سلائیڈرسیرتسیرت امام علی رضاؑ

امام علی رضا علیہ السلام اور روز عید

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ يَاسِرٍ الْخَادِمِ وَ الرَّيَّانِ بْنِ الصَّلْتِ جَمِيعاً قَالَ: لَمَّا انْقَضَى أَمْرُ الْمَخْلُوعِ‏ وَ اسْتَوَى الْأَمْرُ لِلْمَأْمُونِ كَتَبَ إِلَى الرِّضَا علیہ السلام  يَسْتَقْدِمُهُ إِلَى خُرَاسَانَ فَاعْتَلَّ عَلَيْهِ أَبُو الْحَسَنِ علیہ السلام  بِعِلَلٍ فَلَمْ يَزَلِ الْمَأْمُونُ يُكَاتِبُهُ فِي ذَلِكَ حَتَّى عَلِمَ أَنَّهُ لَا مَحِيصَ لَهُ وَ أَنَّهُ لَا يَكُفُّ عَنْهُ فَخَرَجَ ع وَ لِأَبِي جَعْفَرٍ ع سَبْعُ سِنِينَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ الْمَأْمُونُ لَا تَأْخُذْ عَلَى طَرِيقِ الْجَبَلِ وَ قُمْ وَ خُذْ عَلَى طَرِيقِ الْبَصْرَةِ وَ الْأَهْوَازِ وَ فَارِسَ حَتَّى وَافَى مَرْوَ فَعَرَضَ عَلَيْهِ الْمَأْمُونُ أَنْ يَتَقَلَّدَ الْأَمْرَ وَ الْخِلَافَةَ فَأَبَى أَبُو الْحَسَنِ علیہ السلام قَالَ فَوِلَايَةَ الْعَهْدِ فَقَالَ عَلَى شُرُوطٍ أَسْأَلُكَهَا قَالَ الْمَأْمُونُ لَهُ سَلْ مَا شِئْتَ فَكَتَبَ الرِّضَا ع إِنِّي دَاخِلٌ فِي وِلَايَةِ الْعَهْدِ عَلَى أَنْ لَا آمُرَ وَ لَا أَنْهَى وَ لَا أُفْتِيَ وَ لَا أَقْضِيَ وَ لَا أُوَلِّيَ وَ لَا أَعْزِلَ وَ لَا أُغَيِّرَ شَيْئاً مِمَّا هُوَ قَائِمٌ وَ تُعْفِيَنِي مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ فَأَجَابَهُ الْمَأْمُونُ إِلَى ذَلِكَ كُلِّهِ قَالَ فَحَدَّثَنِي يَاسِرٌ قَالَ فَلَمَّا حَضَرَ الْعِيدُ بَعَثَ الْمَأْمُونُ إِلَى الرِّضَا علیہ السلام يَسْأَلُهُ أَنْ يَرْكَبَ وَ يَحْضُرَ الْعِيدَ وَ يُصَلِّيَ وَ يَخْطُبَ فَبَعَثَ إِلَيْهِ الرِّضَا علیہ السلام قَدْ عَلِمْتَ مَا كَانَ بَيْنِي وَ بَيْنَكَ مِنَ الشُّرُوطِ فِي دُخُولِ هَذَا الْأَمْرِ فَبَعَثَ إِلَيْهِ الْمَأْمُونُ إِنَّمَا أُرِيدُ بِذَلِكَ أَنْ تَطْمَئِنَّ قُلُوبُ النَّاسِ وَ يَعْرِفُوا 7- عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ يَاسِرٍ الْخَادِمِ وَ الرَّيَّانِ بْنِ الصَّلْتِ جَمِيعاً قَالَ: لَمَّا انْقَضَى أَمْرُ الْمَخْلُوعِ‏ وَ اسْتَوَى الْأَمْرُ لِلْمَأْمُونِ كَتَبَ إِلَى الرِّضَا ع يَسْتَقْدِمُهُ إِلَى خُرَاسَانَ فَاعْتَلَّ عَلَيْهِ أَبُو الْحَسَنِ علیہ السلام  بِعِلَلٍ فَلَمْ يَزَلِ الْمَأْمُونُ يُكَاتِبُهُ فِي ذَلِكَ حَتَّى عَلِمَ أَنَّهُ لَا مَحِيصَ لَهُ وَ أَنَّهُ لَا يَكُفُّ عَنْهُ فَخَرَجَ ع وَ لِأَبِي جَعْفَرٍ ع سَبْعُ سِنِينَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ الْمَأْمُونُ لَا تَأْخُذْ عَلَى طَرِيقِ الْجَبَلِ وَ قُمْ وَ خُذْ عَلَى طَرِيقِ الْبَصْرَةِ وَ الْأَهْوَازِ وَ فَارِسَ حَتَّى وَافَى مَرْوَ فَعَرَضَ عَلَيْهِ الْمَأْمُونُ أَنْ يَتَقَلَّدَ الْأَمْرَ وَ الْخِلَافَةَ فَأَبَى أَبُو الْحَسَنِ ع قَالَ فَوِلَايَةَ الْعَهْدِ فَقَالَ عَلَى شُرُوطٍ أَسْأَلُكَهَا قَالَ الْمَأْمُونُ لَهُ سَلْ مَا شِئْتَ فَكَتَبَ الرِّضَا علیہ السلام  إِنِّي دَاخِلٌ فِي وِلَايَةِ الْعَهْدِ عَلَى أَنْ لَا آمُرَ وَ لَا أَنْهَى وَ لَا أُفْتِيَ وَ لَا أَقْضِيَ وَ لَا أُوَلِّيَ وَ لَا أَعْزِلَ وَ لَا أُغَيِّرَ شَيْئاً مِمَّا هُوَ قَائِمٌ وَ تُعْفِيَنِي مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ فَأَجَابَهُ الْمَأْمُونُ إِلَى ذَلِكَ كُلِّهِ قَالَ فَحَدَّثَنِي يَاسِرٌ قَالَ فَلَمَّا حَضَرَ الْعِيدُ بَعَثَ الْمَأْمُونُ إِلَى الرِّضَا علیہ السلام يَسْأَلُهُ أَنْ يَرْكَبَ وَ يَحْضُرَ الْعِيدَ وَ يُصَلِّيَ وَ يَخْطُبَ فَبَعَثَ إِلَيْهِ الرِّضَا علیہ السلام  قَدْ عَلِمْتَ مَا كَانَ بَيْنِي وَ بَيْنَكَ مِنَ الشُّرُوطِ فِي دُخُولِ هَذَا الْأَمْرِ فَبَعَثَ إِلَيْهِ الْمَأْمُونُ إِنَّمَا أُرِيدُ بِذَلِكَ أَنْ تَطْمَئِنَّ قُلُوبُ النَّاسِ وَ يَعْرِفُوا فَضْلَكَ فَلَمْ يَزَلْ  يُرَادُّهُ الْكَلَامَ فِي ذَلِكَ فَأَلَحَّ عَلَيْهِ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنْ أَعْفَيْتَنِي مِنْ ذَلِكَ فَهُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ وَ إِنْ لَمْ تُعْفِنِي خَرَجْتُ كَمَا خَرَجَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ وَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علیہ السلام  فَقَالَ الْمَأْمُونُ اخْرُجْ كَيْفَ شِئْتَ وَ أَمَرَ الْمَأْمُونُ الْقُوَّادَ وَ النَّاسَ أَنْ يُبَكِّرُوا إِلَى بَابِ أَبِي الْحَسَنِ قَالَ فَحَدَّثَنِي يَاسِرٌ الْخَادِمُ أَنَّهُ قَعَدَ النَّاسُ لِأَبِي الْحَسَنِ علیہ السلام  فِي الطُّرُقَاتِ وَ السُّطُوحِ الرِّجَالُ وَ النِّسَاءُ وَ الصِّبْيَانُ وَ اجْتَمَعَ الْقُوَّادُ وَ الْجُنْدُ عَلَى بَابِ أَبِي الْحَسَنِ علیہ السلام  فَلَمَّا طَلَعَتِ الشَّمْسُ قَامَ  فَاغْتَسَلَ وَ تَعَمَّمَ بِعِمَامَةٍ بَيْضَاءَ مِنْ قُطْنٍ أَلْقَى طَرَفاً مِنْهَا عَلَى صَدْرِهِ وَ طَرَفاً بَيْنَ كَتِفَيْهِ وَ تَشَمَّرَ ثُمَّ قَالَ لِجَمِيعِ مَوَالِيهِ افْعَلُوا مِثْلَ مَا فَعَلْتُ ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِهِ عُكَّازاً ثُمَّ خَرَجَ وَ نَحْنُ بَيْنَ يَدَيْهِ وَ هُوَ حَافٍ قَدْ شَمَّرَ سَرَاوِيلَهُ إِلَى نِصْفِ السَّاقِ وَ عَلَيْهِ ثِيَابٌ مُشَمَّرَةٌ
