امامت

عقیدہ امامت

آیۃ اللہ مکارم شیرازی
مقدمہ
قارئین کرام ! ”امامت“ کے موضوع پر بہت زیادہ بحث وگفتگو ہوئی ہے یہاں کہ اس سلسلہ میں ہزاروں کتابیں لکھیں جاچکی ہیں۔ اورمتعدد موٴلفین نے اس سلسلہ میں بہت سی فروعات پر تفصیلی گفتگو کی ہے چنانچہ بعض موٴلفین نے کچھ پہلووں پر گفتگو کی ہے تو بعض دیگر موٴلفین نے دوسرے پہلو پرروشنی ڈالی ہے، کیونکہ بعض موٴلفین نے بحث امامت کو قرآن کی روشنی میں بیان کیا او ربعض دیگر موٴلفین نے امامت کو حدیث کی روشنی میں، تو بعض موٴلفین نے امامت کو علم کلام کی روشنی میں بیان کیا تو کسی نے تاریخ کی روشنی میں اور کسی نے امامت کی بحث کو وقت وفات النبی سقیفہ کے حدود میں بیان کیا ہے تو بعض لوگوں نے ائمہ علیہم السلام کی سوانح حیات اور ان کی تاریخ بیان کی ہے، چنانچہ آج تک یہ سلسلہ اسی طرح جاری وساری ہے۔
چونکہ اس سلسلہ میں لکھی گئی کتابوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن پھر بھی بعض لوگوں نے تعصب اور خود غرضی کے تحت اس موضوع کی حقیقت ہی کو بیان نہیں کیا، لہٰذا بہت سی کتابیں اسی تعصب اور کج فکری سے بھری پڑی ہیں چنانچہ اسی تعصب کا نتیجہ ہے کہ ان کتابوں میں ایسے مسائل بیان کئے گئے ہیں جن کو عقل ومنطق قبول نہیں کرتی۔
یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے بحث امامت کو اس طرح پیش کیا ہے جس میں ہوا پرستی اور خیالی تصورات کے علاوہ کچھ نہیں پایا جاتا اور ان میں نہ تو امامت کی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے اور نہ ہی ایسے نکات کو بیان کیا گیا جو بین المسلمین متفق علیہ ہوں،جبکہ ان نظریات کا سبب صرف یہی کتابیں ہیں جو اصل موضوع سے خارج ہیں۔
لہٰذا اب ہم صاف طور پر بیان کرتے ہیں :
”ہم چونکہ آج امامت کی بحث کرنا چاہتے ہیں جبکہ ”سقیفہ“ کو چودہ صدیاں گذر گئیں ہیں پس یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ ہم اختلاف کررہے ہیں اور جب اختلاف کرتے ہیں (جیسا کہ بحث کرنے والوں کا وطیرہ رہا ہے) تو ہم پر تعصب اور زیادہ روی کی تہمت کیوں لگائی جاتی ہے ؟! جبکہ اختلاف رائے سے کسی واقعہ کی حقیقت نہیں بدلتی”۔
تو کیا اس موضوع کے بارے میں ایسے امور ہیں جن کی وجہ سے معاصر انسان مطمئن ہوجائے اور اپنے دل میں موجودہ شبہات کا حل تلاش کرلے؟۔
یا اس سلسلہ میں کچھ ایسے موارد ہیں جن کی وجہ سے انسان دھوکا کھاجاتا ہے یا جن کی وجہ سے نوع بشر کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے؟ آج دنیا بھر کے تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ آج ہمارے سامنے کوئی امام حاضر نہیں ہے ، جو ان میں اختلاف کا باعث ہو مثلاً بعض لوگ اس کی بیعت کریں او ربعض اس کی بیعت سے انکار کردیں، اور اسی وجہ سے ایسا کوئی جھگڑا نہیں ہے جس سے انسان ڈرے یا اس سلسلہ میں کچھ کہنے والا کسی سے خوف کہاجائے۔
شاید کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو:
”جب باتیں کچھ اس طرح ہیں تو اس گفتگو ، بحث او رجد جہدکا کیا فائدہ“؟
جواب:
ہم اس سلسلہ میں اسلام کا حقیقی نظریہ پیش کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو نظام زندگی ہے اور ہم اس اہم اور خطرناک موضوع کے بارے میں پیدا ہونے والے سوالات کا صاف اور واضح جواب پیش کریں، چنانچہ اس سلسلہ میں چند اہم سوال اس طرح ہیں:
۱۔اسلام کی نظر میں ”امامت“ کے کیا معنی ہیں؟
۲۔کیا”امامت“ ضروری ہے اگر ضروری ہے تو کیسے؟
۳۔کیا واضح طور پر کسی کو منصب ”امامت“ پر منصوب کیا گیا ہے یا انتخاب پر چھوڑ دیا گیا ہے؟
۴۔کیا ”امامت“ منصوص ہے؟ ٹیوقراطی ہے”Theocratic”،یاڈکٹاٹوری "Dictaorship” یاڈیموکراٹک "Democratic” ہے ؟
ان سوالات کے علاوہ اور دیگر پہلو بھی ہیں جن کے بارے میں حقیقت کو واضح کرنے کے لئے عمیق بحث کی ضرورت ہے تاکہ اس اہم مسئلہ میں اسلامی نظریہ واضح ہوجائے۔چنانچہ ہم اس باب میں ایسی روش اختیار کریں گے جس سے ہمارے قارئین کرام اسلامی فرقوں میں موجودہ نظریات میں سے صحیح نظریہ کا انتخاب کرلیں، اور ادھر اُدھر نہ بھٹکتے پائیں۔
