خطبات جمعہ

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:176)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک18نومبر 2022ء بمطابق 22ربیع الثانی1444 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: ایمان بالآخرۃ
خدا پر ایمان کے بعد قرآن کریم میں ایسی بے شمار آیتیں پائی جاتی ہیں جن میں موت کے بعد کی دنیا، روزقیامت،انسانوں کے زندہ ھونے، میزان، حساب و کتاب اور موت کے بعد کے حالات سے مربوط مسائل پر گفتگو کی گئی ھے۔ایک اندازے کے مطابق تقریباً ایک ہزار چار سو آیتیں موت کے بعد کی دنیاسے مربوط ہیں لیکن علامہ طباطبائی کے مطابق ان آیتوں کی تعداد دو ھزار سے بھی زیادہ ھے۔ ان آیتوں کی کثرت اور زیادتی ہی مذہب اسلام میں قیامت کی اہمیت اور عظمت نیز سعادت بشر میں اس کے تعمیری کردار کو بیان کرنے کے لئے کافی ھے ۔ یھی وجہ ھے کہ قرآن کریم میں کئی مقامات پر خدا پرایمان واعتقاد کے فوراً بعد ”روز آخرت پر ایمان“ کو ترجیح دی گئی ھے مثلاً مندرجہ ذیل آیت:
اِن الَّذِینَ آمَنُوا وَالَّذِیْنَ هادُوا وَالنَّصَارَیٰ وَالصَّابِئِینَ مَنْ آمَنَ بِااللهِ وَالْیَومِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهمْ اٴَجْرُهمْ عِنْدَ رَبِّهمْ وَلَا خَوفٌ عَلَیْهمْ وَلا همْ یَحْزَنُونَ ۔(البقرۃ:۶۲)
ے شک جو لوگ ایمان لا چکے ہیں اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصاریٰ اور صابئین میں سے جو کوئی اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے تو ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
اللہ اور روز آخرت پر ایمان لانے والے اور اعمال صالحہ بجا لانے والے خواہ مسلمان ہوں یا یہودی ، عیسائی ہوں یا صابی، جس ملت اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، انہیں اجر و ثواب ملے گا۔ ان کے لیے نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ کوئی غم، یعنی اپنے زمانے کے برحق نبی اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کے بعد عمل صالح بجا لانے والا نجات پائے گا۔
بعض بہانہ سازند کورہ بالا آیت کو غلط افکار لے لئے دستاویز کے طور پرپیش کرتے ہیں وہ اسے صلح کل کے عنوان سے پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر مذہب کے پیرو کو اپنے ہی مذہب پر عمل کرناچاہیئے لہذا ان کے نزدیک ضروری نہیں کہ یہودی ،عیسائی یادوسرے مذہب کے پیروکار آج مسلما ن ہوجائیں بلکہ اگر وہ خدااور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ااورعمل صالح انجام دیں توکافی ہے۔
ہم واضح طور پر جانتے ہیں کہ قرآنی آیات ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں ۔ قرآن سورہ آل عمران آیہ ۸۵ میں کہتا ہے :
وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
اگر کوئی شخص اسلام کے علاوہ کوئی دین اپنے لئے انتخاب کرے تو وہ ہرگز قابل قبول نہ ہوگا ۔
