امامت

عقیدہ امامت (حصہ دوئم)

آیۃ اللہ مکارم شیرازی
چونکہ امامت سے متعلق روایات اور رایوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہیں کہ اس کتاب میں ان کو بیان نہیں کیا جاسکتا اور راویوں کے بیان کرنے کا طریقہ بھی جداجدا ہے، لیکن ہم یہاں پر فقط تین عدد شاہد پیش کرتے ہیں اور باقی تفصیل کو تفصیلی کتابوں کی طرف حوالہ دیتے ہیں۔(مثلاً الغدیر علامہ امینی ، عبقات الانوار اورالمراجعات وغیرہ)
پہلی حدیث: ” حدیث دار “
ابن جریر طبری نے اس حدیث کو اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمپر یہ آیت نازل ہوئی :
وَانْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاٴَقْرَبِیْنَ
”(اے رسول) تم اپنے قریبی رشتہ داروں کو (عذاب خدا) سے ڈراؤ“۔
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خاندان عبد المطلب کو دعوت کے لئے بلایا جس میں ان کے چچا جناب ابوطالب ، جناب حمزہ، جناب عباس اور ابو لہب بھی تھے اور جب سب لوگ کھانے سے فارغ ہوگئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
”یا بنی عبد المطلب انی واللّٰہ ما اعلم شاباً فی العرب جاء قومہ باٴفضل ممّا قد جئتکم بہ، اٴنی قد جئتکم بخیر الدنیا والآخرة، وقد امرنی اللّٰہ تعالیٰ اٴن اٴدعوکم الیہ، فاٴیکم یوازرنی علی ہذا الامر علی اٴن یکون اخی ووصیی وخلیفتی فیکم؟“
"اے خاندان عبد المطلب ! خدا کی قسم، میں عرب میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو اپنی قوم میں مجھ سے بہتر پیغام لایا ہو میں تم میں دنیا وآخرت کی بھلائی لے کر آیا ہوں ، اور خداوندعالم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس دعوت کو تمھارے سامنے پیش کردوں، پس تم میں کون شخص ہے جو اس کام میں میری مدد کرے، اور جو شخص میری مدد کرے گا وہ میرا بھائی، میرا وصی اور میرا خلیفہ ہوگا”۔
چنانچہ یہ سن کر سب لوگوں نے اپنا سر جھکالیا او رکوئی جواب نہ دیا، اس وقت حضرت علی علیہ السلام کھڑے ہوئے اور کہا:
”انا یا نبی اللّٰہ اٴکون وزیرک علیہ ، فقال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان ہذا اخی ووصیی وخلیفتی فیکم، فاسمعوا لہ واطیعوا“
یا رسول اللہ میں حاضر ہوں اور میں آپ کا وزیر ہوں، تب رسول اللہ نے فرمایا:
یہ میرے بھائی، میرے وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتوں کو سنو اور ان کی اطاعت کرویہ سن کر سب لوگ جناب ابو طالب کو یہ کہہ کر ہنستے ہوئے چلے گئے:
”اے ابو طالب تم کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنے بیٹے کی باتوں کو سنو اور ان کی اطاعت کرو”۔
(اس روایت کو خلاصہ کرکے نقل کیا ہے، تاریخ طبری ج۲ص ۳۱۹،۳۲۱۔ مطبوع دار المعارف، مصر ۱۹۶۱ء ۔ اور جیسا کہ ڈاکٹر محمد حسین ہیکل نے اپنی کتاب ”حیاۃ محمد“ ص۱۰۴ کے پھلے ایڈیشن میں اس حدیث کو نقل کیا لیکن دوسرے ایڈیشن میں اس حدیث کوحذف کردیا، قارئین کرام اس حدیث کے مصادر اور سندوں کو کتاب الغدیر ج۲ ص ۲۵۲تا ۲۶۰ پر ملاحظہ فرمائیں)
قارئین کرام ! یہ حدیث اپنے ضمن میں حضرت علی علیہ السلام کے لئے تین صفات کی حامل ہے:
۱۔وزیرہونا۔2۔وصی ہونا۔3۔خلیفہ ہونا۔
اب ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام کو کس لئے یہ صفات عطا کئے اور کسی دوسرے کو ان صفات سے کیوں نہیں نوزا؟ اور کیوں آپ نے اس کام کے لئے بعثت کے بعد پہلے جلسہ کا انتخاب کیا؟
اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس کام میں اپنے لئے ایک مددگار کی ضرورت تھی تو وزارت کافی تھی لیکن ان کے ساتھ خلافت ووصایت کا کیوں اضافہ کیا؟ اور اپنے رشتہ داروں کو ڈرانے اور ان کو اسلام کی دعوت دینے اور وصایت وخلافت میں کیا ربط ہے؟ ان سوالوں کے جوابات دینے کے لئے ہم پر مندرجہ ذیل چیزوں کا بیان کرنا ضروری ہے:
قارئین کرام ! رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے اس پہلے اعلان میں عہد جدید ، جدید معاشرے اورنئی حکومت کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں۔
کیونکہ جب کوئی اہم شخصیت اپنے ہدف کو باقی رکھنا چاہتی ہے تو اس رئیس اور ایک نائب مقرر کیا جاتا ہے تاکہ اگر رئیس کو کوئی پریشانی لاحق ہوجائے تو اس کے نائب کی طرف رجوع کیا جاسکے۔
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی اس ہدف کے تحت حاضرین کو یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ یہ مسئلہ (دین ودنیا) کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو فقط مادام العمر باقی رہے اور اس کے بعد ختم ہوجائے گا کیونکہ یہ ایک الٰہی رسالت ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے اور رسول کی وفات کے بعد ختم نہیں ہوگی، بلکہ جب تک زمین باقی ہے اس وقت تک یہ دین باقی ہے او رمیرے بعد بھی اس دین کا باقی رکھنے والا ہوگا اور وہ یہ جوان ہے جس نے اس وقت میری مدد ووزارت کا اعلان کیاہے یعنی حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام اور یہ تمام باتیں مذکورہ حدیث شریف میں دقت اور غور وفکر کرنے سے واضح ہوجاتی ہیں اور شاید یہی وجہ تھی کہ جس کی بنا پر امام رازی نے اس حدیث کی صحت اور سند دلالت کا اعتراف کیا لیکن خلافت کے معنی میں شک کیا اور اس بات کا دعویٰ کیا کہ اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی وفات کے بعد خلیفہ معین کرنا چاہتے تھے تو ”خلیفتی فیکم“ نہ کہتے یعنی علی تم میں میرے خلیفہ ہیں، بلکہ ”خلیفتی فیکم من بعدی“ (یعنی تم میں میرے بعد میرے خلیفہ ہوں گے) کا اضافہ کرتے تاکہ واضح طور پر نص بن جائے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم دونوں الفاظ میں کوئی فرق نہیں پاتے، اور اگر یہ طے ہو کہ ”خلفتی فیکم من بعدی“ دلالت کے اعتبار سے واضح ہوتی تو پھر ”خلفیتی فیکم“بھی اسی طرح ہے کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر مجھ پر کوئی پریشانی آجائے تو تمہارے درمیان علی علیہ السلام خلیفہ ہیں اور اسی طرح کے الفاظ موت کے بعد خلافت پر واضح نص ہوتے ہیں اور اس معنی کی تاکید لفظ ”وصی“ کرتا ہے کیونکہ اسلام میں کسی کو موت کے وقت ہی وصی بنایا جاتا ہے کیونکہ موصی کی موت کے بعد وصی اس کے کاموں پر عمل کرتا ہے۔
اور اگر کسی کام کے بارے میں موت سے قبل کہنا ہو تو کہا جاتا ہے ”ھذاوکیلی“ (یہ میرا وکیل ہے)، ”وصیی“(میرا وصی) نہیں کہا جاتا کیونکہ وکالت ایک اسلامی تعبیر ہے جو اس شخص کے لئے کہی جاتی ہے جو انسان کی قید حیات میں اس کی نیابت میں کسی کام کو انجام دے۔
لہٰذا اس بات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روز اول ہی واضح بیان فرمایاکہ کون میرے بعد میرا خلیفہ ہوگا اور کون مسلمانوں میں میرا وصی ہوگا تاکہ کشتی اسلام میری وفات کے بعد امواج زمانہ کی نذر نہ ہوجائے۔
