توحیدعقائدوجود خدا

خدا کی رؤیت ممکن نہیں

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس
1۔ وَ لَمَّا جَآءَ مُوۡسٰی لِمِیۡقَاتِنَا وَ کَلَّمَہٗ رَبُّہٗ ۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِیۡۤ اَنۡظُرۡ اِلَیۡکَ ؕ قَالَ لَنۡ تَرٰىنِیۡ وَ لٰکِنِ انۡظُرۡ اِلَی الۡجَبَلِ فَاِنِ اسۡتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوۡفَ تَرٰىنِیۡ ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلۡجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّ خَرَّ مُوۡسٰی صَعِقًا ۚ فَلَمَّاۤ اَفَاقَ قَالَ سُبۡحٰنَکَ تُبۡتُ اِلَیۡکَ وَ اَنَا اَوَّلُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿الاعراف:۱۴۳﴾
اور جب موسیٰ ہماری مقررہ میعاد پر آئے اور ان کے رب نے ان سے کلام کیا تو کہنے لگے: میرے رب! مجھے (جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کروں، فرمایا: تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے لیکن اس پہاڑ کی طرف دیکھو پس اگر وہ اپنی جگہ قائم رہا تو تم مجھے دیکھ سکو گے، پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ غش کھا کر گر پڑے، پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کرنے لگے: پاک ہے تیری ذات میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں ایمان لانے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔
تشریح کلمات
تَجَلّٰی:( ج ل و ) الجلو کے اصل معنی کسی چیز کے نمایاں طور پر ظاہر ہو جانے کے ہیں۔ راغب کہتے ہیں کہ تجلی کبھی بالذات ہوتی ہے جیسے وَ النَّہَارِ اِذَا تَجَلّٰی (لیل : ۲) قسم ہے دن کی جب نمایاں روشن ہو جائے اور کبھی بذریعہ امر اور فعل کے ہوتی ہے جیسے: فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلۡجَبَلِ ۔ (راغب)
دَکًّا:( د ک ک ) الدک نرم اور ہموار زمین۔ دکہ دکاً کوٹ کر ہموار کرنے کے معنوں میں ہے۔ اسی سے دکان ہے جس کے معنی ہموار چبوترہ کے ہیں۔
خَرَّ:( خ ر ر ) کسی چیز کا آواز کے ساتھ نیچے گرنا۔
صَعِقًا:موت اور ہلاکت۔ اصل معنی فضا میں سخت آواز کے ہیں۔ اسی آواز سے کبھی آگ پیدا ہوتی ہے، کبھی عذاب، کبھی موت اور کبھی بے ہوشی کا سبب بھی بن جاتی ہے۔
تفسیر آیات
روئیت، حاسۂ بصر کے ذریعے ادراک کو کہتے ہیں اور حاسۂ بصر کے علاوہ اس ادراک کو بھی کہتے ہیں جو قوت ادراک میں بصر کے ہم درجہ یا اس سے بالاتر ہو۔ جیسے فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمۡ ۔۔۔۔ (۹ توبۃ: ۱۰۵) ظاہر ہے کہ اللہ حاسۂ بصر سے نہیں دیکھتا بلکہ اللہ کی روئیت میں حقیقت، فکر و دلیل کے بغیر بذات خود سامنے آتی ہے۔ لہٰذا روئیت کی دو قسمیں بنتی ہیں: ایک روئیت بالواسطہ اور دوسری بلاواسطہ:
۱۔ روئیت بالواسطہ: اس سے مراد حاسۂ بصر کے ذریعے کسی شے کا ادارک ہے۔ حس باصرہ اگرچہ احیاناً انسان کو واقع بینی کے خلاف لے جاتی ہے۔ مثلاً کسی چیز کو دور سے چھوٹا دکھاتی ہے۔ سیدھی چیز کو پانی میں کج دکھاتی ہے، تاہم عقل اس غلطی کا ازالہ کر دیتی ہے۔
اس قسم کی روئیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا نظرآنا محال اور ناممکن ہے۔ دنیا میں نہ آخرت میں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کسی حاسۂ بصر میں سمونا ممکن نہیں۔ اس قسم کی روئیت کے لیے جہت، زمان، مکان، رنگ، جسم اور ما بہ الامتیاز درکار ہوتے ہیں اور اس کی ذات لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ ۔۔۔۔(۴۲ شوری: اا) ہے۔ طبعی آنکھوں سے نظر آنے کی صورت میں اس پر مثلہ شیء صادق آئے گا۔ چنانچہ آخرت کے دن اللہ نظر آنے کے قائل حضرات یَوۡمَ یُکۡشَفُ عَنۡ سَاقٍ ۔۔۔۔ (قلم: ۴۲) اس دن ساق (پنڈلی) کی تجلی فرمائی جائے گی، کو دلیل قرار دیتے ہیں اور اللہ کو کسی نہ کسی مثل میں لاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ دکھائی دینے کا مطالبہ اس کی شان قدسیت میں گستاخی ہے۔ کیونکہ اللہ کے دکھائی دینے کالازمہ یہ ہو گا کہ اللہ ایک سمت میں محدود ہے۔ وہ جسم، رنگ اور زمان کا محتاج ہے، جو مخلوق کی صفات ہیں۔ جیسا کہ اللہ کا بیٹا ہونے کا تصور اس کی شان قدوسیت کے خلاف ایک جسارت ہے۔ چنانچہ درج ذیل آیت سے ظاہر ہوتا ہے:
یَسۡـَٔلُکَ اَہۡلُ الۡکِتٰبِ اَنۡ تُنَزِّلَ عَلَیۡہِمۡ کِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ فَقَدۡ سَاَلُوۡا مُوۡسٰۤی اَکۡبَرَ مِنۡ ذٰلِکَ فَقَالُوۡۤا اَرِنَا اللّٰہَ جَہۡرَۃً فَاَخَذَتۡہُمُ الصّٰعِقَۃُ بِظُلۡمِہِمۡ ۔۔۔۔ (۴ نساء : ۱۵۳)
اہل کتاب آپ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ آپ ان پر آسمان سے ایک کتاب اتار لائیں جب کہ یہ لوگ اس سے بڑا مطالبہ موسیٰ سے کر چکے ہیں، چنانچہ انہوں نے کہا: ہمیں علانیہ طور پر اللہ دکھا دو ان کی اسی زیادتی کی وجہ سے انہیں بجلی نے آ لیا۔۔۔
اللہ تعالیٰ کا دکھائی دینا اس کی شان خداوندی میں گستاخی نہ ہوتی تو اس مطالبے پر ان پر فوری عذاب نازل نہ ہوتا۔ چنانچہ خود حضرت موسیٰ (ع) نے بنی اسرائیل کے اس نامعقول مطالبہ کو سفیہانہ حرکت قرار دیا۔ چنانچہ اس مطالبہ کی سزا میں بنی اسرائیل کے ستر (۷۰) چیدہ چیدہ افراد کو بجلی کے ذریعے ہلاک کیا تو فرمایا:
اَتُہۡلِکُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَہَآءُ مِنَّا ۔ (۷ اعراف:۱۵۵)
کیا تو ہمارے کم عقل لوگوں کے اعمال کی سزا میں ہمیں ہلاک کر دے گا؟
رہا یہ سوال کہ اگر یہ مطالبہ قابل سرزنش و عذاب ہے اور شان الٰہی میں گستاخی ہے تو حضرت موسیٰ (ع) جیسے اولو العزم پیغمبر نے یہ سوال کیسے کر دیا؟
