عقائدعقائد کا مطالعہ

عقیدہ بداء پر ایک نظر

علامہ سید مرتضیٰ عسکری
بداء کے لغوی معنی
بداء کے لغت میں دو معنی ہیں:
۱۔’‘بَدَأَ الْاَمْرُ بُدُوًّاو بَدَاْئً” :یعنی یہ مو ضوع واضح و آشکار ہوا ، لہٰذا بداء کے ایک معنی آشکار اور واضح ہو نے کے ہیں۔
۲ ۔”بَدَاَ لَهُ فیِ اْلَاَمْرُ کَذَاْ ” : اس مو ضوع میں اس کے لئے ایسی رائے پیدا ہوئی، ایک نیا نظریہ ظاہرہوا۔
اسلامی عقائد کے علماء کی اصطلاح میں بداء کے معنی
اسلامی عقائد کے علماء نے کہا ہے :بداء خدا وند عالم کے بارے میں کسی ایسی چیز کا آشکار کرنا ہے ،جو بندوں پر مخفی ہو لیکن اس کا ظہور ان کے لئے ایک نئی بات ہو، اس بنا پر ، جن لوگوں کا خیال ہے کہ بداء سے مراد خدا کے بارے میں یہ ہے کہ حق تعا لیٰ کے لئے بھی مخلوقات کی طرح ایک نیا خیال اور ایک نئی رائے (اس کے علاوہ جو بداء سے پہلے تھی )پیدا ہوئی تو، وہ حددرجہ غلط فہمی کا شکار ہیں، سچ مچ خدا وند عالم اس سے کہیں زیادہ بلند و بر تر ہے جو وہ خیال کرتے ہیں۔
بداء قرآن کریم کی رو شنی میں
الف؛ خدا وند متعال سورہ رعد کی ۷ ویں اور ۲۷ ویں آیت میں فرماتا ہے :
( و یقول الذین کفروا لولا أنزل علیه آية من ربّه )
اورجنھوں نے کفر اختیار کیا وہ کہتے ہیں : کیوں (ہماری پسند سے) کوئی آیت یا معجزہ اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل نہیں ہوا؟
ب : پھر اسی سورہ کی۳۸ویں تا۴۰ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
( و ما کان لرسولٍ ٍ اِن یأتی باية اِلّابِأِذن ﷲ لکلّ أجل کتاب)( یمحو ﷲ ما یشاء و یثبت و عنده ام الکتاب)(و اِن ما نر ینّک بعض الذی نعد هم أو نتو فّینّک فاِنّما علیک البلاغ و علینا الحساب )
کسی پیغمبر کے لئے سزاوار نہیں ہے کہ اذن خدا وندی کے بغیر کوئی آیت یا معجزہ پیش کر دے ہر مدت اور زمانہ کے لئے ایک سر نوشت (نوشتہ مقرر)ہے، خدا جسے چاہتا ہے محو و نابود کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنی جگہ پر ثابت اورباقی رکھتا ہے اور ام الکتاب (لوح محفوظ)اس کے پاس ہے، اگر اس کا کچھ حصّہ جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے تمھیں دکھا دیں یا تمھیں ( وقت معین سے قبل) موت دیدیں، بہر صورت جو کچھ تمہاری ذمہ داری ہے وہ تبلیغ و پیغام ر سا نی ہے اور ( ان کا) حساب ہم پرہے۔
کلمات کی تشریح
۱۔’‘آیة’‘: آیت؛ لغت میں واضح و آشکار نشا نی اور علامت کوکہتے ہیں جیسا کہ اس شاعر نے کہا ہے:
وفی کلّ شیئٍ له آية :: تد ل علیٰ انّه واحد
اور ہر چیز میں اس کے وجود کی واضح و آشکارنشانی ہے جواس کے واحد اور یکتا ہو نے پر دلا لت کرتی ہے۔
انبیاء کے معجز ات کو آیت اس لئے کہتے ہیں کہ وہ ان کے صدق کی علامت اور قدرت الٰہی پر ایک دلیل ہے، وہی پرور دگارجس نے اس طرح کے معجزات پیش کر نے کی انہیں طاقت دی ہے جیسے مو سیٰ کا عصا اور جناب صالح کا ناقہ ،جیسا کہ سورۂ شعرا کی ۷۶ ویں اور اعراف کی ۷۳ ویں آیات میں بیان ہوا ہے۔
اسی طرح قرآن کریم نے انواع عذاب کو جسے خداوندسبحان نے کا فرامتوں پر نازل کیا آیت کا نام دیا ہے ،جیسا کہ سورۂ شعراء میں قوم نوح کے متعلق فرماتا ہے:
( ثمّ أغرقنابعد البا قین ، اِنّ فی ذلک لآ یة ً (شعراء ۱۲۰، ۱۲۱)
پھر ہم نے باقی رہ جانے والوں کو غرق کر دیا یقینااس میں علامت اور نشانی ہے۔
اور قوم ہود کے بارے میں فر ماتا ہے:
