سلائیڈرمحافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا اور علم و دانش

آپ نے معلوم کرلیا ہوگا کہ پیغمبر اکرم ؐ کے نزدیک جس ہستی کی تمام انسانوں میں سب سے بڑھ کر عزت و منزلت تھی وہ ان کی دختر فرزانہ حضرت فاطمہ زہراء ؑ تھیں ۔جس قدرآپ اپنے بابا کے قریب تھیں اس قدر قربت کسی دوسرے کو حاصل نہ تھی ۔آپؑ پیغمبرؐ سے اس طرح مربوط تھیں جس طرح ایک جُز کُل کے ساتھ مربوط ہوتا ہے۔یا ایک جُز اپنے نظام اور سسٹم کے ساتھ رابطے میں ہوتا ہے۔یہ وہ دلیل ہے کہ جس کی بنیاد پر بیٹی اور عظیم باپ کے درمیان ،مہر و محبت ،ربط و رابطہ ،عشق وعلاقہ ،ہم آہنگی اس قدر بلندو برتر تھی کہ جس کی مثال نہیں ملتی اور یہ کوئی قابل ِ تعجب بات بھی نہیں ہے ،کیونکہ آپ کے استاد آسمانی استاد تھے ۔وہ وحی کے شاگرد تھے ،جو وحی ان پر ہوتی تھی وہ فورا اپنی دختر فرزانہ کو تعلیم فرما دیتے تھے۔اس طرح انہیں بہترین و شائستہ ترین علمی خزانہ مل جاتا تھا۔رسول اللہ ؐ اپنی بیٹی کو تہذیب انسانی و اسلامی کے خوبصورت ترین اصولوں کی اور آسمانی مفاہیم و معارف کی تعلیم دیتے تھے۔ جی ہاں سیدہ نساءالعالمین ؐ نے حکمت ودانش اور علوم ربانی اس چشمہ شریں سے نوش جان فرمائے تھے ،جو منبع وحی سے مربوط تھا ۔آپ نے اپنے وسیع و عریض اور بیدار قلب کو مختلف اقسام کی حکمتوں سے لبریز کیا۔اس معاملے میں آپ کے ملکوتی عقل اور وسیع ذکاوت نے بلندو بالا مفاہیم اور معارف آسمانی کے حصول میں بے پناہ معاونت کی۔آپ اپنے والد گرانقدر سے زیادہ سے زیادہ علوم حاصل کرتی تھیں اور انھیں اپنے قلب ِ مبارک میں جگہ دیتی تھیں ۔
جی ہاں ،حضرت فاطمہ زہرا ءؑ نے اپنے احکام ،ادعیہ ، اخلاق اور بے پناہ دانش و حکمت اور یہ تمام علوم اپنے والد مہربان سے سیکھے۔ اس بے پناہ حکمت و دانش اور علوم کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نےسیدہ بتول ؑ کو اپنے الہام کے ذریعے سے علم و معرفت بھی عطا کیے تھے۔
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے سنا ،آپؑ نے فرمایا:
"ان اللہ جعل علیاو زوجتہ و ابناءہ حجج اللہ علیٰ خلقہ ، وھم ابواب العلم فی امتی ،من اھدی بھم ھدی الی صراط مستقیم "
اللہ تعالیٰ نے حضرت علی ؑ اور ان کی زوجہ محترمہ اور ان کی فرزندوں کو اپنے بندوں پر حجتیں ٹھرایاہے۔آپ نے فرمایا:وہ میری امت میں علم و دانش کے دروازے ہیں۔جو شخص ان کے ذریعے سعادت وہدایت ونجات پانے کےلیے کوشاں ہوگا تو ضرور اللہ کی طرف سے اسے صراط مستقیم کی ہدایت ہوگی۔لیکن نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ علم و دانش کا بحر بیکراں تھیں ،لیکن ان سے احادیث بہت ہی کم لی گئی ہیں۔عنقریب اس امر کی وضاحت آپ کے سامنے آجائے گی۔اگر سیدہ نساءالعالمین کی زندگی لمبی ہوتی اور ایک طولانی عرصہ اس دنیا میں زندگی بسر کرتیں ، آپ ؑ کے پاس فرصت و آزادی بھی ہوتی ،ماحول بھی میسر ہوتا تو آپؑ اس دنیا کو علم و عرفان ،دانش و حکمت سے لبریز کردیتیں ۔یہ صرف دعویٰ ہی نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے جو لاریب ہے۔ساری زندگی دختر پیغمبر ؐکو اپنے علم ودانش کے اظہار کے دو مواقع میسر آئے ۔