توحیدعقائد

نہج البلاغہ اور توحید

تحریر: سید حسن رضا نقوی ( متعلم حوزہ علمیہ قم)

نہج البلاغہ امام الموحدین امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کے فرمودات کا انمول مجموعہ ہے جسے پانچویں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم سید رضی نے مختلف مصادر سے جمع کیا ۔ خطبات ، خطوط اور کلمات قصار (مختصر کلمات ) کے عناوین پر مشتمل یہ عظیم کتاب اپنے اندر معارف الٰہی کا ایک سمندر سمیٹے ہوئے ہے جس میں غوطہ زن ہو کر معارف کے موتی تلاش کرنا علمائے اسلام کا شیوہ رہا ہے ۔
توحید کی اہمیت صاحب نہج البلاغہ کی نظر میں :-
توحید ادیان الٰہی کا اہم ترین موضوع اور بعث انبیا ء علیہ السلام کا اولین مقصد رہا ہے امیر المومنین علیہ السلام نہج البلاغہ میں وحدانیتِ خدا کو اس فطری امر سے تعبیر فرماتے ہیں جس کی تبلیغ کے لیے انبیاء علیہ السلام و رسل کو بھیجا گیا ‘‘ فبعث فیھم رسلہ و واتر علیھم انبیاء ہ لیستأ دوھم میثاق فطرتہ و یذکروھم منسی نعمتہ و یحتجوا بالتبلیغ و یٔیر والھم فائن العقول ’’ ترجمہ ‘‘ اللہ نے ان میں اپنے رسول مبعوث فرمائے اور لگاتار انبیاء علیہ السلام بھیجے تاکہ ان سے فطرت کے عہد و پیمان پورے کرائے اس کی بھولی ہوئی نعمتیں یاد دلائے پیغام ربانی پہنچا کر حجت تمام کرے اور عقل کے دفینوں کو ابھارے ۔’’ (نہج البلاغہ ، خطبہ ۱) اسی خطبہ میں امیر المومنین علیہ السلام معرفت و توحید کو دین کی ابتداء و اساس قرار دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ‘‘ أوّل الدین معرفتہ و کمال معرفتہ التصدیق بہ کمال التصدیق بہ توحیدہ ’’ ترجمہ ‘‘ دین کی ابتداء اس (خدا) کی معرفت ہے کمال معرفت اس کی تصدیق ہے اور کمال تصدیق توحید ہے ۔ ’’ (نہج البلاغہ ، خطبہ ۱ )
نہج البلاغہ میں مختلف جگہوں پر خدا کی مخلوقات میں غورو خوض کرنے ، اس جہاں میں موجود نظم کی دقتوں کو سمجھنے اور اس کے نتیجے میں وجود خدا اور اسکی وحدانیت پر ایمان لانے پر زور دیا گیا ہے ۔ ‘‘ ولو فکّروُا فی عظیم القدرۃ و جسیم النّعمۃ لرجعوا الی الطریق و خافوا عذاب الحریق و لکن القلوب علیلۃ و البصائر مدخولۃ ’’ ترجمہ ‘‘ اگر لوگ اس کی عظیم الشان قدرتوں اور بلند پایہ نعمتوں میں غوروفکر کریں تو سیدھی راہ (توحید ) کی طرف پلٹ آئیں اور دوزخ ہوئی ہیں ۔ امیر المومنین علیہ السلام معرفت خدا کی بلند ترین معرفت اور توحید کو نفس کے لیے آبِ حیات گردانتے ہیں ۔ ‘‘ معرفۃ اللہ أعلی المعارف ’’ ترجمہ ‘‘ خدا کی معرفت عالیٰ اور بلند ترین معرفت ہے ۔ ’’ (موسوعۃ الامام علی ابن طالب ، فی الکتاب و السنۃ و التاریخ ، محمد فری شہری ، صفحہ 69) ‘‘ التوحید حیاۃ النفس ’’ ترجمہ ‘‘ توحید نفس کی زندگی ہے ۔ ’’ (غرر الحکم و درر الکلم ، عبد الواحد التمیمی الآمدی، صفحہ 37 ، چاپ دارالکتب الاسلامی ) امام علیہ السلام کے ان جملوں کو دیکھ کر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ امام کے نزدیک توحید کا موضوع کس قدر اہمیت کا حامل ہے ۔
