیا،آپ علیہ السلام زار و قطار گریہ کر رہے تھے ،میں نے امام علیہ السلام کی خدمت اقدس میں پہنچ کر سلام عرض کیا، آپ علیہ السلام نے سلام کا جواب دیا اور میں نے اُن کی خدمت میں تہنیت پیش کی تو امام علیہ السلام نے فرمایا :مجھے چھوڑ دو ،مجھے میرے جد کے جوار سے نکالا جا رہا ہے ،مجھے عالم غربت میں موت آئے گی ، اور ہارون کے پہلو میں دفن کر دیا جا ئے گا ۔ مخول کا کہنا ہے :میں امام علیہ السلام کے ساتھ رہا یہاں تک کہ امام علیہ السلام نے طوس میں انتقال کیا اور ہارون کے پہلو میں دفن کردئے گئے” ۔
(اعیان الشیعہ ،ج ٤،ص ١٢٢،دو سرا حصہ)
خانہ خدا کی طرف امام رضا علیہ السلام
خراسان جانے سے پہلے عمرہ کرنے کے لئے خانہ ٔکعبہ کے لئے چلے ،حالانکہ آپ علیہ السلام کے ساتھ آپ کے خاندان کی بزرگ ہستیاں تھیں جن میں آپ علیہ السلام کے فرزند ارجمند امام جواد محمد تقی علیہ السلام بھی تھے ، جب آپ بیت اللہ الحرام پہنچے تو آپ علیہ السلام نے طواف کیا ،مقام ابراہیم پر نماز ادا کی ،سعی کی اس کے بعد تقصیر کی، امام محمد تقی علیہ السلام بھی اپنے والد بزرگوار کے ساتھ ساتھ عمرہ کے احکام بجا لا رہے تھے، جب آپ (امام محمد تقی علیہ السلام )عمرہ کے احکام بجا لاچکے تو بڑے ہی غم و رنجیدگی کے عالم میں حجر اسماعیل کے پاس بیٹھ گئے ، امام رضا علیہ السلام کے خادم نے آپ علیہ السلام سے اٹھنے کے لئے کہا تو آپ علیہ السلام نے انکار فرما دیا ،خادم نے جلدی سے جا کر امام رضا علیہ السلام کو آپ علیہ السلام کے فرزند ارجمند کے حالات سے آگاہ کیا تو آپ علیہ السلام خود (امام رضا علیہ السلام )امام محمد تقی علیہ السلام کے پاس تشریف لائے اور اُ ن سے چلنے کے لئے فرمایا ،تو امام محمد تقی علیہ السلام نے بڑے ہی حزن و الم میں یوں جواب دیا :میں کیسے اٹھوں ،جبکہ اے والد بزرگوار میں نے خانۂ خدا کو خدا حافظ کہہ دیا جس کے بعد میں کبھی یہاں واپسی نہیں ہو گی۔
(حیاة الامام علی بن موسیٰ الرضا علیہما السلام ، ج٢،ص ٢٨٧)
امام محمد تقی علیہ السلام اپنے والد بزرگوار کو دیکھ رہے تھے کہ آپ علیہ السلام کتنے رنج و الم میں ڈوبے تھے ،جس سے آپ علیہ السلام پر یہ بات ظاہر تھی کہ یہ میرے والد بزرگوار کی زندگی کے آخری ایام ہیں ۔
خراسان کی طرف امام رضا علیہ السلام
خانہ ٔ خدا کوالوداع کہنے کے بعد خراسان کی طرف چلے ، جب آپ علیہ السلام شہر بلد پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے آپ علیہ السلام کا انتہائی احترام و اکرام کیا امام علیہ السلام کی ضیافت اور ان کی خدمات انجام دیں جس پر آپ علیہ السلام نے شہربلد والوں کا شکریہ ادا کیا ۔
امام علیہ السلام نیشاپور میں
امام علیہ السلام کا قافلہ کسی رکاوٹ کے بغیر نیشاپور پہنچا ،وہاں کے قبیلے والوں نے آپ کا بے نظیر استقبال کیا ، علماء اور فقہا آپ علیہ السلام کے چاروں طرف جمع ہو گئے ،جن میں پیش پیش یحییٰ بن یحییٰ ،اسحاق بن راہویہ ،محمد بن رافع اور احمد بن حرب وغیرہ تھے ۔ جب اس عظیم مجمع نے آپ علیہ السلام کو دیکھا تو تکبیر و تہلیل کی آوازیں بلند کرنے لگے ، اور ایک کہرام برپا ہو گیا،علماء اور حفّاظ نے بلند آواز میں کہا :
