سیرتسیرت امام حسین سید الشھداؑ

تحریک کربلا کا اخلاقی پہلو

محمد حسنین امام

اتمام حجت :
امام ؑ نے کربلا کے میدان میں ہر مرحلہ پر اتمام حجت کیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ ان کے مقابل میں کون ہے اور جہالت اور نادانی کی وجہ سے کسی پاک خون سے ان کے ہاتھ آلودہ نہ ہوجائیں اور عذاب الٰہی کے شکار نہ ہو جائیں۔امامؑ اور آپ کے اصحاب نے واضح دلیلوں کے ذریعے انہیں صحیح راستے کی نشاندہی کی ۔ حضرت امام حسین ؑروز عاشوردشمن کے لشکر کے سامنے کھڑے ہو کر فرماتے ہیں :
"فانسبونی فانظروا من انا، ثم ارجعوا الی انفسکم وعاتبوھا ، فانظروا ھل یصلح لکم قتلی وانتھاک حرمتی؟
الست ابن بنت نبیکم ، وابن وصیہ وابن عمہ واوّل المؤمنین المصدّق لرسول اللّٰہ بما جاء بہ من عند ربہ، او لیس حمزۃ سیدالشھداء عمی ، او لیس جعفر الطیّار فی الجنۃ بجناحین عمی، او لم یبلغکم ما قال رسول اللّٰہ لی ولاخی:
”ھذٰان سیدا شباب اھل الجنۃ؟ فان صدقتمونی بما اقول وھو الحق ، واللّٰہ ما تعمدت کذباً منذ علمت ان اللّٰہ یمقت علیہ اھلہ ، وان کذبتمونی فان فیکم (من لو) سألتموہ عن ذالک اخبرکم ، سلوا جابربن عبداللّٰہ الانصاری وابا سعید الخدری وسھل بن سعد الساعدی وزید ابن ارقم وانس ابن مالک ، یخبرونکم انہم سمعوا ھذہ المقالۃ من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ لی ولاخی۔ اما فی ھذٰا حاجز لکم عن سفک دمی؟
(الارشاد ج٢ ص٩٧،بحار الانوار ج٤٥ص٦)
میرے بارے میں غور کرو کہ میں کون ہوں پھر اپنے نفس کی طرف رجوع کرو اور پنے آپ کو سرزنش کرو ۔ کیا مجھے قتل کرنا اورمیری ہتک عزت کرنا تمہارے لئے مناسب ہے؟ کیا میں تمہارے نبیؐ کی بیٹی کا فرزند نہیں ہوں؟ کیا میں نبیؐ کے وصی اور چچا زاد بھائی کا فرزند نہیں ہوں ؟ کیا حمزہ سید الشہداء اور جعفر طیار جو اپنے دونوں پروں کے ذریعے جنت میں پرواز کرتے ہیں،میرے چچا نہیں ہیں ؟ کیاتم نے میں اور میرے بھائی کے بارے میں رسول خداؐ کا یہ قول نہیں سنا:
حسنؑ وحسین ؑجنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔
جو میں کہہ رہا ہوں وہ سچ ہے اور آج تک میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اگر یہ سمجھتے ہو کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں توایسے افراد ابھی تمہارے درمیان موجود ہیں جو تمہیں اس کی خبر دیں گے۔ جابربن عبداللہ انصاری، ابو سعید خدری، سہل بن سعد ساعدی ،زید بن ارقماور انس ابن مالک سے پوچھو وہ تمہیں بتائیں گے کہ انہوں نے یہ حدیث میں اور میرے بھائی کے بارے میں سنی ہے ۔ کیا یہ کافی نہیں ہے کہ میرے قتل سے باز آجاؤ۔
غیرت و حمیت :
امام حسین ؑ اورآپ کے اصحاب غیرت کے پیکر تھے ۔ امام نے یہ کبھی گوارا نہیں کیا کہ جیتے جی کوئی اہل حرم کے خیموں کی طرف جائے یا اہل حرم خیموں سے باہر آئیں ۔حتی اس وقت بھی جب آپ ؑ زخمی حالت میں تھے اور حضرت زینب ؑ آپ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں پہنچی تو فرمایا بہن زینب واپس خیمہ میں جاؤ میں آپ ابھی زندہ ہوں۔
اول سفر سے ہی حضرت عباس رات کو خیموں کی حفاظت کے لئے خیموں کے گرد چکر لگاتے تھے تاکہ خواتین وبچے بے خوف وہراس سو جائیں۔ حضرت امام حسینؑ جب گھوڑے سے زمین پر تشریف لائے تھے تو دشمن کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آپ زندہ ہیں یا نہیں اور کسی میں یہ جرأت بھی نہیں تھی کہ آپ کے سامنے جائے ۔ شمر ملعون کہنے لگا کہ اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ حسینؑ زندہ ہےں یا نہیں تو خیموں پر حملہ کردو۔ امام نے جب یہ سنا تو کہنی کے بل کھڑے ہو کر فرمایا :
” ویلکم یا شیعۃ آل ابی سفیان ! ان لم یکن لکم دین وکنتم لا تخوفون المعاد فکونوا احراراً فی دنیاکم ھذہ”