اور یہ اسلام کا آغازجس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس محدود مجمع میں اپنا خلیفہ مقرر کیا اور ہمیشہ اس پر تاکید فرماتے رہے یہاں تک کہ آخری عمر میں بھی (غدیر خم میں)اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی۔
دوسری حدیث: ”حدیث المنزلت“
امام مسلم نے اپنی سند کے ساتھ اس حدیث کو بیان کیا ہے کہ حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
”انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی”
"اے علی تم میں اور مجھ میں وہی نسبت ہے جو جناب ھارون اور جناب موسیٰ علیہ السلام کے درمیان تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں”۔(صحیح مسلم ج۷ص ۱۲۰، اس حدیث کی سند اور منابع کے سلسلہ میں کتاب الغدیر جلد اول ص۴۸تا ۴۹ وج۳ص ۱۷۲تا ۱۷۶ ملاحظہ فرمائیں)
قارئین کرام ! اگرچہ یہ حدیث مختصر ہے لیکن پھر بھی بہت سے معنی کی طرف اشارہ کرتی ہے لیکن اگر کوئی طائرانہ نظر ڈالے گا تو اس پر حدیث کے معنی واضح نہیں ہوں گے لیکن اگر کوئی شخص اس حدیث میں غور وفکر کرے گا تو اس پر یہ معنی بہت واضح ہوجائیں گے۔
چنانچہ یہ حدیث شریف حضرت علی علیہ السلام کے لئے اشارہ کرتی ہے :
۱۔ حضرت علی علیہ السلام رسول اللہ کے وزیر ہیں کیونکہ جناب ھارون جناب موسیٰ کے وزیر تھے:
وَاجعلْ لی وَزِیراً منْ اٴَھلی
”اور میرے کنبہ والوں میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنادے“۔
۲۔آپ رسول اللہ کے بھائی ہیں کیونکہ جناب ہارون جناب موسیٰ کے بھائی تھے:
ھارُوْنَ اَخِیْ
”میرے بھائی ہارون“
۳۔ آپ ہی رسول اللہ کے شریک ہیں کیونکہ جناب ہارون بھی موسیٰ کے شریک تھے:
وَاشْرِکْہُ فِیْ اٴَمْرِیْ”اور میرے کام میں اس کو میرا شریک بنا“
۴۔ حضرت علی علیہ السلام خلیفہ رسول ہیں ، جیسا کہ جناب ھارون جناب موسیٰ کے خلیفہ تھے:
وَقَالَ مُوْسٰی لِاَخِیْہِ ہَارُوْنَ اخْلُفْنِی فِیْ قَوْمِی
”(اورچلتے وقت ) موسی نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ تم میری قوم میں میرے جانشین ہو“۔
۵۔ امامت نبوت سے مشتق ہے کیونکہ حدیث میں ضمیر ”انتَ“ امامت کی طرف اشارہ کرتی ہے اور لفظ ”منّی“ نبوت کی طرف اشارہ کرتی ہے اور یہاں پر حرف ”جر “نشو ونمو اور وجود کے معنی میں ہے اور یہ نشو ونما اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ دونوں درجہ میں برابر ہیں تب ہی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرق کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:
الا انہ لا نبی بعدی“۔ (مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں)
اور جب جناب موسیٰ علیہ السلام نے خدوندعالم سے درخواست کی کہ ان کے اہل سے ان کا وزیر معین کردے (جیسا کہ مذکورہ آیت بیان کرتی ہے) تو یہ درخواستِ جناب موسیٰ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ نبی کی خلافت ووزارت خدا کے حکم سے ہوتی ہے لوگوں کے انتخاب اور اختیار سے نہیں۔
قارئین کرام ! جب ہم ”حدیث منزلت“ کے بارے میں غور وفکر کرتے ہیں تو یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سب کچھ فقط حضرت علی علیہ السلام کے اکرام اور تجلیل کی غرض سے نہیں بیان کیا بلکہ اس کے پسِ پردہ ایک بہت اہم مقصد تھا اور وہ یہ کہ آپ امت کو اس بات پر متوجہ کرنا چاہتے تھے کہ نبی اپنے بعد حکومت کی ریاست اور کشتی اسلام کی مہار کس کے ہاتھ میں دے کر جارہے ہیں۔
