عقائدعقائد کا مطالعہ

دین میں تحقیق اور اس کی اہمیت

آیت اللہ مصباح یزدی
تحقیق کے عوامل
انسان کی نفسانی (روحانی و معنوی) خصوصیات میں سے ایک خاصیت حقائق اور واقعیات کا پتہ لگانا ہے جو ہر انسان میں آغاز ولادت سے پایا جاتا ہے، اور عمر کی آخری سانسوں تک یہ غریزۂ فطری باقی رہتا ہے، یہی حقیقت جوئی کی فطرت جسے ”حس کنجکاوی” بھی کہا جاتا ہے انسان کو دین کے دائرے میں موجودہ مسائل کے سلسلہ میں تحقیق و جستجو اور دین حق کی شناخت کے لئے آمادہ کرتی ہے، جیسے:کیا غیر مادی اور غیرمحسوس شیء (غیب) کا وجود ہے؟ اور اگر ایسا کچھ ہے تو پھر کیا جہان مادی و محسوس اور جہان غیب میں کوئی ربط ہے؟ اور اگر ان دونوں میں ربط ہے تو پھر کیا کوئی نا محسوس موجود ہے جو اس جہان مادی کا خالق ہو؟
کیا انسان کا وجود اسی مادی بدن میں منحصر ہے ؟اور اس کی حیات صرف اسی دنیا سے مخصوص ہے یا اس دنیوی د زندگی کے علاوہ کوئی اور زندگی ہے؟ اور اگر انسان کے لئے ایک دوسری زندگی آخرت ہے تو کیا اس دنیاوی زندگی اور اس آخرت میں کوئی ربط ہے یا نہیں؟ اور اگر کوئی ربط ہے تو پھرامور دنیوی میں کون سے امور آخرت کی زندگی میں مؤثر ہیں؟ اور کون سا راستہ زندگی کو صحیح گذارنے کے طور طریقہ کی پہچان کے لئے ہے؟ ایسا طور طریقہ جو دنیا و آخرت میں انسان کی سعادت کی ضمانت دے؟ اور وہ طور طریقہ کیا ہے؟
پس حقیقت جوئی کی فطرت وہ اولین عامل ہے جو انسان کو مسائل کی جستجو منجملہ دینی مسائل اور دین حق کو پہچاننے کے لئے ابھارتی ہے۔
حقیقت کی شناخت کے لئے انسانی فطرت میں جو عوامل جوش و ولولہ کا سبب بنتے ہیں ان میں سے ایک ان تمام آرزؤں کو حاصل کرنا ہے جو ایک یا چند فطرتوں (حقائق کی شناخت کے علاوہ) سے متعلق اور کسی خاص معلومات پر منحصر ہیں، جیسے کہ مختلف دنیوی نعمتوں سے بہرہ مند ہونا، علمی کوششوں کا نتیجہ ہے اور علوم تجربی کی کامیابیاں انسانوں کے لئے اپنی آرزؤں کے حصول میں نہایت مددگار ہیں، اسی طرح اگر دین ، انسان کے منافع و مصالح اور اس کی آرزؤں کو پورا کردے ،اور برے کاموں سے اسے روک دے تو یہ امر اس کے لئے نہایت مطلوب ہوگا، لہذا منفعت طلبی کی حس اور نقصان سے بچنے کی فطرت، دین میں اور زیادہ تحقیق و جستجو کی امنگ کو افزائش دینے کا سبب ہے۔
لیکن معلومات میں وسعت پیدا کرنے کے لئے اور تمام حقائق کو درک کرنے کے لئے کافی و سائل کا ہونا ضروری ہے، یہ ممکن ہے کہ انسان تحقیق کے لئے ایسے مسائل کا انتخاب کرے کہ جنھیں حل کرنا آسان سہل الوصول اور محسوس ہو لیکن دینی مسائل کی جستجو سے صرف اس بناپر پرہیز کرتا رہے کہ ان کا حل کرنا مشکل اور کسی اہم علمی نتائج تک پہچنا ممکن نہیں ہے، اس وجہ سے یہ امر ضروری ہے کہ لوگوں کے لئے یہ حقیقت روشن ہوجائے کہ دینی مسائل کافی اہمیت کے حامل ہیں اور ان مسائل میں تحقیق و جستجو بقیہ مسائل کی جستجو سے کاملاً متفاوت ہے۔
بعض ماہرین نفسیات کا عقیدہ ہے کہ اساساً خدا پرستی ایک مستقل آرزو ہے، جس کے سرچشمہ کو ”حس دینی” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اسے حس جستجو، حسن نیکی اور حسن زیبائی (خوبصورتی) میں انسانی روح کے لئے چوتھاپہلوشمار کیا جاتا ہے۔
ان لوگوں نے تاریخی شواہد کی رو سے یہ امر ثابت کیا ہے کہ خدا پرستی کی حس ہر زمانہ میں مختلف شکلوں میں رہی ہے لہذا اس حس کا ہمیشگی اور اس طرح وسیع ہونا اس کے فطری ہونے کی دلیل ہے۔