نہج البلاغہ اور اقرارِ توحید :-
شیخ صدوق کتاب التوحید کے پہلے باب (باب ثواب الموحدین و العارفین ) میں متعدد احادیث نقل فرماتے ہیں جن میں اقرار توحید اور ذکر لا الہ الاّ اللہ کے اجر و ثواب کو ذکر کہا گیا ہے ۔ حدیث نمبر 19 میں امیر المومنین علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ‘‘ ماجزاء من أنعم اللہ عزوجلّ علیہ بالتوحید الا الجنۃ ’’ ترجمہ ‘‘ خداوند متعال نے توحید جیسی نعمت سے نوازا ہو اس کا اجر سوائے جنت کے اور کچھ نہیں اسی طرح حدیث نمبر 18 میں فرمایا ‘‘ اِنّ لا الہ الّا اللہ کلمۃ عظیمۃ کریمۃ علی اللہ عزوجلّ من قالھا مخلصاً استو جب الجنۃ ’’ ترجمہ ‘‘ لا الہ الا اللہ ایک عظیم کلمہ ہے جو اسے اخلاص کے ساتھ کہتا ہے اس پر جنت واجب ہو جاتی ہے ۔
امیر المومنین علیہ السلام نہج البلاغہ میں بار ہا توحید کا اقرار کرتے نظر آتے ہیں ۔ فرمایا ‘‘ وأشھد أن لا الہ الا اللہ وحدۃ لا شریک لا شہادۃ ممتحناً اخلاصھا ’’ ترجمہ ‘‘ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں جو یکتا و لا شریک ہے ایسی گواہی جس کا خلوص پر کھا جا چکا ہے اور جس کا نچوڑ بغیر کسی شائبے کے دل کا عقیدہ بن چکا ہے ۔ جس عمل کا پہلا قدم اور اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ اور شیطان کی دوری کا سبب ہے ۔’’ (نہج البلاغہ ، خطبہ 2) ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں ‘‘ و أشھدان لا الہ الا اللہ لا شریک لہ لیس معہ الہ غیرہ’’ ترجمہ ‘‘ میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ یکتا و لا شریک ہے اس کے ساتھ کوئی دوسرا خدا نہیں ۔ ’’ (نہج البلاغہ خطبہ 35) اسی طرح فرمایا ‘‘ وأشھدأن لا الہ الا اللہ شہادۃً یُوافق فیھا السّرُّ الاعلان و القلب اللسان ’’ ترجمہ ‘‘ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ایسی گواہی جس میں ظاہر و باطن یکساں اور دل و زبان ہمنوا ہیں ۔ (نہج البلاغہ ، خطبہ 99،) عنوان وھی احدی الخطب المشتملۃ علی الملاحم ) ایک اور مقام پر کچھ اس انداز سے تذکرہ فرمایا ‘‘ وأشھدان لا الہ الا اللہ شہادۃ ایمان و ابقان و اخلاص و اذعان ’’ ترجمہ ‘‘ میں اقرار کرتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ایسا اقرار جو سراپا ایمان یقین اخلاص اور فرمانبرداری ہے ۔ ’’ (نہج البلاغہ ، خطبہ 193، عنوان و من خطبۃ لہ یحمد اللہ و ینی علی نبیہ و یعظ’’
نہج البلاغہ کے مذکورہ اور اسکے علاوہ دیگر کلمات (جنہیں اختصار کی خاطر ذکر نہیں کیا گیا ) اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ امیر المومنین علیہ السلام کے نزدیک معاشرے میں عقیدہ توحید کا رواج اور رسوخ کس قدر اہمیت کا حامل ہے ۔
