خطبات جمعہرسالاتسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:206)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک23 جون 2023ء بمطابق 04 ذی الحج1444 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: فلسفہء حج و قربانی
حج اسلام کے عملی عبادات میں سے ایک واجب عبادت ہے جس کے معنی ذی الحجہ کے مہینے میں مکہ جا کر خانہ کعبہ کی زیارت اور اس سے متعلق مخصوص اعمال کو انجام دینا ہے۔ حج کا اجتماع مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع ہے جس میں مسلمانوں کے تمام فرقوں کے لوگ مکہ میں جمع ہو کر اکھٹے حج کے اعمال بجا لاتے ہیں۔ قرآن میں بہت ساری آیات میں حج کا تذکرہ آیا ہے اور ایک سورت کا نام بھی "سورہ حج” ہے۔  قرآن نے حج کو استطاعت رکھنے والے افراد کا وظیفہ قرار دیا ہے اور اسے ایک عظیم اسلامی شعایر کے عنوان سے یاد کیا ہے۔ اسی طرح 9 ہزار سے بھی زیادہ احادیث حج کے احکام اور اعمال کے بارے میں نقل ہوئی ہیں جن میں سے بعض میں حج کو نماز کے بعد سب سے اہم عبادت قرار دی گئی ہے۔ عربی زبان میں "حَجّ” یا "حِجّ” کے معنی "دلیل و برہان لانے” اور "کسی اہم کام کی انجام دہی کا قصد کرنے” کے ہیں۔
حج آحادیث کی روشنی میں:
احادیث میں حج بیت اللہ کی خاص اہمیت اور متعدد فضائل وارد ہوئے ہیں، جن میں سے چند احادیث پیش کرتے ہیں:
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم):
الْحَجُ‏ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّة؛ مقبول حج کی جزاء صرف  اور صرف جنت ہے [مستدرك الوسائل ج‏۸، ص۴۱] امام صادق(علیہ السلام) :
لَا يَزَالُ‏ الدِّينُ‏ قَائِماً مَا قَامَتِ‏ الْكَعْبَة؛ جس وقت تک کعبہ قائم ہے اس وقت تک دین قائم ہے [الكافي،ج‏۴، ص۲۷۱] اس اہم عبادت کی خصوصی تاکید احادیث میں ہوئی ہے اور اُن لوگوں کے لئے جن پر حج فرض ہوگیا ہے لیکن دنیاوی اغراض یا سستی کی وجہ سے بلاشرعی مجبوری کے حج ادا نہیں کرتے، سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ان میں سے چند حسب ذیل ہیں:
امام صادق(علیہ السلام): مَنْ مَاتَ وَ لَمْ يَحُجَّ حَجَّةَ الْإِسْلَامِ لَمْ يَمْنَعْهُ مِنْ ذَلِكَ حَاجَةٌ، فَلْيَمُتْ- يَهُودِيّاً أَوْ نَصْرَانِيّا؛  جو کوئی بغیر  عذر کے واجب حج کئے بغیر مرجائے، اس کی موت یھودی یا نصرانی کی موت ہے( الكافي، ج‏۴، ص۲۶۸)
دوسری حدیث میں امام(علیہ السلام) فرماتے ہیں:
لَوْ تَرَكَ النَّاسُ الْحَجَّ، أُنْزِلَ عَلَيْهِمُ الْعَذَابُ؛
اگر لوگ حج کو ترک کرینگے تو ان پر عذاب نازل کیا جائیگا(الكافي، ج‏۴، ص۲۷۱)
اسی طرح رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں:
حُجُّوا قَبْلَ أَنْ يَمْنَعَ الْبَرُّ جَانِبَه؛ حج کو انجام دو اس سے پہلے کہ حج انجام دینا مشکل ہوجائے‏ (المجازات النبوية، ص۳۷۵)
اسلام اور امامت کا حج سے رابطہ
کعبہ اور حج کا امامت سے تعلق اسکی ابتدائی تاسیس وتعمیر کیساتھ منحصر نہیں ہے بلکہ یہ تعلق تسلسل کےساتھ برقرارہے.یہ ایک ایسا تعلق ہے جو  رحلت     پیغمبر اکرم ﷺکےبعدسرزمین  وحی  اور  حج کے موسم میں معاشرے کے رہبر   وامام  کےابلاغ اور مستحکم کرنے کا تقا ضا کرتا ہے۔
رسول خداکو  ۱۰ہجری میں حکومت اسلامی قائم ہونے کے بعد پہلی دفعہ حج کیلئے جانے اور اعمال حج لوگوں کو سکھانے کا حکم ہوا۔وَ أَذِّنْ‏ فِي‏ النَّاسِ‏ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجالًا وَ عَلى‏ كُلّ ضامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ  فَجٍّ عَمِيقٍ  اور لوگوں میں حج کے لیے اعلان کرو کہ لوگ آپ کے پاس دور دراز راستوں سے پیدل چل کر اور کمزور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں۔اس سفر میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی امامت اور رہبری کو آپﷺکے جانشین کے طور  پر لوگوں کے سامنےاعلان کرنے کا حکم ہوا ۔