علاوہ از ایں قرآن یہود و نصاریٰ اور باقی ادیان کے ماننے والوں کو دعوت اسلام دےنے والی آیات سے بھرا پڑا ہے اگر مندرجہ بالا تفسیر صحیح ہو تو یہ قرآن کی بہت سی آیات سے صرےح تضاد ہو گا لہذا ضروری ہے کہ اس آیت کے واقعی اور حقیقی معنی تلاش کئے جائیں۔
اس مقام پر دو تفسیر یں سب سے زیادہ واضح اور مناسب نظر آتی ہے ۔
(۱) پہلی یہ کہ اگر یہود و نصاریٰ اور ان جیسے گروہ اپنی کتب کے مضامین پر عمل کریں تو مسلماََ ن رسول اسلام پر ایمان لے آئیں ، کیونکہ ان کتب ِ آسمانی میں مختلف صفات و علامات کے ساتھ آپ کے ظہور کی بشارت موجود ہے جس کی تفصیل سورہ بقرہ کی آیت ۱۴۶ کے ذیل میں آئے گی ۔
سورہ مائدہ اایہ ۶۸میں ہے :
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَىٰ شَيْءٍ حَتَّىٰ تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ
کہیے کہ اے اہل کتاب ! تمہاری اس وقت تک کوئی قد ر وقیمت نہیں جب تک تم تورات ، انجیل اور جو کچھ پروردگار کی طرف سے تمہاری طرف نازل ہوا ہے اسے قائم اور برقرار نہ رکھو ( اور اس میں سے ایک رسول اسلام پر ایمان لانا ہے جن کے ظہور کی بشارت تمہاری کتب میں آچکی ہے )۔
(۲) دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس آیت کی نظر ایک سوال کی طرف ہے جو ابتد ائے اسلام میں بہت سے مسلمانوں کو مدینہ میں در پیش تھا وہ اس فکر میں رہتے تھے کہ اگر راہ حق و نجات فقط اسلام ہے تو ہمارے آباؤ اجداد کا کیا بنے گا ۔ کیا پیغمبر اسلام کو نہ پہچاننے اور ان پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے انہیں سزا و عذاب کا سامنا ہوگا ۔
اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس نے خبر دی کہ جو شخص اپنے زمانے میں اس وقت کے برحق نبی اور کتاب آسمانی پر ایمان لے آیا ہو اور اس نے عمل صالح انجام دیا ہو وہ نجات یافتہ لوگوں میں ہے اور اس کے لئے فکر و تردد کی کوئی بات نہیں ۔
لہذا ظہو ر مسیح سے پہلے کے مومنین اورعمل صالح انجام دینے والے یہودی نجات یافتہ ہیں اور یہی صورت ظہور رسول اسلامﷺ سے پہلے کے عیسائی مومنین کی ہے ۔
سلمان فارسی کے ایمان لانے کا واقعہ:
مذکورہ آیۃ کی بحث میں مفسرین نے جناب سلمان فارسی کے ایمان لانے کا واقعہ بیان کیا ہے جو اس ایۃ کی تفسیر سمجھنے میں کافی مدد گار ہے۔
تفسیر جامع البیان ( طبری ) جلد اول میں منقول ہے :
سلمان اہل جندیشا پور میں سے تھے ۔ حاکم وقت کے بیٹے سے ان کی پکی اور نہ ٹوٹنے والی دوستی تھی ۔ایک دن اکٹھے شکار کے لئے جنگل کی طرف گئے ۔ اچانک ان کی نگاہ ایک شخص پر پڑی جو کتاب پڑھنے میں مشغول تھا ۔ انہوں نے اس شخص سے اس کتاب کے متعلق کچھ سوالات کئے تو راہب نے ان کے جواب میں کہا : یہ کتاب خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور اس کتاب میں زنا ، چوری اور لوگوں کا مال ناحق کھانے سے روکا گیا ہے ۔ یہ وہی انجیل ہے جو عیسیٰ مسیح پر نازل ہوئی ہے ۔راہب کی گفتگو نے ان کے دل پر اثر کیا اور بہت تحقیق کے بعد وہ دونوں اس کے دین کے پیرو ہوگئے ۔ اس نے انہیں حکم دیا کہ اس سر زمین کے لوگوں کی ذبح کی ہوئی بھیڑ بکریوں کا گوشت حرام ہے ۔