اے لوگو ! خاموش ہو جاو اور فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف نہ پہنچا و ۔
جب لوگ خاموش ہو گئے تو علماء نے امام علیہ السلام سے عرض کیا کہ آپ علیہ السلام اپنے جد بزرگوار رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک حدیث بیان فرما دیجئے تو امام علیہ السلام نے فرمایا :””میں نے موسیٰ بن جعفر سے انھوں نے اپنے والد بزرگوار جعفر بن محمد سے ،انھوں نے اپنے والد بزرگوار محمد بن علی سے ،انھوں نے اپنے والد بزرگوار علی بن الحسین علیہما السلام سے ،انہوں نے اپنے والد بزرگوار حسین بن علی علیہما السلام سے انھوں نے اپنے والد بزرگوار علی بن ابی طالب سے اور انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ خدا وند عالم حدیث قدسی میں فرماتا ہے :
” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ حِصْنِیْ ،فَمَنْ قَالَھَا دَخَلَ حِصْنِیْ، وَمَنْ دَخَلَ حِصْنِیْ اَمِنَ مِنْ عَذَابِیْ وَلٰکِنْ بِشُرُوْطِھَاوَأَنَا مِنْ شُرُوْطِھَا "
(عیون اخبار الرضا، جلد ٢صفحہ ١٥٣۔علماء کے نزدیک اس حدیث کی بڑی اہمیت ہے ،اور انھوں نے اس کو متواتر اخبار میں درج کیا ہے)۔
"لا الٰہ الّا اللہ میرا قلعہ ہے ،جس نے لا الٰہ اِلّا اللہ کہا وہ میرے قلعہ میں داخل ہوگیا اور جو میرے قلعہ میں داخل ہو گیا وہ میرے عذاب سے محفوظ ہو گیا لیکن اس کی کچھ شرطیں ہیں اور اُن ہی شرطوں میں سے ایک شرط میں ہوں”۔
اس حدیث کو بیس ہزار سے زیادہ افراد نے نقل کیا ،اس حدیث کو حدیث ذہبی کا نام دیا گیا چونکہ اس حدیث کو سنہری روشنائی (یعنی سونے کا پانی )سے لکھا گیا،سند کے لحاظ سے یہ حدیث دیگر تمام احادیث میں سے زیادہ صاحب عظمت ہے ۔
(اخبار الدول، صفحہ ١١٥)
احمد بن حنبل کا کہنا ہے :اگر اس حدیث کو کسی دیوانہ پر پڑھ دیا جائے تو وہ صحیح و سالم ہو جائے گا ۔
(صواعق المحرقہ، صفحہ ٩٥)
اور بعض سامانی حکام نے یہ وصیت کی ہے کہ اس حدیث کو سونے کے پانی سے لکھ کر اُ ن کے ساتھ اُن کی قبروں میں دفن کر دیا جائے ۔
(اخبار الدول ،صفحہ ١١٥)
مامون کا امام علیہ السلام کا استقبال کرنا
مامون نے امام رضا علیہ السلام کا رسمی طور پر استقبال کرنے کا حکم دیا ، اسلحوں سے لیس فوجی دستے اور تمام لوگ امام کے استقبال کے لئے نکلے ،سب سے آگے آگے مامون ،اس کے وزراء اور مشیر تھے ، اُس نے آگے بڑھ کر امام علیہ السلام سے مصافحہ اور معانقہ کیا اور بڑی گرمجوشی کے ساتھ مرحبا کہا ،اسی طرح اس کے وزیروں نے بھی کیا اور مامون نے امام علیہ السلام کو ایک مخصوص گھر میں رکھا جو مختلف قسم کے فرش اورخدم و حشم سے آراستہ کیا گیا تھا۔
مامون کی طرف سے امام علیہ السلام کو خلافت پیش کش
مامون نے امام علیہ السلام کے سامنے خلافت پیش کی ،اس نے رسمی طور پر یہ کام انجام دیا اور امام علیہ السلام کے سامنے یوں خلافت پیش کر دی :اے فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے آپ علیہ السلام کے فضل ، علم ، زہد ،ورع اور عبادت کی معرفت ہوگئی ہے ، لہٰذا میں آپ علیہ السلام کو اپنی خلافت کا سب سے زیادہ حقدار سمجھتا ہوں ۔
امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:
"میں دنیا کے زہد کے ذریعہ آخرت کے شر سے چھٹکارے کی امید کرتا ہوں اور حرام چیزوں سے پرہیز گاری کے ذریعہ اخروی مفادات کا امید وارہوں ،اور دنیا میں تواضع کے ذریعہ اللہ سے رفعت و بلندی کی امید رکھتا ہوں "۔
مامون نے جلدی سے کہا :میں خود کو خلافت سے معزول کرکے خلافت آپ علیہ السلام کے حوالہ کرناچاہتا ہوں ۔
امام علیہ السلام پر مامون کی باتیں مخفی نہیں تھیں ،اس نے امام علیہ السلام کو اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کی وجہ سے خلافت کی پیشکش کی تھی ،وہ کیسے امام علیہ السلام کے لئے خود کو خلافت سے معزول کر رہا تھا ،جبکہ اُ س نے کچھ دنوں پہلے خلافت کے لئے اپنے بھائی امین کو قتل کیا تھا ؟
امام علیہ السلام نے مامون کو یوں قاطعانہ جواب دیا :
"اگر خلافت تیرے لئے ہے تو تیرے لئے اس لباس کو اُتار کر کسی دو سرے کو پہنانا جائز نہیں ہے جس لباس کو اللہ نے تجھے پہنایا ہے ،اور اگر خلافت تیرے لئے نہیں ہے تو تیرے لئے اس خلافت کو میرے لئے قرار دینا جا ئز نہیں ہے "۔
مامون برہم ہو گیا اور غصہ میں بھرگیا ،اور اس نے امام علیہ السلام کو اس طرح دھمکی دی :آپ علیہ السلام کو خلافت ضرور قبول کرنا ہو گی ۔
امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا :
"میں ایسا اپنی خو شی سے نہیں کروں گا”۔
امام علیہ السلام کو یقین تھا کہ یہ اُس (مامون )کے دل کی بات نہیں ہے ، اور نہ ہی اس میں وہ جدیت سے کام لے رہا ہے کیونکہ مامون عباسی خاندان سے تھا جو اہل بیت علیہ السلام سے بہت سخت کینہ رکھتے ،اور انھوں نے اہل بیت علیہم السلام کا اس قدر خون بہایا تھا کہ اتنا خون کسی نے بھی نہیں بہایا تھا تو امام اُس پر کیسے اعتماد کرتے ؟
ولی عہدی کی پیشکش
جب مامون امام علیہ السلام سے خلافت قبول کرنے سے مایوس ہو گیا تو اس نے دوبارہ امام علیہ السلام سے ولیعہدی کی پیشکش کی تو امام علیہ السلام نے سختی کے ساتھ ولیعہدی قبول نہ کرنے کا جواب دیا ،اس بات کو ہوئے تقریباً دو مہینے سے زیادہ گزر چکے تھے اور اس کا کوئی نتیجہ نظر نہیں آ رہا تھا اور امام علیہ السلام حکومت کا کوئی بھی عہدہ و منصب قبول نہ کرنے پر مصر رہے ۔
امام علیہ السلام کو ولی عہدی قبول کرنے پر مجبور کرنا
جب مامون کے تمام ڈپلومیسی حربے ختم ہو گئے جن سے وہ امام علیہ السلام کو ولیعہدی قبول کرنے کے لئے قانع کرنا چا ہتا تھا تو اُس نے زبردستی کا طریقہ اختیار کیا ،اور اس نے امام علیہ السلام کو بلا بھیجا ،تو آپ علیہ السلام نے اُس سے فرمایا:
"خدا کی قسم جب سے پروردگار عالم نے مجھے خلق کیا میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ۔ اور مجھے نہیں معلوم ،کہ تیرا کیا ارادہ ہے ؟”۔
مامون نے جلدی سے کہا : میرا کو ئی ارادہ نہیں ہے ۔
میرے لئے امان ہے ؟
