خطبات جمعہرسالاتسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:224)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 27 اکتوبر 2023ء بمطابق 11 ربیع الثانی 1445ھ)

تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: تعلیمات امام حسن عسکری علیہ السلام
گزشتہ روز یعنی 10 ربیع الثانی گیارہویں امام حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی ولادت باسعادت کا مبارک دن تھا۔اس لیے مناسب ہے کہ اس جمعے کے خطبے میں ان کی پاکیزہ سیرت میں سے کچھ بیان کریں۔
امام حسن عسکری علیہ السلام اس سلسلہ عصمت کی ایک کڑی تھے جس کا ہر حلقہ انسانی کمالات کے جواہر سے مرصع تھا، علم وحلم، عفو وکرم ،سخاو ت وایثار سب ہی اوصاف بے مثال تھے۔ عبادت کا یہ عالم تھا کہ ا س زمانے میں بھی کہ جب آپ سخت قید میں تھے معتمد نے جس شخص سے بھی آپ کے متعلق دریافت کیا یہی معلوم ہوا کہ آپ دن بھر روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر نمازیں پڑھتے ہیں اور سوائے ذکر الٰہی کے کسی سے کوئی کلام نہیں فرماتے ۔ اگرچہ آپ کو آپنے گھر پر آزادی کے سانس لینے کا موقع بہت کم ملا۔ پھر بھی جتنے عرصہ تک قیام رہا اور دور دراز سے لوگ آپ کے فیض و عطا کے تذکرے سن کر آتے تھے اور بامراد وآپس جاتے تھے۔آپ کے اخلاق واوصاف کی عظمت کا عوام وخواص سب ہی کے دلوں پر سکہ قائم تھا۔ چنانچہ جب احمد بن عبداللہ بن خاقان کے سامنے جو خلیفہ عباسی کی طرف سے شہر قم کے اوقاف وصدقات کے شعبہ کا افسر اعلیٰ تھا سادات علوی کاتذکرہ آگیا تو وہ کہنے لگا کہ مجھے کوئی حسن عسکری علیہ السّلام سے زیادہ مرتبہ اور علم و ورع ، زہدو عبادت ،وقار وہیبت ، حیاوعفت ، شرف وعزت اور قدرومنزلت میں ممتاز اور نمایاں نہیں معلوم ہوا۔
باوجود یکہ آپ کی عمر بہت مختصر ہوئی یعنی صرف اٹھائیس بر س مگر اس محدود اور مشکلات سے بھری ہوئی زندگی میں بھی آپ کے علمی فیوض کے دریا نے بڑے بڑے بلند پایہ علماء کو سیراب ہونے کا موقع دیا ۔نیز زمانے کے فلاسفہ کا جو دہریت اور الحاد کی تبلیغ کر رہے تھے مقابلہ فرمایا جس میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔
امام حسن عسکری علیہ السلام نے ہر قسم کے دباو اور عباسی حکومت کی جانب سے سخت نگرانی کے باوجود دینِ اسلام کی حفاظت اور اسلام مخالف افکار کا مقابلہ کرنے کے لئے متعدد سیاسی، اجتماعی اور علمی اقدامات انجام دیئے اور اسلام کی نابودی کے لئے عباسی حکومت کے اقدامات کو بے اثر کردیا۔
امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کا عہد:
ائمہ اثنا عشری کے 250 سالہ دور امامت میں آخری 40 سال یعنی 220ھ سے 260ھ عہد عسکرئین کہلاتا ہے یہ دو امام یعنی امام علی النقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے عہد امامت پر محیط ہے۔ یہ دور تاریخ کے ایسے موڑ پر واقع ہے جہاں سے اہم واقعات رونما ہوئے،اس عہد کی چند اہم خصوصیات کاتجزیہ حسب ذیل ہے:
١۔ یہ دور ایک رواجی سلسلہ ہدایت اور غیبت صغریٰ کے درمیان ایک کڑی ہے۔ اس عرصہ میں آئمہ کی ذمہ داری بڑھ گئی تھی کہ ایسے اقدامات کریں جو بتدریج امت کو غیبت کبریٰ کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔ مسلسل قید و بند اور کڑی نگرانی میں یہ کام اور بھی مشکل تھا۔
٢۔ ائمہ اہلبیت سے وابستہ افراد کے لئے یہ زمانہ پریشانی تشویش اور انقلابی تحریکوں کا دور تھا۔ حکومت کےمسلسل سخت رویہ کے خلاف مملکت میں علویوں کی شورشیں پھیل رہی تھیں۔
٣۔ دربار خلافت کی ہیبت ختم ہو رہی تھی خلافت چند لوگوں کے ہاتھوں ایک گیند کی طرح تھی۔ اور بار بار حکومت بدل رہی تھی۔ متوکل نے اس صورت حال پر قابو پانے کے لئے شہر سامرہ کو بطور دار الخلافہ چناتاکہ حکومت پر لشکری دباؤ کم کیا جائے۔
٤۔ ائمہ عسکرئین یہ جانتے تھے کہ ١٢ ویں ہادی کی غیبت ایک امر مشیت الہٰی ہے اور اس امر کو اپنے معتقدین کے افکار کاحصہ بنا نا مشکل لیکن ضروری فریضہ ہے کیونکہ غیبت بطور ضرورت کی ماضی قریب میں کوئی مثال نہیں تھی۔ البتہ پیغمبر اکرم اور ائمہ گزشتہ کی روایتوں سے اس امر سے کچھ آشنائی پیدا ہوگئی تھی۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کے لئے ”موعود منتظر” کے والد ہونے کی حیثیت سے یہ کٹھن ذمہ داری تھی کہ عام مسلمانوں کو آگاہ کریں کہ انکا بیٹا ہی ”قائم آل محمد ” ہے اور اس ضمن میں معلومات کی تحقیق کا وقت آچکا ہے۔ ان تمام دشواریوں کے منجملہ اس زمانہ کے سیاسی حالات اور حکومتی سخت پہرہ میں لوگوں کے اذہان میں اس عقیدہ کی تبلیغ بہت حساس کام تھا۔ ( تاریخ اسلام
تمام ائمہ(علیہم السلام) نور ہیں اور وہ تمام کاموں میں جاہے وہ اجتماعی ہوں یا فردی، ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ ہم کو چاہئے کہ ہم، اپنی زندگی کہ ہر مسئلہ کو ان ہستیوں سے معلوم کریں۔
ہماری اجتماعی زندگی میں ایک بہت بڑا مسئلہ دوست سے وابستہ ہے کہ انسان کا دوست کیسا ہونا چاہئے۔ اسی لئے یہاں ہم امام حسن عسکری(علیہ السلام) کی نظر میں یہ اہم مسئلہ بیان کرتے ہیں۔
امام حسن عسکری(علیہ السلام) فرمارہے ہیں کہ اگر کسی کے اندر تین خصوصیات پائی جاتی ہیں تو اس کے دوست بہت زیادہ ہوتے ہیں: مَنْ كانَ الْورَعُ سَجِيَّتَهُ، وَ الْكَرَمُ طَبيعَتَهُ، وَ الْحِلْمُ خَلَّتَهُ كَثُرَ صَديقُهُ(بحار الأنوار ج۶۶، ص۴۰۷) جس شخص کا پیشہ پرہیز گاری، کرم اسکی طبیعت اور حلم اس کا لباس ہوں اس شخص کے دوست بہت زیادہ رہینگے۔
اس حدیث میں امام(علیہ السلام) دوست کی تین خوبیوں کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں:
۱۔ تقوی
تقویٰ انسانی زندگی کی وہ صفت ہے جو تمام انبیاء کی تعلیم کا نچوڑ ہے اس کے لغوی معنی کسی چیز سے دور رہنے اس سے بچنے یا اسے چھوڑنے کے ہوتے ہیں، لیکن شریعت اسلام میں تقویٰ یعنی اپنے آپ کو گناہوں سے بجانا، امام(علیہ السلام) کی نظر میں جس شخس کے اندر یہ صفت پائی جاتی ہے اس کے دوست زیادہ ہوتے ہیں، واضح ہے کہ جو شخص خدا کے خوف سے گناہ کرنے سے اپنے آپ کو بچاتا ہے لوگ اس کی اس خوبی کی وجہ سے اس سے قریب ہونے