یہ ایک ایسا پیغام تھا کہ اس کے اعلان کے بغیر کار رسالت کا العدم تھا. امام محمدباقر علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:
حَجَّ رَسُولُ اللَّهِ ص مِنَ الْمَدِينَةِ وَ قَدْ بَلَّغَ‏ جَمِيعَ‏ الشَّرَائِعِ‏ قَوْمَهُ غَيْرَ الْحَجِّ وَ الْوَلَايَةِ فَأَتَاهُ جَبْرَئِيلُ(ع) فَقَالَ لَهُ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ جَلَّ اسْمُهُ يُقْرِؤُكَ السَّلَامَ وَ يَقُولُ لَكَ إِنِّي لَمْ أَقْبِضْ نَبِيّاً مِنْ أَنْبِيَائِي وَ لَا رَسُولًا مِنْ رُسُلِي إِلَّا بَعْدَ إِكْمَالِ دِينِي وَ تَأْكِيدِ حُجَّتِي وَ قَدْ بَقِيَ عَلَيْكَ مِنْ ذَاكَ فَرِيضَتَانِ مِمَّا تَحْتَاجُ أَنْ تُبَلِّغَهُمَا قَوْمَكَ فَرِيضَةُ الْحَجِّ وَ فَرِيضَةُ الْوَلَايَةِ وَ الْخِلَافَةِ مِنْ بَعْدِكَ فَإِنِّي لَمْ أُخَلِّ أَرْضِي مِنْ حُجَّةٍ وَ لَنْ أُخَلِّيَهَا أَبَداً فَإِنَّ اللَّهَ جَلَّ ثَنَاؤُهُ يَأْمُرُكَ أَنْ تُبَلِّغَ قَوْمَكَ الْحَجَّ وَ تَحُجَّ وَ يَحُجَّ مَعَكَ‏ مَنِ اسْتَطاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا مِنْ أَهْلِ الْحَضَرِ وَ الْأَطْرَافِ وَ الْأَعْرَابِ وَ تُعَلِّمَهُمْ مِنْ مَعَالِمِ حَجِّهِمْ مِثْلَ مَا عَلَّمْتَهُمْ مِنْ صَلَاتِهِمْ وَ زَكَاتِهِمْ وَ صِيَامِهِمْ و…
رسول خدا ﷺمدینہ سے حج پر تشریف لے گئے اس وقت آپ حج اور ولایت کے علاوہ تمام احکام اور شرائع الہٰی کا ابلاغ کرچکے تھے ،اس وقت جبرئیل آپ کی خدمت میں آئے اور کہا :اے محمدﷺ :خدا وندمتعال آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے میں نے تمام انبیا  ء و رُسل میں سے کسی نبی یا رسول کو  دین مکمل اور حجت پر تاکید کرنے سے قبل اسکی روح قبض نہیں کی ہے،اسوقت آپ کے دین کے دو فرائض باقی رہتے ہیں، آپ پر لازم ہے کہ انہیں اپنی قوم تک پہنچائیں وہ حج اور آپ کے بعد والی خلافت و ولایت کے فرائض ہیں،میں نے  اپنی زمین کو کبھی اپنی حجت سے خالی نہیں رکھا ہے اور نہ کبھی خالی رکھوں گا ۔ پس خداوند متعال آپکو حکم دیتا ہے کہ آپ اپنی قوم کو حج کی تبلیغ کریں ۔ اور آپ بھی حج بجا لائیں اور  مدینہ اور اس کے اطراف کے لوگ اور اعراب میں سےصاحبان استطاعت بھی آپ کے ساتھ حج بجالا ئیں اور انہیں حج کے  آداب کی تعلیم دیں جس طرح آپ نےانہیں نماز، زکاۃ اور روزے وغیرہ کی تعلیم  دی او ر  آداب سکھائے(احتجاج طبرسی،ج:1،ص:134)
آیا خداکےاسی پیغمبر او ررسول ﷺ کو معاشرے کے دواہم امور (مناسک حج) اور(ولایت و امامت)کوایک سفرکےاندرابلاغ کرنےکاحکم ہوناان دوحقیقتوں کےدرمیان رابطےکی حکایت نہیں کرتا؟
پیغمبر اکرم  ﷺعازم سفر ہو تے ہیں اور اعمال و مناسک حج بجالاتے ہیں۔ پہلے عرفات میں پھر منٰی میں مسلمانوں کے عظیم اجتماع میں آپؑ دوسرے پیغام الہٰی (ولایت)کے ابلاغ پر مامور ہوتے ہیں لیکن منافقین اور دشمنوں کی سازشوں اور ان کی بغاوت کا خوف ہے یہاں تک کہ ( خداوند متعال کی طرف سے) خوف و امید سے بھرا ایک خطاب صادر ہو تا ہے کہ اگر اس پیغا م کونہ پہنجایا تو گویا  آپ ﷺ نے اپنی رسالت انجام ہی نہیں دی اور ہم تمہیں لوگوں کی شر سے محفوظ رکھیں گے:
يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ‏ ما أُنْزِلَ‏ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ- وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ
اے رسول ! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔(المائدہ 67)
اسی ترتیب سے کعبہ اور حج کی حضر ت ابراہیم کے توسط سے بنیاد رکھی گئی  لیکن کئی سال گزرنے کے ساتھ حج ابراہیمی ایک بار پھرحج جاہلی میں بدل گیا اور حضرت پیغمبر اسلامﷺاس دفعہ حج ابراہیمی کو دوبارہ زندہ کر نے پرمامور ہوئےلیکن اس کو زندہ کرنا (امامت و رہبری) کےساتھ اس کے تعلق کو  بتائے بغیر امکان پذیرنہیں تھا . اسی لئے پیغمبر ﷺدونوں کا ساتھ ساتھ ابلاغ کرتے ہیں-  حج ایک  ایسی فرصت اور ظرفیت کا  حامل ہے کہ اس میں امامت و ولایت کے پیغام کا ابلاغ کیا جاسکتا ہے یہ ایسا پیغام ہےکہ جس کا   ابلاغ رسالت  رسول خدا ﷺکے ساتھاس طرح کاگٹھ جوڑ ہے کہ اسکاابلاغ نہ ہونا رسالت کی تبلیغ نہ ہونے کےبرابر ہے۔
قربانی کا فلسفہ:
قربانی حج کے اعمال میں سے ایک واجب عمل ہے اور غیر حاجیوں کے لیے سنت عمل ہے کہ جس کی حقیقت اور اس کا فلسفہ بطور کامل مشخص نہیں ہے لیکن احادیث اور روایات میں اس بارے میں جو چیز آئی ہے اس کے مطابق اس کے فلسفے کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے:
قربانی نفسانی خواہشات سے مبارزہ کرنے کی علامت ہے:
عید قربان کے دن قربانی کرنا، حقیقت میں اپنی نفسانی خواہشات کی قربانی اور نفس امارہ کو ذبح کرنے کی علامت ہے- جس طرح حضرت ابراھیم علیہ السلام کے لیے خداوند متعال کی طرف سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کا حکم اس لئے تھا کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام اس عمل کی روشنی میں اپنے نفسانی تعلقات کے انتہائی اہم ترین عامل ، یعنی بیٹے کی محبت کے ساتھ مبارزہ کر کے خدا کی اطاعت کریں اورنفسانی خواہشات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں- اس بنا پر جس طرح اس حکم کی اطاعت نے، حضرت ابراھیم علیہ السلام اورحضرت اسماعیل علیہ السلام کے نفس امارہ کے زندان سے رہا ئی پانے میں ایک اہم تربیتی رول ادا کیا اور ان کے مقام و منزلت کو خدا کے پاس عظمت و بلندی بخشی، اسی بنا پر حجاج کے لئے قربانی بھی حقیقت میں ، دنیوی تعلقات اور مادی وابستگی سے آزاد کرانے میں ایک قسم کا جہاد نفس ہے-
غریبوں کی مدد
قرآن مجید کی آیات سے بخوبی معلوم ھوتا ہے کہ قربانی کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے گوشت سے صحیح استفادہ کیا جائے، قربانی کرنے والا بھی اس سےفائدہ اٹھانے اور فقیروں و محتاجوں تک بھی پہنچا یا جائے-
اسی طرح حج کے علاوہ جو لوگ پوری دنیا میں قربانی کرتے ہیں انہیں بھی یہ قربانی فقط اللہ کی خاطر خلوص سے انجام دینی چاہیے اور اپنے ارد گرد غریبوں کا خاص خیال کرنا چاہیے۔
پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں: "خداوند عالم نے قربانی کو واجب قرار دیا تاکہ مساکین اس کے گوشت سے استفادہ کیا جا سکے(بحارالانوار، علامہ مجلسی ، ج ۹۶، ص ۲۹۶ـ۲۹۸)
اسی بنا پر تاکید کی گئی ہے کہ قربانی کا حیوان موٹا اور تازہ ہو اور اس کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے ایک حصہ اپنے اہل و عیال کیلئے دوسرا حصہ فقراء اور نیاز مندوں کیلئے اور تیسرا حصہ صدقہ دیا جائے۔قرآن کریم میں بھی اس حوالے سے ارشاد ہے
وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمۡ فِیۡہَا خَیۡرٌ ٭ۖ فَاذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہَا صَوَآفَّ ۚ فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُہَا فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرۡنٰہَا لَکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ:
