امامتعقائد

امام معصوم کی ضرورت ( حصہ پنجم)

مختار حسین توسلی
اس حصے میں ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں اس بات پرکچھ دلائل پیش کریں گے کہ آئمہ اہل بیت علیہم السلام نزول وحی کے علاوہ باقی صفات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ شریک ہیں نیز یہ ذوات مقدسہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علوم اور مشن کے وارث اور قرآن مجید کے مفسّر و معلّم ہیں، ان دلائل کو سمجھنے والے پر واضح ہو جائے گا کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کو ہی اللہ تعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد امت کا ہادی و رہنماء بنایا ہے تاکہ وہ ان کا تزکیہ نفس کریں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیں ۔
اہل بیت، قرآن کے وارث :
قرآن مجید کے مطالب کی گہرائی اور علوم و معارف کے عمق کو دیکھ کر ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ہر دور اور ہر زمانے میں ایک ایسی ہستی کا ہونا ضروری ہے جو کتاب کے احکام کی توضیح و تشریح کرکے امت کو سمجھا سکے، اور یہ کام قرآن مجید کے حقیقی وارثین کے علاوہ کوئی اور انجام نہیں دے سکتا اور قرآن مجید کے وارث عام لوگ نہیں بن سکتے ہیں بلکہ خدا کے مقرب بندے ہی اس کے وارث ہو سکتے ہیں چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :” ثُمَّ اَوۡرَثۡنَا الۡکِتٰبَ الَّذِیۡنَ اصۡطَفَیۡنَا مِنۡ عِبَادِنَا ۔”
یعنی : پھر ہم نے اس کتاب کا وارث انہیں بنایا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے برگزیدہ کیا ہے ۔”( سورہ فاطر آیت : 32 )
اس آیہ شریفہ میں قرآن مجید اور اس کے وارثین کا تذکرہ ہوا ہے، یہاں پر الکتاب سے مراد قرآن مجید ہے جس کی طرف پچھلی آیت میں اشارہ کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :” وَ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ مِنَ الۡکِتٰبِ ھُوَ الۡحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡهِ ؕ .
ترجمہ : اور ہم نے جو کتاب آپ کی طرف وحی کی ہے وہی برحق ہے، یہ ان کتابوں کی تصدیق کرتی ہے جو اس سے پہلے آئی ہیں۔”(سورہ فاطر آیت: 31)
مذکورہ بالا آیہ شریفہ سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے بنی نوع انسان کی ہدایت و رہبری کے لیے صرف قرآن کو نازل نہیں کیا بلکہ کچھ حاملان قرآن بھی بھیجے ہیں اگر تن تنہا قرآن امت کی ہدایت کے لئے کافی ہوتا تو اللہ تعالی اپنے خاص بندوں کو اس کا وارث نہ بناتا، اہلسنت کے چند مفسرین جیسے علامہ زمخشری وغیرہ کے علاوہ تمام شیعہ و سنی مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت اہل بیت علیہم السلام خاص کر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
(المیزان فی تفسیر القرآن، مجمع البیان، روح المعانی و دیگر تفاسیر ذیل آیت)
اسی بنا پر نبیِ معظم، رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں ۔” عَلِيٌّ مَعَ الْقُرْآنِ ، وَ الْقُرْآنُ مَعَ عليٍ ، لَن يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ۔”
یعنی : علی قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی کے ساتھ ہے، یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض ِ کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیں ۔”
(نیشاپوری، مستدرک علی الصحیحین، جلد 3 صفحہ 123، دار المعرفہ بیروت لبنان)
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی ذات اقدس پورے قرآن مجید کے علوم اور کمالات کا موقع ہے اسی بنا پر آپ فرمایا کرتے تھے :” سلونى عن كتاب اللہ فإنَّه ليس من آيةٍ إلاّ وقد عرفتُ بليلٍ نزلت أو بنهارٍ ، في سهْلٍ أو جبلٍ .”
یعنی مجھ سے قرآن مجید کے بارے پوچھو کیوں کہ اس کی کوئی آیت نازل نہیں ہوئی مگر میں جانتا ہوں کہ دن کو نازل ہوئی یا رات کو، آبادی میں نازل ہوئی یا پہاڑ پر ۔”
(العیاشی، تفسیر عیاشی جلد 2، صفحہ 283، مکتبہ علمیہ اسلامیہ تہران سوقِ شیرازی)
نیز آپ سے مروی ہے :” اگر مسند ِ قضاوت بچھا دی جائے تو زبور والوں کو زبور کے مطابق، توریت والوں کو توریت کے مطابق، انجیل والوں کو انجیل کے مطابق اور قرآن والوں کو قرآن کے مطابق ایسے فیصلے سناؤں گا کہ متعلقہ کتاب خود پکار اٹھے گی کہ علی ؑ نے درست فیصلے کیے ہیں۔”
(مجموعہ رسائل امام غزالی باب علم لدنی ص 70)
جناب ابن عباس امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے علمی کمالات بیان کرتے ہوئے روایت کرتے ہیں ایک دفعہ آپ ساری رات صرف بسم اللہ کی تفسیر و تشریح بیان فرماتے رہے یہاں تک کہ سپیدہ سحر ظاہر ہونے لگا تو آپ نے فرمایا : اے ابن عباس ! اگر میں چاہوں تو سورہ فاتحہ کی ایسی تفسیر بیان کروں کہ اس سے 70 اونٹوں کا بار بن جائے، کیوں کہ جو کچھ قرآن مجید میں ہے وہ سورہ فاتحہ میں ہے اور جو کچھ سورہ فاتحہ میں ہے وہ بسم اللہ میں ہے اور جو کچھ بسم اللہ میں ہے وہ بائے بسم اللہ میں ہے اور جو کچھ بائے بسم اللہ میں ہے وہ نقطہ بائے بسم اللہ میں ہے اور تم غور سے سن لو کہ میں علی ؑ وہی نقطہ ہوں جو با کے نیچے ہے۔
