خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:238)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک09فروری 2024ء بمطابق 28رجب المرجب1445ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: فلسفہ بعثتِ انبیاء
27 رجب المرجب کا بابرکت دن وہ عظیم دن ہے جس میں رسول خداﷺ کو اللہ کی جانب سے باقاعدہ مبعوث برسالت کیا گیا اگرچہ ہمارا ایمان ہے کہ آپؐ اس وقت بھی نبی تھے جب آدم پانی و مٹی کے درمیان تھے۔ اس موقع کی مناسبت سے آج ہم فلسفہ بعثت انبیاء سے متعلق چند اہم موارد پر گفتگو کریں گے۔
قیام عدل و انصاف:
رسولوں کو مبعوث کرنے کا سب سے بڑا مقصد، معاشرے میں لوگوں کی زندگیوں میں عدل کو قائم کرنا ہے کیونکہ عدل کے ذریعہ ایک معاشرہ پوری طرح سے پُرامن اور ایک اچھا معاشرہ بن سکتا ہے اسی لئے رسولوں کے مبعوث کرنے کی ایک اہم وجہ عدل کے قیام کو قرار دیا گیا ہے جس کے بارے میں خداوند متعال اس طرح فرمارہا ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ
بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں (سورۂ حدید، آیت:۲۵)
پس بعثت کا اہم اور بنیادی مقصد یہ رہا کہ انبیاء کی تعلیم اور تربیت سے لوگوں میں شعور آ جائے اور اپنے حقوق کی شناخت ہو جائے اور لوگ اس قابل ہو جائیں کہ وہ اپنے میں عدل و انصاف قائم کریں۔ چنانچہ سورہ نساء آیت ۱۳۵ میں فرمایا:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ۔۔
اے ایمان والو! انصاف کے سچے داعی بن جاؤ۔
اللہ کی عبادت مخلوق کی خدمت:
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانی ہدایت کے لئے انبیاء و مرسلین علیہم السلام کو بھیجا اگر ہم انبیاء علیہم السلام کی خصوصاً پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی بعثت کے مقاصد اور تعلیمات پر غور کریں تو ہمیں دو باتیں بہت ہی واضح طور پر ملیں گی:
ایک اللہ کی عبادت ، دوسری مخلوق کی خدمت۔
رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے متعلق قرآنی آیات اور روایات انہیں دو محور وں پر گردش کرتی نظر آتی ہیں۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں سے دو ہی حقوق کی ادائیگی چاہتا ہے ایک اس کا حق ہے یعنی اسکی عبادت اور دوسرے اس کے بندوں کا حق ہے یعنی مخلوق کی خدمت اور اس کے ایک حق کی ادائیگی کے لئے نہ جانے مخلوق کے کتنے حقوق کا لحاظ رکھنا ہوتا ہے۔
تعلیم و تربیت:
رسول اللہ ﷺ پر سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی اس میں اسی کی جانب متوجہ کیا گیا ہے۔ اگرچہ ظاہر اً اسمیں پروردگار کی معرفت پر گفتگو ہوئی ہے لیکن جہاں اس کی معرفت کا بیان ہے وہیں انسان کی حقیقت کی جانب بھی توجہ دلائی گئی ہے:
’’اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ۔ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ۔ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ‘‘
(اے رسول) پڑھیے! اپنے رب کے نام سے جس نے خلق کیا۔ اس نے انسان کو لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھیے! اور آپ کا رب بڑا کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے سے تعلیم دی۔ اس نے انسان کو وہ علم سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔
مذکورہ آیات میں جہاں اللہ کی معرفت کرائی جا رہی ہے وہیں تعلیم کی دعوت بھی دی جا رہی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو دنیا کے تمام ظالم و جابر اور ستمگر حکمرانوں میں ایک بات جو مشترکہ طور پر پائی جاتی تھی اور پائی جاتی ہے وہ عوام کو تعلیم سے دور کرنا ہے۔ خود جب ہمارے حضورؐ مبعوث بہ رسالت ہوئے تو عرب خصوصاً مکہ مکرمہ میں لوگوں کی جہالت کاکیا عالم تھا شائد اسی لئے قبل بعثت کے زمانے کو دور جاہلیت کہتے ہیں۔
ایک پڑھالکھا انسان جب حدود دین میں رہ کر سوچتا ہے تو اس کی فکر نسلوں کے لئے مشعل راہ بن جاتی ہے۔ شائد اسی لئے معصومین علیہم السلام کے نزدیک ایسی ایک گھنٹہ کی فکر ستر برس کی عبادت سے افضل ہے۔ لیکن اگر یہی انسان جاہل ہوا تو نہ کچھ سوچ سکتا ہے اورنہ ہی سمجھ سکتا ہے اور اگر سوچے گا بھی تو اس میں نہ چاہتے ہوئے بھی نقصانات موجود ہوں گے۔