اور جیسا کہ یہ حدیث شریفہ اشارہ کرتی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ شریک ہیں لیکن یہ شرکت کسی تجارت، صنعت او رزراعت میں نہیں ہے بلکہ آپ کی شرکت دین اور اسلام میں ہے اور اسلام میں پیش آنے والی تمام زحمتوں کو برداشت کیا اور دین کی اہم ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کی،اور چونکہ ایک معمولی انسان شرکت کے حدود کو آسانی سے نہیں سمجھ سکتا (خصوصاً جبکہ یہ بھی معلوم ہو کہ جناب ہارون نبی بھی تھے) اسی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حدیث منزلت میں ایسی قید لگادی تاکہ اشکال نہ ہونے پائے اور اس شرکت کی حدود بھی معین کردی اسی وجہ سے مطلق طور پر نبوت کی نفی کردی اور نبوت کو شرکت کے حدود سے نکالتے ہوئے فرمایا: ” میرے بعد کوئی نبی نہیں“ اور شاید اس حدیث کے معنی اس وقت مزید روشن ہوجائیں جب یہ معلوم ہو کہ حدیث منزلت کو رسول اسلام نے اس وقت بیان فرمایا جب آپ مدینہ منورہ سے ”جنگ تبوک“ میں جارہے تھے اس وقت نائب اور قائم مقام بنایا ۔
لیکن شیخ ابن تیمیہ اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس حدیث سے حضرت علی علیہ السلام کی کوئی بھی فضیلت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ جس وقت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنگ تبوک کے لئے نکلے ہیں تو آپ کے ساتھ تمام اصحاب اور تمام مومنین تھے او رمدینہ میں عورتوں اور بچوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا یا وہ لوگ جو جنگ میں نہیں گئے تھے چاہے وہ مجبور ہوں یا منافق تو ایسے لوگوں پر کسی کو خلیفہ بنانا کوئی بھی فضیلت نہیں رکھتا۔(نظریۃالامامہ ص ۲۲۹)
لیکن حدیث پرغوروفکر کرنے والاشخص ابن تیمیہ کے نتیجہ سے مطمئن نہیں ہوتا بلکہ ایک دوسرا نتیجہ نکالتا ہے کہ:
اس وقت مدینہ منورہ مرکز نبوت اور دار السلطنت تھا۔
جب کسی حکومت کا رئیس اپنے دار السطنت سے کسی دوسری جگہ جاتا ہے (جیسے تبوک) اور چونکہ اس وقت کا مواصلاتی نظام بہت ہی کمزور ہوتا تھا تو گویا جانے والا ایک طویل مدت کے لئے وہاں سے غائب ہورہا تھا اور چونکہ جنگ کے مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کے بارے میں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کب ختم ہوگی اور کب پلٹ کر آنا ہوگا تو ایسے موقع پر کسی رئیس کا نائب بنانا اور اس کو دار السلطنت میں جانشین بناکر چھوڑنا ایک عظیم معنی رکھتا ہے اور وہ بھی ایسے ماحول میں جب دشمنان اسلام اور منافقین کی طرف سے ہر ممکن خطرہ موجود ہو اور وہ ایک ایسی فرصت کی تلاش میں ہوں کہ موقع ملنے پر اسلام اور مسلمانوں کو نابود کر ڈالیں، لہٰذایسے ماحول میں حضرت علی علیہ السلام کو اپنا خلیفہ معین کرنا ایک عظیم فضیلت ہے۔
تیسری حدیث: ”حدیث غدیر“
اس حدیث کو اکثر صحابہ وتابعین نے روایت کیا ہے اور بہت سے علماء وحفاظ نے اس کو نقل کیا ہے۔
(ان صحابہ، تابعین علماء ،حفاظ اور رایوں کے اسماء گرامی نیز منابع حدیث کے بارے میں کتاب الغدیر جلد اول مکمل طور پر ملاحظہ فرمائی)
بطور اختصارہم صرف حدیث کے محل شاہد اور ان چیزوں کو بیان کرتے ہیں جو امامت وامام کی وضاحت سے متعلق ہیں۔
چنانچہ اکثر روای کہتے ہیں:”جب ہم حجۃ الوداع سے واپس پلٹ رہے تھے ، اورغدیر خم میں پہنچے تو رسول اسلام نے نماز ظہر کے بعد مسلمانوں کے درمیان خطبہ دیا اورحمد باری تعالیٰ کے بعد فرمایا:
”اے لوگو ! قریب ہے کہ میں اپنے پروردگار کی دعوت پر لبیک کہوں میں بھی مسئول ہوں او رتم بھی مسئول ہو، پس تم لوگ کیا کہتے ہو؟تب لوگوں نے کہا: ”ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے دین اسلام کی تبلیغ کی، ہم کو وعظ ونصیحت کی اورجہاد کیا ، ”فجزاک اللّٰہ خیراً“یہاں تک کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”ان اللّٰہ مولای واٴنا مولی الموٴمنین ، وانا اولی بھم من انفسھم، فمن کنت مولاہ فھذا علی مولاہ، اللّٰھم وال من والاہ وعاد من عاداہ وانصر من نصرہ، واخذل من خذلہ واٴدر الحق معہ حیثما دار “
اللہ میرا مولا ہے او رمیں مومنین کا مولا ہوں اور میں ان کے نفسوں پر اولیٰ بالتصرف ہوں پس جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی بھی مولا ہیں، خدایا تو اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے، خدا یا تو اس کی نصرت فرما جو علی کی نصرت کرے، اور اس کو ذلیل کردے جو علی کو ذلیل کرنا چاہے او رجدھر علی جائیں حق کو ان کے ساتھ موڑدے۔
اور جب رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ کلام تمام ہوا تو سب لوگ حضرت علی علیہ السلام کی طرف مبارکباد دینے کے لئے بڑہے، چنانچہ حضرت عمر نے کہا:
”بخ بخ لک یا علی، اصبحت مولانا ومولی کل مومن ومومنة“
مبارک ہو مبارک اے علی، آپ ہمارے اورہر مومن ومومنہ کے مولا ہوگئے۔
اس کے بعد جناب جبرائیل یہ آیت لے کر نازل ہوئے:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاٰمَ دِیْناً
”آج میں نے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتیں پوری کردیں اور تمہارے اس دین اسلام کو پسند کیا“۔
قارئین کرام ! یہ تھا حدیث غدیر کا خلاصہ،اور یہ تھی شان نزول اور یہ تھے الفاظ حدیث، اس حدیث شریف میں نظریہ ”امامت“ کی مکمل وضاحت کی گئی ہے اور یہ واضح کردیا گیا ہے کہ یہ امامت ، ولایت عام او رمطلقہ مسئولیت کی حامل ہے اور سول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد جس امام کے بارے میں سوال کیا جارہا تھا اس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کے سامنے پیش کردیا اور اس حدیث ودلیل کو سن کر لوگوں نے اپنا مقصد حاصل کرلیا جس کے نتیجہ میں تہنیت اور مبارکباد پیش کرنے لگے۔
لیکن بعض لوگوں نے فلسفہ جھاڑنا شروع کیا درحالیکہ وہ حدیث کی صحت کا انکار نہ کرسکے بلکہ یہ کہا کہ یہ حدیث آپ کے مدعا کو ثابت نہیں کرتی چونکہ لغت میں لفظ” مولا“ کے بہت سے معنی ہیں جیسے ناصر، ابن عم، رفیق، وراث وغیرہ اور ہم یہ نہیں جانتے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد کون سے معنی تھے اور کس معنی میں حضرت علی علیہ السلام کو مولا کہا ہے۔
لیکن یہ فلسفہ تراشی خود غرضی اور ہوا وہوس کی دین ہے اور نہ ہی معترض نے موضوع میں غور وفکر کیا ہے۔ ان اعتراضات کو ختم کرنے کے لئے درج ذیل امور رپر توجہ کرنا:
۱۔ اعلان ولایت سے قبل آیہ بلّغ کا نازل ہونا چنانچہ مورخین ومفسرین نے روایت کی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آخری حج سے واپس آرہے تھے تو اس وقت خداوندعالم نے وحی فرمائی:
یَاَیُّھا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ
”اے رسول جو حکم تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے پہنچادو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو (سمجھ لو) تم نے اس کا کوئی پیغام ہی نہیں پہنچایا اور (تم ڈرو نہیں) خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“۔