"اے پیروان ابوسفیان ! اگر تم میں دین نام کی کوئی چیز نہیں ہے تو کم ازکم دنیا میں آزاد رہو”۔
(لہوف ص١٦٢)
یعنی کم از کم حیا دار بنو ،خواتین اور بچوں سے تمہاری کیا دشمنی ہے ۔کوئی پوچھتا ہے :
ماتقول یابن فاطمہ؟
اے فرزند فاطمہ ؑ کیا کہہ رہے ہو۔امام ؑ نے فرمایا:
"انا اقاتلکم وانتم تقاتلونی والنساء لیس علیھن حرج”
"میں تم سے جنگ کر رہا ہوں اور تم لوگ مجھ سے ۔عورتوں نے کیا بگاڑا ہے "۔
حجاب وعفت :
کربلا میں خواتین نے ہمیں یہ بتا دیا کہ خواتین کا گھر سے باہر آنا اگر پردہ کے ساتھ ہو تو کوئی بری بات اور عیب نہیں ہے ۔ بلکہ اگر اسلام کو ان کی ضرورت ہو تو ان کا گھر سے باہر نکلنا ضروری ہو جاتا ہے لیکن اپنے پردے اور حجاب کا خیال رکھیں ۔ ہمیں اس کی روشن اور واضح مثال کربلا کی شیر دل خواتین نظر آتی ہیں ۔حضرت زینب ،ام کلثوم اور دوسری مخدرات کس طرح اپنے آپ کو نامحرموں کی نظروں سے پچانے کی کوشش کرتی ہیں ۔ حضرت ام کلثوم بازار کوفہ میں لوگوں کو مخاطب کر کے فرماتی ہیں:
”یا اھل کوفۃ اما تستحیون من اللّٰہ ورسولہ ان تنظرون الی حرم النبی”
” اے اہل کوفہ کیا تمہیں خدا اور اس کے رسول ؐ سے شرم نہیں آتی کہ تم حرم نبی ؐ کو دیکھ رہے ہو”۔
(مقتل الحسین ؑ ص٤٠٠)
دربار یزید میں حضرت زینبؑ نے پردہ کے بارے میں یزید کو مخاطب کر کے بہت ہی سخت الفاظ میں فرمایا :
”یا بن الطلقاء تخدیرک وحرائرک وامائک وسوقک بنات رسول االلّٰہ سبایا ھتکت ستورھن وابدیت وجوھھن تحدو بھن الاعداء من بلد الی بلد ویستشرفھن اھل المناھل والمعاقل ویتصفع وجوھھن القریب والبعید”
” اے رسولؐ کے آزاد کردہ کی اولاد !کیا یہ عدالت ہے کہ تمہاری بیویاں اور کنیزیں پردہ میں ہوں اور رسول خداؐ کی بیٹیاں اسیر کرلی جائیں اور ان کے پردے کو چھین لیا جائے۔ ان کے چہروں کو عیاں کیاجائے اور دشمن انہیں اس طرح ایک شہر سے دوسرے شہر پھرائیں کہ شہر،دیہات اورقلعہ کے لوگ اور بیابانی افراد ان کو دور ونزدیک سے دیکھیں”۔(مقتل مطہر، سعادت الدارین)
اہل حرم جہاں تک ممکن ہوسکے نامحرموں کی نگاہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ حضرت ام کلثوم ؑ فوج کے اس سردار سے جو اسیروں کو لے جارہا تھا فرماتی ہیں کہ جب ہمیں دمشق میں داخل کرنا ہو تو ایسے دروازے سے داخل کروجہاں تماشائیوں کی تعداد کم ہو۔ اہل بیت رسول ؐ کے نزدیک حجاب کا اندازہ اس بات سے لگا یاجا سکتا ہے کہ ان کے بچے بھی کسی اور چیز کا سوال نہیں کرتے بلکہ فقط پردہ کے متعلق سوال کرتے ہیں ۔ صحابی رسولؐ حضرت سہیل بن سعدنے بازار میں جب حضرت سکینہ سے کہا میں آپ کے نانا کا صحابی ہوں ،کیامیں اس حالت میں آپ کی کوئی خدمت کرسکتا ہوں۔ حضرت سکینہ ؑ نے فرمایا کہ اس نیزہ بردار کو آگے بھیج دیں تاکہ لوگ ان سروں کو دیکھنے میں مشغول ہوں اور حرم رسول پر ان کی نگاہ نہ پڑے۔ (حیاۃ امام حسین بن علی ؑ ج٣ ص٣٧٠)
شوق شہادت :
اما م ؑ اورا صحاب امام ؑ شہادت طلبی کے مظہر اور نمونہ تھے خصوصاً اما م حسین علیہ السلام اس میدان میں سب سے آگے نظر آتے ہیں ۔ امام ؑ جب مدینہ سے روانہ ہورہے تھے تو آپؑ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا :
”فمن کان باذلاً فینا مھجتہ موطناً علی لقاء اللّٰہ نفسہ فلیرحل معنا”
"جو بھی شہادت کا طالب ہے اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا چاہتاہے وہ میر ے ساتھ چلے” ۔
راہ حق میں موت کو امام ؑ زینت قرار دیتے ہیں
"خطَّ الموت علی ولد آدم مخطَّ القلادۃ علی جید الفتاۃ”
” موت ،بنی آدم کے لئے اس گردن بند کی طرح ہے جو جوان لڑکیوں کے گلے میں ہوتا ہے”۔
(مقتل مطہر)
موت کو وہی شخص زینت قرار دے سکتا ہے جو موت کی حقیقت سے آشنا ہو۔