سلمان اور حاکم وقت کا بیٹا روزانہ اس سے مذہبی مسائل سیکھتے تھے ۔ عید کا دن آگیا ۔حاکم نے ایک دعوت کا احتمام کیا جس میں اشرا ف اور بزرگان شہر کو دعوت دی گئی اور اس سلسلے میں اس نے اپنے بیٹے سے بھی خواہش کی کہ وہ اس دعوت میں شرکت کرے لیکن اس نے قبول نہ کی ۔ اس نے بہت اصرار کیا تو لڑکے نے بتایا کہ یہ غذا میرے لئے حرام ہے ۔ اس نے پوچھا تمہیں یہ حکم کس نے دیا ہے اس پر اس نے راہب کا تعارف کرایا ۔ حاکم نے راہب کو بلوایا اور اس سے کہا : چونکہ قتل ہماری نگاہ میں ایک بہت بڑا اور برا کام ہے لہذا ہم تمہیں قتل نہیں کرتے لیکن تم ہمارے علاقہ سے نکل جاؤ ۔
سلمان اور ان کے دوست نے اس موقع پر اس راہب سے ملاقات کی اور دوسری ملاقات کا پروگرام ” دیر موصل “ میں طے پایا ۔
راہب کے چلے جانے کے بعد سلمان چند روز تو اپنے با وفا دوست کے منتظر رہے اور وہ بھی سفر کی تیاری میں سرگرم تھا لیکن سلمان آخر کار زیادہ صبر نہ کر سکے اور چل پڑے
موصل کے گرجے میں سلمان بہت زیادہ عبادت کرتے تھے راہب مذکور جو اس گرجے کا مالک تھا اس نے سلمان کو زیادہ عبادت سے روکنا چاہا اور کہا : تم ناکارہ ہی نہ ہوجاؤ ، لیکن سلمان نے اس سے سوال کیا کہ زیادہ عبادت کی فضیلت زیادہ ہے یا کم عبادت کی ؟ تو اس نے کہا فضیلت تو زیادہ عبادت ہی کی زیادہ ہے ۔
اس کے بعد وہ راہب جو گرجے کا مالک تھا اور وہاں پر موجود دوسرے راہبوں جتنی عبادت نہیں کر سکتا تھااس گرجے سے دوسری جگہ چلا گیا اور گرجے کے عالم کو سلمان کے بارے میں سفارش کر گیا ۔
کچھ عرصہ بعدگرجے کا وہ عالم بیت المقدس کی زیارت کے ارادے سے چلا اور سلمان کو بھی اپنے ہمراہ لے گیا ۔ وہاں اس نے سلمان کو حکم دیا کہ دن میں علمائے نصاریٰ کے درس میں جائیں اور تحصیل علم و دانش کریں ۔ وہ درس وہیں مسجد میں منعقد ہوتے تھے ۔
ایک دن اس عالم نے سلمان کو رنجیدہ پایا تو اس کا سبب دریافت کرنے لگا ۔ سلمان نے جواب میں کہا: نیکیاں تو گذشتہ لوگوں کے نصیب میں تھیں جو پیغمبر ان خدا کی خدمت میں رہتے تھے ۔ عالم دیر نے اسے بشارت دی کہ انہی دنوں ملت عرب میں ایک پیغمبر ظہور کرنے والا ہے جو تمام انبیاء سے برتر و بالا ہے ۔ عالم مذکور نے مزید کہا : میں بوڑھا ہو گیا ہوں ، مجھے امید نہیں کہ میں انہیں مل سکوں لیکن تم جوان ہو تم انہیں پاسکو گے ۔
مزید کہنے لگا : اس پیغمبر کی کئی ایک نشانیاں ہیں ۔ ان میں سے خاص نشانی اس کے کندھے پر ہے وہ صدقہ نہیں لیتا ہدیہ قبول کرتا ہے ۔
موصل کی طرف واپسی کے دوران ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آنے کے نتیجے میں سلمان سے عالم دیر کہیں بیابان میں کھو گیا ۔