( فکذّ بوه فأهلکنا هم انَّ فی ذالک لَآ ية ) (شعراء ۱۳۹)
ان لوگوں نے اپنے پیغمبر(ہود) کی تکذ یب کی، ہم نے بھی انھیں نابود کر دیا، بیشک اس میں (عقلمندوں کے لئے )ایک آیت اور نشانی ہے۔ اور سورۂ اعراف میں قوم فرعون کے بارے میں ارشاد ہوا:
( فأ رسلنا علیهم الطوفان والجراد والقمل والضَّفا دع والدَّ م آیاتٍ مفصَّلات )( اعراف ۱۳۳)
پھر ہم نے طوفان ،ٹڈ یاں ، جوں ،منیڈ ھک، کھٹمل اور خون کی صورت میں ان پر عذاب نازل کیا کہ ہر ایک جدا جداآیات اور نشانیاں تھیں۔
۲۔”اجل”: محدود مدت ، وقت، زمانہ، سر انجام،خاتمہ، انتہا۔
یہ جو کہا جاتاہے کہ فلاں کی اجل آ گئی یعنی مر گیااور اس کی مدت حیات تمام ہو گئی اور یہ جو کہا جاتا ہے: اس کے لئے ایک اجل (مدت) معین کی گئی ہے ،یعنی اس کے لئے ایک محدود وقت قرار دیاگیا ہے۔
۳۔’‘ کتاب”: کتاب کے مختلف اور متعد د معانی ہیں، لیکن یہاں پر اس سے مراد لکھی ہوئی مقداریا معین و مشخص مقدارہے،جیسے ”لکلّ أجل کتاب” کے معنی، جو آیت میں مذکور ہیں، یہ ہیں کہ معجزہ پیش کر نے کا زمانہ پیغمبر کے ذریعہ پہلے سے معین ہے، یعنی ہرایک زمانہ کی ایک معین سر نو شت ہے ۔
۴۔”یمحو”: محو کرتا ہے، زائل کرتا ہے،مٹاتا ہے، محو لغت میں باطل کرنے اور نابود کرنے کے معنی میں ہے،جیسا کہ خدا وند عالم سورۂ اسراء کی ۱۲ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:
( فمحونا آية اللیل وجعلنا آية النهار مبصرة )
پھر ہم نے شب کی علامت کو مٹا دیا اور دن کی علامت کو روشنی بخش قرار دیا۔
اور سورۂ شوریٰ کی ۲۴ ویں آیت میں فرماتا ہے:
( ویمح ﷲ الباطل و یحق الحق بکلماته )
خدا وند عالم باطل کو محو ونابود اور حق کو اپنے فرمان سے ثا بت و استوار رکھتا ہے،یعنی باطل کے آثار کو مٹا دیتا ہے۔
آیات کی تفسیر
خدا وند سبحان ان آیات میں فرماتا ہے :کفار قریش نے رسول خداﷺ سے درخواست کی کہ ان کے لئے معجزات پیش کریں خدا وند عالم نے ان کی نوع درخواست کو بھی سورۂ اسراء میں بیان کرتے ہوئے فرمایا:
( و قالوا لن نؤمن لک حتیٰ تفجر لنا من الأرض ینبوعاً)( أو تُسقط السماء کما زعمت علینا کسفا ً أو تأتی بﷲ و الملا ئکة قبیلا ً )( اسراء ۹۰، ۹۲)
اورانھوں نے کہا: ہم اس وقت تک ہرگز تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ تم اس سر زمین سے جوش مارتا چشمہ نہ جاری کردو یا آسمان کے ٹکڑے (جیسا کہ خیال کرتے ہو) ہمارے سر پر نازل کر دو، یا خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے حاضرلے آؤ۔
سورۂ رعد کی ۳۸ ویں آیت میں فرماتا ہے:
(و ما کان لرسولٍ أن یأتی بآیة)
کوئی پیغمبر حق نہیں رکھتا کہ جو معجزہ اس سے طلب کیا گیا ہے پیش کر ے”الا باذن ﷲ” مگر خدا کے اذن سے، کیو نکہ ہر کام کے لئے جو مکتوب الٰہی میں مقدر ہے ایک خاص وقت اور زمانہ ہو تا ہے۔
خدا وند عالم بعد کی آیت میں بغیر فا صلہ کے، نوشتہ ٔ تقدیر کے استثناء کو بیان کرتے ہو ئے فرماتا ہے: (یمحو ﷲ ما یشائ)خدا جو چاہتا ہے محو کر دیتا ہے، یعنی خدا کا ہاتھ بندھا ہوا (مجبور) نہیں ہے وہ جب چاہے
رزق ، اجل ،سعادت اور شقاوت اس مکتوب مقدر(نوشتۂ تقدیر) میں بد ل دیتا ہے،و یثبت ما یشائ’‘ اور (مکتوبات میں سے ) جس کو چاہتا ہے ثابت اور باقی رکھتا ہے ، کیو نکہ” وعندہ أمّ الکتاب”، اصل کتاب تقدیر و سر نو شت یعنی ”لوح محفوظ” جس میں کسی قسم کی تبدیلی اور تغییر نہیں ہے وہ خدا کے پاس ہے۔