شب عاشور امام ؑ کے اصحاب جس طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں وہ مکتب اہل بیت ؑ کے ماننے والوں کے لئے ایک سرمایہ ہےں ۔ امام ؑ کے اصحاب شوق شہادت میں محو تھے اور شہادت کی تمنا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ تعریف اور حمد ہے اس خدا کی جس نے ہمیں آپ ؑ کی مدد کرنے کی سعادت بخشی اور آپ کے ساتھ شہید ہونے کی شرافت عطاکی۔
ایک مقام پر امام حسین ؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ :
”انی لااری الموت الا سعادۃ والحیوۃ مع الظالمین الا برماً ”
"میں موت کو سعادت کے سوا کچھ نہیں سمجھتااور ظالموں کے ساتھ زندہ رہنے کو ننگ اور عار کے سوا کچھ نہیں سمجھتا "۔
یعنی امام ؑشہادت کو ایک سعادت سمجھتے ہیں اور اس سعادت کے طالب ہیں۔
اس کے علاوہ ہم جب کربلا کے نوجوانوں کو دیکھتے ہیں تو اس جذبہ کی ایک اور جھلک نظر آتی ہے ۔ اگر یہ روایت صحیح ہو تو جیسا کہ بعض ارباب نے نقل بھی کیا ہے کہ حضرت قاسم سے جب امام ؑ نے پوچھا کہ
کیف الموت عندک
موت آپ کے نزدیک کیسی ہے تو فرمانے لگے :
یا عماہ احلی من العسل
چچا شہد سے بھی زیادہ شیریں ہے۔
شہد ایک شیرین چیز ہے جس کی وجہ سے اسے ہر خاص وعام پسند کرتا ہے ۔ حضرت قاسم نے موت کو شہد سے تشبیہ دے کر یہ بتا دیا کہ جو شہادت کاجذبہ رکھتا ہے اس کے نزدیک موت شہد سے بھی زیادہ شیریں ہے۔
مواسات وایثار :
مواسات یعنی دکھ درد میں ایک دوسرے کی مدد اور ہمدردی کرنا۔کربلا میں ہمیں اس صفت کی بے نظیر مثالیں ملتی ہیں بلکہ مواسات سے بھی بڑھ کر ایثار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ امام حسین ؑ نے فقط دوستوں کے ساتھ مواسات کا درس نہیں دیا بلکہ دشمن کے ساتھ بھی مواسات اور ایثار کا عملی مظاہرہ کیا ۔ حر کا لشکر جب کربلا پہنچا تھا پیاس کی شدت سے ان کی حالت بری تھی۔ اس گرمی کے زمانے میں جہاں پانی کم جگہوں پر ملتا تھا اور ساتھ میں خواتین اور بچے بھی ہوں ،دشمنوں کو پانی پلایا نہ فقط انسانوں کو بلکہ ان کے جانوروں کو بھی سیراب کیا۔
شب عاشور اصحاب امام ؑ آپس میں یہ مشورہ کر رہے ہیں کہ کل ہم پہلے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرینگے اور امام ؑکے عزیزوں پر ہم سے پہلے آنچ آنے نہیں دیں گے۔اور دوسری طرف خاندان بنی ہاشم کے جوان اکھٹے ہو تے ہیں اور حضرت عباس ؑ جوانان بنی ہاشم سے مخاطب ہو کر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ”اصحاب غیروں میں شمار ہوتے ہیں اور بار سنگین کو خاندان کے افراد کو اٹھانا چاہیے ۔ آپ لوگوں کو سب سے پہلے میدان میں جانا چاہیے تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اصحاب کو پہلے میدان کی طرف میدان بھیجا گیا۔
حضرت عباس ؑ کے اسی کردار کی وجہ سے آپ کو زیارات میں ان الفاظ کے ساتھ یاد کیا گیا ہے کہ فلنعم الاخ المواسی کس قدر اچھے مواسات کے حامل بھائی ہیں۔
”السلام علیک ایھا العبد الصالح والصدیق المواسی”
اے عبد صالح اور سچے مواسات کرنے والے آپ ؑ پرسلام ہو۔
تسلیم ورضا :
امام ؑاپنے تمام افعال میں تسلیم ورضا کا درس دیتے ہیں ۔ آپ ؑسے جب عبداللہ ابن مطیع نے کوفہ کے لوگوں کے بارے میں اپنا تجربہ بیان کیا تو امام ؑ نے فرمایا:
”یقضی اللّٰہ فی ذلک ما یحبّ”
خدا جس چیز سے محبت کرتا ہے اسے مقدر کرتا ہے”۔
(مقتل الحسین علیہ السلام ج2، ص 162)
شہید مرتضی مطہری فرماتے ہیں کہ
” رضا وتسلیم کی چار اقسام میں سے ایک یہ ہے کہ کام کسی اور کے ہاتھ میں ہو یعنی خدا کے فرمان اور امر سے ہو۔ شخصی اور خواہش نفس کی پیروی میں نہ ہو”۔