حلب کے دو عرب قبیلے وہاں پہنچے ۔ انہوں نے سلمان کو قید کر لیا اور اونٹ پر سوار کرکے مدینہ لے آئے اور انہیں قبیلہ ” جرینہ “ کی ایک عورت کے ہاتھ بیچ دیا ۔
سلمان اور اس عورت کا ایک غلا م باری باری اس عورت کا گلہ روزانہ چرانے کے لئے جاتے تھے سلمان نے اس مدت میں کچھ رقم جمع کرلی اور پیغمبر اسلام کی بعثت کا انتظار کرنے لگا ۔ ایک روز وہ ریوڑ چرانے میں مشغول تھے کہ ان کا ساتھی آیا اور کہنے لگا َ: تمہیں معلوم ہے آج ایک شخص مدینہ میں آیا ہے جس کا خیال ہے کہ وہ پیغمبر ہے اور خدا کا بھیجا ہوا ہے ۔
سلمان نے اپنے ساتھی سے کہا : تم یہاں رہو ، میں ہو کر آتا ہوں ، سلمان شہر میں داخل ہوئے ۔ پیغمبر اکرم کی مجلس میں حاضر ہوئے ،۔ آنحضرت کے گرد چکر لگا رہے تھے اور منتظر تھے کہ پیغمبر کا کرتہ آپ کے کندھے سے کس طرح ہٹے اور آپ کے کندھے کے درمیان مخصوص نشان دیکھ سکیں پیغمبر ان کی خوہش کی طرف متوجہ ہوئے ، آپ نے کرتا اٹھایا تو سلمان نے وہ نشان ( مہر نبوت ) دیکھا ۔ یعنی پہلی نشانی دیکھ لی ۔
پھر وہ بازار چلے گئے ۔ کچھ گوشت اور روٹی خریدی اور رسول اللہ کی خدمت میں لے آئے ۔ پیغمبر نے پوچھا کیا ہے ۔ سلمان نے جواب دیا صدقہ ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا مجھے اس کی ضرورت نہیں غریب مسلمان کو دے دو تاکہ وہ اسے استعمال کرلیں ۔
سلمان دوبارہ بازار گئے پھر کچھ گوشت اور روٹی خریدی اور پیغمبر اکرم کی خدمت میں لے آئے رسول اللہ نے پوچھا کیا ہے ۔ سلمان نے جواب دیا ہدیہ ہے ۔
آنحضرت نے فرمایا : بیٹھ جاؤ ۔ آنحضرت اور حاضرین نے اس ہدیہ میں سے کھایا ۔
سلمان پر مقصد واضح ہو گیا کیونکہ اسے اپنی تینوں نشانیاں مل گئیں ۔ دوران گفتگو سلمان نے اپنے دوستوںاور، ساتھیوں اور دیر موصل کے راہبوں کے متعلق باتیں کیں ۔ ان کی نماز ، روزہ ، پیغمبر پر ایمان اور آپ کی بعثت کے بارے میں ان کے انتظار کا حال سنایا ۔ کسی نے سلمان سے کہا کہ اگر وہ پیغمبر کو پالیتے تو آپ کی پیروی کرتے ۔
یہ وہ مقام ہے جہاں نبی کریم پرزیر بحث آیت نازل ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ ادیان حق پر حقیقی ایمان رکھتے ہیں لیکن وہ پیغمبر اسلام کو نہیں پاسکے انہیں کیا اجر ملے گا ۔
گفتگو کے آغاز میں ہم نے قیامت کا ذکر کیا۔اسلام کے اصول عقائد میں سے ایک، قیامت ھے۔ اس اعتقاد کی روسے اس دنیا میں تمام آنے والے اور آکر جانے والے انسان ایک بار پھر واپس آئیں گے۔ یہ تمام کے تمام افراد ایک دوسرے جھان میں دوبارہ زندہ ھو کرعدالت الٰھی میں حاضر ھوں گے جھاںانھیں ان کے نیک و بد اعمال کی جزا یا سزا دی جائے گی یعنی یا جنت میں داخلہ مل جائے گا یا جھنم کی راہ دکھادی جائے گی اور ان دونوں حالتوں میں حیات ابدی یعنی کبھی ختم نہ ھونے والی زندگی میں داخل ھوجائیں گے۔مذکورہ بالااعتقاد مسلمان ھونے کی شرطوں میں سے ایک شرط ھے اور اگر کوئی شخص اس عقیدے یعنی عالم آخرت کا انکار کردے تو دائرہٴ اسلام سے خارج ھو جائے گا۔تمام انبیائے الٰھی از آدم تا خاتم توحید کے بعد قیامت ھی کا ذکر کرتے اور لوگوں کو حیات اخروی پر ایمان واعتقاد کی دعوت د یتے رھے ھیں۔