نہج البلاغہ اور توحید :-
نہج البلاغہ میں جس طرح توحید کی عظمت اور اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے اسی طرح توحید کے معنی و مفہوم کو ذکر کرتے ہوئے اسکی اقسام کی وضاحت بھی
کی گئی ہے امیر المومنین علیہ السلام نہج البلاغہ میں توحید ذاتی ، توحید صفائی ، توحید افعالی اور اسی طرح توحید ذاتی واحدی اور احدی کو خوبصورت انداز میں فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
توحید ذاتی :-
توحید ذاتی یعنی ممکن ہی نہیں کہ کوئی خدا کا شریک ، خدا کا مثیل یا اسکے مساوی ہو ، خدا کی ذات منفرد اور یکتا ہے امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں ‘‘ و لاکُف لہ فیکا فٔہُ ولا نظیر لہ فیُساویہ ’’ترجمہ ‘‘ اس کا کوئی ہمسر نہیں جو اسکی ہمسری کرے اور نا ہی کوئی اسکے مانند ہے کہ اسکی برابری کرے ۱؎ جناب امیر المومنین علیہ السلام اس مختصر جملہ میں توحید کی دقتوں کی طرف انتہائی جامع انداز میں اشارہ فرما رہے ہیں اور یہ جملہ جیسے توحید ذاتی کی طرف اشارہ ہے اسی طرح توحید ذاتی صفاتی و توحید صمدی کی طرف بھی توجہات کو مبذول کروارہا ہے۔
اسی طرح توحید ذاتی سے عقلی استدلال فرماتے ہوئے امام حسن کو مخاطب کیا ۔ ‘‘ واعلم یا نبی أنہ لو کان لربک شریک لأتتک رسلۃ ۔۔۔الخ’’ترجمہ ‘‘ اے فرزند ! یقین کرو کہ اگر تمہارے پروردگار کا کوئی شریک ہوتا تو اس کے بھی رسول نظرآتے اور اس کی سلطنت و فرمانروائی کے بھی آثار دکھائی دیتے اور اس کے افعال و صفات بھی کچھ معلوم ہوتے مگر وہ ایک اکیلا خدا ہے جیسا کہ اس نے خود بیا ن کیا ہے اس کے ملک میں کوئی اس سے ٹکر نہیں لے سکتا۔ ’’ (مکتوب نہج البلاغہ ، 31) اسے توحید ذاتی واحدی کہا جاتا ہے ۔
توحید احدیث:-
توحید ذاتی کا ایک اور رخ توحید احدیث ہے جیسے خدا واحد ہے یعنی اسکا کوئی شریک و ہمسر نہیں اسی طرح خدا خدا ہے یعنی وہ مختلف اجزاء سے مرکب نہیں بلکہ وہ بسیط مطلق ہے کیونکہ مرکب اپنے اجزاء کا محتاج ہوتا ہے جبکہ خداوند متعال غنی مطلق ہے ۔
امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں ‘‘ ولا تنالہ التجزئۃ و التبعیض ’’ ترجمہ ‘‘ نہ اس کے اجزاء ہیں کہ اس کا تجزیہ کیا جا سکے ۔ ’’ (خطبہ 83، عنوان و فیھا صفات ثمان من صفات الجلال ) اسی طرح دوسے مقام پر فرمایا ‘‘ ولا یوصفُ بالغیریۃ والا بعاض ’’اسے اجزاء اور اعضاء و جوارح کے ساتھ متصف نہیں کیا جا سکتا اور نا ہی کسی معنی عرضی یا ایسے معنی کے ساتھ متصف کیا جا سکتا ہے کہ جس سے ذات و صفت کی غیریت یا ذات کے حصے لازم آئیں ۔
توحید صفات :-