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد کے حالات سے بعض مسلمانوں کے احساسات کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے لہٰذا ہم ان کو بیان نہیں کریں گے۔
ہماری ساری امید خداوندعالم کی ذات ہے کیونکہ وہی ہماری مدد کرنے والا ہے اور ہمارے لڑکھڑاتے ہوئے قدم میں ثبات پیدا کرنے والا ہے اور وہی مذکورہ باتوں کے بیان کرنے میں نصرت ومدد کرنے والا ہے خداوند ! ہمارے قلم کو سہو وخطا سے محفوظ رکھ اور ہمیں اس راستہ پر چلا جس میں تیری مرضی ہو، او رہمارا قول وفعل تیری مرضی کے مطابق ہو، نہ خیر مسدد وموفق ومعین۔
امام کے معنی اپنی قوم کے آگے چلنے والے رہبر اور مقتدیٰ کے ہیں (جیسا کہ عربی لغت میں آیا ہے)۔
(لسان العرب ج۱۲ ص ۲۴ ،مادہ اٴم)
لہٰذا امامت کے معنی قیادت اورریاست کے ہیں، اسی وجہ سے نماز پڑھانے والے کو بھی امام کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دوسروں سے آگے ہوتا ہے۔
چنانچہ قرآن مجید میں اسی لغوی معنی کو استعمال کیا گیا ہے؛ ارشاد ہوتا ہے:
قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامَا
”خدا نے فرمایا کہ میں تم کو (لوگوں کا) پیشوا (امام) بنانے والا ہوں“۔
وَمِنْ قَبْلِہِ کِتَابُ مُوْسٰی اِمَاماً وَرَحْمَةً
اور اس سے قبل جناب موسیٰ کی کتاب (توریت) جو لوگوں کے لئے پیشوا اور رحمت تھی“۔
وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَاماً
”اور ہم کو پرہیزگاروں کا پیشوا بنا“۔
یَوْمَ نَدْعُوْ کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِھمْ
”اس دن کو یاد کرو جب ہم تمام لوگوں کو ان کے پیشواوٴں کے ساتھ بلائیں گے“۔
اسی طرح قرآن مجید میں دوسری جگہ پر لفظ ”امام“ استعمال ہوا ہے۔
معنی خلیفہ: جیسا کہ عربی لغت بیان کرتی ہے : امیر، سلطان اعظم او راپنے سے ماقبل کے جانشین کو خلیفہ کہا جاتا ہے۔
(لسان العرب ج۹ص ۸۳، ۸۴، ۸۹۔مادہ خلف)
لہٰذا خلافت کے معنی امارت، سلطنت اور کسی کے قائم مقام کے ہیں۔
اور اسی معنی میں قرآن مجید میں لفظ ”خلیفہ“ ، ”خلائف“ اور” خلفاء“ استعمال ہوا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:
اِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الْاَرْضِ خَلِیْفَةً
”میں (اپنا) ایک نائب زمین میں بنانے والا ہوں“۔
یَادَاوٴُدَ اِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ
”اے داؤد ہم نے تم کو زمین میں (اپنا) نائب قرار دیا“۔
ھوالَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلاٰئِفَ الْاَرْضِ
”اور وہی تو وہ (خدا) ہے جس نے زمین میں (اپنا) نائب بنایا“۔
وَاذْکرُوْا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ
”اور (وہ وقت) یاد کرو جب اس نے تم کو قوم نوح کے بعد خلیفہ (وجانشین) بنایا“۔
قارئین کرام ! ان کے علاوہ بھی دوسرے مقامات پر ان الفاظ کو استعمال کیا گیا ہے۔
چنانچہ علماء اہل لغت لفظ ”امامت“ او ر”خلافت“ کے مذکورہ معانی پر متفق ہیں لیکن علماء کلام نے اس سلسلہ میں اختلاف کیا ہے کہ ان دونوں الفاظ کے ایک ہی معنی ہیں یا ان کے الگ الگ معنی ہیں۔
چنانچہ بعض لوگوں نے امامت کی اس طرح تعریف کی ہے:
”امامت، نبی کی اس خلافت کو کہتے ہیں جس میں دین اور نظام دنیا کی محافظت کی جاتی ہے”۔(الاحکام السلطانیہ ص ۳)
خلافت کے بارے میں ابن خلدون صاحب کہتے ہیں:
”خلافت کو تمام مسلمان شرعی طور پر آپس میں طے کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے دینی اور دنیاوی مشکلات کا حل تلاش کیا جاسکے”۔
(مقدمہ ابن خلدون ص ۱۵۹)
اور اسی بات کی تاکید کرتے ہوئے موصوف کہتے ہیں:خلافت وہ دینی منصب ہے جو امامتِ کبریٰ کے تحت ہوتا ہے”۔
(مقدمہ ابن خلدون ص ۱۸۳)
ایک صاحب نے اس طرح ان دونوں (خلافت وامامت) میں رابطہ بیان کرتے ہوئے کہا:
”خلافت امامت کبریٰ ہے او رامامت نماز ؛ امامت ِ صغریٰ ہے”۔(نظریۃ الامامہ ص ۲۲)
قارئین کرام ! جیسا کہ آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ یہ دونوں لفظ ایک ہی مقصد کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اور شاید ”ریاست“ و ”قیادت“ مذکورہ معنی میں سب سے جامع معنی ہوں جن پر ان دونوں الفاظ کے معنی متفق ہیں۔
لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ قیادت وریاست میدان عمل میں کس طرح وقوع پذیر ہوئی تو ہم اس سلسلہ میں واضح فرق دیکھتے ہیں او رایک متکلم دوسرے متکلم سے الگ نظریہ پیش کرتا ہے اور اس طرح سے ان دونوں الفاظ کے معنی کرتا ہے کہ ان دونوں میں بہت زیادہ فرق د کھائی دیتا ہے۔
لہٰذا طے یہ ہوا کہ امامت کے معنی دینی ریاست کے ہیں جیسا کہ دینی نصوص بھی اس معنی کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور خلافت کے معنی حکومت کی ریاست کے ہیں جیسا کہ اس بات پر بھی نصوصِ دینی اشارہ کرتی ہیں۔چنانچہ شیعہ وسنی محققین کے نزدیک ”امام“ صاحب حقِّ شرعی کو کہا جاتا ہے جبکہ خلیفہ ؛ صاحبِ سلطنت کو کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اس لحاظ سے حضرت ابوبکر کی خلافت، سلطنتِ حکومت تھی ، دینی سلطنت نہیں۔(نظریۃ الامامہ ص ۲۴، ۲۰)
اسی وجہ سے ان دونوں الفاظ کے لئے ایک خاص میدان اور معین دائرہ ہے۔
اس اختلاف کے باوجود ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ یہ دونوں منصب ایک شخص میں جمع ہونے چاہیئے جیسا کہ مذکورہ نصوص سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کیونکہ اسلامی نظریہ کے مطابق دین وسیاست (حکومت) میں جدائی نہیں ہے۔
اور جیسا کہ یورپی ممالک سے یہ نظریہ ( دین کا سیاست جدا ہونا) ہم تک پہنچا ہے اور بعض حکومتوں میں ”چرچ “ (گرجا گھر) لوگوں کے عام امور میں دخالت کرتا ہے کیونکہ عیسائی نظام ؛حکومت اور روش حکم کو قبول نہیں کرتی، لیکن ہم مسلمانوں کے لئے شعار کو قبول کرنے میں کوئی بھی عذر نہیں ہے کیونکہ ہمارا دین در حقیقت، رسالت دین اور نظام حکومت ہے۔
(ہماری کتاب ”مفاہیم اسلامی“میں ”الاسلام دین ودولۃ“ عنوان پر رجوع فرمائیں)
لہٰذا ضروری ہے کہ دین وحکومت کی ریاست ایک ہی شخص میں جمع ہوں کیونکہ اگر دونوں جداجدا ہوں تو پھر نہ ہی نظام دین چل سکتا ہے او رنہ ہی نظام حکومت۔
لیکن مسلمانوں کے درمیان بعض لوگ ایسے بھی ہیں جن کا ماننا یہ ہے کہ امامت جدا ہے ، اور خلافت جدا، اور اس نظریہ کے لئے مسلمانوں کی تاریخ عملی کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے جبکہ مسلمانوں میں امامت ،خلافت سے جدا رہی ہے اور مرجع دینی رئیسِ حکومت کے علاوہ رہا ہے کیونکہ یزید بن معاویہ جو خلیفہ تھا لیکن مسلمانوں کا امام نہیں تھا او رنہ ہی مسلمان، دینی مسائل اور عقائد میں اس کی طرف رجوع کرتے تھے۔
قارئین کرام ! شیعوں کی نظر میں” امامت“ رسالت کا ایسا جز ہے جس کے ذریعہ رسالت کامل ہوتی ہے او راس کا وجود جاری وساری رہتا ہے، چنانچہ عقل بھی اس بات کا حکم کرتی ہے کیونکہ امامت لطف ہے او رہر لطف خداپر واجب ہے جیسا کہ علم کلام میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔
امامت لطف کیوں ہے؟ تو اس کے جواب میں یہ عرض کیا جائے گاکہ چونکہ لطف اس شیٴ کا نام ہے جس کے ذریعہ سے انسان خدا کی اطاعت سے قریب، اس کی نافرمانی سے دوراور راہ حق پر گامزن رہتا ہے او رحقیقت بھی یہی ہے کہ امامت کے ذریعہ مذکورہ معنی متحقق ہوتے ہیں (یعنی انسان امامت کے ذریعہ خدا کی اطاعت سے قریب اور اس کی نافرمانی سے دور ہوتا ہے)جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے کہ اگر مبسوط الید (صاحب طاقت وقدرت) قائد جس کی لوگ اطاعت کریں تو وہ ظالم کو نابود کرنے والا، مظلوم کے ساتھ انصاف کرنے والا اور لوگوں کے امور کو اخلاص وایمان کے ذریعہ منظم کرنے والا نیز لوگوں کو ہوا وہوس او رانانیت سے باہر نکالنے والا ہوتا ہے جن کے ذریعہ سے انسان خدا کی اطاعت سے قریب، معصیت وبرائی سے دور اور اس راہ پر گامزن ہوجاتا ہے جس کو خداوندعالم نے پسندکیا ہے، اور یہی معنی ہیں ”لطف“ کے جس کو ہم نے ابھی بیان کیا ہے۔
