اخلاقیاتخطبات جمعہرسالاترمضان المبارک

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:193)

استقبال ماہ رمضان

(بتاریخ: جمعۃ المبارک17 مارچ 2023ء بمطابق 24 شعبان المعظم 1444 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: استقبال ماہ رمضان
ماہ رمضان نزولِ قرآن کا مہینہ ہے۔تقویٰ، پرہیزگاری، ہمدردی، غمگساری، محبت و الفت،خیر خواہی، خدمتِ خلق،راہ خدا میں استقامت، جذبۂ حمیت اور جذبۂ اتحاد،اللہ اور رسولؐ سے بے انتہا لو لگانے کا مہینہ ہے۔ لہٰذا اُس کے استقبال کے لیے ہمیں اپنے اندر ان صفات کو پیدا کرنے کی تیاری کرنا ہوگی جن صفات کی جانب ماہِ رمضان ہماری توجہ مبذول کراتاہے۔
ماہ رمضان وہ مہینہ ہے کہ جسے نزول قرآن کی وجہ سے دیگر مہینوں پر برتری حاصل ہوئی ہے۔ خدا وند عالم سورہ بقرہ کی ۱۸۵ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے: « شَهْرُ رَمَضانَ الَّذي أُنْزِلَ فيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَ بَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى‏ وَ الْفُرْقانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْه رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور ایسے دلائل پر مشتمل ہے جو ہدایت اور(حق و باطل میں)امتیاز کرنے والے ہیں، لہٰذا تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے وہ روزہ رکھے۔۔۔(سورۃ البقرۃ آیۃ:185)
لفظ رمضان مادہ "رمض” سے ماخوذ ہے جس کے اصلی معنی ہیں سورج کا شدت سے خاک پر چمکنا۔ اس کی وجہ تسمیہ ایک قول کے مطابق یہ نقل ہوئی ہے کہ عرب معمولا مہینوں کے نام اس وقت کے اعتبار سے انتخاب کرتے تھے جس میں وہ واقع ہوتا تھا۔ اس سال ماہ رمضان شدید گرمیوں کے موسم میں واقع ہوا انہوں نے اس کا نام رمضان انتخاب کر لیا۔ ایک قول کے مطابق رمضان اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور چونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے اس لیے اس کے نام پر اس مہینہ کا نام رکھا گیا۔
میبدی نے اپنی تفسیر میں رمضان کی وجہ تسمیہ کو اس طرح بیان کیا ہے:
رمضان یا " رمضا” سے مشتق ہے یا "رمض ” سے۔ اگر رمضا سے لیا گیا ہے تو اس کا مطلب وہ گرم پتھر ہے جس پر جو چیز رکھی جائے جل جاتی ہے۔ اور اگر رمض سے ہے اس کا مطلب وہ بارش ہے جو جہاں پر ہو اسے پاک دے۔ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے پوچھا کہ رمضان کسے کہتے ہیں؟ فرمایا:
: ارمض‏ اللّه‏ تعالى فيه ذنوب المؤمنين و غفرها لهم(كشف الاسرار وعدۃ الابرار، ج 1 ص 495)
خدا اس مہینہ میں مومنین کے گناہوں کو دھو دیتا ہے یا جلا دیتا ہے اور انہیں بخش دیتا ہے۔
لفظ رمضان کے معنی کے بارے میں موجوود روایات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ماہ رمضان کو رمضان اس لئے کہتے ہیں کیونکہ:
۱۔ یا یہ خدا کا نام ہے اور چونکہ خدا اپنے بندوں کے گناہ اسکی توبہ کرنے کے بعد جلا دیتا ہے یا معاف کردیتا ہے اور اس مہینہ انسان خدا سے توبہ کرتا ہے اور اپنے گناہ سے پشیمان ہوتا ہے اسی لئے خدا اسکے تمام گناہوں کو اس مہینہ میں معاف کردیتا ہے اس لئے اس مہینہ کو رمضان کہتے ہیں۔