جواب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ مطالبہ صرف اپنی قوم کی تعلیم و تربیت کی خاطر کیا تھا کہ اگر اللہ کا دکھائی دینا ممکن ہو تا تو میرے سوال پر ممکن ہوتا۔ دوسرے لفظوں میں حضرت موسیٰ (ع) سوال اللہ سے کر رہے ہیں اور ’’سر دلبران در حدیث دیگران ‘‘ کے طور پر اپنی قوم کو سمجھا رہے ہیں کہ یہ مطالبہ ناممکن اور نامعقول ہے، خواہ خود میری طرف سے ہی کیوں نہ ہو۔ جیساکہ حضورؐکے لیے حکم ہوا :
قُلۡ اِنۡ کَانَ لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدٌ ٭ۖ فَاَنَا اَوَّلُ الۡعٰبِدِیۡنَ (۴۳ زخرف: ۸۶)
کہدیجیے: اگر رحمن کی کوئی اولاد ہوتی تو میں سب سے پہلے (اس کی) عبادت کرنے والا ہوتا۔
بالکل اسی طرح حضرت موسیٰ (ع) کے مطالبے کا سیاق یہ ہے کہ اگر اللہ کا دکھائی دینا ممکن ہوتا تو سب سے پہلے میں اس کا دیدار کرتا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ دیدار رب کا مطالبہ قوم موسیٰ (ع) نے کیا تو اس پر فوری عذاب نازل ہوا اور اس کو ظلم قرار دیا۔ اگر عیناً یہی مطالبہ حضرت موسیٰ (ع) کرتے تو حسنات الابرار سیئات المقربین کے مطابق زیادہ قابل سرزنش اور زیادہ ظلم ہوتا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ (ع) کی سرزنش کی گئی نہ عذاب نازل ہوا۔ صرف اس بات کے ناممکن ہونے کو دکھانے کے لیے پہاڑ پر تجلی فرمائی اور عملاً تجربہ کر کے دکھایا کہ روئیت باری ممکن نہیں۔ چنانچہ جب حضرت موسیٰ (ع) ہوش میں آئے تو کہا: سُبۡحٰنَکَ ۔۔۔۔ تو پاک و منزہ ہے ایسی باتوں سے جو تیری شان کے لائق نہیں ہیں۔ تُبۡتُ اِلَیۡکَ کہ یہ مطالبہ اور یہ عمل خود اپنی جگہ قابل توبہ ہے اور سب سے پہلے ایمان لانے والا میں ہوں کہ تیری شان اس سے بالاتر ہے کہ تو دکھائی دے۔
یہ سب بنی اسرائیل جیسی نہایت کینہ پرور قوم کو سمجھانے کے لیے تھا کہ روئیت باری کا مطالبہ نہ صرف ناممکن ہے بلکہ اس کی شان میں گستاخی ہے۔ اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کہ بنی اسرائیل کو اصرار تھا:
لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہۡرَۃً ۔۔۔ (۲ بقرۃ :۵۵)
ہم آپ پر ہرگز یقین نہیں کریں گے جب تک ہم خدا کو علانیہ نہ دیکھ لیں۔
ان طبیعی اور مادی آنکھوں سے روئیت باری تعالیٰ آخرت میں بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ آخرت میں انسان کی بشری حقیقت تبدیل نہیں ہو گی بلکہ وہ روح اور جسم سے مرکب بشر ہی رہے گا۔ صرف یہ کہ اہل جنت کا روحانی پہلو غالب ہو گا۔ (المنار)
کہتے ہیں کہ آخرت میں مومن کا روحانی پہلو غالب ہونے کی وجہ سے روئیت باری ممکن ہو گی۔
اس میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ کیا آخرت میں عام مؤمن کا روحانی پہلو دنیا میں خاتم الانبیاءؐکے روحانی پہلو سے زیادہ طاقتور ہو گا۔ اگر روئیت باری تعالیٰ اپنی جگہ ممکن ہو اور روحانیت کی کمزوری کی وجہ سے روئیت متحمل نہیں تو خاتم الانبیاءؐکے لیے دیدار رب نہایت آسانی سے ہونا چاہیے تھا۔