اسی وجہ سے اس کے بعد فرماتا ہے:
( واِن ما نرینّک بعض الذی نعد هم )
اور اگر کچھ ایسے عذاب جن کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے تمھیں (زمان حیات میں ) دکھادیں ‘‘او نتوفینک” یا تمہیں(اس سے پہلے) موت دے دیں ” فانما علیک البلا غ” ہر حال میں تم صرف ابلاغ کرنے والے ہو اور بس۔
اس آیت کی تفسیر میں طبری، قر طبی اور ابن کثیر نے ایک روایت ذکر کی ہے جو ہمارے مدعیٰ کی تائید کرتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:دوسرے خلیفہ عمر ابن خطاب نے خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے کہا:
”اللّهمّ اِن کنت کتبتنِی فِی أهل السعادة فا ثبتنِی فیها و اِن کنت کتبتنیِ فی أهل الشقا وة و الذنب فا محنِی و اثبتنیِ فِی أهل السعادة و المغفرة فاِنّک تمحو ما تشاء و تثبت وعندک أم ّالکتاب”
خدایا !اگر تو نے مجھے سعادت مندوں کے زمر ہ میں قرار دیا ہے تو ان کے درمیان مجھے استوار کر دے اور اگر بد بختوں کے زمرہ میں مجھے قرار دیا ہے تو اشقیاء کی صف سے نکال کر سعیدوں کی صف میں شا مل کر دے کیونکہ تو جو چاہتاہے محو کر دیتاہے اور جو چاہتاہے ثابت اور قائم رکھتا ہے اور اصل کتاب تیرے پاس ہے۔
‘ابی وائل” کا قول ذکر کیا جاتاہے وہ بارہا کہتاتھا:
”اللّھمّ اِن کنت کتبتنا أشقیاء فا مح وا کتبنا سعدائ،واِن کنت کتبتنا سعداء فاثبتنا فاِ نک تمحو ما تشاء و تثبت و عندک أمّ الکتاب”
خدایا! اگر تو نے ہمیں بد بختوں کے زمرہ میں قرار دیا ہے تو ان کے درمیان سے ہمارا نام مٹا کر نیک بختوں کے زمرہ میں درج کر دے اور اگر نیک بختوں کے زمرہ میں قرار دیا ہے تواس پر ہمیں ثا بت رکھ کیونکہ تو جو چاہے محو کر دے اور جو چاہے ثابت اور باقی رکھے اور اصلی کتاب تیرے ہی پاس ہے.
(دونوں ہی حدیث طبری نے آیت کی تفسیر کے ذیل میں ذکر کی ہے ،ابو وائل شقیق ابن سلمہ کو فی ہے، اس کے حا لا ت زندگی تہذیب التہذیب ،ج ۱۰،ص۳۵۴ پر اس طرح ہیں : وہ ثقہ ہے اور مخضرم: (جاہلیت اور اسلام) دونوں ہی کو درک کیا) ہے صحابہ اور تابعین کے زمانے میں مو جود تھا اور عمر بن عبد العزیز کی خلافت کے زمانے میں سو سا ل کی زندگی میں دار فانی کو وداع کیا)
بحار الانوار میں مذکور ہے:
(و اِن کنت من الأ شقیا ء فا محنیِ من الأ شقیاء واکتبنیِ من السعداء فأنّک قلت فِی کتا بک المنزّل علیٰ نبیک صلوا تک علیه و أ له یمحو ﷲ ما یشاء و یثبت و عنده أٔم الکتاب ۔
(بحار الانوار ج۹۸،ص۱۶۲)
اور اگر میں بدبخت اور شقی ہوں تو ان کے زمرہ سے مٹا کر نیک بختوں کے زمرہ میں شامل کر دے ، کیونکہ تو نے ہی اپنی اس کتاب میں جسے تو نے اپنے پیغمبرﷺ پر نازل کی ہے فرما یا ہے :خدا جو چاہتا ہے بر قرار رکھتا ہے اور جو چاہتاہے محو اورزائل کر دیتا ہے اور اصل کتاب اسی کے پاس ہے۔
قر طبی نے بھی اس روایت کے ذیل میں جو اس نے صحیح بخاری اور مسلم سے نقل کی ہے ، اس معنی پر استدلال کیا ہے ۔
روایت کہتی ہے :رسول خدا ﷺنے فرمایا:
”من سرّه أن یبسط له فیِ رزقه و يُنسَأ له فیِ أثر ه (اجله) فلیصل رَحِمَه”
جو شخص وسعت رزق اور عمر کی زیاد تی سے خو شنود و شاد ہوناچاہتا ہے،اسے چاہئے کہ اپنے اقرباء و اعزاء کے ساتھ نیکی کرے۔ (صحیح بخاری ،ج۳، ص ۳۴ کتاب الادب، باب ۱۲،۱۳ اور صحیح مسلم ، ص ۱۹۸۲، حدیث ۲۰ ۲۱،صلہ رحم کے باب سے اور مسند احمد ، ج ۳، ص ۲۴۷ ،۲۶۶ ج،۵، ص ۷۶.)
ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ان سے کسی سائل نے یہ سوال کیا : عمر اور اجل میں کس طرح زیادتی اور اضا فہ ہو تا ہے؟ ا نھوں نے کہا: خدا وند عزو جل نے فرمایا ہے:
( هو الذیِ خلقکم من طینٍ ثَّم قضیٰ أجلا ً و أجل مسمّی عنده )
وہ ذات جس نے تمھیں مٹی سے خلق کیا پھر ایک مدت معین کی، لیکن یقینی اجل (مدت) اسی کے پاس ہے۔ (انعام۲.)
ابن عباس نے کہا : آیت میں پہلی اجل (موت) بندہ کی اجل ہے پیدائش سے موت تک اور دوسری اجل یعنی جو خدا کے پاس ہے۔موت کے بعد سے قیامت تک ہے جو کہ برزخ میں گزارتاہے اور کوئی خدا کے علاوہ اسے نہیں جانتا ، اگر کوئی بندہ خدا سے خوف کھائے اور”صلہ رحم” بجا لائے تو خدا اس کی بر زخی عمر کو کم کرتا ہے اور پہلی عمر میں اضا فہ کر دیتاہے اور اگر نافرمانی کر ے اور قطع رحم ( رشتہ داری ختم کر ے) کرے تو خدااس کی دنیا وی عمر کم کر کے بر زخی عمرمیں اضا فہ کر دیتا ہے۔” (تفسیر قر طبی ، ج۹،ص ۳۲۹، ۳۳۱.)
ابن کثیر نے اس استد لال میں اضافہ کر تے ہو ئے ایک بات کہی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے: یہ بات اس روایت سے جو احمد ، نسائی اور ابن ماجہ نے بیان کیا ہے ہم آہنگ ہے، ان لوگوں نے ذکر کیا ہے کہ رسول
خدا ﷺ نے فرمایا :
(اِنَّ الرجل لیحرم الرزق با لذنب یصیبه و لایردّ القدر اِلّا الد عاء و لا یز ید فی العمر اِلّا البرّ ) (مقدمہ سنن ابن ماجہ ، باب ۱۰، حدیث ۹۰)
انسان کبھی گناہ کے باعث روزی سے محروم ہو جاتا ہے اور اس بلا و سر نوشت کو دعا کے علاوہ کوئی اور چیز ٹال نہیں سکتی اور نیکی کے علاوہ کوئی چیزاس کی عمر میں اضا فہ نہیں کر سکتی۔
دوسری حدیث میں ارشاد ہوا:
”انَّ الدعاء و القضا ء لیعتلجان بین السماء و ألارض”
دعا اور سر نو شت آسمان و زمین کے ما بین آپس میں مبا رزہ کر تی ہیں۔(” (تفسیر ابن کثیر، ج،۲،ص۵۱۹)
جو ہم نے ذکر کیا ہے اس آیت کے معنی کے ذیل میں بیان کئے گئے رخوں میں سے ایک تھا، دیگر وجوہات بھی آیت کے معنی کے ذیل میں لوگوں نے بیان کی ہیں ، جیسے یہ بات :”محوو اثبات” سے مراد آیت میں کسی حکم کامحو کرنا اور دوسرے حکم کا اثبات ہے ، یعنی احکام شر یعت کا نسخ کرنا اورزیادہ صحیح اور درست یہ ہے کہ ہم کہیں: مقصود آیت سب کو شامل ہے ، جیسا کہ قرطبی نے بھی اسی نظریہ کو انتخاب کر تے ہوئے کہا ہے:
” یہ آیت عام ہے اور ہرچیز کو شامل ہے اور یہ اظہر ہے اور خدا زیادہ جاننے والا ہے’ ( تفسیر قرطبی،ج،۲،ص۳۲۹)
طبری اور سیو طی نے ابن عباس سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اس آیت:
( یمحو ﷲ ما یشا ء ویثبت و عنده ام الکتاب )
کے سلسلہ میں کہا ہے کہ خدا ہر سال کے امور کو شب قدر میں معین فرماتا ہے سوائے نیک بختی اور بد بختی کے.. ( تفسیر طبری،ج ۱۳،ص۱۱۱ و تفسیر سیو طی،ج،۴،ص۶۵عبارت طبری کی ہے.)