امیر المؤمنین علیہ السلام کے اس کلام سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آپ علم الہی کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا بحر بیکراں اور پورے قرآن کے علوم و کمالات کا موقع ہیں، کاش ! لوگ علم و آگہی کے اس بے مثال خزانے سے استفادہ کرتے، مولائے کائنات کے فرمودات اور ارشادات پر عمل پیرا ہوتے اور آپ کے علمی شہ پاروں سے فائدہ اٹھاتے تو آج پوری دنیا میں اسلام کا بول بالا ہوتا مگر افسوس کہ دنیا پرست اور چال باز افراد نے ایسا نہیں ہونے دیا۔
آئمہ معصومین علیھم السلام راسخون فی العلم :
جان لیں کہ قرآن مجید میں مختلف قسم کی آیات موجود ہیں، چنانچہ ان میں ناسخ بھی ہیں اور منسوخ بھی، عام بھی ہیں اور خاص بھی، مطلق بھی ہیں اور مقید بھی، محکم بھی ہیں اور متشابہ بھی، جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے یعنی جن لوگوں کا دل ٹیڑھے پن کا شکار ہے وہ محکمات کو چھوڑ کر متشابہات کی طرف چلے جاتے ہیں اور پھر اُن کی اپنی مرضی کی تاویلیں کرنے لگ جاتے ہیں مگر یہ بات واضح ہے کہ ان متشابہ آیات کی حقیقی تاویل اللہ تعالی کے چنیدہ اور برگزیدہ بندوں کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا ۔
چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ِ الہی ہو رہا ہے : ” ھُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنۡہُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَۃِ وَ ابۡتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ ۚ؃ وَ مَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللہُ ۘؔ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ۔”
یعنی: وہی ذات ہے جس نے آپ پر وہ کتاب نازل فرمائی جس کی بعض آیات محکم (واضح) ہیں وہی اصل کتاب ہیں اور کچھ متشابہ ہیں، جن کے دلوں میں کجی ہے وہ فتنہ اور تاویل کی تلاش میں متشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، جب کہ اس کی (حقیقی) تاویل تو صرف خدا اور علم میں راسخ مقام رکھنے والے ہی جانتے ہیں جو کہتے ہیں: ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں، یہ سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نصیحت تو صرف عقل مند ہی قبول کرتے ہیں۔”(سورہ آل عمران آیت 7)
متشابہات :
قرآن مجید کے بعض مطالب محسوسات اور مادیات سے ماوراء اور ما بعد الطبیعیات سے مربوط ہیں، ان مفاہیم کی اصل حقیقت عام انسان کے لیے قابل درک نہیں ہوتی، مثلاً قرآن فرماتا ہے : اِنَّ اللہَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ، یعنی اللہ سمیع و بصیر ہے۔(سورہ مجادلہ آیت : 1)
اب ظاہر ہے کہ اللہ کی سماعت اور بصارت ہماری سماعت و بصارت کی طرح نہیں ہے، اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے :” اَلرَّحۡمٰنُ عَلَی الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰی، یعنی: وہ رحمن جس نے عرش پر اقتدار قائم کیا۔(سورہ طہ آیت: 5)
یہ بات واضح ہے کہ اللہ لا مکان ہے، اس کے لیے کسی مکان کی محدودیت میں آنا درست نہیں ہے نیز ارشاد ہوا:” وَّ جَآءَ رَبُّکَ وَ الۡمَلَکُ صَفًّا صَفًّا، اور آپ کے پروردگار (کا حکم) اور فرشتے صف در صف حاضر ہوں گے۔”(سورہ فجر آیت : 22)
جب کہ اللہ کے لیے آنا جانا مفہو م نہیں رکھتا، ان عبارات کو اس لیے استعمال کرنا پڑا کہ انسان کو سمجھانے کا وہی طریقہ ممکن ہے جس سے انسان مانوس ہے، لہٰذا ما بعد الطبیعیاتی حقائق کو انہی چیزوں کی شکل و صورت میں بیان کیا جائے تو کلام قابل فہم بنتا ہے، چنانچہ یہ بات اپنی جگہ مسلّم ہے کہ جن چیزوں کو انسان نے اپنے حواس سے درک نہ کیا ہو، ان کا تصور ناممکن ہے، مثلاً اگر پانی کا وجود نہ ہوتا تو اس کا تصور ممکن نہ ہوتا، چونکہ بعض حقائق لاہوتی اور ما بعد الطبیعیاتی امور سے مربوط ہوتے ہیں اور ہمارے اذہان ناسوتی اور محدود ہونے کی بنا پر انہیں درک نہیں کر سکتے، اس لیے اللہ ان لاہوتی حقائق کو ناسوتی و مادی مفاہیم کے قالب میں بیان فرماتا ہے، کیونکہ اس کے علاوہ سمجھانے کا کوئی اور طریقہ موجود نہیں، مثلاً ایک ایسے شخص کو کمپیوٹر کا بتانا ہو، جس نے نئی تہذیب و تمدن کا چہرہ بالکل نہ دیکھا ہو تو اس کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے کہ جو چیزیں اس کے مشاہدے میں آئی ہوں ان کے ذریعے سمجھایا جائے، اس صورت میں متشابہات کا وجود میں آنا ایک لازمی بات ہے، البتہ اس کے حل کے لیے محکمات موجود ہیں، جن کی طرف رجوع کرنے سے یہ متشابہات بھی محکمات میں بدل جاتے ہیں۔
تاویل :
کسی چیز کا اصل کی طرف رجوع کرنا تاویل کہلاتا ہے، یعنی ہر حکم اور عمل کو اس کے منطقی محور (جس پر اس کا دار و مدار ہو) کی طرف لوٹانا اس کی تاویل ہے، اللہ کے ہر حکم کی تاویل ہوتی ہے، خواہ وہ محکم ہو یا متشابہ، وہ تاویل آیت کا لفظی مفہوم نہیں ہے، بلکہ آیات اور احکام کا وہ مرکزی نکتہ اور اس کے پوشیدہ اسرار و حکمت ہیں، جن پر ان کا دار و مدار ہے۔
اس آیت میں ارشاد ہو رہا ہے کہ متشابہات کا مرکزی نکتہ اور منطقی محور صرف اللہ اور رّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ جانتے ہیں، رسوخ یعنی کسی چیز کا محکم ہو جانا، الراسخ فی العلم سے مراد وہ محقق شخص ہے، جسے کوئی شک اور شبہ پیش نہ آئے۔(الکوثر فی تفسیر القران ذیل آیت)
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے :” اَوَّلُ الرَّاسِخُوْنَ فِیْ الْعِلْمِ رَسُوْلُ اللہِ ، سب سے پہلے راسخ فی العلم رسول اکرم (ص) ہیں۔”