صفات میں توحید سے مراد یہ ہے ک خدا کی صفات ذات سے الگ نہیں بلکہ عین ذات ہیں اور صفات بھی آپس میں مختلف نہیں بلکہ ایک ہی ہیں یعنی خدا کا علم اور قدرت حقیقت میں دو چیزیں نہیں ہیں ۔
امیر المومنین علیہ السلام نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں اس معنی کی طرف انتہائی جالب انداز میں اشارہ فرماتے ہیں ۔ ‘‘ و کمال توحیدہ الاخلاص لہ و کمال الاخلاص لہ نفی الصفات عنہ لشہادۃ کل صفۃ أنھا غیر الموصوف و شہادۃ کل موصوف أنہّ غیر الصفۃ فمن وصف اللہ سبحانہ فقد قرنہ ۔۔۔’’ ترجمہ ‘‘ کمال توحید تنزیہ و اخلاص ہے اور کمال تنزیہ و اخلاص یہ ہے کہ اس سے صفتوں کی نفی کی جائے کیونکہ ہر صفت شاہد ہے کہ وہ اپنے موصوف کی غیر ہے اور ہر موصوف شاہد ہے کہ وہ صفت کے علاوہ کوئی چیز ہے ۔ لہذا جس نے ذاتِ الٰہی کے علاوہ صفات مانیں ، اس نے ذات کا ایک دوسرا ساتھی مان لیا اور جس نے اس کی ذات کا کوئی اور ساتھی مانا اس نے دوئی پیدا کی ۔ اس نے اس کے لیے جز بنا ڈالا اور جو اس کے لیے اجزاء کا قائل ہو ا وہ اس سے بے خبر رہا اور جو اس سے بے خبر رہا اس نے اسے قابل اشارہ سمجھ لیا اور جس نے اسے قابل اشارہ سمجھ لیا اس نے اس کی حد بندی کر دی اور جو اسے محدود سمجھا وہ اسے دوسری چیزوں ہی کی قطار میں لے آیا ۔ (نہج البلاغہ ، خطبہ 1)
ذات و صفات حق لا متناہی :-
امیر المومنین علیہ السلام نہج البلاغہ میں متعدد مقامات پر اس مطلب کو ذکر فرماتے ہیں کہ خداوند متعال کی ذات اور اسکی صفات لامتناہی و غیر محدود ہیں یہ مطلب توحید خدا پے بہترین عقلی دلیل اور توحید کے عمیق معنی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اگر خداوند متعال کو لا متناہی مان لیا جائے تو اسکے مقابل کوئی دوسری ذات فرض ہی نہیں کی جا سکتی ، امام الموحدین نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں اشارہ فرماتے ہیں ‘‘ الذی لا یدرکہ بعد الھمم ولا ینالہ غوص الفطن الذی لیس لصفۃ حذ محدود ۔۔’’ ترجمہ ‘‘ نہ بلند پرواز ہمتیں اسے پا سکتی ہیں نہ عقل و فہم کی گہرائیاں اس کی تہ تک پہنچ سکتی ہیں اس کے کمالِ ذات کی کوئی حد معین نہیں نہ اس کے لیے توصیفی الفاظ ہیں ۔
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا ‘‘ ما وحدہ من کیفہ ولا حقیقتہ أصاب من مثلہ ۔۔’’ ترجمہ ‘‘ جس نےاسے مختلف کیفیتوں سے متصف کیا اس نے کیتا نہیں سمجھا جس نے اس کا مثل ٹھہرایا اس نے اس کی حقیقت کو نہیں پایا ، جس نے اسے کسی چیز سے تشبیہ دی اس نے اس کا قصد نہیں کیا جس نے اسے قابل اشارہ سمجھا اور اپنے تصور کا پابند بنایا اس نے اس کا رخ نہیں کیا جو اپنی ذات سے پہچانا جائے وہ مخلوق ہوگا اور جو دوسرے کے سہارے پر قائم ہو وہ علت کا محتاج ہوگا ۔ (خطبہ 184 عنوان خطبہ ، فی التوحید و تجمع ھذہ الخطبۃ من أصول الدین مالا تجمعہ خطبۃ ) مولائے کائنات علیہ السلام پہلے خطبہ میں ملائکہ کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں ‘‘ لایتوھمون ربھم بالتصویر ولا یجرون علیہ صفات المصنوعین و لا یحدوبالأماکن ولا یشیرون الیہ بالنظائر ’’ ترجمہ ‘‘ شکل و صورت کے ساتھ اپنے رب کا تصور نہیں کرتے نہ اس پر مخلوق کی صفتیں طاری کرتے ہیں نہ اسے محل و مکان میں گھرا ہوا سمجھتے ہیں نہ اشباہ و نظارہ سے اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
توحید افعال :-
توحید افعال یا توحید افعالی سے مراد یہ ہے کہ خداوند متعال اپنے اعمال کو انجام دینے میں کسی مددگار کا محتاج نہیں بلکہ وہ جس طرح سے اپنی ذات میں غنی مطلق ہے ایسے ہی اپنے افعال میں بھی غنی مطلق ہے توحید افعالی سے یہ معنی بھی مراد لیا جاتا ہے کہ اس عالم میں تمام اعمال کا منشأ اور اصول خداوند متعال ہے دوسرے الفاظ میں ‘‘ لا مؤثر فی الوجود الّا اللہ ’’ عالم وجود میں حقیقی تاثیر صرف خداوند متعال کی ہے مولائے متقیان نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں ۔ ‘‘ خلق الخلق علی غیر تمثیل ولا مشورۃ مشیر ولا معونۃ معین ’’ ترجمہ ‘‘ اس نے بغیر کسی نمونہ و مثال کے اور بغیر کسی مشیر کار کےمشورہ کے اور بغیر کسی معاون کی امداد کے مخلوقات کو پیدا کیا۔ (خطبہ 153،عنوان خطبہ یذکر فیھا بدیع خلقۃ الخفاش ) دوسرے مقام پر فرمایا ‘‘ خلق الخلائق علی غیر مثال خلا من غیرہ و لم یستعن علی خلقھا بأحد من خلقہ ’’ ترجمہ ‘‘ اس نے مخلوقات کو بغیر کسی ایسے نمونہ کے پیدا کیا کہ جو اس سے پہلے کسی دوسرے نے قائم کیا ہو اور اس نے مخلوقات میں سے کسی ایک کی بھی مدد نہیں چاہی اسی خطبہ کے اگلے حصہ میں فرمایا ‘‘ ولم یکونھا لتشدید سلطان ولا لخوف من زوال و نقصان ولاللاستعانۃ بھا علی یذّمکاثر ولا للاحتراز بھامن ضد مثاور ۔۔۔’’ ترجمہ ‘‘ اس نے اپنی سلطنت ( کی بنیادوں) کو استوار کرنے اور (مملکت کے )زوال اور(عزت کے )انحطاط کے خطرات (سے بچنے ) اور کسی جمع جھتے والے حریف کے خلاف مدد حاصل کرنے اور کسی حملہ آور غنیم سے ان چیزوں کو پیدا نہیں کیا ۔ (خطبہ 184، عنوان خطبہ ، فی التوحید و تجمع ھذہ الخطبۃ من أصول العلم مالا تجمعہ خطبۃ) توحید افعالی اور تاثیر خدا کے دائرے کی وسعت کی طرف کچھ یوں اشارہ فرمایا ‘‘ کل شیٔ فاشع لہ و کلّ شیء قائم بہ ’’ ترجمہ ‘‘ ہر چیز اس کے سامنے عاجز اور سرنگوں اور ہر شے اس کے سہارے وابستہ ہے ۔ (خطبہ 107،عنوان خطبہ ، فی بیان قدرۃ اللہ و انفرادہ بالعظمۃ و أمرالبعث )
ان بے نظیر مطالب اور بے مثال کلمات کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نہج البلاغہ میں کیسے توحید کی اہمیت، عظمت، حقیقت اور انواع و اقسام ہے روشنی ڈالتے ہیں تاکہ معاشرہ عقیدہ توحید سے مربوط ہے اور اُمت مسلمہ کے عقائد و نظریات اور رفتار و کردار سے نظریہ توحید چھلکتا ہوا نظر آئے ۔