ایک دفعہ جب آپ ؑ مسجد نبوی میں پر شکوہ آتشیں اور تاریخ ساز خطبہ دیا تھا ، جو ہر زمانے اور ہر نسل کے لئے ایک تاریخی یادگار کی حیثیت رکھتا ہے۔آپ کو دوسرا وہ موقع ملا تھا جب آپ ؑ صاحب فراش تھیں ۔مدینہ کی خواتین آپ کے پاس عیادت کے لئے آئیں۔آپؑ نے ان لمحات سے فائدہ اٹھایا اور اس دوران انھیں علم و دانش کے کچھ ابواب سکھلائے تھے۔حضرت فاطمہ زہراءؑ کے بارے میں نہایت ہی تائسف وافسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آپ ملکوتی زندگی بہت ہی کم تھی ۔آپ نے حضرت فاطمہ زہراءؑ کی تاریخ ولادت پڑھی ہے ۔آپ کو بخوبی معلوم ہوجائے گاکہ حضرت فاطمہ زہراءؑ نے اپنی زندگی کے پورے بیس سال بھی نہیں گزارے تھے کہ امت اس سے پہلے اس دنیا سے رحلت فرماگیئں ۔ اگر فاطمہ زہرا ءؑ اس دنیا میں پچاس ساٹھ سال زندگی بسر کرتیں تو وہ امت اسلامیہ کو فکری اور علمی ثروت سے مالا مال کردیتیں اور سرمایہ علمی قیامت تک ہر نسل کے لئے کافی ہوتا لیکن کیا ہوا؟جو کچھ ہوا وہ آپ کے سامنے ہے!
سلسلہ احادیث
تفسیر امام حسن ؑ عسکری میں نقل ہے کہ ایک دفعہ صدیقہ طاہرہ حضرت زہراءؑ کی بارگاہ میں ایک عورت حاضر ہوئی ۔اس نے عرض کیا : میری والدہ اس وقت کمزور وضعفیہ ہیں۔انھیں نماز کے دوران فلاں امر میں اشتباہ ہوا ہے۔انہوں نےمجھے آپ کی بارگاہ میں بھیجا ہے کہ میں آپ سے یہ مسئلہ دریافت کروں ۔صدیقہ طاہرہؑ نے اس عورت کو مسئلہ بتایا اور وہ چلی گیئں۔پھر وہ دوسری مرتبہ آپؑ کے پاس وہی مسئلہ لے کر آئی۔آپؑ نے اسے جواب دیا اور وہ چلی گئی ،حتیٰ کہ وہ اس طرح دس مرتبہ آپؑ کے پاس آئی اور آپؑ نے ہر بار بغیر کسی تھکاوٹ اور الجھن کے اسے جواب دیا۔آخرکار وہ عورت اپنی اس آمدرفت اور ایجاد زحمت سے شرمندہ ہوئی اور اس نے آپؑ کی خدمت میں عرض کیا :اے رسول اللہ کی دختر میں آپ کے لئے زحمت و مشقت کا باعث بنی ہوں ۔مجھے معاف کردیجے۔آپؑ نے فرمایا : اے میری دوست تو دیکھ ایک شخص کو مزدوری کے لئے کہا گیا کہ وہ بھاری چیز چھت پر لے جائے اور اس کی اجرت ایک لاکھ دینار مقرر کی گئی ہے۔کیا یہ کام اس آدمی پر سنگین وبھاری ہوگا؟اس عورت نے جواب دیا نہیں۔آپ نے فرمایا :ہر مسئلہ میں میری جو اجرت مقرر رہے وہ تحت الثریٰ سے لے عرشِ اولیٰ تک موتیوں کو سے لبریز فضا ہے اب تیرا کیا خیال ہے ؟کیا تیرا مجھ سے باربار سوال کرنا مجھ پر بھاری ہوگا؟آپ نے اسے فرمایا:میں نے اپنے بابا رسولؐ اللہ سے سناہے کہ انھوں نے فرمایا:ہماری مکتب کے علماء ودانشور اس حال میں میدانِ محشر میں وارد ہوں گے تو ان کے علم ودانش اور اس راہ میں جدو جہد کے مطابق انھیں خُلعت ہائے کرامت پہنائی جائیں گی اور ان میں کچھ ایسے بھی ہوں گے کہ جنھوں نے اس دنیا میں علم کی حصول میں اور علم ودانش کی ترویج و تبلیغ میں بہت زیادہ زحمات اٹھائی ہوں گی تو انھیں ہزار ہزار نور کے حلّے پہنائے جائیں گے۔ میدان محشر میں خدا وند عالم کی طرف سے ندا بلند ہوگی ،کہ ہاں اے وہ صاحبان علم و دانش کہ تم نے یتیمان آل محمد ؐ کی علمی و دینی و فکری سر پرستی کی تھی۔