(مجلسی، بحار الانوار ج : 92، ص : 78، ناشر مؤسسة الوفاء بيروت لبنان، طبع ثانی 1403ھ )
نیز حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :” نَحْنُ الرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ وَ نَحْنُ نَعْلَمُ تَاْوِیلَہُ ۔
یعنی : ہم ہی راسخون فی العلم ہیں اور ہم ہی قرآن کی تاویل جانتے ہیں۔
(المازندراني، شرح الكافی، تألیف شيخ محمد صالح مازندراني، ج 5، ص 183_326، ناشر : المكتبة الإسلامية‌، مناقب آل ابی طالب لابن شهرآشوب : ج 1، ص 285، ناشر : مؤسسة انتشارات علامه، مکتبہ مدرسہ الفقاهة سے ماخوذ، مجلسی، بحار الانوار ج 23، ص 199، ناشر مؤسسة الوفاء بيروت لبنان، طبع ثانی 1403ھ )
الغرض آل محمد علیہم السلام جو راسخون فی العلم ہونے کے ناطے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد ان کے حقیقی جانشین اور قرآن مجید کے مفسر و معلم ہیں لہذا یہ وہ ہستیاں ہیں جو صحیح معنوں میں امت کی ہدایت و رہبری کے فریضے کو انجام دے سکتی ہیں۔
اہل بیت علیھم السلام اہل ذکر :
خداوند متعال نے قرآن مجید میں بنی نوع انسان کو اہل ذکر سے تمسک اختیار کرنے، ان سے مربوط رہنے اور ان سے اپنے مسائل کا حل دریافت کرنے کا حکم دیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :” فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ، یعنی : اگر تم لوگ نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو ۔”
(سورہ النخل آیت 43، سورہ انبیاء آیت 7 )
علمائے تسنن کے اس بارے میں اختلاف ہے کہ اہل ذکر سے کون لوگ مراد ہیں؟
بعض مفسرین قرآن مجید کو اور بعض ہر زمانے کے علماء کو اہل ذکر قرار دیتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی نظریہ درست نہیں، اس لیے کہ قرآن مجید کو اہل ذکر قرار دینا عقل و شرع کے خلاف ہے کیونکہ قرآن مجید میں احکام کو کلی طور پر بیان کیا گیا ہے ان کی تفصیل و تشریح موجود نہیں ہے، لہذا ہمیں قرآن مجید سے احکام صرف کلی طور پر ملیں گے ان کی تفصیل نہیں ملے گی، چنانچہ خداوند متعال نے انسان کو اہل ذکر کی طرف رجوع کرنے کا حکم بھی احکام کی تفصیل و تشریح معلوم کرنے کے لیے دیا ہے۔
اسی طرح اہل ذکر سے مراد علمائے امت مسلمہ بھی نہیں ہو سکتے کیونکہ اگر یہی علماء ہدایت میں کافی ہوتے تو آئمہ اہل بیت علیہم السلام کی طرح ایک ہی فقہ اور نظریے پر ان سب کا اتفاق ہوتا کئی فقہی مسالک وجود میں نہ آتے۔
لہذا ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ اہل ذکر سے کچھ اور ہستیاں مراد ہیں چنانچہ اہل بیت علیہم السلام کے طرق سے مروی روایات میں وارد ہوا ہے کہ اہل ذکر سے مراد آئمہ اہل بیت علیہم السلام ہیں، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال ہوا کہ اہل ذکر سے کون لوگ مراد ہیں؟
آپ نے فرمایا :” نَحْنُ أَهْلُ الذِّكْرِ وَ نَحْنُ الْمَسْئُولُونَ، ہم ہی اہل ذکر ہیں اور ہم ہی سے سوال کیا جانا چاہئے۔”
(قمی، بصائر الدرجات المؤلف محمد بن الحسن صفار قمی، ج 1، ص 41 مکتبہ مدرسہ الفقاهة سے ماخوذ)
ایک اور مقام پر امام عالی مقام سے مروی ہے :” نَحْنُ أَهْلُ الذِّكْرِ و نحن أهل العلم و نحن معدن التأويل والتنزيل، یعنی: ہم ہی اہل ذکر، اہل علم اور تاویل و تنزیل (بیان کرنے) کا مرکز ہیں۔
(مناقب آل ابی طالب، لابن شهرآشوب ج 3 ، ص 313، مؤسسة انتشارات علامه، مکتبہ مدرسہ الفقاهة سے ماخوذ)
اہل سنت کی متعدد تفاسیر میں جناب ابن عباس سے مروی ہے :” عن ابن عبّاس في قوله تعالى :فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ، قال‌ هو محمّد و علي و فاطمة و الحسن و الحسين عليهم السّلام هم أهل الذّكر و العلم و العقل و البيان.”
سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، سید الاوصیاء حضرت علی علیہ السلام، سیدہ النساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا اور سیدین شباب اہل الجنۃ امام حسن اور امام حسین علیہم السلام اہل ذکر، اہل عقیل اور اہل بیان ہیں۔
(توستری، احقاق الحق، قاضی نور اللہ شوستری، ج 3، ص 482_ 483، اشاعت اول، مکتبہ مدرسہ الفقاهة سے ماخوذ، شیرازی، تفسیر نمونہ، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی ج 11، ص 203، مصباح القران ٹرسٹ لاہور، مئی 2012ء)
پس اہل ذکر کے اکمل واتم مصداق ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہیں اسی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو قرآن اور اہل بیت علیہم السلام دونوں سے وابستہ رہنے کی تاکید اور تلقین فرمائی تھی مگر افسوس کہ مسلمانوں نے ثقل اکبر یعنی قرآن کو تو لے لیا لیکن ثقل اصغر یعنی اہل بیت علیہم السلام کو چھوڑ دیا، جس کی وجہ سے آج مسلمان علمی میدان میں دیگر اقوام سے پیچھے ہیں۔
علی علیہ السلام، وارث ِ علم ِ نبی :
رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علم ِ الہی کا خزینہ ہیں اور آپ کے علم کے وارث امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ہیں، لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے پاس موجود علم الہی کو امانت کے طور پر اپنے نائب ِ برحق مولائے متقیان کو تفویض کر دیا ہے، چنانچہ بہت ساری شیعہ و سنی کتب میں آئی ایک صحیح السند اور متواتر حدیث میں آپ فرماتے ہیں :” أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَأْتِ البَابَ.”