لگیں گے، تقوی کے بارے میں امام محمد تقی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: اِنَّ اللهَ عَزّوجلّ یَقی بِالتَّقوی عَنِ العَبدِ ما عَزُبَ عَنهُ عَقلُهُ، ‌وَ یُجلی بِالتَّقوی عَنهُ عَماهُ وَ جَهلَه[بحار الأنوار ج۷۵، ص۳۵۹] یقیناً اللہ تعالی تقویٰ کے ذریعہ بندہ سے اس چیز کو محفوظ کرتا ہے جو اس کی عقل سے دور رہ گئی ہے، اور تقوا کے ذریعہ واضح کردیتا ہے اس چیز کو جسے نہیں دیکھتا اور نہیں جانتا۔
۲۔ سخاوت یا جود و کرم
سخاوت یا جود و کرم بخل اور کنجوسی کا متضاد ہے، سخاوت کے معنی یہ ہیں کہ مناسب موقعوں پر انسان اپنا ہاتھ اور دل کھلا رکھے اور وہ مادی اور معنوی وسائل اور امکانات جو اس کے اختیار میں ہین انہیں صرف اپنی ذات تک محدود نہ رکھے بلکہ اپنی جود و بخشش سے دوسروں کو فقر اور بیچارگی سے نکالے اور بینواؤں کے کاندھوں کا بوجھ ہلکا کرے، مشکلات کو حل کرے، دکھوں کو بر طرف کرے اور دوسروں کو ان نعمتوں سے جو خدا نے اسے عطا کی ہیں، خواہ مادی ہو یا معنوی فائدہ پہنچائے۔
۳۔ حلم
حلم و بردباری انبیاء و مرسلین کی صفت ہے، حلم انسان کے نمایاں اور ممتاز صفات میں شمار ہوتا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اپنے نفس پر کتنا قابو ہے اور یہ کہ وہ غضب اور انتقام کی فکر سے شکست نہیں کھاتا ہے اسی لئے امام حسن عسکری(علیہ السلام) نے دوست کی اس خصوصیت کی طرف اشارہ فرمایا ہے، یقینا جس شخص کے اندر یہ خوبی پائی جائیگی لوگ اس سے قریب ہونے لگینگے، حلم کے بارے میں حضرت علی(علیہ السلام) فرمارہے ہیں: « أوَّل عِوَض الحَليم عن حِلْمه أنَّ النَّاس أنصارُه على الجاهل[بحار الأنوار ج۶۸، ص۴۲۷] صبر کرنے والے کا اسکی قوت برداشت پر پہلا اجر يہ ملتا ہے کہ لوگ جاہل کے مقابلہ ميں اسکے مدد گار ہو جاتے ہيں۔
دو دوستوں کا ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرنا بہت ضروری ہے اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ایک شخص اپنے دوست کی غلطی کے وقت حلم اور بردباری کے ساتھ کام لے، یہ خصلت سبب بنتی ہے کہ انسان اپنے کسی دوست کو نہیں کھوتا جیسا کہ امام علی(علیہ السلام) فرمارہے ہیں: الْحِلْمُ حِجَابٌ مِنَ الْآفَاتِ[غرر الحکم ص۴۴] حلم آفتوں کے آنے کے لئے رکاوٹ ہے.
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ لوگوں سے دوستی کرنے کے لئے انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو اچھے صفات اور اخلاق سے آراستہ کرے تاکہ لوگ اس کی جانب رغبت پیدا کرسکیں۔
امام حسن عسکری ؑ کی نظر میں ایمان:
دینی تعلیمات میں ایمان کے دو حصے بتائے گئے ہیں : علم اور عمل
تنھاعلم کفر کے ساتھ جمع ہو سکتا ہے اور تنھا عمل نفاق کے ساتھ جمع ہو سکتا ہے اس لیے ضرروی ہے کہ دونوں ایک ساتھ رہیں تب ایمان کہلائے گا ۔
یہاں ہم امام حسن عسکری ؑ کے کچھ فرامین بیان کر رہے ہیں جو ایمان سے متعلق ہیں:
قالَ عليه السلام : خَصْلَتانِ لَيْسَ فَوْقَهُما شَىٍّْءٌ: الاْ يمانُ بِاللّهِ، وَنَفْعُ الاْ خْوانِ.