اور قربانی کے اونٹ جنہیں ہم نے تم لوگوں کے لیے شعائر اللہ میں سے قرار دیا ہے اس میں تمہارے لیے بھلائی ہے، پس اسے کھڑا کر کے اس پر اللہ کا نام لو پھر جب یہ پہلو پر گر پڑے تو اس میں سے خود بھی کھاؤ اور سوال کرنے والے اور سوال نہ کرنے والے فقیر کو کھلاؤ، یوں ہم نے انہیں تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکر کرو۔(الحج 36)
اس آیت سے مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں:
۱۔ وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ: قربانی کے اونٹ شعائر اللّٰہ میں سے ہیں کیونکہ اللہ نے انہیں شعائر میں سے قرار دیا ہے۔ جَعَلۡنٰہَا: لہٰذا کسی چیز کے شعائر اللہ میں سے ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعین ضروری ہے۔
۲۔ لَکُمۡ فِیۡہَا خَیۡرٌ: اسی شعائر اللّٰہ میں قرار دیا ہے کہ تم اس چیز کو راہ خدا میں قربان کرو جس میں تمہارے لیے بھلائی اور خیر ہے جس کی وجہ سے اونٹ کی قربانی میں زیادہ ایثار کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اسی ایثار کی بنیاد پر شاید اسے شعائر اللّٰہ میں سے قرار دیا گیا ہے تاکہ انسان میں ایثار کا جذبہ موجزن رہے۔
۳۔ فَاذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہَا صَوَآفَّ: انہیں ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لو جو اس ذبح کے عبادت ہونے کی بنیادی شرط ہے۔
۴۔ فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُہَا: واضح رہے اونٹ کو باندھ کر کھڑا کیا جاتا ہے پھر اس کے حلقوم میں نیزہ مارا جاتا ہے۔ جب زمین پر گر جاتا ہے، اس کی روح نکل جاتی ہے تو خود بھی کھاؤ اور محتاج کو بھی دو۔
۵۔ وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ: اس کا گوشت قانع اور معتر کو کھلاؤ۔ قانع: وہ شخص ہے جو، جو کچھ آپ نے اسے دیا ہے اس پر راضی ہوتا ہے اظہار ناراضی نہیں کرتا۔ الۡمُعۡتَرَّ: وہ شخص ہے جو دست سوال دراز کرتا ہے۔ (الکافی ۳: ۵۶۵)
۶۔ کَذٰلِکَ سَخَّرۡنٰہَا لَکُمۡ: ان اونٹوں کو اللہ نے تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ ان سے اپنی دنیوی زندگی کے لیے استفادہ کرو اور قربانی کر کے قرب الٰہی بھی حاصل کرو۔
3۔ گناہوں کی بخشش کا وسیلہ:ابوبصیر نےامام صادق علیہ السلام سے قربانی کی حکمت کے بارے میں سوال کیا تو حضرت نے فرمایا: "جب قربانی کے حیوانی کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر ٹپکتا ہے تو خدا قربانی کرنے والی کی تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے اور قربانی کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ کون پرہیزگار اور متقی ہے۔ (بحارالانوار، علامہ مجلسی ، ج ۹۶، ص ۲۹۶ـ۲۹۸،) قرآن مجید میں بھی ارشاد ہے: لَن يَنَالَ اللَّـهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّـهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ
ترجمہ:  نہ اس کا گوشت اللہ کو پہنچتا ہے اور نہ اس کا خون بلکہ اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے، اسی طرح اللہ نے انہیں تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ اللہ کی عطا کردہ ہدایت پر تم اس کی بڑائی کا اظہار کرو اور (اے رسول) آپ نیکی کرنے والوں کو بشارت دیں ۔(الحج 37)
بہ الفاظ دیگر، قربانی کو واجب کرنے کا خداوند متعال کا مقصد یہ ہے کہ آپ تقوی کے مختلف منازل طے کر کے ایک انسان کامل کی راہ میں گامزن ھو جائیں اور روز بروز خداوند متعال کے قریب تر ھو جائیں، تمام عبادتیں، تربیت کے کلاس ہیں- قربانی انسان کو جاں نثاری ، فدا کاری ، عفو و بخشش اور راہ خدا میں شہادت پیش کرنے کے جذبے کا درس دیتی ہے اور اس کے علاوہ حاجتمندوں اور محتاجوں کی مدد کرنے کا سبق سکھاتی ہے-