یعنی : میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے پس جو بھی علم کے اس شہر میں داخل ہونا چاہے تو اسے چاہیے کہ دروازے سے آئے۔”
(نیشاپوری، مستدرک علی الصحیحین ج 3، ص 339، دارالفکر بیروت لبنان طبع اول 1422ھ، ج 3، ص 126، دار المعرفت بیروت لبنان، ج 7 /9، ص: 219 /165، التستري إحقاق الحق و إزهاق الباطل، قاضی نور الله توستری یا شوستری، ج : 31 ص: 108، مکتبہ مدرسہ الفقاهة سے ماخوذ)
معجم کبیر اور اسد الغابہ میں یہ حدیث یوں ذکور ہے :” عن ابن عباس قال : قال رسول الله (ص) : أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا، فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَأْتِهِ مِنْ بَابِهِ.”
یعنی ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میں علم کا شہر ہوں علی اس کا دروازہ ہے جو بھی علم حاصل کرنا چاہے تو اُسے چاہیے کہ اس کے دروازے سے آ جائے۔”
(الطبراني، المعجم الكبير ج 11 ص 55، طبع ثانی، ابن الأثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، حرف العين، باب العين واللام، حديث: 3789، ج : 4، ص : 87 )
اس حدیث مبارکہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے آپ کو علم کا شہر اور امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کو اس کا دروازہ قرار دیا ہے، گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علم لدنی کے مالک ہیں لہذا آپ کے علم کے وارث مولائے متقیان کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا کیونکہ آپ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح اللہ تعالی کے برگزیدہ اور چنندہ بندوں میں سے ہیں لہذا آپ ہی اللہ کے ولی اور اس کے نبی کے وصی ہیں۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حاصل کیے ہوئے علم کے ایک ایک باب سے ہزار ہزار باب منکشف کیے، چنانچہ ایک مقام پر آپ سے مروی ہے :” عَلَّمَنِي رَسُولُ اللهِ ألفَ بَابٍ مِنَ العِلمِ، فَتَحَ لِي مِن كُلّ بَابٍ ألفَ بَابِ.”
یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے علم کے ہزار باب تعلیم کیے اور ہر باپ سے ہزار باب مجھ پر کھل گئے۔”
(مجلسی، بحار الانوار ج : 22، ص : 522، مؤسسة الوفاءبيروت، لبنان، طبع ثانی 1403ھ)
امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ذات پورے قرآن کے علوم اور کمالات کا مرقع ہے، اسی بنا پر آپ سے مروی ہے کہ : خدا کی قسم قرآن کی کوئی آیت نازل نہیں ہوئی مگر میں جانتا ہوں کہ کس کے بارے میں نازل ہوئی، کس پر نازل ہوئی، رات کو نازل ہوئی یا دن کو اور آبادی میں نازل ہوئی یا پہاڑ پر۔”
( المیلانی، قادتنا کیف نعرفہم ج: 2، ص: 209 )
نیز مسجد کوفہ کے منبر پر فرمایا :” سَلُونِي سَلُونِي قَبلَ أَن تَفقِدُونِي ۔
یعنی مجھ سے پوچھو اس سے قبل کہ تم مجھے کھو جاؤ ۔”
(البحرانی، عوالم العلوم و المعارف، شیخ عبد اللہ البحرانی الأصفهاني‌، ج 1، ص 274، مکتبہ مدرسہ الفقاهة سے ماخوذ، مجلسی، بحار الانوار ج 40، ص 190، مؤسسة الوفاء بيروت، لبنان، طبع ثانی 1403ھ )
صاحب مناقب آل ابی طالب نے مولائے کائنات علیہ السلام کا یہ فرمان کچھ یوں ذکر کیا ہے :” سلوني سلوني قبل أن تفقدوني، فإني بطرق السماوات أخبر منكم بطرق الأرض ، یعنی مجھ سے پوچھو قبل اس کے کہ تم مجھے کھو جاو، میں زمین کے راستوں کی بہ نسبت آسمان کے راستوں کے بارے میں تم سے ذیادہ جانتا ہوں۔”
(مناقب آل ابی طالب، ابن شهر آشوب ج 1 ص 318، تاریخ اشاعت 1376ھ _ 1956ء)
ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں :” لو كُشِفَ لِيَ الغِطاءُ ما ازددتُ يقينًا، یعنی اگر میری آنکھوں کے سامنے سے (دنیاوی اور مادی) پردوں کو ہٹا دیا جائے تب بھی میرے یقین میں (رتی برابر بھی) اضافہ نہیں ہو گا۔”
( نراقی، جامع السعادات، محمد مهدی نراقی ج 1 ص 149، مکتبہ مدرسہ الفقاهة سے ماخوذ، مناقب آل ابی طالب، ابنشھرآشوب ج 1 ص 317، تاریخ اشاعت 1376ھ _ 1956ء)
تاریخ شاہد ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے انسان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ کوئی ایسا سوال نہیں ملتا جس کا جواب دینے سے آپ عاجز رہے ہوں، آپ نے ہر قسم کے سوالات کے جوابات دیے ہیں اور آپ نے اپنے علمی کمالات کے ذریعے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔
اسی طرح تاریخگواہ ہے کہ اس قسم کا دعوی سوائے مولائے متقیان کے کسی اور نے نہیں کیا اور ایسا دعوی کرنے والا ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جانشین اور قرآن کا معلم ہو سکتا ہے، لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ لوگوں نے نہ آپ کو پہچانا اور نہ آپ کے علمی خزانے سے استفادہ کیا۔
امیرالمومنین علیہ السلام رسالت کے گواہ :
کفارِ قریش نے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب یہ مطالبہ کیا کہ آپ اپنی رسالت کے اثبات کے لئے قرآن مجید کے علاوہ کوئی اور معجزہ دکھائیں تو خدا وند متعال نے ان کے اس نامعقول مطالبے کو رد کر دیا جب ان کا مطالبہ رد ہوا تو وہ کہنے لگے کہ آپ پیغمبر نہیں ہیں جواب میں آپ نے فرمایا : میرے حق میں گواہی کے لیے اللہ کافی ہے جس نے ایک معجزانہ کلام میری رسالت کی گواہی کے لئے نازل فرمایا اور وہ ذات بھی گواہی کے لیے کافی ہے جس کے پاس کتاب کا علم ہے چنانچہ قرآن مجید میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے :” وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَسۡتَ مُرۡسَلًا ؕ قُلۡ کَفٰی بِاللہ شَہِیۡدًۢا بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکُمۡ ۙ وَ مَنۡ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ الۡکِتٰبِ ۔”