دو خصلتیں ایسی ہیں کہ جن سے بڑھ کر کوئی خصلت نہیں ۔ 1۔ خداوند متعال پر ایمان ۔2۔ مومن بھائیوں کو فائدہ پہونچانا۔(تحف العقول : ص 489)
آئمہ کی زندگی میں سب سے مرکزی حیثیت ، ذات خدا کو حاصل ہے اور ہر کام اللہ کیلئے انجام دینا اللہ کے راستے میں انجام دینا اللہ کی رضا کے مطابق انجام دینا یہی آئمہ علیہم السلام کی زندگی کا مقصد ہے اور اسی مقصد کی تکمیل کے لئے ان ذوات مقدسہ نے اپنی پوری زندگی بسر کی ہے اور ان برگزیدہ ہستیوں کا دوسرا اہم کام دوسری اہم سیرت لوگوں کو فائدہ پہنچانا ان کی فلاح اور بہبود اور سعادت دنیا و آخرت کے لئے دن رات کوشاں رہنا نیز اپنے شیعوں کو ایک اہم سفارش یہی ایمان باللہ اور نفع اخوان یعنی اللہ کی ذات پر ایمان اور اپنے دینی بھائیوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔
ایک اور مقام پہ فرمایا: ما قْبَحَ بِالْمُؤْمِنِ نْ تَكُونَ لَهُ رَغْبَةٌ تُذِلُّهُ. (بحارالا نوار: ج 75، ص 374، ح 35)
ایک مومن کے لیے سب سے بری خصلت یہ ہے کہ وہ ایسی چیز کی طرف رغبت رکھتا ہو جو اسے ذلت تک پہونچائے۔
اسی طرح ایک اور مقام پہ فرمایا: الْمُؤْمِنُ بَرَكَةٌ عَلَى الْمؤْمِنِ وَ حُجَّةٌ عَلَى الْكافِرِ. (تحف العقول : ص 489)
مومن کا وجود مومنین کے لیے باعث برکت اور رحمت ہے اور کافروں کے لیے حجت اور دلیل ہے ۔
تقلید کے متعلق شیعوں کی ذمہ داری بیان کرنا:
عصر غیبت میں شیعوں کی رہنمائی کرتے ہوئے امام حسن عسکری علیہ السلام سب سے پہلے یہودی عوام کی جانب سے اپنے فاسق علماء کی تقلید کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
فَمَن قَلَّدَ مِن عَوامِّنا مِثلَ هؤلاءِ الفُقَهاءِ فَهُم مِثلُ اليَهودِ الذينَ ذَمَّهُمُ اللّه ُ بالتَّقليدِ لِفَسَقَةِ فُقَهائهِم
ہمارے عوام میں سے جو بھی ایسے (فاسق فاجر) فقھاء کی پیروی اور تقلید کرے گا وہ یہود کی طرح ہیں جن کی اللہ نے اپنے فاسق فقھاء کی تقلید کی وجہ سے مذمت کی ہے۔
تقلید کے مخالفین اس حدیث کو یہیں تک بیان کرکے کہتے ہیں کہ امام نے تقلید کی مذمت کی ہے حالانکہ یہ آدھی حدیث ہے جس میں امام نے فقط فاسقوں کی تقلید کی مذمت کی ہے۔ اسی لیے مجتہد کی شرائط میں سے ایک یہ ہےکہ وہ فاسق نہ ہو کیونکہ فاسق کی تقلید حرام ہے۔ حدیث کے اگلے حصے میں امام نے حقیقی مجتہد کی شرائط بتائی ہیں جن کی تقلید کا حکم دیا گیا ہے۔فرمایا:
فَأمّا مَن كانَ مِن الفُقَهاءِ صائنا لنفسِهِ
"لیکن فقھاء میں سے جو بھی اپنے نفس کو بچانے والا ،
حافِظا لِدينِهِ
اپنے دین کی حفاظت کرنے والا ،
مُخالِفا على هَواهُ
اپنی نفسانی خواہشات کی مخالفت کرنے والا
مُطِيعا لأمرِ مَولاهُ
اور اپنے مولا کے امر (حکم)کی اطاعت کرنے والا ہو
فلِلعَوامِّ أن يُقَلِّدُوهُ ،
تو عوام کو چاہئے کہ اس کی تقلید کریں ،
وذلكَ لا يكونُ إلّا بَعضَ فُقَهاءِ الشِّيعَةِ لا جَميعَهُم۔
اور ایسی خصوصیات رکھنے والے تمام شیعہ فقھاء نہیں ہیں بلکہ بعض شیعہ فقھاء ہیں۔ (وسائل الشیعة ، ج 27 ، ص 131 ، ح 33401)