چنانچہ اس سلسلہ میں مزید گفتگو کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ قدیم زمانے سے آج تک تمام قوم وقبیلہ کا ایک رئیس اور سردار رہا ہے جس کے ذریعہ اس قوم کے مسائل حل ہوتے ہیں اور اپنے لئے دستور وقوانین معین کئے جاتے ہیں چنانچہ آج کا سماج بھی رئیس اور حکومت کی ضرورت کو محسوس کرتا ہے کہ کوئی ایسی حکومت ہو جو انسانی زندگی کے تمام امور مثلاً: سیاست، اقتصاد، عدالت، تربیت اور لشکری امور کو بہترین طریقہ سے انجام دے۔
چنانچہ اسلام کی نظر میں حکومت کی ریاست کے لئے وسیع نظر ہے اس لحاظ سے کہ دین او ردنیا دونوں امور میں اسی کا حکم نافذ ہونا چاہئے وہ امور جن کو شریعت اسلام نے پیش کیا ہے جن میں اسلامی مناطق میں تمام طور وطریقہ کو بیان کیا گیا ہے،چاہے وہ انسان کا خدا سے رابطہ ہو یا انسان کی اجتماعی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ ہو۔
او رچونکہ انسانی سماج کے قوانین انسان کے بنائے ہوئے ہوتے ہیں اور زمان ومکان کے لحاظ سے قابل تبدیل ہوتے ہیں لیکن اسلام کا قانون ایسا نہیں ہے کیونکہ آسمانی دین میں تغییر وتبدیلی نہیں ہوتی، لیکن دین اسلام کے مکمل اور کامل ہونے کے ساتھ ساتھ بعض بنیادی اصول میں نصوص بہت زیادہ واضح نہیں ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ مکمل طریقہ سے ان مسائل کی تشریح اور وضاحت کی جائے۔۔
قارئین کرام ! جو دلیل نبوت کی ضرورت پر دلالت کرتی ہے وہی دلیل امامت کی ضرورت پر بھی دلالت کرتی ہے کیونکہ نبوت کا وجود بغیر امامت کے نامکمل ہوتا ہے او راگر امامت کو نبوت سے جدا مان لیا جائے تو یہ حقیقت اسلام کے منافی ہے کیونکہ رسالت کا قیامت تک باقی رہنا ضروری ہے، پس:
زندگی کا آغازنبوت ہے ۔اور امامت اس حیات کا برقرار رکھنا ہے۔
اگر ہم امامت کو چھوڑ کر صرف نبوت کی بات کریں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نبوت ورسالت کا زمانہ معین ہے اور رسول کی حیات کے بعد باقی نہیں رہ سکتی او راپنے اہداف کی تکمیل اور استمرار کے لئے کسی وصی کو بھی معین نہیں کرسکتی (جب تک خدا کی مرضی نہ ہو )
اور چونکہ اسلام کا ہدف ومقصد ایک ایسی حکومت ہے جو تمام انسانوں کو ، اختلاف ِ وطن و رنگ کے باوجود ایک پلیٹ فارم پر جمع کردے، لہٰذا ضروری ہے کہ اسلام اس ہدف کی خاطر رسول جیسی زندگی رکھنے والے شخص کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد قیادت اور رہبری کا انتظام کرے۔
خلاصہ گفتگو:
در حقیقت منصب امامت، معنی نبوت کوکامل کرنے والا ہے او رنبی کا وجود بغیر امامت کے عملی طور پر مکمل نہیں ہوسکتا، اسی وجہ سے شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ جس طرح نبوت ضروری ہے اسی طرح امامت بھی ضروری ہے، جس طرح خدا پر نبوت واجب ہے اسی طرح امامت بھی واجب ہے اور اس کے لئے بہترین سند اور بہترین دلیل درج ذیل مشہور ومعروف حدیث رسول ہے:
”من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتةالجاھلیة
جو شخص اپنے زمانہ کے امام کو پہچانے بغیر مرجائے تو اس کی موت جاھلیت کی موت ہوتی ہے”۔
اور جب امامت کا ہونا ضروری ہے تو کیا اسلام نے مسلمانوں کو اس چیز کا اختیار دیا ہے کہ وہ اس امام کا انتخاب کریں جو اس عظیم اور اہم ذمہ داری کو سنبھالے یا منصب امامت کا انتخاب الٰہی نصوص کے ذریعہ ہوتا ہے اور نبی کے ذریعہ معین کیا جاتا ہے۔
چنانچہ شیعہ او راکثر معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ امام کے لئے ضروری ہے کہ اس کو خود نبی منصوب کرے اور نبی بذات خود اس کو معین کرے ۔جس کی دلیل یہ پیش کرتے ہیں:
چونکہ امامت، نبوت کا استمرار ہے لہٰذا اس میں بھی نبوت کی طرح تعین خاص کی ضرورت ہے جس سے یہ کشف ہوجائے کہ خداوندعالم نے اس منصب کو اختیار کیا ہے اور خدا اس سے راضی ہے۔
پس جس طرح نبوت بھی انتخاب اور شوریٰ سے نہیں ہوسکتی اسی طرح امامت بھی شوریٰ کے انتخاب سے نہیں ہوسکتی۔
اور یہی وہ راستہ ہے جو امامت وامام کے مسئلہ میں ثابت اور معین ہے لیکن دوسرے اسلامی فرقوں نے اس سلسلہ میں کوئی خاص راستہ نہیں اپنایا۔
(ڈاکٹر احمد محمود صبحی کہتے ہیں : ابوبکر وعمر کی خلافت ایک وقتی مسئلہ تھا تاکہ احتمالی فتنہ وفساد رونما نہ ہونے پائے اور ان کی حکومت، کامل نظام کی بنیاد کے لئے نہیں تھی۔ نظریۃالامامہ ص ۲۶)
