امامتعقائد

امام معصوم کی ضرورت ( حصہ ششم)

مختار حسین توسلی
آنے والے صفحات میں ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں اس بات پر کچھ دلائل پیش کریں گے کہ کوئی بھی زمانہ حجت ِ خدا سے خالی نہیں ہوتا، اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرنے والا جاہلیت کی موت مرتا ہے اور قیامت کے دن ہر گروہ کو اس کے اپنے زمانے کے امام کے ساتھ محشور کیا جائے گا، چاہے وہ امام ِ حق ہو یا امام ِ باطل، ان دلائل کو سمجھنے والے پر واضح ہو جائے گا کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد حجت ِ خدا اور لوگوں کے امام ہیں لہذا ان کی معرفت و اطاعت ضروری ہے ۔
شیعہ اور سنی دونوں کی کتبِ احادیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک روایت تواتر سے ذکر ہوئی ہے جس میں آپ سے مروی ہے :” مَنْ مَاتَ وَلَمْ يَعْرِفْ إِمَامَ زَمَانِهِ مَاتَ مِيْتَةَ جَاهِلِيَّةً.”
یعنی : جو اس حالت میں مر جائے کہ اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانتا ہو تو گویا وہ جاہلیت کی موت مارا ۔”
(عاملی، وسائل الشیعہ، ج 16، ص 246، طبع ثانی 1414ھ ، نوری، مستدرک الوسائل، ج 18، ص 187، طبع ثانی 1408ھ 1988ء، تفتازانی، شرح المقاصد فی علم الکلام، ج 2، ص 275، طبع اول 1401ھ _ 1981ء )
صحیح مسلم، سنن بہیقی اور کچھ دیگر منابع میں یہ روایت یوں آئی ہے :” مَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيْتَةً جَاهِلِيَّةً ۔”
یعنی جو اس حالت میں مر جائے کہ اس کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہو گویا وہ جاہلیت کی موت مرا ۔”
(مسلم، صحیح مسلم، ج : 6، ص 22، کتاب الجھاد والسیر، باب قول النبی، بہیقی، سنن الکبری، ج 8، ص 156)
قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اس حدیث شریف میں ” زمانہ ” یعنی اپنے زمانے کی قید ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانے میں ایک امام کا ہونا ضروری ہے تاکہ مسلمان اس کی اطاعت و فرمان برداری میں زندگی گزاریں۔
علاوہ ازیں یہاں پر جاہلیت قبل از اسلام کے دور سے کنایہ ہے جو جہالت و گمراہی کا دور تھا جبکہ اس کے مقابلے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے دور کو علم و ہدایت کا دور کہا جاتا ہے، گویا جو اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مر جائے وہ ایسا ہے جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان لائے بنا مر گیا ہو، بہر کیف کوئی بھی زمانہ حجت خدا سے خالی نہیں ہوتا، لہذا جو کوئی اپنے زمانے کے امام اور حجت خدا کو پہچانے بغیر مرجائے گویا وہ بغیر کسی ایمان و عقیدے کے حالت کفر میں دنیا سے چلا گیا، یہ حدیث الفاظ کے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ فریقین کی متعدد مستند کتب احادیث میں آئی ہے، ذیل میں صرف چند حوالے پیش کیے جاتے ہیں۔
(کلینی، الکافی، ج 1، ص 376، طبع ثالث 1388ھ ، مجلسی، بحار الانوار، ج 8، ص 368 ، طبع ثانی 1403ھ _ 1983ء، طبرانی، المعجم الکبیر، ، ج 19، ص 388، حنبل، مسند احمد بن حنبل، ج 4، ص 96، دار صادر بیروت لبنان)
مذکورہ بالا روایت ان متواتر اور متفق علیہ روایات میں سے ہے جو فریقین کی بہت سی معتبر کتابوں میں ذکر کی گئی ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اسے فقط شیعہ ہی بیان کرتے ہیں، جبکہ اہل سنت اسے بیان نہیں کرتے گویا ایسے ہے کہ جیسے وہ اس حدیث کو بالکل بھی نہیں جانتے، حالانکہ یہ ایک اہم حدیث ہے اسے ہر جگہ بیان کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ مسلمان جب تک اپنے دور کے امام کو پہچان کر اس کی اطاعت نہ کرلیں تب تک نجات ممکن نہیں۔