اگرہم حج کی قربانی کی صرف مذکورہ حکمتوں کو مد نظر رکھیں، اور قربانی کے گوشت سے کوئی استفادہ بھی نہ کیا جائے، پھر بھی یہ حکمتیں حاصل ھو سکتی ہیں-
موجب خیر و برکت: قربانی خدا کی نشانیوں اور شعائر الہی میں سے ہے اور صاحب قربانی کیلئے خیر و برکت کا سبب ہے۔: وَ الْبُدْن َ جَعَلْنَـَهَا لَکُم مِّن شَعَائرِ اللَّه ِ لَکُم ْ فِیهَا خَیْرٌ (ترجمہ: اور قربانی کے اونٹ جنہیں ہم نے تم لوگوں کے لیے شعائر اللہ میں سے قرار دیا ہے اس میں تمہارے لیے بھلائی ہے۔
تقرب خدا کا وسیلہ: قربانی خدا کی تقرب کا وسیلہ ہے۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ قربانی میں کیا کیا فوائد ہیں تو ہر سال قربانی کرتے اگرچہ قرض لینا ہی کیوں نہ پڑہے۔( بحارالانوار، علامہ مجلسی ، ج ۹۶، ص ۲۹۶ـ۲۹۸،)

 

 

تاریخی مناسبت: شہادت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
7 ذی الحج حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے جس کی مناسبت سے امام عصر ؑ اور ان کے تمام چاہنے والوں کو تعزیت عرض ہے۔امام محمد باقر علیہ السلام ان ائمہ ٔ اہل بیت علیہم السلام میں سے ہیں جن کو اللہ نے اپنا پیغام پہنچا نے کے لئے منتخب فر مایا ہے اور ان کو اپنے نبی وصایت کے لئے مخصوص قرار دیا ہے ۔
اس امام عظیم نے اسلامی تہذیب میں ایک انوکھا کردار ادا کیااور دنیائے اسلام میں علم کی بنیاد ڈالی ،امام نے یہ کا رنامہ اس وقت انجام دیا جب دنیائے اسلام میں ہر طرف فکری جمود تھا ،کو ئی بھی تعلیمی اور علمی مرکزنہیں تھا،جس کے نتیجہ میں امت مسلسل انقلابی تحریکوں سے دو چار ہورہی تھی جن میں سے کچھ بنی امیہ کے ظلم و تشدد اور بربریت سے نجات حاصل کرنا چا ہتے تھے اور کچھ لوگ حکومت پر مسلط ہو کر بیت المال کو اپنے قبضہ میں لینا چا ہتے تھے ۔انقلابات کے یہ نتا ئج علمی حیات کے لئے بالکل مہمل تھے اور ان کو عمومی زندگی کے لئے راحت کی کوئی امید شمار نہیں کیا جاسکتا ۔
امام کے نزدیک سب سے زیادہ اہم مقصدہمیشہ کے لئے اہل بیت کی فقہ اسلا می کو نشر کرنا تھاجس میں اسلام کی روح اور اس کا جوہر تھا ، امام نے اس کو زندہ کیا ،اس کی بنیاد اور اس کے اصول قائم کئے ، امام کی سیرت کے اعتزاز و فخر کیلئے یہ ہے کہ آپ نے فقہا ء کی تربیت کی جس سے وہ بافضیلت ہوئے ،ان کو مرکزیت کے اعزاز سے نوازا،اور امت نے فتوے معلوم کرنے کے لئے اِن ہی فقہا ء کی طرف رجوع کیا امام نے ابان بن تغلب کے لئے فرمایا:”مدینہ کی مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو فتوے بتایا کر ومیں اپنے شیعوں میں تمہارے جیسے افراد دیکھنا پسند کرتا ہوں ۔۔۔”۔
امام علیہ السلام کاحلم
امام محمد باقر علیہ السلام کی ایک نمایاں صفت حلم ہے ، اس سے متعلق ایک واقعہ یوں ہے کہ ایک شامی نے آپ کی مختلف مجلسیں اور خطبات سُنے جس سے وہ بہت متعجب اور متأثر ہوا اور اما م کی طرف یہ کہتے ہوئے بڑھا :جب میں نے آپ کی مجلسیں سنیں لیکن اس لئے نہیں کہ آپ کو دوست رکھتا تھا ،اور میں یہ نہیں کہتا: میں آپ اہل بیت سے زیادہ کسی سے بغض نہیں رکھتا ،اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اللہ اور امیرالمو منین کی اطاعت آپ سے بغض رکھنے میں ہے ،لیکن میں آپ کو ایک فصیح و بلیغ ، ادیب اور خوش گفتار انسان دیکھتا ہوں ،میں آپ کے حسنِ ادب کی وجہ سے ہی آپ سے رغبت کرنے لگا ہوں ۔ امام نے اس کی طرف نظر کرم ولطف و مہربانی سے دیکھا ،محبت و احسان و نیکی کے ساتھ اس کا استقبال کیا ، آپ نے اس کے ساتھ نیک برتاؤ کیا یہاں تک کہ اس شخص میں استقامت آئی ،اس پر حق واضح ہو گیا ، اس کا بغض امام کی محبت میں تبدیل ہو گیا وہ امام کا خادم بن گیا یہاں تک کہ اس نے امام کے قدموں میں ہی دم توڑا،اور اس نے امام علیہ السلام سے اپنی نماز جنازہ پڑھنے کیلئے وصیت کی ۔