بلکہ کہتے ہیں جو شخص بھی امامت کا متولی ہوگیا او راپنے کو امام تصور کرنے لگا تو وہ امام ہے چاہے اس متولی کو انتخاب کے ذریعہ بنایا گیا ہو جیسے ابوبکر ،عثمان، حضرت علی علیہ السلام اور امام حسن علیہ السلام کے لئے ہوا، اور تاریخ اسلام میں ان کے علاوہ کسی کا انتخاب نہیں ہوا ، یا اپنے سے ما قبل نے ان کے بارے میں وصیت کی ہو جیسا کہ عمر بن خطاب اور اکثر خلفائے اموی، عباسی اور عثمانی کے لئے ہوا ہے یا چاہے طاقت کے بل بوتہ کی بنا پر ہو جیسے معاویہ بن ابی سفیان اور ابو عباس السفاح نے کیا ہے۔
چنانچہ شیعہ حضرات تعین امام کے بارے میں نص کی ضرورت پر اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ ارشاد قدرت ہے:
وَرَبُّکَ یَخْلُق مَا یَشَاءُ وَیَخْتَارُ مَاکَانَ لَھمُ الْخَیَرَةَ
”اور تمھارا پروردگار جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور( جسے چاہتا ہے) منتخب کرتا ہے”۔
کیونکہ یہ آیت واضح الفاظ میں دلالت کرتی ہے کہ دین وشریعت کے محافظ ونگہبان کی ذمہ داری خداوندعالم پر ہے، بندوں کو اس سلسلہ میں ذرابھی اختیار نہیں دیا، اور اس موضوع میں فقط وفقط خداوندعالم ہی کو اختیار ہے۔
لیکن بعض لوگوں نے اس استدلال پر اعتراض کیا کہ اس آیت میں جس اختیار کی طرف اشارہ کیاگیاہے وہ صرف نبوت سے مخصوص ہے او راگر امامت کے بارے میں بھی کوئی یہی کہے تو اس کا یہ قول قابل قبول نہیں ہے۔
لیکن جیسا کہ آپ حضرات جانتے ہیں کہ مذکورہ آیت کے صدر وذیل میں کوئی ایسا اشارہ نہیں ہے جس میں اختیار کو انبیاء علیہ السلام سے مخصوص کردیا جائے بلکہ آیت مطلق اختیار کی بات کررہی ہے اور کسی بھی طرح کی کوئی قید او رتاویل کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ، اور جیسا کہ ہم نے کہا کہ امامت وہی نبوت کا استمرار ہے، اور امامت، رسالت کومکمل کرنے والی ہے لہٰذا جب نبوت کے اختیار کا حق صرف خدا کو ہے توپھر امامت میں بھی اختیار صرف خداوندعالم کی ذات ہی کو ہونا چاہئے۔
اور حق بات تو یہ ہے کہ اگر روایات واحادیث کے ذریعہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وصیت بھی ثابت نہ ہو تو صرف عقل ہی اس وصیت کو ثابت کرنے کا حکم کرتی ہے کیونکہ ہم میں سے کوئی ایک بھی اس بات پر راضی نہیں ہوگا کہ اگر موت قریب ہے تو اگرچہ مال ودولت اور اولاد کم ہو ، کہ ان کے بارے میں وصیت نہ کریں بلکہ ہر انسان ایسے موقع پر کسی کو اپنا وصی بناتا ہے تاکہ وہ اس کے بعد اس کی اولاد اور مال ودولت کا خیال رکھے۔تو کیا پھر وہ نبی اعظم جو اتنی عظیم میراث (اسلام) کو چھوڑکر جارہا ہو تو کیا وہ اپنی اس میراث کا کسی کو وصی نہیں بنائے گا، تاکہ وہ اس کی محافظت کرے اور اس میں صحیح طریقہ سے تصرف کرسکے۔؟!
حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے وقت موجود ہ قرائن سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وصیت فرمائی اور اپنی میراث کو لاوارث نہیں چھوڑا تاکہ وہ زمانہ کے حوادث وبلاء میں گرفتار نہ ہوجائے۔
وہ اسلام جس نے دنیا کے تمام مسائل میں احکام وقواعد معین کئے ہیں انسان کی زندگی کے ہر پہلو پر نظر رکھی ہو؛ خرید وفروخت ہو یا حوالہ وکفالہ، اجارہ ووکالت ہو یا مزارعہ ومساقاۃ، قرض ورہن ہو یا نکاح وطلاق، صید وذباحہ ہو یا اطعمہ واشربہ اور چاہے حدود ودیات ہو یا دیگر مسائل ، جب ان سب کو بیان کردیا تو کیا وہ اس اہم مسئلہ امامت کو نہیں بیان کرے گا؟!
کیونکہ مسئلہ امامت اتنااہم ہے جس کے ذریعہ امت اسلامی کی قیادت او ررہبری ہوتی ہے اور جس چیز کا آغاز خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔
وہ اسلام جو اپنے احکام میں عدالت ومساوات او رمسلمانوں کے لئے اطمینان کا خیال رکھتا ہے جو ہر خوف سے امان دیتا ہے اور انسان کے اعضاء وجوارح کو ایسی طاقت عطا کردیتا ہے جس سے خیانت، فتنہ وفساد او ربرائیوں سے اپنے نفس کو روک لیتا ہے تو کیا اسلام بغیر امام کے اس عظیم ہدف تک پہنچ سکتا ہے؟!!
