سیرتسیرت حضرت فاطمۃ الزھراؑشخصیات

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا میوئے دل مصطفی (ص)

ڈاکٹرمحمدنذیراطلسی
تمھید
حضرت زہراء علیھا السلام، اللہ تعالی کے سب سے عظیم الشان نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور محسنہ اسلام، ملیکہ عرب حضرت خدیجہ کبری علیھا السلام کی صاحبزادی، امام اول حضرت علی علیہ السلام کی شریکہ حیات،سلسلہ امامت کی درخشندہ ترین شخصیتوں کی مادر گرامی نیز عالمین کی عورتوں کی سیدہ و سردار اور رسول اطہر کی پاک و پاکیزہ ذریت کا صدف اور ان کی طیب و طاہر نسل کا سرچشمہ ذات ہے۔مشہور یہ ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت بعثت کے پانچویں سال ۲۰ جمادی الثانی کو بروز جمعرات واقع ہوئی1۔ زہرا، راضیہ،مرضیہ،بتول،صدیقہ ،طاہرہ،اورمحدثہ آپ کے مشہور القاب ہیں2۔ تاریخی کتابوں میں، ام ابیہا،ام الائمہ،ام الحسن،ام الحسین،ام السبطین،اور ام المحسن معروف کنیات کے طور پر بیان ہوئے ہیں3۔
فضائل حضرت زہراء سلام اللہ علیھا
محققین شیعہ کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا رسول اکرم حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اکلوتی بیٹی ہے۔ آپ کی عظمت اور عصمت کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالی کی رضا، آ پ کی رضامیں مضمر ہے، اسی طرح آپ کی نارضگی میں خدا کی ناراضگی ہے4۔حضرت فاطمہ ؑباپ کا میوہ ٴدل، جس کے متعلق حضورصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے "فاطمہ ھی ام ابیہا” 5 اور فرمایا: "فاطمہ بضعۃ منی” آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا: "فاطمہ مھجة قلبی” 6 آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمان کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے اور انہیں اپنی مسند پر بٹھاتے تھے۔ جناب زہراء سلام اللہ علیہا کو قرآن نے مصطفی، مرتضیٰ،مجتبیٰ اور پھر "اذہاب رجس اور یطهرکم تطہیرا” 7 جیسے عناوین سے یاد فرمایاہے۔ سوره شوریٰ کی آیت ۲۳ میں فاطمہ زہرا ؑ، ان کے شوہر اوران کی اولاد کی محبت کو اجرر سالت کے طور پربیان فرمایا اور اسی طرح پیغمبر اسلام حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نصاریٰ نجران کے مقابل مباہلہ میں انہی ذوات مقدسہ کے ہمراہ شرکت کی ۔"نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُم ْوَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَةَ اللہ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ” 8
حضرت فاطمہ زہرا ؑ کا مقام و مرتبہ اتنا بلند ہے کہ اس کائنات میں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی جیسا کہ خود پیغمبر اسلام ؐ نے فرمایا ہے کہ: اگر علی ؑ نہ ہوتے تو فاطمہ زہرا ؑ کا کوئی کفو نہ ہوتا۔9
حضرت زہراؑء کی سیرت کے چند نمونے
