سلائیڈرمحافلمناقب امام مھدی عجمناقب و فضائل

امام امانہؑ کے متعلق امیر المؤمنینؑ کی احادیث

زمین حجت سے خالی نہیں رہتی:
مکتب اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کے مطابق انسان امام معصومؑ کے بغیر نہیں رہتا اور زمین کبھی بھی خدا کی حجت حق سے خالی نہیں رہتی۔ کیونکہ امام معصومؑ کے بغیر انسان کے لئے صحیح ہدایت اور کمال میسر نہیں ہوسکتا۔ علاوہ ازیں نظام کائنات کا وجود اور دوام، خداوند متعال کی حجتوں کی برکت سے ہے۔ اس حقیقت پر رسول اللہؐ اور ائمۂ طاہرینؑ کی روایات میں متعدد بار تصریح و تاکید ہوئی ہے،البتہ امامؑ کی موجودگی کی کیفیت حالات پر منحصر ہے، کبھی تو حالات کسی حد تک سازگار ہوتے ہیں اور امام معاشرے میں اعلانیہ طور پر حاضر ہوتے ہیں اور لوگ بھی انہیں پہچانتے ہیں اور امام لوگوں کی دسترس میں ہوتے ہیں اور لوگوں کی بیچ رہتے ہیں مگر بعض حالات میں امامؑ کی زندگی کو خطرہ ہوتا ہے یا ان مصلحتوں کی بنا پر جو صرف خدا کے علم میں ہوتے ہیں ،مشیت الہی کے تقاضوں کے مطابق لوگوں کی آنکھوں سے دور ہوکر رہتے ہیں۔ اس حوالے سے متعدد روایات وارد ہوئی ہیں۔اس موضوع سے بیشتر آگہی کے لئے امام علیؑ کی دو حدیثیں نقل کی جارہی ہیں:
عن على علیه السلام قال: اللّٰهم انه لابدَّ لارضك من حجّة لك على خلقك، یهدیهم الى دینك و یعلّمهم علمك لئلا تبطل حجّتك و لا یضلّ أتباع اولیائك بعد اذ هدیتهم به اما ظاهر لیس بالمطاع او مكتتم مترقّب، ان غاب عن النّاس شخصُهُ فى حال هدایتهم فانّ علمه و آدابه فى قلوب المؤمنین مثبتة، فهم بها عاملون. (1)
امیرالمؤمنین علیؑ بارگاہ الہی میں دست بدعا ہوکر فرماتے ہیں: خدایا! تیری زمین کے لئے ہر وقت ضرورت ہے کہ روئے زمین پر تیرے بندوں کے اوپر تیری حجت ہو جو لوگوں کو تیرے دین کی طرف ہدایت و راہنمائی فراہم کردے اور لوگوں کو تیرے علم کی تعلیم دیا کرے تا کہ تیری حجت باطل نہ ہو اور تیرے اولیاء کے پیروکار تیری طرف سے ہدایت پانے کے بعد گمراہی اور ضلالت سے بچے رہیں۔ تیری حجت یا تو ظاہر و آشکار ہے جبکہ لوگ اس کی اطاعت نہیں کرتے یا پھر آنکھوں سے اوجھل ہے اور لوگ اس کا انتظار کرتے ہیں۔کیونکہ لوگوں کی ہدایت ہی کی حالت میں اس کا جسم اور ظاہری وجود لوگوں سے اوجھل اور غائب ہے مگر اس کا علم اور اس کے آداب مؤمنین کے قلوب میں برقرار اور استوار ہوتے ہیں اور وہ اس علم اور ان آداب پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔
اللّٰهم بلى لا تخلو الارض من قائم لِلّٰه بحجّةٍ: امّا ظاهراً مشهوراً و امّا خائفاً مَغموراً لئلا تبطُلَ حجج اللّٰه و بیناته و كم ذا و أین اولئك واللّٰهِ الاقلّون عدداً و الاعظمون عنداللّٰه قدراً یحفظُ اللّٰه بهم حُججه و بیناته… اولئك خلفاء اللّٰه فى ارضهِ و الدعاةِ الى دینهِ. (2)