ب:۔ خدا وند سبحان سورۂ یو نس میں فرماتا ہے:
( فلولاکانت قر ية آمنت فنفعها اِیما نها اِلّاقوم یونس لمّاآمنوا کشفنا عنهم عذاب الخزیِ فیِ الحيٰوة الدُّ نیا ومتَّعنا هم اِلیٰ حینٍ )
کیوں شہر و آبادی کے لوگوں میں کسی نے ایمان قبول نہیںکیا تا کہ انھیں ان کا ایمان فائدہ پہنچائے جز یونس کی قوم کے کہ جب وہ ایمان لائی،تو دنیا وی زندگی میں ذلت وخواری کا عذاب ان سے ہٹا لیا اور ایک مدت تک انھیں فیضیا ب کیا ۔
کلمات کی تشریح
۱۔”کشفنا’‘: ہم نے زائل کیا ،مٹا دیااور اٹھا لیا۔
۲۔”خزیِ’‘: خواری،ذلت ورسوائی۔
۳۔”حین”: نا معلوم وقت اور زمانہ جس کی کمی و زیادتی معلوم اور معین نہیں ہے۔
آیت کی تفسیر
تفسیر طبری،قرطبی اور مجمع البیان میں مذ کور داستان کے مطا بق حضرت یو نس کی داستان کا خلاصہ یوں ہے:
یونس کی قوم موصل کی سر زمین نینوا میں زندگی گز ار رہی تھی اور بتوں کی پوجا کر تی تھی ، خدا وند عالم نے یونس کو ان کی طرف بھیجا تا کہ انھیں اسلام کی دعوت دیں اور بت پر ستی سے روکیں ، انھوں نے انکار کیا۔ ان میں سے دو آدمی ایک عا بد اور ایک عالم نے حضرت یو نس کی پیر وی کی، عابد نے حضرت یو نس سے درخواست کی کہ اس قوم کے خلاف نفر ین و بد دعا کریں لیکن عالم نے انھیں منع کیا اور کہا : ان پر نفرین نہ کریں، کیو نکہ خدا آپ کی دعا توقبو ل کرلے گا لیکن اپنے بندوں کی ہلاکت پسند نہیں کرے گا ! یونس نے عابد کی بات مان لی اور نفرین کر دی ،خدانے فرمایا فلاں دن عذاب نازل ہو گا ،یونس نے انھیں اس کی خبر دی، جب عذاب کا وقت قریب آگیا تو یو نس اس عابد کے ساتھ باہر نکل گئے لیکن وہ عالم ان کے درمیان موجود رہا، قوم یو نس نے اپنے آپ سے کہا:ہم نے اب تک یو نس سے کوئی جھوٹ نہیں دیکھا ، ہو شیار رہو اگر وہ آج رات تمہا رے درمیان رہے تو پھر کوئی عذاب نہیں ہے لیکن اگر باہر نکل گئے تو یقین کرو کہ کل صبح تم پر عذاب آنا یقینی ہے ،جب آدھی رات ہوئی تو یو نس ان کے درمیا ن سے ا علانیہ نکل گئے، جب ان لو گوں نے یہ جان لیا اور عذاب کے آثار مشاہدہ کئے اور اپنی ہلا کت کا یقین کر لیا تو اس عالم کے پاس گئے اس نے ان لوگوں سے کہا : خدا کی بارگاہ میں گر یہ و زاری کرو وہ تم پر رحم کر ے گا اور تم سے عذاب کو دور کر دے گا بیا بان کی طرف نکل جاؤ عورتوں بچوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دواور حیوا نوںاوران کے بچوںکے درمیا ن جدائی پیدا کر دو پھر دعا کرو اور گر یہ کرو ۔
ان لوگوں نے ایسا ہی کیا عورتوں بچوں اور چو پا یوں کے ہمرا ہ صحرا کی طرف نکل پڑے، لباس پشمی پہنااور ایمان و تو بہ کا اظہار کیا اور اپنی نیت کو خالص کیا اور تمام مائوںکے خواہ (انسانوں کی ہوں یا حیوا نات )کی اور ان کے بچوں کے درمیان جدائی پیدا کر دی پھر گریہ و زاری ، نالہ و فریاد میں مشغول ہوگئے جب آوا زیں غم و اندوہ میں ڈوب گئیں اورفریادیں گونج گئیں تو نالہ و اندوہ کے ساتھ خدا کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے : خدا یا جو کچھ یو نس نے پیش کیا ہے ہم اس پر ایمان لائے تو خدا نے انھیں بخش دیا اوران کے گناہ معاف کرکے ان کی دعا قبول کر لی اور ان کے سر وں پر سایہ فگن عذاب کو ان سے بر طرف کر دیا…۔
خدا وند عالم نے قوم یو نس سے عذاب کو اس طرح ان کے تو بہ کر نے کے بعدبر طرف کر دیا، ہاں ، خدا جو چا ہتا ہے محو کر تا یا اسے بر قرار رکھتا ہے۔
ج: خدا وند سبحان سورۂ اعرا ف میں فرماتا ہے:
( ووأعد نا موسی ثلا ثین لیلةً و أتممنا ها بعشر ٍ فتمَّ میقات ربّه أر بعین لیلةً ) (اعراف۱۴۲.)