۲۔ رمضان کے معنا اگر جلا دینے کو لیں توچونکہ رمضان میں انسانوں کے گناہ اسکے اچھے اعمال کی بناء پر جلادیئے جاتے ہیں اس لئے اس کو رمضان کہتے ہیں۔رسول خدا صلی اللہ علیہ ووآلہ وسلم فرماتے ہیں: "أَ تَدْرُونَ لِمَ سُمِّيَ شَعْبَانَ لِأَنَّهُ يَنْشَعِبُ فِيهِ خَيْرٌ كَثِيرٌ لِرَمَضَانَ وَ إِنَّمَا سُمِّيَ‏ رَمَضَانَ‏ لِأَنَّهُ تُرْمَضُ فِيهِ الذُّنُوبُ أَيْ تُحْرَقُ” کیا تم جانتے ہو کہ شعبان کو شعبان اور رمضان کو رمضان کیوں کہتے ہیں؟ شعبان کو شعبان اس لئے کہتے ہیں کیونکہ اس مہینہ میں تمام خیر و برکت منشعب ہوتی (نکلتی) ہیں اور رمضان کو رمضان اس لئے کہتے ہیں کیونکہ اس مہینہ گناہوں کو ختم کردیا جاتا ہے یعنی جلادیا جاتا ہے۔(مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل‏ج۴، ص۴۸۴)
۳۔ اگر رمضان سے مراد وہ بارش جو نجاست کو پاک کردیتی ہے لیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا چونکہ رمضان رحمتوں کا مہینہ ہے اور اس مہینہ خدا کے لطف و کرم کی بارش ہوتی ہے جس میں انسانوں کے برے اعمال دھل جاتے ہیں اور اچھے اعمال ، نامہ اعمال میں لکھے جاتے ہیں۔اس لئے ماہ رمضان کو رمضان کہتے ہیں۔
بے شک رمضان میں گناہ جلادیئے جاتے ہیں لیکن یہ تمام چیزیں انسان کے اعمال پر منحصر ہیں ، انسان واقعی معنا میں اگر اپنے گذشتہ اعمال پر شرمندہ ہے اور اس مہینہ میں ان گناہوں کی توبہ کرکے خدا کا اطاعت گزار بندہ بن جاتا ہے تو خدا اس کے تمام برے اعمال جلادیتا ہے چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: "لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَميعاً” اے میرے بندوں اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا اللہ تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔
فضائل ماہ رمضان:
ماہ رمضان کے فضائل کے سلسلے میں عرض کرتے ہیں: "
اللَّهُمَّ وَ أَنْتَ جَعَلْتَ مِنْ صَفَایَا تِلْکَ الْوَظَائِفِ، وَ خَصَائِصِ تِلْکَ الْفُرُوضِ شَهْرَ رَمَضَانَ الَّذِی اخْتَصَصْتَهُ مِنْ سَائِرِ الشُّهُورِ، وَ تَخَیَّرْتَهُ مِنْ جَمِیعِ الْأَزْمِنَةِ وَ الدُّهُورِ، وَ آثَرْتَهُ عَلَى کُلِّ أَوْقَاتِ السَّنَةِ بِمَا أَنْزَلْتَ فِیهِ مِنَ الْقُرْآنِ وَ النُّورِ، وَ ضَاعَفْتَ فِیهِ مِنَ الْإِیمَانِ، وَ فَرَضْتَ فِیهِ مِنَ الصِّیَامِ، وَ رَغَّبْتَ فِیهِ مِنَ الْقِیَامِ، وَ أَجْلَلْتَ فِیهِ مِنْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ الَّتِی هِیَ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْر”،( صحیفہ کاملہ، دعا 45، دعائے وداع ماہ رمضان۔)
بارالہا! تو نے ان منتخب فرائض اور مخصوص واجبات میں سے ماہِ رمضان کو قرار دیا ہے جسے تو نے تمام مہینوں میں امتیاز بخشا اور تمام وقتوں میں اسے منتخب فرمایا ہے اور اس میں قرآن اور نور کو نازل فرما کر اور ایمان کو فروغ دے کر اسے سال کے تمام اوقات پر فضیلت دی اور اس میں روزے واجب کئے اور نمازوں کی ترغیب دی اور اس میں شب قدر کو بزرگی بخشی جو خود ہزار مہینوں سے بہتر ہے”۔
ان فقروں میں آپؑ فرماتے ہیں: شَهْرَ رَمَضَانَ الَّذِی اخْتَصَصْتَهُ مِنْ سَائِرِ الشُّهُورِ
"… ماہ رمضان جسے تو نے تمام مہینوں میں امتیاز بخشا”۔
ماہ رمضان سے متعلق متعدد روایات میں ماہ رمضان کو دیگر مہینوں کا "سید” کہا گیا ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: "وَ هُوَ سَيِّدُ الشُّهُور”، "اور ماہ رمضان مہینوں کا سید ہے”۔