… خدایا! بےشک ایسا ہی ہے، زمین حق کے لئے قیام کرنے والے امامؑ سے خالی نہیں رہتی،وہ یا تو آشکار و ظاہر اور معروف و مشہور ہوتا ہے یا خائف اور نہاں، تا کہ خدا کی روشن حجتیں اور دلیلیں (یعنى دین کے اصول و احکام اور انبیاء کی تعلیمات) نیست و نابود نہ ہوں. اور یہ کہ ان کی تعداد کتنی ہے اور وہ کہاں ہیں؟ خدا کی قسم ان کی تعداد بہت کم ہے مگر ان کی قدر و منزلت خدا کے نزدیک بہت عظیم ہے۔ خدا ان کے ذریعے اپنی حجتوں اور روشن دلیلوں کی حفاظت کرتا ہے۔ وہ روئے زمین پر خدا کے جانشین اور نمائندے ہیں اور لوگوں کو دین اور خدا کے احکام و قوانین کی طرف بلاتے ہیں…
مہدی علیہ السلام کے اوصاف:
حضرت امیرؑ کی بعض روایات میں امام زمانہؑ کی روحانی اور اخلاقی خصوصیات بیان ہوئی ہیں، مثال کے طور اس روایت کی طرف توجہ فرمائیں:
ثم رجع الى صفة المهدى علیه السلام فقال: اوسعكم كهفا و اكثركم علما و اوصلكم رحما، اللهم فاجعل بیعته خروجا من الغمّة و اجمع به شمل الامة… (3)
حضرت امیرؑ نے اپنے ایک خطبہ کو جاری رکھتے ہوئے حضرت مہدیؑ کے اوصاف پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں: آپؑ کا آستانہ بےپناہ لوگوں کو پناہ دینے کے سلسلے میں تم سب کے آستانوں سے وسیع تر ہے۔ آپؑ کا عمل و دانش تم سب سے زیادہ ہے۔ اور تم سب سے زیادہ صلۂ ارحام کا لحاظ رکھنے والے (اور اقارب کا حق قربت ادا کرنے والے) ہیں۔ پروردگارا! ان کی بیعت کو غم و اندوہ کے پردوں سے نکلنے کا سبب قرار دے اور امت اسلامی کے اختلاف و تفرقے کو آپؑ کے ہاتھوں یگانگت و یکجہتی میں بدل دے…
عن اصبغ بن نباته قال: سمعت امیرالمؤمنین علیه السلام یقول: صاحب هذا الامر الشریدُ الطریدُ الفرید الوحید. (4)
اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں: میں نے امیرالمؤمنینؑ کو فرماتے ہوئے سنا: صاحب الامر (مہدیؑ) وہ ہیں جو دور افتادہ سرزمینوں میں سکونت اختیار کرتے ہیں اور لوگوں سے دوری اختیار کرکے تنہائی میں زندگی بسر کرتے ہیں۔
امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت
حضرت مہدیؑ کی زندگی کے اہم واقعات میں سے ایک نہایت اہم واقعہ غیبت کا وقوع ہے۔یہ واقعہ دو مرحلوں میں رونما ہوا ہے۔ غیبت صغری جو 260 ہجری میں امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے بعد واقع ہوئی اور 329 ہجری تک جاری رہی۔غیبت کبری، جو 329 ہجری میں غیبت صغری کے خاتمے پر شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے۔امیرالمؤمنینؑ کے ارشادات میں اس موضوع اور دوران غیبت پیش آنے والے واقعات کی طرف بھی اشارے ہوئے ہیں۔ایک روایت کے ضمن میں جسے حضرت عبد العظیم حسنی نے سلسلہ سند کے ساتھ علی بن ابیطالبؑ سے نقل کیا ہے :
عن امیرالمؤمنین علیه السلام قال: للقائم منّا غیبة امدها طویل كانّى بالشیعة یجولون جولان النّعم فى غیبته یطلبون المرعى فلا یجدونه، ألا فمن ثبت منهم على دینه و لم یقْسُ قلْبُهُ لطول امد غیبة امامه فهو معى فى درجتى یوم القیامة. (5)