(سورہ مائدہ آیت ۶۷، اس آیت کی شان نزول کے بارے میں تفسیر ”الدر المنثور“ ج۲ص ۲۸۹، فتح الغدیر جلد اول ص ۶۰ اور کتاب الغدیر جلد اول ص ۱۹۶ تا ۲۰۹ میں ذکر شدہ کتابوں کا مطالعہ فرمائیں)
۲۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اعلان ولایت کے لئے جنگل میں ظہر کے وقت کا انتخاب کرنا۔
۳۔کلام پیغمبر میں تینوں ولایت کا ذکر ہونا:
الف: اللّٰہ مولای۔اللہ میرا مولا ہے۔
ب: انامولی المومنین۔میں مومنین کا مولا ہوں۔
ج: من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔
جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی علیہ السلام بھی مولا ہیں۔
(اسد الغابہ ج ۴ص۲۸، البدایۃ والنھایۃج۵ص ۲۰۹، ۲۱۳، اور الغدیر کی پہلی جلد میں بیان شدہ کتابیں)
۴۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حضرت علی علیہ السلام کے لئے دعا کرنا:
”اللّٰھم وال من والاہ وعاد من عاداہ واخذل من خذلہ وادرالحق معہ حیث دار”
پروردگارا ! تو اسے دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو علی کو دشمن رکھے اور ذلیل کر اس کو جو علی کو ذلیل کرنا چاہے، اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی جائیں ۔
(سنن ابن ماجہ جلد اول ص ۴۳ ، البدایة والنھایة ج۵ص۰ ۲۱، وفیات الاعیان ج۴ص ۳۱۸ ، اور الغدیر کی پہلی جلد میں بیان شدہ کتابیں) جبکہ اس دعا میں ولایت کے معنی بغیر حاکم کے مکمل نہیں ہوسکتے ہیں
۵۔ آیہ اکمال کا نازل ہونا: الیوم اکملت لکم دینکم ۔۔۔
(اس آیت(سورہ مائدہ آیت۳) کی شان نزول کے بارے میں تاریخ بغداد ج۸ ص ۲۹۰، الدر المنثور ج۲ ص ۲۵۹، اور الغدیر کی پھلی جلدص۱۲۰تا ۲۱۷ میں بیان شدہ کتابیں)
جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ ایک اہم مسئلہ تھا جس وجہ سے خداوندعالم نے دین کو کامل کیا اور نعمتیں تمام کیں۔
۶۔ حاضرین غدیر خم کا حضرت علی علیہ السلام کا مذکورہ الفاظ میں مبارک باد پیش کرنا۔
(تاریخ بغداد ج ۸ص ۲۹۰، البدایہ والنھایۃ ج۵ ص ۲۱۰، اور الغدیر کی پہلی جلد میں بیان شدہ کتابیں)
مذکورہ چھ نکات میں غور وفکر کرنے سے انسان کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کی نظر میں حضرت علی علیہ السلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وراث ،ناصر ،دوست او رابن عم نہیں ہیں اور نہ ہی ارث ونصرت کا مسئلہ ہے اور اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ا ن باتوں کاقصد کرتے توپھر غدیر کے ماحول اور ان آیات جن کو خدا نے اس موقع پر نازل فرمایا اور تبریک وتہنیت کے لئے ایسے الفاظ کی ضرورت نہ تھی کیونکہ اگر لفظ مولا سے مراد امامت وخلافت نہ ہو تو پہر ان سب چیزوں کا وجود کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اور جیسا کہ ڈاکٹر احمد محمود صبحی نے حقیقت کا انکشاف کیا ہے اور جو لوگ اس حدیث کا انکارکرتے ہیں ان کے لئے بہترین جواب دیا ہے، چنانچہ موصوف کہتے ہیں:
”چونکہ اہل ظاہر(حنبلیوں) اور سلفیوں( وہابیوں)کے نزدیک معاویہ سے محبت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا لہٰذا اس سے محبت کرنا ہی اپنا شعار بنار کھا ، اسی وجہ سے انہوں نے مذکورہ حدیث کے معنی اس لحاظ سے کئے تاکہ علی کی محبت کو ترک کرنے میں کوئی مضائقہ پیش نہ آئے۔(نظریۃ الامامہ ص ۲۲۱)