کیونکہ امام کی لوگوں کو گمراہی سے نجات دینے ولاتاہے اور بے عدالتی کو ختم کرتاہے کیونکہ بے عدالتی سے حاکم فاسد ہوجاتا ہے اور حاکم کے فاسد ہونے سے انسانی نظام اوردین فاسد ہوجاتا ہے لہٰذا ان تمام برائیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ایسے امام کی ضرورت ہے جس میں تمام صفاتِ کمال موجود ہوں، ہر برائی سے پاک وپاکیزہ ہو، او راپنے قول وفعل میں ہر طرح کی خطا وغلطی سے محفوظ ہو، ہم اسی چیز کو عصمت کہتے ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ ان تمام صفات کے حامل شخص کا انتخاب ہونا ضروری ہے جو کسی معمولی شخص میں جمع نہیں ہوسکتیں، تو پھر نبی کے لئے ضروری ہے کہ وہ امت کے سامنے اس منصب کے بارے میں بیان دے، اور صاف طور پر لوگوں کو بتائے کہ میرے بعد فلاں امام ہے۔
اور یہ عصمت جس کے بارے میں ہم نے اشارہ کیا کوئی عجیب چیز نہیں ہے جیسا کہ بعض اسلامی فرقوں خصوصاً یورپی موٴلفین کا عقیدہ ہے بلکہ یہ تو حاکم کے شرائط میں سے ایک اہم شرط ہے ،اور وہ بھی ایسا حاکم جس کا کام قرآن کی تفسیر کرنا اور اسلام کے غیر واضح مسائل کی شرح کرنا ہے، کیونکہ عصمت کے معنی عرب میں ”منع“ کے ہیں۔(لسان العرب ج۱۲ص ۴۰۳۔مادہ عصم)
اور اصطلاح میں یہی معنی مراد لئے جاتے ہیں یعنی عصمت ایک نفسانی ملکہ (قوت) ہے جو انسان کو فعلِ معصیت او رترک طاعت سے منع کرے اور اس کی عقل وشعور پر احاطہ رکہے تاکہ اس کو ہر طرح ہوشیار رکھے اور اس سے کوئی بھول چوک نہ ہو اوراس سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جس سے خدا ناراض ہو۔ کیونکہ معصیت کا مرتکب قرآنی اصطلاح میں ظالم ہوتاہے:
وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاٴُوْلٓئِکَ ھمُ الظَّاْلِمُوْنَ
”اور جو خدا کی مقرر کی ہوئی حدوں سے آگے بڑھتے ہےںوہی لوگ تو ظالم ہیں“۔
وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ
”اور جو خدا کی حدوں سے تجاوز کرے گا تو اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔
ھٰوٴُلٓاءِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا عَلٰی رَبِّھمْ اٴَلاٰ لَعْنَةُ اللّٰہِ عَلَی الظَّالِمِیْنَ
”یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ (بہتان) باندھا، سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی پھٹکار ہے“۔
ثُمَّ نُنْجِیَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّاْلِمِیْنَ فِیْھا جَثِیًّا
”پھر ہم پرہیزگاروں کو بچائیں گے اور نافرمانوں کو اس میں چھوڑ دیں گے“۔
اسی طرح قرآن مجید میں دیگر مقامات پر اس مضمون کی آیات موجود ہیں۔
اور یہ عاصی (گناہگار) جس کو قرآن مجید نے ”ظالم“ کہا ہے اس کو کوئی بھی شرعی ذمہ داری جو دین وشریعت اور خداوندعالم سے متعلق ہو؛ نہیں دی جاسکتی، اور اس بات پر قرآن مجید نے واضح طور پر بیان دیا ہے، ارشاد خداوندعالم ہوتا ہے:
وَاِذِبْتَلیٰ اِبْرَاہِیْمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ فَاٴَتَمَّھنَّ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَاماً قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَتِیْ قَالَ لاٰ یَنَالُ عَھدِیْ الظَّالِمِیْنَ
”(اے رسول اس وقت کو یاد کرو) جب ابراہیم کو ان کے پروردگار نے چند باتوں میں آزمایا اور (جب) انھوں نے پورا کردیا تو خدا نے فرمایا کہ میں تم کو لوگوں کا پیشوا (امام) بنانے والا ہوں (جناب ابراہیم نے عرض کی اور میری اولاد میں سے بھی، فرمایا (ہاں مگر) میرا یہ عہدہ ظالمین تک نہیں پہنچ سکتا“۔
اس آیت کی تفسیر میں فخر رازی صاحب کہتے ہیں:
”یہ بات ثابت ہے کہ اس عہد سے مراد امامت ہے کیونکہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کوئی فاسق شخص امام نہیں ہوسکتا، تو بدرجہ اولیٰ رسول نہ فاسق ہوسکتا ہے او رنہ ہی گناہ اور معصیت کرسکتا ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی واضح ہے کہ ”عصمت“ کے معنی اور شرائط امامت، عجیب وغریب نہیں ہیں بلکہ یہ وہ معنی ہیں جس کے ذریعہ شرعی نصوص اورروحِ دین مکمل ہوتی ہے۔
چنانچہ ڈاکٹر احمد محمود صبحی مسئلہ ”عصمت“ پر شیعوں کے عقیدہ پر حاشیہ لگاتے ہوئے کہتے ہیں:
”تمام سیاسی فلاسفہ جس وقت کسی حکومت کی بڑی ریاست کی بات کرتے ہیں یا کسی دوسرے بڑے عہدے کے سلسلہ میں گفتگو کرتے ہیں تو اس کو شبہات واعتراضات سے بالاتر قراردیتے ہیں ، اسی طرح وہ سیاسی فلاسفہ جو ”ڈکٹیٹری“ (Dictatory) اور کسی حکومت میں حاکم کی سب سے بڑی ریاست کے قائل ہیں وہ اس کے لئے بھی عصمت کے قائل ہیں اگرچہ دوسرے صفات بھی اس میں ضروری مانتے ہیں۔