اور ہم نے مو سیٰ کے ساتھ ۳۰ رات کا وعدہ کیا اور اسے دیگر ۱۰ شب سے مکمل کیا یہاں تک ان کے رب کا وعدہ چا لیس شب میں تمام ہو گیا۔
سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے۔
( واِذا وأعد نا مو سیٰ أر بعین لیلة ثُمَّ اتّخذ تم العجل من بعده و أنتم ظا لمون )
اورجب ہم نے موسیٰ کے ساتھ چالیس شب کا وعد ہ کیا اور تم نے اس کے بعد جب کہ ظالم و ستمگر تھے،گو سا لہ تیارکرلیا۔ (بقرہ:۵۱)
بداء مکتب خلفا ء کی روایات میں
طیا لسی، احمد ، ابن سعد اور تر مذی ایک روایت نقل کر تے ہیں جس کا خلاصہ طیا لسی کی عبارت میں یوں ہے:
”قال رسول ﷲ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلی ﷲ علیه وآله وسلم:انَّ ﷲ أریٰ آدم ذر يَّته فرأ یٰ رجلا ً أز هرسا طعاًنو ره، قال: یا ربّ من هذا؟ قال : هذا ابنک داود! قال : یا ربّ فما عمره ؟ قال: ستوّن سنة! قال: یا ربِّ زد فی عمرهِ! قال : لا .اِلّا تزیده من عمر ک ! قال وما عمری ؟ قال: ألف سنة! قال آدم! فقد و هبتُ له أر بعین سنة من عمری فلمَّاحضرهُ الموتُ و جا ئَ ته الملا ئکةُ قال : قد بقِی من عمریِ أربعون سنة، قٰا لُوا اِنّک قد وهبتهالد اود”
رسول خداﷺ نے فر مایا : خدا وند عالم نے آدم کو ا ن کی نسل دکھا ئی ، تو آدم نے ان کے درمیان ایک نو رانی صورت مرد کو دیکھا ، عرض کیا: خدا یا : یہ کون ہے؟ فر مایا: یہ تمہارے فر زند داؤد ہیں! عرض کیا: خدا یا ! اس کی عمر کتنی ہے ؟ فر مایا: ساٹھ سال! آدم نے کہا : پالنے والے! میرے اس فرزند کی عمر میں اضافہ فرما ! ارشاد قدرت ہوا: نہیں ، مگر یہ کہ تم خود اپنی عمر سے اس کی عمر میں اضافہ کردو ، دریافت کیا : پالنے والے ! میری عمر کتنی ہے ؟ فرمایا :ہزار سال ، آدم نے کہا : میں نے اپنی عمر کے چالیس سال اسے بخش دیئے چنانچہ جب ان کی وفات کا زمانہ قر یب آیا اور فرشتے روح قبض کر نے کے لئے ان کے سر ہانے آئے تو انھوں نے کہا : ابھی تو میر ی عمر کے چالیس سال باقی ہیں ! انھوں نے کہا : آپ نے خود ہی اسے داؤد کو بخش دیا ہے۔
(مسندطیالسی ص۳۵۰ح۲۶۹۲؛مسند احمد ج۱ ،ص ۲۵۱،۲۹۸،۳۷۱؛طبقات ا بن سعد چاپ یورپ، ج۱، پہلا حصہ ص۷تا۹؛ سنن ترمذی،ج۱۱، ص۱۹۶ ۱۹۷ ؛ سورئہ اعراف کی تفسیر میں ۔ اور علامہ مجلسی نے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ اس روایت کو بحار الانوار ج۴ ص ۱۰۲ ،۱۰۳ میں درج کیا ہے۔)
یہ روایت اور اس کے علاوہ ، ” صلہ رحم” کے آثار کے بارے میں اور اس کے مانند ہم نے مکتب خلفاء کی روایات سے جو کچھ پیش کیا ہے وہ سب” یمحوﷲ ما یشا ء و یثبت وعندہ ام الکتاب”کے مصادیق میں سے ہے ، ائمہ اہل بیت نے” محوو اثبا ت” کو بداء کے نام سے ذکرکیاہے کہ انشاء ﷲ پانچویں حصّہ میں اس کی تحقیق اور بر رسی کر یں گے۔
بداء ائمہ اہل بیت کی روایات میں
بحار میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ذکر کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :
‘ما بعث ﷲ عزَّ وجل نبیا ً حتیٰ یأ خذ علیه ثلاث خصا لٍ: الا قرارُ با لعبو دية، و خلع الأنداد، و انَّ ﷲ یقدم ما یشا ء و یؤخرما یشائ۔ ” خدا وند عالم نے کسی پیغمبر کو اس وقت تک مبعوث نہیں کیا جب تک کہ اس سے تین چیزوں کا مطا لبہ نہیں کیا: خدا کی بند گی کا اقرار ،اس کے لئے ہر طرح کے شریک اور ہمتا کی نفی اور یہ کہ خدا جسے چاہے مقدم کر دے اور جسے چاہے مو ٔ خر کر دے۔