قیامت پر چند دلائل:
یہاں ہم قیامت پر چند دلائل ذکر کریں گے:
1۔دنیوی زندگی کا بیکار لازم آنا:
دنیاوی زندگی، خلقت انسان کا حقیقی اور نھائی ھدف قرار نھیں پاسکتی کیونکہ یہ ایک مختصر ، وقتی، گزرجانے والی اور مشکلات ومصائب سے پر،نیز آخر میں ختم ھوجانے والی زندگی ھے۔ لھٰذااگر قیامت نہ ھو تو زندگی انسان دنیاوی زندگی میں ھی محدود و مختصر ھو کر رہ جائگی جس کے نتیجہ میں خلقت انسان، عبث، لغو اور لایعنی ھو کر رہ جائے گی۔ایک مقام پہ ارشاد خدا ہمیں قیامت کی جانب متوجہ کررہا ہے کہ:
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ (المومنون :۱۱۵)
کیا تم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہیں عبث خلق کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹائے نہیں جاؤ گے؟
عَبَثًایعنی کھیل کے طور پر۔ کھیل کے لیے دونوں معنی مراد لیے جا سکتے ہیں:
i۔ تم نے یہ خیال کر رکھا تھا کہ تمہاری خلقت کے سامنے کوئی معقولیت، کوئی غرض نہیں ہے۔ اس زندگی کا کوئی حساب، کوئی جوابدہی نہیں ہے۔
ii۔ کیا تمہارا یہ عقیدہ تھا: وَّ اَنَّکُمۡ اِلَیۡنَا لَا تُرۡجَعُوۡنَ تمہیں ہمارے سامنے حاضر ہونا نہیں ہے؟ ظالم مظلوم یکساں ہیں، مجرم اور نیک برابر ہیں
پس اگر قیامت نہ ہوتو گویا دنیا کی زندگی عبث، فضول اور ایک کھیل تماشے کی طرح ہوجائے گی۔
امام علی علیہ السلام کی سے روایت ہے:
إِنَّكَ مَخْلُوقٌ لِلْآخِرَةِ فَاعْمَلْ لَهَا (غرر الحکم ج۱ ص۲۶۷)
تمہیں آخر ت کے لیے پیدا کیا گیا ہے پس اسی کے لیے عمل کرو۔
2. عدل الٰہی کا تقاضا:
عدل خدا کا تقاضا ھے اس دنیا میں اکثر نیک و بد دونوں قسم کے افراد ایک ھی صف میں کھڑے ھوتے ھیں اور مساوی طور پر دنیاوی نعمتوں سے لطف اندوز ھوتے ھیں بلکہ ایسا بھی ھوتا ھے کہ شریف النفس افراد دیکھتے رہ جاتے ھیں اور ظالم صفت اشخاص سب کچھ اپنے قبضے میں کرلیتے ھیں ۔یھاں عدل خداوند عالم کاتقاضا ھے کہ یہ دونوں گروہ ایک دوسرے سے جدا ھوں اور دونوں کو ان کے اعمال کی سزا یا جزا دی جائے اورچونکہ دنیا میں ایسا ھونے والا نھیں ھے لھٰذا یہ دوسری دنیا یعنی آخرت میں یقینا واقع ھوگا۔
اَمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرِحُوا السَّیِّئَآتِ اٴَنْ نَجْعَلَهمْ کَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْیَا هم وَمَمَا تُهمْ سَاءَ مَا یَحْکُمُونَ(الجاثیہ :۲۱)
برائی کا ارتکاب کرنے والے کیا یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم انہیں اور ایمان لانے والوں اور نیک اعمال بجا لانے والوں کو ایک جیسا بنائیں گے کہ ان کا جینا اور مرنا یکساں ہو جائے؟ برا فیصلہ ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔
ایسا ہو نہیں سکتا کہ برائی کا ارتکاب کرنے والوں اور ایمان وعمل صالح والوں کو اللہ تعالیٰ ایک جیسا بنائے
: اَمۡ نَجۡعَلُ الۡمُتَّقِیۡنَ کَالۡفُجَّارِ۔ ( ۳۸ ص: ۲۸) یہ بھی عدل الٰہی کے خلاف ہے کہ فاجر اور متقی ایک جیسے ہو جائیں۔
اگر ظالم و مظلوم، نیک اور بد، فاجر اور متقی کا ایک جیسا انجام ہو تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس کائنات میں اقدار کی حکمرانی نہیں ہے اور جہاں اقدار کے لیے کوئی جگہ نہ ہو وہ کائنات عبث اور بے معنی کھیل ہو کر رہ جائے گی۔
3.رحمت خدا کا تقاضا:
خداوند عالم بے حد وحدود رحمت وکرم والا ھے اور اس کی یہ رحمت وکرم اس بات کی موجب ھے کہ اس کا یہ فیض انسان کی موت پر ھی اختتام پذیر نہ ھو جائے بلکہ اس کے صالح اور مومن بندے اس کی نعمتوں سے مرنے کے بعد بھی فیضیاب ھوتے رھیں۔امیر المومنین علیہ السلام کا فرمان ہے:
اَلْآخِرَةُ فَوْزُ اَلسُّعَدَاءِ (غرر الحکم ج۱ ص۲۴)
آخرت نیک لوگوں کی کامیابی کا مقام ہے۔
کَتَبَ عَلٰی نَفْسِه الرَّحْمَةَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلیٰ یَومِ الْقِیَامَةِ لَا رَیبَ فِیْه
اللہ تعالیٰ نے خود رحمت کو اپنے پر لازم کر دیا ہے۔ واضح رہے رحمت، ذات الٰہی کا لازمۂ ذات ہے۔ ممکن نہیں ذات الٰہی ہو اور اس سے رحمت کا فیض جاری نہ ہو۔ اللہ کے بارے میں اہل علم میں یہ مقولہ مشہور ہے: لا انقطاع فی الفیض ۔ لہٰذا یہ بات ناقابل تصور ہے کہ ذات خداوندی سے فیض رحمت کا سلسلہ ایک لمحے کے لیے بھی بند ہو۔ لہٰذا کَتَبَ عَلٰی نَفۡسِہِ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک قرارداد کے ذریعے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے۔ وہ ارحم الرٰحمین ہے۔ وہ انسان کی تخلیق میں رحیم ہے کہ انسان کو احسن تقویم کے سانچے میں ڈھالا۔وہ انسان کے لیے تسخیر کائنات میں رحیم ہے۔ وہ انسان کی تعلیم و تربیت میں رحیم ہے۔ اس کی ہدایت و رہنمائی میں رحیم ہے۔ عفو و درگزر میں رحیم ہے۔ قیامت کے دن قائم ہونے والی عدالت گاہ میں بھی رحیم و کریم ہے۔ اس رحیم و کریم رب کو چھوڑ کر بتوں کے سامنے کس لیے جھکتے ہو؟ جاہلیت جدید میں دولت و اقتدار والوں کے سامنے کس لیے جھکتے ہو؟
رحمت اللہ پر واجب ہے: خود اللہ نے اپنے ذمے رحمت کو واجب و لازم گردانا ہے، کسی اور کی طرف سے نہیں۔ لہٰذا اشعریہ کا یہ عقیدہ قطعاً فاسد ہے، جو کہتے ہیں: اللہ پر کوئی شے واجب نہیں ہے۔ اللہ جو چاہے کر سکتا ہے، مؤمنین کو جہنم اور کفار کو جنت بھیج سکتا ہے، البتہ ایسا کرنے کا اللہ عادی نہیں ہے۔یہ اشاعرہ عقیدہ باطلہ ہے۔
انسان قیامت کا انکار کیوں کرتا ہے؟