اور کافر کہتے ہیں: کہ آپ رسول نہیں ہیں، کہدیجئے: میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے اللہ اور وہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے کافی ہیں۔(سورہ رعد آیت: 43)
تمام شیعہ تفاسیر کے علاوہ متعدد سنی تفاسیر میں بھی آیا ہے کہ مذکورہ آیت میں ” و من عندہ علم الکتاب ” سے مراد مولائے کائنات ہیں، الغرض امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام قرآن مجید کے حقیقی وارث اور سچے مفسر ہیں آپ کے پاس پورے قرآن کا علم ہے۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام، نفس رسول:
قرآن و حدیث میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے بہت زیادہ فضائل بیان ہوئے ہیں منجملہ ان فضائل میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں نفس رسول قرار دیا ہے، آیہ مباہلہ اس پر شاہد ہے، اس آیہ شریفہ کے ذیل میں تمام شیعہ اور اکثر سنی مفسرین، محدثین، مؤرخین اور سیرت نگاروں نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ رسول اکرم نے ” أنفسنا ” کی جگہ پر علی کو ساتھ لیا ۔
(المیزان فی تفسیر القران ، تفسیر الکشاف ، تفسیر الکبیر و انوار التنزیل و اسرار التاویل، ذیل آیت مباہلہ )
چنانچہ اہل سنت کے مشہور مفسر زمخشری نے اپنی تفسیر الکشاف میں، فخررازی نے اپنی تفسیر الکبیر میں، بیضاوی نے اپنی تفسیر أنوار التنزیل وأسرار التاویل میں آیہ مباہلہ کے ذیل میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ أبناءنا سے مراد حسنین کریمین نساءنا سے مراد فاطمہ زہرا اور أنفسنا سے مراد امیرالمومنین ہیں۔
( حوالہ سابق )
واضح رہے کہ ہم آیہ مباہلہ کے علاوہ دیگر قرائن سے بھی اس بات کو ثابت کرسکتے ہیں کہ امیرالمومنین علیہ السلام نفس رسول ہیں، جیسا کہ سورہ برات کی تبلیغ کے مرحلے میں رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پہلے جناب ابوبکر کو مشرکین مکہ کی طرف بھیجا، لیکن اس کے فوراً بعد جبرائیل آمین اللہ کی طرف سے یہ خصوصی پیغام لے کر نازل ہوئے اور کہا کہ ان آیات کو یا تو آپ خود پہنچائیں یا پھر اس شخص کو بھیج دیں جو آپ میں سے ہو۔
(خصائص امیر المومنین ، الامام نسائی : ص : 91)
رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب ابوبکر کو واپس کرکے ان کی جگہ پر امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کو آیات براءت کے ابلاغ کے لیے مکہ مکرمہ کی جانب بھیج دیا کیونکہ آپ آیہ مباہلہ کی روشنی میں نفس رسول کے طور پر پہلے سے ہی متعارف ہوئے تھے۔
پس جبرائیل امین کے نزول کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیرالمومنین علیہ السلام کو بلا کر فرمایا کہ جلدی سے جا کر ابو بکر سے قرآن کی آیات کو لے کر آپ ہی انہیں مشرکین مکہ تک پہنچائیں، چنانچہ مولائے کائنات نے جاکر جناب ابو بکر کو واپس کردیا، وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی، اے اللہ کے رسول ! کیا میرے بارے میں کوئی چیز نازل ہوئی ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں لیکن جبرائیل امین نے آکر مجھے اللہ تعالی کا یہ حکم پہنچایا کہ یا تو میں خود ان آیات کو مشرکین تک پہنچادوں یا پھر کوئی ایسا شخص پہنچا دے جو مجھ سے ہو ۔
یہاں پر یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ حضرت ابو بکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نہیں بلکہ اہل سقیفہ ( حزب قریش ) کے خلیفہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ مشرکین مکہ سے اعلان برات کے موقع پر خدا و رسول اس بات پر راضی نہیں تھے کہ حضرت ابوبکر قرآن مجید کی فقط دس آیتوں کی تبلیغ پر معمور ہو جائیں چہ جائے کہ وہ پورے قرآن مجید کے احکام کو تمام عالم اسلام تک پہنچانے پر معمور ہو جائیں، حالانکہ اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بقید حیات تھے چنانچہ انہوں نے اپنی زندگی میں حضرت ابو بکر کو مشرکین مکہ سے اعلان برات سے روک دیا تو وہ کیسے اس بات پر راضی ہو سکتے تھے کہ اپنے وصال کے بعد جناب ابو بکر ان کے خلیفہ بن جائیں؟
نیزحضرت ابوبکرخوداصحاب کےسامنےاعتراف کرچکےتھےکہ وہان سےبہترنہیں یعنی وہان سےزیادہ علم نہیں رکھتے، چنانچہ تاریخ میں ملتا ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے اصحاب سے کہا : ” اے لوگو ! تمہارے امور کی باگ دوڑ میرے ہاتھوں میں دے دی گئی ہے جب کہ میں تم سے بہترین فرد نہیں ہوں اگر تم لوگ مجھے حق پر دیکھو تو میری مدد کرو اور اگر مجھے باطل پر دیکھو تو میری مخالفت کرو اور مجھے اس کام سے روکو۔”
( حنبل، مسند احمد بن حنبل جلد: 1 صفحہ:192 ، الامینی، الغدیر جلد: 6 صفحہ: 87 )
پس جس شخص کو حق و باطل کی پہچان نہ ہو اور اس سلسلے میں امت سے اصلاح کا طلب گار ہو وہ کسی بھی طور پورے عالم اسلام کا حاکم اور مسلمانوں کا خلیفہ و امام نہیں بن سکتا ۔