امام حسن عسکری علیہ السلام اس حدیث شریف میں عصر غیبت میں شیعوں کی ذمہ داری اور وظیفے کی جانب اشارہ فرما رہے ہیں کہ ہمارے ماننے والوں کی غیبت کے زمانہ میں ذمہ داری یہ ہے کہ صالح ، متقی ، پرہیزگار ، نفس پرستی سے دوری اختیار کرنے والے ، دین کی سمجھ رکھنے والے اور اپنے مولا کے مطیع و فرمانبردار ، فقہاء کی تقلید کریں اور دوسرا اہم نکتہ جو اس حدیث سے پتہ چلتا ہے وہ یہ ہے کہ تمام فقہاء ایسے نہیں ہیں بلکہ بعض فقہاء ان خصوصیات کے حامل ہیں پس انہی کی تقلید کرنی چاہیے۔
اہلبیت علیہم السلام کی ولایت
اہلبیت طاہرین علیہم السلام کائنات کی وہ برگزیدہ ہستیاں ہیں اور اللہ کے جانب سے انہیں وہ مقام و منزلت عطا ہوا ہے کہ جو بھی ان سے متمسک ہوا اور جس نے بھی ان کے دامن کو تھام لیا وہ دنیا اور آخرت کی سعادت کو حاصل کرلے گا کیونکہ خداوند متعال نے انہیں علم و فضل ، حلم و بردباری ، جود و سخاوت ، فصاحت زبان ، شجاعت و دلاوری اور مومنین کے دلوں میں محبت عطا کی ہے ، اور یہ وہ صفات ہیں جن کا ایک اسلامی حاکم ، اسلامی قیادت ، خلیفہ و امام میں ہونا ضروری ہے لہذا اصلی اسلامی قیادت رسول کی جانشینی اور امامت ان ہی کا حق ہے اور سعادت تک پہونچنے کا راستہ ان ہی کے آستانہ سے ہوکر گذرتا ہے۔
اسی لئے امام حسن عسکری علیہ السلام اپنی ایک حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں : نحنُ کهفُ مَن اِلتَجَأ اِلینا و نورٌ لِمَن اِستَضاءَ بِنا و عِصمةٌ لِمن إِعتَصَم بِنا. مَن احَبَّنا کان مَعَنَا فِی السَّنامِ الأعلی و مَنِ انْحَرفَ عنّا مالَ إلی النّار۔
جو ہماری پناہ میں آجائے ہمارا رخ کرے ہم اس کی پناہگاہ ہیں اور جو ہم سے روشنی کا طالب ہو ہم اس کے لئے نور اور چراغ ہیں اور جو ہماری حفاظت میں آجائے ہم اسے بچانے والے ہیں اور جو ہم سے محبت کرے گا وہ بلندی کی چوٹیوں پر ہمارے ساتھ ہوگا اور جو بھی ہم سے روگردانی اختیار کرے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا اس کا ٹھکانہ نار ہے۔(ابن شہر آشوب ، المناقب ، ج ۴ ، ص۴۳۵)
امام حسن عسکری ؑ کی نظر میں کینہ
کینہ کے متعلق امام حسن عسکری علیہ السلام سے روایت ہے :
اقل النَّاسِ رَاحَةً الْحَقُود[بحار الانوار ج۷۵، ص۳۷۳] کینہ رکھنے والے کو سب سے کم سکون میسر ہوتا ہے۔
امام(علیہ السلام) کی اس حدیث کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان جب کینہ پروری میں لگ جاتا ہے تو وہ آخر میں اس مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ دوسروں کی محبت کو بھی وہ نفرت سمجھنے لگتا ہے ایسے انسان کے اندر انقتام لینے کا جذبہ بہت زیادہ ہوجاتا ہے وہ ہمیشہ ہر حال میں اس سے انتقام لینے کے لئے کوئی نہ کوئی منصوبہ بناتا رہتا ہے اس حالت میں وہ کبھی بھی سکون اور چین سے نہیں رہ سکتا اسی لئے امام(علیہ السلام) نے فرمایا ہے کہ کینہ پرور کو سب سے کم سکون میسر ہوتا ہے۔
امام(علیہ السلام) دوسری جگہ پر اس کو ایک بلاء سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «مِنَ الْفَواقِرِ الَّتى تَقْصِمُ الظَّهْرَ جارٌ إِنْ رَأىٰ حَسَنَةً أَطْفَأَها وَ إِنْ رَأىٰ سَيِّئَةً أَفْشاها[بحار الانوار ج۷۵، ص۳۷۳] جو بلائیں انسان کی کمر کو توڑ دیتی ہیں ان میں سے ایک، کسی کا ایسا پڑوسی ہونا ہے جو اس کی اچھائیوں کو چھپاتا ہو اور برائیوں کو فاش کرتا ہو»۔
