خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:298)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 11 اپریل 2025 بمطابق 12 شوال المکرم 1446ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع:تقوائے الٰہی
اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ایک بار پھر ہمیں جمعہ کے دن اپنے گھر میں جمع کیا تاکہ ہم اس کی عبادت کریں اور اس کے احکامات کو سنیں۔ نماز جمعہ کے متعلق ارشاد الٰہی ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ  ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ” (سورۃ الجمعہ: 9)
ترجمہ: "اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔”
آج کا خطبہ "تقویٰ اور اللہ کا خوف” کے موضوع پر ہے۔ سب سے پہلے تقویٰ کے معانی کو سمجھنا ضروری ہے۔
تقویٰ کے لغوی اور اصطلاحی معانی
لغوی معنی:
لفظ "تقویٰ” عربی زبان میں "الوقایہ” سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے "بچاؤ” یا "حفاظت”۔ لغت کے مطابق تقویٰ کا مطلب ہے خود کو کسی نقصان یا خطرے سے بچانا۔
مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
"التَّقْوَى هِيَ الْوِقَايَةُ مِنْ كُلِّ مَا يُؤْذِي” (غرر الحکم: 235)
ترجمہ: "تقویٰ ہر اس چیز سے بچاؤ ہے جو نقصان پہنچائے۔”
اصطلاحی معنی:
شریعت کی اصطلاح میں تقویٰ سے مراد اللہ کا خوف رکھنا، اس کے احکامات پر عمل کرنا، اور گناہوں سے اجتناب کرنا ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
"التَّقْوَى أَنْ لَا تَفْعَلَ مَا يُغْضِبُ اللّٰهَ وَتَتْرُكَ مَا نَهَاكَ عَنْهُ” (بحار الانوار، جلد 70، ص 285)
ترجمہ: "تقویٰ یہ ہے کہ تم وہ کام نہ کرو جو اللہ کو ناراض کرے اور اس سے جو منع کیا اسے چھوڑ دو۔”
قرآن سے تقویٰ کی اہمیت
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا” (سورۃ الاحزاب: 70)
ترجمہ: "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو۔”
اور فرمایا:
"وَمَن يَتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا  وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ” (سورۃ الطلاق: 2-3)
ترجمہ: "اور جو اللہ سے ڈرتا رہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے،اور اللہ اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ سوچ بھی نہ سکتا ہو”
استاد محترم مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی اعلی اللہ مقامہ اس آیت کو اپنے دروس میں بہت زیادہ بیان کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ تقویٰ اختیار کرنے والا کبھی بند گلی میں نہیں پھنستا بلکہ اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال دیتا ہے۔ پھر فرماتے تھے کہ لوگ رزق کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں لیکن تقویٰ اختیار نہیں کرتے اگر وہ تقوی ٰ اختیار کریں تو اس آیت میں وعدہ کیا گیا ہے کہ اللہ وہاں سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے بندے کو گمان بھی نہیں ہوگا۔
تقویٰ کے ذریعے حصول عزت
اللہ کے ہاں عزت کا معیار تقوی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"يَٰٓأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقۡنَٰكُم مِّن ذَكَرٖ وَأُنثَىٰ وَجَعَلۡنَٰكُمۡ شُعُوبٗا وَقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوٓاْۚ إِنَّ أَكۡرَمَكُمۡ عِندَ اللّٰهِ أَتۡقَىٰكُمۡۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِير”(سورۃ الحجرات: 13)
ترجمہ: "اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والے باخبر ہے۔”
یہ آیت بتاتی ہے کہ انسان کی عزت نہ مال سے ہے، نہ نسب سے، نہ رنگ و نسل سے، بلکہ صرف تقویٰ سے ہے۔ تقویٰ انسان کو اللہ کے نزدیک بلند مقام عطا کرتا ہے کیونکہ یہ دل کی پاکیزگی اور عمل کی درستگی کا نام ہے۔
• تفسیر الکوثر (شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ):
علامہ شیخ محسن علی نجفی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
"اللہ تعالیٰ نے انسان کی نسلی افزائش کے لیے مرد و زن کی آمیزش کا طریقہ اختیار فرمایا چونکہ دو انسانوں کی مشارکت کی وجہ سے آنے والی نسل میں امتیاز آ جاتا ہے کہ یہ فرزند نہ ماں ہے، نہ باپ بلکہ اولاد ہے جو دوسروں سے مختلف ہے۔ رنگ، شکل، چال، طبیعت و مزاج، ترجیحات اور لیاقت و ذہانت، خلق و خو اور خصلتوں میں بھی ہر ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ یہ اختلاف ایک دوسرے کے تعاون اور باہمی تبادل مفادات کے لیے ہے ورنہ اگر ان میں کسی بات میں بھی اختلاف نہ ہوتا تو کوئی کسی کے کام نہ آتا اور کلوننگ کے ذریعے پیدا ہونے والی نسل اس امتیازی حیثیت کی حامل نہ ہوتی۔ اس طرح فرد فرد کو شناخت نہ ملتی۔
• پھر اللہ تعالیٰ نے اجتماعی امتیاز کے لیے قوموں اور قبائل میں تقسیم کیا۔ یہ تقسیم ایک دوسرے پر فخر جتلانے کے لیے نہیں بلکہ ایک دوسرے کی شناخت کے لیے ہے۔
• مزید لکھتے ہیں:
اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ: اللہ کے نزدیک انسان کی قدر و قیمت رنگ و نسل سے نہیں اخلاق و کردار سے بنتی ہے، کیونکہ رنگ و نسل میں انسان کے عمل اور کردار کا دخل نہیں ہے۔ جو چیز انسان کے دائرہ اختیار میں ہو اس کے مطابق انسان کی قدر بڑھتی گھٹتی ہے۔ وہ میزان تقویٰ ہے جس سے انسان کی قیمت بنتی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
اَحَبُّکُمْ اِلَی اللّٰہِ اَکْثَرُکُمْ لَہُ ذِکْراً وَ اَکْرَمُکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ وَ اَنْجَاکُمْ مِنْ عَذَابِ اللّٰہِ اَشَدُّکُمْ لَہُ خَوْفاً۔۔۔۔ ( مستدرک الوسائل ۱۱: ۱۷۵)
"اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ محبوب وہ جو اللہ کا زیادہ ذکر کرتا ہے اور سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے اور تم میں عذاب سے بچنے والا ہونے میں بہتر وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ اللہ کا خوف رکھتا ہے۔”
• تفسیر نمونہ (آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی):
آیت اللہ مکارم شیرازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
"تقویٰ انسان کے اندر ایک ایسی قوت پیدا کرتا ہے جو اسے شیطان کے فریب اور دنیاوی خواہشات سے محفوظ رکھتی ہے۔ اللہ کے نزدیک عزت اسی شخص کو ملتی ہے جو اپنے نفس کو پاک رکھے اور اللہ کے احکامات کو ترجیح دے۔”
مزید فرماتے ہیں: "یہ آیت انسانوں کے درمیان برابری کا اعلان ہے، کہ کوئی قوم یا نسل دوسرے سے افضل نہیں، بلکہ افضلیت صرف تقویٰ سے ہے۔”
تقویٰ عزت کا باعث اس لیے ہے کہ یہ انسان کو اللہ کی رضا کا طالب بناتا ہے۔ جب انسان اللہ سے ڈرتا ہے، تو وہ ظلم، جھوٹ، اور گناہ سے بچتا ہے، جس سے اس کی شخصیت پاکیزہ ہوتی ہے اور اللہ اسے دنیا میں عزت اور آخرت میں جنت سے نوازتا ہے۔