نیز حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے ماہ رمضان کے پہلے دن مسجد کوفہ میں جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس میں اللہ تعالی کی حمد و ثنا اور پیغمبر اکرمؐ پر صلوات کے بعد فرمایا: "أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ هَذَا الشَّهْرَ شَهْرٌ فَضَّلَهُ اللَّهُ عَلَى سَائِرِ الشُّهُورِ كَفَضْلِنَا أَهْلَ الْبَيْتِ عَلَى سَائِرِ النَّاس‏”، "اے لوگو! یقیناً یہ مہینہ، ایسا مہینہ ہے جسے اللہ نے دیگر مہینوں پر فضیلت دی ہے جیسے ہم اہل بیتؑ کی دیگر لوگوں پر فضیلت ہے”،
اس خطبہ کے کچھ حصہ کے بعد خطبہ کے دوران ایک ہمدانی آدمی نے دریافت کیا کہ یا امیرالمومنینؑ! ہمیں مزید بتائیے ان باتوں میں سے جو سید الاولین و الآخرین نے اس مہینہ کے بارے میں آپؑ سے فرمایا، تو آپؑ نے فرمایا:
"نَعَمْ سَمِعْتُ أَفْضَلَ الْأَنْبِيَاءِ وَ الْمُرْسَلِينَ وَ الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ يَقُولُ إِنَّ سَيِّدَ الْوَصِيِّينَ يُقْتَلُ فِي سَيِّدِ الشُّهُورِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ مَا سَيِّدُ الشُّهُورِ وَ مَنْ سَيِّدُ الْوَصِيِّينَ قَالَ أَمَّا سَيِّدُ الشُّهُورِ فَشَهْرُ رَمَضَانَ وَ أَمَّا سَيِّدُ الْوَصِيِّينَ فَأَنْتَ‏ يَا عَلِيُّ "
ہاں میں نے انبیاء، مرسلین اور مقرّب فرشتوں سے افضل (پیغمبرؐ) سے سنا کہ آپ فرماتے تھے: بیشک اوصیاء کا سید مہینوں کے سید میں شہید کیا جائے گا، تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! مہینوں کا سید کون ہے اور اوصیاء کا سید کون ہے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: مہینوں کا سید ماہ رمضان ہے اور اوصیاء کا سید آپ ہیں یا علیؑ”۔( فضائل الأشهر الثلاثة، ص: 107)
شیخ مفید علیہ الرحمۃ نے اصبغ بن نباتہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے ہمارے لئے خطبہ ارشاد فرمایا اس مہینہ میں جس میں آپؑ شہید ہوئے تو فرمایا: "َ أَتَاكُمْ شَهْرُ رَمَضَانَ وَ هُوَ سَيِّدُ الشُّهُور” تم تک ماہ رمضان آگیا اور وہ مہینوں کا سید ہے”۔
اہل بیت (علیہم السلام) نے روزہ کے واجب ہونے کی مختلف وجوہات بیان فرمائی ہیں، بعض روایات میں اخلاص کو آزمانا اور مضبوط کرنا،بعض میں غریبوں کی امداد کرنا اور دیگر بعض میں قیامت کے دن کی بھوک اور پیاس کو یاد کرنا، ذکر ہوا ہے۔
امام زین العابدین علیہ السلام دعائے استقبال ماہ رمضان میں فرماتے ہیں:
وَالْحَمْدُ لِلّه الَّذِي جَعَلَ مِنْ تِلْكَ السُّبُلِ شَهْرَهُ شَهْرَ رَمَضَانَ، شَهْرَ الصِّيَامِ، وَشَهْرَ الاِسْلاَم، وَشَهْرَ الطَّهُورِ، وَشَهْرَ التَّمْحِيْصِ، وَشَهْرَ الْقِيَامِ، الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ، وَبَيِّنَات مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقَانِ،

تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے لطف و احسان کے راستوں میں سے ایک راستہ، اپنے اس مہینے کو قرار دیا یعنی رمضان کا مہینہ ، صیام کا مہینہ، اسلام کا مہینہ، پاکیزگی کا مہینہ، تصفیہ و تطہیر کا مہینہ، عبادت و قیام کا مہینہ، وہ مہینہ جس میں قرآن نازل ہوا۔ جو لوگوں کے لیے راہنما ہے۔ ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی روشن صداقتیں رکھتا ہے۔(صحیفہ سجادیہ دعا44)