مذکورہ بالا آیات و روایات اور دلائل و براہین سے معلوم ہوتا ہے کہ باہمی صفات و کمالات کے اعتبار سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے جو صفات و کمالات رسول خدا کے ہیں وہی صفات و کمالات امیرالمومنین کے بھی ہیں، مگر یہ کہ آپ نبی نہیں ہیں لہذا ان ہستیوں کے درمیان مقام و مرتبے کا فرق ہے ۔
ہمارا عقیدہ بھی یہی ہے کہ امیر المومینین حضرت امام علی علیہ السلام حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد کائنات کی سب سے عظیم ترین ہستی ہیں آپ کے صفات و کمالات اور فضائل و مناقب کی کوئی انتہا نہیں، لہذا ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ مولائے کائنات علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الیہ وسلم کے علاوہ تمام انبیاء کرام سلام اللہ علیہم سے بھی افضل ہیں، آیت مباھلہ اس پر واضح دلیل ہے، تمام شیعہ سنی مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم "انفسنا” کی منزل پر صرف حضرت علی کو لیکر میدان مباھلہ میں گئے، علاوہ ازیں حدیث غدیر بھی اس پر شاہد ہے ۔
آیت مجیدہ میں مولا علی کو نفس رسول قرار دیا ہے اس کا مطلب کیا ہے؟ نفس یعنی خود ۔۔۔ بنفس نفیس ۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اول تا آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حاصل تھا، نفس ہونے کے ناطے وہی کچھ امیر المومنین علیہ السلام کو بھی حاصل تھا، سوائے ایک چیز کے جس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود الگ کر دیا چنانچہ فرمایا : " یا علي ! أنت مني بمنزلت ہارون من موسی إلا لا نبی بعدي۔ "
یعنی اے علی ! آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی مگر میرے بعد کوئی بنی نہیں ہو گا ۔ باین معنی علی نبی و رسول نہیں ہیں ۔
( الصدوق، الأمالي للشيخ الصدوق ص 491 ،مجلس 63 ، حدیث: 10، الطوسي، الأمالي للشيخ الطوسي ص : 253 ، مجلس : 9 ، حدیث: 45 ، نشر دار الثقافة قم المقدس، طبع اول 1414ھ )
اہل سنت کی بعض کتابوں میں حدیث منزلت کچھ یوں مذکور ہے :” قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ : أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى”
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا : کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے۔ ”
( صحیح بخاری حدیث : 3706 ، ماخوذ از اسلام 360 اپلیکیشن، سنن ابن ماجہ ج : 1 ، ص: 42، باب فضل علی ابن ابی طالب، حدیث 115)
نیز صحیح بخاری میں ایک اور مقام پر یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے ملاحظہ ہو : أَنّ رَسُولَ اللّہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى تَبُوكَ وَاسْتَخْلَفَ عَلِيًّا ، فَقَالَ : أَتُخَلِّفُنِي فِي الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ ، قَالَ : أَلَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى ؟ إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي۔
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ (و آلہ) وسلم غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے تو علی کو مدینہ میں اپنا نائب بنایا، علی نے عرض کیا کہ آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جا رہے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ ( وآلہ) وسلم نے فرمایا: کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ میرے لیے تم ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔”
( صحیح بخاری حدیث : 4416 ، ماخوذ از اسلام 360 اپلیکیشن )
صحیح مسلم میں کچھ یوں مذکور ہے :” وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَابْنُ بَشَّارٍ قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: خَلَّفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ تُخَلِّفُنِي فِي النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ : « أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى؟ غَيْرَ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي ۔»
ترجمہ: محمد بن جعفر ( غندر ) نے کہا : ہمیں شعبہ نے حکم سے حدیث بیان کی ، انھوں نے مصعب بن سعد بن ابی وقاص سے روایت کی ، انھوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقعہ پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو (مدینہ میں اپنا) خلیفہ بنایا ، تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہوتے کہ تمہارا درجہ میرے پاس ایسا ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے پاس ہارون علیہ السلام کا تھا ، لیکن میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے ۔”
( صحیح مسلم حدیث: 6218 ، اسلام 360 اپلیکیشن سے ماخوذ )
حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب مستدرک علی الصحیحین میں اس حدیث مبارک کو یوں نقل کیا ہے قال : الا ترضى أن تكون منى بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبوة بعدي ، کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ میرے لیے تم ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے، مگر یہ کہ میرے بعد نبوت نہیں ہو گی ۔”
( مستدرک علی الصحیحین ج: 3 ، ص: 109 ، دارالمعرفت بیروت لبنان )
کتاب السنة کے مولف ابن ابی عاصم شیبانی نے بھی ابن عباس سے اسی مضمون کی روایت نقل کی ہے :