امام ؑکے اقوال سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ جو کچھ انجام دیتے ہیں وہ رضائے الٰہی میں انجام دیتے ہیں ۔اگر امام حسین علیہ السلام کا مقصد خدا کی رضا و مرضی کے علاوہ کچھ اور ہوتا تو آپ ہرگز اتنا بڑا اقدام نہ کرتے جس میں آپ کو کو سب کچھ قربان کرنا پڑے یہ فقط رضا خدا وندی تھی کہ آپ نے پورا کنبہ شہید کروا دیا اعزاء و اقارب، مہمان وغیرہ کی لاشوں پہ صبر کیا اور ایک شیر دل مجاہد کی طرح آخری وقت تک دشمن کو قول و فعل سے نصیحت کرتے رہے وگرنہ خدا کے علاوہ آپ کو اگر حکومت، جائیداد، جاہ طلبی یا شہرت کا زرہ برابر بھی شوق اور چاہت ہوتی تو اس کا حصول آپ کے لیے انتہائی آسان تھے حکومت وقت ہر چیز کے عوض آپ کے ساتھ مذاکرات کرسکتی تھی کیونکہ حکومت کو اگر پوری ملت اسلامیہ میں کسی سے خطرہ تھا تو وہ آپ ہی کی ذات گرامی تھا کیونکہ دین کے حقیقی وارث آپ ہی تھی اور حکومت وقت اس بات سے بخوبی آگاہ تھی کہ ان کے خلاف اگر کوئی مزاحمت کر سکتا ہے تو وہ حسین ابن علیھما السلام ہیں۔
جہاد بالنفس :
کربلا کا معرکہ دشمنوں سے نبرد کا معرکہ تھا ۔ اس معرکے میں کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اپنے نفس سے جہاد کر کے اسے شکست دی جائے جسے رسول اسلام ؐنے جہاداکبرکا نام دیا ہے۔جب تک اپنے نفس پر کامیابی حاصل نہیں ہو گی دشمنوں پر فتح وکامرانی حاصل نہیں ہوگی کیونکہ اگر تزکیہ نفس کے بغیر انسان میدان میں اترے تو اسے کسی بھی وقت شکست کا سامنا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ کچھ مراحل ایسے آتے ہیں جہاں نفس کو شکست دینے کے ذریعے دشمن پر کامیابی حاصل کی جاتی ہے۔ معرکہ کربلا میں ہمیں امام ؑاور اصحاب امام ؑکی وہ سیرت ملتی ہے جو جہاد بالنفس کی بہترین مثال ہے۔
حضرت نافع بن ہلال کی منگیتر بھی آپ کے ساتھ میدان کربلا میں موجود تھیں۔ ابھی آپ کی شادی نہیں ہوئی تھی ۔ جب حضرت نافع میدان جنگ کی طرف روانہ ہو رہے تھے آپ کی منگیتر آپ کے دامن کو تھام کر جانے سے روکنے لگتی ہیں ۔ یہ واقعہ ایک جوان کو متزلزل کرنے اور جذبہ جہاد کو ٹھنڈا کرنے کے لئے کافی تھا۔امام ؑ نے بھی حضرت نافع سے اپنی منگیتر کی خواہش کو میدان جنگ پر ترجیح دےنے کو کہا،لیکن حضرت نافع نے اس محبت دنیوی اور خواہش نفس پر غلبہ پایا اور فرمایا کہ :
”اے فرزند رسول خدا ؐاگر میں آج آپ کی مدد نہ کروں تو کل رسول خدا ؐ کو کیا جواب دوں گا ۔
” آپ میدان میں گئے اور جنگ کی ،یہاں تک کہ آپ شہید ہو گئے۔
توکل :
امام حسین ؑ کے کلمات اور افعال وکردار سے یہ نمایاں اور واضح ہو جاتا ہے کہ آپ کس قدر خدا پر توکل کرتے تھے ۔ آپ نے مدینہ سے جب سفر کاآغاز کیا تو خدا پر ہی توکل کر کے، اور جتنا بھی راستہ طے کیا خدا پر توکل کی وجہ سے طے کیا ۔امام ؑ مکہ سے نکلتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :
”فمن کان باذلاً فینا مھجتہ موطناً علی لقاء اللّٰہ نفسہ فلیرحل معنا فانی راحل مصبحاً ان شاء اللّٰہ”
جو بھی اپنے خون کو ہماری راہ میں بہانا چاہتا ہے اور خدا سے ملاقات کا مشتاق ہے وہ میرے ساتھ چلے۔میں کل صبح سفر پر نکل رہا ہوں۔
(موسوعہ امام حسین ؑ ج2)
آپ ؑنے کبھی بھی اپنے اصحاب و ساتھیوں پر توکل نہیں کیا ۔ اسی لئے آپ نے فرمایا کہ:
”فمن احبّ منکم الانصراف فلینصرف”
جو واپس جاناچاہتا ہے وہ واپس چلا جائے ”
اور شب عاشور چراغ بجھا کر فرمایا کہ
” جو جانا چاہتا ہے وہ چلا جائے "۔
مدینہ سے نکلتے ہوئے جس نے بھی آپ کو کوئی رائے پیش کی کہ آپ کوفہ کی طرف تشریف نہ لے جا ئیں بلکہ حجاز یا کسی اورمقام کی طرف ہجرت کریں تو آپ نے خدا پر توکل کیا اور کوفہ کا سفر اختیار کیا ۔ مدینہ سے نکلتے ہوئے اپنے بھائی محمد حنفیہ سے فرمایا :
”ما توفیقی الا باللّٰہ علیہ توکلت والیہ انیب”
” میری توفیق خدا سے ہے اور میں اسی پر توکل کرتا ہوں اور وہی میری پناہ گاہ ہے” ۔