نیز فرشتے خصوصاً جبرئیل امین کو بھی دیدار باری نصیب ہونا چاہیے۔ جب کہ جبرئیل فرماتے ہیں :
میرے اور اللہ کے درمیان ستر حجاب موجود ہیں۔ ان میں سے کسی ایک حجاب کا مشاہدہ کروں تو میں جل کر خاکستر ہو جاؤں۔
۲۔ روئیت بلاواسطہ: جسے روئیت قلبی کہہ سکتے ہیں، کسی مادی و حسی واسطے کے بغیر وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اس روئیت میں حقیقت بذات خود ادراک کنندہ کے سامنے آ جاتی ہے۔ یہ روئیت حاسۂ بصر کی طرح انسان کو غلط فہمی میں نہیں ڈالتی، جیسے ہم اپنے وجود کے اندر بہت سی باتوں کا احساس کرتے ہیں جو ناقابل تردید ہوتی ہیں۔ مثلاً درد و لذت، نفرت و محبت وغیرہ۔ قرآنی اصطلاح میں بھی قلبی روئیت انہی معنوں میں مستعمل ہے۔ جیسے فرمایا :
مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی (۵۳ نجم:۱۱)
جو کچھ (نظروں نے) دیکھا اسے دل نے نہیں جھٹلایا۔
علامہ طباطبائی فرماتے ہیں :اس قلبی روئیت کے لیے جہت مکان و زمان اور جسمانی حالت درکار نہیں ہوتی۔
چنانچہ روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ آپؑ نے اپنے رب کا دیدار کیا ہے ؟ تو جواب میں فرمایا:
مَا کُنْتُ اَعْبُدُ رَبّاً لَمْ اَرَہُ ۔
میں ایسے رب کی بندگی کرنے کے لیے آمادہ نہیں جو نظر نہ آئے،
قَالَ: وَ کَیْفَ رَاَیْتَہُ؟
کہا: آپ نے اللہ کو کیسے دیکھا؟
قَالَ: وَیْلَکَ لَا تُدْرِکُہُ الْعُیُونُ فِی مُشَاہَدَۃِ الْاَبْصَارِ وَلَکِنْ رَاَتْہُ الْقُلُوبُ بِحَقَائِقِ الْاِیْمَانِ ۔ (اصول الکافی ۱ : ۹۷ باب فی ابطال الرؤیۃ۔۔۔۔)
فرمایا: بصر کے مشاہدے کے ذریعے آنکھیں اسے نہیں دیکھتیں بلکہ دل اسے دیکھتے ہیں ایمان کے حقائق کی روشنی میں۔
اس قسم کی روئیت دنیا میں انبیاء و ائمہ(ع) کے لیے ثابت ہے اور آخرت میں مؤمنین کے لیے اور اسی روئیت کو قرآن لقائے رب کے ساتھ تعبیر کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام سے روایت کردہ یہ فرمان مشہور ہے: لو کشف الغطا ما ازددت یقیناً ۔ (بحار الانوار ۴۰ : ۱۵۳) اگر پردہ ہٹ بھی جائے (یعنی اللہ ان طبیعی آنکھوں سے نظر آبھی جائے ) تو میرے یقین میں اضافہ نہ ہو۔
کیونکہ بصری روئیت سے کہیں زیادہ، یقین دینے والی قلبی روئیت کے بعد بصری روئیت سے یقین میں کیسے اضافہ ہو۔ روئیت قلبی سے یقین کی آخری منزل پرفائز ہو چکے ہیں، جس کے بعد پھر یقین میں اضافے کے معنی نہیں بنتے۔
آخرت میں مؤمن یقین کی اس منزل پر فائز ہوجائے گا اور اللہ کو اپنے پورے وجود کے ساتھ درک کرے گا۔ اس کی بارگاہ میں اپنے آپ کو حاضر پائے گا اور سایہ رحمٰن میں دیکھ کر امن و سکون، کیف و سرور محسوس کرے گا اور اللہ سے ہمکلام بھی ہو گا، جیسے دنیا میں انبیاء علیہم السلام ہمکلام ہوتے ہیں۔ چنانچہ احادیث اہل بیت علیہم السلام میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت کے لیے تجلی فرمائے گا اور اس آیت کا مطلب بھی یہی لیا ہے :
وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ (۷۵ قیامۃ:۲۲ ۔ ۲۳)
بہت سے چہرے اس روز شاداب ہوں گے۔ وہ اپنے رب(کی رحمت) کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔
اس نظریے سے اہل سنت، امامیہ اور معتزلہ کا نزاع بھی ختم ہو سکتا ہے۔ اہل سنت کا یہ مؤقف کہ اللہ دنیا میں نہیں، آخرت میں نظر آئے گا، اس صورت میں درست ہے کہ ایسا صرف قلبی نظر کے ذریعے ہو جو بصری نظر سے زیادہ یقینی ہے۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
وَ اَبْیَنُ مِمَّا تَرَی الْعُیُونُ ۔۔۔۔ (شرح نہج البلاغۃ ۹: ۱۸۱)
اے اللہ تیرا وجود ان چیزوں سے بھی زیادہ واضح ہے جو احاطۂ نظر میں آتی ہیں۔
حضرت علی علیہ السلا م سے روایت ہے:
ما رأیت شیئًا الا رأیت اللہ قبلہ ۔ (مفتاح الفلاح ص ۳۶۷ )
میں نے کسی شے کو نہیں دیکھا مگر یہ کہ اس سے پہلے اللہ کو دیکھا۔
امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے:
لم ترہ العیون بمشاہدۃ الابصار و لکن رأتہ القلوب بحقائق الایمان ۔۔۔۔ (الکافی ۱: ۱۷ باب فی ابطال الرؤیۃ)
اگرچہ اس کو آنکھوں کے مشاہدے سے نہیں دیکھا جا سکتا مگر اس کو دلوں نے حقیقت بینی سے دیکھا ہے۔
حضرت امام رضا علیہ السلام سے سوال ہوا کہ کیا رسول اللہؐ نے اللہ کو دیکھا ہے؟ تو آپؑ نے فرمایا:
نعم بقلبہ رآہ أ ما سمعت اللہ عز و جل یقول: مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی لم یرہ بالبصر ولکن رأہ بالفؤاد ۔ (التوحید:۱۱۶ ۔ المیزان)
ہاں! انہوں نے اپنے قلبی روئیت سے دیکھا ہے۔ کیا تونے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا :جو کچھ دیکھا اس کو دل نے جھوٹ نہ جانا۔ انہوں نے آنکھوں سے نہیں بلکہ اللہ کو دل کی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا۔
اہم نکات
۱۔مادی روئیت باری ممکن نہیں، خواہ روئیت کرنے والا مادی اعتبار سے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔ قَالَ لَنۡ تَرٰىنِیۡ ۔۔۔۔۔ جَعَلَہٗ دَکًّا ۔۔۔۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 3 صفحہ 286)
2۔ لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ ۫ وَ ہُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ ۚ وَ ہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ﴿انعام:۱۰۳﴾
نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں جب کہ وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے اور وہ نہایت باریک بین، بڑا باخبر ہے۔
تشریح کلمات
ادرک:( د ر ک ) کسی چیز کی غایت کو پہنچنا، پا لینا۔ جیسے ادرک الصبی لڑکا بچپن کی آخری حد کو پہنچ گیا۔ یعنی بالغ ہو گیا۔
اللَّطِیۡفُ:( ل ط ف ) لطائف سے وہ باتیں مراد لی جاتی ہیں جن کا ادراک انسانی حواس نہ کر سکتے ہوں۔
الۡاَبۡصَارَ:( ب ص ر ) مفرد بصر کے معنی آنکھ کے ہیں۔
تفسیر آیات