یاسر خادم اور ریان بن الصلت دونوں راوی ہیں کہ جب امین کی سلطنت کا دور ختم ہوا اور مامون بادشاہ بنا تو اس نے امام رضاؑ کو خراسان بلایا ،حضرت نے حسن تدبر سے ٹالنا چاہا۔ مگر مامون برابر لکھتا رہا جب حضرت نے جان لیا کہ اب قبول کیے بغیر چارۂ کار نہیں اور وہ مانے گا نہیں،تو آپ نے ارادۂ سفر کیا۔
امام محمد تقی کی عمر اس وقت سات سال کی تھی۔ ماموں نے لکھا کہ آپ براہ دیلم و قم نہ آئیں (یہاں شیعہ زیادہ تھے اندیشہ تھا کہ روک نہ لیے جائیں) بلکہ براستہ بصرہ و اہواز و فارس مرو پہنچیں، جب آپ وہاں پہنچے تو اس نے امر خلافت کو (امتحانا)آپ کے سامنے پیش کیا۔ آپ نے انکار فرمایا۔ تب اس نے ولی عہدی کے بارے میں کہا۔
حضرت نے فرمایا۔ اس کے متعلق کچھ شرائط ہیں جن کا جواب میں چاہتا ہوں۔ مامون نے کہا۔ جو آپ چاہیں پوچھیں۔ فرمایا: میں ولی عہدی اس صورت میں قبول کروں گا کہ نہ کوئی حکم دوں گا نہ نہی کروں گا نہ فتوے دوں گا نہ کسی مقدمہ کافیصلہ کروں گا نہ کسی کو حاکم مقررر کروں گا نہ کسی چیز میں تبدیلی کروں گا۔ آپ مجھے ان تمام معاملات میں معاف فرما کر دیں۔ مامون نے ان سب باتوں کا جواب دیا اور منظور کیا۔
یاسر غلام امام رضاؑ کا بیان ہے کہ جب عید آئی تو ماموں نے امام کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ سوار ہو کر تشریف لے جائیں اور نماز پڑھائیں اور خطبہ بیان کریں۔ حضرت نے جواب دیا کہ ولی عہدی قبول کرنے میں جو شرائط میں نے پیش کی ہیں ان کا آپ کو علم ہے۔ اس نے جواب میں کہلا بھیجا کہ میرا مقصد اس سے صرف یہ ہے کہ آپ کی طرف سے لوگوں کے قلوب مطمئن ہوجائیں اور آپ کی فضیلت کو لوگ پہچان لیں۔ حضرت برابر تردید فرماتے رہے اور مامون کا اصرار رہا۔ آپ نے فرمایا: اگر مجھے معاف ہی کر دیا جائے تو یہ میرے لئے خوشی کا باعث ہوگا اور اگر میرا عذر قبول نہیں تو پھر اسی طرح نماز کے لئے نکلوں گا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر المومنین نکلے تھے۔ مامون نے کہامجھے اس میں کوئی عذر نہیں، پھر مامون نے حکم دیا اپنے سرداروں اور اہل کاروں کہ وہ سوار ہوکر امام رضاؑ کے دروازہ پر جائیں۔ یاسر کہتا ہے کہ لوگ حضرت کی شان دیکھنے کے لئے راستوں اور مکانوں کی چھتوں پر آبیٹھے، مرد، عورتیں اور بچے سب اور درباری سردار اور فوجی جوان حضرت کے دروازے پر موجود ہوگئے۔ جب صبح ہوئی تو حضرت نے غسل فرمایا اور سوتی عمامہ باندھا اور ایک چھور سینہ پر لٹکایا۔ دوسرا دونوں شانوں پر رکھا اور اپنے غلاموں سے فرمایا تم بھی ایسا ہی کرو۔ پھر اپنے ہاتھ میں عصا لیا۔ جب حضرت باہر تشریف لائے تو ہم سب حضرت امام  کے آگے آگے تھے آپ پا برہنہ تھے اور پاجامہ کے پأنچے نصف ساق تک اٹھے ہوئے تھے اور دامن گردانے ہوئے تھے۔