صحیح بخاری کی تصریح کے مطابق خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں، اس پورے عرصے میں آپ حضرات شیخین پر ناراض رہیں، ان سے کلام تک نہیں کیا، اور اسی حالت میں دنیا سے رخصت ہوگئیں، جب ان کی شہادت واقع ہوئی تو امیر المومنین علیہ السلام نے انہیں رات کی تاریکی میں دفن کر دیا اور ابوبکر کو اس کی خبر تک نہیں دی اور خود ہی ان کی نماز جنازہ پڑھ لی۔
یہاں پر قابل غور بات یہ ہے کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا حضرت ابوبکر کو برحق خلیفہ نہیں سمجھتی تھیں ورنہ آپ ان پر ناراض نہ ہوتیں بلکہ ان کی بیعت کر لیتیں، یہاں پر صرف اتنا کہہ کر گزر جانا کافی نہیں ہے کہ حضرت ابو بکر جناب سیدہ سلام اللہ کو جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میراث میں سے حصہ نہیں دیا تو آپ ان پر خفا ہو گئیں، کیونکہ آپ کوئی معمولی خاتون نہیں تھیں بلکہ سیدہ نساء العالمین، سیدہ نساء اہل جنت اور ملکہ عصمت و طہارت تھیں۔
علامہ امینی کا ایک نہایت دلچسپ مناظرہ :
تہران کے ایک امام جماعت کہتے ہیں کہ الغدیر کے مؤلف علامہ عبد الحسین امینی جب نجف اشرف سے تہران تشریف لائے تو میں بھی ان کی ملاقات کے لیے حاضر ہوا اور علامہ سے درخواست کی کہ ہمارے غریب خانے بھی تشریف لائیں، علامہ نے میری دعوت قبول کر لی، میں نے علامہ کے اعزاز میں دیگر افراد کو بھی دعوت دی تھی وہ سب حاضر تھے کہ علامہ تشریف لائے اور ہم نے استقبال کیا، رات کو میں نے علامہ سے درخواست کی کہ کوئی ایسی بات سنائیں جس سے استفادہ کیا جا سکے اور روحانی تسکین کا سبب بنے۔
علامہ امینی نے فرمایا: میں بعض کتب کا مطالعہ کرنے شام کے شہر حلب گیا اور وہیں مصروف مطالعہ ہوا، اس دوران ایک سنی تاجر سے آشنائی ہوگئی وہ نہایت مہذب اور متدین انسان تھے اور میری ان کی دوستی بڑھتی گئی، ایک روز انہوں نے مجھے کھانے کی دعوت دی اور اپنے گھر بلایا، میں نے دعوت قبول کی اور جب رات کو ان کے گھر میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ شہر حلب کی تمام بزرگ شخصیات حاضر ہیں، بلند پایہ علمائے دین، جامعہ حلب کے اساتذہ، وکلاء، تُجار و دکاندار، غرض ہر طبقے کے افراد کے علاوہ حلب کے قاضی القضات بھی موجود ہیں، کھانا کھایا گیا اور مہمانوں کی پذیرائی ہوئی تو قاضی القضات نے میری طرف رخ کیا اور کہا: جناب امینی صاحب ! یہ شیعہ کیا مذہب ہے، اس کی بنیاد و اساس کیا ہے جس کا پیچھا تم سے چھوڑا ہی نہیں جا رہا ؟
میں نے کہا: کیا یہ حدیث آپ کے ہاں قابل قبول ہے یا نہیں: قال رسول اللہ : من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتة الجاہلیة ۔
یعنی جس نے اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر موت کو گلے لگایا وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ؟
انہوں نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے، میں نے کہا: آج کی بحث جاری رکھنے کے لیے یہی حدیث کافی ہے، قاضی القضات نے خاموشی اختیار کر لی..۔
تھوڑی دیر بعد میں نے پوچھا : آپ کی نظر میں حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام کس پائے کی خاتون ہیں ؟
کہنے لگے: إنھا مطھرة بنص الکتاب، یعنی قرآن کی نص کے مطابق جناب سیدہ سلام اللہ علیہا پاک و مطہر بی بی ہیں اور آپ آل رسول کے عظیم مصادیق میں سے ایک ہیں۔
میں نے کہا : حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا خلفاء (ابوبکر و عمر) سے ناراض و غضبناک ہو کر کیوں دنیا سے رخصت ہوئیں ؟ کیا وہ امام امت اور رسول اللہ کے خلفاء برحق نہیں تھے ؟ یا پھر معاذ اللہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا امام وقت کی معرفت حاصل کیے بغیر جاہلیت کی موت مریں ؟
