خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:157)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 08 جولائی 2022ء بمطابق 8 ذی الحج1443 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
حج اسلام کی عملی عبادات میں سے ایک ہے جس کے معنی مکہ جا کر خانہ کعبہ کی زیارت اور اس سے متعلق مخصوص اعمال کو انجام دینا ہے۔ حج ایک عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ اجتماعی، اقتصادی اور سیاسی پہلو سے بھی اسلام کے اہم شعائر میں شمار ہوتا ہے۔حج ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ واجب ہے۔حج مسلمانوں کا ایک بہت عظیم اجتماع ہے۔حج کے بہت سے فوائد ہونے کے علاوہ امامت اور ولایت سے جن امور کا بہت گہرا اور مضبوط تعلق ہے ان میں سے ایک "حج” ہے .حج ایک ایسی عبادت ہے جس کا انفرادی ،اجتماعی ،سیاسی ،اقتصادی ،ثقافتی اور بہت سی جہتوں سے ابتدا آفرینش سے گزشتہ امتوںمیں امامت اور رہبری سے تعلق رہا ہے اورآخری امام و حجت خدا علیہ السلام کے ظہور تک اس سے گہرا تعلق رہے گا۔
عبادتوں میں سے شاید کوئی ایسی جامع عبادت نہیں مل سکتی ہے جوحج کی طرح امامت اور رہبری سے اس حد تک وابستہ ہو۔
سر زمین وحی اور حرم خدا کےچپے چپے اور حج کے معارف و منا سک (اعمال) کے اندر امامت کو واضح اور روشن طور پرمشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
یہاں ہم کوشش کریں گے کہ امامت و حج کے اس گہرے تعلق کو واضح کیا جائے تاکہ اس کے مختلف اثرات اور برکات پر نظر رہے اور اس رابطے کے نہ ہونےسے حاصل ہونے والے عواقب اور نقصانات سے غافل نہ رہیں۔
امامت اور قرآن
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مشکل امتحانات مثال کے طور اپنے فرزند کو ذبح کرنا ،سے گزرنے کے بعد ملنے والی امامت کا کیا معنٰی و مفہوم بنتا ہے؟توجواب میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ امام کا ایک معنی یہ ہے کہ
امام وہ ہے جو اپنے کردار اور گفتا ر میں دوسروں کے لیئے نمونہ عمل ہو۔اور لوگ زندگی کے تمام امور میں اسکی اقتداء و پیروی کریں۔ کعبہ اور حج کی بنیاد رکھنے کے بعد حضرت ابراہیمؑ علیہ السلام کا ایسے مقام تک پہنچنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آپ ؑسے لئے جا نے والے نمو نوں میں سے واضح و روشن ترین نمونہ حج ہے اور ضروری ہے کہ حج کے مناسک و اعمال میں آپؑ کی پیروی کی جائے۔حج میں یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنی تمام وابستگیوں سے ہا تھ اٹھا ئیں اور اپنی ہستی اور وجود کو اپنے حقیقی محبوب کے سپرد کریں۔ اگرچہ وابستگی اپنے عزیز فرزند سے کیوں نہ ہو۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام نے اپنے فرزندوں کیلئے بھی مقام و منزلت کی درخواست کی اور آپ کے فرزندان اگرچہ امامت کی تمام خصو صیات حاصل نہ کرسکے لیکن خدا کی بارگاہ میں اعلیٰ مقام ضرور پایا۔