(بحارج۴،ص۱۰۸، بہ نقل از توحید صدوق.)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس معنی کو ایک دوسرے بیان میں لفظ”محوو اثبات” کے ذریعہ ذکر کرتے ہو ئے فرمایا ہے۔
”ما بعث ﷲ نبیا ً قط حتیٰ یأ خذ علیه ثلا ثا ً: ِالا قرارُ با لعبودية ،و خلع الٔا ند اد، و انَّ ﷲ یمحو ما یشا ئُ و یثبت ما یشائُ” (بحارج۴،ص۱۰۸، بہ نقل از توحید صدوق)
خدا وند عالم نے کسی نبی کو مبعوث نہیں کیا مگر یہ کہ اس سے تین چیزوں کا مطا لبہ کیا : خدا کی عبو دیت کا اقرار ، خدا کے لئے کسی کو شریک اور ہمتا قرار نہ دینا اور یہ کہ جو چاہے محو کر دے اور جو چاہے باقی ر کھے۔
ایک تیسری روایت میں (محو و اثبات ) کو بدا ء کا نام دیا ہے جس کا خلاصہ یوں ہے:
” ما تنبَّأنبیّ قط حتیٰ يُقِرَّلله تعا لی با لبدائ ” (بحارج۴،ص۱۰۸، بہ نقل از توحید صدوق)
کسی پیغمبر نے کبھی پیغمبری کا لباس نہیں پہنا مگر یہ کہ خدا وندمتعال کے لئے ان امور کا اعتراف کیا ہوانہی اعترافات میں بداء کااعتراف ہے ۔
امام رضا سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا :
” ما بعث نبیا قط اِلّا بتحر یم الخمر و اَن یقرّ له با لبدائ” (بحارج۴،ص۱۰۸، بہ نقل از توحید صدوق)
خدا وند متعال نے کبھی کسی پیغمبر کو مبعوث نہیں کیا مگر یہ کہ شراب کی حر مت کے ساتھ اوریہ کہ بداء (محو و اثبات) کا خدا کے حق میں اعتراف کرے۔
دوسری روایت میں حضرت امام جعفر صادق نے محوو اثبات کے زمانہ کی بھی خبر دیتے ہو ئے فرمایا:
” اِذا کان لیلة القدر نز لت الملا ئکة و الرّ وح و الکتبة الیٰ سما ء الدُنیا فیکتبون ما یکون من قضا ء ﷲ تعا لیٰ فی تلک السنة فاِ ذا أراد ﷲ أن يْقدِّم شیئا ً أو یؤخرأو ینقص شیئاً أمر الملک أن یمحو ما یشا ئُ ثُمّ أثبت الذی أراد”
جب شب قدر ہو تی ہے تو فر شتے، روح اور کاتب قضاء وقدر آسمان دنیا کی طرف نازل ہو تے ہیں اور جو کچھ اس سال خدا وند عالم نے مقرر فرمایا ہے اسے لکھتے ہیں ، اگر کسی چیز کو خدا مقدم یا مو خر یا کم کر نا چاہتا ہے
تو مامور فر شتے کو حکم دیتا ہے کہ اسے اسی طرح جیسے چاہتا ہے محو ونابود کرے یا ثابت و برقرار ر کھے۔
(بحار ج۴،ص۹۹ تفسیر علی بن ابراہیم سے نقل)
حضرت امام باقر علیہ السلام ے بھی ایک دوسرے بیان میں اس کی خبر دی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :
” تَنز ل فیها الملا ئکة و الکتبة اِلی السماء فیکتبون ما هو کائن فی أمرالسّنه و ما یصیب العباد فیها، قال: و أمر مو قوف لله تعا لیٰ فیه المشیئة يُقد م منه ما یشا ئُ و ئو خر ما یشائُ و هو قو له تعا لیٰ : یمحو ﷲ ما یشاء ویثبتُ وعنده أم الکتاب”
(بحار ج ۴، ص۱۰۲ ، نقل از امالی شیخ مفید)
شب قدر میں فرشتے اور کاتب قضاء وقدر آسمان دنیا کی طرف آتے ہیں اور جو کچھ اس سال ہو نے والا ہے اور جو کچھ اس سال بندہ کو پہنچنے والا ہے ، سب کچھ لکھ لیتے ہیں ، فرمایا : اورکچھ ایسے امور ہیں جن کا تعلق مشیت خدا وندی سے ہے جسے چاہے مقدم کر دے اور جسے چاہے موخر کر دے ،یہی خدا وند متعال کے کلام کے معنی ہیں کہ فرماتا ہے:( یمحوا ﷲ ما یشاء و یثبت و عنده أم الکتاب )