اس مہینے کو: "و شَهرَ القِیَامِ"، "عبادت و قیام کا مہینہ” کا مہینہ قرار دیتے ہیں۔، مرحوم فیض الاسلام اس جملہ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: "یہ جو ماہ رمضان کو ماہ قیام کہا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مستحب نمازیں اس مہینہ کی راتوں میں بہت پڑھی جاتی ہیں اور ان مستحب نمازوں کے علاوہ جو ہر رات پڑھنی چاہئیں، روایات میں مشہور، جیسا کہ بہت سارے علماء نے فرمایا ہے: اس مہینہ کی راتوں میں ہزار رکعت نماز پڑھنا مستحب ہے۔
استقبال ماہ رمضان کے مختلف انداز:
چونکہ ماہ مبارک رمضان تہذیب نفس اور روح کی پاکیزگی کا مہینہ ہے لہذا ہم مندرجہ ذیل طریقوں سے اس عظیم مہینہ کا استقبال کرسکتے ہیں:۔
تہذیب نفس : ماہ مبارک رمضان کے استقبال کا سب سے اہم اور بہترین طریقہ اپنے نفس کو برائیوں سے پاک کرکے خدا کی رحمت و مغفرت کے قابل بنانا ہے کیونکہ گناہوں اور نفس کی پیروی میں الجھا ہوا انسان رحمت ومغفرت سے بھرے اس ماہ مقدس کا استقبال نہیں کرسکتا۔ لہذا رمضان کی آمد سے پہلے ایک مرتبہ انسان اپنے آپ کو دیکھے اور غور کرے کہ آیا میں اس عظیم مہینے کی استقبالیہ کمیٹی کا رکن بن سکتاہوں کہ نہیں اگر ہاں تو اللہ کا شکر بجا لائے اور مزید ترقی کی کوشش کرے لیکن خدانخواستہ اگر نہیں تو پھر رمضان سے پہلے کوشش کرے کہ اپنے گناہوں سے توبہ کرلے۔ حق داروں کے حقوق ادا کریں اور اپنے آپ کو اس عظیم مہینے کے لے تیار کرے۔( سخن رمضان ، ص 67)
مصمم ارادہ: انسان کی زندگی میں ارادے کا بنیادی کردار ہوتا ہے، گناہوں کی انجام دہی ہو یا گناہوں سے اجتناب، پہلی سیڑھی قصد اور ارادے کی سیڑھی ہے لہذا رمضان سے پہلے انسان ارادہ کرے کہ میں نے اس عظیم مہینے کی رحمتوں اور برکتوں سے فائدہ اٹھانا ہے اور اپنی زندگی میں تبدیلی لاناہے اور اپنے آپ کو اس قابل بنانا ہے کہ شب قدر میں اپنے امام وقت (عج) کے سامنے اپنے کرادر کافائل رکھنے کے قابل بن جاوں اور اپنے اندر موجود اخلاقی، اعتقادی، فکری انحطاط کو ختم کرسکوں تو مصمم ارادہ کرنے والا انسان ماہ رمضان کا استقبال انتہائی خوشی کیساتھ کرسکتا ہے اور اپنے آپ کو اس انسان سازی کی یونیورسٹی میں داخلے کے قابل بنا سکتا ہے۔
توبہ: استقبال ماہ رمضان کا ایک اہم طریقہ توبہ کرنا اور خدا کی درگاہ میں رجوع کرناہے۔ ظاہر ہے انسان غلطیوں کاپتلاہے۔ خطائیں ہوسکتی ہیں لیکن شجاع انسان وہ ہے جو ان غلطیوں کا اعتراف کرے اور اپنے آپ کو عادل مطلق خدا کی عدالت میں پیش کرے اور اعتراف کرے کہ خدایا میں گناہ گارہوں، میں نے نادانی میں، شہوت نفس کی وجہ سے گناہ کیا لیکن میرے مولا میں نادم ہوں، پیشمان ہوں میرے گناہوں کی مغفرت فرما تاکہ میں اس قابل بن سکوں کہ تیرے مہینے میں تیری رحمت، برکت اور مغفرت کے دسترخوان پر مہمان بن کے آوں، تو ضرور خدا ہماری دعا قبول کرے گا اور اس قابل بنائے گا کہ رمضان المبارک کا استقبال کرسکیں۔
علم وآگاہی: استقبال ماہ رمضان کا اہم طریقہ روزے کے احکام ،شرایط اور ضروری چیزوں سے آشنائی ہے تاکہ علم ومعرفت کیساتھ رمضان کا استقبال کرسکیں۔ اسی طرح دعاوں سے لگاو، قرآن کی تلاوت، مساجد کی طرف توجہ، غریب، فقیر، مسکین اور یتیموں کی دیکھ بھال اور ذکرمحمد وآل محمد خصوصا صلوات اور درود کے ذریعے اس عظیم مہینے کا استقبال کرناچاہئے۔
خداودند متعال سے دعا ہے کہ ہمیں ماہ رمضان کی برکات سے صحیح معنوں میں استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔آمین
تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button