اسلام اور امامت کا حج سے رابطہ
کعبہ اور حج کا امامت سے تعلق اسکی ابتدائی تاسیس وتعمیر کیساتھ منحصر نہیں ہے بلکہ یہ تعلق تسلسل کےساتھ برقرارہے.یہ ایک ایسا تعلق ہے جو رحلت پیغمبر اکرم ﷺکےبعدسرزمین وحی اور حج کے موسم میں معاشرے کے رہبر وامام کےابلاغ اور مستحکم کرنے کا تقا ضا کرتا ہے۔
رسول خداکو ۱۰ہجری میں حکومت اسلامی قائم ہونے کے بعد پہلی دفعہ حج کیلئے جانے اور اعمال حج لوگوں کو سکھانے کا حکم ہوا۔وَ أَذِّنْ‏ فِي‏ النَّاسِ‏ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجالًا وَ عَلى‏ كُلّ ضامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ اور لوگوں میں حج کے لیے اعلان کرو کہ لوگ آپ کے پاس دور دراز راستوں سے پیدل چل کر اور کمزور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں۔اس سفر میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی امامت اور رہبری کو آپﷺکے جانشین کے طور پر لوگوں کے سامنےاعلان کرنے کا حکم ہوا ۔
یہ ایک ایسا پیغام تھا کہ اس کے اعلان کے بغیر کار رسالت کا العدم تھا. امام محمدباقر علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:
حَجَّ رَسُولُ اللَّهِ ص مِنَ الْمَدِينَةِ وَ قَدْ بَلَّغَ‏ جَمِيعَ‏ الشَّرَائِعِ‏ قَوْمَهُ غَيْرَ الْحَجِّ وَ الْوَلَايَةِ فَأَتَاهُ جَبْرَئِيلُ(ع) فَقَالَ لَهُ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ جَلَّ اسْمُهُ يُقْرِؤُكَ السَّلَامَ وَ يَقُولُ لَكَ إِنِّي لَمْ أَقْبِضْ نَبِيّاً مِنْ أَنْبِيَائِي وَ لَا رَسُولًا مِنْ رُسُلِي إِلَّا بَعْدَ إِكْمَالِ دِينِي وَ تَأْكِيدِ حُجَّتِي وَ قَدْ بَقِيَ عَلَيْكَ مِنْ ذَاكَ فَرِيضَتَانِ مِمَّا تَحْتَاجُ أَنْ تُبَلِّغَهُمَا قَوْمَكَ فَرِيضَةُ الْحَجِّ وَ فَرِيضَةُ الْوَلَايَةِ وَ الْخِلَافَةِ مِنْ بَعْدِكَ فَإِنِّي لَمْ أُخَلِّ أَرْضِي مِنْ حُجَّةٍ وَ لَنْ أُخَلِّيَهَا أَبَداً فَإِنَّ اللَّهَ جَلَّ ثَنَاؤُهُ يَأْمُرُكَ أَنْ تُبَلِّغَ قَوْمَكَ الْحَجَّ وَ تَحُجَّ وَ يَحُجَّ مَعَكَ‏ مَنِ اسْتَطاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا مِنْ أَهْلِ الْحَضَرِ وَ الْأَطْرَافِ وَ الْأَعْرَابِ وَ تُعَلِّمَهُمْ مِنْ مَعَالِمِ حَجِّهِمْ مِثْلَ مَا عَلَّمْتَهُمْ مِنْ صَلَاتِهِمْ وَ زَكَاتِهِمْ وَ صِيَامِهِمْ و...