حضرت زہرا ؑ ایک تربیت یافتہ خاتون کا کامل نمونہ اور اعلی اخلاق اسلامی کے زیور سے آراستہ ہیں ان کی زندگی سے ہرمسلمان مرد و عورت جو درس لینا چاہیں لے سکتے ہیں چاہے وہ ان کا تقوی،پارسائی، پرہیزگاری، عبادت ،بردباری،خدا پر ایمان یا پھر خوف الہی ہو ان کی مکمل زندگی سب انسانوں کے لیے نمونہ عمل ہے۔
توکل و رضائے الہی
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ کسی نہ کسی چیز یا فرد پر بھروسہ کر کے زندگی کی خوشیوں کو تلاش کرتے ہیں ازدواجی زندگی میں بھی لوگ زندگی کی بنیاد ڈالتے وقت جہیز ،مہر اور اس طرح کی مختلف رسم و رواج پر زندگی کو استوار کرنا چاہتے ہیں اور اکثر زندگیوں میں تلخیاں انہیں مادی سہاروں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں گھرانہ تو انسان کے پاکیزہ جذبات و احساسات کے امتزاج کا نام ہے جو اس بے نیاز ذات کی وابستگی کے بغیر ناممکن ہے۔
اہلبیتؑ کے گھرانے میں گھر کی بنیاد اللہ پر بھروسہ وا یمان میں نظر آتی ہےاہلبیت ؑکے گھر والوں کی آپس میں ہم آہنگی کی وجہ یہی نقطہ مشترک تھا کہ کون کیا پسند کرتا ہے کی بجائے اللہ کیا پسند کرتا ہے ان کی زندگی کا نصب العین تھا۔
خانوادگی زندگی میں آپ علیھا السلام کے حضرت علی علیہ السلام سے مثالی تعلقات تھے۔ کبھی ان سے کسی چیز کا تقاضا نہیں کیا۔ ایک دفعہ حضرت فاطمہ ؑبیمار پڑیں تو حضرت علی ؑ نے پوچھا کہ کچھ کھانے کو دل چاہتا ہو تو بتاؤ۔ آپ ؑنے کہا کہ میرے پدر بزرگوار نے تاکید کی ہے کہ میں آپؑ سے کسی چیز کا سوال نہ کروں، ممکن ہے کہ آپؑ اس کو پورا نہ کرسکیں اور آپ کو رنج ہو۔ اس لیے میں کچھ نہیں کہتی۔ حضرت علی ؑ نے جب زیادہ اصرار کیا اورقسم دی تو آپ نے انار کا ذکر کیا۔10 آپؑ نے زوجہ کی خاطر بہت مشکلوں کے بعد ایک انار حاصل کیا مگر راستے میں ایک بھوکا حاجت مند مل گیا حضرت نے اپنی عزیز، قناعت پسند، صابرہ اور محبوب زوجہ کی خواہش کو وقتی طورپر نظر انداز کر کے حاجت مند کو آدھا انار دے دیا جب دیکھا کہ وہ باقی آدھے انار کی بھی رغبت رکھتا ہے تو وہ بھی اسے بخش دیا اورخالی ہاتھ گھر لوٹ آئے۔حضرت علیؑ کو یقین تھا کہ بی بیؑ اس فعل سے زیادہ خوش اور راضی ہو ں گی کیوں کہ ان کے لیے اپنی خواہش سے زیادہ ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کرنا باعث مسرت تھا لہذا خالی ہاتھ لوٹ گئے حضرت علیؑ کی خواہش تھی کہ اپنی عزیز زوجہ کو خوش کریں یقیناً گھر جاتے وقت بارگاہ ایزدی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ہو گا کہ بار الہا تیری خاطر تجھ پر بھروسہ کرتے ہوئے صرف اور صرف تیرے لیے یہ کام انجام دیا ہے تو میری مدد فرما ۔جب گھر پہنچے تو اللہ کی جانب سے بھیجے ہوئے جنتی انار حضرت فاطمہؑ کے سامنے رکھے ہوئے تھے بے شک یہ کمال و معجزہ تھا لیکن اس کا سر چشمہ اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنا اور اس کی رضا کو طلب کرنا تھا ۔11
اس واقعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر حضرت زہراؑ اور حضرت علیؑ کے گھر میں جنت کے انار آسکتے ہیں تو عام زندگیوں میں برکت اور رحمت نازل کیوں نہیں ہو سکتی یقیناًاللہ کی رحمتیں اور برکتیں اس وقت نازل ہوتی ہیں جب بندہ اس پر بھروسہ کرتا ہے اور اسی کی رضا کی خاطر کام کرتا ہے۔