ان کے حقیقی آبا ء کی آئمہ طاہرینؑ کی رحلت کے بعد تم نے بھر پور شائستگی کے ساتھ ان کی محافظت و مراقبت و کفالت کی تھی۔تم نے انھیں دابش و بینش سے لبریز اور شاداب کردیا تھا۔ جس قدر تم نے انھیں علوم سکھلائے اسی مقدار میں اسی طرح اب بھی انھیں جنت کی نورانی خلعتوں سے آراستہ و پیراستہ کرو۔اس وقت یہ علماء ان یتیموں اور اپنے شاگردوں کو ان کے حصول علم کے مطابق اور حسبِ مراتب خلعت پہنائیں گے ،یہاں تک کہ بعض یتیم لاکھ لاکھ خلعت پاجائیں گے۔اس طرح یہ یتیم اپنے شاگردوں کو خلعت تقسیم کریں گے۔بعد ازاں اللہ پھر حکم فرمائے گا کہ ان یتیموں کی کفالت کرنے والے علماء کو پھر خلعت دیجئے پھر انھیں وہ خلعت ملیں گے ،یہاں تک کہ انھیں دگنا کردیا جائے گا اور ان شاگردوں میں تقسیم سے قبل جس قدر خلعت ان کے پاس ہوں گے اسی قدر انھیں دگنا کردیا جائے گا ۔ اس طرح حسب مراتب ان کے خلعت یافتہ شاگردوں کا حال ہوگا۔پھر حضر ت فاطمہ زہراءؑ نے اس عورت سے فرمایا: اے کنیز خدا ان بہشتی خلعتوں کا ایک دھاگہ ان تمام اشیاء جن پر آفتاب چمکتا ہے لاکھ مرتبہ افضل اور اعلیٰ ہے(بحار الانوار :ج2،ص3 ریاحین الشرعیہ :ج 2ص 130)
سیدہ نساءالعالمین کے لئے معنوی ہدیہ:
کتاب ”دعوت راوندی“میں سوید بن غفلہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ امیر عدالت حضرت امام علیؑ کو مالی مشکل پیش آئی ۔حضرت فاطمہ زہراءؑ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے اپنے والد گرامی رسول اکرم ؐ کے خانہ اقدس کے دروازے پر آئیں تو پیغمبر اکرم ؐ نے کسی کو آواز دی کہ شاید دروازے پر میری بیٹی آئی ہیں۔ اٹھیےاور دیکھے اور انھیں میرے پاس لے آیئے۔جناب ام ایمن نے دروازہ کھولا ۔حضرت فاطمہ زہراءؑ اندر داخل ہوئیں ۔پیغمبر خدا کو سلام کیا اور پیغمبر اکرم ؐ نے فرمایا: اے میری فاطمہ جان :اس وقت آنے کا کیا مقصد ؟ اس سے قبل آپؑ کبھی اس وقت میرے پاس حاضر نہیں ہویئں۔کیا بات ہے؟
حضرت فاطمہ زہراءؑ نے عرض کیا : بابا جان فرشتوں کی غذا کیا ہے؟
پیغمبر اکرم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور اس کا شکر۔آپؑ نے پوچھا : انسانوں کی غذا کیا ہے؟
پیغمبر اکرم نے فرمایا :مجھے اس خدا کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے،ایک ماہ ہوگیا ہے میرے گھر میں کھانا پکانے کے لئے آگ روشن نہیں کی گئی ۔اے فاطمہؑ جان فرشتہ وحی ہمارے لئے روحانی ومعنوی رزق و روزی لے آیا ہے۔میں اسی میں سے آپ کو ہدیہ کرنا چاہتا ہوں ،لے لیجیے۔حضرت فاطمہ زہراءؑ نے بھر پور شوق و ذوق سے عرض کیا : وہ معنوی ہدیہ کیا ہے؟پیغمبر اکرم نے شروع کیا:"یا رب الاولین والآخرین و یا رخٰیر الاولین و الآخرین ویا ذا لقوۃ المتین یا راحم المساکین ویا ارحم الرّاحمین”۔
سیدہ نسالعالمین نے اس معنوی ارمغان کو سنا اور اسے حفظ کرکے واپس امیر المومنین حضرت علی ؑ کے پاس آئیں ۔حضرت امیرالمومنین ان کے انتظار میں تھے ۔جب آپ کی نگاہ ان پر پڑی تو پوچھا :میرے ماں باپ آپؑ پر قربان جائیں ، کیا خبر ہے؟حضرت فاطمہ زہراءؑ نے عرض کیا :میں دنیا کےلئے گئی تھی آخرت کا معنوی اور اخلاق توشہ لے کر واپس آئی ہوں۔امام علیؑ نے فرمایا:خوشیاں آپؑ کا استقبال کریں ،خوشیاں آپؑ کا استقبال کریں۔جو کچھ آپ لے آئیں ہیں وہ ہی بہتر ہے۔