رسول خدا ﷺمدینہ سے حج پر تشریف لے گئے اس وقت آپ حج اور ولایت کے علاوہ تمام احکام اور شرائع الہٰی کا ابلاغ کرچکے تھے ،اس وقت جبرئیل آپ کی خدمت میں آئے اور کہا :اے محمدﷺ :خدا وندمتعال آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے میں نے تمام انبیا ء و رُسل میں سے کسی نبی یا رسول کو دین مکمل اور حجت پر تاکید کرنے سے قبل اسکی روح قبض نہیں کی ہے،اسوقت آپ کے دین کے دو فرائض باقی رہتے ہیں، آپ پر لازم ہے کہ انہیں اپنی قوم تک پہنچائیں وہ حج اور آپ کے بعد والی خلافت و ولایت کے فرائض ہیں،میں نے اپنی زمین کو کبھی اپنی حجت سے خالی نہیں رکھا ہے اور نہ کبھی خالی رکھوں گا ۔ پس خداوند متعال آپکو حکم دیتا ہے کہ آپ اپنی قوم کو حج کی تبلیغ کریں ۔ اور آپ بھی حج بجا لائیں اور مدینہ اور اس کے اطراف کے لوگ اور اعراب میں سے صا حبان استطاعت بھی آپ کے ساتھ حج بجالا ئیں اور انہیں حج کے آداب کی تعلیم دیں جس طرح آپ نےانہیں نماز، زکات اور روزے وغیرہ کی تعلیم دیاو ر آداب سکھائے(احتجاج طبرسی،ج:1،ص:134)
آیا خداکےاسی پیغمبر او ررسول ﷺ کو معاشرے کے دواہم امور (مناسک حج) اور(ولایت و امامت)کوایک سفرکےاندرابلاغ کرنےکاحکم ہونااندوحقیقتوں کےدرمیان رابطےکی حکایت نہیں کرتا؟
پیغمبر اکرم ﷺعازم سفر ہو تے ہیں اور اعمال و مناسک حج بجالاتے ہیں۔ پہلے عرفات میں پھر منٰی میں مسلمانوں کے عظیم اجتماع میں آپؑ دوسرے پیغام الہٰی (ولایت)کے ابلاغ پر مامور ہوتے ہیں لیکن منافقین اور دشمنوں کی سازشوںاور ان کی بغاوت کا خوف ہے یہاں تک کہ ( خداوند متعال کی طرف سے) خوف و امید سے بھرا ایک خطاب صادر ہو تا ہے کہ اگر اس پیغا م کونہ پہنجایا تو گویا آپ ﷺ نے اپنی رسالت انجام ہی نہیں دی اور ہم تمہیں لوگوں کی شر سے محفوظ رکھیں گے:
يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ‏ ما أُنْزِلَ‏ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ- وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ
اے رسول ! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔(المائدہ 67)
اسی ترتیب سے کعبہ اور حج کی حضر ت ابراہیم کے توسط سے بنیاد رکھی گئی لیکن کئی سال گزرنے کے ساتھ حج ابراہیمی ایک بار پھرحج جاہلی میں بدل گیا اور حضرت پیغمبر اسلامﷺاس دفعہ حج ابراہیمی کو دوبارہ زندہ کر نے پرمامور ہوئےلیکن اس کو زندہ کرنا (امامت و رہبری) کےساتھ اس کے تعلق کو بتائے بغیر امکان پذیرنہیں تھا . اسی لئے پیغمبر ﷺدونوں کا ساتھ ساتھ ابلاغ کرتے ہیں- حج ایک ایسی فرصت اور ظرفیت کا حامل ہے کہ اس میں امامت و ولایت کے پیغام کا ابلاغ کیا جاسکتا ہے یہ ایسا پیغام ہےکہ جس کا ابلاغ رسالت رسول خدا ﷺ کے ساتھاس طرح کاگٹھ جوڑ ہے کہ اسکاابلاغ نہ ہونا رسالت کی تبلیغ نہ ہونے کےبرابر ہے۔

تاریخی مناسبت: شہادت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