حواس ظاہری و باطنی میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا ادراک ہوتا ہے۔ مثلاً عقل کا ادراک اور ہے اور نظر کا ادراک اور ہے۔ اس آیت میں فرمایا کہ نگاہیں اللہ کا ادراک نہیں کر سکتیں تو معنی یہ ہوئے کہ اللہ کا وجود ایسا نہیں ہے جو نگاہوں کے حس و ادراک کے دائرے میں آ جائے بلکہ ایسا خیال کرنا شان خداوندی کے خلاف ایسی گستاخی ہے، جو فوری سزا کی مستحق ہے۔ چنانچہ فرمایا:
یَسۡـَٔلُکَ اَہۡلُ الۡکِتٰبِ اَنۡ تُنَزِّلَ عَلَیۡہِمۡ کِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ فَقَدۡ سَاَلُوۡا مُوۡسٰۤی اَکۡبَرَ مِنۡ ذٰلِکَ فَقَالُوۡۤا اَرِنَا اللّٰہَ جَہۡرَۃً فَاَخَذَتۡہُمُ الصّٰعِقَۃُ بِظُلۡمِہِمۡ ۔۔۔۔۔ (۴ نساء: ۱۵۳)
اہل کتاب آپ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ آپ ان پر آسمان سے ایک کتاب اتار لائیں جب کہ یہ لوگ اس سے بڑا مطالبہ موسیٰ سے کر چکے ہیں، چنانچہ انہوں نے کہا: ہمیں علانیہ طور پر اللہ دکھا دو، ان کی اسی زیادتی کی وجہ سے انہیں بجلی نے آ لیا۔
اللہ کے قابل روئیت ہونے اور نگاہوں کی محدودیت میں آنے کے غیر ممکن ہونے پر اسی آیت میں ایک لطیف اشارہ موجود ہے اور وہ ہے: وَ ہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ ۔ لطیف اس وجود کو کہتے ہیں جس کا ادراک انسانی حواس نہ کر سکتے ہوں۔
راغب اصفہانی اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:
اکثر علماء نے ابصار کے معنی آنکھ کے کیے ہیں۔ بعض نے کہا: یہ ظاہری آنکھ کے علاوہ اوہام و افہام کی نفی کی طرف بھی اشارہ ہو سکتاہے۔ جیسا کہ امیرالمؤمنین کا قول ہے: التوحید ان لا تتوھمہ ۔ حقیقتاً توحید تو یہ ہے جو انسان کے واہمہ میں بھی نہ آ سکے اور فرمایا: جو کچھ انسانی واہمہ ادراک کرتا ہے وہ توحید نہیں ہے۔
واضح ہے کہ اللہ کی ذات غیر محدود اور لامتناہی ہے اور نظر میں آنے کا مطلب محدودیت میں آنا ہے اور محدود خدا نہیں ہو سکتا کیونکہ محدود ہونے کی صورت میں خدا متعدد ہو سکتے ہیں، مکان کا محتاج ہوتا ہے، رنگ و کیفیت کا محتاج ہوتا ہے وغیرہ، جو شان الٰہی کے خلاف ہے۔
روایت ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اسماعیل بن فضل نے پوچھا کہ کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نظر آئے گا ؟ تو آپؑ نے فرمایا:
سبحان اللّٰہ تعالٰی عن ذلک علوا کبیراً یا ابن الفضل ان الابصار لا تدرک الا ما لہ لون و کیفیۃ و اللّٰہ خالق الألوان و الکیفیۃ ۔ (بحار الانوار ۴: ۳۱۔ الامالی للصدوق ص ۴۱۰ مجلس ۶۴)
اللہ تعالیٰ اس بات سے پاک، بلند و بالا ہے۔ اے ابن فضل آنکھیں صرف ان چیزوں کو دیکھ سکتی ہیں جو رنگ اور کیفیت پر مشتمل ہوں۔ اللہ تعالیٰ تو رنگوں اور کیفیت کا خالق ہے ۔