عن ابن عباس قال : قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) لعلي: أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنك لست نبيا (إنه لا ينبغي أن أذهب إلا) وأنت خليفتي في كل مؤمن من بعدي "
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علیعلیہ السلام سے فرمایا : یا علی ؑ ! تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی مگر یہ کہ تم نبی نہیں ہو، البتہ تم میرے بعد اہل ایمان میں میرے خلیفہ ہو، مولف لکھتے ہیں کہ اس حدیث کی سند حسن اور راوی ثقہ ہیں۔”
( الشیبانی ، حافظ ابی بکرعمرو بن ابی عاصم الشیبانی متوفی 287 ھ ، کتاب السنة ص : 551 ، تحقیق : محمد ناصر الدین البانی، تاریخ اشاعت 1413ھ)
علاوہ ازیں حدیث منزلت مسند احمد بن حنبل، سنن ابن ماجہ، سنن نسائی، سنن ترمذی اور دیگر مصادر میں کچھ الفاظ کے فرق کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ یہ حدیث فریقین کے نزدیک صحیح احادیث میں شمار ہوتی ہے، دوسرے لفظوں میں اس حدیث شریف کو شیعہ سنی دونوں تسلیم کرتے ہیں لیکں ان کے درمیان اس کی فہم میں اختلاف ہے، اہل تشیع کے نزدیک یہ حدیث امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت پر دلالت کرتی ہے جبکہ اہل سنت کے نزدیک یہ حدیث صرف آپ کی فضیلت کے پہلو کو بیان کرتی ہے، البتہ اس حدیث کے مطلب کو سمجھنے کے لیے حضرت موسی اور جناب ہارون علیہما السلام کے درمیان موجود نسبت کو سمجھنا ضروری ہے تب جاکر اس کا معنی واضح ہوگا، الغرض نفس رسول ہی امت کا ہادی و امام اور قرآن مجید کا وارث و مفسر ہے۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی افضلیت پر حدیث غدیر بھی ایک واضح دلیل ہے، چنانچہ شیعہ اور سنی دونوں کی متعدد کتب حدیث و تاریخ میں آیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حجۃ الوداعسےواپسیکےموقعپر 18 ذیالحجسن 10 ہجریقمریکوغدیرغمکےمیدانمیں حاجیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟ قَالُوا : بَلَى يَا رَسُولَ اللہ ! قَالَ: مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ، وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ، وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ "
یعنی مومنو ! کیا تمہارے نفسوں پر میں تم سے زیادہ اختیار نہیں رکھتا، لوگوں نے جواب دیا یا رسول اللہ ! کیوں نہیں (آپ ہمارے نفسوں پر ہم سے زیادہ اختیار رکھتے ہیں) آپ نے مولا علی کے ہاتھ کو بلند کرکے فرمایا ! آگاہ ہوجاؤ کہ جس جس کا میں مولا ہوں اس کا علی ؑ مولا ہے، اس کے بعد آپ نے دعایہ انداز میں فرمایا : پروردگار ! تو بھی اسے دوست رکھ جو علی ؑ کو دوست رکھتا ہے، تو بھی اس سے دشمنی رکھ جو اس سے عداوت رکھتا ہے، تو بھی اس کی مدد کر جو علیؑ کی مدد کرتا ہے اور تو بھی اسے چھوڑ دے جو علیؑ کو چھوڑ دیتا ہے ۔ ”
( کلینی، ثقۃ الاسلام أبی جعفر محمد بن یعقوب بن إسحاق كلينی، تعليق : علی اكبر غفاری، الکافی، ناشر : دار الكتب الاسلامية تهران، طبع ثالث 1388ھ، ج 1، ص 295،ھیثمی، حافظ نور الدين علی بن أبی بكر هيثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، دار الكتب العلمية بيروت لبنان، نشر 1408ھ / 1988م، ج 9، ص 103 تا 108، باب مناقب علی، باب قول رسول من کنت مولاہ ۔۔۔ حنبل، امام احمد بن حنبل، مسند احمد بن حنبل، دار صادر بیروت، ج 1، صفحات 84 – 118، 331 )
اس حدیث کی روشنی میں جس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مولا یعنی حاکم ہیں اس کے علی ؑ بھی مولا اور حاکم ہیں، واضح رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسی علیہ السلام تک تمام انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے سید و سردار ہیں، لہٰذا امیرالمومنین علیہ سلام بھی ان سب کے مولا و آقا ہیں ۔
امت مسلمہ کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس نے مسواک اور بیت الخلاء سے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشادات و فرامین کو تو یاد رکھا لیکن واقعہ مباہلہ، مشرکین سے برات، اعلان غدیر جیسے اہم واقعات کو بھلا دیا جو مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور اسلامی معاشرے کی نظم و نسق کو درست رکھنے کے لیے الہی نمائندوں کے تقرر سے متعلق تھا۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام کی علمی مرجعیت:
اگر بات صرف اتنی سی ہوتی کہ لوگوں کی قیادت اور معاشرے کی نظم و نسق چلانے کے لیے ایک فرد کو کسی کا جانشین بننا ہوتا تو اس مقصد کے حصول کے لیے کسی غیر معمولی شخص کی ضرورت نہ ہوتی بلکہ ایک ایسا فرد درکار ہوتا جس میں مناسب اور معقول صلاحیت پائی جاتی ۔
لیکن دین اسلام میں یہ معاملہ مختلف نوعیت کا حامل ہے کیونکہ خداوند عالم نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کامل اور جامع دین کے ہمراہ بھیجا ہے اور ان پر قرآن کریم کو نازل کیا ہے تاکہ وہ اسلامی تعلیمات کو لوگوں کی روح اور ان کے نفوس پر نافذ کر دیں، لہٰذا اُن کے بعد بھی ایک ایسا شخص ان کا جانشین ہونا چاہئے جو خود ان کی صفات و کمالات کا حامل ہو تاکہ ان کا مشن اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ منزل مقصود تک پہنچ سکے۔