امیرالمؤمنینؑ نے فرمایا: ہمارے قائم کے لئے ایک غیبت ہے جس کی مدت بہت طویل ہوگی۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے شیعیان اس زمانے میں بِن مالک ریوڑ کی مانند دشت و صحرا میں منتشر ہوکر چراگاہ و مرتع کی تلاش میں ہیں، مگر ان کی یہ تلاش بےسود ہے۔ [یعنی امام کو ڈھونڈنے نکلتے ہیں مگر آپؑ تک نہیں پہنچ پاتے] آگاہ رہو! اس دور میں ان (شیعیان) میں سے جو بھی اپنے دین اور عقیدے پر استوار رہے اور اپنے امامؑ کی طویل غیبت کی وجہ سے سنگدلی اور قساوت قلبی کا شکار نہ ہو، وہ روز قیامت میرے پاس اسی مقام پر ہوگا جہاں میں ہونگا۔
عن الاصبغ بن نباته عن اميرالمؤمنين عليه السلام انّه ذكر القائم عليه السلام فقال: أما ليغيبَنَّ حتّى يقولَ الجاهلُ: ما للّه في آلِ محمّدٍ حاجةٌ. (6)
اصبغ بن نباتہ سے مروی ہے کہ ایک دن امیرالمؤمنینؑ نے حضرت قائمؑ کو یاد کیا اور فرمایا: آگاہ رہو کہ ان کی غیبت طویل ہوگی یہاں تک کہ [جو لوگ خدا کی مصلحتوں سے] آگہی نہیں رکھتے کہہ دیں گے: خدا کو آل محمدؐ کی حاجت نہیں ہے اور آل محمدؐ کے لئے خدا کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے. یعنی یہ کہ نادان لوگ امامؑ کی طویل غیبت کی وجہ سے آپؑ کے ظہور سے مأیوس اور ناامید ہوجائیں گے۔
امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا سبب:
امام عصرؑکی غیبت کے لئے اہل بیت علیہم السلام کی روایات کے مجموعے میں متعدد حکمتیں اور اسباب بیان ہوئے ہیں۔ امیرالمؤمنینؑ کی روایات میں کم از کم تین اسباب بیان ہوئے ہیں:اہل ہدایت کا اہل گمراہی و ضلالت سے پہچانا جانا، امام کی گردن پر سلاطین اور حکمرانوں کی بیعت کا نہ ہونا لوگوں کی کوتاہیاں، اورظلم و ستم۔
اِنّ القائم منّا اذا قام لم یكن لاحد فى عنقه بیعة فلذلك تخفى ولادته و یغیب شخصه. (7)
بتحقیق ہمارے قائمؑ جب قیام کریں گے کسی کی بیعت ان کی گردن پر نہ ہوگی،اسی وجہ سے ان کی ولادت مخفی ہوگی اور خود بھی لوگوں کی نظروں سے غائب ہوجائیں گے۔
فقال على علیه السلام …اما واللّٰه لَأقتلنَّ انا و ابناى هذان و لیبعثنّ اللّٰه رجلا من ولدى فى آخر الزمان یطالب بدمائنا و لیغیبنّ عنهم تمییزا لاهل الضلالة حتى یقول الجاهل ما للّٰه فى آل محمد من حاجة. (8)
امیرالمؤمنینؑ نے امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی موجودگی میں فرمایا: لوگو! آگاہ رہو کہ میں اور میرے یہ دو بیٹے قتل کئے جائیں گے۔ اور آخر الزمان میں خداوند متعال میری اولاد میں سے ایک مرد کو مبعوث فرمائے گا تا کہ ستمگروں سے ہمارے خون کا مطالبہ کریں، وہ لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہوں گے تا کہ گمراہی اور ضلالت میں مبتلا لوگ دوسروں سے پہچانے جائیں [اور ان کی تمیز و تشخیص ممکن ہوجائے] اور یہ غیبت اتنی طویل ہوجائےگی کہ نادان لوگ کہہ دیں گے کہ خداوند متعال کا آل محمدؐ کے لئے کوئی منصوبہ ہے نہیں ہے۔
ان اميرالمؤمنين عليه السلام قال عَلى منبر الكوفة…: واعلموا ان الارض لا تخلو من حجة للّٰه و لكن اللّٰه سيعمى خلقه منها بظلمهم و جورهم و اسرافهم على انفسهم. (9)