7 ذی الحج حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے جس کی مناسبت سے امام عصر ؑ اور ان کے تمام چاہنے والوں کو تعزیت عرض ہے۔
امام محمد باقر علیہ السلام ان ائمہ ٔ اہل بیت علیہم السلام میں سے ہیں جن کو اللہ نے اپنا پیغام پہنچا نے کے لئے منتخب فر مایا ہے اور ان کو اپنے نبی وصایت کے لئے مخصوص قرار دیا ہے ۔
اس امام عظیم نے اسلامی تہذیب میں ایک انوکھا کردار ادا کیااور دنیائے اسلام میں علم کی بنیاد ڈالی ،امام نے یہ کا رنامہ اس وقت انجام دیا جب دنیائے اسلام میں ہر طرف فکری جمود تھا ،کو ئی بھی تعلیمی اور علمی مرکزنہیں تھا،جس کے نتیجہ میں امت مسلسل انقلابی تحریکوں سے دو چار ہورہی تھی جن میں سے کچھ بنی امیہ کے ظلم و تشدد اور بربریت سے نجات حاصل کرنا چا ہتے تھے اور کچھ لوگ حکومت پر مسلط ہو کر بیت المال کو اپنے قبضہ میں لینا چا ہتے تھے ۔انقلابات کے یہ نتا ئج علمی حیات کے لئے بالکل مہمل تھے اور ان کو عمومی زندگی کے لئے راحت کی کوئی امید شمار نہیں کیا جاسکتا ۔
امام کے نزدیک سب سے زیادہ اہم مقصدہمیشہ کے لئے اہل بیت کی فقہ اسلا می کو نشر کرنا تھاجس میں اسلام کی روح اور اس کا جوہر تھا ، امام نے اس کو زندہ کیا ،اس کی بنیاد اور اس کے اصول قائم کئے ، آپ کے پاس ابان بن تغلب ،محمد بن مسلم ، برید،ابو بصیر،فضل بن یسار ،معروف بن خربوذ، زرارہ بن اعین وغیرہ جیسے بڑے بڑے فقہاء موجود رہتے تھے وہ فقہا جنھوں نے ان کی تصدیق کیلئے روایات جمع کیں اور ان کی ذکاوت و ذہانت کا اقرار کیا،اور اہل بیت کے علوم کی تدوین کا سہرا ان کے سر بندھتا ہے ،اگر یہ نہ ہوتے تو وہ بڑی فقہی ثروت جس پر عالم اسلام فخر کرتا ہے سب ضائع و برباد ہو جا تی ۔
امام کی سیرت کے اعتزاز و فخر کیلئے یہ ہے کہ آپ نے فقہا ء کی تربیت کی جس سے وہ بافضیلت ہوئے ،ان کو مرکزیت کے اعزاز سے نوازا،اور امت نے فتوے معلوم کرنے کے لئے اِن ہی فقہا ء کی طرف رجوع کیا امام نے ابان بن تغلب کے لئے فرمایا:”مدینہ کی مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو فتوے بتایا کر ومیں اپنے شیعوں میں تمہارے جیسے افراد دیکھنا پسند کرتا ہوں ۔۔۔”۔

امام علیہ السلام کاحلم
امام محمد باقر علیہ السلام کی ایک نمایاں صفت حلم ہے ،سوانح حیات لکھنے والوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ امام نے اس شخص پر ستم روا نہیں سمجھا جس نے آپ کے ساتھ برا سلوک کیا ،آپ ہمیشہ ان سے خو شروئی اور احسان کے ساتھ پیش آتے ،مؤ رخین نے آپ کے عظیم حلم کی متعدد صورتیں روایت کی ہیں ۔اُن ہی میں سے ایک واقعہ یوں ہے کہ ایک شامی نے آپ کی مختلف مجلسیں اور خطبات سُنے جس سے وہ بہت متعجب اور متأثر ہوا اور اما م کی طرف یہ کہتے ہوئے بڑھا :جب میں نے آپ کی مجلسیں سنیں لیکن اس لئے نہیں کہ آپ کو دوست رکھتا تھا ،اور میں یہ نہیں کہتا: میں آپ اہل بیت سے زیادہ کسی سے بغض نہیں رکھتا ،اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اللہ اور امیرالمو منین کی اطاعت آپ سے بغض رکھنے میں ہے ،لیکن میں آپ کو ایک فصیح و بلیغ ، ادیب اور خوش گفتار انسان دیکھتا ہوں ،میں آپ کے حسنِ ادب کی وجہ سے ہی آپ سے رغبت کرنے لگا ہوں ۔ امام نے اس کی طرف نظر کرم ولطف و مہربانی سے دیکھا ،محبت و احسان و نیکی کے ساتھ اس کا استقبال کیا ، آپ نے اس کے ساتھ نیک برتاؤ کیا یہاں تک کہ اس شخص میں استقامت آئی ،اس پر حق واضح ہو گیا ، اس کا بغض امام کی محبت میں تبدیل ہو گیا وہ امام کا خادم بن گیا یہاں تک کہ اس نے امام کے قدموں میں ہی دم توڑا،اور اس نے امام علیہ السلام سے اپنی نماز جنازہ پڑھنے کیلئے وصیت کی ۔
امام نے اس طرزعمل سے اپنے جد رسول اسلام ﷺکی اتباع کی جنھوں نے اپنے بلند اخلاق کے ذریعہ لوگوں کے دلوں کوایک دوسرے سے قریب کیا ان کے احساسات اور جذبات کو ہم آہنگ کیا اور تمام لوگوںکو کلمہ توحید کے لئے جمع کیا ۔
آپ کاصبر
آپ نے دنیا کے مصائب اور گردش ایام کے المیہ پر صبر کیا ،صبر آپ کی ذات کا جزء تھا ، آپ نے تلواروں کی سختیوں میں بھی صبر کیا ،اپنے آباء طاہرین سے خلافت کے چھینے جانے ،اور حکومت کے منبروں اور اذانوںمیں اپنے آباء واجداد پر سب و شتم ہونے پر بھی صبر کیا ،آپ نے ان سب کو سنا اور ذرا بھی ترش روئی نہیں کی بلکہ صبر و تحمل سے کام لیا ،اپنے غصہ کو پی گئے ،اپنے تمام امور اللہ کے سپرد کر دئے ،وہی اپنے بندوں کے ما بین حق کے ساتھ فیصلہ کرنے والا ہے ۔
آپ نے سب سے زیادہ اس بڑی مصیبت پر صبر کیا کہ اموی حکومت آپ اہل بیت کے شیعوںپر بہت زیادہ ظلم و ستم کر رہی تھی ،ان کی آنکھیں نکال دیتی ،ہاتھ کاٹ دیتی ،ان کوگمان اور تہمت لگا کر قتل کردیتی تھی ،حالانکہ آپ ان کی مدد اور ان کو نجات دینے پر قادرنہیں تھے ۔
آپ کا عظیم صبر یہ تھا کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے تو آپ کے گھر میں سے چیخنے کی آواز آ ئی ،آپ کے بعض موالیوں نے جلدی سے وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ آپ کی ایک کنیز بچہ کو اپنے ہاتھوں پر لئے ہوئے تھی اچانک بچہ زمین پر گرگیا اور اس نے دم توڑ دیا ہے ،امام نے فرمایا : ”الحمد للّٰه علی ماأعطیٰ وله ما اخذَ۔ان لههم عن البکاء و خُذوا ف جهازه،واطلبوا السکينة و قولوالها (ای جارية )انتِ حرّة لِوَجْه اللّٰه لِمَا تَدَاخَلِکِ مِنَ الرَّوعِ’‘۔
”تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو اس نے دیا ہے وہ اسے بھی لے لے گا ،انھیں گریہ کرنے سے روکا ،اس (بچہ )کے کفن و دفن کا انتظام کرنے کے لئے فرمایا ،ان کو سکون و اطمینان سے رہنے کا حکم دیا ، اور اس (کنیز )سے فرمایا خدا کا خوف جو تیرے دل میں آگیا ہے میں نے اس کی وجہ سے تجھے راہ خدا میں آزاد کر دیا ہے ”
اس کے بعد امام آکر اپنے اصحاب سے گفتگو کرنے لگے کچھ دیر کے بعد آپ کے غلام نے آکر عرض کیا ہم نے اس کا جنازہ تیار کر دیا ہے آپ نے اپنے اصحاب کو اس ما جرے کی خبر دی اور اس کے جنازہ پر نماز پڑھنے اور اس کو دفن کر نے کا حکم دیا ۔