 

تقویٰ سے متعلق احادیث اہلبیتؑ 
1۔ تقویٰ کی بنیاد:
حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
"أَسَاسُ التَّقْوَى خَوْفُ اللّٰهِ وَالْعَمَلُ بِطَاعَتِهِ” (غرر الحکم: 236)
ترجمہ: "تقویٰ کی بنیاد اللہ کا خوف اور اس کی اطاعت میں عمل ہے۔”
2۔تقویٰ اور آخرت:
حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:
"مَنِ اتَّقَى اللّٰهَ فِي الدُّنْيَا أَمِنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ” (عیون اخبار الرضا، جلد 2، ص 56)
ترجمہ: "جو دنیا میں اللہ سے ڈرے گا، وہ قیامت کے دن امن میں ہوگا۔”
3۔تقویٰ اور اخلاق:
حضرت امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں:
"التَّقْوَى زِينَةُ الْأَخْلَاقِ وَمِفْتَاحُ الْجَنَّةِ” (بحار الانوار، جلد 44، ص 193)
ترجمہ: "تقویٰ اخلاق کی زینت اور جنت کی چابی ہے۔”
پس تقویٰ وہ ڈھال ہے جو ہمیں دنیا کے فتنوں اور آخرت کے عذاب سے بچاتی ہے۔
امام المتقین کے کلام میں تقویٰ
ہم اس ہستی کے ماننے والے ہیں جنہیں امام المتقین کہا جاتا ہے یعنی متقی لوگوں کے امام۔ لہٰذا یہاں اب ہم مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کے تقویٰ کے متعلق چند اقتباسات بیان کرتے ہیں، تاکہ معلوم ہو کہ امام المتقین نے تقویٰ کے متعلق کیا ارشاد فرمایا۔
1۔ تقویٰ کی تعریف و اہمیت (خطبہ 189):
"فَإِنَّ التَّقْوَى فِي الْيَوْمِ حِرْزٌ وَجُنَّةٌ، وَفِي غَدٍ طَرِيقٌ إِلَى الْجَنَّةِ”
ترجمہ: "بے شک تقویٰ آج کے دن حفاظت اور ڈھال ہے، اور کل کے دن جنت کا راستہ ہے۔”
2۔تقویٰ اور خوفِ الٰہی:
"اتَّقُوا اللّٰهَ تَقْوَى مَنْ عَلِمَ أَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِهِ وَمَا يَعْمَلُ بِيَدَيْهِ”
ترجمہ: "اللہ سے اس طرح ڈرو جیسے وہ شخص ڈرتا ہے جو جانتا ہے کہ اللہ اس کے دل کی بات اور اس کے ہاتھوں کے عمل کو جانتا ہے۔”
3۔تقویٰ اور عمل:
"فَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِي لَا تَخْفَى عَلَيْهِ خَافِيَةٌ، وَلَا يَعْزُبُ عَنْهُ شَيْءٌ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ”
ترجمہ: "اللہ سے ڈرو جو کوئی پوشیدہ چیز اس سے مخفی نہیں، اور آسمانوں اور زمین میں کوئی چیز اس سے اوجھل نہیں۔”
4۔تقویٰ اور دنیا:
"التَّقْوَى تَقِيكُمْ شَرَّ الدُّنْيَا، وَتُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ”
ترجمہ: "تقویٰ تمہیں دنیا کے شر سے بچاتی ہے اور آخرت کے عذاب سے نجات دیتی ہے۔”

5۔تقویٰ اور آخرت کی تیاری:
"فَتَزَوَّدُوا فِي الدُّنْيَا مِنَ التَّقْوَى، فَإِنَّهَا تَكُونُ لَكُمْ ذُخْرًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ”
ترجمہ: "دنیا میں تقویٰ کا زاد راہ لے لو، کیونکہ یہ قیامت کے دن تمہارے لیے ذخیرہ ہوگا۔”

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button