البتہ اس فطرت کے عمومی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ تمام انسانو ںمیں زندہ و بیدار بھی ہو اور اسے مطلوب کی جانب بر انگخیتہ کرنے میں مدد بھی کرے ، بلکہ صحیح تربیت کے نہ ہونے اور فاسد معاشرہ کے پائے جانے کی وجہ سے اس کی دوستی بہت ضعیف پڑ گئی ہو یا اسے اپنی صحیح مسیر پر حرکت کرنے سے منحرف کر دے ، جیسا کہ بقیہ تمام فطرتوں میں ضعف اور انحراف کا امکان ہے۔
اس نظریہ کے تحت دین میں تحقیق و جستجو ایک مشتعل فطرت ہے ، دلائل اور برہان کے ذریعہ اسے ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اس مطلب کو آیات و روایات کے ذریعہ مورد تائید قرار دیا جاسکتا ہے کہ جو دین کے فطری ہونے پر دلالت کرتی ہیں، لیکن چونکہ اس میل فطری کی تاثیر آشکار نہیں ہے لہٰذا کوئی بحث و مباحثہ کے دوران اپنے موقف کی تائید میں اس کے وجود کا منکر ہو سکتا ہے اسی وجہ سے ہم تنہا اسی بیان پر اکتفا نہیں کریں گے بلکہ عقلی دلائل کے ذریعہ اس حقیقت کو ثابت کریں گے۔
دین میں تحقیق:
یہ حقیقت روشن ہوچکی ہے کہ ایک طرف حقائق کی شناخت کا فطری رجحان اور دوسری طرف حصول منفعت و مصلحت اور خطرات سے بچنے کی فطری خواہش ایک ایسا طاقتور عامل ہے جو تفکر و تحقیق اور علوم کی تحصیل میں نہایت مددگار ہے،یہی وجہ ہے جب کسی شخص کو اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ طول تاریخ میں بعض انسانوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ہم پروردگار کی طرف سے انسانوں کو دوجہان کی سعادت تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں” جنھوں نے اپنے پیغامات کے ابلاغ اور انسانوں کی ہدایت کے لئے کسی بھی قسم کی زحمت اٹھانے سے دریغ نہیں کیا، اور تمام سختیوں کو اپنے لئے خریدا حتی کہ اپنی جانوں کو بھی اس ہدف کے تحت قربان کردیا، تو اس کے اندر دین میں تحقیق و جستجو کی ایک عجیب سی امنگ پیدا ہوتی ہے، اور وہ یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ کیا ان لوگوں نے جو
دعویٰ کیا تھا کیا ان کا یہ دعوی درست اور منطقی دلائل کی رو سے صحیح تھا یا نہیں، خصوصاً یہ جزبہ بیداری اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب ا نھیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے حیات جاودانی اور نعمت و سعادت کی بشارت دی ہے، عذاب دائمی اور ابدی شقاوت سے ڈرایا ہے، یعنی ان کی دعوت کو قبول کرلینا فراوان نعمتوں کے حصول کا موجب اور اس سے انکار کرنا دائمی خسران کا سبب ہے، ان سب حقائق کے جاننے کے بعد کون شخص دین سے غفلت کے لئے عذر پیش کرسکتا ہے اور دین کے سلسلہ میں تحقیق و جستجو سے منہ پھیر سکتا ہے؟
ہاں! ممکن ہے کہ بعض اشخاص، آرام طلب اور کاہل ہونے کی وجہ سے یہ تحقیق انجام نہ دیں یا پھر دین کے قبول کرلینے کے بعد اس کی پابندیوں اور بعض نفسانی خواہشوں پر ر وک لگ جانے کی وجہ سے دین میں جستجو کرنے سے پرہیز کریں۔(۱)
لیکن ایسے اشخاص کو اپنی آرام طلب طبیعت کی سزا بھگتنا ہوگی، اور عذاب ابدی میں گرفتار ہونا ہوگا ایسے لوگوں کی حالت ان بچوں سے بھی بد تر ہے جو دوائوں کی تلخی کی وجہ سے ڈاکٹروں کے پاس جانے سے کتراتے ہیں اور اپنے لئے حتمی موت کو دعوت دے د یتے ہے، اس لئے کہ یہ بچے اپنے فائدہ و نقصان کو سمجنے کے سلسلہ میں کافی عقل و شعور نہیں رکھتے ڈاکٹر کی ہدایتوں سے مخالفت دنیا کی چند روزہ نعمتوں سے محرومی سے زیادہ نہیں ہے لیکن ایک بالغ انسان ،سود و زیاں کو درک کرنے اور جلد ختم ہوجانے والی نعمتوں کے سلسلہ میں غور و فکر کی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔
اسی وجہ سے قرآن نے اپنے غافل انسانوں کو حیوانات سے بھی زیادہ گمراہ جانا ہے۔
( اُولَئِکَ کَالاَنعَامِ بَل هُم اَضَلُّ، اُولَئِکَ هُمُ الغَفِلُونَ ) (۲) یہ لوگ گویا جانور ہیں بلکہ ان سے بھی کہیں گئے گزرے، یہی لوگ ( امور حق سے) بالکل بے خبر ہیں۔
ایک اور مقام پر حیوانات سے بدتر کہا ہے۔
( اِنَّ شَرَّ الدَّوآبٍّ عِندَ اللّهِ الصُمُّ البُکمُ الَّذِینَ لَا یَعقِلُونَ ) (۳)
اس میں شک نہیں کہ زمین پر چلنے والے تمام حیوانات سے بدتر خدا کے نزدیک وہ بہرہ گونگے (کفّار ) ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے
ایک شبہ کا حل۔
اس مقام پر شاید کوئی شحص اپنے لئے یہ بہانا نہ پیش کرے کہ ایک مسئلہ کے تحت تنہا اسی صورت میں تحقیق و جستجو مفید ہے کہ جب اس کے حل کی امید ہو لیکن ہم دین اور اس کے مسائل کے سلسلہ میں ایسی فکر کے مالک نہیں ہیں، اسی وجہ سے اپنی طاقت کو ایسے امور میں صرف کرنے کی بجائے کیوں نہ ایسے موارد میں صرف کریں جس میں زیادہ سے زیادہ نتیجہ بر آمد ہونے کی توقع ہو ، ایسے شخص کا جواب اس طرح دیں گے ۔
سب سے پہلے یہ کہ: دین کے اساسی مسائل کو حل کرنا کسی بھی صورت میں علمی مسائل کے حل کرنے سے کم نہیں ہے اور اس بات کو ہم بخوبی جانتے ہیں کہ بعض مشکل مسائل کا حل دانشمندوں کے سالہا سال کی زحمتوں کا نتیجہ ہے ۔
دوسرا یہ کہ : احتمال کی قدر و قیمت تنہا ایک عامل کے تابع (مقدار احتمال) نہیں ہے، بلکہ اس درمیان متحمل کی مقدار کو بھی جاننا ہوگا، مثلاً اگر ایک اقتصادی تجارت میں منفعت ٥% اور دوسری تجارتوں میں ١٠ % ہو لیکن اگر پہلی والی تجارت میں متحمل کی منفعت ایک ہزار روپیہ اور دوسری تجارت میں ایک لاکھ ر وپیہ ہو تو پھر پہلی تجارت پانچ گونہ دوسری تجارت پر فوقیت رکھتی ہے اگر چہ پہلی تجارت میں مقدار احتمال ٥ % فیصد جودوسری تجارت کی مقدار احتمال ١٠% کا نصف ہے(۴)
چونکہ دین میں تحقیق کی منفعت کا احتمال بے شمار ہے ہر چند قطعی نتیجہ ہے کہ دستیابی کا احتمال ضعیف ہو، لیکن اس راہ میں تحقیق اور کوشش ہر اس راہ سے زیادہ ہے جسمیں نتیجہ محدود ہو، اور تنہا اسی صورت میں دینی مسائل میں ترک تحقیق قابل قبول ہے کہ جب انسان کو یہ یقین ہو جائے کہ دین غیر درست اور اس کے مسائل قابل حل نہیں ہیں، لیکن ایسا یقین و اطمینان کہاں سے حاصل ہو سکتا ہے؟!
حوالہ جات
(١) ”بل یرید الانسان لیفجرامامه” . سورۂ قیامت ۔آیت٥/. ترجمہ: مگر انسان تو یہ چاہتا ہے کہ اپنے آگے بھی (ہمیشہ) برائی کرتا جائے
(٢)سورۂ اعراف۔ آیت/ ١٧٩. وہ لوگ چو پائے بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں.
(۳)سورۂ انفال۔ آیت/ ٢٢. وہ لوگ تمام حیوانات سے بدتر خدا کے نزدیک وہ بہرے گونگے کفار ہیں جو حقائق کو درک نہیں کرتے.
(۴)٥٠: ٥٠٠٠١٠٠ضرب ١٠٠٠۔ ١٠: ١٠٠ ١٠٠٠ : ١٠١٠٠ ضرب ١٠٠۔ ٥: ١٠ تقسیم ٥٠.
کتاب ( درس عقائد، مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی/ مترجم/ ضمیر حسین بہاولپوری) سے اقتباس
source:alhassanain.org

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button