آپ کا ایک اور صبر جو آپ کی بلند شخصیت پر دلالت کر تا ہے وہ یہ ہے کہ آپ کا ایک بااثر فرزند تھا جو بیمار ہو گیا جس کی وجہ سے آپ سخت رنجیدہ ہوئے اور بچہ نے دم توڈیا ،امام نے نہایت صبر سے کام لیا ، آپ کے اصحاب نے عرض کیا :فرزند رسول! ہم آپ کے سلسلہ میں کچھ خوف کھا رہے ہیں آپ نے ان کو بڑے ہی اطمینان اور اللہ کے فیصلہ پر راضی رہتے ہوئے یوں جواب ددیا :”اِنّاندعُوااللّٰه فيما يحبُّ،فَاِذا وَقَعَ ما نکره لَمْ نُخَالِفِ اللّٰه فِيمَا بحِبُّ”۔
”بیشک ہم خدا کو اسی چیز کے سلسلہ میں پکارتے ہیں جس کو وہ چا ہتا ہے ،پس جس چیزکو ہم پسند نہیں کرتے ہیں وہ واقع ہوتی ہے ،تو ہم اس چیز میں اللہ کی مخالفت نہیں کرتے جس کو وہ دوست رکھتا ہے ”

علمی فیوض باقر العلومؑ:
امام کے علمی مبارزوں میں کفر و شرک ، ظلم وستم، جابر حاکموں کی تنبیہ، بے راہ روی اور اصلاح ، اجتماعی کی کوشش، جابر حکمرانوں کی ہدایات، اجتماعی عدل، تقیہ اور اس کی ضرورت شامل ہیں۔ تقیہ کے متعلق امام نے فرمایا کہ :
”تقیہ میرے اور میرے آباء کے دین کا حصہ ہے اور کسی نے وقت ضرورت اس پر عمل نہیں کیا تو وہ صاحب ایمان نہیں۔ مومن کے لئے تقیہ حق سے چشم پوشی نہیں بلکہ حق کے حفاظت کا ایک ذریعہ ہے۔ ”( بحار الانوار ۔٨)
امام باقر علیہ السلام کے دیگرعلمی فیوض میں احکام فقہ کی تدوین، اجتہاد اور استنباط کے احکام کا مرتب کرنا، تقیہ کی موجود گی میں شیعی اعتقاد اور سیاسی شعور کی تربیت ، فقہ، کلام اور مباحث اخلاق میں شاگردوں کی تربیت شامل ہے۔
امام باقر علیہ السلام کے القاب میں باقر سب سے زیادہ شہرت پایا۔ بقر کے معنی واشگاف کرنے کے ہیں ۔ آپ نے اسرار و رموز اور علوم وفنون کو اس قدر وسعت دی کہ اور ان کی اس طرح تشریح کی ہے کہ دوسرے افراد کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ شہید ثالف علامہ نور اﷲ شوستری کا کہنا ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا کہ امام محمد باقر علیہ السلام علوم و معارف کو اس طرح شگافتہ کریں گے جس طرح زراعت کے لئے زمین شگافتہ کی جاتی ہے۔ (مجالس المومنین ۔٩)
امام محمد باقر علیہ السلام اہلبیت کے پاکیزہ اور نورانی سلسلہ کی ایک فرد ہیں آپ کی ذات عالم اسلام کی وہ عظیم علمی ذات ہے جس نے قرآن کے حقائق پہلی بار اس واضح انداز میں بیان کئے اور علوم کی پرتوں کو کھولا۔ اس لئے آپ کا لقب ”باقر العلوم ”قرار پایا۔
علامہ طبری لکھتے ہیں کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے اور اس کی شہرت عام ہے کہ امام باقر علم و زہد اور شرف میں ساری دنیا پر فوقیت لے گئے ہیں۔ آپ سے علم القرآن ، علم الآثار، علم السنن اور دیگر علوم میں کوئی بھی فوق نہیں کیا۔ آپ پر آنحضرتﷺ نے جابر بن عبداﷲ انصاری کے ذریعہ سلام کہلایا تھا اور اس کی پیشنگوئی فرمائی کہ میرا فرزند”باقر العلوم ” ہوگا۔
امام باقر ؑ اور عزاداری سید الشہداء ؑ :