حجاب و پردہ داری
حضرت فاطمہؑ نے اپنی مختصر زندگی میں اسلامی تعلیمات کی ترویج و تبلیغ فرمائی اس سلسلسے میں سب سے زیادہ عورت کی شرافت اور اس کی حیثیت و کرامت کی حفاظت پر زور دیاآپ نے اس بات پر زور دیا کہ عورت کے لیے پردہ لازمی ہے حجاب ہی میں اس کی عفت،اس کی حیثیت اور اس کی منزلت کی بقاء ہے۔
انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک دن مسجد نبوی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ سے پوچھا: آپ لوگوں کی نظر میں ایک آزاد اور دانش مند عورت کے نزدیک بہترین و شائستہ ترین چیز کیا ہے؟ ہم سب نے خوب غور و فکر کیا لیکن ہم میں سے کسی نے بھی اس سوال کا جواب نہ دے سکا اس دوران امام علیؑ اٹھے اور اپنے گھر تشریف لے گئےاور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہی سوال حضرت فاطمہؑ کے سامنے پیش کیا ۔ آپؑ نے فرمایا ایک نیک و شائستہ عورت کے لیے بہترین چیز یہ ہے کہ اسے کوئی بیگانہ مرد نہ دیکھے اور وہ بھی کسی اجنبی کو نہ دیکھے۔حضرت علی ؑ مسجد نبوی میں واپس آئے اور حضرت فاطمہؑ کادیا ہوا جواب پیش کیا ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سن کر ارشاد فرمایا : جو کچھ حضرت فاطمہ ؑ نے فرمایا وہ سچ اور صحیح ہے ، ایساکیوں نہ ہو وہ تو میراہی ٹکڑا ہے۔12
حضرت اما م موسیٰ کاظم ؑ کی روایت ہے کہ امیرالمومنینؑ نے فرمایا: ایک نابیناشخص نے آپؑ کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت چاہی آپؑ نے اپنے آپ کو چادر میں چھپالیا اور پھر اسے اجازت دی۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت زہراؑ سے پوچھا فاطمہ!یہ مرد تو نابینا ہے اور آپ کو نہیں دیکھ سکتا، آپ نے کیوں اس سے پردہ کیا؟
آپ ؑنے جواب دیا :جی ہاں بابا جان وہ مجھے نہیں دیکھ سکتا لیکن میں تو اسے دیکھ سکتی ہوں۔میں اپنی کرامت اور وقار کی بنا پر یہ سمجھتی ہوں وہ قوت شامہ تو رکھتا ہے میں نہیں چاہتی کہ میرے جسم کی خوشبوایک بیگانے کے مشام میں جائے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ میراہی ٹکڑا ہیں ۔13
حضرت فاطمہ زہرا ؑ کی مخلصانہ عبادت
حضرت زہرا ؑ اللہ تعالی کی بندگی و عبادت کے لحاظ سے ہر زمانے کے لیے نمونہ عمل ہیں۔ان کی زندگی آغازسے لے کر آخری لمحات تک عبادت ہی میں گزری ۔14 امام حسن ؐ سے روایت ہے کہ شب جمعہ میں نے دیکھا کہ میری مادر گرامی محراب عبادت میں نماز میں مشغول تھیں کہ صبح کی سفیدی نمودار ہو گئی۔15 حسن بصری حضرت زہراءسلام اللھ علیھا کے بارے میں فرماتے ہیں: اس امت میں فاطمہ سلام اللھ علیھاسے زیادہ کوئی عابدہ نہیں آپؑ اس قدر نمازو عبادت میں مشغول ہوتیں کہ آپؑ کے پاؤں میں ورم آجاتے۔16