کینہ پرور انسان صرف یہی تک نہیں پہنچتا بلکہ اس سے آگے پڑھ کر وہ کینہ کی وجہ سے اپنے آپ کو بھی ذلیل اور رسواء کرلیتا ہے، انسان کو یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ اس کے اندر ایک بری خصلت رسوخ کرگئی ہے جس کی وجہ سے وہ لوگوں میں ذلیل اور خوار ہورہا ہے۔ اس کے بارے میں بھی امام حسن عسکری(علیہ السلام) فرمارہے ہیں:
ما اقْبَحَ بِالْمُؤْمِنِ انْ تَكُونَ لَهُ رَغْبَةٌ تُذِلُّهُ[تحف العقول ص۴۸۹] مؤمن کے لئے کتنا برا ہے کہ وہ اس چیز کی طرف رغبت کرے جو اس کی ذلت اور خواری کا سبب بن رہی ہے»۔
امام کی نظر میں حقیقی شیعہ کی صفات:
امام حسن عسکری(علیہ السلام) کے مطابق جو کوئی اپنے آپ کو شیعہ کہتا ہے اگر اس کے اندر حقیقی شیعوں کی خصوصیات نہ پائی جائیں تو اس کا شمار شیعوں میں نہیں ہوگا، امام(علیہ السلام) کی نظر میں حقیقی شیعہ وہ ہے جو اپنے اماموں کی طرح لوگوں کی خدمت اور ان کی مدد کرنے میں ہمیشہ کوشاں رہے اور اللہ تعالی نے جن چیزوں کا حکم دیا ہے انھیں بجالائے اور جن چیزوں سے روکا ہے ان سے رک جائے، امام (علیہ السلام) حقیقی شیعہ کی تعریف میں فرمارہے ہیں:« شیعة عَلِّىٍ هُمُ الّذین یؤثِرُونَ اِخوانَهم عَلى اَنفُسِهِم وَ لَو کانَ بِهِم خصاصَةٌ وَ هُمُ الَّذینَ لایَراهُمُ اللّه حَیثُ نَهاهُم وَ لا یَفقَدُهُم حَیثُ اَمرَهُم، وَ شیعَةُ عَلِىٍّ هم الَّذینَ یَقتَدُون بِعَلىٍ فى اکرامِ اِخوانِهُم المُؤمِنین[بحار ج۶۵، ص۱۶۳] علی(علیہ السلام) کے شیعہ وہ لوگ ہیں جو اپنے دینی بھائیوں کو اپنے اوپر مقدم رکھتے ہیں اگرچہ کہ خود ان کو ضرورت ہو، اور خدا نے جن چیزوں سے منع کیا ہے اس سے دور رہتے ہیں اور جن چیزوں کا حکم دیا ہے ان پر عمل کرتے ہیں اور علی(علیہ السلام) کے شیعہ وہ ہیں جو اپنے مؤمن بھائیوں کا احترام کرنے میں علی(علیہ السلام) کی اقتداء کرتے ہیں»۔
ایک اور جگہ پر امام حسن عسکري(عليہ السلام) شیعوں کے بارے میں فرمارہے ہیں: «أعْرَفُ النّاسِ بِحُقُوقِ إخْوانِهِ، وَأشَدُّهُمْ قَضاءً لَها، أعْظَمُهُمْ عِنْدَاللهِ شَأناً اللهِ و من تواضع في الدنيا لاخوانه فهو عندالله من الصديقين و من شيعة علي بن ابي طالب عليه السلام حقاً[بحارج۴۱، ص۵۵]جو شخص اپنے بھائیوں کے حقوق کی سب سے زیادہ معرفت رکھتا ہے اور ان حقوق کو ادا کرنے میں سب سے زیادہ کوشاں ہے وہ شان و منزلت کے لحاظ سے اللہ کے نزدیک سب سے بڑا اور عظیم ہے اور اس کا درجہ اور رتبہ سب سے اونچا ہے اور جو بھی دنیا میں اپنے بھائیوں کے لئے سب سے زیادہ تواضع اور خاکساری کا مظاہرہ کرے گا وہ اللہ کی بارگاہ میں صدیقین میں سے ہے اور علی ابن ابیطالب(علیہ السلام) کے حقیقی شیعوں میں سے ہے»۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سیرت معصومین کو صحیح معنوں میں سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button