امام نے اس طرزعمل سے اپنے جد رسول اسلام ﷺکی اتباع کی جنھوں نے اپنے بلند اخلاق کے ذریعہ لوگوں کے دلوں کوایک دوسرے سے قریب کیا ان کے احساسات اور جذبات کو ہم آہنگ کیا اور تمام لوگوںکو کلمہ توحید کے لئے جمع کیا ۔
آپ کاصبر
آپ نے دنیا کے مصائب اور گردش ایام کے المیہ پر صبر کیا ،صبر آپ کی ذات کا جزء تھا ، آپ نے تلواروں کی سختیوں میں بھی صبر کیا ،اپنے آباء طاہرین سے خلافت کے چھینے جانے ،اور حکومت کے منبروں اور اذانوںمیں اپنے آباء واجداد پر سب و شتم ہونے پر بھی صبر کیا ،آپ نے ان سب کو سنا اور ذرا بھی ترش روئی نہیں کی بلکہ صبر و تحمل سے کام لیا ،اپنے غصہ کو پی گئے ،اپنے تمام امور اللہ کے سپرد کر دئے ،وہی اپنے بندوں کے ما بین حق کے ساتھ فیصلہ کرنے والا ہے ۔
آپ نے سب سے زیادہ اس بڑی مصیبت پر صبر کیا کہ اموی حکومت آپ اہل بیت کے شیعوںپر بہت زیادہ ظلم و ستم کر رہی تھی ،ان کی آنکھیں نکال دیتی ،ہاتھ کاٹ دیتی ،ان کوگمان اور تہمت لگا کر قتل کردیتی تھی ،حالانکہ آپ ان کی مدد اور ان کو نجات دینے پر قادرنہیں تھے ۔
آپ کا عظیم صبر یہ تھا کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے تو آپ کے گھر میں سے چیخنے کی آواز آ ئی ،آپ کے بعض موالیوں نے جلدی سے وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ آپ کی ایک کنیز بچہ کو اپنے ہاتھوں پر لئے ہوئے تھی اچانک بچہ زمین پر گرگیا اور اس نے دم توڑ دیا ہے ،امام نے فرمایا : ”الحمد للّٰه علی ماأعطیٰ وله ما اخذَ۔ان لههم عن البکاء و خُذوا ف جهازه،واطلبوا السکينة و قولوالها (ای جارية )انتِ حرّة لِوَجْه اللّٰه لِمَا تَدَاخَلِکِ مِنَ الرَّوعِ’‘۔
”تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو اس نے دیا ہے وہ اسے بھی لے لے گا ،انھیں گریہ کرنے سے روکا ،اس (بچہ )کے کفن و دفن کا انتظام کرنے کے لئے فرمایا ،ان کو سکون و اطمینان سے رہنے کا حکم دیا ، اور اس (کنیز )سے فرمایا خدا کا خوف جو تیرے دل میں آگیا ہے میں نے اس کی وجہ سے تجھے راہ خدا میں آزاد کر دیا ہے ”
اس کے بعد امام آکر اپنے اصحاب سے گفتگو کرنے لگے کچھ دیر کے بعد آپ کے غلام نے آکر عرض کیا ہم نے اس کا جنازہ تیار کر دیا ہے آپ نے اپنے اصحاب کو اس ما جرے کی خبر دی اور اس کے جنازہ پر نماز پڑھنے اور اس کو دفن کر نے کا حکم دیا ۔
آپ کا ایک اور صبر جو آپ کی بلند شخصیت پر دلالت کر تا ہے وہ یہ ہے کہ آپ کا ایک بااثر فرزند تھا جو بیمار ہو گیا جس کی وجہ سے آپ سخت رنجیدہ ہوئے اور بچہ نے دم توڈیا ،امام نے نہایت صبر سے کام لیا ، آپ کے اصحاب نے عرض کیا :فرزند رسول! ہم آپ کے سلسلہ میں کچھ خوف کھا رہے ہیں آپ نے ان کو بڑے ہی اطمینان اور اللہ کے فیصلہ پر راضی رہتے ہوئے یوں جواب ددیا :”اِنّاندعُوااللّٰه فيما يحبُّ،فَاِذا وَقَعَ ما نکره لَمْ نُخَالِفِ اللّٰه فِيمَا بحِبُّ”۔
”بیشک ہم خدا کو اسی چیز کے سلسلہ میں پکارتے ہیں جس کو وہ چا ہتا ہے ،پس جس چیزکو ہم پسند نہیں کرتے ہیں وہ واقع ہوتی ہے ،تو ہم اس چیز میں اللہ کی مخالفت نہیں کرتے جس کو وہ دوست رکھتا ہے ”
علمی فیوض باقر العلومؑ:
امام کے علمی مبارزوں میں کفر و شرک ، ظلم وستم، جابر حاکموں کی تنبیہ، بے راہ روی اور اصلاح ، اجتماعی کی کوشش، جابر حکمرانوں کی ہدایات، اجتماعی عدل، تقیہ اور اس کی ضرورت شامل ہیں۔ امام باقر علیہ السلام کے دیگرعلمی فیوض میں احکام فقہ کی تدوین، اجتہاد اور استنباط کے احکام کا مرتب کرنا، تقیہ کی موجود گی میں شیعی اعتقاد اور سیاسی شعور کی تربیت ، فقہ، کلام اور مباحث اخلاق میں شاگردوں کی تربیت شامل ہے۔
امام باقر علیہ السلام کے القاب میں باقر سب سے زیادہ شہرت پایا۔ بقر کے معنی واشگاف کرنے کے ہیں ۔ آپ نے اسرار و رموز اور علوم وفنون کو اس قدر وسعت دی کہ اور ان کی اس طرح تشریح کی ہے کہ دوسرے افراد کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ شہید ثالف علامہ نور اﷲ شوستری کا کہنا ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا کہ امام محمد باقر علیہ السلام علوم و معارف کو اس طرح شگافتہ کریں گے جس طرح زراعت کے لئے زمین شگافتہ کی جاتی ہے۔ (مجالس المومنین ۔٩)
امام محمد باقر علیہ السلام اہلبیت کے پاکیزہ اور نورانی سلسلہ کی ایک فرد ہیں آپ کی ذات عالم اسلام کی وہ عظیم علمی ذات ہے جس نے قرآن کے حقائق پہلی بار اس واضح انداز میں بیان کئے اور علوم کی پرتوں کو کھولا۔ اس لئے آپ کا لقب ”باقر العلوم ”قرار پایا۔
علامہ طبری لکھتے ہیں کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے اور اس کی شہرت عام ہے کہ امام باقر علم و زہد اور شرف میں ساری دنیا پر فوقیت لے گئے ہیں۔ آپ سے علم القرآن ، علم الآثار، علم السنن اور دیگر علوم میں کوئی بھی فوق نہیں کیا۔ آپ پر آنحضرتﷺ نے جابر بن عبداﷲ انصاری کے ذریعہ سلام کہلایا تھا اور اس کی پیشنگوئی فرمائی کہ میرا فرزند”باقر العلوم ” ہوگا۔
امام باقر ؑ اور عزاداری سید الشہداء ؑ :
امام باقر علیہ السلام نے وقت آخر اپنی وصیتوں میں عزاداری سید الشہداء کے سلسلہ میں خصوصی اقدامات کا ذکر کیا۔ امام نے وصیت فرمائی کہ ان کے مال میں سے ٨٠٠ درہم عزاداری کے لئے مخصوص کردیئے جائیں اور ١٠ سال تک منیٰ میں امام کا ماتم کیا جائے۔ آخر منیٰ کی کیا خصوصیت تھی؟ اتفاقا ً امام کی شہادت کی تاریخ ٧ ذی الحجہ ہے یہ وہ دن ہے جب سارے عالم اسلام سے مسلمان ادائیگی حج کے لئے میدان عرفہ و منیٰ میں جمع ہوتے تھے۔ امام باقر علیہ السلام واقعہ کربلا کی عینی شاہد تھے۔ اس طرح امام کا ذکر حاضرین کو حکام وقت کے مظالم اور آل محمد کے فضائل اورکمالات سے آگاہی کا موقع فراہم کرتا تھا۔ مسلسل دس سال تک غم منانا واقعات کربلا کی تشہیر اور عزاداری سید الشہداء کے تحفظ اور فروغ کا بہترین ذریعہ بنا۔ اس واقعہ سے عزاداری کے اہتمام اور اس ضمن میں عائد ہونیوالے اخراجات کے جائزہ مصرف پر واضح روشنی پڑتی ہے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی چند احادیث
لا تُـقارِنْ ولا تُـواخِ أربعةً : الأحْمَقَ ، والبَـخيلَ ، والجَبانَ ، والكَذّابَ
چار قسم کے لوگو ں سے نہ تو میل ملاپ رکھو اور نہ ہی انھیں بھائی بنائو ،احمق، بخیل ،بزدل اور دروغ گو۔
(الخصال : ۲۴۴ / ۱۰۰)
بُنِيَ الإسلامُ على خَمْسٍ : على الصَّلاةِ ، والزَّكاةِ، والصَّومِ، و الحَجِّ، والوَلايةِ، ولَمْ يُنادَ بِشَيْءٍ كَما نُودِيَ بالوَلايةِ ۔(الكافي : ۲/ ۱۸/)
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: نماز، زکوٰۃ، روزہ،حج اور ولایت۔ لیکن جس قدر ولایت کے بارے میں تاکید کی گئی ہے اتنی کسی اور چیز کے بارے میں نہیں۔
المؤمنُ أصْلَبُ مِن الجَبلِ ، الجَبلُ يُسْتَقَلُّ مِنه ، والمؤمنُ لا يُسْتَقَلُّ مِن دِينِه شَيءٌ
(الكافي : ۲ / ۲۴۱ / ۳۷)
مومن پہاڑ سے زیادہ مضبوط ہوتاہے کیونکہ پہاڑ کو کاٹا جاسکتا ہے لیکن مومن کے دین کو کم نہیں کیا جا سکتا۔