مفضل ‏بن عمر نے امام صادقؑ سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: ایک روز امیرالمؤمنینؑ نے مسجد کوفہ کے منبر پر رونق افروز ہوکر فرمایا: … لوگو! جان لو کہ زمین کبھی بھی حجت خدا (امام معصوم) سے خالی نہ رہےگی، لیکن خداوند متعال بہت جلد لوگوں کو ظلم و ستم اور اپنے اوپر اسراف کی وجہ سے اپنی حجت کے دیدار سے محروم فرمائے گا۔[یعنی لوگ اپنے ہی اعمال کی وجہ سے مستقبل میں امام معصومؑ کی ملاقات سے محروم ہوجائیں گے] اصحاب مہدی علیہ السلام:
امام زمانہؑ کے اصحاب کے اوصاف، ان کی تعداد، ان کے شہروں، امامؑ کے ساتھ ان کے ربط و تعلق اور آپؑ کی بیعت و اتباع کی کیفیت کے بارے میں متعدد روایات وارد ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
عن حكيم بن سعد عن اميرالمؤمنين عليه السلام قال: اصحاب المهدىّ شبابٌ لاكهول فيهم الّا مثل كحل العين و الملح فى الزاد و اقل الزاد الملح. (10)
حکیم بن سعد امیرالمؤمنینؑ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؑ نے فرمایا:مہدیؑ کے اصحاب سب نوجوان ہیں،ان کے درمیان بوڑھا شخص نہیں پایا جاتا مگر آنکھ میں سرمے یا طعام میں نمک کی مقدار کے برابر جبکہ طعام میں سب سے کم مقدار نمک کی ہوتی ہے۔
قال اميرالمؤمنين عليه السلام: …ثم اذا قام تجتمع اليه اصحابه على عدّة اهل بدر و اصحاب طالوت و هم ثلثمأة و ثلاثة عشر رجلا، كلّهم ليوث قد خرجوا من غاباتهم مثل زبر الحديد لو انّهم همّوا بازالة الجبال الرّواسى لازالوها عن مواضعها فهم الذين وحّدوا اللّٰه به حق توحيده، لهم بالليل اصوات كاصوات الثواكل خوفا من خشية اللّٰه تعالى، قوّام الليل، صوّام النهار، و كانّما ربّاهم أبٌ واحدةٌ قلوبهم مجتمعة بالمحبة و النصيحة… (11)
امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں: پھر جب وہ قیام کریں تو ان کے اصحاب ان کے گرد جمع ہونگے اوران کی تعداد اصحاب بدر اور اصحاب طالوت جتنی اور 313 ہوگی۔وہ سب اپنی کمینگاہوں سے نکلے ہوئے شیروں کی مانند ہیں،لوہے کے ٹکڑوں کی مانند،اگر وہ سخت اور مضبوط پہاڑوں کواکھاڑنے کا ارادہ کریں تو یقیناً انہیں اکھاڑ دیں گے۔پس یہی وہ لوگ ہیں جو مہدیؑ کے ذریعے خدا کی یکتائی پر ایمان رکھتے ہیں اوریکتا پرستی کا حق ادا کرتے ہیں،راتوں کو ان کی صدائیں ان عورتوں کی مانند ہیں جن کا جوان فرزند مرگیا ہو اور خدا کے خوف سے رات کو حالت نماز میں رہتے ہیں اوردنوں کو روزہ رکھتے ہیں،گویا ایک باپ اور ایک ماں نے ان کی پرورش کی ہے،محبت اور نصیحت و خیرخواہی کے سلسلے میں ان کے دل ایک اور متحد ہیں۔

مآخذ و منابع:
1). کمال‏الدین، ج 1ص 302ح .11
2). نهج‏البلا غہ فیض الاسلام، حکمت 139ص .1158
3). غیبة نعمانى، ص 212 – 214، بحار الانوار، ج 51ص 115
4). کمال الدین، ج 1ص 303 اثباة آلهداة، ج 3ص 571
5). کمال الدین، ج 1ص 303ح 14
6). کمال الدین، ج 1ص 302ح  .9
7). بحار الانوار، ج 51ص 109و 110ح 1
8). غیبت نعمانى، ص 140و 141
9). بحار الانوار، ج 51ص 112و 113ح 8
10). بحارالانوار، ج 52ص 333ح 63
11). نوائب الدّهور فى علائم الظهور، ج 2ص 114ط کتابخانه صدوق.

http://alhassanain.org/urdu/?com=content&id=599

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button