اللہ تعالیٰ رنگوں اور کیفیت کا خالق ہے۔ یہ چیزیں خود اللہ تعالیٰ کے اندر نہیں پائی جا سکتیں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹے اور بیٹیاں ثابت کرنے والوں سے یہی فرمایا کہ اللہ ان سب کا خالق ہے۔ اَنّٰی یَکُوۡنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَمۡ تَکُنۡ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ ؕ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ ۔۔۔۔ پس جن چیزوں کو اللہ نے خلق کیا ہے، وہ اللہ میں نہیں پائی جا سکتیں۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: مَا وَحَّدَہُ مَنْ کَیَّفَہُ ۔۔۔ (نہج البلاغۃ خطبہ ۱۸۶) جو اللہ کو کسی کیفیت میں لائے، اس نے توحید کا اقرار نہیں کیا۔ جن چیزوں کو اللہ نے پیدا کیا ہے، ان چیزوں کا خود اللہ میں پایا جانا ناممکن ہونے کے سلسلے میں اسی خطبے میں آگے فرماتے ہیں:
وَکَیْفَ یَجْرِیْ عَلَیْہِ مَا ھُوَ أَجْرَاہُ وَ یَعُودُ فِیہِ مَا ھُوَ أَبْدَاہُ وَ یَحْدُثُ فِیہِ مَا ھُوَ اَحْدَثَہُ اِذاً لَتَفَاوَتَتْ ذَاتُہُ وَلَتَجَزَّ أَ کُنْھُہُ وَ لاَمْتَنَعَ مِنَ الْاَزَلِ مَعْنَاہُ وَ لَکَانَ لَہُ وَرَائٌ اِذْ وُجِدَ لَہُ اَمَامٌ ۔۔۔۔ (نہج البلاغۃ خطبہ ۱۸۶)
بھلا جو چیز اس نے مخلوقات پر طاری کی ہو، وہ اس پر کیونکر طاری ہو سکتی ہے اور جو چیز پہلے پہل اسی نے پیدا کی ہے، وہ اس کی طرف عائد کیونکر ہو سکتی ہے اور جس چیز کو اس نے پیدا کیا ہو، وہ اس میں کیونکر پیدا ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہو تو اس کی ذات تغیر پذیر قرار پائے گی اور اس کی ہستی قابل تجزیہ ٹھہرے گی اور اس کی حقیقت ہمیشگی و دوام سے علیحدہ ہو جائے گی۔ اگر اس کے لیے سامنے کی جہت ہوتی تو پیچھے کی سمت بھی ہوتی۔۔۔۔
اہم نکات
۱۔ اللہ نگاہوں کے رنگ و کیفیت میں نہیں، عقل و ضمیر میں نظرآتا ہے۔
۲۔ اللہ تعالیٰ کی لطافت مادی آنکھوں کے مشاہدہ سے بالاتر ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 3 صفحہ 112)
3۔ وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ ﴿ۚالقیامۃ۲۳، ۲۲﴾
” بہت سے چہرے اس روز شاداب ہوں گے، وہ اپنے رب(کی رحمت) کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔”
تفسیر آیات
۱۔ یَّوۡمَئِذٍ: ’’ اس دن‘‘سے مراد حساب چکانے کے بعدجنت میں داخل ہونے کا زمانہ ہو سکتا ہے کہ اہل جنت کے چہروں پر جنت کی نعمتوں کی وجہ سے شادابی نظر آئے گی:
تَعۡرِفُ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ نَضۡرَۃَ النَّعِیۡمِ ﴿۲۴﴾ (۸۳ مطففین: ۲۴)
ان کے چہروں سے آپ نعمتوں کی شادابی محسوس کریں گے۔
۲۔ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ: اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ کو آخرت کے دن بالکل اسی طرح دیکھنا جس طرح ہم دنیا میں چیزوں کو دیکھتے ہیں ناممکن ہے۔ دنیا میں کسی چیز کو کسی خاص جہت، شکل اور رنگ میں دیکھ سکتے ہیں جب وہ ہمارے سامنے ہو۔ زیادہ دور بھی نہ ہو، آنکھوں کے زیادہ نزدیک بھی نہ ہو۔ روشنی کی شعاعیں اس چیز سے منعکس ہو کر آنکھ پر پڑیں۔ روئیت کی یہ شکل نہ دنیا میں ممکن ہے، نہ آخرت میں۔