اسی طرح ”ڈیموکراسی“ (Democracy)کے فلاسفہ بھی اس کے شعبوں اور قواعد وقوانین میں عصمت کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ ”ان تمام ریاستوں کے لئے عصمت کا ہونا ضروری ہے تاکہ ان کا نظام قائم ہو اور ان کے ماتحت افراد ان کی تائید کریں“
”تمام سیاسی نظام میں باوجودِ اختلاف ایک ایسی ریاست کا وجود ہوتا ہے جس میں تمام احکام میں اسی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور کسی بھی فرد کوحاکم یا قانون گذار نہیں بنایا جاسکتا ہے جب تک کہ اس میں قداست اور عصمت نہ پائی جائے لہٰذا صرف شیعہ ہی عصمت کے قائل نہیں ہیں جس سے کسی شخص کو تعجب ہو، اگرچہ شیعہ حضرات نے ہی عصمت کے بارے میں بحث شروع کی ہے لیکن وہ اس نظریہ میں تنھا نہیں ہیں بلکہ دوسرے افراد بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں”۔(نظریۃ الامامہ ص ۱۳۵تا ۱۳۹)
قارئین کرام ! جیسا کہ مذکورہ باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیعوں نے اپنے احساسات یا ہمدردی کی بنا پر کسی معین شخص کا انتخاب نہیں کیا اور نہ ہی کسی سیاست سے کام لیا بلکہ انہوں نے نص وروایات سے وہ چیزیں حاصل کی ہیں جس میں حیات صحیح اور بناء سلیم کا ذریعہ پایا جاتا ہے اور وہ اس نظریہ کا دفاع کرتے ہیں جو ایمان، اسلام او راخلاص کی جان ہے اور اس سے ہدف اور شعورِ مصلحت تک پہنچا جاسکتا ہے۔
(یہ بات قابل توجہ ہے کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد انتخاب کے قائل تھے لیکن جناب ابوبکر نے اپنے بعد نص (جناب عمر کی خلافت کی وضاحت) کی توپھر انہوں نے بھی نص کے بارے میں کہنا شروع کردیا اور علت یہ بیان کی کہ عام حالت میں نص ہی کے ذریعہ اپنے بعد والے کو معین کرتے ہیں لیکن چونکہ اس وقت فتح کی جنگ تھی (یعنی مسلمان دوسرے شہروں کو فتح کرنا چاہتے تھے) اور سرکشی وبغاوت کرنے کا خوف تھا لہٰذا رسول اسلام نے کسی کی خلافت پر واضح بیان نہیں دیا)
چنانچہ جو لوگ نص کی ضرورت کا دعویٰ کرتے ہیں ان کی بات کی تائید درج ذیل نکات سے واضح ہوجاتی ہے:
۱۔نص کا ہونا ،اس انسانی شعور وفطرت کے مطابق ہے جو انسان کے وجود میں موجودہے جس کے ذریعہ وہ اپنے ماورائے غیب (خدا) کے محتاج ہونے کی ضرورت کا احساس کرتا ہے کیونکہ تمام امور میں اسی ذات کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔( یعنی اگر ہم امام کو منصوص من اللہ قرار دیں تو ہمارا ربط ہمیشہ خدا سے برقرار رہے گا)
پس امامت (منصوص من اللہ) ہی وہ ذریعہ ہے جو انسان کو ما ورائے غیب سے متصل کرتی ہے، کیونکہ امامت کے پاس وہ شعور و ادراک اور اطمنان ہوتا ہے جو انسان کو راہ ضلالت سے نکال کر راہ ہدایت پر گامزن کردیتا ہے۔
۲۔ نص ، اس علم نفس کے قاعدے سے بھی ہم آہنگ ہے جو انسان کے اندر قانون سے سرکشی اور طغیانیت کی روح کو جڑ سے ا کھاڑ پھینکتا ہے۔
کیونکہ جب امام خداوند وحدہ لاشریک کی طرف سے بلافصل معین ہوگا تو تمام لوگوں کے نزدیک موثق ، عادل، مخلص اور تمام رذائل و برائی سے پاک وپاکیزہ سمجھا جائے گا اور اس امام کے ذریعہ وہ اسباب جو انسان کے اندر سرکشی اور طغیانیت کے پائے جانے والے اسباب ختم ہوجائیں گے۔
۳۔ نص ، اس نظریہ سے بھی ہم آہنگ ہے جس کو علماء کرام دین کے لئے ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ اجتماعی زندگی میں روابط کے لئے بہت ضروری چیز ہے جس کی وجہ سے وحدت واتحاد اور استحکام پیدا ہوتا ہے۔لہٰذا امام منصوص ایک عظیم درجہ کانام ہے جو مبداء اعلی اور ایمان بلند درجوں پر فائز ہوتاہے۔
لیکن اہل تحقیق اس بات کو جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے وقت بھی خطرناک اور حسّاس حالات تھے اور چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان حالات پر مکمل طریقہ سے علم رکھتے تھے او راپنے بعد ہونے والے واقعات سے بھی باخبر تھے، چنانچہ اپنے بعد ہونے والے واقعات کی خبر بھی دی اور خداوندعالم نے بعض واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے:
اٴَفَاِنْ مَّاتَ اٴَوْ قُتِلَ اِنْقَلَبْتُمْ عَلٰی اٴَعْقَابِکُمْ
”اگر (محمد) اپنی موت سے مرجائیں یا مار ڈالے جائیں توتم الٹے پاوٴں (اپنے کفر کی طرف) پلٹ جاؤ گے“پس کیوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے بعد کے لئے نص اور وضاحت نہیں فرمائی اور کیوں دوسروں نے اس کام کو انجام دیا؟! (معاذ اللہ) کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوسروں سے کم درک وفہم رکھتے تھے او ر آپ میں ذمہ داری کا احساس وشعور کم تھا؟!!