مذکورہ باتوں سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی امت کی قیادت ورہبری کے لئے امام کی معرفی کی ہے۔اور مذکورہ حدیث (اگرچہ اس کے الفاظ او رمناسبت مختلف ہیں) امامت کے بارے میں صاف اور روشن ہے جو مکمل طریقہ سے ہمارے مقصود پر دلالت کرتی ہے۔
لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فقط امام اول کا معین ہوجانا کافی ہے اور باقی ائمہ علیہم السلام کے بارے میں تعیین کی ضرورت نہیں ہے یا ان کے لئے بھی نص اور احادیث کا ہونا ضروری ہے؟
یعنی باقی ائمہ علیہ السلام کی امامت کیسے ثابت ہوگی؟ اور ان کو بارہ کے عدد میں محدود کرنا (نہ کم وزیاد) کیسے صحیح ہے؟
قارئین کرام ! ائمہ علیہ السلام کی امامت کو دو طریقوں سے ثابت کیا جاسکتا ہے:
پہلا طریقہ:
ان احادیث کے ذریعہ جن کی تعداد بہت زیادہ اور بہت مشہور ہیں جیسا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امام حسن وامام حسین علیہما السلام کو مخاطب کرکے فرمایا:
”انتما الامامان ولامکما الشفاعة “
تم دونوں امام ہو اور دونوں شفاعت کرنے والے ہو”۔(نزھۃ المجالس ج۲ص۴۷۲)
اسی طرح امام حسین علیہ السلام کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:
”ھذا امام ، ابن امام اخو امام، ابو الائمة”
یہ خود بھی امام ہیں اور امام کے بیٹے ، امام کے بھائی او رنو اماموں کے باپ ہیں۔(منہاج السنۃ ج۴ص۲۱۰)
اور اس طرح بہت سی روایات موجود ہیں جن سے کتب حدیث وتاریخ بھری پڑی ہیں اور ان میں امامت کی بحث تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔
دوسرا طریقہ:
گذشتہ امام کے ذریعہ آنے والے امام کا بیان، اورچونکہ گذشتہ امام کا بیان ،حجت اور دلیل ہوتاہے اور اس پر یقین رکھناضروری ہے جبکہ ہم گذشتہ امام کی امامت پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کو صادق اور امین جانتے ہیں۔
اب رہا ائمہ علیہ السلام کا بارہ ہونا نہ کم نہ زیادہ تو اس سلسلہ میں بھی بہت سی روایات موجود ہیں۔
(شیخ قندوزی وغیرہ نے پیغمبر اکرم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:
”انا سید النبیین وعلی سید الوصیین وان اوصیای بعدی اثنا عشر“اس حدیث اور حدیث اثنا عشر کے بارے میں کتاب ینابیع المودۃ ص ۴۴۷، ۴۸۶،۴۸۷، ۴۸۸، ۴۹۲، ۴۹۳ ملاحظہ فرمائیں)
اور ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ اس مشہور ومعروف حدیث نبوی کو مشہور ومعروف شیوخ نے بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
”لایزال الدین قائما حتی تقوم الساعة ویکون اثنا عشر خلیفة کلہم من قریش“
دین اسلام قیامت تک باقی رہے گا او رتمہارے بارہ خلیفہ ہوں گے جو سب کے سب قریش سے ہوں گے۔
(صحیح بخاری ج۹ ص ۱۰۱، صحیح مسلم ج۶ص ۳، سنن ترمذی ج۴ ص ۵۰۱، وسنن ابی داوٴد ج۲ص ۴۲۱، وجامع الاصول ج۴ص ۴۴۰تا ۴۴۲۔
اس حدیث کے طُرق کے بارے میں حافظ قندوزی کہتے ہیں: صحیح بخاری میں اس حدیث کو تین طریقوں سے بیان کیا گیا ہے اور صحیح مسلم میں نو طریقوں سے، سنن ابی داؤد میں دو طریقوں سے، سنن ترمذی میں ایک طریقہ سے اور حمیدی میں تین طریقوں سے بیان کیا گیا ہے، رجوع فرمائیں ینابیع المودۃ ص ۴۴۴
اضافہ مترجم: یہاں پر صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے ایک ایک حدیث نقل کردینا بہتر ہے تاکہ قارئین کرام ان دونوں حضرات کی نقل کو بھی دیکھ لیں:عن عبد الملک؛ سمعت جابر بن سمرہ ؛قال: سمعت النبی یقول: یکون اثنیٰ عشرامیرا، فقال کلمة، لم اسمعھا،فقال ابی: انہ قال: کلھم من قریش