حضرت امام باقر علیہ السلام نے دوسری حدیث میں اس آیت:( و لن یؤخر ﷲ نفساً اِذا جاء أجلھا)(خداوندعالم جسکی موت کاوقت آگیاہواس کی موت کبھی تاخیر میں نہیں ڈالتا ) کے ذیل میں فرمایا : ”جب موت آتی ہے اور آسمانی کاتبین اسے لکھ لیتے ہیں تو اس موت کوخدا وند عالم تاخیر میں نہیں ڈالتا”۔
(بحار ج ۴، ص۱۰۲ ، نقل از تفسیر علی بن ابراہیم)
علّا مہ مجلسی نے بحارالانوارکے اسی باب میں اسی داستان کو جس میں آدم نے اپنی عمر کے چالیس سال حضرت داؤد کو بخش دئے تھے، ذکر کیا ہے اور ہم نے اسے مکتب خلفاء کی روایات میں ذکر کیا ہے۔
(بحار ج ۴، ص۱۰۲ ،بہ نقل از علل الشرائع)
بداء کے یہ معنی ائمہ اہل بیت کی روایات میں تھے لیکن”بدائ” کے یہ معنی کہ خدا کے لئے کوئی نئی اور جدید رائے کس کام میں ظاہرہوتی ہے جسے وہ اس سے پہلے نہیں جانتا تھا !! معاذﷲیہ نظریہ مکتب اہل بیت میں مردود اور انکار شد ہ ہے اور اس سے ہم خداکی پناہ مانگتے ہیں، اس سلسلہ میں ائمہ اہل بیت کا نظریہ وہی ہے جسے علّا مہ مجلسی نے امام صادق سے ذکر کیا ہے کہ امام نے فرمایا :
”مَن زعم انَّ ﷲ عزَّوجل یبد و له فی شیئٍ لم یعلمه أمس فأ بروا منه”
(بحار ج۴ ص۱۱۱بہ نقل از اکمال الدین)
جو شخص خدا وند متعال کے بارے میں کسی امر سے متعلق یہ خیال کرے کہ اس کے لئے نئی اور جدید رائے
ظاہر ہوئی ہے جسے وہ اس سے قبل نہیں جانتا تھا تو ایسے لوگوں سے دوری اور بیزاری اختیار کرو۔
عقیدہ ٔ بداءکا فائدہ
اگرکسی شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ بعض وہ انسان جو نیک بختوں کے زمرہ میں واقع ہوتے ہیں کبھی ان کی حالت بد لتی نہیں ہے اور کبھی بد بختوں کی صف میں واقع نہیں ہو ںگے اور بعض انسان جو کہ بد بختوں کی صف میں ہیں ان کی بھی حالت کبھی نہیں بدلے گی اوروہ نیک بختوں کی صف میں شامل نہیں ہوں گے اور قلم تقدیر، انسان کی سر نوشت بد لنے سے خشک ہوچکا ہے اور رک گیا ہے، اگر ایسا تصور صحیح ہو تو کبھی گناہ گار اپنے گناہ سے تو بہ ہی نہیں کر ے گا بلکہ اپنے کام کا سلسلہ جاری رکھے گا، کیو نکہ وہ سونچ چکا ہے کہ شقاوت اور بد بختی اس کی یقینی اور قطعی سر نوشت ہے اور اس میں تبدیلی نا ممکن ہے ! دوسری طرف ، شیطا ن نیکو کار بندوں کو وسوسہ کرے گا کہ تم نیک بخت ہو،اشقیاء اور بد بختوں کے زمرہ میں داخل نہیں ہوگے اورعبادت و اطاعت میں سستی پیدا کر نے کے لئے اتنا وسوسہ کا فی ہے اورپھراس کے ساتھ ایسا کر ے گا جو نہیں ہو نا چاہئے ۔
بعض مسلمان جنھوں نے” مشیت ” کے سلسلہ میں واردآیات و روایات کے معا نی واضح اور کامل طور سے درک نہیں کئے مختلف گروہ میں تقسیم ہو گئے ہیں ، ایک گروہ کاخیال ہے کہ انسان اپنے کاموں میں مجبور ہے اور دوسرے گروہ کا عقیدہ ہے کہ تمام امور انسان کے حوالے اور پر چھوڑ دئے گے ہیں ۔
کتاب : اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) سے اقتباس
مؤلف : علامہ سید مرتضی عسکری/ مترجم : اخلاق حسین پکھناروی
ناشر: مجمع جہانی اہل بیت

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button