علاوہ ازیں اس شخص کو ایسی صلاحیت کا مالک ہونا چاہیے کہ مختلف چیلنجوں کا سامنا ہونے پر وہ دوسروں کی مدد کا محتاج نہ ہو بلکہ اس کے برعکس تمام لوگ کم از کم علمی مسائل میں اس کے محتاج ہوں، تاریخ میں ہم پڑھتے ہیں کہ خلیفہ ثانی حضرت عمر کہا کرتے تھے:” لولا علي لهلك عمر.” یعنی ” اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا.”( مجلسی، بحارالانوار جلد: 40 صفحہ: 298 )
حضرت عمر نے ایک اور مقام پر کہا : أللهم لا تنزل بي شديدة إلا وأبو الحسن إلى جنبي. یعنی : اے اللہ ! مجھے کسی مشکل میں گرفتار نہ کر مگر یہ کہ (اس کے حل کے لیے ) ابو الحسن میرے پہلو میں موجود ہوں۔
( متقی الہندی ، کنز العمال ج: 5 ، ص: 257 ، فصل: جنايات الحج و ما يقاربها، حدیث: 12805، تاریخ اشاعت: 1409ھ )
حضرت عمر جب بھی کسی مشکل میں گرفتار ہوتے تھے تو امیر المومنین علیہ السلام اس کو دور کرتے تو وہ کہا کرتے تھے : لا أبقاني الله بعدك يا على، یعنی: اے علی ! آپ کے بعد خدا مجھے باقی نہ رکھے۔
حضرت عمر کے یہ الفاظ بھی کتب تاریخ و سیر میں ملتے ہیں : : أعوذ بالله أن أعيش في يوم لست فيه يا أبا الحسن، : اے ابوالحسن ، میں اس دن زندہ رہنے کے لئے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں جس میں، میں تو زندہ رہوں لیکن آپ نہ ہوں۔
(حاکم ، مستدرک علی الصحیحین ج: 1 ، ص: 457، تحقیق: یوسف عبد الرحمن مرعشلی، دارالمعرفت بیروت لبنان)
تاریخ اسلام شاہد ہے کہ کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے کسی سے کوئی سوال کیا ہو جبکہ سب جانتے ہیں کہ اہل سنت کے خلفاء کو ان کی ضرورت رہا کرتی تھی اور وہ مختلف علمی مسائل کے حل کے لئے ان کی طرف رجوع کیا کرتے تھے، اس ضمن میں بہت سارے واقعات ملتے ہیں، چنانچہ قرآن مجید کے موجود ہونے کے باوجود خلفاء کا علمی مسائل کے حل کے لیے امیرالمومنین علیہ السلام کی طرف رجوع کرنا اس بات کو واضح کرتا ہے کہ امت کی ہدایت و رہبری کے لیے تنہا قرآن کافی نہیں ہے بلکہ اہل بیت علیہم السلام سے تمسک اختیار کرنا ضروری ہے تاکہ پیش آمدہ نت نئے مسائل کے حل کے لیے ان کی طرف رجوع کیا جاسکے، پس ایک ایسا شخص جو دوسروں کے لئے علمی مرجعیت کی حیثیت رکھتا ہو وہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ کا جانشین و خلیفہ، امت کا ہادی و رہنماء اور قرآن مجید کا معلم و مفسر ہو سکتا ہے، اور لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ اس کی پیروی کریں۔
دینی احکام سے خلفاء کی لاعلمی:
ایک دینی اور مذہبی قائد کے لیے دین کے تمام اصول و فروع سے متعلق وسیع علم اور اسلامی معاشرے کی ضرورتوں سے مکمل آگاہی رکھنا ضروری ہے اس کے بغیر دینی اور مذہبی قیادت کی ذمہ داری کو نبھانا ممکن نہیں ہے، انسان کی تخلیق کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ شریعت اسلامی پر عمل کرتے ہوئے کمال کی منزلیں طے کرتے ہوئے لقاء اللہ کی منزل تک جا پہنچے۔
خدا نے انبیاء و مرسلین علیہم السلام بھی اسی مقصد کے حصول کے لیے مبعوث فرمائے ہیں تاکہ انسان ان کی پیروی کرتے ہوئے دائمی نجات اور ابدی سعادت سے ہمکنار ہو جائے انسان کے لئے الہی قوانین پر عمل کرتے ہوئے ترقی کی منزلیں طے کرنا اس صورت میں ممکن ہے جب ان کی رہبری کرنے والا دین کے احکام اور الہی قوانین سے مکمل آگاہ ہو تاکہ اس کی پیروی کرنے والوں کے لیے عملی زندگی میں کوئی دقت پیش نہ آئے ۔
دوسرے لفظوں میں دین کے تمام احکام تک رسائی حاصل کرنے کے لئے شرط ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امت میں کوئی ایسا شخص موجود ہو جو معاشرے کی دینی ضرورتوں سے پوری طرح آگاہ ہو تاکہ لوگوں کو ارتقاء و کمال کا راستہ اور صراط مستقیم دکھائے اور تخلیق کے مقاصد کو بیان کرنے میں ذرا بھی غفلت سے کام نہ لے، جب ہم خلفاء کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی ان خصوصیات کا حامل نہیں تھا۔
جب ہم کتب تاریخ و سیر میں خلفاء کی علمیت کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ قرآن اور احادیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں معمولی اور سطحی معلومات کے حامل تھے، ان ناقص اور سطحی معلومات کے سہارے امت مسلمہ کو ہرگز کمال کی منزل تک نہیں پہنچایا جاسکتا۔
خلیفہ اول خود ایک مقام پر کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ :” اے لوگو ! تمہارے امور کی باگ دوڑ میرے ہاتھوں میں دے دی گئی ہے جب کہ میں تم سے بہترین فرد نہیں ہوں اگر تم لوگ مجھے حق پر دیکھو تو میری مدد کرو اور اگر مجھے باطل پر دیکھو تو میری مخالفت کرو اور مجھے اس کام سے روکو۔”
( حنبل، مسند احمد بن حنبل جلد: 1 صفحہ:192 ، الامینی، الغدیر جلد: 6 صفحہ: 87 )
دین و مذہب کے رہنما کو جس کے نقش قدم پر امت کو چلنا ہے دینی مسائل میں امت سے مدد کا محتاج نہیں ہونا چاہیے یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ دینی رہبر بجائے اس کے کہ امت کو تخلیق کے مقاصد کی طرف رہنمائی کرے اپنی غلطیاں اور گمراہیاں سدھارنے کے لیے امت سے مدد مانگے، یہی حال باقی خلفاء کا بھی تھا، لیکن آئمہ اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں ہمیں کوئی ایسا ثبوت نہیں ملتا کہ کبھی انہوں نے علمی گھتیاں سلجھانے کے لیے دوسروں سے مدد مانگی ہو، پس امیر المومنین علیہ السلام اور دیگر آئمہ معصومین علیہم السلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی جانشین اور قرآن مجید کے وارث و مفسر ہیں۔

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button