حلب کے عالم حیرت میں ڈوب گئے کیونکہ اگر وہ کہتے کہ کہ حضرت زہراء علیھا السلام کا غضبناک ہونا اور آپ کا ناراض ہونا صحیح تھا تو اس کا لازمہ یہ ہو گا کہ خلفاء کی خلافت اور حکومت وقت باطل تھی، اور اگر کہتے کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا سے غلطی سرزد ہوئی ہے اور آپ معاذ اللہ معرفت امام کے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوئی ہیں تو یہ فاش غلطی ان کے مقام عصمت کے منافی ہوتی، جبکہ آپ کے مقام عصمت و طہارت کی گواہی قرآن مجید نے دی ہے۔
حلب کے قاضی القضات بحث کی سمت تبدیل کرنے کی غرض سے بولے: جناب امینی ! ہماری بحث کا حکام عصر کی نسبت حضرت زہراء علیھا السلام کے غضب و ناراضگی سے کیا تعلق ہے ؟
مجلس میں حاضر افراد علم و دانش کے لحاظ سے اعلی مراتب پر فائز تھے اور انہیں معلوم ہو چکا تھا کہ میں نے اس مختصر سی بحث میں کیا کاری ضرب ان کے عقائد پر لگائی ہے۔
میں نے کہا : آپ لوگوں نے نہ صرف اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانا ہے بلکہ ان افراد کی حقانیت کے حوالے سے بھی شک و تردد میں مبتلا ہیں جن کو آپ خلفاء رسول سمجھتے ہیں…
ہمارے میزبان جو ایک طرف کھڑے تھے قاضی القضات سے کہنے لگے:
شیخنا اسکت قد افتضحنا،
ہمارے شیخ ! خاموش ہو جاؤ کہ ہم رسوا ہو گئے، یعنی آپ نے ہمیں رسوا کر دیا۔
ہماری بحث صبح تک جاری رہی اور صبح کے قریب جامعہ کے متعدد اساتذہ، قاضی اور تاجر حضرات سجدے میں گر گئے اور مذہب تشیع اختیار کرنے کا اعلان کیا اور اس کے بعد انہوں نے علامہ امینی قدس سرہ کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے انہیں کشتی نجات میں بٹھانے کا اہتمام کیا تھا۔
(مؤسسہ تحقیقاتی حضرت ولی عصر کی ویب سائٹ سے ماخوذ)
یہ حکایت صرف اس لیے نقل کی ہے کہ اہل سنت بھی اہل تشیع کی مانند رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی حدیث : من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتة جاہلیة، کو قبول کرتے ہیں اور یہ وہ حدیث ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر عصر اور ہر زمانے میں ایک امام کا ہونا ضروری ہے جس کی معرفت کا حصول واجب ہے اور مسلمانوں کو بہرحال معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اپنی دینی تعلیمات کس سے حاصل کر رہے ہیں اور انہیں جاننا چاہیے کہ ان کے زمانے کا امام کون ہے؟
جیسا کہ علامہ امینی نے ان احادیث کو صحاح اور مسانید سے محفوظ کیا ہے لہذا اس کے مضمون کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے اور کسی مسلمان کا اسلام اس کے مقصود کو تسلیم کیے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا، اس حقیقت میں نہ دو رائے ہیں اور نہ کسی ایک نے شک و شبہہ کا اظہار کیا ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ بغیر امام مرنے والے کا انجام بدترین انجام ہے اور اس کے مقدر میں کسی طرح کی کامیابی اور فلاح نہیں ہے، جاہلیت کی موت سے بدتر کوئی موت نہیں ہے کہ یہ موت در حقیقت کفر و الحاد کی موت ہے اور اس میں کسی اسلام کا شائبہ بھی نہیں ہے، علامہ امینی نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب الغدیر کی دسویں جلد کے صفحہ نمبر 360 سے 362 تک اس حدیث پر گفتگو کی ہے۔
(امینی، الغدیر، ج 10، ص 360 تا 362، اشاعت: 1397ھ _ 1977ء)
خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے طرز عمل سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ آپ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کو ہی امام برحق سمجھتی تھیں اسی لئے آپ نے حضرت ابو بکر کی بیعت نہیں کی، نہ صرف بیعت نہیں کی بلکہ اُن پر اِس قدر غضب ناک ہوئی کہ مرتے دم تک کلام نہیں کیا۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا شیخین یعنی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے مرتے دم تک ناراض رہنا اور ان سے قطع کلامی کرنا ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا، کیونکہ یہ بات خود اہل سنت کی معتبر اور صحیح ترین کتابوں میں ذکر ہوئی ہے، نیز حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے معافی مانگنے کے باوجود جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کا ان کو معاف نہ کرنا اور ان سے قطع کلامی کر لینا، ان کی ناراضگی کی شدت کو ظاہر کرتا ہے، واضح رہے کہ یہ ناراضگی دنیاوی مال و متاع کے لیے نہیں تھی، جس طرح بعض متعصّب اور جاہل لوگ گمان کرتے ہیں، درحقیقت یہ ناراضگی خدا کے لیے تھی۔
المختصر صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا شیخین سے ناراض ہونا اور مرتے دم تک ان سے قطع کلامی کرنا ان دونوں کی خلافت کو غیر شرعی اور ناجائز قرار دے دیتا ہے، کیونکہ یہ ناراضگی ثابت کرتی ہے کہ شہزادی کونین ابوبکر اور عمر کی خلافت کی مخالف تھیں، مخالف اس لیے تھیں کہ آپ ان کی خلافت کو برحق نہیں سمجھتی تھیں، لہذا آپ کے متنبہ کرنے کے باوجود بھی وہ خلافت پر قابض ہوگئے تو آپ ان سے مرتے دم تک ناراض رہیں، اور یہ بات واضح ہے کہ جناب سیدہ کی ناراضگی رسول خدا کی ناراضگی ہے اور جناب سیدہ کی رضا رسول خدا کی رضا ہے، چنانچہ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ شیخین کی خلافت سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی نہیں تھے۔
روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو ایذائیں پہچانے والے شخص پر خدا و رسول غضبناک ہو جاتے ہیں، ایسے انسان کا ٹھکانہ یقینا جہنم ہے، چنانچہ رسول اکرم ﷺفرماتے ہیں:” فاطمةُ بضعة منّي فمن أذاها فقد آذاني ومن آذاني فقد أذى الله .
یعنی فاطمہ میرا حصہ ہے جس نے اسے اذیت دی گویا اس نے مجھے اذیت دی ، اور جس نے مجھے اذیت دی گویا اس نے خدا کو اذیت دی (اور جس نے خدا کو اذیت دی اس کا ٹھکانہ جہنم ہے)۔”(صدوق، جلد 1 صفحہ 186 تاریخ 1385ھ 1966ء)
بیان ہو رہا تھا کہ کوئی بھی زمانہ حجت خدا یعنی ہادی و رہنماء سے خالی نہیں ہو سکتا اور قیامت کے دن ہر گروہ کو اس کے امام و رہبر کے ساتھ بلا لیا جائے گا چاہے وہ حق کی طرف دعوت دینے والا امام ہو یا باطل کی طرف، چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :” یَوۡمَ نَدۡعُوۡا کُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِہِمۡ ۚ یعنی قیامت کے دن ہم ہر گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے ۔”(سورہ اسراء 71)
استاد محترم علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ اس آیہ شریفہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ قرآنی اصطلاح میں امام وہ ہے جو رہنمائی اور دعوت کا کردار ادا کرے خواہ حق کی طرف رہنمائی کرے یا باطل کی طرف، چنانچہ ائمہ حق کے بارے میں فرمایا : وَ جَعَلۡنٰہُمۡ اَئِمَّۃً یَّہۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا۔۔۔۔ اور ہم نے انہیں پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے مطابق رہنمائی کرتے تھے۔۔۔۔سورہ انبیاء 73
اور ائمہ باطل کے بارے میں فرمایا: وَ جَعَلۡنٰہُمۡ اَئِمَّۃً یَّدۡعُوۡنَ اِلَی النَّارِ۔۔۔ اور ہم نے انہیں ایسے رہنما بنایا جو آتش کی طرف بلاتے ہیں۔(سورہ قصص 41)
ان دو آیتوں کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ امام حق وہ ہے جو اپنے مقتدیوں کی اللہ کی طرف راہنمائی کرے اور امام باطل وہ ہے جو اپنے مقتدیوں کو آتش کی طرف دعوت دے۔