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کا تلاوت قرآن سے خاص انس تھا وہ جب دیگر فرائض اور عبادات سے فارغ ہوتیں تو قرآن کی تلاوت کرتیں۔آپؑ اس بارے میں فرماتی ہیں: تمھاری دنیا سے میرے نزدیک تین چیزیں محبوب ہیں تلاوت قرآن ،رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرے کی زیارت اور خدا کی راہ میں خرچ کرنا۔17
قناعت و کفایت شعاری
حضرت زہرا ؑکی بارز صفات میں سے ایک صفت قناعت ہے۔ وہ نہ صرف لباس اور خوراک میں کم سے کم پر قناعت کرتی اور مشکلات کو برداشت کرتی تھیں بلکہ گھر کے کام کاج میں بھی دوسروں سے مدد نہیں لیتی تھیں پانی لانے سے لے کر گھر کی صفائی تک ، گیہوں پیسنے اور بچوں کی دیکھ بھال تک سب کچھ خود کرتی تھیں کبھی کبھی ایک ہاتھ سے چکی چلاتی اور دوسرے ہاتھ سے بچے کو تھپکیاں دے کر سلاتی تھیں۔
ابن سعد ایک روایت میں حضرت علی ؑسے نقل کرتے ہیں: جب میں نے فاطمہ ؑ سے شادی کی تو ہمارے پاس بھیڑ کی ایک کھال تھی جسے ہم رات کو بچھونا بنا کر سوتے اور دن کو اسے پانی نکالنے والے اونٹ کو چارہ ڈالنے کے لئے استعمال کرتے تھے اور اس اونٹ کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور خدمت گزار نہ تھا۔18
حضرت علیؑ اور بی بی زہرا کے گھرانے کی خصوصیت تھی کہ انہیں سختیاں جھیلنا اور اللہ کی خاطر مشکلات کوبرداشت کرنا عبادت لگتا تھا۔ ایک دن حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت فاطمہ ؑ کے گھر تشریف لائے دیکھا کہ ایک ہاتھ سے چکی چلا رہی ہیں اور دوسرے ہاتھ سے بچے کو دودھ پلا رہی ہیں یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: بیٹی دنیا کی تلخی برداشت کرتے رہنا کہ آخرت کی شیرینی تمہارا مقدر بنے گی حضرت زہراؑ نے جواب دیا:خداکی نعمتوں پر اس کی حمد کرتی ہوں ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: اللہ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ مجھے اتنا عطا فرمائے گا کہ جس پر میں راضی ہو جاوں گا۔19
حوالہ جات:
1۔روضۃ الواعظٰین،ص:۱۴۳
2۔حیات حضرت فاطمہ زہراؑ، ص:۲۳
3۔منا قب آل ابی طالب، ج ۳، ص: ۱۳۲
4۔المستدرک الصحیحین، تحقیق: یوسف مرعشی، ج3، ص153۔
5۔الامالی، ص۷۴، ۱۸۷، ۶۸۸، ۶۹۱ و ۶۹۲
6۔بحار الانوار،ج 43،ص 80)، نیز دیکھیے: آشنايى با تفاسير ، ص، 292
7۔احزاب،۳۳، سورہ فاطر:۳۲، سورہ جن،۲۷، سورہ آل عمر ان:۱۷۰
8۔آل عمران، ۶۱
9۔ابن احمد مکی، موفق؛ مقتل الحسین خوارزمی، تحقیق: محمد سماوی، ج1، ص107، حدیث38، جوینی خراسانی،
10۔ابراہیم بن محمد، فرائد السمطین، تحقیق: محمد باقر محمودی، ج2، ص68۔
11۔رجوع ہو، ذبیح اللہ محلاتی ، ریاحین الشریعہ
12۔موسی رضا نقوی،گوہر حکمت(حضرت فاطمہ الزہرا اور ان کا مثالی خاندان)
13۔حلیۃ الاولیاء،ج ۲،ص ۲۰
14۔بحار الانوار،ج ۴۳،ص۹۱ ،منتہی الامال ص ۴۱،۴۲
15۔محمد کاظم قزوینی،فاطمہ زہرا من المہد الی الحد،ص ۲۵۵
16۔شیخ صدوقؒ علل الشرائع ، ، ج۱ ،ص۱۸۲
17۔ابن شعبہ حرانی ، تحفۃ العقول عن آل رسول ،ج۳ ،ص۱۱۹،
18۔قیومی جواد صحیفہ الزہرا، ،۲۷۶
19۔طبقات ج ۸،ص ۲۸
20۔علامہ طبرسی ت،فسیر مجمع البیان،ج ۵،ص۵۰،۵۱

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button