فَلَمَّا مَشَى وَ مَشَيْنَا بَيْنَ يَدَيْهِ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ وَ كَبَّرَ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ فَخُيِّلَ إِلَيْنَا أَنَّ السَّمَاءَ وَ الْحِيطَانَ تُجَاوِبُهُ وَ الْقُوَّادُ وَ النَّاسُ عَلَى الْبَابِ قَدْ تَهَيَّئُوا وَ لَبِسُوا السِّلَاحَ وَ تَزَيَّنُوا بِأَحْسَنِ الزِّينَةِ فَلَمَّا طَلَعْنَا عَلَيْهِمْ بِهَذِهِ الصُّورَةِ وَ طَلَعَ الرِّضَا ع وَقَفَ عَلَى الْبَابِ وَقْفَةً ثُمَّ قَالَ اللّٰهُ أَكْبَرُ اللّٰهُ أَكْبَرُ اللّٰهُ أَكْبَرُ اللّٰهُ أَكْبَرُ عَلَى مَا هَدَانَا اللّٰهُ أَكْبَرُ عَلَى مَا رَزَقَنَا مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلَى‏ مَا أَبْلَانَا نَرْفَعُ بِهَا أَصْوَاتَنَا قَالَ يَاسِرٌ فَتَزَعْزَعَتْ مَرْوُ بِالْبُكَاءِ وَ الضَّجِيجِ وَ الصِّيَاحِ لَمَّا نَظَرُوا إِلَى أَبِي الْحَسَنِ علیہ السلام وَ سَقَطَ الْقُوَّادُ عَنْ دَوَابِّهِمْ وَ رَمَوْا بِخِفَافِهِمْ
جب حضرت چلے اور ہم آپ کے ساتھ چلے تو آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور چار تکبیریں کہیں۔ ہم نے خیال کیا کہ آسمان اور شہر کے در و دیوار جواب دے رہے ہیں ہم نے دیکھا کہ سرداران سلطنت اور عام لوگ تیار ہیں ہتھیار لگائے ہوئے ہیں اور خوب آراستہ و پیراستہ ہیں جب ہم اس صورت سے نکلے اور امام رضاؑ بھی برآمد ہوئے تو آپ تھوڑی دیر دروازہ پر ٹھہرے اور چار مرتبہ اللہ اکبر فرمایا۔ پھر کہا شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمیں ہدایت کی۔ اللہ اکبر اس نے چو پاؤں کے گوشت کاہم کو رزق دیا اور حمد ہے اس خدا کی جس نے ہمیں آزمائش میں ڈالا۔حضرت کے ساتھ ہماری آوازیں بھی بلند ہوئیں یاسر غلام نے کہا آواز گریہ سے شہر مرو گونج اٹھا۔
لَمَّا رَأَوْا أَبَا الْحَسَنِ علیہ السلام حَافِياً وَ كَانَ يَمْشِي وَ يَقِفُ فِي كُلِّ عَشْرِ خُطُوَاتٍ وَ يُكَبِّرُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَ يَاسِرٌ فَتُخُيِّلَ إِلَيْنَا أَنَّ السَّمَاءَ وَ الْأَرْضَ وَ الْجِبَالَ تُجَاوِبُهُ وَ صَارَتْ مَرْوُ ضَجَّةً وَاحِدَةً مِنَ الْبُكَاءِ وَ بَلَغَ الْمَأْمُونَ ذَلِكَ فَقَالَ لَهُ- الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ ذُو الرِّئَاسَتَيْنِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنْ بَلَغَ الرِّضَا الْمُصَلَّى عَلَى هَذَا السَّبِيلِ افْتَتَنَ بِهِ النَّاسُ وَ الرَّأْيُ أَنْ تَسْأَلَهُ أَنْ يَرْجِعَ فَبَعَثَ إِلَيْهِ الْمَأْمُونُ فَسَأَلَهُ الرُّجُوعَ فَدَعَا أَبُو الْحَسَنِ علیہ السلام بِخُفِّهِ فَلَبِسَهُ وَ رَكِبَ وَ رَجَعَ