صحیحین کی ابو سعید خدری اور ابوہریرہ کی روایات کے ظاہری معنی کہ تم آخرت میں اپنے رب کو بالکل اسی طرح دیکھو گے جیسے تم دنیا میں سورج اور چاند کو دیکھتے ہو، قرآن کی صراحت لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ۔۔۔۔ (۴۲ شوریٰ: ۱۱) کے خلاف ہے۔
اگر ہم روئیت کے اس دنیاوی تصور سے ہٹ کر جائزہ لیں تو بات قابل فہم ہو سکتی ہے کہ آخرت کی رؤیت وہ نہ ہو گی جو دنیا میں ہے بلکہ آخرت کی روئیت کی نوعیت اس روئیت کے قریب اور مشابہ ہو گی جو دنیا میں اس کے خاص بندوں کی ہوتی ہے۔
چنانچہ ابی عبد اللہ علیہ السلام سے مروی ہے کہ جب حبرٌ حضرت علی علیہ السلام کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا: یا امیر المومنین!
ھَلْ رَأَیْتَ رَبَّکَ حِینَ عَبَدْتَہُ قَالَ فقال: وَیْلَکَ مَا کُنْتُ اَعْبُدُ رَبّاً لَمْ اَرَہُ قَالَ وَ کَیْفَ رَاَیْتَہُ قَالَ وَیْلَکَ لَا تُدْرِکُہُ الْعُیُونُ فِی مُشَاھَدَۃِ الْاَبْصَارِ وَلَکِنْ رَاَتْہُ الْقُلُوبُ بِحَقَائِقِ الْاِیْمَانِ۔۔۔ (الکافی۱: ۹۷ باب ابطال الرویۃ)
جب آپ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں تو کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ فرمایا: میں ایسے رب کی عبادت نہیں کرتا جسے میں نے دیکھا نہ ہو۔ عرض کیا: کیسے دیکھا ہے؟ فرمایا: اللہ کو بصارت کے ذریعے آنکھوں نے نہیں دیکھا بلکہ ایمانی حقائق کے ذریعے دلوں نے دیکھا ہے۔
دوسری جگہ فرمایا:اَبْیَنُ مِمَّا تَرَی الْعُیُونُ۔۔۔۔ (نہج البلاغہ خ ۱۵۵)
وہ ان چیزوں سے بھی زیادہ (اپنے مقام پر) ثابت و آشکار ہے کہ جنہیں آنکھیں دیکھتی ہیں۔
حضرت امام حسین علیہ السلام سے مروی ہے:
عمیت عین لا تراک۔ (بحار الانوار۶۴: ۱۴۲)
اندھی ہو وہ آنکھ جو تجھے دیکھ نہ سکے۔
سورہ انعام آیت ۱۰۳ اور اعراف آیت ۱۴۳ کے ذیل میں ہم نے ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ادراک نگاہوں کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ کا مطلب یا تو الی رحمۃ ربھا ہے یا نظر کی نوعیت قلبی اور معرفتی ہے۔
بعض مفسرین نے نَاظِرَۃٌ کا معنی انتظار سے کیا ہے۔ یعنی اپنے رب کی رحمت کے انتظار میں ہوں گے اور استعمالات عرب سے اس کی شاہد مثال پیش کی ہے۔ اس جگہ بھی اِلٰی کے ساتھ مذکور ہے ہو سکتا ہے معنی یہ ہوں: منتظرۃ لثواب ربھا۔ یہ چہرے اپنے رب کی طرف سے ثواب کے منتظر ہوں گے۔
مجمع البیان میں آیا ہے کہ یہی موقف مجاہد، حسن، سعید بن جبیر اور ضحاک نے اختیار کیا ہے اور حضرت علی علیہ السلام سے بھی یہی روایت ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 9 صفحہ 398)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button