وہ تمام خطبات جو روز عاشور آپ نے دئےے ان میں یہ جملہ نمایاں طور پر نظر آتا ہے کہ
” انی توکلت علی اللّٰہ ربی وربکم”
"میں خدا پر توکل کرتا ہوں جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے”۔
دعا کا درس:
تحریک کربلا سے ہمیں جہاں دیگر دروس ملتے ہیں وہاں دعا کا ایک عظیم درس بھی پوشیدہ ہے اگر ہم تحریک کربلا کی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو کسی بھی جگہ پر دعا کو فراموش نہیں کیا جاسکتا حتی امام حسین علیہ السلام جب مدینہ سے نکلتے ہیں تو بھی دعا مانگتے ہیں اور وقت آکر جب دشمنان دین کے ساتھ جہاس میں مصروف عمل ہوتے ہیں تو بھی دعا کے لیے ہاتھ بلند کرتے ہیں جس سے دعا کی اہمیت اور قدر قیمت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ہم یہاں امام حسین علیہ السلام کی دعا کے چند نمونے ذکر کرتے ہیں اس کے بعد ان کا مختصر تجزیہ پیش کریں گے۔
مکہ پہنچنے پر آپ کی دعا
روایت ہے کہ امام حسین علیہ السلام نکلے ، یہاں تک کہ مکہ پہنچے۔ جب دور سے مکہ کے پہاڑوں پر نظر پڑی تو اس آیہٴ مجیدہ کی تلاوت فرمائی:
"جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین آئے تو کہا :
"شاید میرا پروردگار مجھے راہِ راست کی ہدایت فرمائے”۔
پھر جب مکہ پہنچے تو فرمایا:
"پروردگارا! میرے لئے خیروبرکت قرار دے اور میری راہِ راست کی طرف رہنمائی فرما”۔
(منتخب طریحی ۴۲۲)
عاشورا کے آخری لمحات میں آپ کی دعا
پروردگارا! تیری جگہ بلند، تو عظیم الشان قدرت والا، سخت قہر و غضب والا، مخلوقات سے بے نیاز، وسیع قدرت والا، جس پر چاہتا ہے قدرت رکھتا ہے۔ بہت نزدیک رحمت والا، سچے وعدے والا، زیادہ نعمتوں والا اور اچھی آزمائش والا ہے۔
جب پکارا جائے تو تو بہت نزدیک ہے۔ اپنی مخلوقات پر محیط ہے۔ جو تیری طرف آئے، تو اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ اپنے ارادے پر قادر ہے۔ جسے چاہے پالیتا ہے۔ جب تیرا شکرادا کیا جائے تو شکر قبول کرتا ہے اور جب تجھے یاد کیا جائے تو یاد آتا ہے۔
تیری طرف نیاز مند ہوکر تجھے پکار رہا ہوں۔ایک فقیر اور خالی ہاتھ تیری طرف آیا ہوں۔ خوف اور ڈر سے تیری بارگاہ میں آ یا ہوں۔ دکھوں سے تیرے حضور میں گریہ کناں ہوں۔ ضعیف ناتوانی کی صورت میں تجھ سے مدد کا طلبگار ہوں۔ تجھے اپنے لئے کافی سمجھتے ہوئے توکل کرتا ہوں۔
پروردگارا! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق سے فیصلہ فرما۔ تحقیق انہوں نے ہمیں فریب دیا، دھوکہ دے کر ہمیں قتل کر رہے ہیں جبکہ ہم تیرے نبی کی بیٹی کی اولاد ہیں کہ جنہیں رسالت جیسے عظیم منصب کیلئے منتخب فرمایا ہے۔
انہیں اپنی وحی پر امین قرار دیا ہے۔ پروردگارا! ہمارے لئے کوئی راہ نکال دے، اے بہترین رحمت کرنے والے۔
درج بالا دعا کے دو نمونے پیش کیے ہیں اس کے علاوہ دیگر بھی کئی ایک جگہوں پر امام عالی مقام علیہ السلام نے دعا کا عملی درس دیا یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ ہمیشہ مشکلات میں انسان کا سہارا خداوندعالم کی بارگاہ میں عاجزی کے ساتھ پیش ہونا اسی سے ہی لو لگاناہے کیونکہ اللہ کے علاوہ کوئی ایسی ہستی اس کائنات میں نہیں جس کو دوام اور قوام ہو جبکہ ہمیشہ دائمی اور قیوم ذات ہی انسان کو کو مشکلات اور زمانے کی ستیزہ کاریوں سے نجات دلا سکتی ہے لہذا نسان کو خوشی ہو یا غم، تنگ دستی ہو یا خوش حالی ہر حال میں اپنے پروردگار کے ساتھ رابطہ استوار رکھنا چاہیے۔
احساس ذمہ داری:
احساس انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے ودیعت کیا ہے پس جو انسان بے حسی کا شکار ہو وہ اپنی فطرت سے ہٹ جاتا ہے اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ان کو ذکر کرنا ہمارا موضوع نہیں اس سے بڑھ کر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کامیابی اور ناکامی کا مرکزی نقطہ ہے اپنی ذمہ داری کو سمجھنے اور اس کو بخوبی نبھانے والا ہی ایک کامیاب ہوسکتا ہے جبکہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیے بغیر ان سے گلو خلاصی کرنا اور سبکدوش ہوجاے کا نتیجہ طرح طرح کی مشکلات سے دو چار ہوجانا ہے۔
جیسا کہ ایک شخص امام صادق علیہ السلام کے پاس آتا ہے اور آ کر سوال کرتا ہے کہ آقا آپ کی زندگی کی بنیاد کتنے اصولوں پر ہے کہ جس کہ وجہ سے آپ اتنی کامیاب زندگی گزار لیتے ہیں تو آپ علیہ السلام نے فرمایا :
میری زندگی کہ چار اصول ہیں ان میں سے جسے پہلا اصول یہ ہے ۔
عَلِمتُ أنَّ عَلَيَّ أَمُوراً لَا يَقُومُ بِأَدَائِهَا غَيْرِي فَاشْتَغَلْتُ بِهَا
کہ مجھ پر چند امور کا انجام دینا ہے کہ جن امور نے میرے غیر سے انجام نہیں پانا اس لیے میں ان کو انجام دینے میں مشغول رہتا ہوں ۔
(مستدرك الوسائل ج ١٢ ص ١٧٢)
اس سے پتہ چلا کہ احساس ذمہ داری کتنی اہم چیز ہے اگر انسان یہ کہے کہ یہ کام میرے ذمہ آگیا ہے اور انجام پا جائے گا تو یہ زبانی دعویٰ کرنا اگرچہ آسان ہے مگر اس کی کما حقہ انجام دہی ایک مشکل امر ہے کیونکہ اس صورت میں انسان کواپنی ذمہ داری کا حقیقی احساس ہی نہیں ہے۔
اسی طرح تحریک کربلا میں بھی ملتا ہے کہ
جب امام حسین علیہ السلام نے عمرہ کے احکام مکمل کیے اور کربلا کی جانب عازم سفر ہوئے تو اس وقت کافی لوگوں نے آپ کو جانے سے روکا جن میں سے عبد اللہ بن زبیر، عبد اللہ بن عباس وغیرہ بھی تھے۔ لیکن آپ نہیں رکے اس کی وجہ کیا تھی وہی کہ آپ کی ذمہ داری تھی کہ حرمت کعبہ پامال نہ ہو آپ کا خون بہے تو قاتل بے نقاب ہوں اس مطلب کو مزید واضح کرنے کے لیے ایک روایت کا نقل کرنا خالی از فائدہ نہ ہوگا۔
عبد اللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل اسدی کا بیان ہے کہ ہم دونوں حج کی غرض سے مکہ روانہ ہو ئے اور یوم ترویہ وارد مکہ ہو ئے۔وہاں پرہم نے سورج چڑہتے وقت حسین اورعبداللہ بن زبیر کو خانہ کعبہ کے دروازہ اور حجر الاسود کے درمیان کھڑے ہوئے دیکھا ، ہم دونوں ان کے نزدیک آگئے تو عبد اللہ بن زبیر کو حسین سے یہ کہتے ہو ئے سنا : اگر آپ یہاں قیام فرمائیں گے تو ہم بھی یہیں سکونت اختیار کریں گے اور یہاں کی حکومت اپنے ہا تھوں میں لے لیں پھرہم آپ کی پشت پنا ہی اور مدد کریں گے اور آپ کے مخلص و خیر خواہ ہو کر آپ کی بیعت کر لیں گے ۔
امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا :
”اِن أبی حدّثنی :
”ان بها کبشاً یستحلّْ حرمتها ”! فما اْحبّ ان أکون أنا ذالک الکبش”
"میرے بابا نے مجھ سے ایک حدیث بیان فرمائی ہے کہ یہاں ایک مینڈھا (سر برآوردہ شخص) آئے گا جو اس حرم کی حرمت کو پامال کرے گا ، مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ وہ مینڈھا (سر برآوردہ شخص) میں قرارپاؤں” ۔
(سعادت الدارین، موسوعہ امام حسینؑ)
ابن زبیرنے کہا :
فرزند فاطمہ ! آپ ذرا میرے نزدیک آیئے تو امام علیہ السلام نے اپنے کانوں کو اس کے لبوں سے نزدیک کر دیا ۔ اس نے راز کی کچھ باتیں کیں پھرامام حسین ہماری طرف ملتفت ہوئے اور فر مایا :
” أتدرون ما یقول ابن زبیر ؟”
تم لوگو ں کو معلو م ہے کہ ابن زبیر نے کیا کہا ؟
ہم نے جواب دیا :. ہم آپ پر قربان ہوجائیں ! ہمیں نہیں معلوم ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے فر مایا: وہ کہہ رہاتھا کہ آپ اسی حرم میں خانہ خداکے نزدیک قیام پذیر رہیئے، میں آپ کے لئے لوگوں کو جمع کرکے آپ کی فرمانبرداری کی دعوت دوں گا۔پھر امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:
”واللّٰه لئن أقتل خارجاً منها بشبر أحبّ الیّ من أن اْقتل داخلاً منها بشبر وأیم اللّٰه لو کنت فی حجر ها مة من هٰذ ه الهوام لا ستخرجونی حتی یقفوافیّ حا جتهم، واللّٰه لیعتدنّ علیّ کما اعتدت الیهود فی السبت”
خداکی قسم! اگر میں حرم سے ایک بالشت دور قتل کیاجاؤں تو یہ مجھے زیادہ محبوب ہے بہ نسبت اس کے کہ میں حرم کے اندر قتل کردیا جاؤں ، خدا کی قسم! اگر میں حشرات الارض کے سوراخ میں بھی چلاجاؤں توبھی یہ لوگ مجھے وہاں سے نکال کر میرے سلسلہ میں اپنی حاجت اور خواہش پوری کرکے ہی دم لیں گے۔ خدا کی قسم! یہ لوگ اس طرح مجھ پر ظلم و ستم روا رکھیں گے جس طرح روز شنبہ یہودیوں نے ظلم و ستم کیا تھا۔
لہذا آپ نے ذمہ داری سمجھی کہ کربلا کی طرف کوچ کریں۔۔
اس طرح کربلا سے شام تک کے سفر میں جناب زینب اور ام کلثوم نے ہر لمحے دشمن کے مقابلے میں اپنی داری کو خوب نبھایا
اب اس واقعہ سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اگر امام حسین علیہ السلام کی شخصیت اپنے اس عمل سے ذمہ داریوں کو اچھی طرح نبھانے کا درس دے رہی ہے اب یہاں رک کر اگر ہم اس کا تجزیہ و تحلیل کریں تو چند سوالات سامنے آتے ہیں۔
کہ اگر امام حسین علیہ السلام مکہ میں رہ جاتے اور کربلا نہ جاتے تو حالات کیا رخ اختیار کرتے؟
کیا امام حسین علیہ کی تحریک اس طرح کامیاب ہوسکتی تھی جیسے کربلا میں شہادت سے کامیاب ہوئی؟
کیا امام حسین علیہ السلام اس ہدف کو مکہ رہ کر حاصل کرسکتے تھے جس طرح کے اہداف کے حصول کے لیے حالات نے رخ دھار لیا تھا اور کربلا میں ان کو حاصل کیا؟
ان سارے سوالات کے جوابات ہمیں اس وقت مل سکتے ہیں جب ہم اس بات کو جان لیں کہ امام عالیمقام کی اب ذمہ داری تھی کہ وہ احرام اتار کر مکہ کو خیر آباد کہیں ۔ مکہ کی حرمت کو باقی رکھنے کے لیے حج کو کو ترک کردیں، بیت اللہ جیسی محبوب جگہ کو چھوڑ دیں، کعبہ کی حرمت کو پامال ہونے سے بچائیں۔
اور سب سے اہم چیز یہ کہ ایک امام کی ذمہ داری ہے کہ اپنی امت کو نجات دلائے انہیں ہدایت کرے تو امام عالیمقام نے شاید مکہ سے خروج اس لیے کیا کہ کعبہ کی حرمت کے ساتھ ساتھ ممکن ہے ان لوگوں کو غور فکر کا ایک موقع دیا جائے تاکہ یہ سوچ بچار کرلیں اور حق کی طرف واپس آجائیں ظالم حکمران کی کی بیعت کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکیں۔
امام علیہ السلام نے دین کا بچانا اپنی ذمہ داری سمجھا اور اس کا احساس کیا اور اس کو بہت ہی احسن طریقے سے انجام بھی دیا
جب امام حسین علیہ السلام پر دین خدا کو بچانے کی ذمہ داری عائد ہوئی تو آپ نے اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ میرے مہمان شہید ہو رہے ہیں، میرے بھائیوں کے لاشے گر رہے ہیں، بچوں کو ظلم و ستم کے ساتھ تیغ س سناں کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ہماری خواتین کو قیدی بنا کر بازاروں میں پھرایا جائے گا، سارا کنبہ قتل ہوجائے گا لیکن ان تمام کاموں سے دین خدا بچ جائے گا تو امام حسین علیہ السلام اب امام نے یہ ذمہ داری ایسے نبھائی کہ دنیا آج تک اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔
اس حوالے سے خاندان عصمت و طہارت کی بیبیوں کے کردار کا اگر مطالعہ کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جن مشکل اور کٹھن حالات میں انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھایا یقینا یہ کسی غیر معمولی انسان کا کاتھا۔ جب کوفہ و شام کئے بازار سے میں آپ کو لایا گیا وہاں پر آپ نے اپنے پردے کا کس قدر خیال رکھا کہ تاریخ میں ہے۔
قد لبثت ارذل ثیابھا
ایک کم قیمت لباس آپ نے زیب تن فرمایا ہوا تھا۔ شاید اس لباس کو پہننے کی وجہ یہی ہوگی کہ کوئی آپ کو پہچان نہ سکے اسی لیے تو دربار کوفہ میں ابن زیاد کو پوچھنا پڑا