جب لوگوں نے امامؑ کو برہنہ پا دیکھا اور یہ کہ وہ دس دس قدم پر چل کر رک جاتے ہیں اور تین تکبیریں کہتے ہیں تو ہم نے گمان کیا کہ آسمان و زمین اور پہاڑ تکبیروں کا جواب دے رہے ہیں اور تمام مرو میں جوش گریہ و بکا ہے۔ جب مامون کو یہ خبر ملی تو اس کے وزیر فیصل بن سہیل نے کہا کہ اگر امام اسی طرح عید گاہ تک پہنچے تو لوگ ان کے گرویدہ ہو جائیں گے میری رائے یہ ہے کہ آپ ان سے لوٹ جانے کو کہیں۔ چنانچہ مامون نے ایسا ہی کیا۔ امامؑ نے اپنے جوتے منگائے، پہن کر سوار ہوئے اور لوٹ آئے۔
(الکافی ،کتاب الحجت، باب مولد الرضا ،حدیث07)
أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَمْزَةَ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُوسَى قَالَ: أَلْحَحْتُ عَلَى أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا علیہ السلام  فِي شَيْ‏ءٍ أَطْلُبُهُ مِنْهُ فَكَانَ يَعِدُنِي فَخَرَجَ ذَاتَ يَوْمٍ لِيَسْتَقْبِلَ وَالِيَ الْمَدِينَةِ وَ كُنْتُ مَعَهُ فَجَاءَ إِلَى قُرْبِ قَصْرِ فُلَانٍ فَنَزَلَ تَحْتَ شَجَرَاتٍ وَ نَزَلْتُ مَعَهُ أَنَا وَ لَيْسَ مَعَنَا ثَالِثٌ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ هَذَا الْعِيدُ قَدْ أَظَلَّنَا وَ لَا وَ اللّٰهِ مَا أَمْلِكُ دِرْهَماً فَمَا سِوَاهُ فَحَكَّ بِسَوْطِهِ الْأَرْضَ حَكّاً شَدِيداً ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ فَتَنَاوَلَ مِنْهُ سَبِيكَةَ ذَهَبٍ ثُمَّ قَالَ انْتَفِعْ بِهَا وَ اكْتُمْ مَا رَأَيْتَ
ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کہا: میں امام رضاؑ پر کچھ مانگنے میں زور دے رہا تھا۔ وہ وعدہ فرما چکے تھے کہ ایک دن حضرت حاکم مدینہ کے استقبال کو نکلے میں بھی آپؑ کے ساتھ تھا۔ آپ فلاں قصر کے سامنے پہنچ کر چند درختوں کے سائے میں بیٹھ گئے۔ میں بھی بیٹھ گیا میرے اور حضرت کے سوا اور کوئی وہاں نہ تھا۔ میں نے کہا آج عید کا دن ہے اور میرے پاس کچھ بھی نہیں، حضرت نے اپنا کوڑا زمین پر رگڑا پھر اپنا ہاتھ مارا اور سونے کی ایک اینٹ اٹھا کر کہا۔ لو اس سےکام چلاؤ۔ ہم سے جو دیکھا ہے اس سے کسی کو خبردار نہ کرنا۔
(الکافی ،کتاب الحجت، باب مولد الرضا ،حدیث07)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button