اس آیت میں فرمایا: قیامت کے دن ہم ہر گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے، اگلی آیت میں فرمایا: جو شخص اس دنیا میں اندھا رہا وہ قیامت کے دن بھی اندھا رہے گا، ان دو آیتوں سے یہ نتیجہ نکلا کہ انسان دنیا میں جس رہبر کی اقتدا کرتا ہے وہ اس کی آخرت کے لیے تقدیر ساز ہے اور جو دنیا میں اندھا رہا ہو وہ آخرت میں اندھا رہے گا، چنانچہ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر زمانے میں امام حق اور امام باطل دونوں موجود ہوتے ہیں کیونکہ قیامت کے دن کُلَّ اُنَاسٍۭ ہر گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلایا جائے گا تو ہر گروہ کے پاس امام کا ہونا لازمی قرار پایا، خواہ امام حق ہو یا باطل، اگر اس گروہ کے پاس امام حق نہیں ہے تو امام باطل ضرور ہو گا۔(الکوثر فی تفسیر القران ذیل آیت)
اس آیہ شریفہ اور مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ عقیدہ ولایت و امامت کو آخرت میں انسان کی سعادت اور نجات کے لئے کس قدر اہمیت حاصل ہے، چنانچہ دنیا میں اس عقیدے کو درست کیے بغیر آخرت میں دائمی سعادت سے ہمکنار ہونا اور ابدی نجات کا ملنا ممکن نہیں ہے، چنانچہ ایک مشہور حدیث میں آیا ہے،عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ عَلَى الصَّلَاةِ وَ الزَّكَاةِ وَ الصَّوْمِ‌  وَ الْحَجِّ وَ الْوَلَايَةِ وَ لَمْ يُنَادَ بِشَيْ‌ءٍ كَمَا نُودِيَ بِالْوَلَايَةِ.

ابی حمزہ امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اسلام کے ارکان پانچ ہیں : نماز، زکوۃ، روزہ، حج اور ولایت اور جو اہمیت ولایت کو دی گئی ہے کسی اور چیز کو نہیں دی گئی۔
جناب زرارہ نے اس حدیث شریف کو یوں نقل کیا ہے : بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسَةِ أَشْيَاءَ عَلَى الصَّلَاةِ وَ الزَّكَاةِ وَ الْحَجِّ وَ الصَّوْمِ وَ الْوَلَايَةِ قَالَ زُرَارَةُ فَقُلْتُ وَ أَيُّ شَيْ‌ءٍ مِنْ ذَلِكَ أَفْضَلُ فَقَالَ الْوَلَايَةُ أَفْضَلُ لِأَنَّهَا مِفْتَاحُهُنَّ وَ الْوَالِي هُوَ الدَّلِيلُ عَلَيْهِنَّ ۔۔۔
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے، نماز، زکوۃ، روزہ، حج اور ولایت، زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام سے پوچھا کہ ان میں سے کونسی چیز افضل ہے، امام عالی مقام نے فرمایا : ولایت افضل ہے کیونکہ یہ باقی سب کی کنجی ہے اور والی ان سب پر دلیل ہے۔
(کلینی، الکافی ج 2، ص 18 ، ناشر : دار الکتب اسلامیہ تہران، اشاعت 1365ش)
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے : ألا تحمدون الله إذا كان يوم القيامة فدعا كل اناس إلى من يتولونه ودعانا إلى رسول الله وفزعتم إلينا ، فإلى أين ترون يذهب بكم؟ إلى الجنة ورب الكعبة، قالها ثلاثا…”
یعنی: کیا تم اللہ کی حمد و ستائش بجا نہیں لاتے ؟ جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالی ہر انسان کو اس شخص کے ساتھ بلائے گا جس کی پیشوائی اس نے قبول کی ہو گی، ہمیں رسول اللہ کے ساتھ پکارے گا تو تم ہماری پناہ میں آؤ گے یعنی تمہیں ہمارے ساتھ بلائے گا، تم سوچتے ہو کہ اس وقت تمہیں کہاں لے جائیں گے؟ رب کعبہ کی قسم جنت کی طرف لے جائیں گے، اس جملے کو امام نے تین مرتبہ دہرایا۔
(مجلسی، بحار الانوار ج 8، ص 8، موسسہ الوفا بیروت لبنان ، طبع ثانی 1403ھ – 1983م)
پس ولایت و امامت کا منصب کوئی معمولی منصب نہیں ہے بلکہ یہ ایک اہم منصب ہے، انسان کی نجات کا دارومدار اس کے درست عقیدے پر ہے، لہذا جن لوگوں نے دنیا میں انبیاء و مرسلین اور آئمہ معصومین علیہم السلام کی پیروی کی ہوگی وہ بروز قیامت ان کے ساتھ محشور ہونگے اور جنہوں نے گمراہ اماموں اور رہنماؤں کی پیروی کی ہوگی وہ انہی کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔
والسلام على من اتبع الهدى.

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button