من ھذہ المتناھیۃ
یہ مجھ سے نفرت کرنے والی کون ہے؟
تو اس کا جواب ایک کنیز نے دیا گویا آپ نے اپنی ایک عام سی خاتون والی حالت بنائی ہوئی تھی تاکہ کوئی آپ کو پہچان نہ سکے اور نہ ہی آپ کی جانب متوجہ ہو سکے۔
مگر جب دربار کوفہ اور بازار کوفہ و شام میں خطبات کا مرحلہ آتا ہے تو یہی بی بی اس انداز سے خطبہ دیتی ہیں کہ
دربار میں موجود نابینا شخص یہ پوچھنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ لب و لہجہ علی ابن ابی طالب کا ہے کیا یہ خطبہ دینے والا علی کا کوئی فرزند ہے۔ اور اپنے ان خطبات سے ایوان سلاطین کی جڑوں کو اس طرح کھوکھلا کرتی ہیں کہ کسی ظالم کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملتی۔ حتیٰ کہ گھروں میں جب یہی لوگ جاتے تو ان کی عورتوں انہیں دشنام طرازی کرتی یہ تھی وہ ذمہ داری کہ لوگوں کے دلو ں میں امام حسین علیہ السلام کی حق و حقانیت جاگزیں کردی۔
استقامت:
تحریک کربلا سے ہمیں استقامت کا پیام ملتا ہے جو دنیوی و اخروی کامیابی کا اہم عنصر ہے انسان کو اپنے ایمان میں پامرد ہونا چاہیے شدید مشکلات اور آزمائش کے باوجوداپنے عقیدے کو خالص رکھنا اور اس میں کسی قسم کے تزلزل کا شکار نہ ہونا ہی حقیقی استقامت ہے۔ اسی طرح ایمان کے ساتھ عمل میں بھی استقامت شرط ہے جیسے ارشاد باری تعالی ہے
اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡن
جو کہتے ہیں: ہمارا رب اللہ ہے پھر ثابت قدم رہتے ہیں ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں) نہ خوف کرو نہ غم کرو اور اس جنت کی خوشی مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا تھا۔
آیہ مجیدہ میں انسان کے ایمان کے ساتھ عمل میں پختگی کو بھی ذکر کیا گیا ہے بلکہ حقیقت حال یہ ہے کہ جس کا ایمان جس قدر مضبوط ہوگا اس کے عمل میں بھی اس قدر استقامت ہو گی وہ پھر اپنے راستے میں آنے والی تمام مشکلات اور روکاوٹوں سے نبر آزما ہونے کے لیے تیار رہے حتی کہ اگر اس کو بھوک، پیاس برداشت کرنی پڑے یا اپنی زندگی کی قربانی دینی پڑ جائے تو اس سے ہرگز دریغ نہیں کرے گا۔ کربلا میں مرد تو کیا خواتین نے بھی استقامت کا عملی نمونہ پیش کیا ۔
کوفہ میں جناب ام کلثوم نے اپنے خاندان کی حقیقت کو کوفے والوں کے سامنے روشن کرنے کےلیے جبکہ اہل کوفہ صدقے کے خرمے پھینک رہے تھے اور چھوٹے بچے انہیں منہ میں رکھ رہے تھے تو بچوں سے وہ خرمے لے کر آپ نے پھینک دیے اور اہل کوفہ سے فرمایا اے اہل کوفہ ہمیں صدقے کے خرمے نہ دو اس لیےکہ صدقہ ہم آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حرام ہے۔
اس روایت کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے کہ ایک ایسی خاتون جو اپنی زندگی کے پچاس برس سے زیادہ گذار چکی ہے جو اپنے نانا، ماں،باپ اور بھائی کا صدمہ دیکھ چکی ہے تین دن قبل لق و دق صحرا میں جس کے کنبے کو پیاسا شہید کر دیا گیا اور پیاروں کی لاشیں بے گور کفن چھوڑ کر بازار کے ہجوم بے چادر پھرائی جارہی ہے مگر اس کے عمل میں اس قدر پامردی اور استقامت ہے کہ جب وہ اپنے بھوکے یتیموں کے ہاتھ میں بھی خرمے کے چند دانے دیکھتی ہے تو ان سے چھین کر اہل کوفہ کو واپس کردیتی ہے کہ صدقہ ہم پر حرام ہے ہم بھوک برداشت کر سکتے ہیں شہادت قبول ہے لیکن اپنے مقصد میں کوئی کوتاہی نہیں کرسکتی حتی کہ یہی مخدرات عصمت و طہارت جب اپنے بھائی ، بیٹوں اور اولاد کی قربانی دے کر بھی کوفہ شام میں جب خطبے دیتی ہیں تو لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں یہ سب اس ایمان کامل کا نتیجہ تھا ظالم و جابر کے دربار میں کلمہ حق کہنے سے نہ رک سکیں۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button