مصادر و مراجع
۱۔ نہج البلاغہ ، سید شریف رضی ، خطبہ ۱، عنوان خطبہ
۲۔ نہج البلاغہ ، سید رضی ، خطبہ ۲ ، خطبہ عنوان ‘‘ من خطبہ لہ بعد انصرافہ من صفین ’’ (صفین سے واپس پلٹنے پر فرمایا )
۳۔ نہج البلاغہ ، سید شریف رضی ، خطبہ ۳۵، عنوان خطبہ ‘‘ ومن خطبۃ لہ بعد التحکیم ’’ (تحکیم کے بارے میں )
۴۔ نہج البلاغہ ، سید شریف رضی ، خطبہ ۹۹ ، عنوان خطبہ ‘‘ وھی احدی الخطب المشتملۃ علی الملاحم ’’ (عبد الملک بن مروان کی تاراجیوں کے متعلق ۔
۵۔ نہج البلاغہ ، سید شریف رضی ، خطبہ ۱۸۵ ، عنوان خطبہ ‘‘ یحمد اللہ فیھا و یشی علی رسولہ و یصفہ خلقاً من الحیوان ’’ (حمد خدا، ثناء رسول اور ٹڈی کی عجیب و غریب خلقت کے بارے فرمایا )
۶۔ نہج البلاغہ ، سید شریف رضی ، خطبہ ۱۹۳ ، عنوان خطبہ ‘‘ و من خطبۃ لہ یحمد اللہ و یثنی علی نبیہ و یعظ ’’ (حمدخدا ، ثناء رسول اور لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ۔
۷۔ موسوعۃ الامام علی بن ابی طالب فی الکتاب و السنۃ و التاریخ ، محمدی شہری ، جلد ۱۰ صفحہ ۶۹
۸۔ غرر الحکم و درر الکلم ، عبد الواحد التمیمی ، الآمدی ، صفحہ ۳۷
۹۔ التوحید ، شیخ صدوق ، باب تواب الموحدین و العارفین ، حدیث ۱۷،۱۸
۱۰۔ التوحید و الشرک ، جعفر سبحانی ، صفحہ ۲۲
۱۱۔نہج البلاغہ ، سید شریف رضی ، خطبہ ۱۸۴، عنوان خطبہ ‘‘ فی التوحید و تجمع ھذہ الخطیۃ من أصول العلم مالا تجمعہ خطبۃ ’’ ( مسائل الھیات کے بنیادی اصول کا تذکرہ )
۱۲۔ نہج البلاغہ ، سید شریف رضی ، مکتوب ۳۱، عنوان مکتوب ‘‘ من وصیۃ لہ للحسن بن علی کتبھا الیہ بحاضرین عند انصرافہ من صفین ’’ (صفین سے پلٹتے ہوئے جب مقام حاضرین میں منزل کی تو امام حسن علیہ السلام کے لیے یہ وصیت نامہ تحریر فرمایا ۔
۱۳۔ الاعتقادات، شیخ صدوق ، صفحہ ۱۱۹
۱۴۔ الالھیات ، جعفر سبحانی ، جلد ۲، صفحہ ۲۹
۱۵۔نہج البلاغہ ، سید شریف رضی ، خطبہ ۸۳، عنوان خطبہ ‘‘و فیھا صفات ثمان من صفات الجلال ’’(تنزیہ باری اور یندونصائح کے بارے میں )
۱۶۔العقیدۃ الاسلامیۃ علی ضوء مدرسۃ اہل البیت علیہ السلام ، جعفر سبحانی ، جلد ۱، فصل دوم
۱۷۔ دروس فی العقیدۃ الاسلامیۃ ، تألیف جمعیۃ المعارف الاسلامیۃ الثقافیۃ فصل معانی التوحید
۱۸۔ نہج البلاغہ ، سید شریف رضی ، خطبہ ۱۵۳، عنوان خطبہ ، ‘‘خطبۃ یذکر فیھا بدیع خلقۃ الخفاش ’’(چمگاڈر کی عجیب و غریب خلقت )
۱۹۔ نہج البلاغہ ، سید شریف رضی ، خطبہ ۱۰۷، عنوان خطبہ ، ‘‘خطبۃ فی بیان قدرۃ اللہ و انفرادہ بالعظمۃ و أمر البعث ’’(خدا کی قدرت ، عظمت اور بعثت کے بارے میں )
۲۰۔ نہج البلاغہ کی عبارتوں کے اردو ترجمہ میں حتی الامکان کوشش کی گئی ہے کہ مفتی جعفر حسین صاحب ؒ کے ترجمہ سے استفادہ کیا جائے ۔

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button