چنانچہ یہ نظریہ نقصان دہ نہیں ہوتا (جبکہ قرآنی آیات او راحادیث نبوی کے ذریعہ اسلامی اصول ثابت کرنے کے بعد اور فطرت انسانی اور علمی دلائل نیز اجماع کے قیام کے بعد) کہ اس کو کوئی چھوڑنے والا چھوڑدے یا اس کو برے القاب سے یاد کرے یا اپنی مرضی سے اس پر کوئی بھی نام منطبق کرے۔
اسی طرح یہ بات بھی امامت کے لئے نقصان دہ نہیں ہے کہ اس پر ”ٹیوقراطی“ "Theocratic” کانام دیا جائے جیسا کہ بعض مولفین نے امامت پر یہ نام منطبق کیا ہے۔
کیونکہ اگر اس سے مراد ”دینی حکومت“ ہو تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے بلکہ صحیح معنی بھی یہی ہیں،اور اگر اس سے دین کے نام پر لوگوں پر حکومت کرنا مراد ہو تویہ قیاس ہے اور نظریہ امامت کے برخلاف ہے۔
اسی وجہ سے ڈاکٹر” مجید خدوری“ نے اس نظریہ کو ردّ کیا اور امامت پر یہ نام منطبق نہیں کیا کیونکہ یہ واقع پر صادق نہیں ہے بلکہ ایک دوسرا نام ”نوموقراطی“ر کھایعنی وہ حکومت جس میں قانون کی حکومت اور قانون کو فوقیت حاصل ہو، چنانچہ یہ وہ حقیقت ہے کہ جس میں شک کرنے والوں اور انکار کرنے والوں کے لئے شک اور انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔(نظریۃ الامامہ ص ۶۲)
اسی طرح امامت کو”ڈکٹیٹری“ "Dictaorship” کا نام دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ بعض مولفین نے ایسا کہا بھی ہے۔
کیونکہ ”ڈکٹیٹری“ میں خاص فرد یا خاص افراد کی حکومت ہوتی ہے گویا وہ حکومت کے مالک ہوتے ہیں اور قانون ان کے ہاتھوں میں ایک کھلونا ہوتا ہے اور یہ ”ڈکٹیٹری“ واقعاً اسلامی حکومت کے برخلاف ہے کیونکہ اسلامی حکومت میں تو صرف قانون کی حکومت ہوتی ہے اور اس میں قانون کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔
اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ قانون کی حکومت جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے زمانہ میں (چاہے وہ جنگ کا زمانہ ہو یا غیر جنگ کا) قانونی حکومت کو بروئے کار لائے ہیں چنانچہ حضرت علی علیہ السلام کی حکومت ”ڈکٹیٹری“سے بالکل مخالف تھی۔
اسی طریقہ سے امامت پر ”طبقاتی حکومت“ (خاص طبقہ کی حکومت) کا نام دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں نے اس نظریہ کو پیش کیا ہے۔
کیونکہ کسی خاص طبقہ کی حکومت کامطلب یہ ہے کہ وہ طبقہ تشریعات کو مسخر کرلے اور تمام نظام سے اپنے ذاتی مفاد کو حاصل کرتا رہے، چنانچہ اس طرح کی حکومت سے بھی اسلام کا کوئی سروکار نہیں ۔
کیونکہ قانون کی حکومت میں کسی کے لئے کوئی نرمی کا خانہ نہیں ہوتا (یہاں تک کہ خود امام کے لئے) یعنی امام کو بھی یہ حق نہیں ہوتا کہ وہ احکام میں تبدیلی کرے کہ امامت اور طبقہ کے تمام افراد کے درمیان قطع تعلق کرے۔
اسی طرح امامت کو ”غیرڈیموکریٹی“ کا نام دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ”ڈیموکریٹی“ میں اہمیت اور بنیاد کسی خاص شعبہ کی حکومت ہوتی ہے اورشعبہ کی حکومت کا مصدر بھی دین ہوتا ہے جو حکومت کی اصل اور بنیاد ہے۔
اور چونکہ خداوندعالم مالک الملک ہے جو چاہے کرے جو چاہے نہ کرے لہٰذا اس کے لئے یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ کائنات کے ہر نظام میں اس کا حکم اور اس کا فیصلہ آخری فیصلہ ہے، یعنی ہر حال میں اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔
اور چونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مالک الملک کے نمائندے ہیں اور اسی کی طرف سے بولتے ہیں اور اس کے امین ہیں لہٰذا ان پر امام کو منصوب اور معین کرنا ضروری ہے اور یہ کام خدا کی مرضی سے ہونا چاہئے، چنانچہ یہی بات سیاسی نظریہ سے بھی ہم آہنگ ہے کہ انتخاب میں مصدر حکومت سے مشورہ ہونا چاہئے۔
گذشتہ گفتگو کا خلاصہ :
۱۔ راہ اسلام کو جاری وساری رکھنے کے لئے امامت کا ہونا ضروری ہے۔
۲۔ امامت کا انتخاب بذات خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمپر ضروری ہے کیونکہ آپ کی ذات
لاینطق عن الھوی
کی مصداق ہے اور جب بات یہاں تک آگئی ہے اور واضح خلاصہ بھی آپ حضرات نے ملاحظہ فرمالیا تو بات آگے بڑھ کرایک جدید مرحلہ تک پہنچتی ہے اوروہ یہ کہ ہم اس امام کی تلاش کریں جس کے بارے میں نص او راعلان کیا گیا ہے نیز ان واضح نصوص کو بھی ملاحظہ کریں جن کے ذریعہ سے امام کی معرفت و شناخت ہوتی ہے۔
Source: https://makarem.ir/compilation/Reader.aspx?pid

 

 

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button