ثلاثٌ لم يَجعلِ اللهُ عز و جل لأحدٍ فيهنّ رُخْصةً : أداءُ الأمانةِ إلى البَرِّ والفاجرِ ، والوفاءُ بالعَهدِ للبَرِّ والفاجرِ ، وبِرُّ الوالِدَينِ بَرَّينِ كانا أو فاجِرَينِ . (الكافي : ۲ / ۱۶۲ / ۱۵)
تین صفات ایسی ہیں جن میں خداوندعالم نے کسی قسم کی چھوٹ نہیں دی :نیک اور بدلوگوں کو ان کی امانت کی واپسی،اچّھے اور بُرے لوگوں سے کیے ہوئے وعدہ کی وفا اور نیک اور بدوالدین سے نیکی کا سلوک۔
كُلُّ عَينٍ باكيةٌ يومَ القيامةِ غيرَ ثلاثٍ : عينٌ سَهِرَتْ في سبيلِ الله ، وعينٌ فاضَـتْ مـِن خَشيَةِ الله ، وعَيـنٌ غَضّـتْ عـن مَحارِمِ الله.(بحارالانوار : ۷ / ۱۹۵ / ۶۲ )
بروز ِ قیامت تمام آنکھیں رورہی ہوں گی سوائے تین آنکھوں کے؛ ایک تو وہ آنکھ جو راہِ خدا میں جاگتی رہی ہو،دوسری وہ جس سے خوف ِخدا میں آنسو جاری ہُوئے ہوں اور تیسری وہ جو خدا کی حرام کردہ چیزوں کو دیکھنے سے بند ہوجایا کرتی تھی۔

 

قربانی کے اہم فقہی احکام
آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی دام ظلہ کے مقلدین توجہ فرمائیں کیونکہ آغا سیستانی دام ظلہ کے بعض فتاویٰ مشہور علماء کے فتاویٰ سےمختلف ہیں :
٭مستحب قربانی میں واجب قربانی (جو کہ حج کے دوران کی جاتی ہے)کی شرائط و اوصاف کا ہونا ضروری نہیں ہے۔
پس لنگڑا ،بھینگا،جس کا کان کٹا ہو ،جس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو یا بہت کمزور جانور ان سب کی قربانی ہوسکتی ہے اگرچہ افضل و احوط یہ ہے کہ جانورموٹا اور نقائص سے سلامت ہونا چاہئے ۔
٭جانور کے اندر عمر کے لحاظ سے درج ذیل عمروں کا ہونا احتیاط کی بنا پر ضروری ہے :
الف: اونٹ اگر پانچ سال سے کم ہو تو اس کی قربانی نہیں ہوسکتی ۔(پانچ سال کو پورا کرنا ضروری ہے )
ب: گائے اور بکرا یا بکری اگر دو سال سے کم ہوں تو ان کی قربانی نہیں ہو سکتی ۔ (دو سال کا پورا کرنا ضروری ہے )
ج: بھیڑ یا دنبہ اگر سات ماہ سے کم کی ہوتو اس کی قربانی بھی نہیں ہوسکتی۔(سات ماہ کاپورا کرنا ضروری ہے)
٭جس حیوان کو انسان خود پالے اس کی قربانی کرنا مکروہ ہے ۔
٭جانور کی قربانی میں شراکت جائز ہے خصوصا اس صورت میں کہ جب جانور کا ملنا مشکل ہو یا اس کی قیمتیں بہت زیادہ ہوں لیکن دنبہ میں شراکت کرنا جائز نہیں ہے ۔
(نوٹ: عام طور پر بہت سے علاقوں میں قربانی کے بیل کے 7 حصے کیے جاتے ہیں جبکہ اس کی شریعت میں کوئی پابندی نہیں ہے۔یہ فقط ایک رسمی چیز بن چکی ہے۔ موجودہ مہنگائی میں بہت سے لوگ قربانی میں شراکت کی حیثیت نہیں رکھتے لہٰذا بہتر ہے ایک بیل میں زیادہ حصے شراکت کے شامل کیے جائیں۔ جتنے زیادہ حصے ہوں گےاتنے زیادہ لوگوں کو اس ثواب میں شرکت کا موقع ملے گا اور سب کا خرچ بھی کم ہوگا۔ نیز قربانی کا مقصد ثواب ہے ناکہ زیادہ گوشت کا حصول)
٭کھال کوبطور صدقہ دینا مستحب ہے اور قصائی کو بطور اجرت دینا مکروہ ہے ۔
اور یہ جائز ہے کہ کھال کو انسان اپنے لئے جائے نماز بنائے یا اس سے گھر کا سازو سامان خریدے۔
٭قربانی کا افضل ترین وقت 10 ذی الحج طلوع شمس کے بعد سے عید نماز کی مقدار کے برابر وقت گزرنے کے بعد ہے اور تین دن تک کر سکتے ہیں اگرچہ پہلے دن کرنا زیادہ افضل ہے ۔
٭احوط اور افضل یہ ہے کہ تیسرا حصہ مسلمان فقراء کو دیا جائے باقی ایک حصہ اپنے لئے اور دوسرا حصہ کسی بھی مسلمان کو دینا جائز ہے ۔
٭ذبح جانور کے دو گردے اور شریانین کھانا مکروہ ہے ۔
٭ قربانی میں عقیقہ کی نیت کرنے سے عقیقہ بھی ادا ہوجاتا ہے لیکن ضروری ہے کہ جس کی طرف سے قربانی ہو اسی کی طرف سے عقیقہ کی نیت ہو اور اس میں اشتراک بھی نہ ہو۔
(بمطابق فتاویٰ آیۃ اللہ سید سیستانی دام ظلہ العالی)

تمت بالخیر

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button