انفرادی زندگی میں انقلاب لانا:
بعثت پیمبر ﷺکا بنیادی ہدف انسان کی انفرادی زندگی میں انقلاب اور تبدیلی پیدا کرنا ہے۔ اس بارے میں قرآن کریم میں کئی آیات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر سورہ آل عمران کی آیہ 164 میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۚ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ
ایمان والوں پر اللہ نے بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔
رسول ﷺ کی ہدایت سے مومنین نے ہی فائدہ اٹھایا۔ لہٰذا ان پر یہ عظیم احسان ہے کہ رسول ﷺ نے انہیں جاہلیت کی مذلت، حقارت اور تنگدستی سے نکال کر اقوام عالم کی قیادت و رہبری کا اہل بنایا۔
تذکیہ نفس:
اسی طرح سورہ جمعہ کی دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام کی بعثت کے مقاصد یوں بیان فرمائے:
"هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ "
وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے۔
یعنی آیات الہی کی تلاوت اور تزکیہ نفوس کے بعد رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا اہم مقصد تعلیم ہے۔ اس ارحم الراحمین خدا نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے رحمۃ للعالمینؐ کو بھیجا تا کہ انسانیت الہی تعلیم سے مالا مال ہو اور جب وہ تربیت و تزکیہ کے ساتھ تعلیم سے مالا مال ہوگی تو اپنے بنیادی حقوق کو پہچانے گی اور اس کی پاسبانی کرے گی اور دوسروں کے حقوق کو چھیننے کے بجائے انکو انکا حق دلوائے گی۔

فلسفہ بعثت از امیر المومنینؑ:
امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فلسفہ بعثت رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : فَبَعَثَ فیهِمْ رُسُلَه، وَ وَاتَرَ اِلَیْهِمْ اَنْبِیَائَهُ، لِیَسْتَاْدُوهُمْ مِیثاقَ فِطْرَتِهِ، وَ یُذَکِّرُوهُمْ مَنْسِىَّ نِعْمَتِهِ وَ یَحْتَجُّوا عَلَیْهِمْ بِالتَّبْلِیغِ، وَ یُثِیرُوا لَهُمْ دَفَائِنَ الْعُقُولِ ويُرُوهُمْ آيَاتِ الْمَقْدِرَةِ
پروردگار نے ان کے درمیان رسول بھیجے ، انبیاء کا تسلسل قائم کیا تاکہ وہ ان سے فطرت کی امانت کو واپس لیں اور انہیں بھولی ہوئی نعمت پروردگار کویاد دلائیں تبلیغ کے ذریعہ ان پر اتمام حجت کریں اور ان کی عقل کے دفینوں کوباہرلائیں اور انہیں قدرت الہی کی نشانیاں دکھلائیں ۔ (نهج البلاغه، خطبه ۱)
سماج سے برائیوں کا خاتمہ کرنا:
جب رسول اللہ ﷺ نے اعلان اسلام کیا تو اس وقت سماج میں جاہلانہ رسمیں سر چڑھ کر بول رہی تھیں اور بشریت اسکی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوا:
’’الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ ععَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِيَ أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ‘‘
(یہ رحمت ان مومنین کے شامل حال ہو گی)جو لوگ اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی امی کہلاتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور پاکیزہ چیزیں ان کے لیے حلال اور ناپاک چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور (گلے کے) طوق اتارتے ہیں، پس جو ان پر ایمان لاتے ہیں ان کی حمایت اور ان کی مدد اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔(سورۃ الاعراف)
حلال و حرام کی تمیز سکھانا:
اسی طرح قرآن کریم نے اس دور کی دیگر برائیوں اور رسموں کا بھی ذکر کیا ہے۔ جیسے سورہ انعام کی ایک سو اکیاونویں آیت میں ارشاد ہو رہا ہے:’’قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلاَّ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُم مِّنْ إمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلاَ تَقْرَبُواْ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّٰهُ إِلاَّ بِاالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ‘‘ یعنی اے رسول ان سے کہہ دیں کہ آؤ میں تمہیں بتاؤں وہ چیزیں جو تمہارے پروردگار نے تم پر حرام کی ہیں:
۱۔ یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔
۲۔ اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔
۳۔ اور اپنی اولاد کو فقر و فاقہ کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ ہم تمہیں بھی روزی دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے)۔
۴۔ اور بے شرمی و بے حیائی کے کاموں (جیسے جنسی غلط کاری) کے قریب بھی نہ جاؤ۔ خواہ وہ علانیہ ہوں اور خواہ پوشیدہ۔
۵۔ اور نہ قتل کرو کسی ایسی جان کو جس کے قتل کو خدا نے حرام قرار دیا ہے مگر (شرعی) حق (جیسے قصاص وغیرہ) کے ساتھ۔ یہ وہ ہے جس کی اللہ نے تمہیں وصیت کی ہے۔ تاکہ تم عقل سے کام لو۔
مذکورہ آیت میں جن برائیوں کی جانب اشارہ کیا گیا ہے اس میں پہلی بات شرک ہے جس کا تعلق پروردگار سے ہے باقی تمام باتوں کا تعلق اسکی مخلوقات سے ہے چاہے وہ والدین ہوں، اولاد ہو، کسی کی آبرو و حرمت ہو یا کسی کا بے گناہ قتل ہو۔ ان سب کا تعلق بندوں سے ہے اور انکا خاتمہ ہی انکی سب سے بڑی خدمت ہے اور انہیں برائیوں کو ختم کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے دین کا اعلان کیا تھا۔نہ صرف اخلاقیات بلکہ معاملات کے سلسلہ میں بھی اس سے اگلی آیت میں ارشاد ہو رہا ہے: ’’وَلاَ تَقْرَبُواْ مَالَ الْيَتِيمِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُواْ الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ لاَ نُكَلِّفُ نَفْسًاا إِلاَّ وُسْعَهَا وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُواْ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى وَبِعَهْدِ اللّهِ أَوْفُواْ ذَلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ‘‘ اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریقہ سے جو بہترین ہو یہاں تک کہ وہ اپنے سنِ رشد و کمال تک پہنچ جائے۔ اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری کرو۔ ہم کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔ اور جب کوئی بات کہو تو عدل و انصاف کے ساتھ۔ اگرچہ وہ (شخص) تمہارا قرابتدار ہی کیوں نہ ہو۔ اور اللہ کے عہد و پیمان کو پورا کرو۔ یہ وہ ہے جس کی اس (اللہ) نے تمہیں وصیت کی ہے شاید کہ تم عبرت حاصل کرو۔
ان آیت میں بشریت کو جن اہم امور کی جانب متوجہ کیا اسمیں خود انہیں کا فائدہ ہے، چاہے یتیموں کے مال کی حفاظت ہو، چاہے ناپ تول میں انصاف ہو یا لوگوں سے عادلانہ برتاؤ ہو۔ ان سب میں صرف و صرف انسانوں کا ہی فائدہ ہےاورجب ان احکام پرکو ئی عملی جامہ پہنایا جائے گا تو اس سے بڑھ کر بشریت کی کوئی خدمت نہیں ہو گی۔ یہ باتیں جہاں قرآنی احکام ہیں وہیں ہمارے نبی ﷺ کی سنت و سیرت بھی ہے کہ آپ نے سماج میں عادلانہ نظام کے لئے قیام کیا تا کہ ظلم وستم سے تڑپتی بشریت کو نجات دی جا سکے۔

امت واحدہ کا تصور:
انبیاء علیہم السلام خصوصا پیغمبر اسلامؐ کی بعثت کے اہم مقاصد میں سے ایک عالم بشریت کے لئے امت واحدہ کا تصور ہےاور انسانوں کے درمیان ہر طرح کے اختلاف کو مٹانا ہے، ہر تعصب کی دیوار کو گرانا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوا: ’’ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلاَّ الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءتْهُمُ الْبَيِّننَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُواْ لِمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللّهُ يَهْدِي مَن يَشَاء إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ‘‘
لوگ ایک ہی دین (فطرت) پر تھے، (ان میں اختلاف رونما ہوا) تو اللہ نے بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان امور کا فیصلہ کریں جن میں وہ اختلاف کرتے تھے اور ان میں اختلاف بھی ان لوگوں نے کیا جنہیں کتاب دی گئی تھی حالانکہ ان کے پاس صریح نشانیاں آچکی تھیں، یہ صرف اس لیے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے، پس اللہ نے اپنے اذن سے ایمان لانے والوں کو اس امر حق کا راستہ دکھایا جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button