ہاں آپ علیہ السلام کے لئے امان ہے ۔
تیرا ارادہ یہ ہے کہ لوگ یہ کہیں :
"علی بن مو سیٰ علیہ السلام نے دنیا میں زہد اختیار نہیں کیا،بلکہ دنیا نے ان کے بارے میں زہد اختیار کیا ،کیا تم نے یہ نہیں دیکھا کہ انھوں نے خلافت کی طمع میں کس طرح ولی عہدی قبول کرلی ؟”۔
مامون غضبناک ہو گیا اور اُس نے امام علیہ السلام سے چیخ کر کہا :
آپ علیہ السلام ہمیشہ مجھ سے اس طرح ملاقات کرتے ہیں جسے میں ناپسند کرتا ہوں ، اور آپ علیہ السلام میری سطوت جانتے ہیں ،خدا کی قسم یا تو ولی عہدی قبول کرلیجئے ورنہ میں زبردستی کروں گا ،قبول کر لیجئے ورنہ میں آپ علیہ السلام کی گردن ماردوں گا ۔
امام علیہ السلام نے خدا کی بارگاہ میں تضرّع کیا :
"خدایا تو نے مجھے خو دکشی کرنے سے منع فرمایا ہے جبکہ میں اس وقت مجبور و لاچار ہو چکا ہوں ، کیونکہ عبداللہ مامون نے ولیعہدی قبول نہ کرنے کی صورت میں مجھے قتل کرنے کی دھمکی دی ہے ،میں اس طرح مجبور ہو گیا ہوں جس طرح جناب یوسف علیہ السلام اور جناب دانیال علیہ السلام مجبور ہوئے تھے ،کہ اُن کو اپنے زمانہ کے جابر حاکم کی ولایت عہدی قبول کرنی پڑی تھی "۔
امام علیہ السلام نے نہایت مجبوری کی بنا پرولی عہدی قبول کر لی حالانکہ آپ علیہ السلام بڑے ہی مغموم و محزون تھے ۔
امام علیہ السلام کی شرطیں
امام نے مامون سے ایسی شرطیں کیں جن سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ آپ علیہ السلام کو اس منصب کے قبول کرنے کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے ۔وہ شرطیں مندرجہ ذیل ہیں :
١۔آپ علیہ السلام کسی کو ولی نہیں بنائیں گے ۔
٢۔ کسی کو معزول نہیں کریں گے ۔
٣۔ کسی رسم و رواج کو ختم نہیں کریں گے ۔
٤۔ حکومتی امور میں مشورہ دینے سے دور رہیں گے ۔
مامون نے اِن شرطوں کے اپنے اغراض و مقاصد کے متصادم ہونے کی وجہ سے تسلیم کر لیا، ہم نے اس عہد نامہ کی نص و دلیل اور شرطوں کواپنی کتاب "”حیاةالامام علی بن مو سیٰ الرضا علیہ السلام "” میں نقل کیا ہے۔
امام علیہ السلام کی بیعت
مامون نے امام رضا علیہ السلام کو ولی عہد منتخب کرنے کے بعد اُن کی بیعت لینے کی غرض سے ایک سیمینار منعقد کیا جس میں وزراء، فوج کے کمانڈر،حکومت کے بڑے بڑے عہدیداراور عام لوگ شریک ہوئے ، اور سب سے پہلے عباس بن مامون ،اس کے بعد عباسیوں اور ان کے بعد علویوں نے امام علیہ السلام کی بیعت کی ۔
لیکن بیعت کا طریقہ منفرد تھا جس سے عباسی بادشاہ مانوس نہیں تھے ،امام نے اپنا دست مبارک بلند کیا جس کی پشت امام علیہ السلام کے چہرئہ اقدس کی طرف تھی اور اس کا اندرونی حصہ لوگوں کے چہروں کی طرف تھا ، مامون یہ دیکھ کر مبہوت ہو کر رہ گیا ،اور امام علیہ السلام سے یوں گویا ہوا :آپ علیہ السلام بیعت کے لئے اپنا ہاتھ کھولئے ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا :
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح بیعت لیا کرتے تھے "۔
(مقاتل الطالبین ،صفحہ ٤٥٥)
شاید آپ علیہ السلام نے اپنے قول کو خدا کے اس قول سے نسبت دی ہو :
"یداللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ "
(سورہ فتح ،آیت ١٠)
” اُن کے ہاتھوں کے اوپر اللہ کا ہاتھ ہے "۔
لہٰذا بیعت کرنے والے کا ہاتھ نبی اور امام علیہ السلام کے ہاتھ سے اوپر ہونا صحیح نہیں ہے ۔
(حیاة الامام علی بن موسیٰ الرضا علیہما السلام ،ج ٢،ص ٣٠٣)
اہم قوانین
١۔ مامون نے امام رضا علیہ السلام کو ولی عہد منتخب کرتے وقت مندرجہ ذیل اہم قوانین معین کئے:
١۔ لشکر کو پورے سال تنخواہ دی جا ئے گی ۔
٢۔عباسیوں کو کالا لباس نہیں پہنایا جائے گا بلکہ وہ ہرا لباس پہنیں گے ،چونکہ ہرا لباس اہل جنت کا لباس ہے اور خداوند عالم کا فرمان ہے :
” وَ یَلْبَسُونَ ثِیَابًا خُضْرًا مِنْ سُندُسٍ وَاسْتَبْرَق”
(سورہ کہف ،آیت ٣١)
"اور یہ باریک اور دبیز ریشم کے سبز لباس میں ملبوس ہوں گے "۔
٣۔درہم و دینار پر امام رضا علیہ السلام کا اسم مبارک لکھا جا ئے گا ۔
مامون کا امام رضا علیہ السلام سے خوف
ابھی امام رضا علیہ السلام کو ولی عہد بنے ہوئے کچھ ہی مدت گزری تھی کہ مامون آپ علیہ السلام کی ولی عہدی کو ناپسند کرنے لگا،چاروں طرف سے افراد آپ علیہ السلام کے گرد اکٹھا ہونے لگے اور ہر جگہ آپ علیہ السلام کے فضل و کرم کے چرچے ہونے لگے ہر جگہ آپ علیہ السلام کی فضیلت اور بلند شخصیت کی باتیں ہونے لگیں اورلوگ کہنے لگے کہ یہ خلافت کے لئے زیادہ شایانِ شان ہیں ،بنی عباس چور اور مفسد فی الارض ہیں ،مامون کی ناک بھویں چڑھ گئیں اس کو بہت زیادہ غصہ آ گیا ،اور مندرجہ ذیل قانون نافذ کردئے :
١۔اُس نے امام کے لئے سخت پہرے دار معین کر دئے ،کچھ ایسے فوجی تعینات کئے جنھوں نے امام علیہ السلام کا جینا دو بھر کر دیا اور نگہبانوں کی قیادت ہشام بن ابراہیم راشدی کے سپُرد کر دی وہ امام علیہ السلام کی ہر بات مامون تک پہنچاتا تھا ۔
٢۔اُس نے شیعوں کو امام علیہ السلام کی مجلس میں حاضر ہو کر آپ علیہ السلام کی گفتگو سننے سے منع کر دیا ،اس نے اِس کام کے لئے محمد بن عمر و طوسی کو معین کیا جو شیعوں کو بھگاتا اور ان کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آتا تھا ۔
٣۔علماء کو امام علیہ السلام سے رابطہ رکھنے اور اُن کے علوم سے استفادہ کرنے سے منع کیا ۔
امام علیہ السلام کو قتل کرنا
مامون نے امام علیہ السلام کو قتل کرنے کی سازش کی ،اور اُس نے انگور یا اَنار (14) میں زہر ملا کر دیا جب امام علیہ السلام نے اُس کو تناول فرمایا تو زہر آپ علیہ السلام کے پورے بدن میں سرایت کر گیا اور کچھ ہی دیر کے بعد آپ علیہ السلام کی روح پرواز کرگئی جو ملائکہ کے حصار میں خدا تک پہنچی اور ریاض خلد میں انبیاء علیہ السلام کی ارواح نے آپ علیہ السلام کا استقبال کیا ۔
(ہم نے امام علیہ السلام پر حملے کو مفصل طور پر حیاة الامام علی بن موسیٰ الرضا علیہما السلام ، میں تحریرکردیا ہے)
امام علیہ السلام اللہ کے بندوں تک رسالت الٰہی کا پیغام پہنچا کردار فانی سے کو چ فرما گئے ،آپ علیہ السلام مامون کی حکومت کے کسی کام میں بھی شریک نہیں ہوئے جبکہ مامون نے آپ علیہ السلام کو ہر طرح سے ستایا تھا۔