معمولاً انسان چاھتا ھے کہ اس دنیا میں بغیر کسی قید و بند کے آزاد زندگی گزارے تاکہ جو چاھے کرے، جو چاھے سنے، دیکھے یا کھے۔ دوسری طرف، قیامت پر اعتقاد، عدالت الٰھی میں حاضری اور نامہٴ اعمال کا کھلنا اس کی زندگی کو محدود ومقید بنادیتا ھے اور ساتھ ھی ساتھ اس کو بعض قوانین واحکام پر بھی عمل کرنا پڑتا ھے ۔یھی وجہ ھے کہ انبیاء کی مسلسل تاکیدات کے باوجود قیامت کا انکار کیا جاتا رھا ھے۔
اٴیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اٴَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَه، بَلیٰ قَادِرِیْنَ عَلیٰ اٴَنْ نُسَوِّیَ بَنَانَه، بَلْ یُرِیْدُ الْاِنْسَانُ لِیَفْجُرَاَمَامَه
کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہیں کریں گے؟ہاں! (ضرور کریں گے) ہم تو اس کی انگلیوں کی پور بنانے پر بھی قادر ہیں۔
ہویٰ و ہوس کی پیروی ھی باطل پرستوں کے لئے قیامت اور اس کے وقوع پذیر ھونے کے انکارکی باعث ھوتی ھے اور یہ لوگ مختلف بھانوں اور حیلوں کے ذریعے اس حقیقت سے بچنے کی کوشش کرتے رھتے ھیں۔کل کے ملحدوں اور آج کے نیچر پرستوں (مادہ پرستوں) کا یہ گمان ہے جب انسان کی ہڈیاں خاک میں مل جاتی ہیں تو کون انہیں دوبارہ زندہ کر سکتا ہے:
مَنۡ یُّحۡیِ الۡعِظَامَ وَ ہِیَ رَمِیۡمٌ﴿۷۸﴾ (۳۶ یٰسٓ: ۷۸)
ان ہڈیوں کو خاک ہونے کے بعد کون زندہ کرے گا؟
پھر یہ سوال بھی پیدا کرتے ہیں کہ جب ہڈیاں خاک بن کر دوسری ہڈیوں سے مل جائیں یا کسی جانور کی غذا بن کر اس کی ہڈیوں کا حصہ بن جائیں تو اللہ انہیں کیسے جدا کرے گا؟
بلکہ یہ سوال مزید آگے بڑھتا ہے کہ انسان کا جسم ہڈیوں سمیت ہمیشہ تحلیل ہوتا رہتا ہے اور انسان کے تحلیل شدہ عناصر کاربن کی شکل میں آ کر درختوں اور فصلوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ درختوں کے میووں اور فصلوں کو دیگر انسان اور جانور اپنی غذا کے طور پر کھا لیتے ہیں جس سے ایک انسان کے تحلیل شدہ عناصر دوسرے مسلم اور غیر مسلم انسانوں کے جسم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس طرح ہم دنیا میں ایک دوسرے کو کھا رہے ہوتے ہیں تو اللہ انہیں کیسے جدا کرے گا؟
۲۔ بَلٰی قٰدِرِیۡنَ: جواب میں فرمایا: ہم انسان کی انگلیوں کی پوروں کو بنانے پر قادر ہیں۔ اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ پوروں کے بنانے اور منتشر ہڈیوں کے جمع کرنے پر قادر ہونے میں کوئی قدر مشترک موجود ہے۔ یعنی پوروں کے بنانے پر قادر ہونے میں ایک دلیل ہے کہ اللہ منتشر ہڈیوں کو یکجا کر سکتا ہے۔ وہ دلیل کیا ہے؟ جواب دیا گیا ہے کہ انسان کی انگلیوں کی ساخت اللہ کی حکیمانہ تخلیق کی ایک اہم نشانی ہے۔ انگلیوں کی ساخت، اس میں چیزوں کو اپنے گرفت لینے کے لیے بند کرنے اور کھولنے کی صلاحیت، پھر ان انگلیوں کے ساتھ انگوٹھے کا کردار وغیرہ، دلیل ہے کہ یہ ذات ہڈیوں کے منتشر اجزا یکجا کر سکتی ہے۔
دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ انسان کی پوروں میں موجود لکیریں ہر ایک کی مختلف ہوتی ہیں۔ کسی دو شخص کی آپس میں نہیں ملتیں لہٰذا جو ذات ہر ایک شخص کی شناخت دنیا میں پوروں کی لکیروں کے ذریعہ کروا سکتی ہے کیا وہ قیامت کے دن انسانوں کی ہڈیوں کی شناخت نہیں کر سکے گی۔
ہڈیوں کے ذرات جمع کرنے پر اللہ تعالیٰ کی ذات کا قادر ہونا آج کے طالب علم کے لیے کوئی معمہ نہیں رہا۔ ہمارا روز کا مشاہدہ ہے کہ دانہ جب خاک میں جاتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ نے یہ سمجھ دی ہے کہ زمین کے بیسوں عناصر میں سے کس عنصر کو جذب کرنا ہے۔ اگر دانہ گندم کا ہے تو اس دانے کو پتہ ہے کہ کن عناصر کو جذب کر کے جوڑ دوں تو گندم بن جائے گی۔ اگر یہ دانہ مکئی کا ہے تو اسے علم ہے کہ مکئی اگانے کے لیے کن عناصر کو ملانا ہے۔ اسی طرح دنیا میں وجود میں آنے والے لاکھوں دانوں اور پودوں کا مختلف ہونا عناصر ترکیب کے مختلف کی وجہ سے ہے۔
یہ حقیقت کل کے سطحی لوگوں کے لیے دلیل ہے اور آج کے دانشوروں کے لیے بھی:
وَ اللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ الرِّیٰحَ فَتُثِیۡرُ سَحَابًا فَسُقۡنٰہُ اِلٰی بَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَحۡیَیۡنَا بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ؕ کَذٰلِکَ النُّشُوۡرُ﴿۹﴾ (۳۵ فاطر: ۹)
اور اللہ ہی ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ بادل کو اٹھاتی ہیں پھر ہم اسے ایک اجاڑ شہر کی طرف لے جاتے ہیں پھر ہم اس سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیتے ہیں، اسی طرح (قیامت کو) اٹھنا ہو گا۔
وَ یُحۡیِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ؕ وَ کَذٰلِکَ تُخۡرَجُوۡنَ﴿۱۹﴾ (۳۰ روم: ۱۹)
اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے اور اسی طرح تم بھی نکالے جاؤ گے۔
یعنی جس طرح خاک میں موجود عناصر جمع کر کے ہم سبزہ نکالنے پر قادر ہیں اسی طرح تمہارے ذرات جمع کر کے تمہیں زمین سے نکالنے پر قادر ہیں۔ دوسرے لفظوں میں جہاں دانہ اپنے مطلوبہ عناصر پہچان لیتا ہے وہاں کیا اللہ تعالیٰ انسان کے منتشر ذرات نہیں پہچان لے گا؟ فَمَا لَکُمۡ ۟ کَیۡفَ تَحۡکُمُوۡنَ۔(۱۰ یونس: ۳۵)
پس قیامت کے حالات و واقعات سے متعلق آگاہی او رآشنائی کے لئے فقط ایک ہی راستہ اور ذریعہ ہے اور وہ ہے قرآن کریم اور اقوال معصومین علیھم السلام ۔اگر قرآن مجید سے رجوع کیا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ قیامت کا رونماہونا اس کائنات کے نظام میں ایک بہت بڑا انقلاب لے کر آئے گا۔ ایسا انقلاب کہ یہ عالم ایک دوسرے عالم میں تبدیل ہو جائے گا۔ پھر تمام انسان، از اول تا آخر، دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اور اپنے اعمال کے نتائج کا مشاہدہ کریں گے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button