صحیح بخاری جلد ۹، کتاب الاحکام، باب۵۲ ”استخلاف“ حدیث۶۷۹۶۔ صحیح مسلم جلد۶، کتاب الامارہ، باب۱۱ ” الناس تبع القریش و الخلافۃ فی قریش“ حدیث۱۸۲۱۔
ترجمہ :۔ عبد الملک نے جابر بن سمرہ سے نقل کیا ہے کہ: میں نے رسول خدا سے سنا کہ آپ نے فرمایا: (میرے بعد میرے) بارہ امیر و خلیفہ ہوں گے، جابر کہتے ہیں کہ: دوسرا کلمہ میں نے صحیح سے نہیں سنا جس میں آنحضرت نے ان بارہ خلفاء کے بارے میں بتلایا تھا کہ وہ کس قبیلہ سے ہوں گے، لیکن بعد میں میرے پدر بزگوار نے مجھ سے کہا کہ: وہ جملہ جو اس نے نہیں سنا وہ یہ تھا کہ وہ تمام خلفاء قریش سے ہوں گے۔
مسلم نے بھی اس حدیث کو آٹھ سندوں کے ساتھ اپنی کتاب میں نقل کیا ہے، اور ا ن میں سے ایک حدیث میں اس طرح آیا ہے:
”جابر بن سمرہ؛ قال: انطلقتُ الی رسول اللّٰہ ومعی ابی، فسمعتہ، یقول: لایَزَالُ ھذَا الدین عَزِیزاً مَنِیعاً اِلیٰ اِثْنیٰ عَشَرَ خلیفة،ً قال کلمة ،صَمَّنِیْھا الناس،ُ فقلتُ لابی ما قال؟ قال :کلھم من قریش“ ، صحیح مسلم جلد ۶ ،کتاب الامارہ ،باب۱ حدیث۱۸۲۱،کتاب الامارہ کی حدیث نمبر۹۔
ترجمہ:۔ جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ: ایک مرتبہ میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ خدمت رسول خدا سے مشرف ہوا تو میں نے رسول سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے کہ: یہ دین الٰہی بارہ خلفاء تک عزیز اور غالب رہے گا ، اس کے بعد دوسرا جملہ میں نہ سن سکا کیو نکہ صدائے مجلس سننے سے حائل ہوگئی تھی، لیکن میرے پدر بزرگوار نے کہا :وہ جملہ یہ تھا کہ: تمام یہ بارہ خلفاء قریش سے ہوں گے۔)
ایک دوسری حدیث میں اس طرح ہے:
”ان ھذا الامر لا ینقضی حتی یمضی فیہ اثنا عشر“
بتحقیق یہ امر (دین) ختم نہیں ہوگا یہاں تک کہ اس میں بارہ (خلیفہ) ہوں گے۔(صحیح مسلم ج۶ص۴)
اور اگر ہم اس حدیث شریف میں غور وفکر کریں (جبکہ اس حدیث کو تمام مسلمانوں نے صحیح مانا ہے) تو یہ حدیث دو چیزوں کی طرف واضح اشارہ کررہی ہے:
۱۔دین کا قیامت تک باقی رہنا۔
۲۔قیامت تک فقط بارہ خلیفہ ہی ہوں گے جو اسلام ومسلمانوں کے امور کے ذمہ دار ہوں گے۔
اور یہ بات واضح ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا بارہ خلیفہ سے وہ حکّام مراد نہیں ہیں جو شروع کی چار صدیوں میں ہوئے ہیں کیونکہ ان کی تعداد بارہ کے کئی برابر ہے اور ان میں سے اکثر کتاب وسنت رسول کے تابع نہیں تھے لہٰذا وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حقیقی خلیفہ نہیں ہوسکتے۔
تو پھر ان کے علاوہ ہونے چاہئیں،اور وہ حضرت علی علیہ السلام اور ان کے گیارہ فرزندوں کے علاوہ کوئی نہیں، یہ وہ ائمہ ہیں جن سے لوگ محبت کیا کرتے تھے او ران کا اکرام کیا کرتے تھے اور انہیں سے اپنے دینی احکام حاصل کیا کرتے تھے، نیز اپنی فقہی مشکلات میں انہیں کی طرف رجوع کرتے تھے اور جب بھی کوئی مشکل پڑتی تھی اس کے حل کے لئے انہیں ائمہ علیہ السلام کے پاس جایا کرتے تھے۔
اگر کوئی شخص اس سلسلہ میں احادیث نبوی اور ان کے عدد کے بارے میں مزید اطلاع حاصل کرنا چاہے تو اس کو چاہئے کہ مخصوص مفصل کتابوں کا مطالعہ کرے۔(مثلاً الغدیر علامہ امینی رحمۃاللہ علیہ، عبقات الانوار سید حامد حسین طاب ثراہ وغیرہ)
Source:https://makarem.ir/compilation/Reader.aspx?pid

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button