امام علیہ السلام کی جس طرح تشیع جنازہ ہوئی اس کی خراسان کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی ،تمام حکومتی دفاتر ، اور تجارت گاہیں وغیرہ رسمی طور پر بند کردی گئیں ،اور ہر طبقہ کے لوگ امام کے جسم مطہر کی تشیع جنازہ کے لئے نکل پڑے ۔آگے آگے مامون ،اُس کے وزیر ،حکومت کے بڑے بڑے عہدیدار اور لشکر کے کمانڈر تھے، مامون ننگے سر اور ننگے پیر تھا وہ بلند آواز سے کہہ رہا تھا :
مجھے نہیں معلوم کہ مجھ پر اِن دونوں مصیبتوں میں سے کونسی بڑی مصیبت ہے ؟ آپ علیہ السلام مجھ سے جدا ہو گئے یا لوگ مجھ پر یہ تہمت لگا رہے ہیں کہ میں نے آپ کو دھوکہ دے کر قتل کر دیا ہے ؟
مامون نے خود کو امام کے قتل سے بری ٔ الذمہ ہونے کے لئے نالہ و فریاد اور حزن و الم کا اظہار کیا ؟ لیکن بہت جلد اس کی اس ریاکاری کا پردہ فاش ہو گیا اور سب پر واضح ہو گیا کہ وہ خود مجرم ہے ۔
امام علیہ السلام کا جسم اطہر تکبیر و تعظیم کے سایہ میں لیجایا گیا اور مامون نے آپ علیہ السلام کو ہارون کے نزدیک آپ علیہ السلام کی ابدی آرامگاہ میں سپرد خاک کردیا، آپ علیہ السلام کے دنیا سے رخصت ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت کے لئے باعث عزت صفاتِ حسنہ رخصت ہو گئے ۔
امام علیہ السلام کو اس مقدس و طاہر بقعہ میں دفن کردیا گیا ،آپ علیہ السلام کا مرقد مطہر خراسان میں انسانی کرامت کا مظہر بن گیا ،آپ علیہ السلام کا مرقد مطہر اسلام میں بہت باعزت ہے ،لوگوں نے امام رضا علیہ السلام کے مرقد مطہر جیسا با حشمت، عزت اور کرامت کامرقد کسی اور ولی اللہ کا مرقد نہیں دیکھا ، مامون سے امام رضا علیہ السلام کو ہارون کے قریب دفن کرنے کی وجہ دریافت کی گئی تو اس نے کہا :تاکہ خداوند عالم میرے والد کو امام رضا علیہ السلام کے جوار کی وجہ سے بخش دے ،شاعر مفکر اسلام دعبل خزاعی نے اس بات کو یوں شعر میں نظم کیا ہے :

قَبْرَانِ فِ طُوْس: خَیْرِ النَّاسِ کُلِّھِمْ
وَ قَبْرُ شَرِّھِمْ ھٰذَا مِنَ الْعِبَرِ
مَا یَنْفَعُ الرِّجْسَ مِنْ قُرْبِ الزَّکِ وَ لَا
عَلیٰ الزَّکِ بِقُرْبِ الرِّجْسِ مِنْ ضَرَرِ
ھَیْھَاتَ کُلُّ امْرِئٍ رَھْنُ بِمَا کَسَبَت
لَہُ یَدَاہُ فَخُذْ مَا شِئْتَ أَوْ فَذَرِ

"طوس میں دو قبریں ہیں ایک بہترین مخلوق کی ایک بد ترین مخلوق کی یہ عبرت کا مقام ہے۔
پاکیزہ شخص کی قربت، پلیدگی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی اور نہ ہی آلودگی سے نزدیک ہونے کی وجہ سے پاکیزہ شخص کو نقصان پہنچتا ہے ۔
ہر شخص اپنے کئے کا ذمہ دار ہے تو جو چاہو لے لو ،جو چاہو چھوڑدو” ۔
بہر حال امام رضا علیہ السلام کے اس دنیا سے چلے جانے سے دنیائے اسلام میں ایمان و ہدایت کے چراغ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گیا اور مسلمان اپنے قائد اعظم اور امام علیہ السلام سے محروم ہو گئے۔
اناللہ وانا الیہ راجعون
http://alhassanain.org/urdu

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button