امام باقر علیہ السلام نے وقت آخر اپنی وصیتوں میں عزاداری سید الشہداء کے سلسلہ میں خصوصی اقدامات کا ذکر کیا۔ امام نے وصیت فرمائی کہ ان کے مال میں سے ٨٠٠ درہم عزاداری کے لئے مخصوص کردیئے جائیں اور ١٠ سال تک منیٰ میں امام کا ماتم کیا جائے۔ آخر منیٰ کی کیا خصوصیت تھی؟ اتفاقا ً امام کی شہادت کی تاریخ ٧ ذی الحجہ ہے یہ وہ دن ہے جب سارے عالم اسلام سے مسلمان ادائیگی حج کے لئے میدان عرفہ و منیٰ میں جمع ہوتے تھے۔ امام باقر علیہ السلام واقعہ کربلا کی عینی شاہد تھے۔ اس طرح امام کا ذکر حاضرین کو حکام وقت کے مظالم اور آل محمد کے فضائل اورکمالات سے آگاہی کا موقع فراہم کرتا تھا۔ مسلسل دس سال تک غم منانا واقعات کربلا کی تشہیر اور عزاداری سید الشہداء کے تحفظ اور فروغ کا بہترین ذریعہ بنا۔ اس واقعہ سے عزاداری کے اہتمام اور اس ضمن میں عائد ہونیوالے اخراجات کے جائزہ مصرف پر واضح روشنی پڑتی ہے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی چند احادیث
1. لا تُـقارِنْ ولا تُـواخِ أربعةً : الأحْمَقَ ، والبَـخيلَ ، والجَبانَ ، والكَذّابَ
چار قسم کے لوگو ں سے نہ تو میل ملاپ رکھو اور نہ ہی انھیں بھائی بنائو ،احمق، بخیل ،بزدل اور دروغ گو۔
(الخصال : ۲۴۴ / ۱۰۰)
2. بُنِيَ الإسلامُ على خَمْسٍ : على الصَّلاةِ ، والزَّكاةِ، والصَّومِ، و الحَجِّ، والوَلايةِ، ولَمْ يُنادَ بِشَيْءٍ كَما نُودِيَ بالوَلايةِ ۔(الكافي : ۲/ ۱۸/)
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: نماز، زکوٰۃ، روزہ،حج اور ولایت۔ لیکن جس قدر ولایت کے بارے میں تاکید کی گئی ہے اتنی کسی اور چیز کے بارے میں نہیں۔
3. المؤمنُ أصْلَبُ مِن الجَبلِ ، الجَبلُ يُسْتَقَلُّ مِنه ، والمؤمنُ لا يُسْتَقَلُّ مِن دِينِه شَيءٌ
(الكافي : ۲ / ۲۴۱ / ۳۷)
مومن پہاڑ سے زیادہ مضبوط ہوتاہے کیونکہ پہاڑ کو کاٹا جاسکتا ہے لیکن مومن کے دین کو کم نہیں کیا جا سکتا۔
4. ثلاثٌ لم يَجعلِ اللهُ عز و جل لأحدٍ فيهنّ رُخْصةً : أداءُ الأمانةِ إلى البَرِّ والفاجرِ ، والوفاءُ بالعَهدِ للبَرِّ والفاجرِ ، وبِرُّ الوالِدَينِ بَرَّينِ كانا أو فاجِرَينِ . (الكافي : ۲ / ۱۶۲ / ۱۵)
تین صفات ایسی ہیں جن میں خداوندعالم نے کسی قسم کی چھوٹ نہیں دی :نیک اور بدلوگوں کو ان کی امانت کی واپسی،اچّھے اور بُرے لوگوں سے کیے ہوئے وعدہ کی وفا اور نیک اور بدوالدین سے نیکی کا سلوک۔
5. كُلُّ عَينٍ باكيةٌ يومَ القيامةِ غيرَ ثلاثٍ : عينٌ سَهِرَتْ في سبيلِ الله ، وعينٌ فاضَـتْ مـِن خَشيَةِ الله ، وعَيـنٌ غَضّـتْ عـن مَحارِمِ الله.(بحارالانوار : ۷ / ۱۹۵ / ۶۲ )
بروز ِ قیامت تمام آنکھیں رورہی ہوں گی سوائے تین آنکھوں کے؛ ایک تو وہ آنکھ جو راہِ خدا میں جاگتی رہی ہو،دوسری وہ جس سے خوف ِخدا میں آنسو جاری ہُوئے ہوں اور تیسری وہ جو خدا کی حرام کردہ چیزوں کو دیکھنے سے بند ہوجایا کرتی تھی۔

 

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button