تین جاودانہ درس
اصول کافی میں حضرت امام جعفر صادق ؑ سے منقول ہے کہ ایک دفعہ حضرت فاطمہ زہراءؑ بارگاہ پیغمبر میں حاضر ہوئیں اور آپ کے حضور زندگی کے نشیب و فراز کی شکایت کی ۔رسول اللہ نے کھجور کی چھڑی کی موٹی جڑ اٹھائی اور اسے اپنی دختر فرزانہ کے حوالے کیا اور فرمایا؛اس پر جو کلمات لکھے ہوئے ہیں انھیں دقت کے ساتھ پڑھیئے اور انھیں دل میں جگہ دیجئے ۔اس فرزانہ کا قلب مبارک معنویت و روحانیت کے ہاتھوں گروی تھا۔آپ نے اس تحریر کو دیکھا اور وہ تحریر یہ تھی:
” من کان یؤمن باللہ و الیوم الآخر فلما یؤذ جارہ من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ ومن کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیقل خٰیرا او یکثر”
”جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہےوہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہیں دیتا ۔جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئیےکہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے ۔اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اگر بات کرے تو عدالت کی اساس پر کرے ،ورنہ خاموش رہے“۔
سر فرازی اور نجات کا راز
حضرت فاطمہ زہراءؑ نے فرمایا:
"من اصعد الی اللہ خالص عبادتہ ،اھبط اللہ الیہ افضل مصلحتہ”
جو بارگاہ خداوندی میں خالص عبادات بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی طرف بہترین سے بہترین مصلحت بھیجتا ہے“۔
دو بھاری امانتیں
حضرت فاطمہ زہراءؑ سے مروی ہے کہ جب میرے والد گرامی صاحب فراش تھے اور اسی مرض میں ان کی رحلت ہوئی تھی ۔میں نے اپنے کانوں سے سنا کہ آپؑ اپنے صحابہ سے فرمایا تھے ۔اس وقت ان کا حجر ہ صحابہ کرام سے بھرا ہوا تھا:
"الا انی مختلف فیکم کتاب ربی و عترتی اھل بیتی اخذ بید علی فقال ھذا علی مع القرآن و القرآن مع علی لا یفترقان حتیٰ یرد ا علی الحوض فاسلکم ما تخلفونی فیھا…”
”اے لوگو آگاہ رہو میں اپنی رحلت کو بہت قریب دیکھ رہا ہوں ۔ جو ضروری با تیں ہیں وہ میں تمھیں بتا رہا ہوں۔ہوش سے کام لیجیے میں تم دوگراں قدر چیز یں چھوڑے جا رہا ہوں :ایک اپنے رب کی کتاب قرآن مجید ہے اور دوسری میری عترت میرے اہل بیتؑ ہیں “۔اس وقت آپؐ نے امام علیؑ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : یہ علی ؑ ہیں جو قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن ان کے ساتھ ہے۔یہ دونوں کبھی جدا نہیں ہوں گے حتیٰ کہ میرے پاس حوض کوثر پر پہنچیں گے ،اس وقت میں تم سے پوچھوں گا کہ میری رحلت کے بعد میری ان دو امانتوں کے ساتھ تم نے کیا سلوک کیا تھا؟“علامہ قندوزی حنفی نے بیان کیا ہے کہ اس حدیث کو تیس صحابہ کرام نے روایت کیا ہے۔ان میں سے اکثر صحیح اور حسن ہیں (ینابع المورد القندوزی حںفی ،ص ۴۰)
کتاب ” فاطمۃ من المھد الی اللھد” اردو ترجمہ : :فاطمہ س طلوع سے غروب تک” سے اقتباس
مؤلف: آیت اللہ کاظم قزوینی ؒ

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button